(Last Updated On: )
“ اسےتو پاس ہونا ہی ہے” ٹھاکرپریم ناتھ جی نے کچہری کے احاطے میں ٹہلتے ہوئے ودیا پتی سریواستو سے اپنی رائے ظاہر کی۔
“ مجھے امید ذرا کم ہی دکھائی دےرہی ہے”وہ سگریٹ کا کش لیتے ہوئے مایوس کن انداز میں بولے۔
“ لیکن مجھے تو اس کے پاس ہونے کا ننانوے فی صدی یقین ہے۔اس بار تونئی حکومت کا الیکشن سے پہلےیہ سب سے اہم مدعا تھا۔نو ڈوری(No Dowry ) ایکٹ ہمارے سماج کے لئے کتنا ضروری ہے۔”
“یقینا” اس قانون کے لاگو ہونے سےسماج کی انگنت برائیوں کا انسداد ہوسکتا ہے اس کے با وجود بھی کتنے ہی خود غرض افراد مانع ہونگے۔شاید آپ نے آج بل پیش ہونے پر ممبران پارلیمنٹ کے ہنگامہ آرائیوں کی تفصیل نہیں سنی۔دیا شنکر سکسینہ جی نے کافی حمایت کی۔ان کے خیال میں سرکار کا یہ عمل واقعی لائق صد تحسین وآفرین ہے۔شری سدھیراگروال جی اس کی پرزور مخا لفت پرآمادہ تھے۔انھیں ابھی اپنے پانچ بیٹے کیش (cash) کرانے تھے۔پنڈت دینا ناتھ متواتر شیو شیو کا جاپ کرتے ہوئے دھرم کی دہائی دے رہے تھے۔”
“پارلیمنٹ سے تو پاس ہو گیا نہ”پریم ناتھ پر امید تھے۔
“ ہاں لیکن :
کون جیتا ہے ترے زلف کے سر ہونے تک
“ یعنی کہ ؟”
“ کوئی بھی بل راجیہ سبھا کے مرحلہ سے گزر نے کے بعداور جناب صدر کےدستخط کے بعد ہی ایکٹ بن سکتا ہےابھی اسے تو ان دونوں مراحل سے بھی گزرنا ہے”۔سریواستو جی نے خیال آرائی کی۔
“ کیوں نہ اب ہم سب مل کر جہیز کے لین دین کے خلاف پرزور آواز اٹھائیں۔”
“ آج یہ بل ہماری باہمی آواز کا ردعمل ہی تو ہے۔کچھ حضرات اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اس فلاحی عمل کوخاک میں ملا دینا چاہتے ہیں۔یہ لکشمی کے پجاری بھلا دیوی کی ناراضگی کا پاپ کیسےمول لینگے۔”
“سرکار چاہے تو اپوزیشن(apposition) پر دباؤ بناکر یہ اہم کام انجام دے سکتی ہے۔”ٹھاکر صاحب مرغے کی ایک ٹانگ الاپے جارہے تھے۔
“بھائی ! سنسار کے اس سب سے بڑے جمہوری ملک میں یہ تانا شاہی تو چلنے سے رہی ہاں اگر بھگوان عام جنتا کو ہی سد بدھی (سمجھ )دیدے۔”
کچہری کا گیٹ آگیاتھااور بات یہیں ختم ہوگئی۔
ٹھاکر پریم ناتھ شہر کے نامور وکیلوں میں تھے۔ایل ایل بی کے امتحان میں امتیازی درجہ حاصل کیا تھا۔ایل ایل ایم کرنے کی خواہش کو غربت نے پروان نہیں چڑھنے دیا تھا۔شہر میں ہائی کورٹ نہیں تھا۔لور کورٹ (Lower Court) میں وکالت کرتے تھے۔مقدموں میں دوران بحث ایسے ایسے قانونی نکات نکالتے کہ وکیل مخالف بغلیں جھانکنے پر مجبور ہوجاتے۔جھوٹے مقدموں کی پیروی سے ہمیشہ گریز کرتے۔ان کی ایمانداری اور راست گوئی نےاس پیشہ میں ان کی ترقی کے راستے مسدود کردئیے تھے۔وہ ٹیم ٹام اور دکھاوے کو فضول سمجھتےتھے۔ذاتی لیاقت وقابلیت کو کامیابی کی کنجی سمجھ کر اسی کے سہارے جی رہے تھے۔وہ خلیق و ملنسار ہوتے ہوئے بھی زیادہ سوشل اور احباب پسند نہ تھے۔کیس کم ملنے کےسبب ہمیشہ تنگ دستی کا شکار رہتے تھے۔
پریم ناتھ کی شادی کم عمری اور دوران تعلیم ہی انجام پاگئی تھی۔اولادیں توکئی وجود میں آئیں مگر ان میں صرف تین سشما کماری ، بھولا ناتھ اور نیلیما کماری سن بلوغ کو پہنچ سکیں۔سشما اب اپنی زندگی کی تیس بہاریں دیکھ چکی تھی مگر ابھی تک اس کے ہاتھ پیلے نہ ہوسکے تھے۔وکیل صاحب اب ہر وقت اسی کی فکر میں ڈوبے رہتے اور اکثر ان کی راتوں کی نیندیں بھی حرام ہوجاتی تھیں۔
اس بل کے سلسلے میں ہر طرف ہونے والی گرما گرم بحثیں معہ حاشیہ آرائی کے اخباروں میں شد ومد سے شائع ہو رہی تھیں۔دفتروں،کلبوں،چائے اور پان کی دکانوں پر قیاس آرائیاں چل رہی تھیں۔پارلیمنٹ کے سشن کی مدت ختم ہوگئی ۔بل کس منزل پر تھا یہ اب عوام کو بالکل خبر نہ تھی مگرپریم ناتھ جی دیر آید درست آید کے مقولہ کے مطابق اب بھی پر امید تھے۔
ایک دن کچہری سے گھر لوٹتےہوئے اچانک ایک ایسا خیال ان کے ذہن میں کوندا کہ ان کا دل خوشی سے ناچ اٹھا۔وہ جلد از جلد اپنا یہ منصوبہ بیوی کو گوش گزار کردینا چاہتے تھے۔گھر میں داخل ہوئے تو وہ کہیں نظر نہ آئیں۔سامنے برآمدے میں نیلیما کنگھی کرتی ہوئی دکھائی دی۔
“تمہاری ماں کہاں ہیں ؟ انھوں نے اس سے بے صبری سے پوچھا۔
“چوکے میں ہو ں گی۔”
“آرہی ہوں- بات کیا ہے؟ بڑے اتاولے ہو رہے ہو”منور ما دیوی وہیں سے بول پڑیں۔
“کچھ نہیں ایک پلان دماغ میں آیا ہے۔آؤ تو باتیں کرتے ہیں۔”
“ شریمتی جی کی کیوں نہ اب ہم لوگ جلدی کوئی بہت تگڑا جہیز لانے والی لڑکی ڈھونڈنا شروع کردیں۔”
“تو پھر اس سے کیا ہوگا۔”بیوی نے حیرانی سے پوچھا۔
“ہوگا یہ کہ ہم بھولا کا بیاہ رچائیں گے ۔جہیز میں نقدی بھی وصول کریں گےاور پھر اس آمدنی سے دونوں بیٹیوں کے وواہ کی سمسیا نپٹا دیں گے۔”
“ ابھی تو وہ پڑھ رہا ہےبیچارہ ۔کیا وہ تیار ہوجائے گا؟انھوں نے پوچھا۔
“اسے سمجھانا پڑے گا۔یہ کام تم مجھ پر چھوڑ دو۔اب یہ وکیلانہ دلیلیں کس روز کام آئیں گی۔”
“ٹھیک ہے ۔جیسی آپ کی اچھا (مرضی)۔
وکیل صاحب جی جان سے اس کام میں جٹ گئے۔بھولا ایل ایل بی کے آخری سال میں تھا اور امتحان کا نتیجہ برآمد ہونے والا تھا۔غالبا” پریم ناتھ جی کے ہم پیشہ رادھےشیام ایڈوکیٹ کی اس بآسانی زد میں آجانے والے شکار پرپہلے ہی سے نظرتھی ۔ان کی بیٹی رادھیکا کے ساتھ معاملہ بہت جلد طے پاگیا اور رزلٹ آتے ہی پریم ناتھ اسے بیاہ لائے۔رادھیکا انٹر میڈیٹ سے آگے نہ بڑھ سکی تھی ،معمولی شکل وصورت کی اور انتہائی بدمزاج واقع ہوئی تھی۔حسب توقع جہیز میں وہ کافی قیمتی سامان اور رقم بھی لائی تھی۔
جلد ہی گھر کے سارے افراد نئی بہو کےنازنخرے اٹھانے میں لگ گئے ۔سشما بھی بہ مجبوری گھر والوں کی مصلحت میں شامل تھی لیکن اس کا دل اندر سے بہت اداس تھا۔نئی دلھن کے ہر دم کے چونچلے اسے پھوٹی آنکھ نہیں بھا رہے تھے۔جب روز سویرے وہ سج سنورکراپنی مانگ میں چٹکی بھربھر زرد رنگ کا سیندورانڈیل کرکمرے سے برآمد ہوتی تو سشما کو ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے وہ اس کی مانگ پر آرے چلا رہی ہے۔کبھی کبھی وہ اپنی اس گھٹیا سوچ کے لئے خود کو ملامت بھی کرتی مگر سوچ تو سوچ ہی ہے اور اس پر کس کا بس ہے۔
رادھیکا کی سخت مزاجی دیکھتے ہوئے پریم ناتھ جی کو بیٹیوں کی شادی کے سلسلے میں اس سے کچھ مالی امداد ویسے ہی مشکل معلوم ہورہی تھی کہ چند مہینوں کے بعد ہی وہ سب گھر والوں سے لڑ جھگڑ کر کرایہ کے مکان میں منتقل ہو گئی۔ ڈوری قانون کے آمد کے خوف سے فی الحال قابل شادی لڑکوں کا بازار اچھال پر تھا۔ اب وکیل صاحب کے لئے دامادوں کی خریداریاں اوربھی مشکل تر ین امرہوتی جارہی تھی۔
آج موسم کچھ ابر آلود تھا۔پریم ناتھ کی طبیعت ذرامضمحل سی تھی مگرانھیں ایک اہم مقدمے کے سلسلے میں کچہری چانا پڑا۔جیسا کہ ہندوستان میں اکثرعدالتوں کا چلن ہے لنچ کے بعد پیشکار نےموکل سے آج کی پیشی کانذرانہ وصول کر تاریخ آگے بڑھادی ۔وکیل صاحب موکل کے ساتھ ہی سائیکل رکشا کی تلاش میں احاطۂ عدالت سے باہر آگئے۔ابھی سواری کے انتظار ہی میں تھےکہ سندھیا سماچار (شام کے ایڈیشن کےاخبار کا نام)کے ہاکر کی آواز سنائی دی۔
“آج کی تازہ خبرایک روپیہ میں پڑھیں ۔آج راجیہ سبھا میں ڈوری بل الپ مت سے گر گیااور پاس نہ ہوسکا۔”
“دیش واسیو!یہ مہتو پورن (اہم )بل اگیات سمے ( نامعلوم مدت )کے لئےسنسد کی فائلوں میں پھرقید ہوگیا۔”
وکیل صاحب کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی۔
ان کو ایسا محسوس ہواجیسے کہ سماج کی عدالت میں وہ خود ہی اپنی دونوں بیٹیوں کے ایسےمجرم ہیں جو آج اکٹھے دو مقدمے ہار گئے ہوں۔