کسی بھی علمی وادبی یا سماجی موضوع یا مسئلہ کی روایت‘اہمیت‘ضرورت‘حل یا امکانات وغیرہ پر ماہرین وناقدین اور مبصرین کے مابین مذکراہ یا مباحثہ بڑا سود مند ثابت ہوتا ہے اور پیش نظر کتاب”اردوافسانہ….مزاج و منہاج“(مرتب: سلیم سالک کشمیر)میں شامل مذاکرے بھی اردو افسانہ کی روایت ورجحانات‘ادبی و سماجی اہمیت‘اجزائے ترکیبی‘ اسلوب‘راست بیانیہ اور تجریدی وعلامتی اظہار‘موضوعاتی برتاؤ‘ تخلیقی رچاؤ‘افسانے کی موجودہ صورتحال(جوکہ آج سے پہلے ۵۱ سال کے عرصہ تک ہی محیط ہے)اور مستقبل میں اس کے امکانات وغیرہ کئی اہم موضوعات اور مسائل پرمعنی خیز مباحثوں پر مشتمل ہیں۔یہ مباحثے درجہ ذیل مذاکرہ نگاروں کی شمولیت اور عنوانات/موضوعات کے تحت کتاب میں شامل ہیں:
گفتگو بند نہ ہو(سلیم سالک)‘اردوافسانے میں روایت اور تجربے(سعادت حسن منٹو‘احمد ندیم قاسمی‘سید وقار عظیم‘ ڈاکٹر عبادت بریلوی‘ ہاجرہ مسرور‘خدیجہ مستور‘انتظار حسین‘ شوکت تھانوی‘وحید اختر‘محمدطفیل)‘اردوافسانہ…کل‘ آج اور کل(ڈاکٹر محمد حسن‘ڈاکٹر وزیر آغا‘ جگندر پال‘سہیل عظیم آبادی‘رتن سنگھ‘شکیلہ اختر‘ کلام حیدری‘ رشید امجد‘بلراج کومل‘کوثر چاندپوری‘ظفر اوگانوی‘ہرچرن چاولہ‘مظفر حنفی‘ مسیح الحسن رضوی‘اکرام جاوید‘عطیہ نشاط‘ہربنس لال ساہنی‘امیر اللہ شاہین‘خموش سرحدی)‘اردو افسانہ منظر وپس منظر(احمدندیم قاسمی‘ اشفاق احمد‘ آغاسہیل‘ جیلانی کامران‘ انورسدید‘ انورسجاد‘ انیس ناگی‘ خواجہ محمد اکرام‘ میمونہ انصاری‘ سہیل احمد خان‘عذرا اصغر‘ اظہرجاوید‘ اصغر مہدی‘ سلمان بٹ‘ ضیاء ساجد‘اصغر ندیم)‘اردو افسانہ خلط مبحث(انتظار حسین‘ مظفر علی سید‘سہیل احمد خان‘ رشید امجد‘اعجاز راہی‘ منشا یاد‘ احمد جاوید‘ابرار احمد)‘ اردو افسانے کی صورتحال(بلراج مین را‘ مہدی جعفر‘ دیویندر اسر‘زبیر رضوی‘ ابرار رحمانی‘محمد کاظم‘محبوب الرحمان فاروقی)‘ اردو افسانے میں انحراف کی ٹیڑھی لکیر(شمس الرحمن فاروقی‘ رام لعل‘ محبوب الرحمان فاروقی‘محمود ہاشمی‘ کلام حیدری‘ خلیل الرحمان اعظمی‘ شہریار‘بلراج مین را‘شاہد احمد شعیب‘ زبیر رضوی‘ بلراج کومل)‘ نیا اردو افسانہ اور علامت(انتظار حسین‘مسعود اشعر‘ سعادت سعید‘ سہیل احمد خان‘ قائم نقوی)‘اردو افسانہ…۰۶۹۱ء کے بعد(افتخار احمد صدیقی‘ ابراہیم اشک‘ابن اسماعیل‘ ابوللیث صدیقی‘ احمد رشید‘ احمد صغیر‘ ارتضیٰ کریم‘ارشد سراج ارشد‘ارشد نیاز‘ اظہار صہبائی‘اظہار عالم‘ اقبال حسن آزاد‘انجم آرا انجم‘ انور امام‘بانوسرتاج‘ بشیر احمد‘جلیل عشرت‘جی کے مانک ٹالہ‘ذاکر فیضی‘رفعت صدیقی‘ رفعت نواز‘ سہیل وحید‘خورشید ملک‘صغیر رحمانی‘غیاث اکمل)‘ ۰۷۹۱ء کے بعد نیا افسانہ(احمد جاوید‘مرزا حامد بیگ‘ اقبال آفاقی‘ محمد منشایاد‘ یوسف حسن)‘اردو کہانی(کلام حیدری‘ شاہد احمدشعیب‘عبدالصمد‘اسرار گاندھی‘ احمدعلی فاطمی‘)‘ عصری افسانہ…تنقیدی تناظر میں (سریندر پرکاش‘ سلام بن رزاق‘انور خان‘ انور قمر‘ ساجد رشید‘ امام نقوی‘ افتخار احمدصدیقی)‘اردو افسانہ…بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ(وزیر آغا‘شمس الرحمن فاروقی‘ نظام صدیقی‘ رشید امجد‘ علی حید ملک‘ مرزا حامد بیگ‘ صبااکرام‘احمد جاوید)‘ اردو افسانے کے چند مسائل…اشاعتی نقطہ نظر سے(قاری…افسابہ نگار…ناشر)۔
شامل ِکتاب عنوانات اور مذاکرہ نگاروں کی پوری فہرست پیش کرنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ قارئین خود ہی کتاب کی اہمیت کا ندازہ لگا سکیں‘کیونکہ مذاکروں میں…اردو افسانہ کے نامور افسانہ نگار بلکہ اگر یوں کہیں اردو افسانہ کے عمارت ساز‘معروف ناقدین‘مشہور شعراء‘ ہردلعزیزاساتذہ اور نامورمدیران شامل ہیں۔شاملِ کتاب مذاکروں سے ظاہرہوتا ہے کہ کئی لوگوں کے بصیرت افروز اور حوصلہ افزا تاثرات و خیالات سامنے آئے ہیں جن سے افسانہ نگاری کی روایت‘ مزاج اور ارتقا پر معنی خیز گفتگو ہوئی ہے اور امکانات کی روشن قندیل جگمگاتی نظر آتی ہے جبکہ چند لوگوں کی باتوں سے متعصبانہ رویے اور محدود فکرونظر کی عکاسی بھی ہورہی ہے‘شاید وہ سمجھتے ہونگے کہ فکشن اور تنقید کا دروازہ انہیں کے ساتھ بند ہوگیا ہے۔بہرحال‘ ویسے کتاب کے سبھی مباحثے کارآمد ہیں تاہم یہاں پر چند اقتباسات کاذکر ہی مفید رہے گا تاکہ مضمون کی طوالت سے بچنے کی گنجائش بھی نکل آئے۔
”اردو افسانے میں روایت اور تجربے“میں اردو افسانے کے ابتدائی نقوش‘ موضوعاتی پیش کش‘افسانہ نگاروں کی فنی اور موضوعاتی برتاؤ‘جن میں پریم چند کی مقصدیت‘سجاد حیدر یلدرم کی رومانیت‘منٹوکی جنسیت‘حیات اللہ انصاری کی واقعیت‘ کرشن چندر کی منظر نگاری‘نیاز فتح پوری‘احمد ندیم قاسمی‘عصمت چغتائی‘ممتاز شیریں اور قرۃ العین حیدر وغیرہ کی افسانہ نگاری کے علاوہ انگارے کی سنسنی خیز آمد‘ترقی پسند افسانہ اور جدیدیت کے رجحان پر بھی دلچسپ مذاکرہ شامل ہے۔ممتاز شیریں کی افسانوی تکنیک کا احاطہ کرتے ہوئے عبارت بریلوی لکھتے ہیں:
”ممتاز شیریں کے افسانوں سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ان کے پاس مختصر افسانے کی تکنیک کا بڑا گہرا شعور ہے۔
افسانے میں تکنیک کا جو تنوع ہے اس کو انہوں نے بڑی خوبی سے برتا ہے لیکن تنوع کا یہ شعور ان کے یہاں تکنیک کےایک Synthesis کی صورت میں نمایاں ہے۔ ان کی شخصیت میں یہ شعور رچا ہوا معلوم ہوتا ہے۔“
(اردو افسانہ…مزاج و منہاج:ص ۶۵)
ممتازشیریں کی افسانوی تکنیک سے متعلق عبارت بریلوی کی رائے بڑی اہم ہے کیونکہ جس کو افسانہ لکھنے کی تکنیک کا شعور آگیا تو وہ صحیح ڈھنگ سے افسانہ لکھ سکتا ہے نہیں تو واقعہ نگاری یا اطلاعاتی اسلوب تک ہی تحریر محدود رہ سکتی ہے۔”اردو افسانہ….کل‘ آج اور کل“ کے مذاکرے میں بھی بصیرت افروز گفتگو ہوئی ہے۔جس میں کئی افراد نے اردو افسانے کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔عصری اردو افسانے کی’رفتارِ ترقی‘ کے تعلق سے جن لوگوں نے علمی انداز سے گفتگو کی ہے‘ان میں سے چند کے خیالات اس طرح سے ہیں:
”عصری ادب ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوتااور اس لئے کچھ وقت گزارنے پر ہی اس کی ترقی یا تنزل کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا جاسکتا ہے۔تاہم اگر عصری ادب میں نت نئے تجربات ہورہے ہیں اور ادبا اپنی بات کو سو ڈھنگ سے بیان کرنے میں مصروف ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ادب پر جمود طاری نہیں اور اس لئے اس کے ترقی کےامکانات روشن ہیں۔عصری اردو افسانے نے خود کو پامال راہوں سے الگ کرنے اور زندگی کو متعدد اور متنوع زایوں سے دیکھنے کی جس طرح سعی کی ہے وہ اردو افسانے کے تابناک مستقبل کی ضمانت ہے۔بالخصوص علامتی افسانہ کی روش نے ایسی تخلیقات کو منظر عام پر آنے میں مدد دی ہے جو ابھی سے اپنی توانائی اور تازگی کا احساس دلا رہی ہیں۔“ (ڈاکٹر وزیر آغا…ص ۷۷)
”عصری افسانے کی رفتار ِ ترقی سے غیر مطمئن ہونے کا کوئی سبب نہیں‘ لیکن ہماری ہرلحظہ بڑھتی اور پھیلتی نئی زندگی کی مانند نئے افسانے کو بھی ہر لحظہ بڑھتے اور پھیلتے جانا ہے۔“ (جوگیندر پال…ص۷۷)
”مطمئن کا لفظ ایسا ہے کہ میں اس کا جواب سوائے’نہیں‘ کے اور کچھ نہیں دے سکتا اور رفتارِترقی سے اگر مراد معیارکا اونچا ہونا ہے تو اس سے مجھے مایوسی ہوتی ہے‘ کیونکہ پچھلے کے مقابلے میں افسانوں کا محض’مختلف‘ ہونا لازمی طور پر ترقی ہی کی نشانی نہیں کہی جاسکتی لیکن بلاشبہ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ ہمارے افسانہ نگارنئی راہیں تلاش
کررہے ہیں‘تلاش بڑی اہم چیز ہے اور اس سے کامیابی کے راستے کھلتے ہیں۔“
(کلام حیدری…ص۸۷)
”عصری اردو افسانے نے ہمارے یہاں کی افسانوی روایت کو آگے بڑھایا ہے بلکہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تواس میں عصری رجحان نسبتاََ بہتر طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔“ (ڈاکٹر رشید امجد…ص۸۷)
مختصر افسانے کے عناصر اور افسانویت پر بھی اچھا مذاکرہ ہوا ہے۔ اور ہر ایک شرکاء نے افسانے کے کسی نہ کسی پہلو پر روشنی ڈالی ہے اور کسی کسی جگہ افسانویت کے معنی اور ضرورت پر بھی بات چھیڑی گئی ہے۔ڈاکٹر محمد حسن افسانے میں افسانویت کے ہونے پر زور دیتے ہیں اور بلراج کومل افسانویت کی توضیح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”افسانویت افسانہ کی وہ فضا ہے جو زندگی کا عکس ہوتے ہوئے بھی عکس سے مختلف ہے اور اپنی منفرد کائنات رکھتی ہے۔یہ فضا ہمیں اس لئے مسحور کرتی ہے کیونکہ اس میں تھوڑی دیر کے لئے سانس لینے کے بعد ہم اپنے آپ کو نئے سرے سے دریافت کرتے ہیں۔“(ص:۴۸)۔ اسی طرح مظفر حنفی افسانویت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ”افسانویت مختصر افسانے کی روح ہے‘اسے افسانے کے رگ وپے میں یوں جاری وساری ہونا چاہئے جس طرح جسم میں خون۔میرے خیال میں افسانویت سے عاری تحریر کو افسانہ کہنا ممی کو ذی حیات تسلیم کرنے کے مترادف ہے…افسانویت حقیقت کو افسانہ اور افسانے کو حقیقت بنانے کے آرٹ کا نام ہے۔“ (ص:۵۸)۔ اس جیسی کئی توضیحات سے ظاہر ہے کہ افسانے میں افسانویت(Fictionality) کی فضا کا ہونا ضروری ہے اگر یہ فضا موجود نہ ہو تو وہ واقعہ نگاری یا تاثراتی انداز کی کوئی تحریر ہوسکتی ہے لیکن افسانہ نہیں۔افسانویت کے ساتھ ساتھ افسانے کی ہیئت یا پلاٹ میں جن اجزا کا ہونا ضروری ہے‘اس پر بھی اچھی گفتگو ہوئی ہے ڈاکٹر وزیر آغا اسلوب اور کہانی پن پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”افسانہ چاہئے وہ کردار کے بارے میں ہو یا ٹائپ کے بارے میں‘اگر وہ اسلوب اور کہانی پن کی صفات سے دست کش ہوجائے تو اس صنف کے تحت شمار نہیں کیا جاسکتا۔“(ص:۱۸)۔ اسی طرح کلام حیدری ’افسانے کے لئے’تاثر“جبکہ ڈاکٹر ظفر اوگانوی کے مطابق ’مختصر افسانے کے اندرون ربط وتسلسل کی ایک ایسی کالہر ہونا ضروری ہے جو بیک وقت افسانے کے پہلے جملے سے آخری جملے تک جاری رہتی ہے۔(یعنی وحدت تاثر کی لہر جو افسانویت کی صورت میں قاری کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔)اسی طرح افسانے کے دیگر اجزا موضوع“پلاٹ‘ کردارنگاری‘ فضا بندی وغیرہ پر بھی کئی لوگوں نے اظہار خیا ل کیا ہے اور زبان و بیان اور جملوں کی ساخت کے تعلق سے امیراللہ شاہین نے خوبصورت بات کہی ہے کہ افسانے میں ”کوئی لفظ بلا ضرورت استعمال نہ کیا گیا ہو‘ہر لفظ اس تاثر کو آگے بڑھائے جو افسانہ نگار کو مطلوب ہے۔یہ اختصار سطروں‘صفحوں کا طلب گارنہیں…نہ صرف عبارت یا اسلوب مختصر ہو‘موضوع بھی مختصر ہو بلکہ مختصر تر…“ص: (۴۸)۔ امیراللہ شاہین کی باتیں اہم ہیں کیونکہ عام طور پر لوگ افسانہ لکھنے کے دوران پلاٹ‘کردار اور کہانی کا خیال تو رکھتے ہیں لیکن لفظوں اور جملوں کے اختصار اور معیاری زبان وبیان کی طرف دھیان نہیں رکھ پاتے جس کی وجہ سے کئی صفحات کا افسانہ بھی کوئی خاص تاثر چھوڑنے میں ناکام رہ جاتا ہے۔
افسانے کی ادبی حیثیت اور دیگر ادبی اصناف میں امتیازی پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہوئے رتن سنگھ فرماتے ہیں کہ ”افسانہ کو امتیازی حیثیت صرف اردو میں ہی نہیں ’بلکہ‘ دنیاکی ساری زبانوں میں حاصل ہے۔دراصل یہ ہے ہی افسانے کا دور۔افسانہ وہ فن ہے جس میں ہر انسان افسانے کے الفاظ میں اپنے دل کی دھڑکن کو پڑھ سکتا ہے اور اپنے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو معنی پہنا سکتا ہے‘یہی ہے افسانے کی مقبولیت کا راز“(ص:۲۰۱)۔اسی طرح ہرچرن چاولہ افسانے کی ترقی سے متعلق کہتے ہیں کہ”اصنافِ ادب میں افسانہ نے سب سے زیادہ ترقی کی ہے‘ اتنی کہ اس صنف کی بعض تخلیقات کو بجا طور پر دوسری زبانوں کی تخلیقات کے مقابل رکھنے میں فخر اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔پرانی حدبندیاں اور قدیم روائتیں توڑنے میں افسانہ ہی پیش پیش رہا ہے۔“(۳۰۱)
شامل کتاب ایک اہم مذاکرہ”نیا اردو افسانہ اور علامت‘‘کے موضوع پر ہے۔اس میں اگرچہ ۰۶۹۱ء کے بعد شعر وفکشن میں علامتی رجحان پر بات ہوئی ہے تاہم گفتگو کے دوران علامتی افسانہ یا علامتی اسلوب پر بھی عمدہ بحث سامنے آتی ہے۔دراصل علامتی افسانہ یا علامتی اسلوب کے بارے میں کئی لوگوں کی کم فہمی اور مغالط آمیز باتوں سے بھی ظاہر ہوتاہے کہ علامتی اسلوب یا افسانہ صرف دورجبر کی ضرورت تھی یا ہے‘جبکہ علامتی اسلوب تخلیقی عمل کا ایک ایسا جوہر ہے جو فنی اور موضوعاتی طور پر تخلیق کی معنویت میں چار چاند لگاتا ہے۔اب جس کو علامتی تحریر سمجھ بھی نہ آتی ہو‘لکھنے کی تو بات دوسری رہی تو وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے اناپ شناپ بولتا رہے گا۔ڈاکٹرسعادت سعید نے اچھی بات کہی ہے کہ”جس طرح ہر لفظ اچھی شاعری میں آکر علامت بن جاتا ہے اسی طرح اچھے افسانوں میں بھی استعمال ہونے والے الفاظ علامتیں بن جاتے ہیں۔اور یہ کہ چھوٹی چھوٹی علامتیں مل کر ایک بڑی علامت بن جاتی ہے۔“(ص:۴۸۱)اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے آگے فرماتے ہیں ”یوں جدید افسانہ نگاروں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ہر لفظ کو علامت بنادیں۔آج کا افسانہ نگار جس لفظ کو چاہتا ہے علامت بنا دیتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ چیزوں میں تلاش کرتا ہے یا مواد کاEssence ڈھونڈتا ہے اور پھر اس کو لفظ میں منتقل کردیتا ہے۔اس کے لئے پورا افسانہ ایک کل بن جاتا ہے اور لفظ علامت بن جاتا ہے۔“(ص:۱۹۱)۔اس کے بعد علامت کی ناکامی کو ’اظہار کی کمزوری‘ بتایا گیا ہے یعنی جس کو علامت برتنے کا فنی شعور نہیں ہوتا تو وہ علامت بے کار بن جاتی ہے۔مسعود اشعر نے آسان بیانیہ انداز اور علامتی اسلوب کے امکانات کے حوالے سے پتے کی بات کی ہے کہ”بعض لوگوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ دائرہ مکمل ہوگیا ہے اور اب افسانہ نگار بیانیہ کی طرف واپس آرہے ہیں۔لیکن جہاں تک امکانات کا تعلق ہے تو میں بڑے دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ نہ تو بیانیہ انداز کے امکانات ختم ہوئے ہیں اور نہ ہی علامتی انداز کے۔ یقیناََ اُس اسلوب میں اچھی کہانیاں لکھنے کے امکانات موجود ہیں اور اِس انداز میں بھی اچھی کہانی کے امکانات ختم نہیں ہوئے۔“(ص:۳۹۱)۔اصل بات یہی ہے کہ افسانہ چاہئے راست بیانیہ میں لکھا جائے یا علامتی اسلوب میں‘بنیادی طور پر وہ افسانہ ہونا چاہئے۔
مجموعی طور پر شاملِ کتاب مذاکروں کا احاطہ کریں تو ان میں اردو افسانے کی تاریخ سے لیکر ۶۰۰۲ء کے افسانوی منظر نامے‘افسانہ کے اجزائے ترکیبی‘تجریدی اور علامتی اسلوب‘افسانہ نگاروں کی فکشن خدمات اور امتیاز‘ روایت اور رجحانات وغیرہ پر جانداز بحث و تمحیص اور معلومات افزا مباحثے ہوئے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ہر مذاکرہ علمی وادبی بنیاد پر ردوقبول کے ساتھ ساتھ دوستانہ ماحول میں ہوا ہے۔ دراصل یہ مذاکارے کئی ادوار میں مختلف رسالوں میں شائع ہوئے ہیں۔جن میں ”نقوش لاہور۔افسانہ نمبر(۰۵۹۱ء)‘ ’لکھنو ”ماہنامہ کتاب“افسانہ نمبر(۰۷۹۱ء)‘”لاہور”تخلیق“افسانہ نمبر(۴۸۹۱ء)‘”سہہ ماہی پہچان“کتابی سلسلہ نمبر۵‘دہلی”سہہ ماہی ذہن جدید“”شب خون“(ستمبر۹۶۹۱ء)‘ممبی”شاعر“افسانہ نمبر(۱۸۹۱ء)‘پاکستان”روشنائی“افسانہ نمبر(۶۰۰۲)۔ مطالعہ سے ظاہر ہے کہ
یہ کتاب اردو افسانے کی روایت‘موضوعات‘فن اور رجحانات کا ایک ایسا انسائیکلو پیڈیا ہے جو اردو افسانے کی ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے اور شائقین افسانہ‘افسانہ نگاروں اور فکشن تنقید سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ افسانے پر تحقیق کرنے والے محققین کے لئے بھی بڑی کارآمد ہے۔سلیم سالک کی انتخابی نظر اور حسن ترتیب قابل ستائش ہے کہ اتنی محنت سے مواد جمع کرکے کتابی صورت میں شائع کرایا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...