رہگذ ر کے مجسمے کو دیکھ کر جہاں عقل دنگ رہ جاتی وہیں حیا کی آنکھیں ایسے جھکتی کہ اٹھائے نہیں اٹھتی۔!!
میناکھشی رام اوتار کی اکلوتی بیٹی تھی۔اسکا چہرہ ماں کے سانچے میں لیکن جلد پر باپ کا رنگ غالب تھا۔رام اوتار پیشے سے کمہار تھا۔وہ ہر روز صبح ناچتی چاک پرمٹی رکھ کر طرح طرح کے برتن اور کھلونے تیار کرتا۔سات برس کی عمر سے میناکھشی اسکا ہاتھ بٹاتی ۔اس بار دیوالی کی آمد تھی ۔تیاری مہینوں پہلے شروع ہوگئی ۔میناکھشی نے پوکھر سے مٹی کاٹ کر آنگن میں جمع کرناشروع کیا۔ ایک صبح رام اوتار نے چاک کو کھونٹی پر رکھا اور نم مٹی کو چاک پر ر کھ کرپوری توانائی کے ساتھ اس کو نچایا۔چاک کے ساتھ ساتھ رام اوتار کا من بھی ناچ اٹھا۔ انگلیاں سبک روی کے ساتھ ادھر ادھر اوپر نیچے جنبس کرتی رہیں اور بلرام پور کی سانولی مٹی سے دیپ تیار ہوتے رہے۔!!اس نے میناکھشی کو آواز دی ۔
’’میناکھشی دیئے کو تختے پر رکھکر دھوپ دیکھاؤ۔‘‘
میناکھشی نے ایک ایک دیئے کو تختے پر رکھا۔پھر دوپٹہ سنھالتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے تختے کو اٹھایااور پھونس کے چھپر پر آہستہ سے رکھا۔ پڑوس کابیس سالہ نوجوان ہر روز اس منظر کو بڑے غور سے دیکھتا۔چار پائی سے اتر کر وہ کہتی ۔
’’پریتم تم روزانہ کیا تماشہ دیکھتے ہو۔!!‘‘
وہ شرما کر کہتا۔
’’ میناکھشی میں تم کو دیکھ کر یہی سوچتا ہوں کہ تم لڑکی ہوکر کتنا پریشرم کرتی ہو۔!‘‘
وہ من کو گلابی رنگ میں بھگو کر جواب دیتی ۔
’’دیکھ پریتم ۔۔۔!جب تک جیون ہے ۔محنت تو کرنا ہی ہوگا۔ورنہ سب مان جائے گا پر پیٹ نہیں مانتا۔!‘‘
پریتم چٹکی لیتا۔
’’تو جس کے گھر جائے گی نہ میناکھشی وہ بڑا بھاگوان ہوگا۔!‘‘
میناکھشی اسکی طرف دیکھ کر مسکرادیتی اور پھر رنگ میں برس بھگو کر مٹی کے کوزے پر نقش ابھارنے لگتی ۔اس دوران اسکے چہرے پر ایک عجیب دمک رہتی۔دن بھر باپ کے ساتھ ہاتھ بٹاتے بٹاتے وہ تھک جاتی ۔شام ہوتے ہوتے اس پر غنودگی طاری ہوجاتی ۔دوروٹی کھاکر آنگن میں چارپائی پر لیٹ جاتی اور آسمان پر بکھرے ستاروں کی جھرمٹ میں اپنے مقدر کا ستارہ تلاش کر نے میں مشغول ہوجاتی ۔!
چاندنی رات۔!۔مہواکی شاخ پر گھونسلوں میں چڑیے کے بچوں کی چہکار۔!!۔سرسوں کے کھیت میں لہلہاتے پیلے پیلے پھول۔!!۔آسمان پر چمکتے ستارے کی جھرمٹ میں چمکتا گول چاند۔۔۔!!اور سرسوں کے کھیت میں چاند کو تکتا چکور۔۔۔!! ایسے میں اسکے دل میں ایک انگڑائی اٹھتی ۔پھر کروٹ بدلتے بدلتے آدھی رات گذرجاتی ۔!ہر طرف مہیب سناٹا۔اس کا جی کہتا ۔
’’کب سورج اگے کہ یہ سیاہ رات کٹے تاکہ دیپ پر مینا کاری کا کام کیا جائے۔!!‘‘
آہستہ سے پائتانے سے چادر کھینچتی اور بدن پر ڈال کر سوجاتی۔دوسرے دن سورج اگتا۔پپیہے راگ چھیڑتے۔کوئل کوکتے۔پیلے پیلے سرسوں کے پھول پر بھنورے آتے ۔بیلوں کی جوڑی کے ساتھ کسان ہل کاندھے پر اٹھائے کھیت کی طرف روانہ ہوتے ۔پھر رام اوتا ر کی زندگی کا چاک ناچ اٹھتااور چاک پر ناچتی بلرام پور کی سانولی مٹی سے دیئے کے کورے کھورے تیار ہونے لگتے۔!!جب پانچ سو کے قریب دیئے تیار ہوگئے تو رام اوتا ر نے میناکھشی سے کہا۔
’’بیٹی اب اسکو بھٹی دے دیا جائے۔!!‘‘
بھٹی سلگا۔ایک ایک کچے دیئے کو سجایا گیا۔چاروں طرف پھونس رکھا گیا۔اس پر تھوڑا سا تیل چھڑ ک کر رام اوتارنے سلائی کی تلی مار ی۔آگ لہک اٹھی ۔گھنٹوں بعد جب بھٹی کی آگ سرد ہوگئی تو آہستہ سے سفید اور کالے پھونس کی چھائی کو ہٹا کر اس میں سے ایک ایک دیئے کو آہستہ آہستہ میناکھشی نے باہرنکالا۔پھر رنگوں کی مینا کاری کا عمل شروع ہوا۔ اس دن دیاونتی نے مہوا کے نیچے مٹی کے کورے کھورے میں دودھ گرم کرتے ہوئے من ہی من میں کہا ۔
’’ ہے بھگوان اب کے برس تو ان دیپوں سے اتنا دھن دے کہ میں میناکھشی کے ہاتھ پیلے کر سکوں اور اس کو ڈولی میں بیٹھا کر اسکے ساجن کے دوار بھیج سکوں۔!!‘‘
اتنے میں ٹکٹکی کی ٹک ٹک سے اسکی آتما کوشانتی ملی کیوں کہ اس کی ماں بچپن کے دنوں میں اکثر کہا کرتی کہ جب کسی بات پر ٹکٹکی بول دے تو وہ کام پورا ہوکر رہتا ہے۔ !!
بلرام پور کی سانولی مٹی کپاس اور بادام کی کھیتی کے لئے بہت زرخیز تھی۔ اس گاؤں میں پلاس،ناریل،نیم،برگداور پیپل کے پیڑ تھے۔پیپل کے نیچے کنواں،کنواں کا پانی شیتل،اس پنگھٹ پر گاؤں کے پنہاریوں کا جب جمگھٹ لگتا تو نظارہ بڑا دلکش ہوتا۔بسنت کی ہوا جب چلتی تو کوئل اور پپیہے کی پی کہاں گاؤں والوں کے دلوں میں ایک جوت جگاتے۔ جب ساون برستا تو کبھی کبھی بلرام پور گاؤں کی پتلی پگڈنڈیوں پر مور نکل کر محوِرقص ہوتے۔زمستاں کی جب شب آتی تو سورج ڈھلتے پورا گاؤں لحاف میں سمٹ جاتا۔ بسنت جب دستک دیتا تو کیا کہنا ہر طرف فصلیں لہلہا اٹھتی ۔ بلرام پور کی مٹی سے بنے دیپ میں گاؤں والے بادام کے تیل میں کپاس کی باتی جلاتے۔ جن سے چوبارے روشن رہتے۔گاؤں کا وہ پنگھٹ جس کے سینے میں ہزاروں داستانیں منجمد تھیں اس طوفانی رات کو ایک اور ایک واقعے کا گواہ بن گئی جب قوس قزح کی ڈالی لچک کر ٹوٹ گئی۔!!ہوا یوں کہ مینا کھشی بلرام پور کے گاؤں سے دیپ بیچ کر ہاتھ پیر دھونے اسی پنگھٹ پر آئی۔
زمستان کی آمد آمد ۔نیل گگن پر چاندنی لٹاتا پونم کا چاند اور جوگن بن کررات کے بام پرچڑھتی شام۔۔!!کہ اتنے میں پنگھٹ پر ایک چینخ ابھری اور خلاؤں میں بازگشت چھوڑ کر منجمد ہوگئی۔!!
چاروں طرف ایک مہیب سناٹا۔!!رجنی گندھا کاا سٹیک سامنے سرجو ندی میں تیر رہا ہے۔تھوڑی دوری پر مرجھایا گلاب ندی کے تھپیڑے کی زد میں۔۔۔!!!
چینخ سن کر دیاونتی پنگھٹ کی طرف لپکی او ر طاق پر بیٹھے بوڑھے کبوتر نے نیل گگن پر دیکھا۔
’’راہو کیتو کی چنگل میں ہے۔!‘‘
بجھی بجھی چاندنی میں دیاونتی نے میناکھشی کو مہواکے نیچے چارپائی پر لیٹا کر دیکھا۔ناگ مٹی کے کورے کھورے کا کچا دودھ پی گیا ہے۔کھورے میں بچا دودھ نیلاہوگیا ہے۔دل سے ایک آہ نکلی ۔
’’تقدیر کے ستارے بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں جب تک یہ گردش میں رہیں زندگی سانس نہیں لے پاتی۔!!
سرد رات تپنے لگی۔احتجاج کی سُر تیز ہونے لگی۔بھیڑبڑھتے بڑھتے تھانے تک پہنچی۔
مسز سکسینہ نے تھانے میں گرج کر پوچھا۔
’’ کیا ہو ابھی ابھی ایف آئی آر لانچ ہونے والا تھا۔؟‘‘
ایک اجنبی شخص نے کہا ۔
میڈم آپ کے ماتحت افسر راگھون نے لڑکی کے باپ کو باہر لے جاکرسمجھا بجھا دیا ہے کہ وہ بہت امیر ہے۔کیس کردے گا ۔کیا تم اس سے کیس لڑنے سکوگے۔تمہاری لڑکی کا پھر کہیں شادی نہیں ہوگا۔!!مسز سکسینہ کی آنکھیں انگا رے اگلنے لگی۔اس نے چینخ کر کہا ۔
’’تم سب باہر جاؤ اور را گھون کو اندر بھیجو۔۔۔!!‘‘
’’کیا بات ہے ابھی تک ایف آئی آر لانچ نہیں ہوا؟‘‘
راگھون نے کہا ۔
’’میڈم لڑکی اپنے بیان سے منحرف ہوگئی ۔!!‘‘
لیکن راگھون کی سماعت میں لان میں ہونے والی بحث کی آواز اب بھی گونج رہی تھی۔
’’ممی تم جھوٹ بولتی ہو۔سرسوں کے کھیت میں اس نے میرے ساتھ ایسا ہی گھناؤنا حر کت کیا ہے۔تب تک باپ کی کرخت آواز لپکی۔
’’ چپ رہو ۔ تم نابالغ ہو۔۔!‘‘
ذہن میں اس باز گشت کی شدت کم ہوئی تو راگھون نے سنا ۔مسزسکسینہ کہہ رہی ہے۔
’’سفاک معاشرے میں روایت،تہذیب کی تمام کڑیاں ایک چھناکے کے ساتھ ٹوٹ کر بکھر گئی ہیں لیکن بھاگ دوڑ کی اس زندگی میں اس کا احساس کسی کو نہیں ہے۔!جب تک معاشرہ مادہ پرستی کے چنگل میں رہے گا تہذیب ،اخلاق کی بقا خطرے میں رہے گی۔!!‘‘مسز سکسینہ پیر پٹختی ہوئی یہ کہہ کر باہر نکل گئی ۔
’’مسٹر راگھون لڑکی تمہاری ہوتی تو سمجھ میں آتا۔مجھے خبر ملی ہے کہ وہ سالا لڑکی کے چکر میں رہتا ہے۔میں اسکو سبق سکھاؤں گی۔!!تم مردوں کے ہاتھوں عورت کبھی محفوظ نہیں رہی ہے۔چاہے وہ دروپدی ہو۔یا سیتا۔!!‘‘
اس حادثے کے بعد مہینوںآنگن میں رام اوتار کا چاک بظاہر رکا رہا لیکن اسکے اندر کا چاک کافی تیزی سے چلتا رہا ۔!!
دیپاولی کی شام کو جب اجالے پھیلے تو میناکھشی کے اندر گھور اندھیرا تھا ۔باہر دیپاولی کے پٹاخے پھوٹ رہے تھے اور اسکے اندردل کے پھپھولے۔!! اس دن چوبارے میں دیپ روشن کرتے ہوئے دیاونتی نے اپنے چھوٹے بیٹے سے کہا۔
’’بیٹے رام کا ویناس کرنے والے رام جی آج ہی کے دن بن باس کاٹ کر اجودھیا نگری واپس لوٹے تھے اور لوگوں نے مارے خوشی کے اپنے اپنے گھروں میں دیپ روشن کئے اور پٹاخے چھوڑے!!! ‘‘
میناکھشی نے کہا۔
’’نہیں ماں راون ابھی زندہ ہے!!!‘‘
باہر زمستا ں کی ہلکی دھوپ۔!کورٹ کے لان کے ایک کونے میں دیاونتتی اور رام اوتار جوٹ کے تھیلے میں چند بوسیدہ کاغذ لیکر وکیل کے آنے کا انتظار کررہے ہیں۔ایک مزدور کورٹ کے صدر دروازے پر ایک عورت کے قدِآدم مجسمے کی نوکِ پلک سنوار رہا ہے ۔!اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔بائیں ہاتھ میں ایک ترازو ۔ترازو کا ایک پلڑا ایک طرف جھکا ہو اہے اوراس کے نیچے جلی حرفوں میں لکھا ہے۔
’’ stable it or abolish it. ‘‘
ان دونوں کی بغل میں ایک سنگتراش بیٹھا ہے۔ سامنے باغیچے کی طرف دیکھ کر وہ سوچ رہا ہے۔!!
کل موسم بدل جائے گا۔زیتون کی شاخوں پر کلیاں کھلیں گی۔جب ان کلیوں پر شبنم کی بارش ہوگی تب اس کی تراوٹ سے غنچہ پوش جو نازک پنکھڑیوں اور بقچہ مادہ کی حفاظت کرتا ہے پھیل جائیگا۔ پنکھڑیاں کھل جائیں گی۔ان کے رنگین اور خوشنما دامن کی گرفت میں بھنورے آئیں گے اور پھر بھنوروں کے پیروں سے زردانے لپٹ لپٹ کر زیرگی کے عمل کو انجام تک پہنچائیں گے اور پھر موسم بہارمیں نئی فصل لہلہا اٹھے گی۔ بادام کی شاخوں پر گھنگرو کی طرح پھل آئیگا۔اس نے دیاونتی سے پوچھا۔
’’ تم انصاف کے اس مندر میں کیوں آئی ہو۔؟‘‘
دیانتی نے اپنی آپ بیتی سنائی ۔ اسکی آپ بیتی سن کر سنگتراس اداس ہوگیا۔دن بھر وہ سوچتا رہا مالن مائی کے ساتھ بھی تو ایسا ہی ہواجسکو درندوں نے جی بھر کر لوٹا۔اسکا قصور صرف یہ تھا کہ اسکا بھائی گاؤں کی ایک لڑکی سے پریم کرتا تھا جسکی سزا گاؤں کی پنچائت نے اس لڑکی کو دیا۔چند ماہ پہلے ویروں کی بھومی میں منداکنی کے ساتھ تو اس سے بھی زیادہ بھیانک ہوگیا۔!اس نے اپنے قبیلے سے باہر ایک لڑکے سے پریم کیا تھا۔قبیلہ اس کو برداشت نہیں کیا۔چند لونڈوں نے لڑکے اور لڑکی کو پکڑ کر تھان لے گے اورقبیلے کے سردار نے پچیس پچیس ہزار روپئے تاوان دینے کا حکم سنایا۔لڑکی کا باپ غربت کی وجہ سے اس رقم کو چکانے سے قاصر رہ گیا۔تب قبیلے نے حکم دیا کہ سب لوگ اسے لے جاؤ اور اس کے ساتھ مزے کرو۔!!
پہلے لڑکی کو درخت سے باندھا گیا۔پھر اسکو سڑک کے کنارے ایک چال پر ڈال کراعلان کردیا گیا کہ جسکو جو کرنا ہے وہ کرے۔!پھر کیا تھا نوجوانوں کی ٹولی نے اسکی عصمت کو بتاشے کی طرح کھاگئے۔ !اس دوران لڑکی چیخ وپکار کرتی رہی لیکن کوئی اسکی مدد کے لئے آگے نہیں آیا۔!!
تب تک سورج ڈوب گیا۔سنگتراس کی ڈیوٹی ختم ہوگئی ۔گھر واپس آکرچاندنی رات کی باہوں میں وہ پہروں سوچتا رہا۔
ستارے اب بھی روشن ہیں۔!چاندنی اب بھی اپنا دامن پھیلائی ہے۔!!سرسوں کے کھیت میں پپیہے اب بھی راگ الاپ رہے ہیں لیکن مالن مائی اورمنداکنی کا وجود اس دھرتی کے لئے ایک بوجھ بن گیاہے۔!!!دامنی کی جھیل فاسد خون سے گندی ہوگئی ہے۔!اس میں بسیرا کرنے والی عصمت کی اپسرائیں منجمدہوکرپتھر بن گئی ہیں۔!! بلرام پور کی سانولی مٹی کے دیئے سے اجالے بانٹنے والی میناکھشی کی زندگی گھنگور تاریکیوں کے سمندر میں ڈوب گئی۔!!!وہ رات بھر پیچ و تاب کھاتا رہااور ذہن کے کورے کاغذ پر کہانی لکھتا رہا۔صبح اٹھکر سنگتراس نے اس کہانی کو اپنے فن کے سانچے میں ڈھالا۔!
ایک خوبصورت نوجوان لڑکی کا مادرزادبرہنہ جسم۔!
بکھری زلفیں۔ !
جھکی نگاہیں۔!
گول گول چھاتیوں پر نوکیلے دانتوں کے نیلے نیلے داغ۔!!
دونوں رانوں پرسرخ سرخ لہوکے بہتے دھارے اور آنکھوں سے ٹپکتے آنسوؤں کے قطرے۔!!!
اس نے اس قدِآدم مجسمے کو شہر کے رہگذر پر نصب کر کے اسکے نیچے جلی حرفوں میں لکھا۔
’’اگلے جنم موہے بیِٹیانہ کیئجو۔!!‘‘
***
ڈاکٹر عظیم اللہ ہاشمی ( کولکاتا،مغربی بنگال،انڈیا )
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...