سماج کے ارتقائی عمل کا ادب نہ صرف گواہ رہا ہے بلکہ بارہا اس کے لیے رہنما کا بھی کام کرتا رہا ہے۔یعنی سماج اور ادب دونوں ایک دوسرے کو متاثر کرتے بھی ہیں اور متاثر ہوتے بھی ہیں۔ اسی تناظر میں جب ہم اردو شعر و ادب کو دیکھتے ہیں تو حیرت انگیز خوشی ہوتی ہے کہ اردو شعر و ادب نے ان دونوں ہی کردار کو بخوبی نبھایا ہے۔ غزلوں، نظموں اور ناولوں کے تعلق سے اس بات کا اعتراف تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن ساتھ ہی حقیقت یہ بھی ہے کہ جب آپ افسانوں کا ذرا باریکی سے مطالعہ کریں گے تو اس کے دامن میں سماجی اور عصری حسیت سے آگہی کی چاشنی کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے ۔ ہمارا یہ عہد نت نئے ایجادات کا عہد کہلاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انسانی زندگی نے اس عہد میں انتہائی تیزی سے کروٹیں بدلی ہیں۔ اس کا ادراک ہر ایک شخص کو ہے۔ لیکن اس تبدیلی کے ساتھ بہت سے اچھے اور برے احساسات سے انسان کو گزرنا بھی پڑا ہے۔ ان اچھے احساسات کی تعریف و تحسین کرنا اور برے احساسات کے جوکھم کو کم کرنے کی راہیں سُجھانا عصری ادب کے مقتضیات میں شامل ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہی ادب لا فانی ہوتا ہے جو اپنی فنی باریکیوں کے التزام کے ساتھ اپنے عہد کا ترجمان بھی ہوتا ہے۔عالمی ادبیات کے حوالے سے بات کی جائے تو اس نئی صدی میں جن موضوعات نے ہر خاص و عام کو اپنی طرف متوجہ کیا ان میں گلوبلائزیشن، انڈسٹریلائزیشن، ڈیجیٹلائزیشن، ہیومن رائٹس، ماحولیات، دوسرے سیاروں کو انسانوں کی رہائش کے قابل بنانے کی راہیں، جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے اعلی سطحی ریسرچ و اس کے مسائل اور صنفی برابری یعنی سیکسول ایکولیٹی جیسے موضوعات بیحد اہم ہیں۔ آپ کے لیے باعث طمانیت ہوگا یہ جاننا کہ اردو افسانوں نے بھی اس راہ میں اپنی بھرپور موجودگی درج کرائی ہے۔ اسی لیے مشہور اردو ناقد و دانشور پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اس نئی صدی کو فکشن کی صدی کا نام دیا ہے۔ آج ہم اردو افسانے کے لازوال ذخیرے سے پانچ ایسے افسانوں کا ذکر کریں گے جن میں نئی صدی کے مزاج و انداز کو فنی باریکیوں کے ساتھ برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔
اس سلسلے کا سب سے پہلا شاہکار جس پر آج ہم بات کریں گے وہ ہے جوگندر پال کا مشہور افسانہ ’’مارکیٹ اکانومی ـــــــ‘‘۔ یہ کہانی ہے امریکہ کی ایک دوا ساز کمپنی کے مالک ’ولیم ہٹ مین‘ کی۔ ولیم ہٹ مین بھارت کے دورے پر آتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے میرٹھ کے علاقے میں پھیلی ’کنجک ٹیواٹس‘ نامی آنکھوں کے وبائی مرض کے بارے میں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں ڈاکٹری پیشے سے جڑے افراد کو مسیحا اور بھگوان کے روپ میں دیکھے جانے کی روایت رہی ہے کیونکہ وہ زندگیوں کو بچانے کا کام کرتے ہیں اورحقیقت بھی ہے کہ اس پیشے سے جڑے افراد کھلے دل کے ساتھ خدمت خلق کے جذبے سے یہ کام انجام دیتے رہے ہیں۔ لیکن جب سے معاشیات کی جڑوں کو کیپٹلزم نے اپنے ناہنجار ہاتھوں سے جکڑا ہے، تب سے یہ تصور مفقود ہو تا جا رہا ہے۔مارکیٹ اکانومی میں جوگندر پال نے اسی مفقود ہوتے تصور پر کاری ضرب لگائی ہے اور انسانیت کو بچانے کا دعوٰی کرنے والوں کو ان کا کالا سچ دکھایا ہے۔ کہانی میں دراصل کمپنی کا مالک ولیم ہٹ مین پہلے تو اس وبائی مرض کے لیے دوا بنانے اور اس کے لیے ایک بڑی انویسٹمنٹ کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے لیکن جونہی اسے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس دوائی کا بنانا کمپنی کے لیے منافع کا سودا نہیں ہوگا تو وہ یہ کہتے ہوئے لاکھوں جانوں کو بچانے والی اس دوا کو بنانے کا ارادہ ترک کر دیتا ہے کہ ’’جب تک اس ملک کی اکانومی میں لبرالائزیشن کا فطری عمل سرکاری طور پر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتا، مجھے اس وقت تک توسیعی سرمایہ کاری کو معرض التوا میں ڈالے رکھنا چاہیے‘‘۔ان جملوں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جوگندر پال نے کس ذہنیت کو آشکارا کرنے کے لیے اس افسانے کو تخلیق کیا ہے۔ ایک درد ہے جو پورے افسانے پر حاوی ہے اور یہی وہ فنی چابکدستی ہے جو افسانے کو انفرادیت اور بقائے دوام کا درجہ عطا کرتی ہے۔
آئیے اب بات کرتے ہیں پریم چند کے افسانے ’عید گاہ‘ اور اس کے مرکزی کردار ’حامد‘ کی زندگی کے آگے کے مرحلے کو بیان کرنے والے افسانے کی۔ یہ افسانہ ہے ’عید گاہ سے واپسی‘ اور اس کے خالق ہیں پروفیسر اسلم جمشید پوری۔آپ نے پریم چند کا افسانہ عید گاہ تو پڑھا ہی ہوگا۔ اس میں ننھا حامد دوستوں کے ساتھ عیدگاہ جاتا ہے اور عیدی کے پیسوں سے اپنے لیے کچھ لینے کے بجائے کسمپرسی میں زندگی گزار رہی دادی کے لیے چمٹا خرید لاتا ہے۔ حامد کے اس درد کو ہر قاری محسوس کر رہا تھا۔ اس لئے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک میں حکمراں طبقے اور عوام دونوں ہی مل کر ایک ایسا ماحول بناتے کہ آئندہ پھر کسی حامد کو ان حالات سے گزرنا نہ پڑے، جو ظاہر ہے یہی چیز پریم چند کے لیے سچی خراج عقیدت ہوتی اور ان کے ہندوستان کے لیے بیش قیمت اثاثہ۔ لیکن اسلم جمشید پوری کے’ عیدگاہ سے واپسی‘ کے ذریعے پتہ یہ چلتا ہے کہ حامد کی نہ صرف مجبوریاں اور معذوریاں جیوں کے تیوں باقی رہتی ہیں بلکہ اس میں نت نئے مسائل بھی جڑتے چلے جاتے ہیں۔ ستر سالہ حامد جب اپنے یتیم پوتے ساجد کے ساتھ ایک بار پھر عید گاہ جاتا ہے تو فسادات میں کھو چکے بیٹے کے غم کو بھلانے کی کوشش کرتا ہے اور ساجد کی کھلونے خریدنے کی خواہش کو پوری کرنے کے لیے اپنی جیب کو ڈھیلی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ لیکن خوشی خوشی لوٹ رہے دادا پوتے کواچانک ہجومی حملہ آوروں کی آواز سنائی دینے لگتی ہے۔ ان سے بچنے کے لیے حامد اپنے پوتے ساجد کو سینے سے چمٹا کر اپنے گاؤں کی طرف بھاگنا شروع کر دیتا ہے کہ اسے وہاں کوئی چھو نہیں سکے گا۔لیکن مختلف حملہ آور ٹکڑوں سے بچتے بچاتے جب حامد ساجد کے ساتھ گاؤں کے اندر داخل ہونے ہی والا ہوتا ہے کہ گاؤں کے مکھیا کے بگڑیل بیٹے بیرپال کی سرکردگی میں نکلی ہجومی بھیڑ کی گولی کا شکار ہو جاتا ہے اور دونوں دادا پوتے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ فسادات میں تو لوگ مارے جاتے رہے ہیں لیکن حامد خود اپنے گاؤں میں ’ماب لنچنگ‘ کا شکار ہو جائے گا، اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ہے۔افسانہ نگار نے نئے ہندوستان میں بڑھ رہی رنجشوں کے تناظر میں سماجی رواداری کے فقدان کو بخوبی اجاگر کیا ہے اور اس احساس کو قاری تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ جب تک ہندوستان میں سبھی طبقے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے بارے میں نہیں سوچیں گے تب تک نئے ہندوستان کی تعمیر ادھوری رہے گی۔آپ یہ افسانہ پڑھئے گا ضرور۔ حامد سے آپ کی ہمدردی میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔
گلوبلائزیشن نے انسانوں کے بیچ دوریوں کو تو کم ضرور کر دیا ہے لیکن ان کے دلوں کی دوری کو کم کرنے میں ابھی اسے ایک لمبا سفر طے کرنا پڑے گا تبھی وہ ایک دوسرے کے مسائل کو آپسی خوش اخلاقی سے دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہی خیال ظاہر کیا ہے پروفیسر بیگ احساس نے اپنے لازوال افسانہ’ ’دخمہ‘‘ میں۔ ان کا یہ افسانوی مجموعہ ۲۰۱۵ میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا تھا اور ساہتیہ اکادمی ایوارڈ کا مستحق بھی ٹھہرا تھا۔دخمہ کہتے ہیں پارسیوں کے قبرستان کو۔ پارسی برادری اپنے مردوں کو نہ تو دفناتی ہے اور نہ ہی انہیں جلاتی ہے بلکہ اونچائی پر بنی ایک خاص طرز کی عمارت کی چھت پر اپنے مردوں کی لاشوں کو کھلا چھوڑ دیتی ہے تاکہ چیل اور گدھ جیسے مردار خور پرندے آئیں اور اپنا پیٹ بھر سکیں۔ اسی خاص طرز کی عمارت کو دخمہ کہا جاتا ہے۔ جب سے دودھ کی افزائش کے لیے دودھاری جانوروں کو ڈائکلوفینیک (Diclofanac) نامی دوائی کا انجیکشن دیا جانے لگا، تب سے ایسے انجیکٹ شدہ جانوروں کے مردار گوشت چیلوں اور گدھوں کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی آبادی میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے اور یہیں سے مسئلہ شروع ہوا پارسی برادری کے ساتھ جو اپنے مردوں کی لاشوں کو چیلوں اور گدھوں کے لیے کھلا چھوڑ دیتی ہے۔ اب جبکہ خود چیلوں اور گدھوں کی آبادی ہی کم ہو رہی ہے تو ایسے میں ان کے مردوں کو کھا کر صاف کون کرے گا اور ماحولیاتی آلودگی سے دنیا کیسے پاک ہوگی۔ کہانی کے راوی کے مطابق سہراب نامی پارسی شناسا کی نعش کو چھونے کے لیے ہفتوں تک کوئی پرندہ نہیں آتا ہے۔ اسی بنیادی پلاٹ کے ارد گرد دخمہ کی تخلیق کر کے پروفیسر بیگ احساس نے ایک اہم مسئلے کی طرف قاری کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ لیکن اس فنی بالیدگی کے ساتھ انہوں نے اس کہانی کو بیان کیا ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کسی مفاد پرستانہ تہذیب کے خلاف قاری کو کوئی سبق پڑھا رہے ہیں۔
سگمنڈ فرائڈ نے جب اپنا نظریہ جنس پیش کیا تو مغربی دنیا نے اسے کھلی آنکھوں کی جنت سمجھ کر قبول کر لیا۔ نتیجے میں وہاں پر جنسی بے راہ روی کا دور دورہ ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خاندانی نظام تباہ ہو گیا۔ ان نتائج سے بے پرواہ ہو کر مشرقی دنیا بھی آزادانہ جنس کی راہ پر چل پڑی۔ لیکن یہاں مذہبی جڑیں اتنی مضبوطی سے پیر جمائے ہوئے تھی کہ کھلے بندوں اس کا چلن عام نہ ہو سکا۔ نتیجے میں ایک مضحکہ خیز صورت یہاں عام ہو گئی۔ مذہبی حد بندیوں اور آزادانہ جنس پرستی کے بیچ پھنسے ہونے کی وجہ سے یہاں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایک عجیب کشمکش سے دوچار ہیں۔ اسی موضوع کو بخوبی برتا ہے شائستہ فاخری نے اپنے افسانے ’’اداس لمحوں کی خودکلامی‘‘ میں۔ اردو میں جنسیات پر لکھنے کی ایک لمبی روایت رہی ہے۔ منٹو سے لے کر عصمت چغتائی اور واجدہ تبسم تک بے شمار فنکاروں نے اس موضوع کو اپنی اپنی سطح پر برتا ہے لیکن ان سب میں یہ افسانہ اس لیے خاص ہے کہ اس میں تین بڑھتی عمر کی بن بیاہی لڑکیوں کی غیر مطمئن (unsatisfied) زندگی کے مسائل کو جس ہمدردی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، وہ بہت اہم ہے۔ افسانے کے اختتام تک قاری مسئلے کے صحیح حل تک بآسانی پہنچ جاتا ہے۔ ’مومنہ‘ نام کے’ ویمن ہاسٹل‘ میں شادی کی آس لگائے بیٹھی ڈھلتی عمر کی ایک دبلی پتلی معمولی شکل و صورت کی لڑکی روبینہ علی رہ رہی ہوتی ہے۔ اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے وہ ایک پنک پینتھر بازار سے خرید لاتی ہے۔ اسی درمیان زینی نام کی ایک اور لڑکی اس کا روم پارٹنر بنتی ہے اور دونوں بہت جلد ایک ہی پنک پینتھر کے دونوں جانب سونے لگتی ہے۔ چند ہی دنوں میں کب بیچ سے پنک پینتھر غائب ہو کر دونوں ایک دوسرے سے ہم آغوش ہوجاتی ہے اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اس لذت سے آشنائی دونوں کو اور قریب کر دیتی ہے اور دھیرے دھیرے سارا ہاسٹل ہی رنگ برنگے پینتھروں سے پَٹ جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر ہاسٹل کی وارڈن عیسائی ماں کی اولاد ہونے کی وجہ سے زینی کو مسلمان نہ مان کر ہاسٹل سے نکلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس کی جدائی کا غم برداشت نہ کر پانے کی وجہ سے روبینہ علی ایک رات نیند کی ڈھیروں گولیاں کھا کر جان دے دیتی ہے اور ادھر زینی ریتا آہوجا نام کی دوسری لڑکی کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہنے لگتی ہے. سچ ہے جب شادی کو مشکل بنا دیا جائے اور وہ بھی وقت پر نہ ہو تو سماج کی لڑکیاں اسی طرح کی بیراہ روی کی شکار ہو جاتی ہیں. شائستہ فاخری نے اس افسانے میں مناسب الفاظ و استعارات کا سہارا لے کر بیانیہ کے فن کو معراج کمال تک پہنچا دیا ہے۔
آخری افسانہ جس پر بات کرنی ہے وہ ایک نوجوان افسانہ نگار کی تخلیق ہے۔ ’’منگل مکھی ‘‘ صنفِ ثالث یعنی ہجڑوں کے مسائل کو اجاگر کرتا محمد حنیف خان کا شاہکار افسانہ ہے اور شاید اس موضوع پر اردو میں اب تک کا واحد افسانہ بھی۔ ’رجو‘ کی سربراہی میں مکھی اور منگل کی طرح کے دسیوں ہجڑے ایک علاقے میں رہتے ہیں اور اس علاقے میں نیگ مانگ کر اپنی زندگی کی گاڑی کو کسی طرح کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس میں بھی ہزار مسائل۔ عزت کی زندگی تو ان کو ملنا نصیب نہیں۔ لیکن ان مسائل کے حل کے لیے نہ سرکار کے پاس کوئی پروگرام تھا نہ کسی غیر سرکاری ادارے کے پاس۔ اسی احساس نے شاید محمد حنیف خان سے یہ شاہکار تخلیق کروایا۔ جس میں حنیف خان مُکھی نامی ہجڑے کے کردار سے غیر سرکاری طور پر ہیجڑا سماج کی فلاح و بہبود کے لئے فکر مندی کے اظہاریہ کا کام لیتے ہیں۔ یہ افسانہ ۲۰۱۱ میں ایوان اردو میں شائع ہوا تھا آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ اپریل ۲۰۱۴ میں’ نیشنل لیگل سروس اتھارٹی بنام یونین آف انڈیا کیس‘ میں سپریم کورٹ نے سرکار کو حکم دیا کہ وہ ہیجڑا سماج کی فلاح و بہبود کے پروگرام وضع کریں، انہیں نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دیں اور صنف ثالث یعنی تھرڈ جینڈر کے بطور سرکاری کاغذات میں ان کے ناموں کا اندراج کریں۔ تاکہ وہ بھی عزت کی زندگی جی سکیں۔ یہ کام سرکار نے ترجیحاتی طور سے انجام دیا اور بھارت تھرڈ جینڈر کو پہچان دینے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا۔ یہاں پر اگر یہ کہا جائے کہ محمد حنیف خان کا یہ افسانہ حکومت اور سماج کے لیے رہنما کا کام انجام دے رہا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔
مذکورہ پانچ افسانوں پر اس مختصر سی گفتگو سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اردو افسانہ اپنے عہد کی تبدیلیوں پر کس قدر باریکی سے نظر رکھے ہوا ہے۔ اس لئے آپ اپنی زبان، اپنے ادب اور اپنے افسانوں کو لے کر کسی طرح کی احساس کمتری کا شکار نہ ہوں، بلکہ آپ اس پر بجا طور پر فخر بھی کر سکتے ہیں۔