(Last Updated On: )
اصغر صاحب اگر نفیسہ کے بھائی ہیں تو کیا ہوا؟مجھے تو ان سے بات کرنی ہی ہے کہ میرا مسلہ و ہی حل کر سکتے ہیں___یہ سوچ کر اس نے اس کانمبر گھمایا۔
’’ھیلو! اصغر صاحب ہیں؟‘‘
’’نہیں! آپ کون صاحب؟‘‘فون نفیسہ ہی نے اٹھایا تھا۔
’’مجھے ان سے کام تھا۔ویسے معاف کیجئے میں وہ ہوں جس کا نام سن کر آپ فوراً فون رکھ دیں گی۔‘‘اور اپنا نام بتادیا۔
کچھ دیرخاموشی رہی پھر ایک ندامت بھری آواز لئے نفیسہ بولی:’’کیسے ہو؟‘‘
اس پر وہ حیرت میں ڈوب گیا کہ یہ کایا کلپ کیسی!انسان کی رنگا رنگی اور ہمہ جہتی سمجھ میں آگئی تو جواباً کہا:
’’آپ کیسی ہیں؟آپکی سیمی ،پنکی اور نکی کیسی ہیں؟میں ’’آپ کی بچیاں کیسی ہیں؟ بھی کہہ سکتا لیکن میں آپ کو یہ باور کرانا چاہتا ہوں کہ آپ کے متعلق میں ہر چیز ،ہر نام بھول نہیں چکا ہوں البتہ ممکن ہے آپ کو میرا صرف نام یاد ہو،مییرے من کے احساسات،جذبات یاد نہ ہوں۔ وہ رشتہ یاد نہ ہو جس کے ماضی کا پھول آج بھی میرے سانسوں میں تازہ اور بھینی بھینی خوشبو دیتا ہے۔آپ کا مجھے بھول جانے کا بڑا ثبوت تو وہ پانچ چھ سال ہیں جو بیت گئے اور جس کا ایک پل بھی اتفاق کے زینے پہ چڑھ کر ہماری ملاقات کا بہانہ بن نہ سکا۔اتفاق بنائے بھی تو جا سکتے ہیں۔خیر! میں پتہ نہیں کیا کیا بک رہا ہوں۔‘‘اور ایک لمبی سانس لے کررک گیا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘ایک مدھم سی ہنسی لئے نفیسہ بولی،’’آپ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔اچھا خدا حافظ!‘‘ اور فون رکھ دیا۔اپنی عادت سے مجبور ہمہشہ کی طرح اس بار بھی نفیسہ اسکی ڈھیر ساری باتوں کا ایک مختصر جواب دے گئی تھی۔
’’اب بھی نفیسہ کے رویئے کا پتہ چلانا مشکل ہے۔‘‘وہ سوچنے لگا،’’میرا مقام اسکی نظروں میں کیا ہے؟یہ بھی ایک چھپا ہوا سوال ہے۔ کیا اسکی ہنسی ایک طنز تھی یا ایک عادت؟عورت کو سمجھنا بہت مشکل ہے،مجھے اعتراف ہے کہ میں شروع ہی میں ’’عورتوں‘‘ سے ایک خوف سا محسوس کرتا رہتا ہوں کہ یہ کسی بھی بے داغ شخصیت کو مسخ کرنے کے ہتھیار سے لیس ہیں،کسی بھی وقت کسی سے بھی انتقام لے سکتی ہیں۔ان سے ڈرنا ہی چاہیے کجا کہ کوئی اپنی شکایتیں ان سے کرتا پھرے یا انتقام اور نفرت کا سوچے،توبہ میری توبہ!کیسی حرافہ ہیں یہ عورتیں!لفظ حرافہ گالی نہیں ،انھیں ماننے کا کھلا اور ننگا اعتراف ہے کہ یہ مردوں سے حددرجہ طاقتور ہیں۔اور نفیسہ؟میں اب بھی ’’انکی‘‘ کتنی عزت کرتا ہوں لیکن میرے ان کے ساتھ رشتے کو’’اب‘‘ کیا نام دیا جا سکتا ہے؟___معلوم نہیں،لیکن ان کے لئے اپنی جان تک لٹا سکتا ہوں ۔ان پر مر بھی سکتا ہوں۔مگرہاتھ لگا نہیں سکتا،بلکہ ہاتھ لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔۔اور پھر۔۔۔نہیں!۔۔۔اس طرح تو۔۔۔ممکن ہے اب وہ مطمئن ہیں کہ میں انکے ساتھ ہمدردی رکھتا تھا لیکن دکھانے کا موقع ہی مل نہ سکا تھا۔لیکن ’’اسکی‘‘ آج کی ہنسی اور مختصر رد عمل کیا ثابت کرتا ہے؟کیا وہ سمجھتی ہے کہ میں اس کے لئے تڑپ رہا ہوں؟شاید اسکا خیال ایسا نہ ہو۔۔۔لیکن خدا جھوٹ نہ بلوائے وہ تو خود ہی بڑی تیزی سے میری طرف آنے لگی تھی۔اگر اسے طلاق نہ ہوتی،اسکا مزید ساتھ رہتا تو پھر شاید اسے میری ہی وجہ سے طلاق مل جاتی یا پھر____‘‘اور سوچ لٹک گئی۔جی ہاں! نفیسہ اسکے ایک اچھے دوست کی خوبصورت اور پیاری ’’شریک حیات‘‘تھی۔جب تک متعلقہ نہیں ہوئی تھی اس کے بے روزگاری کے دنوں کا ایک بڑا حصہ نفیسہ کے گھر انکے بچوں کے ساتھ گزرتا رہا تھا۔’’دن بدن نفیسہ جیسے میرے قریب آرہی ہے۔‘‘کچھ مدتوں بعد اسے یہی محسوس ہوا تھا۔ویسے اسے اپنی شخصیت پر کبھی بھروسہ ہی نہ تھا کہ یہ کسی عورت کو کھینچ سکتی ہے۔’’تو پھر یہ کشش کس کی کارستانی ہے؟‘‘وہ اصل معاملے کی ٹوہ میں ہی تھا کہ طلاق ہوتے ہی نفیسہ کا ساتھ چھوٹ گیا تھا اورٹوہ ختم۔نفیسہ اس سے ناراض تھی کہ اس نے بجائے نفیسہ کی ،اپنے دوست کا’’ساتھ‘‘ کیوں دیا تھا؟سچی بات تو یہ تھی کہ اسے یقین ہی نہ تھا کہ نوت طلاق تک بھی آئے گی۔وہ میاں بیوی کے درمیاں ایک پل بننا چاہتا تھا کہ طلاق کی سواری میں سوار ہو کر دونوں میاں بیوی پہلے ہی جدائی کے پار چلے گئے تھے اور پل درمیان میں لٹک گیا تھا۔
٭٭٭٭٭
شہر کے نامی وکیل اصغرصاحب ہی تھے۔اسے کئی بار فون کرنا پڑا اوراتفاقاً اصغر صاحب کی غیر موجودگی میں فون انکی بہن نفیسہ کو ہی اٹھا نا پڑا ____ اور بات اس پر ختم ہوئی کہ اصغر صاحب اس کے سالے بن گئے۔جی ہاں! اسکی سابقہ’’بھابی‘‘ اسکی بیوی بن گئی اپنے تین بچوں سمیت جن کا درد سر ان کے اس نئے باپ کو ہی لینا تھا تاہم عمر میں اس سے دس سال بڑی انکی حسین اور جوان ماں بھی تو ساتھ تھی جو کسی بھی مرد کے جسم کو کاٹ دینے والے بدن کی مالک تھی۔حساب برابر بلکہ اسکا پلڑا بھاری رہا،خوشی کا پلڑا،جسم کا پلڑا،وہ جسم جس کی لذت یہ دکھ اور افسوس بھی بہا لے گئی تھی اسکی شادی میں اس کے دوست،نفیسہ کے سابقہ شوہر نے شرکت نہیں کی تھی۔
٭٭٭٭٭
’’جب تم میرے گھر اپنے’’دوست‘‘ سے ملنے آتے تھے ،اس وقت میں تمہیں کیسی لگتی تھی؟‘‘ایک دن نفیسہ نے پوچھا جب وہ بسترمیں تھے
’’سچ کہوں؟اس وقت بھی میری نظریں تم پر ایسی پڑتی تھیں جو آج اور ابھی پڑ رہی ہیں،بلکہ میں تو یہ دعا،خواہش کرتا تھا کہ کاش! تم میرے دوست کی بجائے میری بیوی ہوتی،وہ مرجاتا۔‘‘
’’اف! تم کتنے ظالم ہو___‘‘نفیسہ تڑپ کر بولی ۔۔۔۔ وہ جنس کی شدت سے پاگل سا ہو گیا تھا جو یہ اعتراف کرکے ایک خوشی سی محسوس کرنے لگا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے بے حد پیار کرتا ہے۔اب ڈر کہاں؟جو پہلے بھابی تھی اب بیوی ہی تو ہے۔
’’ تو اسکا مطلب ہے کہ مجھے بھابی کہتے ہوئے تمہیں کچھ نگلنا پڑتا تھا۔‘‘نفیسہ سنجیدہ ہوئی۔
’’ ہاں،ہاں۱‘‘ایک اور دل کی بات نکل گئی کہ ’’لمحات‘‘ اب اور تیز ہو گئے تھے۔
پھر اچانک بیوی بلکہ نفیسہ اپنا منہ ،جتنا ہو سکتا تھا،دوسری طرف کر گئی۔
یہ میری جنسی شدت کی غمازی ہوگی___یہ سوچ کر شوہراسکا منہ اپنی طرف کر کے اسے اور بھی تڑپانے لگا۔وہ اور بھی تڑپنے لگی،حتی کہ آ نکھوں سے آنسو تک آ گئے۔
لذت کے بار کے آنسو ہوں گے___شوہر نے یہی سمجھا۔
شوہر کی آخری تڑپ ختم ہوتے ہی نفیسہ یہ کہہ بستر سے اٹھی کہ اپنے کپڑے پہنے گی کہ ہر چیز خلاصی پا گئی ہے۔
’’کپڑے ابھی پہننا ضروری تو نہیں۔‘‘ شوہر نے کہا جیسے کچھ دیر بعد اپنی’’ پرانی محرومی‘‘ کا بدلہ لینے اپنی ہوس کو پھر جگائے گا۔
’’یونہی پہن رہی ہوں۔‘‘نفیسہ نے جواب دیا،’’ بلکہ یوں سمجھو کہ ان کپڑوں سے ایک پرانی بھابی جیسی خوشبو آتی ہے جو تمہیں بہت پسند تھی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کپڑوں کی طرف ہاتھ بڑھا گئی۔اس پر شوہر کو ایک ہلکی سی شرمندگی محسوس ہوئی اور اسکا ذہن اپنے کپڑوں کی طرف بھی گیا۔
کپڑے پہن کر نفیسہ بستر پر آئی اور منہ دوسری طرف کر کے خاموشی سے سونے کی کوشش کر نے لگی تو شوہر حیران رہ گیا کہ پہلے تو باتیں کر کے سوتی تھی۔’’شاید میری ابوالہوسی سے اب بور ہونے لگی ہے۔‘‘یہ سوچ کر شوہر بھی چادر تلے سونے کہ کوشش کرنے لگا کہ اب’’بات‘‘ صبح کو ہی ہوگی۔
رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا اور خواب تھا یا حقیقت کہ شوہر نے دیکھا بیوی بستر پہ بیٹھ کر اسکی طرف ناگن سی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔
’’کیا بات ہے نفیسہ؟‘‘شوہر گھبرا گیا،’’تم مجھے اس طرح کیوںگھور رہی ہو؟‘‘
’’تو اسکا مطلب ہے جب تم مجھے ’’بھابی جان‘‘ کہتے تھے تو وہ میرا اصل خطاب نہیں تھا،ایک احترام نہ تھا،بلکہ ایک غلیظ لبادہ تھا۔ اپنے دوست کی بیوی کو غلط نظروں سے دیکھنا،دوست سے دغا،منافقت،کیا یہ سب ایک سچی محبت کے لئے ضروری ہیں؟اگر ایسا ہے تو اخلاقیات کا خدا ہی حافظ۔مجھے تمہارے اعتراف سے گھن آگئی تھی۔اس سے مجھے قے آرہی ہے،اس قے کو کس کے منہ پہ دے ماروں؟جواب دو!۱‘‘ وہ چیخ پڑی اور___؟اور شوہر کی آنکھ کھلی۔دیکھا کہ سو رہی بیوی کے چہرے پہ ایک نفرت سی بچھی ہوئی ہے۔
’’شاید نفرت کا ایک تیز خنجر لئے نفیسہ مجھے خواب میں دیکھ رہی ہے___‘‘یہ سوچ کر شوہر سونے کی کوشش کرنے لگا لیکن صبح تک سو نہ سکا۔
(ختم شد)