تحریر: گابرئیل گارسیا مارکیز (کولمبیا)
مترجم: خالد فرہاد دھاریوال (سیالکوٹ، پاکستان)
پھر اس نے میری طرف دیکھا۔ مجھے لگا وہ مجھے پہلی بار دیکھ رہی تھی۔ مگر پھر، جب وہ لیمپ کے پیچھے گھومی اور مجھے اس کی پھسلن بھری چکنی نظر کندھے پر سے ہوکر پیٹھ پر محسوس ہوتی رہی، تب میں سمجھ گیا کہ میں اسے پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ میں نے سگریٹ سلگائی۔ میں نے کرسی کو گھما کر پچھلے پایوں پر متوازن کرنے سے پہلے کسیلے اور تیکھے دھوئیں کا کش لیا۔ اس کے بعد میں نے اسے وہاں دیکھا، جیسے وہ ہر رات لیمپ کے پاس کھڑی ہوئی مجھے دیکھتی تھی۔ کچھ منٹوں تک ہم صرف یہی کیا کرتے تھے : ایک دوسرے کو دیکھنا۔ میں نے پچھلے ایک پائے پر متوازن کرسی سے اسے دیکھا۔ وہ لیمپ پر اپنا لمبا اور ساکت ہاتھ رکھے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کی پلکوں کو ہر رات چمکتے ہوئے دیکھا۔ جب میں نے اسے‘ نیلے کتے کی آنکھیں’ کہا، تو مجھے بہت عام بات یاد آئی : لیمپ سے ہاتھ ہٹائے بنا اس نے مجھ سے کہا ،‘‘ اس بات کو ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔’’ وہ آہیں بھرتے ہوئے دائرے سے باہر چلی گئی ۔‘‘نیلے کتے کی آنکھیں: میں نے یہ ہر جگہ لکھ دیا ہے۔’’
میں نے اسے سنگھار میز کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اسے روشنی کے دائرے سے پرے، اب میری طرف دیکھتے ہوئے آئینے کے گول شیشے میں ظاہر ہوتے ہوئے دیکھا۔ میں نے اسے مجھ کو تپتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے پایا : جب اس نے گلابی رنگ کے سیپ سے ڈھکے چھوٹے سے بکسے کو کھولا تو وہ مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اسے ناک پر غازہ لگاتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بعد وہ بکسے کو بند کرکے کھڑی ہوئی اور ایک بار پھر یہ کہتے ہوئے لیمپ کے پاس گئی ،‘‘ مجھے لگتا ہے کوئی اس کمرے کے بارے میں خواب دیکھ رہا ہے اور میرے بھید کھول رہا ہے۔’’ اس نے کپکپا رہےاپنے لمبے ہاتھ کو لو پر رکھا ہوا تھا جسے وہ آئنے کے سامنے بیٹھنے سے پہلے سینکتی رہی تھی۔ اور اس نے کہا ،‘‘ آپ سردی محسوس نہیں کرتے ۔’’ اور میں نے اس سے کہا ،‘‘ بعض اوقات۔’’ اور اس نے مجھ سے کہا،‘‘ تم اسے اب محسوس کرو۔’’ اور تب میں سمجھا کہ میں نشست پر اکیلا کیوں نہیں ہو سکتا تھا۔ ٹھنڈ مجھے میرے اکیلے پن کا ایقان دے رہا تھا۔ ‘‘اب میں اسے محسوس کر رہا ہوں،’’ میں نے کہا۔ ‘‘یہ حیرانی کی بات ہے کیونکہ رات خاموش ہے۔ شاید چادر گر گئی ہے۔’’ اس نے جواب نہیں دیا۔ وہ پھر سے آئنے کی طرف بڑھنے لگی اور میں اپنی پشت اس کی طرف کئے ہوئے پھر سے کرسی میں گھوما۔ اسے دیکھے بنا، میں جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہی تھی۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ پھر سے آئینے کے سامنے بیٹھی ہوئی میری پُشت کی طرف دیکھ رہی تھی جس کے پاس آئینے کی گہرائی تک پہنچ کر اس کی نظروں میں آنے کا کافی وقت تھا اور اس کے پاس بھی گہرائی تک پہنچنے اور واپس آنے کا بھرپور وقت تھا- اس سے پہلے کہ ہاتھ کے پاس دوبارہ گھومنا شروع کرنے کا موقع ہوتا – جب تک کہ اس کے ہونٹ آئینے کے سامنے پہلی بار ہاتھ گھمانے سے گاڑھے لال نہیں رنگ گئے تھے۔ میں نے اپنے سامنے ہموار دیوار کو دیکھا جو اندھے آئینے کی طرح تھی جس میں اسےمیں اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا – لیکن تصورکر سکتا تھا کہ وہ کہاں ہوگی جیسے کسی آئینے کو دیوار میں کسی جگہ پر لٹکا دیا گیا ہو۔ ‘‘میں تمہیں دیکھ رہا ہوں،’’ میں نے اس سے کہا۔ اور میں نے دیوار پر دیکھا تو ایسا لگا جیسے اس نے اپنی نظروں کو اٹھایا ہو اور اس نے مجھے کرسی میں اپنی پشت اس کی طرف کئے ہوئے اور آئینے کی گہرائی میں میرا چہرہ دیوار کی طرف مُڑا ہوا دیکھا ہو۔ میں نے اسے نگاہیں ، جو ہمیشہ اس کے سینے پر ٹکی ہوتیں، پھر سے جھکاتے ہوئے دیکھا، خاموش ۔ اور میں نے اسے پھر سے کہا،‘‘ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں۔’’ اور اس نے پھر سے چولی سے اپنی نظریں اٹھائیں۔ ‘‘یہ ناممکن ہے،’’ اس نے کہا۔ میں نے اس سے پوچھا ،‘‘کیوں؟’’ اور اس نے پھر سے خاموش نگاہیں چولی پر ڈالتے ہوئے کہا، ‘‘کیونکہ تمہارا چہرہ دیوار کی طرف مُڑا ہوا ہے۔’’ پھر میں نے کرسی کو چاروں طرف گھما دیا۔ میرے منہ میں سگریٹ دبی ہوئی تھی۔ جب میں آئینے کے سامنے تھا، اس کی پیٹھ لیمپ کی طرف تھی۔ اب اس نے ہتھیلیوں کو مرغی کے پروں کی طرح لو پر پھیلایا ہوا تھا اور چہرے کو انگلیوں میں چھپا کر آگ سینک رہی تھی۔ ‘‘ لگتا ہے مجھے ٹھنڈ لگنے والی ہے،’’ اس نے کہا۔ ‘‘یہ برف کا شہر ہے۔’’ اس نے اپنے چہرے کو ایک طرف کیا اور اس کی جِلد تانبئی سے لال رنگ کی ہو گئی تھی۔ وہ اچانک اداس ہو گئی۔ ‘‘اس کا کچھ کرو،’’ اس نے کہا۔ اور وہ اوپر چولی سے شروعات کرتے ہوئے ایک ایک کرکے کپڑے اتارنے لگی۔ میں نے اس سے کہا، ‘‘ میں دوسری طرف منہ پھیر لیتا ہوں۔’’ اس نے کہا ،‘‘ نہیں، ویسے بھی تم مجھے اسی طرح سے دیکھ لوگے جیسے پیٹھ موڑے ہوئے دیکھا تھا۔’’ اور جیسے ہی اس نے یہ کہا، وہ لگ بھگ پوری طرح بے لباس ہو چکی تھی، روشنی اس کی تانبئی جِلد کو چھو رہی تھی۔ ‘‘ میں تمہیں ہمیشہ ایسے ہی پیٹ پر چھوٹے چھوٹے گڑھوں کے ساتھ دیکھنا چاہتا تھا، جیسے تمہیں پیٹا گیا ہو۔’’ اور اس سے پیشتر کہ مجھے احساس ہو کہ اس کے ننگا ہونے سے میرے الفاظ بے ادب ہو گئے تھے، اس نے خود کو لیمپ کے ارد گرد سینکتے ہوئے کہا، ‘‘کبھی کبھی مجھے لگتا ہے میں دھاتوں سے بنی ہوئی ہوں۔’’ وہ ایک لمحے کے لئے چُپ تھی۔لو پر اس کے ہاتھ تھوڑا ہلے۔ میں نے کہا، ‘‘کبھی کبھی میں نے خوابوں میں سوچا کہ تم کسی میوزیم کے کونے میں رکھا چھوٹا سا کانسی کا مجسمہ ہو۔ شاید تم اسی لئے ٹھنڈی ہو۔’’اور اس نے کہا، ‘‘ میں کبھی کبھی دل کے بل بائیں کروٹ سوتی ہوں، تب مجھے لگتا ہے کہ میرا وجود کھوکھلا ہو رہا ہے اور میری جِلد تھالی کی طرح ہے۔ اور جب میرے اندر خون دھڑک رہا ہوتا ہے مجھے لگتا ہے کہ کوئی میرے پیٹ پر دستک دے کر بلا رہا ہے اور میں بستر میں اپنے تانبے کی کھنک محسوس کر سکتی ہوں- آپ کیا کہتے ہیں پرت دار دھات۔’’ وہ لیمپ کے قریب چلی گئی۔ ‘‘ میں تمہیں بولتے ہوئے سننا چاہتا ہوں،’’ میں نے کہا۔ اور اس نے کہا ،‘‘ ہم کبھی ایک دوسرے سے ملیں تو جب میں بائیں کروٹ سوئی ہوں، اپنا کان میری پسلیوں کے پاس لے جاؤ گے تو آپ میری بات کی بازگشت سُنو گے۔ میں ہمیشہ چاہتی تھی کہ تم ایسا کرو۔’’ میں نے اسے بات کرتے ہوئے بھاری سانس لیتے ہوئے سنا۔ اور اس نے کہا کہ اس نے برسوں سے کچھ بھی مختلف نہیں کیا تھا۔ اس کی زندگی ‘نیلے کتے کی آنکھیں ’ جملے کا استعمال کرتے ہوئے مجھے حقیقت میں کھوجنے کے لئے وقف تھی اور جو بھی اسے سمجھ سکتا تھا، وہ اسے بتاتی ہوئی اس جملے کو با آواز بلند دہراتی ہوئی سڑکوں پر چلتی رہی۔
‘‘ میں ہی ہر رات تمہارے خوابوں میں آتی ہوں اور تمہیں بتاتی ہوں : ‘ نیلے کتے کی آنکھیں’ ’’ اور اس نے کہا کہ وہ ریستوران میں گئی اور کھانے کا آرڈر دینے سے پہلے بیرے سے کہا ،‘نیلے کتے کی آنکھیں۔’ لیکن بیروں نے یہ یاد کئے بنا، احترام سے سر جھکا لئے کہ ان کے خوابوں میں کیا کہا گیا تھا۔ پھر وہ نیپکن پر لکھا کرتی تھی اور چاقو سے میز کے روغن پر کریدا کرتی تھی: ‘نیلے کتے کی آنکھیں۔’ اور ہوٹلوں کی کہر آلود کھڑکیوں، اسٹیشنوں،سبھی عوامی جگہوں پر اپنی انگلی سے لکھا کرتی تھی : ‘نیلے کتے کی آنکھیں۔’ اس نے بتایا کہ وہ ایک بار دوا خانے میں گئی تو اسی مہک کو محسوس کیا جو ایک رات میرے بارے میں خواب دیکھتے میرے کمرے سے آئی تھی۔ ‘‘وہ آس پاس ہوگا،’’ اس نے دوا خانے کی صاف، نئی ٹائلوں کو دیکھ کر سوچا۔ پھر وہ کائونٹر کلرک کے پاس گئی اور اس سے کہا،‘‘میں ہمیشہ ایک آدمی کے بارے میں خواب دیکھتی ہوں جو مجھ سے کہتا ہے، ‘نیلے کتے کی آنکھیں’ اور اس نے کہا کہ کلرک نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا، ‘‘محترمہ، دراصل آپ کی آنکھیں ویسی ہیں۔’’ اور میں نے اس سے کہا،‘‘ مجھے اس آدمی کی تلاش ہے جس نے میرے خوابوں میں یہ الفاظ کہے تھے۔’’ اور کلرک ہنسنے لگا اور کاؤنٹر کے دوسرے کونے پر چلا گیا۔ وہ صاف ٹائلوں کو دیکھتی رہی اور مہک کو سونگھتی رہی۔ اور اس نے اپنا پرس کھولا اور اپنی لپ سٹک سے ٹائلوں پر سرخ رنگ میں لکھ دیا: ‘نیلے کتے کی آنکھیں۔’ کلرک اپنی جگہ پر واپس آیا۔ اور اس نے اسے بتایا،‘‘ محترمہ !آپ نے فرش گندہ کر دیا ہے ۔’’اس نے اسے گیلا کپڑا دے کر کہا، ‘‘اسے صاف کرو۔’’ لیمپ کے پاس کھڑی ہوئی نے بتایا کہ اس نے ساری دوپہر ہاتھوں اور پائوں کے بل ٹائلیں دھونے میں اور یہ کہتے ہوئے بتا دی : ‘نیلے کتے کی آنکھیں،’ جب تک کہ لوگوں نے دروازے پر اکٹھے ہوکر یہ نہیں کہا کہ وہ پاگل ہے۔
اب، جب اس نے بولنا بند کر دیا تھا، میں کونے میں بیٹھ کر کرسی کو جھلاتا رہا۔ ‘‘ ہر دن میں نے اس جُملے کو یاد کرنے کی کوشش کی جس سے میں آپ کو ڈھونڈ سکوں،’’ میں نے کہا۔ ‘‘ اب مجھے نہیں لگتا ہے میں کل اسے بھول جاؤں گا۔ پھر بھی، میں نے ہمیشہ یہی بات کہی ہے اور جب میں جاگتا ہوں تو میں ہمیشہ ان لفظوں کو بھول جاتا ہوں جن سے کہ میں تمہیں تلاش کر سکتا ہوں۔’’ اور اس نے کہا، ‘‘ تم نے پہلے دن انہیں اختراع کیا تھا۔’’ اور میں نے اس سے کہا ،‘‘ میں نے انہیں اس لئے اختراع کیا کیونکہ میں نے تمہاری راکھ جیسی آنکھوں کو دیکھا تھا۔ لیکن مجھے اگلی صبح کبھی یاد نہیں رہتا۔’’ اور اس نے لیمپ کے پاس کھڑے ہوکر مٹھی بھینچتے ہوئے گہری سانس لی،‘‘ کم سے کم یہ تو یاد کر سکتے ہو کہ میں کس شہر سے اسے لکھ رہی ہوں۔’’
اس کے بھینچے ہوئے دانت لو پر چمک رہے تھے۔ ‘‘ میں اب تمہیں چھونا چاہتا ہوں۔’’ میں نے کہا۔ اس نے اپنا چہرہ اٹھایا لگا جو اس کے ہاتھوں کی طرح جلا اور بھنّا ہوا بھی لگ رہا تھا اور مجھے لگا اس نے مجھے کونے میں کرسی جھلاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ ‘‘ تم نے مجھے وہ بات کبھی نہیں بتائی۔’’اس نے کہا۔‘‘ میں اب تمہیں بتا رہا ہوں اور یہ سچ ہے۔’’ میں نے کہا۔ اس نے لیمپ کی دوسری طرف سے ایک سگریٹ مانگی۔ سگریٹ میری انگلیوں کے بیچ غائب ہو گئی تھی۔ میں بھول گیا تھا کہ میں سگریٹ پی رہا تھا۔ اس نے کہا ،‘‘ مجھے نہیں پتہ کہ میں یاد کیوں نہیں کر پا رہی ہوں کہ میں نے اسے کہاں لکھا تھا۔’’ اور میں نے اس سے کہا ،‘‘ یہی وجہ ہے کہ کل میں لفظوں کو یاد نہیں رکھ پاؤں گا۔’’ اور اس نے اداسی سے کہا،‘‘ نہیں، بات یہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ کبھی کبھی میں نے بھی وہ خواب دیکھا ہے۔’’ میں اٹھ کھڑا ہوا اور لیمپ کی طرف چلا گیا۔ وہ کچھ دُوری پرتھی، اور میں ہاتھ میں سگریٹ اور ماچس لئے ہوئے گیا اور لیمپ سے آگے نہیں پہنچا۔ میں نے اس کی طرف سگریٹ بڑھائی۔ اس نے اسے ہونٹوں میں دبا لیا اور اس سے پہلے کہ میں ماچس جلاتا وہ لو پر جھک گئی۔ ‘‘دنیا میں کسی شہر میں، سبھی دیواروں پر، ان لفظوں کو لکھا جانا چاہئے : ‘نیلے کتے کی آنکھیں’ میں نے کہا۔ ‘‘ اگر مجھے کل وہ لفظ یاد رہے تو میں تمہیں تلاش کر سکتا ہوں۔’’ اس نے اپنے سر کو پھر سے اٹھایا اور اب اس کے ہونٹوں کے بیچ جلتا ہوا کوئلہ تھا۔ ‘نیلے کتے کی آنکھیں،’ اس نے آہ بھری اور ٹھوڑی پر جھکی ہوئی سگریٹ اور ایک آنکھ آدھی بند کئے ہوئے اسے یاد آیا۔ تب اس نے اپنی انگلیوں کے درمیان کسی ہوئی سگریٹ کے دھوئیں کا کش لگاکر حیرانی جتائی،‘‘ اب کچھ اور معاملہ ہے۔ مجھے گرمی لگ رہی ہے۔’’ اور اس نے یہ اپنی کپکپاتی ہوئی سرد آواز میں کہا، جیسے اس نے حقیقت میں ایسا نہ کہا ہو بلکہ کاغذ کے چھوٹے سے ٹکڑے پر لکھ دیا ہو، اور وہ کاغذ کو لو کے قریب لے کر آئی تھی جبکہ میں نے پڑھا ہو، ‘‘ مجھے گرمی لگ رہی ہے۔’’ اور اس نے انگوٹھے اور انگلی کےدرمیان کاغذ کو پکڑے ہوئے بات جاری رکھی ، کاغذ کو جیسے لیمپ کے گرد گھماتے ہوئے برباد کیا جا رہا تھا اور میں نے صرف پڑھا تھا :‘‘ـ ـ ـ گرمی۔’’ کاغذ مکمل طور پر بھسم ہو گیا تھا اور بھربھرا ہو کر فرش پر گر گیا اور چھوٹا ہوکر ہلکی سی ایش ٹرے میں بدل گیا ہو۔ ‘‘ یہ بہتر ہے،’’ میں نے کہا۔ ‘‘کبھی کبھی تمہیں اس طرح دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے۔ لیمپ کے پاس کانپتے ہوئے۔’’
ہم گذشتہ کئی سالوں سے ایک دوسرے سے ملتے رہے تھے۔ کبھی کبھی جب ہم ایک ساتھ ہوتے تھے، تو باہر کوئی چمچ گرا دیتا تھا اور ہم جاگ جاتے تھے۔ دھیرے دھیرے سمجھ میں آ گیا تھا کہ ہماری دوستی حالات اور عام واقعات کے تابع تھی۔ ہماری ملاقاتیں ہمیشہ صبح چمچ کے گرنے کے ساتھ ایک ہی طرح سے ختم ہوا کرتی تھی۔
اب وہ لیمپ کے پاس بیٹھی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی۔ مجھے یاد آیا کہ اس نے مجھے پہلے بھی، بہت پہلے خواب میں اس طرح سے دیکھا تھا جب میں نے کرسی کو پچھلے پایوں پر گھمایا تھا اور راکھ جیسی آنکھوں والی عورت کے سامنے بیٹھا رہا تھا۔ میں نے اس خواب میں اس سے پہلی بار پوچھا تھا،‘‘ تم کون ہو؟’’ اور اس نے مجھ سے کہا تھا، ‘‘مجھے یاد نہیں ہے۔’’ میں نے اس سے کہا ،‘‘ لیکن مجھے لگتا ہے ہم نے ایک دوسرے کو پہلےبھی دیکھا ہے۔’’ اور اس نے بے پرائی سے کہا،‘‘ مجھے لگتا ہے کہ میں نے تمہارے بارے میں اسی کمرے میں ایک بار خواب دیکھا تھا۔’’ اور میں نے اس سے کہا،‘‘ یہی بات ہے۔ اب مجھے یاد آنے لگا ہے۔’’اور اس نے کہا، ‘‘کتنی عجیب بات ہے۔ ہم ضرور دیگر خوابوں میں بھی ملے ہیں۔’’
اس نے سگریٹ کے دو کش لگائے۔ میں ابھی بھی لیمپ کے سامنے کھڑا ہوا تھا کہ اچانک میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ میں نے اسے سر سے پائوں تک دیکھا اور وہ ابھی بھی تانبہ تھی؛ اب وہ سخت اور ٹھنڈی دھات نہیں، بلکہ سنہری، نرم اور ملائم تانبہ تھی۔ ‘‘میں تمہیں چھونا چاہتا ہوں۔’’ میں نے پھر سے کہا۔ اور اس نے کہا، ‘‘ تم سب کچھ برباد کر دو گے۔’’ میں نے کہا، ‘‘اب اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ہے۔ ہمیں بس یہ کرنا ہے کہ اگلی بار ملنے سے پہلے تکیے کو پلٹ دیں۔’’ اور میں نے لیمپ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اس نے جنبش نہیں کی۔ ‘‘ تم سب کچھ برباد کر دو گے،’’ میں اسے چھو پاتا اس سے پہلے اس نے پھر کہا۔‘‘ ہو سکتا ہے تم لیمپ کے پیچھے سے آؤ گے تو میں پتہ نہیں دنیا کے کس حصے میں ڈر کر جاگ جاؤں۔’’ لیکن میں نے زور دے کر کہا، ‘‘اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔’’ اور اس نے کہا، ‘‘اگر ہم تکیے کو پلٹ دیں گے، تو ہم پھر سے مل پائیں گے۔ لیکن جب تم اٹھو گے تو تم بھول چکے ہوگے۔’’ میں کونے کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ لو پر ہاتھ سینکتی ہوئی پیچھے رہ گئی۔ اور میں اب بھی کرسی کی بغل میں نہیں تھا جب میں نے اسے اپنے پیچھے سے یہ کہتے ہوئے سنا، ‘‘جب میں آدھی رات کو جاگ جاتی ہوں، میں بستر میں کروٹیں بدلتی رہتی ہوں، تکیے کی جھالر میرے گھٹنے کو جلاتی رہتی ہے، اور صبح ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے : ‘نیلے کتے کی آنکھیں۔’
تب میں نے منہ دیوار کی طرف کیے رکھا۔ ‘‘پو پھٹ گئی ہے، ’’ میں نے اسے بنا دیکھے کہا۔ ’’ جب دو کا گھنٹہ بجا تو میں جاگ گیا تھا اور وہ بہت پہلے تھا۔’’ میں دروازے کے پاس گیا۔ جب میرے ہاتھ میں دروازے کی دستی تھی، میں نے اس کی وہی، ٹھہری ہوئی آواز پھر سے سنی،‘‘دروازہ مت کھولو،’’ اس نے کہا۔ ‘‘دالان الجھے ہوئے خوابوں سے بھرا ہوا ہے۔’’ اور میں نے اس سے پوچھا، ‘‘تمہیں کیسے پتہ ہے؟’’ اور اس نے مجھ سے کہا، ‘‘ کیونکہ میں ایک لمحہ پہلے وہاں تھی اور جب مجھے پتہ چلا کہ میں بائیں کروٹ سو رہی تھی تو مجھے واپس آنا پڑا۔’’ میں نے دروازے کو آدھا کھولا۔ میں نے اسے تھوڑا سا ہلایا اور ٹھنڈی، ہلکی سی ہوا میرے پاس سرسبز زمین، مرطوب کھیتوں کی تازہ خوشبو لے کر آئی۔ وہ دوبارہ گویا ہوئی ۔ میں نے دستی کو گھماتے ہوئے قبضوں پر ٹکے دروازے کو ہلا کر اس سے کہا ،‘‘مجھے نہیں لگتا کہ وہاں دالان ہے۔ مجھے گائوں کی مہک آ رہی ہے۔’’اور اس نے کچھ دُوری سے کہا،‘‘میں اسے تم سے بہتر جانتی ہوں۔ بات یہ ہے کہ ایک عورت گائوں کے بارے میں خواب دیکھ رہی ہے۔’’ اس نے اپنے بازوئوں کو لو پر گھمایا۔ وہ بولتی رہی، ‘‘وہ ایسی عورت ہے جو ہمیشہ دیہات میں بسیرا چاہتی تھی اور کبھی بھی شہر کو چھوڑ نہیں پائی تھی۔’’ مجھے وہ عورت پچھلے کچھ خوابوں میں دیکھی ہوئی یاد آئی، مگر اب ادھ کھلے دروازے کے ساتھ میں جانتا تھا کہ مجھے آدھے گھنٹے کے اندر ناشتے کے لئے نیچے جانا ہوگا۔ اور میں نے کہا، ‘‘ بہرحال، مجھے جاگنے کے لئے وداع لینی ہوگی۔’’
باہر ہوا پل بھر کے لئے چلی، پھر رُک گئی، اور ایسے آدمی کے سانس لینے کی آواز سنائی دے رہی تھی جس نے بستر میں ابھی کروٹ لی تھی۔ کھیتوں سے ہوا آنا بند ہو گئی تھی۔ اب مہک نہیں آ رہی تھی۔ ‘‘ کل میں تمہیں اس سے پہچان لوں گا،’’ میں نے کہا۔ ‘‘ سڑک پر میں تمہیں تب پہچان لوں گا جب کوئی عورت دیواروں پر لکھ رہی ہوگی ‘نیلے کتے کی آنکھیں۔’’ اور اس نے نارسائی، غیر ممکن کوتسلیم کرنے والی اداس مسکان کے ساتھ کہا، ‘‘ تو بھی تمہیں صبح کچھ بھی یاد نہیں رہے گا۔’’ اور اس نے اپنے ہاتھ پھر سے لیمپ پر رکھ دیئے، اس کا وجود کسیلے بادل سی سیاہ ہو گئی۔ ‘‘ تم اکیلے آدمی ہو جسے جاگنے کے بعد جو خواب دیکھا اس کا کچھ بھی یاد نہیں ہے۔’’
اس کا وجود کسیلے بادل سی سیاہ ہو گئی۔
English Title: Eyes of a Blue Dog
Written by:
Gabriel García Márquez (6 March 1927 – 17 April 2014)
– Columbian Spanish language writer, novelist, short-story writer, screenwriter and journalist.
– Nobel Prize winner (1982)