(Last Updated On: )
اللہ کسی کو اولادوں کی قطار میں بیچ کی اولاد نہ بنائے، انہیں نہ تو بڑی اولا جیسا مان سمان ملتا ہے اور نہ ہی چھوٹوں جیسا لاڈ دلار ،
بس ذمہ داریوں کی جکڑ بندیاں ہی نصیب ہوتی ہیں۔ اللہ کی کرنی کہ ہم سات بھائی بہن اور میں دکھیا اوپر سے گنو تو چوتھی، نیچے سے شمار کرو تو بھی کسی قطار میں نہیں۔ عمر گزری بڑے تین کی جی حضوری کرتے اور چھوٹے تین، اللہ کی پناہ !! گویا
بے قصور کے قصوری۔
ابا ٹھہرے ذاتی ملازم سو درد سری زیادہ اور آمدن ماندہ، گورنمنٹ کی نوکری کی عیاشی تو تھی نہیں کہ ایک بار نوکری لگ گئی تو لگی ہی رہی اور بات اب ریٹائرمنٹ پر ہی منتج ہو گی۔ پرائیویٹ نوکری کے جوکھم ہزار ۔ ابا اللہ رکھے کثیر العیال اور مزید تکلیف دہ بات کہ بیوی درد شقیقہ کی مریض بھی۔ گنجان آبادی میں دوسرے مالے پہ تین کمروں کا کابک نما فلیٹ، وہ بھی مشرقی رخ پر حبس زدہ ، گھٹا ہوا تاریک فلیٹ کہ ارد گرد بلند و بالا نئی نئی لشکتی عمارتوں نے اس کہنہ چار منزلہ بلڈنگ کا جیسے گھیراؤ کیا ہوا تھا، فقط ایک شکستہ سی بالکونی جہاں سے بالشت بھر آسمان دیکھنا ممکن مگر وہاں بھی ڈوپٹہ کی بکل مار کے تبھی جانے کی گنجائش، جب سبزی والے کی سماع خراش آواز گلی کے نکڑ سے بلند ہو۔ گنجان پتلی گلی طرح طرح کی دکانوں سے چھلکی پڑتی تھی اور بالکونی میں قدم رکھتے ہی اطراف سے آنکھیں اگ آتیں۔
میرا بیشتر وقت باورچی خانے میں گزرتا اور باورچی خانہ تاریک تو تھا اب چکٹاہا بھی ہو چکا تھا کہ صفائی کا وقت ناپید۔ ناشتے کی تیاری سے جو میں باورچی خانے کو پیاری ہوتی تو اللہ جھوٹ نہ بلوائے کہیں رات کے کھانے کے بعد ہی خلاصی نصیب ہوتی۔ بیچ میں کالج کا رولا بھی تھا، شکر کہ گورنمنٹ کالج دور نہ تھا اور میں پیدل ہی آتی جاتی۔ بارہ بجے بھاگم بھاگ گھر پہنچتی اور پھر صبح کے برتن، مختصر سے فلیٹ کی صفائی جو عین صفائی کے وقت جانے کیسے اپنا حدود اربعہ بڑھا لیا کرتا تھا۔ بکھرا گھر میدان کار زار کا سماں پیش کرتا ۔ پھر تیزی سے دن کے کھانے کی تیاری کہ تین چھوٹے اسکول سے طبل جنگ بجاتے ہوئے وارد ہوتے۔ کہنے کو تو گھر میں آپا بھی تھیں، مگر صرف کہنے کی حد تک۔ سب سے بڑے احسن بھیا، ارجمند آپا، مدثر بھائی پھر ناچیز یعنی تابندہ عرف منی اور پھر قافیہ سے قافیہ ملاتے ہوئے کفیل، شکیل اور عدیل۔ آپا ٹھہریں حسین عالم، چاندی میں ڈھلی اور نازوں میں پلی، سو نخرے ان پر سجتے تھے۔ اماں کی ممتا شروع کے دونوں بچوں پر خوب شوریدہ سر رہی پر مجھ تک آتے آتے اس کے سوتے خشک ہو چکے تھے۔ میرے بعد کے تینوں چلڑوں کو محبت بطور تبرک ہی سہی پر ملی ضرور کہ خیر سے سپوت جو ٹھہرے۔ رہی میں، تو فاضل کندہ تھی سو گرہستی کے بھاڑ میں جھونک دی گئی ۔
بھیا یونیورسٹی میں تھے اور نہایت دھماکے دار ڈیبیٹر، اکثر اوقات گھر بھی پوڈیم ہی تصور کیا جاتا۔ بجو پہ آج کل لکھنے کا شوق سوار تھا لہذا وہ کالج سے آنے کے بعد اپنی مخروطی انگلیوں میں قلم تھامے خلا میں تکتی اپنے افسانوی کرداروں کو پکڑ پکڑ کر گھیرتی رہتیں۔ اماں کو ازلی کمزوری ، وہ کشتے اور معجون کے ساتھ پان سے تو شغل کرتی ہی تھیں مگر گھڑی گھڑی مبتلاء چیاس بھی رہتیں، اس لیے ایک چولہا تو صرف ان کی چائے کی کیتلی کے لیے ہی مختص رہتا ۔ مدثر بھائی کی بھی قسمت نے یاوری کی اور اب انہیں ریڈیو کراچی کے ڈراموں میں ہلکے پھلکے کردار ملنے لگے تھے۔ میں بیچ کی کیا ہوئی کہ ماٹھی ہی رہ گئی ۔ عقل میں سب بھائیوں اور بہن سے کمتر، مجھ میں تیزی تو نہیں تھی مگر ذہن اچھا تھا، حالانکہ کالج میں صرف کلاس کے دوران ہی جو پڑھتی تھی سو پڑھتی بھلا گھر میں کہاں فرصت نصیب جو کتابیں کھلتی مگر پھر بھی انٹر بغیر سپلی کے پاس کر لیا۔ مجھ سے چھوٹی چلڑ پارٹی بھی پڑھائی اور کھیل کے میدان میں نمایاں ۔ دراصل میرا کنبہ بہت ٹیلنٹڈ تھا اور ہر کوئی کسی نہ کسی ہنر میں یکتا، بروغ گردن راوی شنید ہے کہ کبھی ابا جان بھی سخن کے قرینے سے ایسے آراستہ تھے کہ ان کی موجودگی میں محفل کشت زعفران رہتی۔ ابا جان بڑی ہی شاندار شخصیت رکھتے تھے، خوش وضع اور صاحب جمال۔ اماں بھی بھلے وقتوں میں شاعری کیا کرتی تھیں مگر یہ سب میرے بچپنے کے قصے تھے کہ اب ابا جان قدرے تنک مزاج اور اماں چڑچڑی تھیں۔ اس ہنر مند گھرانے میں واحد میں ہی تھی جو ٹیلنٹڈ نہ تھی ۔ مجھے فقط کھانا پکانا آتا تھا اور یہ کوئی ایسی قابل ذکر و قدر خوبی نہ تھی کہ یہ تو ازل سے حوا کی بیٹیاں کرتی آ رہی ہیں۔ شاید کھانا پکانا ضرورت تھا ٹیلنٹ نہیں، گو کہ میری ضرورت سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں تینوں وقت ہوتی جو ضرب دیجیے تو سال میں 1095 بار مگر میری پزیرائی عید تو چھوڑیے صفر کے چاند جتنی بھی نہیں تھی۔
ایک شام میں نے بھیا کو چائے کی کپ پکڑاتے ہوئے پوچھا تھا کہ بھیا یہ آپا کیسے کرداروں کو گھڑ لیتی ہیں؟
بھیا نے جھٹ اپنی فائل میں سے ایک تصویر نکال کر مجھے دکھائی اور پوچھا کہ بتاؤ اس تصویر میں کیا ہو رہا ہے؟
تصویر میں دو قیدیوں کو پینٹنگ کرتے دکھایا گیا تھا، ایک قیدی نے قید خانے کی سلاخیں پینٹ کیں تھی اور دوسرے نے ٹوٹی ہوئی دیوار اور شفاف آسمان میں اڑتے پرندے۔ پوچھا کہ تمہیں کون سا قیدی صحیح لگ رہا ہے؟
میں نے کہا جس نے سلاخیں پینٹ کی ہیں۔ بھیا خوب ہنسے اور کہا بس یہی فرق ہے ارجمند اور تم میں منی۔
لو یہ کیا بات ہوئی؟ تصور کرنے سے بھلا حقیقتیں تھوڑی بدلا کرتی ہیں۔ ایک تو مجھے اپنے اس پکارو نام” منی ” سے شدید چڑ تھی، پر جیسے سنو مُنّی مُنّی ، میرا جی جل کے خاک ہو جاتا ۔
آپا کی شادی کے بعد میرا کالج جانا بند ہو گیا کہ اماں کا درد شقیقہ بڑھتا گیا۔ آپا سدا کی قسمت کی دھنی کہ میاں ملا تو والا و شیدا اور سسرال بھی پہلا تحفہ اولاد نرینہ کی صورت پا کر رطب اللساں۔ کچھ لوگوں کی قسمت واقعی اللہ تعالیٰ سونے کے قلم سے لکھتے ہیں۔ اب تو آپا کی نگارشات ڈائجسٹوں میں چھپنے لگی تھیں اور وہ مستند قلم کار گنی جاتیں۔
اس بیچ مدثر بھائی کو باہر کا چانس مل گیا اور وہ مقسط سدھارے۔ احسن بھیا معاشیات میں ماسٹرز کر کے محکمہ شماریات میں لگے اور اماں کو ان کے سر پر سہرا سجانے کی ہڑک اٹھی اور قرعہ فال نکلا ہماری پھوپھی زاد دل آرام کے نام، جو صرف اور صرف بھیا کے دل کا آرام ثابت ہوئیں اور باقی گھر والوں کے لیے محض نام۔
زندگی چلتی رہی پر میرے نصیب کی گرہن باقی تھیں کہ دور دور تک کوئی بھی میرا سوالی نہ تھا۔ میں جانے کیسی بیری تھی جس پر کوئی پتھر ہی نہ آتا تھا حالانکہ میں کئیوں سے بہتر کہ اچھا ناک نقشہ اور گورا چمکتا رنگ، ہاں میرا قد ضرور کم تھا جِسے میں اپنی تسلی کے لیے بوٹا کہہ لیتی، پر بابرہ شریف کون سی سرو قد تھی؟
وہ تو زمانے تک ناظرین کے دلوں کی دھڑکن رہی۔ طبیعت میری خاصی ہنسوڑ کہ میں بات نہ دل پر لیتی اور نہ ہی دل میں رکھتی۔ میرا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ میں شارپ اور چرب زبان نہیں تھی۔ رویوں کو سمجھتی ضرور تھی مگر مخمل میں جوتا لپیٹ کر مارنے کے فن سے نا آشنا۔ میری دوسری نادانی کہہ لیجیے کہ مروجہ فیشن کے مقابلے میں کمفرٹ کو ترجیح دیتی اسی لیے نہ کبھی پنسل ہیل پہنی اور نہ بلاک۔ گفتگو بھی سادی سودی ہوتی، لچھے دار نہیں اور میں طرح دار تو بالکل نہیں، ہاں مگر رچ کے ذمہ دار ضرور۔
اماں کی صحت گرتی جا رہی تھی اور وہ میری شادی کی فکر میں ہلکان تھیں۔ پھر قسمت نے یاوری کی اور مستنصر کا رشتہ آیا جو اماں ابا کو مناسب لگا اور مستنصر کو چائے کی پیالی پکڑاتے ہوئے میرے بھی دل کو بھایا۔ مستنصر بالکل ابا ہی کی طرح وجیہہ و شکیل اور قد آور تھے اور پی این ایس میں تازہ تازہ بحیثیت فرسٹ انجینئر بھرتی ہوئے تھے۔ میں اس رشتے پر بہت بہت خوش تھی کہ مستنصر ابا جیسے اور میں اماں سےخاصی مشابہہ ۔ اماں بہت خوب صورت اور کامنی سی، وہ خوشنما رنگین سوتی ساڑی پہنے، چوکی پر بیٹھی مسکراتی بہت سجتی اور ان کے واری صدقے جاتے ابا مجھے بہت بھاتے۔
ابا لحیم شحیم اور اماں نہایت مختصر سی مگر دونوں کی محبت بہت توانا تھی۔
میری سسرال میں صرف مرد ہی مرد تھے، میرے سسر، مستنصر اور دیور انصر، چھوٹا سا خاندان۔ میں بہت آسانی سے اپنے سسرال میں ایڈجسٹ ہو گئی ۔ شادی کے شروع کے دن اچھے گزرے، مستنصر شاید بہت کم گو تھے، بلکہ اس گھر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کرتا تھا اور سب کی اپنی لگی بندھی روٹین تھی۔ سسر سے البتہ میری اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ مستنصر زیادہ تر سمندری سفر پر ہوتے اور جب مہینوں بعد گھر لوٹتے تو سو سو کر اپنی تھکن اتارتے۔ میں نے مستنصر سے دل و جان سے محبت کی کہ ایک اس جذبے کو میں بچپن سے ترسی بلکی ہوئی تھی۔ مستنصر پر میں نے دونوں ہاتھوں سے بھر بھر محبت کے خم لنڈھائے مگر شاید بہتات بھی اہمیت کم کر دیتی ہے۔ میں بھول گئی تھی کہ فراوانی ہمیشہ ارزانی ہی لاتی ہے یا شاید مجھے محبت کرنی نہ آئی کہ میں بیوی تو بنی اور ماں کی طرح میاں کا خیال بھی رکھا مگر شاید محبوبہ اور دوست کا روپ سروپ نہ دھار سکی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مستنصر نے اس محبت کو اپنا ازدواجی حق جانا لہذا انہوں نے صرف وصول کیا اور محبت دینا یکسر بھول بیٹھے۔ کیا کیا جائے کہ محبت کا اپنا وکھرا مزاج ہے، یہ اگر یک طرفہ ہو تو زندہ تو بےشک رہتی ہے مگر پھلتی پھولتی نہیں کہ اس کو ہمیشہ توجہ کا پانی اور لمس کی گوڈی چاہیے ورنہ شجر محبت مرجھا اور چر مرا جاتا ہے۔
ان کی بے مہری و بے قدری نے میری محبت کی شوریدہ سری کو کم کرتے کرتے محض تین چار سال کے مختصر عرصے ہی میں فرائض کی بجا آوری تک محدود کر دیا۔ ہم دونوں چپ کی گھپا میں تھے۔ وہ باہر کی دنیا کے باسی اور میں گھر کی قیدی۔ اس حبس اور گھٹن میں ہمارے دو بیٹے تبریز اور گلریز ہو گئے اور اسی محبت کی حدت سے عاری گلیشیر میں پروان چڑھتے رہے۔
مستنصر مجھ سے جتنا بھی لاتعلق سہی مگر بچوں میں دلچسپی ضرور رکھتے تھے کہ ان کے معمولات پر ان کی نظر رہتی تھی۔ انہیں مجھ سے جو شکایتیں تھی وہ باخدا میرے سر پر سے گزر جاتی تھیں۔ انہیں ہائی ہیل پسند تھی اور میں نے ان کی خاطر اپنی پوری جان کھپا کر گھر میں ہائی ہیل پہن کر سر پر ایک موٹی سی کتاب رکھ کر سہج سہج چلنے کی کئی بار پریکٹس کی مگر خاطر خواہ کامیابی نہ ملی، الٹا دو دفعہ پیروں میں موچ کے عوض مستقل درد مول لیا۔ یہی حال کتابوں اور موسیقی کا تھا، انہیں روشن آرا اور بڑے غلام علی محبوب اور مجھے ان قد آوروں کی ٹھمریوں اور دادروں کے مقابلے میں نور جہاں کی آواز میں” تو چھٹی لے کر آ جا بالما” زیادہ سریلا لگتا اور لتا اور رفیع بھی سماعت کو بھاتے۔ مجھ سے ممتاز مفتی کا فلسفہ ہضم نہیں ہوتا تھا اور میکسم گورکی اور مارکیز تو سر پر سے گزر جاتے کہ ان کی دنیا بہت مختلف تھی۔
دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر مستنصر کا ہماری ذہنی ہم آہنگی کے فقدان کے مستقل رونے نے میری مجلسی زندگی تقریباً ختم کر دی اور میں بالکل ہی نکو بنا کر دیوار سے لگا دی گئی ۔ میں اندرو اندر جھلستی کڑھتی رہی پر مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگ اپنے علمیت کے زعم میں اتنی شدت سے کیوں مبتلا ہوتے ہیں اور موٹی موٹی کتابوں کے پڑھنے والے ڈائجسٹ پڑھنے والوں کو رینگتی ہوئی مخلوق کیوں گردانتے ہیں؟
آخر محبت سیدھے سادھے انسان سے ممکن کیوں نہیں؟ محبت اپنی پسند کے سانچے میں ڈھلے پیکر ہی کی متلاشی کیوں؟
میرے پاس ڈھیر سارے سوالات ہیں مگر ان کے جواب میں ٹکر ٹکر دیکھتی ایک جامد چپ۔
یہ سچ ہے کہ مستنصر اور میں بہت مختلف تھے مگر اس فرق کے باوجود میں نے مستنصر سے محبت کی ۔ انہیں بھی تو کوکب خواجہ کے کوکنگ شوز زہر لگتے تھے اور ٹیلی تھیٹر محض وقت کا زیاں، اور میں ان کی پسند کی پاسداری میں اپنی پسند سے کنارہ کش ہوتی چلی گئی۔ میں نے ہمیشہ ان کی پسند کا احترام کیا اور اپنی ہجو کے باوجود پوری دیانت داری سے محبت کی سعی میں مبتلا رہی مگر کب تک؟ میں کوئی بھگتی یا پجارن تو تھی نہیں کہ تپسیا میں لگی رہتی، میں بھی تو ایک جیتا جاگتا، دھڑکتا خواہشوں سے چھلکتا وجود تھی جیسے محبت کی حدت سے محروم رکھ کر رفتہ رفتہ گلیشیر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
مستنصر کا سب سے بڑا سنگ دلانہ فیصلہ جو میرے لیے نا قابل قبول تھا اور جس پر میں نے اپنی بساط بھر احتجاج بھی کیا تھا، وہ دونوں بیٹوں کو ہوسٹل بھیجنے کا تھا۔ مستنصر کے اس فیصلے پر معترض ہونے پر مجھے یہ جواب ملا کہ وہ میری دقیانوسی اور دیہاتی مامتا سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ بچوں کے ہوسٹل بھیجے جانے کے بعد تو میری زندگی میں مقصدیت کا باب ہی بند ہو گیا۔
اس گھٹن زدہ ازدواجی سفر کے سولہویں سال یکایک انہوں نے اپنے راستے الگ کر لیے۔ مستنصر نے نئے سرے سے اپنا دل اور گھر آباد کر لیا اور گھر چھوڑ کر نئی بیگم کے ساتھ جدید اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئے۔ دونوں لڑکوں نے اس فیصلے کو نا پسند کیا اور کمزور سا احتجاج بھی مگر وہ دونوں چونکہ بچپن ہی سے ہوسٹل میں رہتے آئے تھے اس لیے یہ دوری ان کے لیے قابل برداشت تھی اور یوں بھی انہوں نے کب اپنے ماں باپ کو بطور ایک یونٹ کے دیکھا تھا۔ تبریز کو تو اب ویسے بھی اے لیول کے بعد آسٹریلیا اپنے دادا اور چچا کے پاس چلے جانا تھا۔
تنہا گھر میں میرا وقت کاٹے نہ کٹتا تھا بلکہ حقیقتاً مجھے کاٹنے کو دوڑتا۔ ایسے اداس اور تاریک دنوں میں میرے ہنر نے ایک دیا روشن کیا اور اپنی پڑوسن کی مدد سے میں رنگون والا میں کوکنگ کلاسز دینے لگی۔ پہلے میں نے اپنی دوسراہٹ کے خیال سے ایک طوطا پالا پھر جانے کہاں سے ایک زخمی بلونگڑے نے آ کر اپنے آپ کو اس گھر کا مستقل مکین کر لیا اور آخر میں، میں نے اپنی حفاظت کے پیش نظر گلی کے ایک کتے کو کیا پرکایا کہ اس کتے نے تو گویا گھر کی دہلیز ہی پکڑ لی۔ رنگون والا کی کوکنگ کلاسز سے ہونے والی آمدن میری اکیلی جان کی کفالت کے لیے مناسب تھی اور کبھی کبھار میرے سسر بھی کچھ رقم بھیج دیا کرتے تھے سو زندگی لشتم پشتم گزرنے لگی۔ گلریز اور تبریز دونوں ہی آسڑیلیا میں اپنے دادا اور چچا کی سر پرستی میں تھے اور میرا ان سے فون بھر ہی رابطہ تھا۔ میرے گھونسلے کے پنچھی اب اپنے زور بازو سے اڑان بھرنے کے لائق ہو چلے تھے۔ ان کے لیے دنیا وسیع و رنگین تھی سو اس ہما ہمی اور تمناؤں کے میلے ٹھیلے میں فی الحال انہیں اس دقیانوسی ماں کی یاد نہیں تڑپاتی تھی۔ میری زندگی بھی ایک لگی بندھی ڈگر پر چل پڑی تھی اور میں اپنے تینوں دوستوں کے ساتھ مطمئن تھی کہ میری زندگی پہلے ہی کب رونقوں سے عبارت تھی۔ طوطا میٹھی بولی سے دن بھر گھر میں رونق لگائے رکھتا اور بلی نازلی ٹھہری سدا کی من موجی، کبھی تو دوست دیرینہ و ہمدم طرح کی طرح خر خر کرتی لپٹی جاتی اور کبھی فوراً ہی پینترا بدل کر سوتن کی طرح پنجے نکال لیتی۔ کتا ٹربو البتہ ازل کا جان نثار و وفادار ایک مہربان مربی کی طرح پیش آتا۔
چھ سال بعد میری تقدیر نے پھر پلٹا کھایا اور ایک اور یک طرفہ فیصلہ مجھ پر کوڑے کی طرح برسا۔ مستنصر نڈھال بکھرے بکھرے اپنے پرانے گھر واپس آ گئے کہ وہ جو بڑے طمطراق سے مستنصر کی زندگی میں جلوہ افروز ہو کر دل کی مکین ہوئیں تھیں، بد قسمتی سے مستنصر ان کے معیار کے نہ تھے کہ یہ بڑے غلام علی کے شیدا اور وہ میڈونا کی دلدادہ سو زندگی کی ناؤ اتھلے پانی کے ریت میں دھنس دھنس گئی۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ اب میں کیا کروں؟
اس بائیس سالہ بےنام رفاقت میں، محبت تو دو چار سالوں کے بعد ہی منہ چھپا کے روپوش ہو چکی تھی اور پیچھے بچا تھا لحاظ۔ اب میں اس لحاظ کی ردا کی آخر کتنی اور کہاں تک رفو گری کروں؟
مزید کتنی دفعہ ٹوٹ کر بکھروں ؟
میں تو شاید مان بھی لوں مگر اب اس ڈھنڈر اور ویران پڑے دل میں بیٹھی بھوتنی مُنّی نہیں مانتی۔