وہ گہری اور میٹھی نیند سونا چاہتا تھا۔۔۔۔دیر تک سونا چاہ رہا تھا۔جیسے کبھی ماں کی گود میں سویا کرتا تھا۔۔دھرتی ماں کی ساری ٹھنڈک اس کے لاغر جسم میں جذب ہو چکی تھی۔وہ پہلو بدل بدل کے تھک گیا۔۔کبھی ننگی زمین کی ٹھنڈک تو کبھی ٹریفک کا شور۔۔۔۔مگر وہ پھر بھی آنکھیں موندے پڑا رہا۔آخر جب سورج کی کرنیں بھی جلانے،ستانے لگیں تو جھنجھلا کے اٹھ بیٹھا۔۔۔سردی لگنے سے اس کا جسم اکڑ چکا تھا۔۔۔۔۔۔انگ انگ دکھ رہا تھا۔۔۔اس نے سرخ آنکھوں سے پہلے زمین کو حقارت سے دیکھا پھر جلتے سورج کو۔۔۔۔اس کے سامنے اپنے ماں اور باپ کا چہرہ لہرا گیا۔۔
” تھوووو”
وہ اٹھ کے ایک طرف کو چل دیا۔۔۔۔چوک کے اس طرف رنگ برنگے کھانوں کی خوشبوئیں اسکی بھوک بڑھا رہی تھیں۔۔اس نے اپنی ادھیڑی ہوئی جیبیں ٹٹولیں۔۔۔۔
” دھت تیرے کی ”
وہ اضطرابی کیفیت میں بڑبڑاتا ہوا تیز تیز چل پڑا۔۔۔کتنی ہی سڑکیں ،گلیاں اور میدان عبور کر کے وہ آخر کار منڈی پہنچا۔نقاہت کے باعث چلنا دو بھر تھا۔مگر جیسے تیسے ٹرک سے بوریاں اتارنے لگا۔گھنٹہ بھر کی مشقت کے بعد نڈھال ہو چکا تھا۔اپنی مزدوری لے کے واپس انہی رستوں پہ چل دیا۔معمولی درجے کے ہوٹل پہ جا بیٹھا۔مالک نے دیکھتے ہی ہانک لگائی ۔
” اوے! پیسے ہیں تو ٹھیک نہیں تو بھاگ ۔۔۔”
اسکا جی چاہا اس ہوٹل والے کی جان لے لے مگر تھوک نگلتے ہوئے بولا۔۔
” ہیں۔۔۔دال روٹی دے دو”
چھوٹا ایک پلیٹ دال اور دو روٹیاں رکھ کے چلا گیا۔اس نے منٹوں میں دو روٹیاں ہڑپ کر لیں۔۔۔اسکا جی چاہا اور بھی کھائے مگر جیب پہ ہاتھ رکھ کے چپ ہو گیا۔چائے کی خوشبو اسے پاگل کرنے لگی مگر نہیں۔کھانے کے پیسے دے کے اسکے پاس صرف آج کے سگریٹ خریدنے کے پیسے بچے تھے۔نہ جانے کیا سوچ کے جاتے جاتےمیز پہ پڑا اخبار اٹھا کے جیب میں ٹھونسا اور دوبارہ پل کی جانب روانہ ہو گیا۔۔پل کے نیچے بہت سے بے گھر نشئی بے چین سے بیٹھے تھے۔وہ بھی ایک طرف چپ چاپ کھڑا ہو گیا۔۔۔کچھ دیر کے انتظار کے بعد نشہ فروش آیا اور زہر بانٹ کے چل دیا۔اس نے بھی سگریٹ خریدے۔ پراسرار خاموشی سے پل کے اس پار آبادی کی طرف نکل گیا۔عین چوک کے وسط میں جا بیٹھا۔سگریٹ جلایا،کش لیتے اسے اخبار یاد آیا۔اس نے اخبار نکالا اور اسے کھول کے پڑھنے لگا۔۔
“کارل مارکس کا نظریہ اشتراکیت”۔۔۔۔۔ہاہاہاہا۔۔۔”.
پاس سے گزرتی خواتین نے سرگوشی کی۔
” اللہ! پاگل بھی اخبار پڑھنے لگے ہیں ۔”
وہ بڑبڑایا
” تمھارا باپ پاگل ”
اور دوبارہ پڑھنے میں محو ہو گیا۔اخبار ہاتھوں میں مروڑتے اس نے سر دیوار سے ٹکا دیا۔وہ دور کہیں ماضی میں کھو گیا۔اپنے دور کا شاندار لڑکا۔۔۔لائق طالب علم،بہترین مقرر۔۔کالج کی تقریب میں سٹیج پہ کھڑا کارل مارکس کے نظریات پہ تقریر کر رہا ہے۔۔سب اس کی شعلہ بیانی پہ واہ واہ کر رہے ہیں۔۔۔۔تقریر ختم ہوتی ہے۔۔۔تالیوں کی گونج ۔۔۔۔۔وہ زیر لب مسکراتا، ٹائی درست کرتا ہوا نیچے اترتا ہے۔۔۔معاشیات کے پروفیسر نے بڑھ کے تھپکی دی۔۔۔
” ویری ویلڈن مسٹر احمد!”
وہ بڑے ہی کرب سے مسکرایا
” احمد …احمد۔۔۔ا ۔۔۔ح۔۔۔مد”
منظر بدل گیا۔،کسی قاتل حسینہ کا ادھورا عشق۔۔۔۔بے وفائی کا دکھ، برے دوست ، نشے کی لت اور چھوٹے موٹے جرائم معمول بن گئے۔۔آئے دن باپ کی مار،خاندان کے طنعے ،رشتہ داروں کے طنزیہ جملے۔۔۔اب تو بہن بھائی اور ماں بھی کترانے لگی تھی۔۔۔۔اہ ایک ناکارہ شخص۔پھر باپ نے فیصلہ سنا دیا۔
“سدھر جاو یا گھر چھوڑ دو۔۔”
بہن بھائی کہنے لگے۔
” دوستوں میں شرمندگی ہوتی ہے جب سب کہتے آپکا بڑا بھائی نشہ کرتا ہے۔”
ماں بھی رو کر بولی۔
” جوان بہنیں ہیں تیری۔ رشتے نہیں آتے کہ نشئی ہے انکا پتر ”
سب اپنوں کے درمیان وہ اکیلا۔۔۔۔احمد۔
ایک کالی رات وہ جی بھر رویا۔آخری بار سب اپنوں کو سوتے میں دیر تک دیکھا،اور پھر اندھیروں میں گم ہو گیا۔ جہاں اسکی کوئی شناخت نہ تھی۔۔وہ کسی کا بیٹا،بھائی ،رشتہ دار نہ تھا۔وہ احمد نہ تھا۔اسکے بہت سے نام تھے۔پاگل،چرسی،دیوانہ ،نشئی۔۔
جن دوستوں کے تکیے پر اس نے گھر چھوڑا تھا وہ بھی ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑ گئے۔۔۔اب مہینوں سے بے گھر کبھی اس پل کے نیچے کبھی اس پل کے نیچے زندگی کو جھیل رہا تھا۔اچھا خاصا خوش شکل نوجوان حال جلیے سے سودائی لگ رہا تھا۔۔۔
اس کے ان دھلے چہرے پہ شفاف آنسو لکیریں کھینچتے ہوئے داڑھی میں جذب ہو گئے۔۔وہ پھٹی آستین سے آنسو صاف کرتے ہوئے بڑبڑایا۔۔۔۔۔
” احمد!”
ذات کے نہاں خانوں سے دبی دبی ،گھٹی گھٹی سی سسکیاں سنائی دینے لگیں۔۔۔ ۔۔وہ با آواز بلند قہقہے لگانے لگا۔۔۔۔۔
“ہاہاہاہا۔ہاہاہا ۔۔۔۔”
باہر کا شور اندر اٹھتے شور کو دبانے میں کامیاب رہا۔۔
جی بہلانے واسطے وہ دیوار پر بیٹھ کر زندگی کی رونق دیکھنے لگا۔آنکھوں سے دھند ہٹی تو دنیا اسے نئی نئی لگی۔بھرے پیٹ اس کے اندر ایک بھرپور مرد نے انگڑائی لی۔وہ نظر بھر کے راہ چلتی لڑکیوں کو گھورنے لگا ۔وہ بیچاری سہم کے تیز تیز قدم اٹھاتی ۔۔ یہ جا وہ جا۔۔اس منظر نے اس کی کئی خوابیدہ حسوں کو بیدار کر دیا۔پاس سے گزرتی فربہ اندام عورت کو انتہائی بےصبری سے دیکھنے لگا۔۔۔۔وہ بوکھلا سی گئی اور تنک کے بولی۔
” لکھ لعنت وے۔۔۔لگدا گھر ماں بہن نہیں تیری۔۔۔۔”
وہ بیزار سا ہو کے اخبار کو پلٹنے لگا۔اس نے اپنی خالی جیبوں کو پلٹا۔ چند نوٹ نہ تھے کہ وہ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے کسی اندھی گلی میں کچھ دیر کو روپوش ہو جاتا۔اس نے اخبار کے ٹکڑے کیے اور دور پھینک دیے۔وہ غصے میں تلملایا۔
” اہ ری غربت! یہ پیسہ اور یہ عورت۔۔۔۔ہر نشے سے زیادہ طاقتور نشے ہیں۔۔۔۔مارکس۔۔۔اشتراکیت۔۔۔۔احمد کی تقریر۔۔۔۔۔گہرا تعلق ہے مرد اور پیسے کا۔۔۔۔ہر خواہش کی تکمیل نوٹوں سے جڑی ہے ۔۔اور میں بے بس نشئی۔”
اس نے دوسرا سگریٹ سلگا لیا۔۔لمبے لمبے کش لگانے لگا۔
” اہ ۔۔۔کمبخت جسم ! تیری اندھی خواہشات۔۔۔۔ پہلے جنت سے نکلوایا۔۔۔۔اب دنیا سے ذلیل ہو کے نکالا جاوں گا۔۔۔۔جہنم میرا مقدر ہو گی….ہاہاہاہاہاہا”
وہ نشے کی کیفیت میں ڈوب کر موجودہ خواہش سے فرار چاہ رہا تھا۔مگر آج تو یہ سگریٹ بھی پھیکا تھا۔کوئی منظر دھندلا نہ ہوا،نہ ہی خمار چھایا۔
” نشہ کیا ہے۔۔۔۔؟” اہ یہ بے بسی”
اس کا دل چاہا وہ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے چرس سے بھی بڑا کوئی نشہ کرے مگر وہی خالی جیب آڑے تھی۔
اس کے دل دماغ اور سارے جسم میں ایک ہی خیال سرایت کر چکا تھا۔۔۔عورت۔۔عورت۔۔ وہ پاگل ہو چکا تھا۔رومانوی کیفیت اب حیوانیت کا روپ دھار چکی تھی۔وہ دیر تک دیوار پہ بیٹھا سگریٹ کی طرح سلگتا رہا۔اپنے الجھے بال نوچتا رہا مگر خواہش کا یہ وبال سر سے نہ اترا۔دور کچی بستی کے باہر کھیلتی چھوٹی لڑکیاں۔ان کی ہنسی۔۔۔۔۔۔بازار میں پھرتی نازک لڑکیاں۔۔۔۔ اور یہ مکمل عورتیں۔۔۔۔عجیب ہے کسی پہ بھی اس کا حق نہیں ۔۔۔کسی تک رسائی نہیں ۔۔۔۔نامعتبری سے بھی بڑا دکھ نارسائی کا ہے۔۔۔
” ہر لڑکی عورت ہوتی”
شیطان نےاسے بہکایا۔۔۔۔اسے معصوم بچیوں میں مکمل عورت کے خدوخال نظر آنے لگے۔اس نے آخری بار اپنے اندر کے احمد کو آواز دی۔۔۔مگر شیطانیت غالب آچکی تھی۔۔احمد اندھے کنوئیں سے نکلنے کی کوشش میں ہی تھا کہ وہ اٹھا اور دبے پاوں شکار کی طرف بڑھ گیا۔۔اخبار کا ٹکڑا اسکے پیر سے لپٹ گیا۔نامعتبر شخص اسے روندتا ہوا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔کاغذ کچھ دیر شدت سے پھڑپھڑایا اور پھر بے دم سا ہو کے گر گیا۔