ناشتے کی میز پر آملیٹ، پراٹھے، چائے وغیرہ
سب کچھ رکھنے کے بعد اس نے دیکھا کہ نیپکن والی پلیٹ خالی ہے۔ وہ بھاگ کے گئی اور کچن کی کیبنیٹ میں سے اپنے ہاتھ کے بنائے نیپکن لا کے پلیٹ میں رکھ دیے۔
اس کا مجازی خدا حسبِ عادت اس کے
اپنی نشست پر بیٹھنے سے پہلے ہی ناشتہ شروع کر چکا تھا۔
ایک سال ہو چکا تھا شادی کو۔ شروع کے چند ہفتے ایک دوسرے کے ساتھ لقمے سے لقمہ ملا کے کھانے والے بہت جلد اس سحر سے نکل آئے۔
نکل آئے کہنا بے جا ہو گا۔ کیونکہ مجازی خدا بدلا تھا وہ نہیں۔ وہ آج بھی ویسی کی ویسی تھی۔ آج بھی ناشتے کی میز پر بیٹھتے ہوئے اس کا دل بجھ سا گیا۔
کچن سے آتے آتے اک گمان سا تھا کہ شاید آج ہی وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے اس کے آنے کا منتظر ہوگا۔ لیکن یہ خواہش خوش فہمی ہی رہی۔
ناشتہ کر کے جب تک وہ گاڑی کی چابی، موبائل، والٹ اور دیگر کاغذات اٹھاتا اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو کے لپ سٹک ذرا سی ڈارک کی۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ وہ اس کے چہرے پر نظر ڈالے بنا، ہاتھ ملائے بنا، گلے سے لگائے بنا چل دے گا۔
یہی ہوا۔ اس نے دیکھا ہی نہیں کہ اس کی نصف بہتر اس کی ایک نظر کی منتظر کسی ٹھہرے ہوئے لمحے کی طرح کھڑی ہے۔
وہ چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی وہ بستر پر ڈھے سی گئی۔ اچانک اس نے مجازی خدا کے موبائل کی گھنٹی سنی۔ موبائل چارجنگ پر لگا بھول کے وہ چلا گیا تھا۔ حالانکہ ایسی غلطی اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ نمبر اس کے ایک ایسے دوست کا تھا جسے وہ سخت ناپسند کرتی تھی۔ ایک ایسا دوست جو اس کے شوہر کے بیوی کے پاس جلد گھر لوٹنے میں ہمیشہ رکاوٹ بنتا تھا۔ کبھی کسی نئے ریسٹورنٹ پر کھانا کھانے لے جاتا، کبھی سینیما میں فلم دیکھنے لے جاتا اور وہ صبرکر کے رہ جاتی۔
ایک بار ان کے درمیان ناراضگی ہو گئی۔ ناراضگی جھگڑے اور پھر الگ ہونے تک جا پہنچی۔ وہ جیسا بھی تھا اس کا شوہر تھا اور اسے بہت پیارا تھا۔
وہ دن اس نے کس اذیت میں کاٹے یہ اس کا دل جانتا تھا یا خدا۔ اس نے اپنے مجازی خدا کے اسی دوست
سے گزارش کی کہ اس سے رابطہ نہیں ہو رہا کچھ راہ نکالے۔ پھر جب وہ اسے ڈھونڈتی ہوئی دفتر دفتر پلازہ تا پلازہ گرمی میں بھٹک رہی تھی تو اسی دوست نے بار بار کال کرنے پر یہ کہہ کے کال کاٹ دی تھی کہ مجھے تو اس معاملے میں سے نکال ہی دیں۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا۔
اس کا جی تو چاہا کہ منہ توڑ جواب دے کہ میرے شوہر کو ریسٹورانٹس، سینیما ہاؤس اور دعوتوں میں لے جانے کے لیے آپ کے پاس بہت وقت ہے؟ گندی ویڈیوز اور فحش لطیفے بھیجنے کے لیے بہت فرصت ہے؟
لیکن آنسوؤں سے رندھے گلے سے آواز نہ نکل سکی تھی کہ کال کاٹ دی گئی تھی۔ اسی دوست کی کال دیکھی تو اس نے اٹینڈ کر لی۔ اتنے میں مجازی خدا موبائل لینے آ گیا۔ تو اس نے موبائل اسے دے دیا۔ اس نے کال پر بات کی اور دوسری جانب مخاطب دوست سے کہا۔
“ایک گھنٹے تک آ جاتا ہوں”۔
وہ تلملا کے رہ گئی۔ وہ چلا گیا۔ چار دنوں کے بعد آفس گیا تھا۔ اب کہاں ہو گا۔ کس کے آفس میں ہو گا۔
کون اس کے ساتھ ہو گا۔ کال کروں ؟ نہ کروں ؟
کال کی تو اس نے حسبِ عادت اٹینڈ نہ کی۔ وہ بجھ کے رہ گئی۔ دل جلتا رہا۔ اور شام ہو گئی۔
شام کو میسینجر پہ میسیج کیا۔ وہ آن لائن تھا۔ لیکن اس کا میسیج ۔۔۔۔۔۔۔ دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔
واٹس ایپ پر جا کے میسیج کیا۔ کال کی۔ ہر جگہ اس کے لیے منہ چڑاتی ہوئی خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔
پھر رات ہو گئی۔ اس نے کچھ میڈیسن منگوانی تھی۔ کال کی تو وہ کسی اور نمبر پر کال پہ تھا۔ دو بیل کے بعد اس نے کال کاٹ دی۔ کچھ دیر کے بعد اس نے کال بیک کی۔
“آ رہا ہوں”
اس کے تڑپتے ہوئے دل کو بلکل بھی سکون نہیں ملا۔
کوئی خوشی نہ ہوئی۔ اس لیے نہیں کہ محبت مر گئی تھی۔ بلکہ اس لیے کہ آ رہا ہوں کا مطلب یہ تھا کہ اس کا وجود آ رہا تھا۔ دل تو جانے کہاں تھا۔
اپنی پیار کرنے والی شریکِ حیات سے بے نیاز۔ لیکن وجود، وجود آ رہا تھا۔ ہر روز کی طرح، صرف وجود،
آج بھی وہ آیا۔ نہا دھو کے کپڑے تبدیل کیے۔ کھانا لگانے تک وہ موبائل کے دربار میں اپنی پنہاریوں کے حضور حاضری لگوا چکا تھا۔ کھانا کھایا۔ ٹی وی کے سارے نیوزچینل بدل بدل کے دنیا بھر کی خبریں دیکھیں۔
بے خبر رہا تو صرف اسی سے، جو اس کے لیے بریکنگ نیوز بننے کی طلب میں لمحہ لمحہ مر رہی تھی۔ سارے دن کے کاموں نے اس صنفِ نازک کو تو نہیں تھکایا۔ لیکن وہ مجازی خدا تھکن کی سیڑھی چڑھ کے نیند کے بالاخانے جا پہنچا تھا۔ جہاں جانے کیسی کیسی دل رُبا جامِ ادا لیے اس کی منتظر تھی۔ وہ سو گیا تو وہ بھی آ ہستہ سے جا کے اپنی سائیڈ پر لیٹ گئی۔
وہ نیند میں تھا یا نہیں، لیکن اس کے ہاتھوں نے کسی روبوٹ کی طرح میکانکی انداز میں اپنی بائیں جانب ٹٹول کے دیکھا۔ کہ اس کی مفتوحہ اپنی جگہ ہے کہ نہیں۔
اس نے کہاں جانا تھا۔ سچی محبت کے دعویداروں سے لے کے عاشق مزاج و دل پھینک مردوں تک اسے کس کی کمی تھی۔ لیکن وہ تو فتح ہو چکی تھی۔ اب کسی اور کی دسترس میں نہیں آ سکتی تھی۔
ہر آنکھ سے چشم پوشی کر کے، ہر چہرے سے صرفِ نظر کر کے وہ صرف اور صرف اپنے مجازی خدا کی تھی۔
ایک رات جب وہ فتح و شکست کے کسی ایسے ہی پل صراط سے گزرنے جا رہی تھی تو اچانک اس نے کہا
“سنیے”
“چُپ”
“میری بات سنیے”
“صبح سنوں گا ، ابھی نہیں”
“ابھی سنیں گے ورنہ کبھی نہیں،
آج آپ کو یہ جان کے بے حد دکھ ہو گا کہ ہمارے درمیان کوئی تیسرا آ چکا ہے”
“کیا” ؟
وہ اچانک جیسے بجلی کے ننگے تار سے چھو گیا ہو۔
“پوچھیں گے نہیں کون ہے وہ”
“پاگل ہو گئی ہوتُم”؟
“ہاں پاگل ہی ہو گئی ہوں،
ایک نابینا آ گیا ہے ہمارے درمیان، سارا دن جب میرا دل آپ کی بے اعتنائی بے نیازی، سرد مہری اور کم نظری کی آگ میں جلتا ہے اور رات کو جب آپ بستر میں اپنے ہاتھوں سے مجھے دیکھتے ہیں تو لگتا ہے جیسے میں کسی نابینا کی بیوی ہوں، میرا سجا سنورا یا مرجھایا چہرہ نظر نہیں آتا، میری آنسو پیتی آنکھیں دکھائی نہیں دیتیں، میں نے کس رنگ کا لباس پہنا ہے نہیں دیکھتا، میری خلاؤں سے باتیں کرتی نظر دکھائی نہیں دیتی، بستر پر اپنے ہاتھوں کے لمس سے مجھے دیکھنے والا نابینا ہو تم، کاش! میں کسی اندھے سے شادی کر لیتی تو سارا دن اس آگ میں تو نہ جلتی جس پر رات کا تیل ڈال کے تم اور بھڑکا دیتے ہو، نہیں بجھتی، میری پیاس نہیں بجھتی، میں وجود نہیں، روح کی پیاسی ہوں، دل کی بھوکی ہوں، میں ۔۔۔۔۔۔۔ ”
اس نے بات کاٹتے ہوٸے کہا
” تم ، ناشکری عورت ہو تم”
(انتخاب : ظفر معین بلے جعفری)