(Last Updated On: )
میں نے نہیں جانا ویرے ” مجھے چھوڑ دے ” شانو داخلی دروزے کی چوکھٹ پر اپنی ایڑ یاں اڑا ئے کھڑی تھی۔ اس کے دونوں کڑیل جوان بھائی اپنی پوری طاقت سے اسے کھینچ رہے تھے۔جانے اس دھان پان سی لڑکی میں کہاں سے اتنی طاقت آ گئی تھی کہ وہ ٹس سے مس نہ ہوتی۔اسے علم تھا کہ جلد ہی وہ ہار جاۓ گئی ،کبھی کبھی وہ مڑ کر اپنے باپ اور ماں کو دہائی دیتی ،اس طرف مکمل خاموشی تھی،اس کے بوڑھا باپ کی کھانسی اس خاموشی کو توڑنے کی نا کام کوشش کرتی جیسے وہ بھی اس فریاد میں شامل ہو ، اس پر “کھوں کھو ں”کا دورہ پڑ جاتا اور وہ چارپائی پر دوہرا ہو جاتا ، خالی آنکھوں سے پانی بہہ بہہ کر اس کی قمیص کو گیلا کرتا ،جانے یہ دکھ کے آنسو تھے یا گلے میں پھنسی سانس کا درد ۔ماں اپنی آنکھوں میں حسرت و یایس لیے ،آنسو بہاتی ،چادر کے کونے کو دانتوں میں دبا ئے ، دبے لفظوں میں بیٹوں سے کہتی جاتی،
“پتر اجے اؤ دی مرضی نئیں ” تھوڑے دن اور رہنے دو ۔”نا کیا تکلیف ہے اسے سسرال میں؟۔ افضل تنک کر ماں سے پوچھتا ۔” اتنی بڑی حویلی ،نوکر چاکر ،روپیہ ، پیسہ ،اور کیا چاہیئے اسے ۔” شانو کو بھی علم تھا کہ جلد ہی اس کے پاؤں اکھڑ جائیں گئے اور وہ گندم کی پوری کی طرح اٹھا کر ٹرالے میں پھینک دی جاۓگی ،ہوسکتا ہے کہ اس کے ہاتھ پاؤں رسیوں میں جکڑے جائیں کہ عورت کا اپنے حق میں آواز بلند کر نا ریت و رواج سے بغاوت تھی ۔وہ پھر بھی اپنی بقا کی خاطر آخری لڑائی لڑ رہی تھی، لیکن کب تک ،اس نے آخری بار اپنے باپ کی طرف حسرت سے دیکھا ،جس کے چہرے کا رنگ سرخ ہو چکا تھا اور کھانسی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ، ماں جھک کر اس کی کمر سہلا رہی تھی،شانو کی چیخ و پکار پر وہ گونگے بہرے بنے اس کو دیکھ تو رہے تھے لیکن کچھ کہنے سے قاصر تھے ، اس کی آنکھیں باپ اور ماں کے چہرے پر مرکوز تھیں ،ایک خاموش فریاد ان سے مسلسل جاری تھی ۔ماں کے کپکپاتے ہونٹ اور ڈبڈبائی آنکھیں خاموش احتجاج کر رہی تھیں اور ابا کی کھوں کھوں جیسے ان کے دل کی آواز تھی جو کبھی بلند اور کبھی دھیمی ہو جاتی، اس بے بسی کے عالم میں وہ اپنے پھیپھڑوں کا پورا زور لگا رہے تھے ۔
شانو پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے دونوں بھائیوں کو دیکھ رہی تھی، ان کے بگڑےچہرے، بھینچےہونٹ، تیوری پر پڑے بل، غیظ و غضب سے سرخ آنکھیں،زبان سے اگلتا زہر ،کیا یہ وہ ہی بھائی تھے جو اس پر جان چھڑکتے تھے؟۔ویر افضل تو اس کا فخر تھا ،مان تھا، بچپن میں اپنے کاندھے پر بیٹھا کر سیر کراتا ،پینگ کو ہلکورے دیتا اور جب وہ کہتی “ویرے ” تھوڑا اور زور سے” تو وہ ہوا میں اڑنے لگتی ،اس کے قہقہے ،خوشی سے تمتماتا چہرہ ، افضل کے چہرےپر روشنی بکھیر دیتا۔ چار سال کی تھی جب دونوں بھائیوں کے ساتھ چھوٹا سا بستہ اٹھا ۓ اسکول جانے لگی ،چھٹی کے بعد ویر اسے کاندھے پر بیٹھا کر لاتا، اپنے جیب خرچ سے اس کے لئے کبھی کھٹی گولیاں تو کبھی کریم والے بسکٹ دلا تا ،اور چھوٹا رحیم ہر وقت شانو کے ساتھ ساتھ رہتا ،زیادہ فرق نہیں تھا اس میں اور رحیم میں،دو سال بڑا تھا ،دونوں مل کر بہن کے ساتھ گڑیاں کھیلتے ،بھائیوں کے ساتھ کنچےکھلتی،پتنگ اڑاتی ، نہر میں نہانے جاتے ۔جب اسے خسرہ نکلی تھی تو دونوں اس کے پاس سے ہٹتے نہیں تھے،اماں چیختی رہتی کہ انہیں بھی نکل آۓگئی، رحیم کو نکل بھی آئی ۔میلے،ٹھیلوں میں بہن کو چوڑیاں،برف کے رنگ برنگے گولے لے کر دینے ،ضدکر کے بار بار جھولے لینے ،ناشتے میں اپنے حصے کا مکھن بہن کے پراٹھے پر رکھ دینا ،اور۔۔۔ اور جب وہ اسکول میں کھیلتے ہوۓگری تھی تو رحیم نے چیخ چیخ کر رونا شروع کر دیا تھا ،اور افضل اسے گود میں بھر کر ڈسپنسری کی طرح بھاگا تھا۔ آج وہ ان کی شعلے برساتی آنکھوں اور تلخی میں ڈوبی زبانوں کا سامنا کر رہی تھی ،اس نے کچھ زیادہ تو نہیں مانگا تھا ،صرف اپنے حق کی بات کی تھی ،لیکن شادی کے بعد شاید بیٹی کا اپنےگھر اور گھر والوں پر کوئی حق نہیں رہتا وہ اب پرائی تھی ۔ جیسا چاہیں سلوک ہو اس کے ساتھ ،اسے زبان کھولنے کی اجازت نہ سماج دیتا ہے نہ ریت و رواج۔
سولہویں سال میں لگی تھی کہ ماں کو اس کی شادی کی فکر پڑ گئی ، بھائی کہتے”کہ ابھی چھوٹی ہے،تھوڑا اور پڑھنے دیں،”پر ماں نے دسویں کے پرچے ختم ہوتے ہی اس کے لئے رشتے دیکھنے شروع کر دیئے ، “آگے پڑھ کر کیا کرے گی ؟ بس اسے اپنے گھر کا ہونے دو ۔” قریبی گاؤں کےچودھری کی بیوی نے شانو کو دیکھ رکھا تھا ۔سنہر ی رنگت والی، نک سک ،نازک اور بڑی بڑی روشن آنکھوں والی یہ لڑکی اسے مجید کے لئے پسند تھی ،پکا اردہ کر لیا کہ اسے بیاہ کر لاۓ گی۔ جب اسے پتا چلا کہ شانو کے لئے رشتے دیکھے جا رہے ہیں تو اپنے بیٹے کا رشتہ لے کر ان کے گھر آ دھمکی ۔اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ تھے ،زمین ،پیسہ اور بڑی حویلی تھی، مجید کے باپ کو سب جانتے تھے کیونکہ آس پاس کے گاؤں کے مزدور پیشہ فصلوں کی کٹائی اور بیجنے کے موسم میں مزدوری کرنے وہاں جاتے ۔ لڑکے کی تعلیم زیادہ نہیں تھی، لیکن اکیلا جائیدادکا وارث تھا ،اونچا لمبا تڑنگا کڑیل جوان ۔ شادی کی بات جلدی طے ہو گئی ،شانو بھی اپنی سہلیوں کے سنگ ہنستی گاتی ،سنجو گ کے سہانے سپنے سجاۓ گھر سے رخصت ہوئی ۔
لڑ کیاں کتنی معصوم ہوتی ہیں،بن دیکھے ،بن جانے ایک اجنبی شخص کو اپنا سمجھ بیٹھتی ہیں ۔ شادی کی پہلی رات حجلہ عروسی میں سہمی بیٹھی شانوکی حالت اس بچے کی سی تھی جسے آگ کی بھڑکتی ،لپکتی لو سحرزدہ کرتی ہو مگرہاتھ بڑھا کر پکڑ نے کی خواہش کسی انجانے خوف کا شکار کر دے ، کمرے کا دروازہ کھلنےپر وہ اور سمٹ گئی ،دل تھاکہ بے لگام گھوڑےکی رفتار سے دوڑا چلا جا رہا تھا، وہ معصوم تو اپنے جذبوں سے ابھی نا واقف تھی ۔ اس پر یہ عقدہ کھلا کہ وہ کسی انسان سے نہیں ایک وحشی درندے سے بیاہی گئی تھی، مفتوحہ زمین سمجھ کر اس کے بدن کو اور روح کو روندھا جانے لگا ،اسے دور کہیں ایک لڑکی کے چیخنے اور فریاد کرنے کی آواز آتی رہی جو اپنی ماں اور ویر کو دہائی دے رہی تھی ،لیکن اس کی چیخیں کمرے کے در و دیوار سے ٹکرا کر دم توڑ دیتیں ، اسے صرف اپنی بھوک مٹانے سے غرض تھی، اسے نوچتا ،کھسوٹتا اس کے جسم کو بھنبھوڑتا رہا اسے ایسا لگتا کہ وہ بھیڑیے کے پنجوں میں دبا زخمی ہرن ہے جس کا گوشت اور ہڈیاں چبا چبا کر کھانے کے بعد بھی وہ سیر نہیں ہوتا ، سر سے پاؤں تک بدن کوئی ایسا حصہ نہیں تھا جسے اس نے اپنے ہاتھوں، دانتوں سے پامال نہ کیا ہو ،اتنا دشمن کی لاش کو پامال نہیں کرتے جتنا اس کے بدن اور روح کو کیا گیا ، جانے کیسی بے انت اشتہا تھی۔ وہ کب ہوش کھو بیٹھی اسے کچھ علم نہیں۔ ایک قیامت تھی جو اس پر گزر گئی ، جب وہ اپنی ضرورت سے فارغ ہو گیا تو لات مار کر اسے مسہری سے دھکا دے دیا ،کمرے کے ایک کونے سے اس کی دبی دبی سسکیوں اور کرا ہنےکی آواز آتی رہیں،مجید اپنی فتح کے نشے میں چوربے ستر مسہری پر پڑا خرا ٹے لیتا رہا ۔ رستے زخموں کی چبھن روح پر لگے گھاؤ کےسامنے بے معنی تھی۔
وہ نہا کر باہر نکلی تو مجید جا چکا تھا ،ملازمہ بستر کی چادر تبدیل کر رہی تھی ،اسے دیکھ کر بولی ”مالکن آپ کے زخموں پر مرہم لگا دوں ،” شانو نے چونک کر ملازمہ کی طرف دیکھا ،اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی سرد مہری اور لبوں پر طنز یہ مسکراہٹ تھی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ یہ واردات صرف اس پر نہیں گزری ۔ حویلی کی اونچی اونچی دیواریں ایسی کئی بھیانک داستانیں اپنے اندر سموۓ خاموش کھڑی تھیں۔ ان بےآسرا لڑکیوں کی سسکیاں جانے کب سے ان در و دیوار میں دفن تھیں ۔اس نے مرد کا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا ،باپ سےشفقت اوربھائیوں سے ہمیشہ پیار ملا ۔ رات جو افتاد اس پرپڑی ،اس پر اتنا بوکھلا گئی کہ اپنے دفاع میں کچھ نہ کر سکی ۔
راتیں لمبی ، بے سکون اور اس کی سسکیوں سے عبارت تھیں ۔ اس نے کافی ہاتھ پیر چلاۓ ، مزاحمت پر مجید کی وحشت میں مزید اضافہ ہو جاتا ،اس کی آنکھوں میں عجیب سی جنونی کیفیت در آتی ، وہ شانو کا چہرہ تھپڑوں سے لال کر دیتا ،کبھی کبھی غراتا ،کہتا “یہ میرا شرعی حق ہے ،تیرا مالک ہوں اب میں ”۔ زیادہ اڑی کرتی تو مسہری کے سرہانے سے اس کے ہاتھ باندھ دیتا ،وہ بستر پر بے جان پڑی ، مجید کی درندگی کا شکار ہوتی رہی، بدن پر پڑے نیل ،دانتوں کے نشان ، رستے زخم دل کے داغوں میں اضافہ کرتے رہے ،ہر رات پہلی سے بتر اور تکلیف دہ ہوتی ، اس کے منہ سے نکلنے والی غراہٹ اس کے ہاتھوں کا لمس، ایک نہ ختم ہونے والا ڈراؤنا خواب تھا۔ کبھی کبھی وہ اندھیری راتوں میں سوچتی ”کہ ۔۔۔کہ یہ تکیہ اس کے منہ پر رکھ کر ” ،پھر خود ہی سہم جاتی ۔ چند دن کا وقفہ اس اذیت کو کم کرنے کے لئے نا کافی تھا ، زخموں پر آئی کچی کھرنڈ دوبارہ اتر جاتی ۔
ایسے میں اسے اپنی ربر کی گڑیا یاد آ آتی جس کے ہاتھ پیر ،ماسی ظہوراں کے نواسے نے مڑوڑ کر توڑ دیئے تھے اور گردن کو تن سے جدا کر دیا تھا وہ گڑیا کی تکلیف کو محسوس کر کے دن بھر روتی رہی ، جب تک ویر افضل نے گڑیا کے ہاتھ پاؤں جوڑ نہ دیئے، شانو کی تسلی نہیں ہوئی ۔ آج اس گڑیا کی طرح خود اسی تکلیف سے گزر رہی تھی ۔
مجید زیادہ تر گھر سے باہر ڈیرے پر رہتا یا اوطاق میں باپ کے ساتھ مصروف رہتا ، شانو کا سامنا صرف رات کے اندھیرے میں ہی ہوتا ،جہاں اس کا بگڑا ہوا چہرہ ، اور نفرت سے بھری آواز کانوں میں زھر گھولتی رہتی ۔ مجید نے شانو سے جب کوئی بات کی ہمیشہ دھتکارا یا گالی دی ۔ اونچی ذات اور مردانگی کا گھمنڈ اس کی گھٹی میں پڑا تھا۔
ماں کی نصیحتیں اور ماسی ظہوراں کی باتیں دماغ میں گھومتی رہتیں ،ما ں کہتی تھی ” میاں ،بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں۔”
یہ بات بڑی مشکل سے اس کے پلے پڑی جب ماں نے سمجھایا کہ “” لباس سے مراد ایک دوسرے کو ڈھانپنا ہے “۔ مگر یہ کانٹوں بھرا لباس بھلا اسے کیا ڈھانپتا اس کی روح تک کو برہنہ کر گیا ۔ماسی ظہوراں کہتی تھی کہ ” شوہر بیوی کا مالک ہوتا ہے ،اسےنہ نہیں کرتے ” وہ سوچتی کہ کیا وہ باندی ہے ؟ ساری عمر قید میں رہے گی ۔ تکلیف میں گزرا ایک پل صدیوں پر محیط ہوتا ہے اسے لگتا وہ اس عرصے میں لمبی مسافت طے کر چکی ،ان حقائق سے آشنائی ہوئی جو ممنوع سمجھے جاتے ۔
اپنی قسمت پر شاکر شانو دن و رات کی گردش میں کھوتی چلی گئی ۔ مجید کی روش میں کوئی تبدیلی نہ آئی وہ نشے میں چور آتا اپنی فتح کے جھنڈے اس کے نازک بدن پر گاڑ کر بے سدھ سو جاتا ۔ اس نے کئی بار ساس کو مدد کے لئے پکارا ،یا تو اس کی چیخیں ان تک نہیں پہنچتی تھیں یاوہ مصلحتا” خاموش رہتیں ، مجید کی خصلت اور عادات سے بخوبی واقف تھیں اسی لئے ایک نو عمر خوبصورت لڑکی کا انتخاب کیا کہ شاید نفسانی خواہشات کے اتھرے دریا پر بند بندھا جا سکے لیکن بپھر ے دریا پر کہاں بند باندھا جا سکا ہے ،وہ جب بپھرتا ہے تو بند توڑ کر سر سبز زمین کو بنجر کر دیتا ہے۔ اسی لئے ان کی زبان بند تھی ۔ نیا ماحول اور اجنبی لوگ کوئی ایسا نہیں تھا جس سے دل کی بات کرتی ، جب اس مسلسل عذاب سے نجات کی کوئی صورت نظر نہ آئی تو ساس سے میکے جانے کے لئے دبے لفظوں میں کہا ،وہ بھڑک اٹھیں ، “ہمارے پنڈ میں نئی نویلی وہٹی سسرال آ جاۓ تو اتنی جلدی میکے نہیں جاتی ۔تجھے کیوں اتنی کال پڑی ہے ؟ایک مہینہ گزرا نہیں کہ ماں ،پیو کی یاد ستانے لگی “۔ ساس کے لہجے میں اتنی تلخی اور کاٹ تھی کہ اس کی رہی سہی خوش گمانی ہوا ہو گئی ۔ادھر ماں بیٹی کی راہ دیکھتی رہی۔ افضل سے کہتی ” چند دن کے لئے بہن کو لے آ ، وہ ہر بار ٹال جاتا ۔ ” ماں اب شانو کو اپنی گھر میں بسنے دے ”، وہ بیچاری چپ ہو جاتی ۔ ان ہی دنوں ساس کے ماموں کا انتقال ہو گیا ،گھر والوں کو دوسرے گاؤں جانا تھا اور نئی دلہن کو ساتھ لے جانے کا رواج نہیں تھا اسی لئے شانو کو دو ہفتے کے لئے میکے بھیج دیا گیا ۔
میکے آئی تو سب اس کا ستا ہوا چہرہ ، خالی آنکھیں زرد پڑتا رنگ دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ ایک ماہ میں وہ برسوں کی بیمار لگ رہی تھی ۔ باپ نے سر پر پیار دیا ،ماں نے گلے سے لگایا پر وہ بالکل چپ تھی ،نہ بھائیوں سے کوئی لاڈ و پیار کی بات نہ کوئی فرمائش ،چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی، ماں کی نظر اس کی شلوار کے پائنچے پر پڑی سرخ لکیر میں اٹک گئی۔ بیٹی کی خاموشی اسے بہت کچھ سمجھاگئی ۔
”پتری کیا ہوا تجھے ؟ ” اس کا سر گود میں رکھ کر پیار سے سہلاتے ماں نے پوچھا ۔
پیار کے دو میٹھے بول اس کے رستے زخموں کو تازہ کر گئے ،حسرت بھری نگاہ ماں پر ڈالی اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی ۔ خود پر گزری اس اذیت کو بیان کرنے کا حوصلہ کہاں سے لاتی ،مشکل سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ماں کو بتایا ۔ ماں سنتی جاتی اور ہاتھ ملتی جاتی ۔ بیٹی کی حالت دیکھ کر اس کا کلیجہ کٹ رہا تھا ۔ اس نے گاؤں کی دائی کو بلوایا ۔ جب اس نے جسم پر پڑے زخم دیکھے تو دنگ رہ گئی۔ ”تو نے کس سے بیاہی اپنی بیٹی ؟” “اس کے اندرونی زخموں کا علاج میرے پاس نہیں ”۔کسی ڈاکٹرنی کو دکھا ”۔ جسم کے لئے مرہم دیتی ہوں، توبہ توبہ بچی کو درندے کے حوالے کر دیا ۔” دائی نے شانو پر تاسف بھری نگاہ ڈالی ۔
بھائی دروازے تک آتے ،اس کی پسند کی مٹھائی ، کھٹی چاٹ اور گولے گنڈے لاتے پر وہ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگاتی ۔ بس پلنگ پر پڑی چھت کو گھورتی رہتی ،دو ہفتے گزرے تو سسرال سے بلاوا آ گیا ، اس نے سسرال جانے سے صاف انکار کر دیا ، ماں دبے دبے الفاظ میں سمجھاتی ۔۔
“پتری اب وہ تیرا گھر ہے ۔” تجھے واپس جانا پڑے گا ۔
شانو تڑپ اٹھتی ۔”میں مر جاؤں گی لیکن اس جہنم میں نہیں جاؤں گی ۔”
ادھر سسرال سےتقاضہ ہوتا رہا کہ شانو کو واپس بھیجو ۔ بھائیوں کو جب علم ہوا کہ وہ واپس جانے پر تیار نہیں تو وہ غصہ کرنے لگے ۔ “کیسے واپس نہیں جاۓ گی؟”برادری کو کیا جواب دیں گے ؟ ایک ماہ بعد لڑکی کو گھر بیٹھا لیا”۔ ویر افضل غصے سے باولا ہو گیا اور گھیسٹ کر اسے دروازے تک لے گیا ۔عزت و غیرت پر بات آ جاۓ تو خونی رشتے بے معنی ہو جاتے ہیں ، اونچے شملے سنبھالتے سنبھالتے ان کی گردنیں تن سی گئی تھیں۔محبت ،پیار ، انس جانے کہا جا سویا، ان کی شعلہ بار آنکھیں اور زہر میں بجھی زبان دو دھاری تلوار کی مانند اس کے کلیجے کو کاٹ رہی تھی، لیکن اس کے ماں جاۓ اونچی پگڑی کو گرنے کیسے دیتے۔ وہ سر جن پر شملوں کا بوجھ ہو کبھی جھکتےنہیں کٹ ضرور جاتے ہیں۔
شانو نے آخری نگاہ اپنے بے کس اور مجبور والدین پر ڈالی ۔جب اس کے بھائی اسے گاڑی میں دھکیل رہے تھے تب اسکا چہرہ اور آنکھیں ہر قسم کے جذبات سے عاری تھیں۔ اس رات وہ پر سکون تھی ، چہرے پر ڈر و خوف کا ہلکا سا شائبہ تک نہیں تھا ۔ حسب عادت وہ درندہ اپنے دانت نکوسے کمرے میں داخل ہوا اور اسے نا فرمانی کی سزا دینے لگا نہ کوئی چیخ نہ سسکی اس کے ہونٹوں سے برآمد ہوئی ۔ اپنی بھوک مٹا کر اسے لات مار کر وہ بے سدھ بستر پر پھیل گیا ۔ وہ خاموشی سے اٹھی ، کمرے سی باہر نکلی ، تھوڑی دیر بعد واپس آئی ۔ مسہری کے پائنتی کھڑی اس بے ستر درندے کو دیکھتی رہی ،پھر اس کا ہاتھ ہوا میں بلند ہوا ،ایک ہی وار میں ببول کے کانٹے کو جڑ سے کاٹ ڈالا ۔مجید کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی ،وہ بستر پر تڑپنے لگا ،اس کے حلق سے مذبحہ جانور جیسی خرخراہٹ کی آواز نکل رہی تھی ،سفید چادر رنگین ہوتی گئی ۔ شانو خون میں لتھڑےاس بے جان لوتھڑے کو چند لمحے گھورتی رہی، پھر نفرت سےکمرے کے کونے میں پھینک دیا ، خون آلودہ ہاتھوں کو قمیص کے دامن سے صاف کیا، مڑکر مجید کی بےنور آنکھوں پر نگاہ ڈالی ،زیر لب بڑ بڑ ائی ، ”دیکھ تو مجھے روز مارتا تھا ،آج میں نے تیرے گھمنڈ اور مردانگی کو ایک وارمیں ختم کر ڈالا “، اور زمین پر بیٹھ کر سسکیاں بھرنے لگی۔