(Last Updated On: )
شہرسدا رنگ جھنگ بھی ایک عجیب شہر ہے جووقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کوفے کے قریب ہو رہا ہے۔ دریائے چناب کے مشرقی کنارے پر واقع اِس قدیم شہر کے نشیبی علاقے کی ایک بستی جہاں کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد لاتا ہے آج بھی اپنی داستانِ حسرت سناتی دکھائی دیتی ہے۔ کہرام ٹھگ کے آبا و اجداد گزشتہ کئی صدیوں سے اس علاقے میں رہتے تھے۔ سلطان جب اس طرف سے گزرتا تو کہرام ٹھگ کی بستی کو حیرت سے دیکھتا اور دیدۂ گریاں کی روانی چُھپانے کے لیے گل افشانیٔ گفتار کا سہارا لیتا تھا۔ المیہ ہو یا طربیہ سلطان کی ہر بات کے پس منظر میں احساس کی تمازت اور جذبات کی شدت ملنے والوں کو مسحور کر دیتی تھی۔ حکیم کمال نے جب سلطان کو بستی مستریاں والا کے آسیب زدہ ہونے کے بارے میں بتایا تو سلطان نے اس کی بات خندۂ استہزا میں اُڑا دی اور کہا:
’’جس بستی میں نائکہ بختو، امیرن بائی، کہرام ٹھگ اورتشفی مَل کنجڑے جیسے شقی القلب ٹھگ پیہم رندے چلاتے ہوں وہاں آد م خوربھوت یا آسیب کے پھندے یا چڑیلو ںاور ڈائنوں کے گورکھ دھندے کیا حیثیت رکھتے ہیں؟ کہرام ٹھگ اورتشفی مَل کنجڑے کے گھر میں کئی آدم خور بھوت، چڑیلیں اور ڈائنیں موجود ہیں جو انسانوں کا بھیس بنا کر اپنے نرغے میں آنے والے اہلِ جنوں کا خون پی کر اُنھیں اہل عالم کے سامنے تماشا بنا دیتی ہیں۔ ان ننگ انسانیت درندوں کے گھر میں ایک سے بڑھ کر ایک خطرناک آسیب، ڈائن، چڑیل اور جادو گر چڑیل نے ڈیرہ ڈال رکھاہے۔ یہ ایسے آدم خور ہیں جو طے شدہ منصوبے کے تحت شقاوت آمیز ناانصافیوں اور بے رحمانہ مشقِ ستم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حرص ،ہوس اور جنسی جنون کے جذبۂ بے اختیار کے تحت یہ درندے جب مظلوموں پر کوہِ ستم توڑتے ہیں تو آسیب بھی منھ چھپاتے پھرتے ہیں۔ کہرام ٹھگ، اُس کے پروردہ جرائم پیشہ درندوں اوراُس کے اہلِ خانہ کی بد اعمالیوں کے باعث اس بستی کے در ودیوار پر ذلت، تخریب، نحوست، بے برکتی، بے توفیقی، بے غیرتی، بے ضمیری اور بے حیائی کے کتبے آویزاں ہو چکے ہیں۔‘‘
بستی مستریاں والا کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ یہاں چُونا لگانے والے اور چُونا کرنے والے لوگوں کا بسیرا ہے۔ اس پر اسرار بستی سے لے کر دریا کے مشرقی کنارے کئی میلوں تک پھیلے ہوئے خود رو گھنے قدرتی جنگل بیلے میں دشوار گزار خار دار جھاڑیاں ہیں۔ یہ پُر اسرارگھنا جنگل اور خاردار جھاڑیاں جنگلی درندوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ خود رو جنگل آسیب زدہ ہے اور اس جنگل کے کناروں کے ساتھ بہنے والے دریائے چناب کے گرداب میں عوج بن عنق جیسے عفریت دیکھے گئے ہیں۔ یہاں کے ہر عفریت اور چڑیل کی جان ٹخنوں میں ہوتی ہے اسی لیے یہ آسیب اور بھوت پاؤں پٹخ کر چلنے کے عادی ہیں۔ مشرق میں جہاں جنگل ختم ہوتاہے وہاں سرسبز و شاداب چراگاہیں موجود ہیں جہاں گلہ بان اور چرواہے مقامی کسانوں کے مویشی چَرانے کے لیے پہنچتے ہیں اور ساتھ ہی کہرام ٹھگ کی آشیربادپر رسہ گیر اِن مویشیوں کو چُرانے کے لیے آ دھمکتے ہیں۔ اس علاقے میں رہنے والے کچھ چرواہے ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنے پالتوں جانوروں کی حفاظت کا خاص انتظام کر ر کھا ہے۔ ان کے ریوڑ کے ساتھ ایک فربہ السیشن کتا موجود ہوتا ہے۔ کچھ سادہ لوح لوگ اپنے مویشیوں کی حفاظت کے لیے ایک کتیا بھی پال لیتے ہیں مگر ایسی نمک حرام کاتک کی کتیا ہمیشہ کی طرح اپنی فطرت سے مجبور ہو کر یا تو چوروں سے مِل جاتی ہے یا دُم ہلاتی کسی فربہ سگِ راہ کے ساتھ نئی منزلوں کی جستجو میں دُور نکل جاتی ہے۔ کاتک کی کتیا کے رفو چکر ہو جانے کے بعد احساسِ محرومی سے نڈھال چرواہے ہاتھ مَل کر جی کا زیاں کرتے ہیں۔ حفاظتی بند کے جنوب میں جھنگ کا قدیم شہر آباد ہے یہاں کی کچھ قدیم عمارتیں تو طوفانِ نوح کی باقیات خیال کی جاتی ہیں۔ اس پُر اسرار مقام پر چغد، زاغ و زغن، چمگاڈر اور ہجوم کر گساں دیکھ کر ہر شخص سہم جاتا۔جب بھی کوئی فریب خوردہ شاہین اس ہجوم ِکرگساں کے نرغے میں پھنس جاتا لوگ اُس کی جان کو رو لیتے۔ یہ خون آشام کرگس ہر بار نیا بھیس بنا کر گردشِ ایام کی زد میں آ جانے والے کسی نہ کسی شاہین کو زیرِ دام لانے میں کامیاب ہو جاتے اور یوں ہر بار ایک نیا المیہ سامنے آتا۔ جھنگ کے قدیم اور تاریخی شہر کو دریائے چناب میں موسم گرمامیں آنے والے سیلابوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر محکمہ آب پاشی نے ایک حفاظتی بند تعمیر کیا ہے جو شمال مشرق میں ایک قدیم گاؤں شہابل سے شروع ہو کر جنوب مغرب میں دریائے جہلم اور دریائے چناب کے سنگم تریموں ہیڈورکس پر ختم ہو جاتا ہے۔ چالیس کلو میٹر لمبا، پچاس فٹ بلند اور تیس فٹ چوڑ اکچی مٹی سے بنایا گیا یہ بند بھی ایک عجوبہ ہے جو دریائے چناب کی طوفانی لہروں کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر ان کے سامنے ڈھیر ہو جاتا تھا اور ان بپھری ہوئی موجوں کو شہر کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں کوئی مزاحمت نہ کرتا تھا۔ یہ مثال سال 1950 ء اور سال 1973ء میں سامنے آئی جب حفاظتی بند کے بہہ جانے کے نتیجے میں قدیم شہر کھنڈرات اور ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا۔
اگست 1973ء میں دریائے چناب میں آنے والے قیامت خیز سیلاب نے بے ستون مکانوں کے مکین کہرام ٹھگ اور اس کے پروردہ سسلین مافیا اور انڈرورلڈ کو ایسا طمانچہ لگایا کہ اُن کی رعونت کا قصر عالی شان ملبے کے ڈھیر میں بدل گیا۔ دریا کے تیز پانی کے کٹاؤ کے نتیجے میں اِن ڈاکوؤ ںکے دفینے بہہ گئے اور حرص وہوس کے سفینے ایسے اُلٹے کہ ٹھگوں کی جان پہ بن آئی۔ شام کا وقت تھا ایک طرف پُور ا شہر ڈُوب رہا تھا تو دُوسری طرف آسمان پر سُورج بھی ڈُوب رہاتھا۔یہ منظر دیکھ کر ہر با ضمیر شخص کی آنکھ اشک بار تھی اور دل سے ایک ہُوک اُٹھ رہی تھی۔ سیلاب کے بعد مو سلا دھار بارش سے جل تھل ایک ہو گیا محنت کش دہقانوں، مزارعوں اور مزدوروں نے اپنے روشن مستقبل کے جو خواب دیکھے تھے وہ سب لہروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ سیلاب نے کچی آبادیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا اور دریا کی لہریں غریب لوگوں کا سارا مال و اسباب بہالے گئیں۔ مصیبت کی اس گھڑی میں کہرام ٹھگ کے ساتھی لُوٹ مار میں مصروف رہے۔ امدادی کاموں میں مصروف شہری دفاع کے رضاکاروں نے دیکھا کہ اس سیلاب زدہ علاقے کے مکینوں کی آنکھوں میں ویرانی ہی بچی تھی باقی سب اسباب تو کہرام ٹھگ کے اُچکے ساتھیوں نے لُوٹ لیا تھا۔
جھنگ سے سرگودھا جانے والی سڑک کے مشرق کی جانب حفاظتی بند کے نشیبی علاقے کی ایک کچی آبادی کو مستریاں والا محلہ کہتے ہیں۔ مستریاں والی بستی میں ہوس آمیز جنسی جنون کو پروان چڑھانے میں کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے نے نہایت قبیح کردار ادا کیا۔ گرگٹ کی طر ح رنگ بدلنا اور اپنے شکار کو نگل جانے کے بعد مگر مچھ کے آنسو بہانا ان موذیوں کا وتیرہ تھا۔ہر موقع پر نئے بھیس بدل کر یہ دونوں ٹھگ لوگوں سے زر و مال بٹور لیتے تھے ۔ان فریب کاروں کے جو رُوپ تھے اُن میں اتائی، نجومی، رمال ،جوتشی، ستارہ شناس، عامل اور تارک الدنیا سادھو شامل ہیں۔ ان عادی دروغ گو عیاروں کی طبیعت ایک طرفہ تماشا تھی، یہ بگلابھگت اس قدر منافق تھے کہ کسی کا اعتبار ہی نہ کرتے اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ یہ اپنا اعتبار کھو بیٹھے۔ ان میں سے اکثر تھالی کے بینگن اور چکنے گھڑے تھے جونہایت ڈھٹائی کے ساتھ اپنی دروغ گوئی اور مکر کی چالوں کا دفاع کرتے اوراسے اپنے موقف پر استقامت سے تعبیر کرتے تھے ۔ان میںسے اکثر اپنے ماضی کے قبیح کردار اور ٹھگی کے وار کو بھول جاتے اور پرانے شکاری کی حیثیت سے کوئی نیا جال تیار کرکے میدان ٹھگی میں کُود پڑتے تھے ۔نئی نسل کو اپنے مکر و فریب کی داستانوں کا احوال بتانے میں انھیں کوئی دلچسپی نہ تھی وہ نہایت رازداری سے لُوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھتے ۔جب کبھی اِن کا جُھوٹ پکڑاجاتاتو یہ جُھوٹے حلف کو ڈھال بنا کر لوگوں کی آ نکھوں میں دُھول جھونکتے تھے ۔ اس بستی میں ہر کام اور ہر بگڑی ہوئی مشین کے ایسے مستری اپنی جھگیوں میں مقیم ہیں جو ہتھیلی پر سرسوں جما کر پلک جھپکتے میں مشینوں کے بگاڑ کو سدھار کر اپنی مزدوری وصول کر لیتے ہیں ۔یہاں کچھ اناڑی مستری ایسے بھی ہنہناتے پھرتے ہیں جو مشینوں کے سادہ لوح مالکوں سے مشینیں اور مرمت کا معاوضہ اینٹھ کر اپنے گھر کے کواڑ بند کر کے رفو چکر ہو جاتے ہیںاور یوں بگاڑ میں اصلاح کی آڑمیں اِن غریبوں کی دنیا ہی اُجاڑ دیتے ہیں ۔ خیالی پلاؤ پکانا،بے پر کی اُڑانا اور وادی ٔ خیال میں مجنونانہ صحرانوردی کرنے والوں سے کہرام ٹھگ اور تشفی کنجڑے کا گہراتعلق تھا۔بے سر و پا باتیں بنانے کیاور بے پر کی اُڑانے کے بجائے یہ ٹھگی کرتے وقت ہتھیلی پر سرسو ںجما دیتے اور ثابت کر دیتے کہ فریب کاری ،دھوکہ دہی ،مکر ،سفلگی،خست و خجالت اور سادیت پسندی کے بدلتے ہوئے انداز کیا ہیں ۔ کہرام ٹھگ مستریاں والی بستی کا مکین تھاوہ اپنے ساتھیوں کو بتاتا تھاکہ جب بھی سیلاب آیا سیلاب کی تباہ کاریوں سے شہر کا نظام تہ و بالا ہو گیا۔ سیلاب کا پانی اُترتا تو کہرام اپنے ساتھیوں سمیت سیلابی علاقوں پر دھاوا بو ل دیتا اور مکانات کے ملبے کے ڈھیر سے قیمتی سامان اورسونے چاندی کے زیورات لُوٹ لیتا تھا۔لُوٹ مار سے فارغ ہونے کے بعد مستریا ںوالی بستی کا عشقی ٹڈا کہرام ہر وقت اداکارہ مدھو بالا ( 1933-1969)کے نام کی مالاجپتا رہتاتھامستریاں والامحلہ کو جھنگ کا سہراب گوٹھ بھی کہا جاتاہے جہاں جنس و جنوں اور منشیات کی دستیابی کی تمام ممکنہ صورتیںدستیاب ہیں ۔اس محلے میں کئی اِتائی بھی رہتے تھے جو کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑا کی شراکت سے دوا ،علاج اور جعلی حکمت کی آڑ میں ٹھگی کا قبیح دھندہ اور اکھاڑ پچھاڑ کا پھندہ لگا کر لُوٹ مار کرتے تھے ۔ کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے نے دیسی شراب کی بھٹی سے بہت کالا دھن کمایا ۔ گردشِ ایام کا شکار ہونے اور آلامِ روزگار کے مہیب پاٹوں میںپسنے والے سادہ لوح، درماندہ اور مظلوم طبقے کے پاس مر ہم بہ دست پہنچ کر اُن سے جعلی اظہار ہمدردی کر کے اُن کا اعتماد حاصل کرنا ان کا وتیرہ تھا۔یہی وہ حربہ تھا جسے استعمال کر کے وہ غریبوں کو زندگی بھر کی کمائی سے محروم کر دیتے تھے ۔ انجمن اصلاح معاشرہ کے رضاکارو ںنے انسانیت کے خلاف ان بے ضمیروں کے ناقابلِ فراموش جرائم سے تنگ آ کر شراب کی کشیدکے لیے استعمال ہونے والا ان منشیات فروشوں کا قرع انبیق اور ٹین کا پی پا ایک مرتبہ توڑ دیا ۔ ان رضاکاروں کاخیال تھا کہ ان سفہا کے جرائم کو محض ایک بستی تک محدودنہیں کیا جا سکتا بل کہ اس کے پوری انسانیت پرمسموم اثرات مرتب ہو نے کا اندیشہ ہے ۔ کردار سے عاری ،جذبوںکی صداقت اور منطق کی حقیقت سے نا آشنا کہرام ٹھگ اس موقع پر بے حسی اور بے حیائی کامجسمہ بنا ہنہنا رہا تھا۔اس نے نہایت ڈھٹائی سے کہا:
تم کتنے پی پے توڑو گے
ہر گھر سے پی پا نکلے گا
تم اپنا ہی سر پھوڑو گے
’’ جنسی جنون اور مے نوشی مستریاں والی بستی کے نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ دولت مند والدین کے بیٹے اپنی ضرورت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ہمارے قحبہ خانے او ر چنڈو خانے کا رخ کرتے ہیں ۔ہمیں احساس ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اس لیے ہم بھی اپنی ضرورت کی خاطر نا چار جنسی جنون، اغوا،چوری ،ڈاکے ،ٹھگی اور منشیات کے دھندے پر انحصار کرتے ہیں۔ جس طرح چوہے کی جلد کے بالوں میں پسو گُھس جاتے ہیں اسی طرح ٹھگی اور جرائم ہماری سرشت میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہی بات توآسٹریا کے قانون دان ہینز کیلسن (Hans Kelsen:1881-1973) نے کہی تھی کہ ضرورت کسی پابندی کو خاطر میں نہیں لاتی ۔‘‘
یومیہ اُجرت پر کام کرنے والے مزدور اس کچی آبادی میں اقامت کا پکا پیمان وفا باندھ چُکے تھے ۔اپنی دیانت داری ،جا نفشانی اور کار گزاری کے باوجو د تنگ دستی اور فاقہ کشی ان مزدوروںکا مقدر بن چُکی تھی ۔ مستریا ںوالا محلہ کے اردگرد سدا ریت اورخاک اُڑتی ر ہتی تھی مقامی باشندوں کا خیال ہے کہ صدیوں پہلے یہاں ایک بے آ ب و گیاہ صحرا ہوتا تھاجو مجنوں کی ہلاکت کے بعد نجد سے بے نیلِ مرام لوٹنے والی صحرائی مخلوق کی بے ہنگم جھگیوں کے نیچے تاریخ کے طوماروں میں دب گیاہے ۔بڑی سڑک پر ٹریفک کی ازدحام کے باعث سڑک کے کنارے واقع اس بستی میں بڑھتے ہوئے شو ر غل سے لوگوں کے معمولات اور کاروبار بھی شدید متاثر ہوا۔ محلہ مستریاںوالا کی ایک تنگ و تاریک گزرگاہ میں گھنشام داس نامی ایک بوڑھا رہتاتھاجس کے پوشیدہ دھندے اور پُر اسرار پھندے کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔ گھنشام داس ایک عیار اِتائی تھا جو جڑی بوٹیوں اور قدرتی دھاتوں کو ملا کر مٹی کے برتنوں میں بند کر کے آگ پر رکھتا،اس کے بعدمٹی کے برتن کو گڑھا کھود کر زمین میں دبا دیتا اور اس پر کئی دن تک آ گ اور ہرمل کی دُھونی دیتارہتا اس طر ح وہ کشتے تیار کرتا تھا۔کئی بار یہ کُشتے خام رہ جاتے تو کشتوں کے پُشتے لگ جاتے ۔اس حال میں بھی کوئی اس عیار ٹھگ کا احتساب نہ کرتا اور یہ مُوذی و مکار جعلی معالج نہایت ڈھٹائی سے سادہ لوح لوگوں سے زر ومال بٹور لیتا۔بستی کے لوگ اسے سل باتیں سناتے تھے اور یہ مورکھ اپنی تذلیل کی ہر دلیل سُنتا اور سر دُھنتا تھا۔اس کا بیٹا کہرام ٹھگ جو چوری ،ڈکیتی ،اغوا ،قتل و غارت گری کی کئی وارداتوں میں ملوث پورے علاقے میں دہشت کی علامت بن گیا۔ یہ سفا ک قاتل جس طرف سے گزرتا وہاں خوف اور دہشت کے باعث کہرام مچ جاتا۔ اسی وجہ سے لوگ بہرام ٹھگ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے اِس سفاک ڈاکو اور پیشہ ور قاتل کو کہرام ٹھگ کے نام سے پہچانتے تھے ۔اُجرتی بد معاشوں ،پیشہ ور ٹھگوں ،چوروں او رقزاقوں کے گروہ جو بھی انجمن بناتے کہرام ٹھگ اُس کا سر غنہ ہوتاتھا۔
محلہ مستریا ںوالا میں کہرام ٹھگ کے چنڈوخانے میں بیری کا ایک قدیم درخت تھاجس پر بے شمار زاغ و زغن ،چُغد،چھپکلیوں اورچمگادڑوں کا بسیراتھا۔کہرام ٹھگ کے چنڈو خانے کے کچے فرش پر ہر طرف طائرانِ بد نوا کے ضماد سے ایک کھڑنجا سا بن گیا تھا۔ کچے گھر کی دیواریں سیم کی وجہ سے اس قدر بوسیدہ ہو گئی تھیں کہ کسی وقت بھی وہ زمیں بوس ہو سکتی تھیں ۔ کہرام ٹھگ کے ٹھکانے کے پاس درختوں کے جھنڈپر چغد ،چمگادڑ ،چھپکلیاں ،گدھ اور زاغ و زغن موسم کے بدلنے کا اعلان کرتے تھے ۔اس کے چنڈو خانے کی دیواروں میں بے شمار کیڑوں ،مکوڑوں اور چیونٹیوں کے بِل تھے۔ کئی اُلو اور اُلو کے پٹھے توسورج طلوع ہوتے ہی اس کے گھر کی دیواروں کے گرد منڈلاتے دکھائی دیتے تھے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری ر ہتا ۔ کہرام ٹھگ کے گھر کا دروازہ مغربی جانب ایک انتہائی متعفن گلی میں کُھلتا تھاجس میں نالیوں سے بہتاہوا گندا پانی ایک گہرے جوہڑ میں جمع ہوجاتا تھا ۔ اس جگہ پر غلاظت اکٹھی ہوجانے کی وجہ سے یہاں سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے جس کی وجہ سے وہا ںسے گزرنا محال تھا۔گندے پانی کے جوہڑ میں جو عجیب الخلقت حشرات پائے جاتے تھے اُن میں سنپولیے،جونکیں ،کچھوے، کن کھجورے ، مینڈک ،کینچو ے اور سانپ کی شکل کی مچھلیاں شامل تھیں۔ معلوم نہیںکس طرح اس متعفن پانی سے لبا لب بھرے جو ہڑ میں مچھلیاں بھی پروان چڑھنے لگیں ۔ رات کی تاریکی میں کہرام ٹھگ گندے پانی کے جوہڑ میں جال پھینک کر مچھلیاں پکڑتااور دِن چڑھے بستی میں یہ کہہ کر فروخت کرتاکہ وہ دریائے چناب اوردریائے جہلم کے سنگم پر تریموں کے مقام سے یہ تازہ مچھلیاںپکڑ کر لایا ہے۔ بھور بازار میں اس کے پروردہ ٹھگ گندے پانی کے جوہڑ سے پکڑی گئی اِن مچھلیوں کے کباب بنا کر بیچتے اور یہ ظاہر کرتے کہ یہ تازہ دریائی مچھلی کے کباب ہیں ۔ اپنی عادات و اطوار کے اعتبار سے کہرام ٹھگ پورے علاقے کی نفرتوں اور حقارتوں کی زد میں تھا ۔یہ ناہنجار جس طرف جاتا دو طرفہ ندامت اور مظلوم انسانوں کی ملامت اس کا تعاقب کرتی تھی ۔پکوڑے اور کباب بیچنے کے ساتھ ساتھ کباب میں ہڈی بن جانا بھی اس شُوم کا وتیرہ تھا۔
کہرام ٹھگ نوسر بازی اور فریب کاری سے جو کچھ کماتا وہ قحبہ خانوں ،چنڈو خانوں اور قمار خانوں میں اُڑا دیتا تھا۔اس کے گھر کے مطبخ سے کبھی دُھواں اُٹھتا تو پڑوسی سمجھتے کہ شاید اس سفلہ ٹھگ کے قحبہ خانے میں آتش زدگی کاسانحہ ہوگیا ہے ۔پریشانی کے عالم میں سب لوگ آ گ بجھانے کے لیے ریت اور پانی کی بھری بالٹیاں اُٹھا کر اس نا ہنجار کے چنڈوخانے اور قحبہ خانے کی طرف لپکتے مگر وہاں تو ہر طرف اُلّو بول رہے ہوتے تھے ۔ کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا مہمان آ نکلتا تودال ،ساگ اور دلیہ پکانے کی نوبت آ جاتی ۔کھانا تو شاذ و نادر ہی پکتا تھا البتہ کہرام ٹھگ کے گھر کی عورتیں بستی کے نواحی کھیتوں کے کناروں پر خودر و جڑی بو ٹیوں پیلکاں ،ڈیہلے ،پیلوں ، الونک ،اکروڑی ، کاسنی ، لسوڑے ،تاندلااوربتھوا مفت توڑ کر لاتیں اور انھیں پکا کر سب لوگ کے ساتھ کھاتے تھے ۔ گرمی کے موسم میں خشک جو کو بُھون کر اُسے پیساجاتا اور اُس کے آ ٹے میں شکر ڈال کر شربت بنایا جاتا تھا۔بینگن کو اُپلوں کی آ گ پر بُھون کر اس میں ہری مرچ اور لسی ڈال کر بُھرتا بنایا جاتا ۔ عورتیں کھیتوں سے خود رو جڑی بوٹی تاندلہ توڑ کر لاتیں اور اس میں وہ ہری مرچ جو وہ کھیتو ںسے چور ی توڑ کر لاتی تھیں کُوٹ کر ملاتیں اور آٹا گوندھ کر اس میں تاندلہ ملاتی تھیں ۔ تاندلا مِلی یہ روٹیاں جب تنور سے پک کر آتیں تو سب لوگ شوق سے کھاتے اور پتلی لسی ( کَنگ ) کاگلاس پی کر اپنے پیٹ کا دوزخ بھرتے تھے ۔ کہرام ٹھگ کے گھر میں صرف عید الاضحی کے موقع پر وہ گوشت پکتاتھا جو مخیر لوگ ان کے گھر بھجواتے تھے۔بعض اوقات صدقے کے جانور کا گوشت یا بیمار جانور کا گوشت بھی انھیں مِل جاتا تھااور یوں زبان کا ذائقہ بدلنے کی کوئی صورت پیدا ہو جاتی تھی ۔کہرام ٹھگ کے گھر میں داخل ہوتے ہی دروازے کی جنوبی سمت میں ایک ہینڈ پمپ تھا جس کے فرش کے ارد گرد کوئی دیوار نہ تھی اور جس سے پانی نکلنے کا عمل عرصے سے بند تھا ۔ یہیں پر غسل اور رفع حاجت کے لیے نلکے کے گرد چاپائیاں کھڑی کر کے عارضی پردہ بنایا جاتاتھا۔ مستریاں والی بستی میں پینے کا پانی میسرنہ تھا۔پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے بستی کی عورتیں گھڑے اُٹھا کر مسجد کی کُھوہی کے کنارے پہنچتیں اور رسی سے بندھے ڈول کو لٹکاکر کُھوہی سے پانی نکالتیںاورپانی سے اپنے گھڑے بھر کراپنے گھر لاتی تھیں۔ گھر کی جنوبی دیوار کے ساتھ اناڑی بڑھئی کی کیکر کی لکٹری کی بنی ہوئی ایک گھڑونچی رکھی تھی جس پر مٹی کے تین گھڑے نلکے کے پانی سے بھر کر دھر دئیے گئے تھے ۔مٹی کے تین پیالے بھی گھڑونچی پر رکھے گھڑوں کے منھ پر چپنی کے طور پر دھرے ر ہتے تا کہ پانی پینے والوں کو کسی برتن کو تلاش کرنے کی ضرورت نہ ہو ۔اس کچی آبادی کے باشندوں کا معیار زندگی دیکھ کر یقین ہو جاتاکہ یہ لوگ غربت کی انتہائی پست لکیر سے بھی نیچے زندگی کے دِن پورے کرنے پر مجبور ہیں۔
گلی میں کہرام ٹھگ کے گھر کادروازہ تھا اس دروازے سے داخل ہوتے ہی ایک چھپر تھااس سے آگے صحن میں بیری کاایک درخت تھا۔ چند گز کے فاصلے پر کہرام ٹھگ کے گھر کے تنگ و تاریک کمرے کے بعد ایک دوسرا کمرہ شروع ہو جاتاجہاں روشنی اور تازہ ہوا کا گزر بعید ازقیاس تھا۔ اس عقوبت خانے کی شمالی دیوار کے ساتھ کچی مٹی سے بنائی گئی ایک سیڑھی تھی جس کی ڈاٹ کے نیچے کچی مٹی اور گوبر کو ملا کر بنایا گیاایک بھڑولا رکھا تھا ۔اس بھڑولے میں اُوپر سے ڈال کرگندم ذخیرہ کی جاتی تھی اوراس کے منھ کو بند کرنے کے لیے کچی مٹی کا ایک ڈھکن تیار کیا گیاتھا۔گندم نکالنے کے لیے بھڑولے کے نچلے حصے میں چار انچ کی بلندی پر ایک چھوٹا سا سوراخ ہوتاتھا۔آٹا رکھنے کے لیے مٹی کا ایک چھوٹا سا دابڑا بھی کمرے میں رکھا جاتاتھا۔برسات کا موسم گزر جاتاتو گہئی ،کلہوٹی ،دابڑے اور بھڑولے میں رکھی گندم کو دُھوپ میں سُکھانے کے بارے میں سوچا جاتا تھا۔اس مقصد کے لیے کچے کمرے کی چھت جو سر کنڈے اور کیکر کی لکڑی کی کڑیوں سے بنی ہوتی تھی اس میں بھڑولے کے عین اُوپرپہلے سے ایک گول سوراخ رکھ لیا جاتاتھا ۔ یہ سوراخ جو ’’ مگھ ‘‘ کہلاتاتھا اس کے محیط کو گوبر اور کچی مٹی سے لپائی کر کے مضبو ط بنایا جاتاتھا۔ بارش کے پانی کے بہاؤ کو بھڑولے میں گرنے سے روکنے کے لیے مگھ کے محیط کو چھت کی سطح سے ایک انچ بلند رکھا جاتاتھا۔بارش کی بوچھاڑ سے بھڑولے کے مگھ کو بچانے کے لیے مگھ کو مٹی کے پکے بھڑاندے سے ڈھانپ دیا جاتاتھا۔بھڑانڈا مٹی کاایک پختہ برتن ہوتاتھا جسے ٹپ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتاتھا ۔ گندم کو خشک کرنے کے لیے چنگیروں میں اسے بھرا جاتا اور گندم سے بھری چنگیریں سر پر اُٹھا کر گندم چھت پر پھیلا دی جاتی تھی ۔سارا دِن گندم سورج کی دُھو پ میں خشک ہوتی رہتی اس کے بعد سہ پہر کے وقت گندم کو چھاج میں پھٹک کر اور پرون میں چھان کر اسے مگھ کے ذریعے واپس گہئی ،کلہوٹی ،دابڑے اور بھڑولے میں منتقل کر دیاجاتاتھا۔زمانہ کیا بدلا کے گھروں کے سارے انداز ہی بدل گئے اب کُنالی ،پر ٹوٹے ،صحنک ،چُھونی ،کاڑھنی،کولی،مُنگر ،کڑچھی،چَٹُو ،دَوری ،کُوزہ ،صراحی اور استاوا جیسے برتن کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔
کہرام ٹھگ کے اس عقوبت خانے ،چنڈوخانے اور قحبہ خانے کے صحن میں جنوبی دیوار کے ساتھ کچی مٹی سے بنا ہو ا شکستہ ساچولھا پڑا ہوتاتھا یہی مطبخ تھااور یہیں سب افراد ِ خانہ کے مِل بیٹھ کر طعام کھانے کی جگہ تھی ۔ چولھے میں جلانے کے لیے کہرام ٹھگ کے گھر کی عورتیں دریا کے کنارے سے خود رو جھاڑی ’’ لئی ‘‘ اور چراگاہوں سے خشک گوبر اُٹھا کر لاتی تھیں۔ گوبر کو محفوظ کرنے کے لیے اسے کمرے کی چھت پر جوڑ کر اس پر کچی مٹی کی لپائی کر کے کے ’’ سروڑ ‘‘ بنایا جاتاتھا ۔ خود رو جھاڑی ’’ لئی ‘‘ کی گیلی لکڑیاں سوکھنے کے لیے کمرے کی چھت پر رکھ دی جاتی تھیں ۔ گھر کی مشرقی اور مغربی اور شمالی و جنوبی دیواروں میں میخیں گاڑ کر ان میں لوہے کی دو مضبو ط موٹی تاریں باندھ دی گئی تھیں۔ افرادخانہ کے استعمال شدہ میلے کپڑے ،کھیس،دھسے اور چادریں دھونے کے لیے کھار کا استعمال عام تھا۔ خود ر جڑی بو ٹی ’’ لانی ‘‘ دریا کے کنارے جنگلوں میں مفت دستیاب تھی اس کومٹی پر جلایا جاتا اور اس ’’ لانی ‘‘ کی راکھ کو کھار کے طور پر کپڑے دھونے کے لیے استعمال کیا جاتاتھا۔ چُھٹی کے دِن اس بستی کی عورتیں ٹین کا ایک پی پا لیتیں اس میں مُٹھی بھر کھار ڈالتیں اور چولھے پر ٹین کاپی پا رکھ کر اُس میں حسبِ ضرورت پانی ڈال کر پانی کو خوب اُبالتی تھیں ۔جب پانی کھو ل جاتا تو اُس میں عفونت زدہ میلے کپڑے ڈال دیتی تھیں ۔ کچھ دیر بعد پی پا آگ سے اُتار لیا جاتا اور اسے ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھ دیا جاتاتھا۔نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے بستی کے نواح میں کیکر والا کنواں موجود تھا ۔مقامی کسان اس کنویں میں بیل جوت کر کھیتوں کی آ ب پاشی کرتے تھے ۔ صبح کے ناشتے سے فارغ ہو کر گھر کی مالکن ٹین کا پی پا اپنے سر پر اُٹھا کر بغل میں ایک تختہ اور ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھامے کیکر والا کنویں کا رخ کرتی ۔
اپنے سر پرٹین کا پی پا رکھ کر جب حسین عور تیں میلے کچیلے کپڑے دھونے کے لیے کنویں کی طر ف جانے کے لیے اپنے گھر سے نکلتیں تو اُن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کئی حال مست ستم ظریف نو جوان بی بے بھی اس طرف اُمڈ آتے اور دبے لفظوں میں یہ کہتے :
’’ سر پہ تمھارے پی پاہے اور تیرے قدموں کی دُھول یہ بی با ہے ۔‘‘
کپڑے دھو کر نچوڑ کر الگ رکھ لیے جاتے اور پی پے میں کھار کا جو پانی بچ جاتااُسی پانی سے بچے بھی نہاتے اور خاتون ِخانہ بھی کپڑوں سمیت اسی سے وہیں کنویں پر نہا کر گھر روانہ ہوتی تھی ۔ کچھ ریشمی کپڑے مٹی کی پرانی کُنالی میں پڑے گھریلو پیمانے پر تیار کیے گئے خود ساختہ صابن پرمیلے کپڑے رگڑ کر نلکے کے فرش پرڈنڈے سے پِیٹ کر اُنھیں تغاری میں دھو کر دُھوپ میں خشک ہونے کے لیے رسی پرلٹکادیا جاتا تھا ۔ کپڑے خشک ہو جاتے تو انھیں گٹھڑی میں باندھ کر ایک تونگ میں رکھ کر اُوپر ڈھکن چڑھادیاجاتاتھا۔ بستی کے عام مکینوں کی طرح اس گھر میں بھی صندوق نام کی کوئی چیز نہ تھی ۔گھر کے تمام کپڑے پچھڑوں یا بڑے تونگ میں رکھے جاتے تھے ۔نئی نسل کو اَب پچھڑے ،پچھی ،شیشے والی پنکھی،مصلیٰ،پُھوہڑی اور تونگ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔گھریلو دست کاریوں کی ماہر خواتین کھجور کے گاچے اُکھاڑ کر لاتیں اور ان گاچوں کے سفید پتوں کو دھوپ میں سکھا کر انھیں اپنی پسند کے رنگوں میں رنگ لیتی تھیں ۔وہ کھیتوں کے کنارے اُگے سر کنڈوں کی سر درانتی سے کاٹ کر لاتیں اور یہ سر خشک کر کے اسے آدھ انچ موٹائی کے برابر رکھ کر اس کے گِرد کھجور کے رنگین پتے لپیٹ کر بڑی سوئی کے ساتھ کھجور کے پتوں ہی سے اس کی سلائی کرتی چلی جاتی تھیں ۔اس کے بعداپنی پسند اور ضرورت کے مطابق اس کا سائز تیار کرتی تھیں ۔ چنگیریں ،چھابے ،چھبیاں ،ڈھاکویں ،پچھڑے ،پچھی ،شیشے والی پنکھی،مصلیٰ،پُھوہڑی اور تونگ کی تیاری کے لیے یہ مراحل طے کیے جاتے تھے ۔پلاسٹک کے برتن کیا آئے کہ صدیوں سے مستعمل برتن اور گھریلو دست کاریاں بھی قصۂ پارینہ بن گئیں ۔
مستریاں والی بستی کے اکثر گھروں میں ہاتھ سے چلائی جانے والی پتھر کی چکی ہوتی تھی ۔اس چکی پر نمک ،مرچیں ،دالیں ،مکئی ،گندم ،جوار،باجرہ ، دھنیا، اور منڈوا پیسا جاتاتھا۔ چینا اوردھان چھڑنے کے لیے ہر گھر میں اوکھلی اور موہلا بستی موجود ہوتاتھا میں کسانوںنے خراس لگایا تویہاں کے مکینوں نے سُکھ کا سانس لیا ۔خراس ایک بڑی چکی تھی جسے بیلوں کی جوڑی کھینچتی تھی اور وہ کام جو ہاتھ سے چلائی جانے والی چکی سے ایک گھنٹے میں مکمل ہوتاتھا وہ خراس پر دس منٹ تکمیل کو پہنچ جاتاتھا۔ان گھرو ںکے برتن دیوار کے ساتھ کیلوں سے لگے ایک لکڑی کے تختے یا مٹی سے بنے ایک فٹ چوڑی پڑ چھتی پر جوڑ دئیے جاتے تھے ۔اجنا س خوردنی کو محفوظ کرنے کے لیے مٹی کی چٹوریوں کی پالیاں کمرے کے ایک گوشے میں جوڑ دی جاتی تھیں ۔ہر چٹوری میں مختلف قسم کی دال یا جنس رکھی جاتی تھی ۔
کچے صحن کی اس عفونت زدہ زمین پر ایک گوشے میں پھٹا ہوا بوریا بچھا کر کہرام ٹھگ کی بیوی بختاوری اپنی دو کم سِن بیٹیوں کے ساتھ مِل کر گرم کمبل بنانے والے مقامی کارخانے سے اُجرت پر ملنے والی دُھنی ہوئی اُون کو اپنے ٹُوٹے پُھوٹے چرخے پر کاتنے میں مصروف رہتی تھی ۔سارا دن اِسی مزدوری میں گزر جاتا تب کہیں جا کر اُنھیںکھانے کو دو وقت کی خشک روٹی نصیب ہوتی تھی۔کہکشانوں پر قسمت کے ستاروں کی چال اور مقدر کی تحریر کے حال سے آگہی رکھنے والے درویش جب ان ٹھگوں کے تیر ستم سہنے اور لُٹنے والوں کے خالی ہاتھ دیکھتے تو یہ بات بر ملا کہتے کہ کہرام ٹھگ کے خانوادے کے سب لوگ نگاہوں سے گرنے کے بعد طویل عرصہ پہلے معاشرے کے سب غیرت مند اور با ضمیر لوگوںکے ہاتھوں کی لکیروں سے بھی نکل چکے تھے ۔ بستی مستریاں والا اور سیاہی وال کی ہر گلی میں کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے کے پروردہ لُچوں ، تلنگوں اور شہدوںنے ناکہ بندی کررکھی تھی ۔ جس طرف نظر اُٹھتی خسیس گھسیارے ، بد معاش بھٹیارے ، کج رو پینتر ے باز، عادی دروغ گو ،سفلہ دھوکے باز،ڈنڈ ی مار لٹیرے ، مکار فریب کار ،جو فروش گندم نما اور چکنی چپڑی باتو ںسے جی لبھانے والے عیار دندناتے پھرتے تھے ۔جرائم پیشہ ٹھگ گروہ سے تعلق رکھنے والا رسوائے زمانہ اُجرتی بد معاش اور پیشہ ور ٹھگ تشفی مَل کنجڑا اپنی بیوی رذیل طوائف امیرن بائی اپنی بیٹی تفسہہ کو ساتھ لے کر اکثر مستریاں والی بستی چلے آتے۔تشفی مَل کنجڑے کی بیٹی تفسہہ جب بھی مستریاں والی بستی میں کہرام ٹھگ کے گھر پہنچتی تو ان کے ہاں عشاق کا تانتا بندھ جاتا تھا۔تفسہہ ایک کال گرل تھی جس نے اس علاقے میں نوجوان لڑکوں کو اس قدر لُوٹاکہ ان کے والدین کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے اور اپنے نو جوان بیٹوں کے جنسی جنون اور اخلاقی بے راہ روی پر آٹھ آ ٹھ آنسو بہاتے تھے۔مستریاں والی بستی میں جو لوگ ان ٹھگو ںکی لوٹ مار کی زدمیں آئے ان میں حکیم کمال ،منشی جلال ،بشیر،حیات ،دلاور اور دلمیر شامل ہیں۔ تشفی مَل کنجڑے اور تفسہہ کا تعلق انڈر ورلڈ سے تھا۔ان درندوں نے کہرام ٹھگ کی بیٹیوں کو بھی اپنے دھندے میں شامل کر لیا۔ان کے قحبہ خانے میں جب رقص و سرود کی محفلیں رنگ جمانے لگین تو ان کے گھر میں ہُن برسنے لگا۔علاقے کا جو بھی شخص ان جنسی جنونیوں کے خلاف آواز اُٹھاتایہ اس پر عرصۂ حیات تنگ کردیتے تھے ۔حرص و ہوس نے انھیں اس مقام تک پہنچا دیا تھاکہ کائنات کے سب خزانے بھی انھیںحقیر معلوم ہوتے تھے اور وہ ہر وقت مزید لُوٹ کار کے بارے میں سوچتے رہتے ۔ شقاوت آمیز پیمان شکنی ،کینہ پروری ،غیظ و غضب ،زرو مال کی ہوس ،جنسی جنون اور منشیات کی عادت نے ان دونوں کو ایسی راہوں کا مسافر بنادیاتھاجو خود فریبی اور خود کشی کی جانب جاتی تھی ۔ زر و مال کے لالچ کے ہاتھوں مجبور ہو کر انھوں نے اپنے گھر کی سب عورتوں کو قحبہ خانہ چلانے کا حکم دیااور خود منشیات فروشی کے دھندے میں لگ گئے ۔یہ متفنی حالات کی زد میں آنے والے ہر اس شخص سے نفرت کر تے تھے جس میں اتنی استعدا د نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان کی خود غرضی ،موقع پرستی اور ہوس کی تسکین کا سامان فراہم کر سکے ۔
مستریاں والی بستی سے کچھ دُور ایک بستی میں غیر ہنر مند مزدور ، محنت کش کسان ،مزارع اور ظروف ساز رہتے تھے ۔یہ غریب لوگ منھ اندھیرے اُٹھتے اپنے مویشیوں کواپنے گھر کے صحن میں باندھتے ۔گوبر کی صفائی کرنے کے بعد دودھیال پالتو مویشیوں کا دودھ دوہتے اور کھیتوں کی طر ف چل دیتے ۔ان خاندانوں کی عورتیں بھی اپنے مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی تھیں ۔کھیتوں میں سبزیوں کی پنیری لگانا ،موسم کی فصل کی کاشت اور فصل پکنے پر برداشت کے تمام مراحل میں یہ محنت کش خو اتین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں ۔محنت کش دہقانوں ،مزارعین اوران کے گھر کے افراد کے حالات بہت تلخ تھے ۔فصلو ںکی برداشت کے موقع پر انھیں بیسواں حصہ مزدور ی اداکی جاتی تھی ۔ایک من وزن کے بیس گٹھے گندم کاٹنے اور انھیں آدھے میل کے فاصلے پر واقع کھلیان میں پہنچانے پر کھیت مزدور کو ایک گٹھا گھر لے جانے کی اِجازت تھی ۔یہی حال دوسری زرعی اجناس کی برداشت کی مزدور ی کے سلسلے میں تھا۔ نائکہ امیرن بائی ،نائکہ بختاوری اور ان کے قحبہ خانے میں جنسی کارکن کی حیثیت سے کام کرنے والی طوائفوں نے ان محنت کش عورتوں کو اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی،انھیں مال و دولت اور قیمتی ملبوسات فراہم کرنے کے جھانسے دئیے مگر وہ اپنی وضع بدلنے پر آمادہ نہ ہوئیں اور انھیں نفرت سے دھتکار دیا۔سلطان کو جب کہرام ٹھگ اور اس کے گھر کی عورتوں کی سازشوں کے بارے میں علم ہوا تو اُس نے ان محنت کش خواتین کے والدین اور اُن کے بزرگ میاں نتھاسے رابطہ کیا او رانھیں بچیوں کو پڑھانے پر مائل کیا۔ میاں نتھا کو حالات کی نزاکت سے آ گاہ کرتے ہوئے سلطان نے کہا:
’’ کہرام ٹھگ کا گھر تو نمک حرام ڈیوڑھی کی مثال ہے جو شخص بھی اس میں داخل ہوا وہ اس درِ سفلگی کا چوب دار بن کر اسیر حلقۂ دام ِ عیاراں ہو گیا ۔یہ سب لوگ کینہ پرور،حاسد اور جنسی جنونی ہیں ۔ان سے بچ کر وقت گزارنا ضروری ہے ۔رمزیٹھگ کی بیٹی مصبہا بنوسیاہی وال کی رذیل جسم فروش طوائف ہے جس نے اپنی لُوٹ مار سے سیکڑوں گھر بے چراغ کر دئیے ہیں ۔اس کی بہنوں شگن ،سمن،صبوحی ،شعاع اور پو نم نے بھی جنسی جنون کو عام کردیاہے ۔اِ ن کے مظالم سے دُکھی انسانیت پر جو کوہِ ستم ٹُوٹا ہے اُس کے بعدمظلوموں کی بددعا سے یہ درندے فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آنے والے ہیں۔‘‘
پر ِ زمانہ کی رفتار تو روشنی کی رفتار سے بھی بڑھ کر ہے جب کہرام ٹھگ اور تشفی کنجڑے کی بیٹیوں نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو اس گھر کی قسمت بدل گئی اور یہاں سامانِ تعیش اور دولت کی ریل پیل ہو گئی ۔ کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے کی بیٹیوں کے بناؤ سنگھار کی خاطر ایک ماہراور پیشہ ور مشاطہ کوملازم رکھا گیا ۔خرچی کی کمائی سے سوچ کے زاویے اور زندگی کا معیار بدل گیا اور تاندلے کے بجائے اب یہاںانواع و اقسام کے کھانے پکنے لگے۔دریا کی تازہ مچھلی، بکرے کی سجی ،تیتر ، تلیر ،بٹیر ،مرغ ،مرغابی اور ہرن کا گوشت کثرت سے پکنے لگا۔مہمانوں کی تواضع کی خاطر رقص مے اور ساز کی لے کا خاص انتظا م کیا جاتاتھا۔سب مست بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر دیوانہ وار رقص کرتے اور فاصلے سمٹ جاتے تھے ۔
منشیات فروشی اور ٹھگی کا دھندہ جاری رکھنا اب مستریوں والی بستی میں بہت مشکل ہو رہاتھا۔ فاقہ کش لوگ اب کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑا کی بھتہ خوری اورلُوٹ مار سے تنگ آ کر دوسرے علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے ۔ان ٹھگوں کے گھر کی طوائفوں کو توخرچی کی کمائی پر گھمنڈ تھامگر یہ ٹھگ بھتے کی پرچی دے کر لوگوں سے زر و مال ہتھیا لیتے تھے ۔ پیہم رسوائیوں،رو سیاہیوں اور جگ ہنسائیوںکے نتیجے میں کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑا اس قدر مایوس ہو گئے کہ اُن کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا اوراضطراب و اضمحلال کے عالم میں وہ پکار اُٹھتے کہ اب تو وہ اپنے دِل کے ویرانے میں دفن اپنی اُمنگوں کے مدفن کے مجاوربن چکے ہیں۔ ٹھگوں کایہ ٹولہ خوف کے جس متعدی مرض میں مبتلا تھاگھر کے تمام افراد اس سے متاثر تھے ۔ مستریاں والی بستی کے حالات سے دل برداشتہ ہو کر سفلگی کے استعاروں کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے نے مستقل سکون کے ساتھ لُوٹ مار کے لیے اپنی واردات کا مقام بدلنے کا فیصلہ کر لیا۔اب اُن کی نئی منزل فتح دریا کا سہم ناک شہر خموشاں تھاجہاں سے اُن کے خلاف کوئی آواز نہیں اُٹھ سکتی تھی ۔
کسی بھی شخص کے مزاج کو سمجھنے کے لیے اُس کے خاندانی پس منظر کے بارے میں حقیقی شعو رو آ گہی بہت ضروری ہے ۔آج الف لیلوی ماحول ،چار درویشوں کے قصوں ،داستانِ امیر حمزہ اور کوہِ ندا کی صدا پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ سلطان کو کہرام ٹھگ کے خاندان کے بارے میں سب حقائق معلوم تھے اس لیے وہ اس ننگ انسانیت درندے کے قریب جانے سے گریز کرتاتھا۔وہ جانتاتھا کہ کہرام سے لوگوں کی نفرت کا سبب دُکھی انسانیت پر بے رحمانہ مشق ستم اور شقاوت آمیز نا انصافیاں ہیں ۔کہرام ٹھگ کی محفل میں سفلگی کا وجود دغا و دُزدی میں ڈھل جاتاجس پر بعض اوقات دبی دبی سی عیاری اور اکثر اوقات چُھپی چُھپی سی مکاری ایک طرفہ تماشا تھا۔سلطان چاہتاتھا کہ کہرام ٹھگ کے بارے میں حقائق کے اُس حصے کا عمیق مطالعہ کرنا ہو گا جس میں لُٹیروں کے ہاتھوں مکمل طور پر تباہ ہونے کے بعداُمیدوں کے شکستہ تاج محل کی جانب بے نیلِ مرام لوٹنے والوں کے حالِ زبوں پر بھی نظر ڈالی گئی ہے ۔ کہرام ٹھگ کی سادیت پسندی اور لذتِ ایذا کے خبط کے نتیجے میں اس کی منحوس شخصیت میں شوریدگی ،انتشار،خست و خجالت ،موج مستی اور حرص و ہوس کے سوا کچھ نہ تھا۔اس کی کریہہ شکل کو دیکھ کر لوگ منھ پھیر لیتے اور بر ملا یہ بات کہتے کہ یہاں عفونت و سڑاند ،نخوت و نحوست اور ذلت و تخریب نے زندگی کو بھیانک تاریکیوں کی شام الم کی بھینٹ چڑھا دیاگیاہے ۔کہرام ٹھگ کو یہ زعم تھاکہ عام آدمی اس کے خاندانی پس منظر کے بارے میں حقائق سے بے خبر ہیں ۔وہ اپنی اصلیت چھپانے کے لیے نت نئے حربے تلاش کرتا اور عجیب و غریب ہتھکنڈے استعمال کرتاتھا۔ وہ عام آدمیوں میں گُھل مِل جانے سے بالعموم گریزکرتا اور پوشیدہ طور پر عوام کو لُوٹنے کے لیے اپنی چالیں چلتارہتاتھا۔ اپنے مجرم ضمیر کے کچوکے سہہ کر بھی یہ ابلہ ٹس سے مس نہیں ہوتاتھا۔ بزرگوں سے سنا ہے کہ شجرہ نسب کا قلم و قرطاس سے کوئی تعلق ہی نہیں یہ تو تکلم کے سلسلے ہیں جوکسی متکلم کے خاندانی پس ِ منظر کی غمازی کرتے ہیں۔علاقے کے لوگوں کا کہناہے کہ اپنے زمانے کا انتہائی خطر ناک ڈاکو کہرام ٹھگ کے مورث ادنیٰ گھنشام ٹھگ کا شجرہ نسب جمعدار بہرام ٹھگ سے ملتاہے ۔کہرام ٹھگ کا ساتھی تشفی مَل کنجڑابڑی ڈھٹائی سے اپنا شجرہ نسب آخری عہد مغلیہ کے عیاش مغل بادشاہ جہاں دار شاہ ( عہد حکومت :1712-1713،عرصہ ٔحیات :1661-1713)کے زمانے کی نائکہ زہرہ کنجڑن سے ملاتاتھا۔ تشفی مَل کنجڑے کی بیوی امیرن بائی اس بات پر اصرار کرتی تھی کہ وہ مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا ( عہد حکومت : 1719-1748 ،عرصہ حیات : 1702-1748)کی رقاصہ بیوی ادھم بائی کی نواسی کی بیٹی تھی۔ رسوائے زمانہ نائکہ، ٹھگوں کی کٹنی اوررذیل طوائف تفسہہ اور اس کے بھڑوے خصم رمزی کا شجرہ نسب ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی تحریر کے مانند نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے مگر کئی بوڑھے داستان گو طویل عرصے سے اس وضیع خاندان کے بارے میں تمام حقائق آج بھی من و عن بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ داستان گو کے بارے میں یہ کہا جاتاہے کہ وہ اپنے اشہب ِ قلم کی جولانیوں سے معاشرتی زندگی سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے اور بے ہنگم تضادات اور شقاوت آمیزناانصافیوں کے زخم رفو کرنے کی سعی کرتاہے ۔ جب کہ پیمان شکن، دروغ گو ،حرص و ہوس کے اسیرموقع پرست اور گرگ آ شتی کو وتیرہ بنانے والے خود غرض درندے سدا اپنے منھ میاں مٹھو بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
نو آبادیاتی دور میں سیاہی وال کے قحبہ خانے کی رسوائے زمانہ نائکہ تفسہہ کے خاندان کے مورث نے برطانیہ کے ایک دُور افتادہ قصبے کوپ لینڈکمبریا(Copeland Cumbria) میں دریائے ارٹ (River Irt) پر تعمیر کیے گئے سینٹون پُل (Santon Bridge)کے مقام پر ہونے والے عالمی مقابلہ کذب و افترامیں دنیا کے سب سے بڑے جھوٹے کامقابلہ کئی بار جیتا۔ نائکہ تفسہہ ،اس کا باپ تشفی کنجڑا، ماں امیرن بائی، تفسہہ کا بھڑوا شوہررمزی اورسسر کہرام ٹھگ ہرسال نومبر میں اس جشن میں شرکت کرتے رہے جو کوپ لینڈ میں سینٹون پُل پر نہایت تزک و احتشام سے ہر سال منعقد ہوتا ہے ۔ نائکہ تفسہہ کی ماں بے پر کی اُڑاتی ،سفید جھوٹ بولتی ،ملمع سازی سے لوہے کو سیم و زر بتاتی اور رنگوں کی بصارت سے محروم افراد کو رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کا استعارہ قرار دیتی تھی ۔برطانیہ میں رسوائے زمانہ کذاب وِل رِسٹن ( Will Riston :1808-1890)کی دروغ گوئی کی منحوس یاد تازہ رکھنے کے لیے اس جشن کا اہتمام کیا جاتاہے۔ عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگ نائکہ تفسہہ اور بھڑوے مسخرے رمزی نے زندگی بھر اپنے سفلی پیشوا وِل رِسٹن کی کورانہ تقلیدکو وتیرہ بنا ئے رکھا ۔فریب کاری ،عیاری اور قمار بازی میں وہ آخر ی سانس تک انہماک کا مظاہرہ کرتے رہے ان کا حلقہ ٔ احباب تو وسیع تھا مگر حقیقی بہی خواہ کم تھے ۔ان سے غداری کرنے والے بہت جلد ٹھکانے لگادئیے جاتے تھے ۔ نوآبادیاتی دور میں اس خطے میں جو لاقانونیت پیدا ہو گئی تھی اس نے افراتفر ی ،خود غرضی اور ہوس کوہوادی اور ٹھگوں کی پانچوں گھی میں تھیں۔سیاہی وال کے قحبہ خانوں ،چنڈو خانوں اورعشرت کدوں میں جنسی دھندہ کرنے والی نائکہ تفسہہ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اس نے ذلت و تخریب کی لرزہ خیز داستانیں رقم کیں ۔اس عادی دروغ گو خاندان کی پیمان شکنی اس قدر بڑھ گئی کہ ان کا وقار اور اعتبار ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔ایک وقت ایسا بھی آ گیاکہ اگر یہ کبھی بُھولے سے سچ بھی بو ل دیتے تو اِن مُوذی و مکار پیشہ ور ٹھگوںکے ہاتھوں نقصا ن جانی اور مالی نقصان اُٹھانے والے الم نصیب لوگ ان کی ایسی باتوں پر بھی سوالیہ نشان لگادیتے ۔
ممتازمورخ ضیاالدین برنی(1285-1357) نے اپنی مشہور تصنیف تاریخ فیروزشاہی( 1356) میں نائکہ تفسہہ اوربھڑوے رمزی کے ٹھگ خاندان کا ذکرکیاہے ۔ قدر ت کاملہ نے بر صغیر میں ہر عہد کے سلاطین کوٹھگوں کے اس طوفان سے آشنا رکھا۔ بر صغیر میں خلجی سلطنت کے بانی جلال الدین خلجی(1220-1296) نے اپنے عہدِ حکومت میں نائکہ تفسہہ کے خاندان کے ایک ہزار خطرناک ٹھگوں کوپابندسلاسل کر دیا۔ نائکہ تفسہہ کے خاندان کے طالع آزمااور مہم جُو تیر اندازوں،نیزہ بازوں اور شمشیر زنوں نے نادر شاہ درانی (1688-1747)کے مسلح دستوں میں شامل ہوکر 1739ء میں دہلی شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور تیس ہزار بے گناہ انسانوں کوموت کے گھاٹ اُتار دیا۔نائکہ تفسہہ کے خاندان کاقبیح کردار ،قتل و غارت کی لرزہ خیز وارداتیں ،دروغ گوئی اور بے لگام جنسی جنون اس رذیل خاندان کے مالی استحکام کا سب سے بڑاحربہ تھا۔ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے بارے میں آگہی رکھنے والے بزرگوں سے سنا ہے کہ نائکہ تفسہہ اور بھڑوے رمزی کے خاندان کے مورث ادنیٰ ابلیس نژاد گرگ جمعداربہرام ٹھگ(1765-1840)نے اپنے عہد میں شمالی ہندکی ریاست اودھ کے باشندوں کی زندگی اجیرن کر دی ۔اپنے آبائی شجرہ نسب کے حوالے سے نائکہ تفسہہ اس بات پر سدافخر کرتی کہ اس کے خاندان کے سرغنہ بہرام ٹھگ نے پچیس سال کی عمر میں ٹھگی کی وارداتوں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد اس سفاک ٹھگ نے پچاس سال ( 1790-1840) کے عرصے میں نو سو اکتیس(931) بے بس و لا چار اور مظلوم انسانوںکی زندگی کی مشعل گُل کر دی گئی ۔بہرام ٹھگ اور کے گروہ میں شامل درندوں نے خوف اور دہشت کی ایسی فضا قائم کی کہ پورے بر صغیر پر اس خطرناک ٹھگ کی ہیبت باری ہو گئی ۔ ایک راجبوت سورمایوگیش سنگھ رانا کے ساتھ تصادم میں بہرا م ٹھگ شدید زخمی ہوا ۔سال 1840میں بہرام ٹھگ کو برطانوی پولیس نے گرفتار کرلیا۔ ہندوستانی ریاست مدھیہ پردیش کے شہرجبل پورمیں انگریزمجسٹریٹ کرنل ہینری سلیمان( Col. Henry Sleeman) کی عدالت میں اس خون آشام درندے اور عیار ٹھگ پر مقدمہ چلایا گیااور عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اسے دار پر کھنچوا دیا گیا۔ نائکہ تفسہہ اور رمزی ٹھگ کے خاندانی ذرائع سے معلوم ہواکہ بہرام کی پھانسی کے بعد اس کے کالی زبان والے اورسبزقدم آبا و اجداد جنوبی ہندوستان کی ریاست نظام آباد (آ ندھرا پردیش) میں منتقل ہو گئے ۔یہ سب کالی دیوی کے پرستار تھے اور صحنِ چمن میں جس طرف بھی جاتے ہر شاخ پر زاغ و زغن ،بُوم و شپر اور اُلّو کا بسیرا رہتا۔ اس کے خاندان کے سفہااوراجلاف و ارذال ٹھگوں کاذکر جن قدیم مورخین نے کیاہے ان میں بر طانو ی ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم کپتان جیمزپیٹن ( Captain James Paton) بھی شامل ہے ۔
مستریا ںوالی بستی اور اس کچھ دُور فتح دریاشہر خموشاں میں کچھ عرصے سے منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ افراد نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ نئی قبریں کھود کر کفن چور ی کرنااور دفن ہونے والے مُردوں کی لاشوں کی بے حرمتی کے واقعات سے پورے علاقے میں خوف اوراضطراب کی لہر دوڑ گئی ۔ اکثر لوگوں کا خیال تھاکہ اغوا برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوںکے پیچھے بھی ان درندوں ہی کا ہاتھ ہے ۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ ان لرزہ خیزوارداتوں کا سرغنہ کہرام ٹھگ ،رمزی ٹھگ اور تشفی کنجڑا ہے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے عملے نے اِن رسوائے زمانہ اشتہاری لٹیروں اور قاتلوں کے گِرد گھیرا تنگ کر دیا۔کئی سراغ رساں اور کھوجی ان کے تعاقب میں تھے ۔اجلاف وارذال کے پروردہ یہ موذی بھیس بدل کر اور مقام بدل کرجرائم کا ارتکاب کرتے تھے ۔
کہرام ٹھگ کا بیٹا رمزی ٹھگ اپنی عیاشی کے لیے گھر کے برتن ، بہنوں کے جہیز کے ملبوسات اور اپنی ماںکا زیور چُرا کر لے جاتاتھا۔اپنی بہنوں کے سِلے اور اَن سِلے کپڑے بھی وہ چُرا کرکوچہ ٔ آہن گراں میں مقیم اپنی محبوبہ سموںآہن گر کی نذر کر دیتاتھا۔سنگ کے میلے پر جانے کے لیے رمزی نے اپنی بڑی بہن اور ماںکے سونے کے زیورات چُرالیے اور سموں آ ہن گر کو ساتھ لے کر رقص و سرود کی محفلوں میں خوب گُل چھرے اُڑائے ۔حسین و جمیل عورتیں اورگیت گا کر ناچنے والی طوائفیںرمزی ٹھگ کی بہت بڑی کم زور ی بن گئی تھیں ۔اپنے باپ کی طرح وہ ہر بازی کا شیدائی تھا اور ان بازیوں میں روپیہ پانی کی طرح بہا دیتاتھا۔ یہ فریب کار اپنے گھر کے افراد سے بھی دغا بازی کرتا اور انھیں بھی لُوٹ لیتاتھا۔سیلاب آتے ہیں ،طوفان ِبادوباراں سے تباہی مچ جاتی ہے ،آتش فشاں پہاڑوں کے زلزلے سے لاوا سب کچھ بھسم کر دیتاہے اور خرمن پر گرنے والی آسمانی بجلی سے اناج رزق خاک ہو جاتاہے ۔ان سب نقصانات کی تلافی ممکن ہے مگر آستین کے سانپوں کی عیاری ،مکاری ،فریب کاری اور پیمان شکنی سے روح اور قلب پر جو قیامت گزر جاتی ہے اُس کا مداوا کسی طرح ممکن ہی نہیں ۔یہ ایسا گھاؤ ہے جس کا کرب اس صدمے سے متاثر ہونے ولا شخص قبر میں بھی ساتھ لے جاتاہے ۔
کچھ عرصہ کہرام ٹھگ کے پڑوس میں وقت گزارنے کے بعدسلطان یہ سوچتا رہتاکہ اس علاقے میں وہ کس عقوبت میں مبتلا ہو گیاہے ۔کہرام ٹھگ اور اس کے پروردہ اُجرتی بد معاشوں اور پیشہ ور قاتلوں سے مقامی باشندوں کی شدید نفرت کو دیکھ کر وہ بہت پریشان رہتا تھااور ہر وقت یہاں سے بچ نکلنے کے بارے میں سوچتا رہتاتھا۔اس کے بعد وہ رفتہ رفتہ کہرام ٹھگ اور اس کے گروہ سے دُور ہوتا چلاگیا۔وہ اپنے قلبی احساسات ،ذاتی مشاہدات اور تلخ تجربات کی بنا پر یہ سمجھنے لگاکہ اِن ٹھگوں نے پورے علاقے کو ایک خوف ناک جنگل میں بدل دیاہے ۔ بستی کے ماحول سے لوگوں کی بیزاری بڑھتی چلی گئے اور وہ کہرام ٹھگ کے ٹولے سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہرقربانی دینے کے لیے تیار ہو گئے ۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کی راگنی الاپنے والے ان سفہا کے مظالم کے باعث بستی سنسان ہو گئی ۔جب بستی کا پورا ماحول عریانی ،فحاشی ،منشیات اور جنس وجنون سے آلودہ ہو گیاتو بہت سے لوگ یہاں سے دُورشاکر اور بُلو کے صحرا کی جانب نکل گئے ۔ بستی سے جاتے وقت سلطان نے کہرام ٹھگ کواپنے ارادے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا:
’’ مجھے تم سے کوئی پر خاش نہیں مگر تمھارا روّیہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ۔تم نے اور تمھارے ساتھیوں نے مستریاں والی بستی کے لوگوں کی زندگی پر اُترنے والے تمام موسموں کو بے ثمر کر دیاہے ۔ یہاں کے باشندے سکون ِ قلب کی تلاش میں اپنی جنم بھومی سے تعلق توڑ کرکہیں دُورصحراؤں اورویرانوں میں جانے کے بارے میں سوچنے لگے ہیں ۔ اس بستی پر تمھاری مسلط کی گئی ہلاکت خیزیوں کے باعث لوگوں کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے ہیں ۔مستریا ںوالی بستی کے مظلوم باشندے یہ سمجھتے ہیں کہ تمھاری نحوست کی وجہ سے اُن کی اُمیدوں کی فصل غارت ہو گئی ہے اور اُن کے خون پسینے کی کمائی اکارت چلی گئی ہے ۔تمھیں دیکھ کر لوگ لاحول پڑھتے ہیںمگر تم اِسے ٹھٹھول سمجھتے ہو۔‘‘
کہرام ٹھگ نے اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی اور غصے سے کہا:
’’ خارجی اور داخلی حقائق اور گواہیوں سے معلوم ہوتاہے کہ تم نے بستی کے سب لوگوں کو میرے خلاف بھڑکایا ہے ۔اب میں دیکھوں گا کہ اس بستی میں میر ے مخالف کیسے رہتے ہیں ۔دریا کی طوفانی لہروں میں رہنے والی آبی مخلوق جب کسی مگر مچھ سے ٹکراتی ہے تو وہ اپنی موت کو دعوت دیتی ہے۔اب میں اپنے سب مخالفوں کو پہچان چکا ہوں اس لیے اب تو میں ایک ایک سے گِن گِن کر بدلے لوں گا۔تم نہیں جانتے کہ متلاطم سمندروں میں مقیم پانچ سروں والی تباہی کی دیوی تیامت میری تابع ہے ۔اب میں نے کالی دیوی اور ابیزو کی طاقت سے اپنے مخالفوں کو روندنے کا فیصلہ کیاہے ۔‘‘
سلطان پتھرائی ہوئی آ نکھوں سے سامنے حفاظتی بند کے ٹیلے کی طرف دیکھ رہا تھاجہاں ایک زمانے میں کہرام ٹھگ کے خاندان کے فاقہ کش افرادکو مانگنے پر بھیک بھی نہیں ملتی تھی مگر اب ان کے دماغ میں رعونت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کسی بے گناہ انسان کوجان سے مار ڈالنا ان کے نزدیک کوئی خطر ے والی بات نہیں۔ گردشِ ایام کے مناظر دیکھ کر سلطان کی آنکھوں میں آ نسو آ گئے اور وہ زمین پر بیٹھ گیا۔ایسا محسوس ہوتاتھا کہ وہ دامن پھیلا کر بیٹھا ہے شاید آفاق سے اُس کے درد انگیز نالوں کا جواب آ ئے اور کوئی پر اسرار قوت اس کی دست گیری کرے ۔اچانک سلطا ن کا بڑا بیٹا شیر خان وہاں آ پہنچااس نے اپنے باپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا:
’ ’ میں نے کہرام ٹھگ کی سب باتیں سُن لی ہیں ۔ میں کہرام ٹھگ اور اس کے گروہ میں شامل درندوں پر یہ بات واضح کر نا چاہتاہوں کہ اب ظلم کی معیاد کا عرصہ ختم ہونے والا ہے ۔ یہ سب بروٹس قماش مسخرے اور محسن کُش درندے ہیں یہ ان کے مقدر کی تاریکی کا مسئلہ ہر گزنہیں بل کہ یہ ان کی تربیت کامعاملہ ہے ۔ اس بات کا فیصلہ تو وقت کرے گا کہ کون کس سے بدلے لیتاہے مگر یہ بات کان کھول کر سن لو کہ وقت کا دھارا بہت ظالم ہے جہاں رحم اور معافی کی کوئی گنجائش نہیں ۔چلو بابا میرے ساتھ اب گھر چلتے ہیں ملتان روڈ پر ’’ سنگ ‘‘ کا میلہ لگاہے ۔ میں اپنے چھوٹے بھائیوں شبیر اور منیر کو بھی ساتھ لے جاؤں گا ۔ سنگ کے میلے میں چڑیا گھر ، ہنڈولا ،سرکس کا کھیل،جادو کے تماشے اور تھیٹر دیکھ کر میرے بھائی بہت خوش ہوں گے ۔ ‘‘
یہ سنتے ہی سلطان اُٹھ کھڑاہوا اور اپنے بڑے بیٹے شیر خان کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دعادی اور کہا:
’’ایک بات تو تم بھول گئے سنگ کے میلے میں ہر سال سستا بازار بھی لگتا ہے جہاں ضروریات ِ زندگی بازار سے کم نرخ پر فروخت کی جاتی ہیں۔ سنگ کے میلے میں بھائیوں کے سنگ سنگ چلواوراس بازار سے بھی کچھ خریداری کر لینا۔ میری ایک نصیحت پلے باندھ لو کہ عملی زندگی میں کہرام ٹھگ، رمزی ٹھگ، تشفی کنجڑا اور گنوار انتھک جیسے آستین کے سانپوں اور برادرانِ یوسف سے سدا بچ کر رہنا۔ محسن کُشی، کینہ پروری، پیمان شکنی اور احسان فراموشی اس خاندان کی گُھٹی میں پڑی ہے۔ ٹھگوں کے اس رذیل ٹولے سے تعلق ایک آفت نا گہانی اور جان کا روگ ہے ۔ میری زندگی کا مقصد ہمیشہ یہی رہاہے مظلوم انسانیت کے لیے راحت و مسرت کا کوئی پہلو تلاش کیا جا سکے۔ انسانی زندگی کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ محض اپنے خاص مقاصد کے حصول کے لیے جدو جہد کو مطمح نظر بنایا جائے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ زندگی کے متعدد حقائق ایسے بھی ہیں جو وقت کی گرد میں اوجھل ہو گئے ہیں۔ ان حقائق کو منظر عام پر لانے کے لیے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے مناسب وقت کا انتظار کرنا بے حد ضروری ہے۔ مظلوم انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے کہرام ٹھگ اور اس کے پروردہ ڈاکو زیادہ عرصے تک چُھپ نہیں سکتے۔‘‘
کہرام ٹھگ نے جب سلطان کی باتیں سنیں تو پیچ و تاب کھانے لگا اور غراتا ہوا اپنے قحبہ خانے کی طرف لپکا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہرام ٹھگ ،تشفی مَل کنجڑا، رمزی اور گنوار انتھک اسلحہ لے کروہاں آ گئے۔ سلطان اور شیر خان کو جاتے دیکھ کررمزی ٹھگ، کہرام ٹھگ ،تشفی کنجڑا اور گنوار انتھک حملہ کرنے کی نیّت سے سلطان اور شیر خان کی طرف بڑھے مگر وہ تو بہت دُور نکل گئے تھے۔ اسی اثنا میں پولیس کی ایک گاڑی رُکی اورمسلح سپاہی پورے اعتماد کے ساتھ رمزی، کہرام، تشفی اور گنوار انتھک کو گرفتار کر نے کی غرض سے آگے بڑھے مگر یہ پولیس کو جُل دے فائرنگ کرتے ہوئے بھاگ نکلے ۔پورے راستے کی ناکہ بندی ہو چُکی تھی۔ کچھ دُور ایک ناکے پر تعینات پولیس کے مسلح دستے نے اِن اشتہاری مجرموں پرگولی چلا دی اور چاروں ڈاکوؤں کو گولیوں سے بُھون ڈالا۔