خواجہ صاحب ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا لیڈر تھا۔ وہ شہر کے بڑے ہوٹل کے ریسٹورانٹ میں داخل ہوا تو منیجر خود اس کے استقبال کے لئے کھڑا ہوا۔ وہ اسے ایک مخصوص کیبن میں لیکر آیا۔ اس کے کئی دوست وہاں موجود تھے۔ بھاپ اٹھ رہی چائے کی خوشبو کیبن میں پھیلی ہوئی تھی لیکن آج کسی کے بھی چہرے پر مسکراہٹ نظر نہیں آ رہی تھی ۔ سب کے چہرے اترے ہوئے تھے ۔آج اسے دیکھ کر کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ کسی نے اسے خوش آمدید بھی نہیں کہا۔ وہ خاموشی سے کرسی نکال کر بیٹھ گیا۔ سبھی اس کی طرف مایوس نگاہوں سے دیکھ رہے تھے لیکن کوئی کچھ بولانہیں ۔ مولانانے چائے کی کیتلی اس کی طرف بڑھائی۔ جاوید احمد نے کیتلی اٹھا کر اس کے لئے چائے بنائی۔ خواجہ صاحب نے جیب سے شوگر فری ٹکی نکالی اور اپنے کپ میں ڈال دی۔ سبھی سر جھکائےخاموش تھے۔ کوئی آہستہ آہستہ چائے کی چسکی لے رہاتھا تو کوئی کپ پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔ آخر خواجہ صاحب نے کھنکار کر سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ سبھی دوست حیرانی سے اس کے چہرے کو تکنے لگے۔ لیکن سبھی کے چہروں پر تشویش ابھی بھی موجود تھی۔۔۔
”ایسا بھی کیا۔ اتنی خاموشی۔“
”کچھ بولنے کے لئے کیاہے ہمارے پاس۔۔۔ تمہارے پاس یا کسی اورکے پاس“ سیول سوسائٹی کے صدر اشرف خان نے پلک جھپکائے بغیر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
” لیکن یار۔۔۔۔“
”کیا تمیں یہ کوئی سانحہ ہی نہیں لگتا ۔ اتنا بڑاواقعہ۔۔۔“ مولانا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ پھر خود ہی سر ہلاکر رہ گیا اور چائے کا کپ ہونٹوں سے لگایا۔
”ایسی کیا بات ہے یار۔ میں بھی اتنے بڑے حادثے سے کہاں بچا۔اُس پار میرے دور کے چاچا کی بیٹی بھی ان کی شکار بنی اور پھر ماری گئی۔ ہمارے گھر میں بھی دو دن سوگ رہا۔“
”یہ کوئی حادثہ تھوڑی ہے۔ سرکاری دہشت گردی ہے۔ اتنا بڑا سانحہ۔ ایک ساتھ کتنی خواتین کی زندگی برباد کرلی ۔ کتنے جوان اور بزرگ لوگ شہید کر دیئے گئے۔ لاشیں بھی واپس نہیں کردیں۔ جانے کتنے نوجوان لاپتہ کر دیئے گئے۔ جوا ٓگ لگا دی اس میں نقصان کتنا ہوگیا۔ کبھی اس کا تخمینہ بھی نہیں لگایا جائے گا۔ ظلم کی انتہا “ مولانا غصے میں بول رہا تھا۔
”اتنا بڑا دہشت گردانہ واقعہ وہاں پہلی بار تو نہیں ہوا ۔ بے چارے۔ ہماری قوم کے نہتے لوگ۔ جس میں زیادہ تعداد بزرگ خواتین کی تھی۔ چھوٹی بچیوں تک کو بھی نہیں بخشا درندوں نے۔۔۔ اشرف خان نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
”ہمیں اس کے خلاف بولنا ہوگا۔ سارا پریس جمع کرنا ہوگا۔
”ان بد بختوں نے جو انسان سوز حرکت کی ہے۔ اس کا مجھے بھی بہت دکھ ہے۔ پر۔۔۔“
”پر۔۔۔۔ پر کیا؟ جو وہاں مارے گئے وہ ہمارے لوگ نہیں تھے کیا۔؟جن ماں بیٹیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی وہ ہماری کچھ نہیں لگتی کیا؟؟ کیا وہ ہماری قوم کے لوگ نہیں ہیں؟؟؟“ سیول سوسائٹی کا اشرف خان اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن خواجہ صاحب نے اس کی بات آدھے سے ہی چھین لی ۔
”میرا مطلب ہے۔ یہ سب تو ساری دنیا میں روز ہورہا ہے۔ پھر کیا دنیا نہیں چلتی۔ زندگی رک جاتی ہے کیا۔ ویسے بھی وہ ہمارا حصہ کہاں ہے۔ دشمن ہے قابض وہاں۔ وہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہم کب تک سوگ مناتے بیٹھیں گے۔“
”کیا مطلب ہے تمہارا۔ کیا ہم اپنے دکھ کا اظہار بھی نہیں کرسکتے۔“ سماجی کارکن رفیق الزمان نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔ جو بڑی دیر سے خاموشی کے ساتھ اپنے چائے کے کپ پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا جیسے چائے کے کپ سے جہاز ابھر کر آنے والا ہو۔۔۔
”اور کیا۔ میں کہتا ہوں پریس اور میڈیا کو کال کرو۔ کم از کم ہم ٹی وی پر بیان تو دے ہی سکتے ہیں۔ اس بات پر احتجاج تو کر سکتے ہیں کہ ہماری قوم کی بیٹیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہاں کے لوگوں پر جو ظلم و زیادتی ہو رہی ہے۔ کیا ان کے دکھ پر اظہار خیال کرنا یا بات کرنے کا ہمارا کوئی حق نہیں۔“ سماجی کارکن رفیق الزمان جذباتی ہوگیا۔
”دکھ کا اظہار کرنا الگ بات ہے اور دکھ منانا الگ بات۔۔۔“
”کیا فلسفہ مارا ہے۔۔۔ دکھ کا اظہار کرنا الگ بات ہے اور دکھ منانا الگ بات۔ اس کا مطلب بھی بتا دیں گے آپ خواجہ صاحب‘ مولانا نے طنز سے اور کچھ کچھ برہمی سے کہا۔ باقی لوگ بھی جواب طلب نظروں سے خواجہ صاحب کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”مطلب۔۔۔۔ مطلب تو کوئی بھی نہیں میری بات کا۔ بس ہم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جو کچھ شئیر کرتے ہیں یا دوستوں کے ساتھ بانٹ لیتے ہیں وہ الگ ہوتا ہے۔ مطلب پریس، ٹی وی یا ریڈیو پر کہنے کی باتیں الگ ہوتی ہیں اور جو کچھ ہم کرتے ہیں اسے کہنے کے ساتھ کوئی مطابقت نہیں ہوتی ہے ۔۔۔ یعنی ی ی۔۔۔ یہ کہو کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہوتا ہے “ خواجہ صاحب کہتے کہتے خودبھی الجھ رہا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔
”جیسے۔۔۔“ اشرف خان نے تکا مارا۔
”ہاااااں ۔۔۔ جیسے تم۔۔۔ خیر۔۔۔ تم بتاؤ جاوید۔ کل تم نہیں ملے۔ کیا کررہے تھے ۔
”کل ہڑتال ہوگئی تھی۔ سمجھو دفتر کی چھٹی۔ مجھے لاسٹ سنڈے کو بیٹے کا یونیفارم لینا مس ہوگیاتھا۔ کل یوں تو مارکیٹ بند تھی لیکن ہم دونوں میاں بیوی بیک ڈور سے ایک چھوٹے سے مال میں گھس گئے اوربیٹے کے لئے یونیفارم ۔۔۔ “
”لنچ کہاں کیا۔۔۔“ خواجہ نے جاوید احمد کی بات کو کاٹ کر کہا
”لنچ ہم نے پراڈائز ریسٹورانٹ میں کیا۔ دراصل بہت دنوں سے ہمیں باہر کھانا کھانے کا موقعہ نہیں ملا تھا تو کل وہ بھی ہوگیا۔“
” اشرف خان۔ تم بھی تو نہیں ملے کل۔ کہاں گئے تھے تم ۔“
”وہ کل۔۔۔ وہ کیا کہ میری۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ وہ میرا ایک خاص دوست ہے۔ اس کے ساتھ۔۔۔“
” سیدھے بتا دو نا یار۔۔۔ بیوی سے چھپا کر گرل فرنڈ سے فکس تھا۔ وہ تم مس تو نہیں کر سکتے تھے ۔ کل تو پورا دن انجیوائے کیا ہے تم نے۔ کیوں میاں “
”سچ کہوں خواجہ صاحب۔۔۔ تم بڑے شیطان ہو۔ سب کی خبر رکھتے ہو۔“ مولانا نے چوٹ کی
” اور مولانا۔ تم۔۔ تم کہاں تھے“
” یار۔۔۔ میں اس حادثے سے پہلے ہی بیگم کے ساتھ فارم ہاوس چلاگیا تھا۔ دراصل جب ہمارے بچے گھر آجاتے ہیں تو۔۔۔ یو نووو۔۔۔ گھر میں۔۔۔۔ تم سمجھ گئے نا میری بات۔ تو ہم میاں بیوی فارم ہاوس چلے جاتے ہیں۔۔۔“ مولانانے مسکرا کر اور آنکھ دباکر کہا۔ سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
”اچھا جس دن یہ خوفناک سانحہ ہوا۔ اس رات تم نے کتنی بار پیار کیا۔“
”ارے وہ پوچھو ہی مت۔ فارم ہاوس جانے کا مطلب ہی ہوتا ہے۔ پیار ہی پیار۔۔۔ مزا آجاتا ہے یار۔۔۔“ مولانا مزہ لے لے کر اپنی کہانی سنانے لگا۔ اور وہ سبھی لوگ مزہ لے لے کر سن بھی رہے تھے۔
”اچھا پتا ہے۔ میں اپنی بات بتاتا ہوں۔ جب کبھی کوئی خوف یا ڈر مجھ پر حملہ آور ہو جاتا ہے تو میرا شوگر لیول بڑھ جاتا ہے۔ مجھے بار بار باتھ روم جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔“ خواجہ صاحب نے بڑی معصومیت سے کہا۔ اور سبھی لوگ زور زور سے ہنسنے لگے۔
”اور مجھے بیگم کی۔“ مولانا نے زور دار قہقہہ مارا اور سبھی لوگ اس کی ہنسی میں شامل ہوگئے۔ سب قہقہے پر قہقہے مارے جا رہے تھے۔
پھر چائے کے کئی دور چلے۔ مخدوش حالات سے فرار اور رلیکس ہونے کے لئے کسی صحت افزا مقام پر جانے کا پروگرام بنا۔ وہاں پر ہی کسی اچھے ریسٹورانٹ میں لنچ اور پھر ڈنر کا بھی بندوبست کرایا گیا۔۔۔
اور جلدی جلدی اخبارات کے لئے مشترکہ پریس ریلز بھیجنے کے بعد وہ زور و شور سے آوٹنگ کی تیاری میں جُٹ گئے۔
***
تحریر: راجہ یوسف۔ کشمیر
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...