کسی کی منت پر میں اپنی منت کا دھاگہ باندھنا نہیں چاہتی تھی، اس لیے دھاگہ ہاتھ میں تھامے خاموشی سے ایک خالی جالی کی تلاش کر رہی تھی جس پر اپنا کا دھاگہ باندھ سکتی۔ لیکن یہ دیکھ کر مجھے حیرانی ہوئی کہ درگاہ کے آمنے،سامنے، دائیں اور بائیں سنگ مر مر سے تراشی ہوئی ان گیارہ خوبصورت جالیوں میں سے ایک میں بھی اتنی جگہ خالی نہ تھی جس پر میں اپنی منت کا دھاگہ باندھ سکتی۔ اپنے بیمار و کمزور وجود کو سنبھالے مایوسی سے ادھر ادھر نظریں دوڑا نے لگی کہ شاید آس پاس، کوئی خالی جالی نظر آ جائے۔ لیکن وہاں زیاد ہ تر جالیاں سرخ اور پیلے رنگ سے رنگے دھاگوں سے لدی ہوئی تھیں۔ان دھاگوں کے ساتھ کہیں کہیں رنگ برنگی کانچ کی منتی چوڑیاں اور چھوٹے چھوٹے مرادی تالے بھی بندھے ہؤے تھے۔ ایسا لگتا تھا ان ڈیڑھ دو برسوں میں جیسے منتوں کی بھی باڑھ آئی ہو۔ نا جانے کتنے ہی لوگ مجھ سے پہلے اپنے اپنے دھاگے باندھ کر جا چکے تھے۔
گلاب ،موتیے کی خوشبو، اگر بتی، لوبان اور چراغی کے دھوئیں اور خوشبو میں شا مل ہوکرہر طرف اپنا رنگ جما ئے ہوئے تھی۔ خواتین اپنی مخصوص جگہ پر قر آن کی تلاوت اور دعا درود کر رہی تھیں۔ بھشتی اپنی مشک سنبھالے ذائ
یرین سے وضو کا پانی بھرنے کا اصرار کر رہے تھے۔ کچھ لوگ کپڑے کے بنے چھوٹے بڑے پنکھے ہاتھ میں لئے وہاں موجود تمام لوگوں کو ہوا کر رہے تھے۔ زیارت کے لئے آستانے کے اندر جانے والے مرد حضرات کی ایک لمبی قطار صحن میں لگی ہوئی تھی۔ جو فاصلے کا خیال رکھنے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی تھی۔پیلے،سرخ، ہر ے اورسفید کتنے ہی رنگ کے ملبوسات زیب تن کئے اور اس پر مختلف قسم کی پگڑی یا ٹوپی لگائے خادم حضرات بڑی شان سے دالان میں بچھے خوبصورت قالین پر بیٹھے تھے اور کچھ ادھر سے ادھر ٹہل رہے تھے۔باقی مجذوب و پریشان حال کتنے ہی لوگ اپنے اپنے رنگوں میں وہاں موجود تھے۔
میں صحن میں ایک طرف کھڑی ابھی اسی کشمکش میں تھی کہ دھاگہ کہاں باندھا جائے؟ تب ہی ایک نوجوان لڑکی بڑی اضطرابی کیفیت میں ہاتھ پیر پٹختی عجیب و غریب آوازیں نکالتی اچانک درگاہ کے احاطہ میں داخل ہوئی۔ جس نے اپنا دوپٹہ گردن اور پیٹ کے درمیان سینے پر سختی سے کسا ہوا تھا۔ اس کے سیاہ لمبے گھنے بال شانوں سے نیچے تک پھیلے ہوئے تھے اور آنکھوں میں عجیب سی وحشت اور آواز میں خوف تھا۔ جو اپنی پوری طاقت سے ایک جملہ دوہرا رہی تھی۔ ”سارے بند توڑ دونگی، سارے دھاگے کھول دونگی“ اپنی اُسی اضطرابی کیفیت اور جملے کی تکرار کے سا تھ اس نے اچانک درگاہ کے صحن میں دوڑلگانی شروع کر دی۔ جنون بڑھتا تو وہ کسی جالی کے پاس جاکر اسے جھنجوڑنے کی کوشش کرنے لگتی مگر سنگ مرمر سے بنی مضبوط جالیاں ٹس سے مس نہ ہوتیں۔ کبھی ا پنی اسی کیفیت میں وہ جالیوں میں بندھے دھاگوں کونوچنے کھسوٹنے لگتی یا پھر گردن اوپراٹھا کر اپنے کھلے ہوئے گھنے بالوں کو ناگن کی طرح ہوا میں لہرانے لگتی۔ اس کی اس بھاگ دوڑ اور چیخ پکارنے وہاں موجود کتنے ہی لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کیا تھا۔ جو تماشبین بنے ہوئے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ بوجھل طبیعت اور بھاری دل کے ساتھ میرے لئے اب زیادہ دیر کھڑا رہنا دشوار تھا۔دھاگہ ہا تھ میں تھامے جہاں کھڑی تھی وہیں بیٹھ کر سب کے ساتھ اس لڑکی کو دیکھنے لگی۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور ایک جوان لڑکا اس کے ساتھ تھے جوغالباً اس کے ماں اور بھائی تھے۔ وہ کسی صورت ان دونوں کو قابو نہیں دے رہی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت مایوس اور پریشان نظر آ رہے تھے۔ تب ہی کلف لگے سفید چوڑی دار کرتا پاجامہ پر کالی واسکٹ اورلکھنوی ٹوپی لگاۓ سیدی مجاوروں میں سے ایک چھوٹے مجاور رجسٹر ہاتھ میں لئے ان کا حال احوال لینے آ پہنچے۔ اور وہیں کھڑے کھڑے انہوں نے ماں اور بھائی سے لڑکی کی ساری تفصیل جانی اور نسخہ سمجھاتے ہوئے ان لوگوں کو دالان میں بچھے خوبصورت قالین پر بر اجمان بڑے شاہ صاحب تک پہنچا دیا۔ بڑے پیٹ والے بڑے شاہ صاحب کا لباس بھی ہو بہو چھوٹے شاہ جیسا ہی تھا بس ان کی ٹوپی غالب کٹ تھی۔
میں وہاں بیٹھی دل ہی دل میں دعا اور درود کے ساتھ اپنی منت بھی دوہرارہی تھی جب چھوٹے شاہ جی کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ مجھ سے بھی چندے کی رسید کٹوانے کی فرمائش کرنے لگے۔ اور میرے معذرت کرنے پر بڑی ناگواری سے یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے ”کبھی ہوگا بھی نہیں تمہارے پاس“ میں جو اپنی پریشانی میں کتنی ہی مرادیں لے کر دعا کے لئے یہاں تک آئی تھی۔وہاں چھوٹے شاہ کے الفاظ تیر کی طر ح میرا دل چیرتے چلے گئے۔ اس مہمان نوازی پر میں بکھرنے لگی مگر ایک لفظ احتجاج کا میرے منہ سے نہ نکلا۔ بزرگوں کے آستانے پر جہاں لوگ اپنی مرادیں لے کر آتے ہیں وہاں میر ا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ عجیب سی بیچینی اور گھٹن میں اپنے اندر محسوس کرنے لگی۔ تب ہی مزار کے سامنے والی دیوار سے لگ کر بیٹھے وہاں کے مخصوص قوالوں نے ہارمونیم پر تان بھری اور اپنی خوبصورت آواز میں کلام پڑھنا شروع کیا۔ حمد و ثناء کے بعد نعتیہ کلام کا سلسلہ شروع ہوا۔ اگر بتی،لوبان،گلاب اور موتیے کی خوشبو میں بسی سماع کی محفل کا روحانی فیض ہر روح میں اترنے لگا اور ایک عجیب سی سرشاری چاروں طرف پھیل گئی۔
”سارے بند توڑ دونگی، سارے دھاگے کھول دونگی“ اپنی اسی آواز میں لڑکی پہلے سے زیادہ بھاگ دوڑ کرنے لگی تھی اور کتنے ہی مجذوب کیفیت کے عالم میں جھومنے لگے تھے۔ قوالی کی گونج اور چھوٹے شاہ کا جملہ میر ی سماعتوں سے ٹکر اتا ہوا غم کی شکل میں کب دل سے آنکھ تک پہنچا اور کتنی دیر میں اس بے خودی کے عالم رہی مجھے نہیں پتہ۔ میں تو اپنی بند آنکھوں میں پھیلی سیاہی سے پھوٹتی اس سنہری سفید روشنی کے حصار میں تھی جہاں دل کا سارا غبار آنکھوں کے راستے نکل کر میری روح تک کو شفاف کر رہا تھا۔
مجھے ہوش آیا تو میرا چہرا آنسووؤں سے تر تھا۔ گردن اٹھا کر میں نے ایک بار پھر اپنے اطراف کا جائزہ لیا۔قوال اپنا تان طبیلہ اٹھا کر جا چکے تھے۔ کپڑے کے بنے چھوٹے بڑے پنکھے وہ لوگ ایک دیوار کے سہارے سے کھڑا کر کے کہیں چلے گئے تھے۔زیارت کے لئے اندر جانے والے مرد حضرات کی قطار مختصر ہو گئی تھی۔ بھشتی مشک کھونٹی پر لٹکا کر اب غائب تھے۔ چھوٹے شاہ ساؤتھ انڈیا سے بزنس ٹور پر آئے ایک گروپ کے ساتھ مصروف تھے اور بڑے شاہ صاحب نذرانے کا حساب کتاب کرتے ہوۓ پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔ وہ لڑکی ایک جالی سے کافی دھاگے کھولنے اور توڑنے کے بعد اب وہیں خاموش بیٹھی تھی اور اس کی ماں اور بھائی کانچ کی چوڑیوں سے زخمی ہوئے اس کے ہاتھوں کی مرہم پٹی کر رہے تھے۔وقت کافی گزر چکا تھا واپسی کے لئے خود کو سمیٹتے ہوئے اچانک میری نظر میری گود میں رکھے اپنے ہاتھوں پر گئی تو میں ایک عجیب سے احساس سے اچھل پڑی۔ سرخ، پیلا دھاگہ میرے آنسوؤں میں ڈوب کر اپنے سارے رنگ بوند بوند نچوڑ کر سنگ مر مر کے سفید فرش کی نذر کر چکا تھا۔ اورمیرے ہاتھ میں مٹی رنگ کچا دھاگہ تھا۔ جسے اپنی مٹھی میں سختی سے دبا کر میں واپسی کے لئے کھڑی ہو گئی۔ چند قدم آگے بڑھ کر جب ایک نظر میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں خالی ہوئی جالی کے اس پار سے مبارکباد کا پیغام آ رہا تھا۔
****
تحریر: ترنم جہاں شبنم ۔ دہلی انڈیا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...