(Last Updated On: )
وہ حسن کی دیوی تھی جو اکسیویں صدی والوں نے صرف پڑھی ہوئی تھی۔ وہ اکیسویں صدی جس میں معلومات کی بنیادپہ ڈگریوں کے ڈھیر لگتے چلے جا رہے تھے۔ اور معاشرے تعلیم یافتہ کہلانے لگے تھے۔ علم نے منہ چھپا لیا تھا۔ اور کہیں گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔ وہ سر بازار آتا بھی کب ہے، وہ تو پنپتا ہی گوشہ نشینی میں ہے۔
خیر وہ حسن کی دیوی تھی اور حسن اس کے در کا غلام تھا۔ اس کی قدموں کی دستار تھی۔ نصف صدی کا قصہ ہوا چاہتا تھا، مگر دیوی کا حسن گزرتے لمحوں کے ساتھ قیامت کی اور بڑھ رہا تھا۔ اس نے اسے اور آگ لگا رکھی تھی، جب وہ ہاتھ میں سگریٹ پکڑے، اس کی راکھ اپنے ہی قدموں میں پھنیک کر سمجھتی تھی کہ اب سب دکھ راکھ ہو جائیں گے۔ اب سب غم خاک ہو جائیں گے۔ کہ خاک زندگی کی امید ہے۔ کبھی روٹھ بھی جائے تو مان جاتی ہے۔
اسے کبھی کبھی اپنا عکس سمندروں پار کسی میں دکھائی دیتا، تو کبھی اپنی روح کے، ہم روح ہو نے کا خیال جاگ اٹھتا۔ کبھی کسی میلے میں بچھڑ جانے کا احساس بیدار ہو جاتا۔ کچھ تھا، جو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ ان دونوں کے درمیان کچھ تھا، جو دنیا خاکی کی خاک سے الگ تھا۔
خیر وہ حسن کی دیوی تھی۔ دیوی صدیو ں کے دائروں سے حس کے کسی اور مقام پہ ہوا کرتی ہے۔ وہ کائناتی سچائیوں سے آنکھیں نم نہیں کر تی۔ اس کی آنکھوں میں تو پانی آتا ہے، نہ چہرے پہ کسی طوفان کی لکیر۔ اس کے سارے طوفان اس کے اپنے اندر بپا ہو تے ہیں اور ہو تے ہی چلے جاتے ہیں۔ اس کے سارے خوف ختم ہو جاتے ہیں مگر زمانہ اس کو ہمت کہہ کر ناز کر تا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آتا۔ یہ غرور کا، یہ ناز کا، یہ رشک کا رقص اس کے گرد کیوں نہیں تھمتا۔
جسے وہ حسن سمجھ رہے ہیں۔ وہ تو اس کا خون جگر ہے، جو اندر نہیں باہر بنتا ہے۔ اندر طوفان نے جگہ بنا رکھی ہے، جس کی موجیں ہر وقت ڈبو دینے والی اٹھان پہ رہتی ہے اور اس کا دل دھک دھک کرتا رہتا ہے۔ اب اسے لگتا ہے کہ دل کی رفتار یہی ہے۔ اگر ذرا کم ہوئی تو وہ ان بچوں کو نہیں پال سکے گی، جو کسی دلال کے دیوتا نے اس کو دیے تھے۔ بس اب وہ اس دیوتا سے اتنی ہی محبت کر تی تھی۔
وہ محبت جو نفرت سے جنم لے کر نفرت ہی پہ جاتی تو اچھا تھا، مگر اس کو اس سولی پہ چڑھا کر، گلے میں رشتے کی رسی باندھ کر لٹکا دیا کیا تھا اور صدیوں سے کوئی تختہ کھنچنے والا نہیں آیا۔
”ارے تجھ سے تعزیت کیا کرتی؟ ابھی کرتی یا مہینو ں سالوں بعد کر تی، تووہیں کھڑی ہوتی۔ جس دن تیرے گھر سے جنازہ اٹھا تھا۔ جب جنازے ا ٹھ جاتے ہیں ناں، تو گھروں میں کچھ میتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ وہ بیٹیوں کی میتیں ہوتی ہیں۔ ان سے کیسی تعزیت۔ میت سے بھی بھلا کوئی افسوس کیا کرتا ہے؟ ایک میت دوسری میت سے افسوس کیسے کر سکتی ہے؟ بس تجھے اتنا ہی کہنا ہے یار، دیکھ یہ عمر بھر کا وچھوڑا ہے۔ آس نہ لگانا۔
میرے گھر میں بھی ایک میت ہے۔ کسی کا انتظار کر رہی ہے۔ بتا رد دعا کیوں میرے در کی داسی بنی ہوئی ہے؟ بتا ناں۔ کو ئی انتظار میں ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی۔ روز سنتی ہوں ”مجھے فاطمہ کے پاس جاتا ہے، مگر سانس کی ڈوری فاطمہ سے دور کیے ہو ئے ہے۔ یہ تو بتا میرا کیا بنے گا؟ کیا بنے گا اس کے بعد“؟
ایک میت دوسری میت کی بات سن رہی تھی۔ جو سکتے کے عالم میں تھی۔ جس پہ میت کے ساتھ صبر جمیل کا راز فاش ہوا تھا۔ کیوں کہ جمیل نہیں آیا تھا۔ صبر کی کوئی اور صورت تھی۔ جس نے اس پھول سی نازک پتی پہ لوہے کہ ملمع کاری فوراً کر دی تھی۔ وہ پہلا قدم جو میت کو لینے آسمان کے نیچے کیا تھا۔ اسی قدم کے ساتھ ہی کسی جادو گر نے اس کے سارے جسم و حس کو اپنی قید میں کر لیا تھا۔ اندر اک سناٹا سا ہو گیا تھا، سر پہ آسمان پہ نہیں رہا تھا، آنکھیں پتھر کی ہو گئیں تھیں۔ دل تھم سا گیا تھا۔ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا، میت بھی نہیں یہ وہ تو نہیں تھی جو ہوا کرتی تھی۔
اس کے بعد برسوں بیت گئے، وہ لوہے کی بن گئی۔ نہ رو سکتی ہے۔ نہ جانے والے کو بلا سکتی ہے، نہ آنے والے کو کچھ بتا سکتی ہے۔ وہ صحراؤں کے سناٹے میں بد گئی ہے۔ جیسے کسی کی دولت ریت کے ذروں میں بدل گئی تھی۔
”سنو جس دن انہوں نے کہا نا ں“ فاطمہ آئی ہے۔ بس تیاری کر لینا فاطمہ لینے آئے گی اب۔ اور سن تیرا وہی ہو گا جو میرا ہوا ہے“۔
دونوں طرف بے خوف حقیقت ہواؤں میں درختوں سے لی آکسیجن اور پھولو ں کی لی خوش بو کے ساتھ باد نسیم لئے اترائے پھرنے لگی۔ کسی کی جدائی تھی تو کسی کا وصال تھا۔ ایک ہی لمحہ کسی کے لئے خوشی اور کسی کے لئے غم لئے ہو تا ہے۔ کسی کو بہار میں بھی قرار نہیں آتا کوئی خزاں میں بھی کھل اٹھتا ہے۔
وہ حسن کی دیوی تھی، جدائی کا فرشتہ اس کے گھر اتر چکا تھا۔ وہ لے جانے والے کا سامان باندھ رہا تھا۔ رہ جانے والوں کو تیا رکر رہا تھا۔ حقیقت کو وہ مان نہیں رہی تھی۔ ماننا نہیں چاہتی تھی۔ جدائی کا فرشتہ روز رات کو اسے جگا دیتا کہ ”جا اورجانے والے سے لپٹ جا۔ اس نے پھر کبھی نہیں آتا۔ تو اس لمس کی طاقت دنیا میں تلا شتی رہے گی“۔
ایک میت نے دوسری میت کو تہجد کے تارے کے ساتھ ہی فون کیا۔ دونوں سکتے کے عالم میں تھے۔
”سن فرشتہ مجھے کہتا ہے، جا، جا کر گلے لگا لے۔ مگر مجھے ڈر لگتا ہے۔ کہ جس دن گلے لگا لیا۔ اگلے دن رخصت ہو جائیں گے“۔
” جا، جا کر گلے لگا لے۔ کیمسڑی ہے تیرا دل کر رہا ہے تو، ان کی تڑپ تجھ سے زیادہ ہو گی۔ جدائی سے پہلے محبت طوفان بن کر آتی ہے۔ اس فرض کو ادا کو کر لینا چاہیے، ورنہ جانے والا پیاسا چلا جاتا ہے۔ جا میری جان، جا اور گلے لگا لے۔ جانے والی کی مشکل آسان کر دے۔ “
”مگر میرا کیا بنے گا؟“
”جو میرا بنا ہے۔ ترے پاس تو جینے کو بچے بھی ہیں۔ میری گود بھی خالی ہے۔ اور کاندھا بھی کوئی نہیں کہ جس پہ سر رکھ کر رو ہی لوں۔
ان دونوں کے درمیان کی اک پو شیدہ دنیا کے علاوہ بھی اک دنیا آس پاس سفر میں تھی۔ دلاسے، تعزیت، ہمدردی میں چھپے گدھ جاتی، بھڑئیے کسی کی نعش پہ اپنے گلدستے بڑی شان سے سجا رہے تھے۔ یہی سب اس حسن کی دیوی کے ساتھ ہو نے والا تھا۔
ان گدھ جاتیوں، بھیڑیوں کا بس نہیں چلتا، ورنہ وہ میتیں اپنے ساتھ لے جاکر انہیں ہنوط کر لیتے اور خود کو عبرت بنا دیتے۔ ایک نعش سے دوسری میت کے ساتھ کھیلتے۔
سیانوں کے دور میں کہا جاتا تھا۔ جب دنیا میں پھولوں کو بستروں میں مسلا جاتا ہے، تو طوفان آتے ہیں۔ وبائیں آتی ہیں۔ لال اور کالی آ ندھیاں چلتی ہیں۔ بچے جانور کی شکل کے پیدا ہو تے ہیں۔
مگر یہ سیانوں کے دور کی باتیں ہیں۔ اکسیویں صدی میں تو اس پہ یقین نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس دور کا خدا بھی سائنس کو مانتا ہے۔ کیوں کہ سائنس کا علم اسی نے خاک میں گوندھ کر خاکی بنایا تھا۔ خاکی نے تو اس کی صرف کھوج لگائی ہے۔ اور وہ اپنی ایجاد پہ جب فرعونی فاخر ہوا ہے تو خالق نظام پھر اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔
سیانوں کی دور کی بات، حسن کی دیوی کے قدموں میں پڑے بونے، انسان کا میت میں بدل جانے کا وقت، کسی کے جنازے کے اٹھ جانے کے بعد فرشتوں کا ساتھ چلے جانا۔ آنسوؤں کا تھم جانا اور آنکھو ں کا رونے کے لئے ترسنا و تڑپنا۔
یہ سب ان میلی آنکھو ں والے، جانوروں کی شکل میں پیدا ہو نے والے کیسے سمجھ سکتے تھے۔ سیانے سچ ہی کہتے تھے۔
”کسی چوک میں مجھے ننگا کر کے بھی کھڑا کر دو تو مجھے اب کو ئی فرق نہیں پڑتا۔ جانتی ہو کیو ں؟ کیوں کہ ان کے باپ نے دنیا کی کوئی گالی کوئی تہمت نہیں چھوڑی جو مجھ پہ لگائی نہ ہو۔ میں کسی رنڈی، کسی کال گرل سے بری عورت ہو ں۔ جسمانی اذیت سے اس کو قرار ملتا تھا۔ میرا جسم جلتا تھا۔ درد ہوتا تھا۔ مگر تب ہو تا تھا۔
میں فاحشہ، میں نائکہ میں سب کچھ تھی اس کے لئے، وہ سک مین تھا۔ اور اس نے مجھے ایک سک وومن بنا دیا۔ اور آج میں مجبور ہوں، ان بچوں کو پالنے کے لئے، تم خوش نصیب ہو تمہارے پیروں میں یہ زنجیر نہیں ہے۔
یار تم جانتی ہو۔ کتنے لوگ شادی کے لئے تیار ہیں۔ مگر جانتی ہو، میں شادی کیوں نہیں کرنا چاہتی؟ مجھے جسمانی محبت سے نفرت ہے۔ مجھے میرے جسم سے نفرت ہے، جو بھی شادی کرے گا جسم مانگے گا۔ میرے پاس جسم ہے ہی نہیں“۔
”تم اس اذیت کے بعد جسمانی محبت سے نفرت کرتی ہو۔ مجھے ویسے ہی نفرت ہے۔ عورت مرد کا تب تک ہے جب تک بستر کی شکنیں۔ مجھے ان شکنیوں سے نفرت ہے، کہ جس میں روح پیاسی ہو اور جسم بے بس ہو جاتا، ساتھی جانور بن جاتا ہے۔
پتا سیانوں کے دور کی بات پہ مجھے یقین آ گیا ہے کہ انسان جانوروں کی شکل میں پیدا ہوں گے اور جب صورت ویسی ہو گی تو سیرت بھی ویسی ہی ہو گی۔ تو میری جان میں کسی جانور کے بستر کی شکن نہیں بننا چاہتی تھی۔
ٹھیک تو تم بھی کہتی ہو، اگر میرے پاس بھی کسی جانور کے بچے ہو تے تو میری ممتا بھی کنارہ تو کبھی نہ کرتی۔
خالی گود کا درد تمہاری تکلیف سے کم ہے۔ بس حالات کا اتنا کر م ہو گیا کہ مخالف چل کر مجھے میت تو بنا دیا مگر مجھے میرے جسم کی نفرت سے بچا لیا۔ مجھے اپنی ذات سے نفرت ہو گئی۔ ورنہ ہم عصری کے سارے پھول پتھر تو ایک ہی طرح برستے ہیں۔ تم ہو میں یا کوئی اور۔ “
مگر میری جان، ہم کسی کو نہیں سمجھا سکتے کہ شتر مرغ اورمرغی کے بھی پرہو تے ہیں، مورنی کے بھی ہوتے ہیں۔ مگر وہ چڑیا، بلبل، فاختہ، کبوتر، طوطے کی طرح اڑ نہیں سکتیں کہ ان کا وزن زیادہ ہو تا ہے۔ وزن کا تعلق جسم سے بھی کب ہے یہ تو کوئی فرض کا، کہیں ضمیر کا ہے، کہیں تو قیر کاہے۔ اڑ کر بھی جانور کی شکل میں پیدا ہو نے والوں کی بستی میں جا بسیں گے کہ سیانے کے دور کا قرب ہم پر اترا ہے۔
”مجھے تم میری ہم روح کیوں لگتی ہو؟ پتا میری آنکھوں میں آنسو نہیں آ تے، تمہارے آنسو بھی تم سے روٹھ گئے ہیں۔ تم رنگوں کی قوس قزاح ہو، میں بہار کا گلستان ہوں۔ دونوں دل کے نم پہ پروان چڑھتے ہیں۔ ہم ہیں تو شبنم۔ ہم سے یہ شبنم کس دھوپ کی تمازت نے چھین لی“؟
”سچ کہتی ہو۔ کو ئی لاکھوں میں ایک، آج بھی موسم کے سنگ، فطرت کے رنگ میں مست، کسی آسمان کی سرمئی بدلی جیسا دیکھ لو ں، تو یک دم نصف صدی کا قصہ، یوسف کے دربار میں، زلیخاں کی طرح شبنمی ہو جاتا ہے۔ میں برسوں کی تلاش میں تھی کہ یہ راز کبھی مجھ پہ علم کی طرح آشکار ہو جائے۔ کہ ایک دن ایک پر دیسی فقیر صوفیوں کے شہر میں سلام کرنے آیا۔ عشق کے دربار پہ بیٹھی میں بھی سکون کشید کر رہی تھی۔ وہ بھی بے دعا سا لگا۔ مجاور کے پاس قصہ عشق لے بیٹھا۔ عاشق کے قدموں کی طرف وہ دونوں باتیں کر رہے تھے سرہانے بیٹھی میں اہل قبر سے باتیں کر رہی تھی کہ اس کی آواز نے مجھے چونکا دیا:
”سرکار ہم یہ جانتے ہیں زلیخاں کا پھر سے جوان ہو نا کو ئی معجزہ، کوئی کرشمہ نہیں تھا، کوئی کرامت نہیں تھی، یہ عورت بڑی ظالم شے ہے، اس کو اس محبوب مل جائے تو یہ خود بخود جوان ہو جاتی ہے۔ یہ رمز تھی، یہ راز تھا۔ جسے ہم آج تک پا نہیں سکے“۔
یو ں مجھ پہ یہ راز عشق کے دربار میں سرہانے کی اوٹ میں چھپ بیٹھے کھلا۔
اب اس راز کو فاش کر دوں تو سیانوں کا دور نہیں رہا، مگر میں سمجھ گئی کہ میں پتھر کی کیسے ہوں اور شبنم کیسے ہو جاتی ہو“۔
”سنو!
میں نے کل انہیں گلے لگا لیا تھا، تمہارے کہنے سے، بہت پیار کیا، وہ بھی تو میرا بچہ ہے نا ں یار۔ مگر میں اپنے کمرے میں آ کر بہت روئی۔ آج ان کی طبعت زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ میں نے ان کا بیڈ بھی اپنے کمرے میں شفٹ کر دیا ہے“۔
وہ یہ سنتے ہی عشق کے دربار سے دھک سے لوٹ آئی۔
”جدائی سے پہلے محبت کا جھونکا بہت زور سے آتا ہے۔ انسان کو کچھ دکھائی نہیں دیتا، سجھائی نہیں دیتا“۔
سہ پہر شام کی اور قدم بڑھا رہی تھی۔ شام گہری ہوتی جا رہی تھی۔ اس کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا اور ہم روح کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔ شام کی تاریک رات نے موٹی شال اوڑھ لی تھی کہ اچانک کسی کا دل بند ہو گیا۔ محبت کا طوفانی جھونکا سب کچھ ساتھ اڑا لے گیا۔
وہ سکتے میں چلی گئی تھی۔
ہم روح کے دماغ میں ایک ہی جملہ کسی بازگشت کی طرح چل رہا تھا:
”جب جنازے اٹھ جاتے ہیں ناں، تو گھروں میں کچھ میتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ وہ بیٹیوں کی میتیں ہو تی ہیں“۔