لڑکی ناریل کو اسٹرا لگائے ناریل پانی پی رہی تھی .بےفکری کے گیتوں سے گندھے اس کے گیسو بل کھاتی ناگن کی طرح اس کی پشت پر مچل رہے تھے.
ایک پل کو میں سب کچھ بھول گیا تھا. مشرقی کنارے سے جنوب کی طرف سرکتا سورج حیرت کی کرنیں پانی کی جانب اچھال رہا تھا. نیلے پانی میں تیرتی سفید بطخوں کے پروں پر لکھی نظمیں پانی میں بھیگ چکی تھیں. میں شاعر بننا چاہتا تھا.جماعت ہشتم میں اردو کی استانی مجھے اچھی لگتی تھیں .جب ان کی کمر پہ چوٹی لہراتی تو میرے معصوم دل کو بھاتی تھی. ظاہر ہوتا تھا کہ حسن اپنے بچپن سے ہی میرے دل کو موہ لیا کرتا تھا.ان کا نام مس قدسیہ تھا. ان کو خوش کرنے کے لیے میں غزلوں کی لمبی لمبی تشریحات لکھا کرتاتھا. وہ مجھے شاباش دیتیں تو میں خوکوہواوں میں محسوس کرتا.
مجھےیادآیا کہ اسکول کاآخری دن ہم سب پر ہی بہت بھاری تھا۔
الوداعی تقریب کے اختتام پرجب ہم الوداع کہنے لگے تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے.انہوں نے میری نم آنکھوں کو دیکھا تو شفقت سے اپنے ہاتھوں میں پکڑا ناریل پانی مجھے پکڑا دیا.
یہ پہلی بار تھا جب میں نے ناریل پانی پیا۔اس کی دھیمی سی مٹھاس اور خوشبو مہربانی کے ذائقے سے تر بتر تھی۔
نہ تو میں شاعر بن سکا، نہ ہی قلم کار .ادھوری آشاؤں کا ایک جہان تھا جس میں میرے دن رات بسر ہوتے. میرےوالد کی بے وقت موت نے مجھے سبزی منڈی کا آڑھتی بنا دیا. زندگی نے مجھے یہ سبق پڑھایا کہ روپیہ اور وسائل زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے پہلی ضرورت ہیں.
اس پل پر کھڑے سوچ رہا ہوں میں کیا تھا اور کیا سے کیا بن گیا.کیا زندگی سب کو ایسے ہی کچھ کا کچھ بنا دیتی ہےیا اس کی ستم ظریفی کا شکار فقط میں ہی ہوا.
میں اکثر سوچا کرتا اور چپکے چپکےاپنے دوست یاسر سے اپنا مقابلہ کیا کرتا. میں سوچتا تھا کہ میرے دوست یاسر کو تو زندگی میں سب کچھ ویسے ہی ملا جیسے اس نے چاہا.
زندگی میری نسبت اس پر زیادہ مہربان رہی.اس کے خواب سچ ثابت ہوئے تھے. وہ ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اور ڈاکٹر ہی بنا. اس دنیا میں اس طرح کے خوش نصیبوں کی تعداد بہت کم ہے جو اپنے خوابوں کا تعاقب کرتے ہیں اور جلد ہی تعبیر کی کوئی صورت پا لیتے ہیں.
کل ہی میری اپنے اس دوست سے ملاقات ہوئی .میں کچھ دنوں سے نقاہت محسوس کر رہا تھا. مجھے کچھ مہینوں سے ہلکی حرارت رہنے لگی تھی. کھانسی ہوتی تو رکنے کا نام نہ لیتی . بالآخر مجھے اپنا سب سے اچھا دوست یاد آیا. جب بھی مجھے علاج کی ضرورت ہوتی میں اس سے رجوع کرتا وہ بھی کمال مہربانی سے مجھے نسخہ لکھ دیا کرتا. مگر اس بار اس نے مجھے کچھ ٹیسٹس لکھ کر دییے ان کی رپورٹس آئیں تو سوچا میرا قابل دوست مجھے ہر بیماری سے بچا لے گا .
جب اس نے میری رپورٹس دیکھیں تو چپ سا ہو گیا. اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا میری رپورٹس دیکھ کر اس کے چہرے پہ تاریک سائے لہرائے. اس نے مجھے ایک اور ڈاکٹر کی طرف بھیجا.
سو مجبوراً میں نے دوسرے ڈاکٹر کو دکھایا .
یہ ڈاکٹر بہت سفاک نکلا .میری صحت کے متعلق ساراکڑواسچ میرے کانوں میں انڈیل دیا..
لب لباب یہ تھا کہ میری بیماری آخری حد سے آگے جا چکی تھی. اس نے بتایا کہ مرض لاعلاج ہے .
جو دن ہیں تحفہ سمجھ کرخوشی سے گزار دوں. یہ وہ خبر تھی جو میں اپنے گھر والوں کو نہیں دینا چاہ رہا تھا.
مجھے زور دار جھٹکا لگا گویا میری کہانی کسی موڑ کے بغیر ہی ختم ہونے جا رہی تھی.
میں دو دریاؤں کے سنگم پر بنے پل پر کھڑا بہتے پانیوں کو دیکھ رہا تھا. بہت سے لوگ آ رہے تھے، بہت سے لوگ جا رہے تھے۔
کیسی عجیب بات ہے کہ زنگی کی گہما گہمی میں ہم خود کو اپنی ذات کو اپنے شوق، سب بھول جاتے ہیں۔ آج جب فرصت ملی تو بہت دیر ہو چکی تھی۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔.
مجھے ادراک ہوا کہ حسن کا سورج تو نصف النہار پہ ہے البتہ میری آنکھ کا چراغ گل ہونے کو ہے.
سوچاشاعرتو نہ بن سکا . مرنے سے پہلے ایک کہانی لکھ دوں جس کا انتساب حسن کے نام ہو جو سفید بطخوں کے پروں پہ لکھی نظموں سےشروع ہو کر شاہراہ
کی مانند بل کھاتی چوٹی سے ہوتی ہوئی ناریل پانی کے مہربان ذائقے پہ ختم ہو جائے.
میں نے ایک بار پھر اس لڑکی کی جانب دیکھا جس کی پشت میری جانب تھی غور کرنے پر معلوم ہوا وہ کوئی پینٹنگ بنانے میں مگن تھی.
چند قدم چلنے کے بعد میں دیکھ سکتا تھا کہ وہ کیا پینٹ کر رہی ہے .پانی میں ڈوبتے سورج کی تصویر مکمل ہونے کے قریب تھی.میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کے سامنے جا پہنچا اور اس کی بنائی ہوئی مصوری کی تعریف کی وہ خوش دلی سےمسکرا دی.
میں سب بھول کر ایک بار پھر یہ سوچنے لگا کہ مسکراتی ہوئی لڑکی کے یاقوتی لب زندگی کی قندیل سے زیادہ روشن ہیں یا خود زندگی.
میں سورج کے غروب ہونے تک پانیوں میں روشنیوں کے کھیل کو دیکھتا رہا.
لڑکی نے ناریل پانی میری طرف بڑھایا. میں نے مہربان لڑکی کا شکریہ ادا کیا اور ناریل کے دھیمےمیٹھے ذائقے والا ایک گھونٹ لیا , دوسرا گھونٹ بھرنے سے پہلے میرےحلق میں کچھ اٹکا اور میں بےحال ہو گیا. شدید کھانسی کو روکنے کی کوشش نے میرا سانس الٹ دیا.
میں یہ بھی نہ کہہ سکا الوداع ناریل پانی.
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...