“دعا کریں میری زندگی بھی آپ کے جیسی ہو ” مہرو جی کو نماز کے بعد دعا کرتے دیکھ کر میں نے کہا
“اللہ نہ کرے” — وہ میری بات پوری ہونے سے پہلے بول پڑیں
” کیوں نہیں مہرو جی , آپ بہت اچھی ہیں مجھے بالکل آپ کے جیسا بننا ہے ۔ کتنی پر سکون شخصیت ہیں آپ ” میں نے نماز والی کرسی پر بیٹھی مہرو جی کے قریب ہوکر ان کی پیشانی کو چومتے ہوئے کہا
“بیٹا ۔۔۔زیور دیکھنے میں تو خوبصورت لگتا ہے لیکن اس خوبصورتی کے لئے سونے کو کتنے مراحل سے گزرنا پڑتا کیا معلوم ، دعا میں اپنے لئے آسانیاں مانگا کرو اچھے نصیب مانگا کرو . مہرو جی نے میرے ہاتھ پکڑ کر پیار سے کہا ۔
میں تو آپکے جیسی زندگی کی دعا کرتی ہوں ۔ میں نے ان کی نماز والی کرسی کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا ۔
مہرو جی ستر پچھتر کے لگ بھگ تھیں۔ دادی کی کزن تھیں انہیں چھوٹے بڑے سب ہی ” مہروجی ” بلاتے تھے۔
بہت متاثر کن شخصیت تھیں ۔ پر وقار ۔ تعلیم یافتہ ، مہذب ۔ پیار کرنے والی ۔ ان کی سب سے تعریف ہی سنی تھی ۔ سختی صرف نمازاور قرآن کے لئے کرتی تھیں۔ ڈھونڈنے سے بھی کوئی خامی نہیں ملتی تھیں ۔
“نہ کیا کرو یہ دعا ” پہلی بار ان کے چہرے پر کرب اور لہجے میں سختی تھی۔
“مہرو جی “۔۔۔۔ میں کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ انہوں نے سختی سے ہاتھ اٹھا کر روک دیا
” بس کہ دیا نا ”
مجھے اس رویے کی بالکل بھی توقع نہیں تھی ۔ میں روہانسی ہو کر جانے لگی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر روک لیا ۔
سائیڈ ٹیبل سے گلاس اٹھا کر پانی پیا ۔ میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دراز سے ایک ڈائری نکالی ۔ ڈائری کۓ پہلے صفحے پر لکھا تھا
” مہر النساء چوہان”
ڈائری سے ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر گری ۔ جس میں ایک خوبصورت لڑکی بغیر آستینوں کے انگریزی طرز کا لباس زیب تن کئے ہوئے تھی اور اس کے ساتھ دو انگریز اور ایک سکھ لڑکا تھا ۔
یہ آپ ہیں میں نے حیرت سے اس لڑکی پر انگلی رکھ کر پوچھا تو مہرو جی نے اثبات میں سر ہلا کر تصدیق کی ۔مہرو جی کاسارا ماضی اس ڈائری میں درج تھا۔ میں ڈائری اپنے کمرے میں لے آئی اور مہرو جی کا ماضی میرے سامنے کھلتا گیا ۔
ان دنوں ہندوستان پر برطانوی راج تھا ،ہمارا آبائی گھر شملہ میں تھا ۔ ڈیڈی اعلی سرکاری عہدے پر فائز تھے ان کی ملازمت امرتسر تھی۔ ڈیڈی کے فوج میں بھی تعلقات تھے ۔ ہمیں جہاں بنگلہ ملا ہوا تھا وہی قریب ہی ایک سکھ فوجی پرم جیت سنگھ کا خاندان بھی تھا ۔ان سے ہمارے گہرے مراسم تھے ۔
میری والدہ میرے بچپن میں انتقال کر گئی تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد پرم جیت سنگھ کی بیگم نے مجھے بہت پیار دیا ان کی بیٹی ہر پریت کور میری ہم عمر تھی اور ایک بڑا بیٹا جسونت سنگھ تھا ۔ ہم اکٹھے پڑھتے، کھیلتے تھے ، گھڑ سواری ہمارا مشغلہ تھا زندگی بہت مزے میں تھی میں سترہ کی ہوئی تو ڈیڈی کا تبادلہ لاہور ہوگیا ، میں نے بہت ضد کی کہ نہیں جانا لیکن وہ مجھے لے گئے ۔ دور ہو کر مجھے احساس ہوا کہ میرا دل تو جسونت سنگھ کی طرف مائل تھا ۔ عجب کشمکش تھی میں اس کے دل کو ٹٹولنا چاہتی تھی کبھی کبھار ٹیلی فون پر بات ہوتی تھی لیکن اس نے کبھی کوئی ایسااشارہ نہ دیا کہ مجھے تسلی ہوتی ہے وہ بھی میرے لئے تڑپتا ہے ۔ میرے دل کو ایک پل چین نہ تھا۔ میں بضد تھی کہ اگے تعلیم کے لئے امرتسر جاؤں گی ۔ میرا مقصد اس کے قریب رہنا تھا ۔ ان دنوں آزادی کی تحریکیں سر اٹھانے لگی تھی اور ڈیڈی اسی وجہ سے مجھے امرتسر نہیں بھیجنا چاہتے تھے کہ حالات بگڑ سکتے ہیں۔ انہوں نے میری پرورش فرنگی طور طریقوں پر کی تھی ۔ انگریزوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا، انگریز گورنس میرے سر پر ہر وقت سوار ہوتی تھی ۔ڈیڈی چاہتے تھے میں انگریزوں کے رنگ میں رنگ جاؤں ۔ وہ ڈیڈی کہلوانا چاہتے تھے اور میجر انکل کے گھر باؤ جی سنتے سنتے مجھے باو جی بولنا پسند تھا ۔
انکاارادہ مجھے اعلی تعلیم کے لئے برطانیہ بھیجنے کا تھا ۔ انہیں اپنی خان بہادری بہت عزیز تھی اسی وجہ سے وہ مجھے تیار کررہے تھے کہ میں بھی برطانوی طور طریقے سیکھ کر راج دھانی کی کسی اونچی سیٹ کے لئے منتخب ہو جاؤں ۔ مجھے ان سب باتوں سے گھٹن محسوس ہوتی تھی ۔ میرا دل تو جسونت میں اٹکا ہوا تھا ۔
کسی سرکاری دورے پر امرتسر جانا ہوا ۔ ڈیڈی مجھے بھی ساتھ لے گئے ۔میں نے اپنی پوری کوشش کرکے جسونت کو اشارتاً اپنی محبت کا احساس دلایا جسے وہ بہت خوبصورتی سے نظر انداز کرگیا۔ میں تڑپ کے رہ گئی اور کھل کر اظہار محبت کر دیا۔
لیکن اس نے بہت سرد مہری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ” وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا ، کبھی بھی نہیں کر سکتا ہمارے درمیان مذہب کی دیوار تھی ۔ ہمارا گھرانوں کا میل ملاپ ضرور ہے ۔ لیکن دھرم کے نام پر جان دے سکتے ہیں پر مسلم خاندان سے رشتہ داری نہیں بناسکتے ۔ بس ہم۔دوست ہیں مہرو اور ہمیشہ رہیں گے. اچھے دوستوں کی طرح ملیں گے .
میں نفی میں سر ہلاتے ہوئے روتی رہی مجھے نہیں ملنا دوستوں کی طرح ، وہ پتھر کا بت بنا کتنی دیر میرے پاس سر جھکائے خاموش بیٹھا رہا اور میں سسکتی رہی ۔
“بس کرو مہرو، بس” اس نے میرے بھیگے گال رگڑتے ہوئے کہا اور میں بے اختیار اس کے گلے لگ کر رونے لگ گئی ۔
میرے جیسی مضبوط لڑکی اپنے دل کے ہاتھوں ٹوٹ گئی تھی ۔ جسونت کی بے رخی ناقابل برداشت تھی۔
ڈیڈی نے مجھے امرتسر کالج میں اس شرط پر داخلے کی اجازت دی کہ میں اس کے بعد برطانیہ جاؤں گی ۔لیکن میں نے اب امرتسر رہنے سے انکار کردیا اور برطانیہ جانے کی ہامی بھر لی ۔ میں جسونت سے دور رہنا چاہتی تھی ۔ لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ دور رہ کر وہ دشمن جاں اور قریب محسوس ہوگا ۔ لاہور ہو یا برطانیہ دل میں وہ ہی تھا اور یہ کم ںخت دل میرے ساتھ میرے سینے میں پل پل دھڑکتا تھا ۔
ابھی تک مجھ پر جسونت کی محبت کا رنگ چڑھا ہوا تھا ۔ دل بہلانے کے سو جتن کر ڈالے لیکن وہ دل سے نکلتا ہی نہیں تھا ۔ ایک دن جسونت اچانک آگیا ۔ اس کا داخلہ لاہور یونیورسٹی میں ہوگیا تھا ۔
” کیوں آئے ہو یہاں ” نہ جانے کیوں میں اس پر غصہ کر گئی تھی ۔
انکل سے ملنے آیا تھا اس نے مجھ سے نظریں ملائے بغیر جواب دیا ۔
” یہاں رہو گے کیا ”
“نہیں ہاسٹل ” یہ کہ کر وہ تیزی سے آگے نکلنے لگا
میں نے اس کا بازو پکڑ کر روکا ۔ اچھا ہے ورنہ یہاں میں تمہیں رہنے بھی نہ دیتی ۔۔یو نو آئی ہیٹ یو ۔ یہ کہ کر میں نے اسکا بازو جھٹکے سے چھوڑ دیا ۔
اس نے مسکرا کر میں میری طرف دیکھا ، میرے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا ” جانتا ہوں ” میری پیشانی پر بوسہ دیا اور چلا گیا ۔
میں سٹپٹا کر رہ گئی ۔ میرا دل کیااسے مار ڈالوں میں نے سامنے شیلف میں پڑی چیزیں فرش پر پٹخ دیں ۔
دو ماہ گزر گئے میں کچھ سنبھل گئی تھی ۔ ڈیڈی کے پاس مجھ سے بات کرنے کے لئے وقت ہی نہ تھا ۔ ڈیڈی اور ان کے ساتھی یہ تقسیم نہ چاہتے تھے وہ انگریزوں کی جی حضوری میں خوش تھے ۔ انگریز اپنی ہی پالیسیوں پر چل رہے تھے ۔ انہیں فساد پھیلانے کی تھے ۔ ہند کا بٹوارا کروانا ہی تھا۔ کتنے گھر کتنی محبتیں اس بٹوارے کے بھینٹ چڑھ گئیں ۔ ڈیڈی میرے احساسات سے بے خبر تھے ۔ ان کی خان بہادری ہر چیز سے اہم تھی ۔ مجھے بھی گھر میں پڑی چیزوں کی طرح بھول گئے تھے ۔ میں کسی سے اپنا درد نہ کہ پائی ۔ میں اپنی یک طرفہ محبت کا بوجھ لیئے تڑپتی رہی۔
مذہبی فسادات بڑھنے لگے آزادی کی جد وجہد زور پکڑنے لگی ۔ ایک دن اچانک جسونت ہمارے گھر آیا ۔اس سے سامنا ہوتے ہی اسے نظر انداز کرتے ہوئے میں لائبریری میں چلی گئی ۔ شیلف میں کتابیں ٹٹولنے لگی ۔ وہ بھی میرے پاس آگیا ۔
اب یہاں کیوں آئے ہو۔۔۔۔ میں نے غصے سے کہا
جاؤ ڈیڈی سے ملو
جا رہا ہوں واپس ۔۔۔ اس کا لہجہ دکھی تھا ۔ بڑھتے ہوئے فسادات کی وجہ سے وہ یہ علاقہ چھوڑ کر واپس جا رہا تھا ۔
کیا پتا پھر کبھی یہاں نہ آؤں۔ اسنے کتابوں سے میرا ہاتھ ہٹا کر اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا
ہاں تو مت آؤں ، کون بلاتا ہے تمہیں ۔۔ میں نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا ۔۔ لیکن میرا دل ڈوبنے لگاتھا۔ میں وہی فرش پر ڈھیر ہوگئی ۔ اچانک باہر شورو غل سنائی دینے لگا
” شاید کبھی تمہیں دیکھ نہ سکوں ” اس نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا ۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی زمین پر بیٹھ گیا ۔ میں نے خفگی سے منہ پھیر لیا ۔ اس نے اپنا سر میرے کندھوں پر رکھ دیا ۔۔ میں بت بنی منہ موڑے خاموشی سے اسے سنتی رہی ۔
” یہ باہر کا شور سن رہی ہو ۔یہ ہنگامے ، یہ فساد ۔یہ سب مذہبی آزادی کے لئے ہے ۔ تم جو چاہتی ہو اس کا انجام بھی یہ ہی ہونا تھا ۔ ہمارے گھر والے کبھی یہ قبول نہ کرتے اور انجام صرف فساد اور قتل وغارت ۔ دیکھ رہی ہو یہ اب تک جو مل کر رہ رہے تھے اب مذہب کے نام پر ایک دوسرے کی جان لے رہے ہیں ۔ محبت تو مجھے بھی ہے” اس نے اپنے سر کا دباؤ میرےکندھے پر بڑھاتے ہوئے کہا ۔ کتنی دیر کی خاموشی کے بعد ہم ایک دوسرے سے اپنے بچپن کی باتیں یاد کرتے ہوئے ہنستے رہے اور پھر ہنستے ہنستے رونے لگ گئے ۔
باہر کے ہنگاموں کا شور بھی تھمنے لگا تھا اور پھر وہ چلا گیا میرے اندر طوفان برپا کر کے ۔ فسادات زور پکڑنے لگے ڈیڈی نے مجھے برطانیہ بھیج دیا ۔ تین سال بعد میں واپس آئی ہند تقسیم چکا تھا ۔ میرا دل ، میرا جسونت، نہ جانے کہاں تھا ۔ ان فسادات میں کیا ہوا ہوگا کوئی خبر نہ تھی ۔ ہند سے ڈیڈی کے کچھ رشتے دار بھی ہمارے ہاں پناہ گزیں تھے ۔زندگی ایک مشکل دور سے گزر رہی تھی ۔ ڈیڈی کی آنکھیں اب کھلی تھیں ۔ ان کے خواب بکھر گئے تھے ۔ وہ اچانک بیمار ہوگئے تھے ۔
میری سب امیدیں ٹوٹ چکی تھیں ۔ ڈیڈی چاہتے تھے میں ہمیشہ کے لئے برطانیہ چلی جاؤں ۔ وہی کہیں گھر بسا لوں۔ میرا وجود اس ادھوری محبت کے بوجھ تلے دبا تھا ۔کوئی بھاتا ہی نہ تھا ۔
ایک دن اچانک جسونت آگیا ۔ بہت حلیہ بہت بدلا ہوا تھا
“کیسی ہو مہرو ”
بس زندگی گزار رہی ہوں ۔۔۔۔ میں نے ایک سرد آہ لیتے ہوئے کہا
پر میں نہیں گزار پا رہا _____ وہ بے چینی سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے میرے قریب آگیا ۔
اس نے میرا ہاتھ تھام کر اپنی پیشانی میری پیشانی پر جھکا لی ۔
“مجھے بھی سیکھا دو جینا ۔۔۔ نہیں جی پا رہا ۔۔۔
تم سے دور ہوکر نہیں” ہم دونوں ہی سسکنے لگے ۔
میں مسلمان ہو جاؤں گا مجھ سے شادی کرو گی اس نے میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا اور میں نے روتے ہوئے اپنا سر اس کی سینے پر ٹکادیا
وہ جلد لوٹ کر آنے کا کہ کر چلا گیا
میں پھر سے نکھرنے لگی ۔ اس کے انتظار میں سنورنے لگی ۔ بکھرے خواب سمیٹنے لگی ۔
وہ مسلمان ہوکر بہت مطمئن تھا ۔ اسلامی طور طریقے سیکھنے میں دلچسپی لینے لگا ۔ وہ میرامشکور تھا کہ میری وجہ سے وہ مسلمان ہوا ۔ ڈیڈی کی حالت بگڑنے لگی تھی ڈاکٹروں نے کہا شراب نوشی نے انہیں تباہ کردیاتھا ۔ اس دن ہسپتال میں جسونت بھی ڈیڈی سے ملنے آیا تھا اور ملال کرتا رہا کہ ہم نے اپنی زندگی مسلمان ہوتے ہوئے بھی ضائع کردی . وہ ہسپتال سے جا رہا تھا۔
” اتنے خاموش کیوں ہوں ۔کچھ تو کہو “۔۔ اسے بجھا بجھا دیکھ کر میں نے پوچھا ۔ مجھے اس سے وہ سب سننا تھا جس سے مجھے ہمت ملتی طاقت ملتی کہ میں اس مشکل وقت میں خود کو سنبھال سکوں۔
“کیا تم یہ طور طریقے چھوڑ سکتی ہو ؟” اس کے اچانک سوال نے مجھے چونکا دیا ۔ ڈیڈی کی تکلیف کی وجہ سے میں پہلے پریشان تھی ۔” کیا کہنا چاہتے ہو میں سمجھی نہیں ”
“پتا ہے مہرو مجھے مسلمان ہوکر لگتا ہے کہ میں جس مہرو کے لئے میں مسلمان ہوا تھا وہ تو مسلمان تھی ہی نہیں ” وہ رک کر میری طرف پلٹا اور بولا
“تم مسلمان ہو بھی یا نہیں ”
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہنے کی ہمت کرتی ۔ نرس نے مجھے آواز دی کہ جلدی آئیں ۔ میں نے ایک نظر جسونت پر ڈالی وہ بالکل اجنبی لگ رہا تھا مجھ سے بہت دور ہوتا ہوا محسوس ہوا ، میں اس کی طرف قدم بڑھا کر اسے تھامنا چاہتی تھی کہ پھر نرس چلائی ۔۔۔۔ مس چوہان ۔۔اپکے ڈیڈی ۔۔۔۔ میں تیزی سے ڈیڈی کی طرف بھاگی ۔ اسے جانا تھا وہ نہ پلٹا ۔ ڈیڈی کی حالت بگڑتی گئی اور وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلے گئے ۔
مجھے سنبھلنے میں بہت وقت لگ گیا ۔ ڈیڈی کی ڈائری ملی ۔ مجھے شکوہ تھا کہ ڈیڈی مجھے بھول گئے ہیں ۔ لیکن ان کی ڈائری کے ہر صفحے میں، میں ہی تھی ۔ وہ اپنے خوابوں کی تعبیر میری شکل میں دیکھتے تھے ۔ تقسیم نے ان کے سب خواب چکنا چور کر دئے تھے ۔
مجھے جسونت کا انتظار تھا ۔ اسے میرے گھر کا راستہ معلوم تھا لیکن وہ میرے لئے لاپتہ تھا ۔ میں چاہ کر بھی اس تک نہ پہنچ سکتی تھی ۔ شاید کبھی وہ آ جائے اسی امید پر جی رہی تھی ۔ جسونت کے نہ ہونے کا ملال اذیت بنتا جارہا تھا ۔ میں سمجھ گئی تھی میرے لئے اسلام قبول کرنے والے کو میرااسلام مشکوک لگ رہا ۔
اس کا جملہ میرے کانوں میں گونجتا رہتا ” کیا تم اپنے طور طریقے نہیں بدل سکتی ”
میں نے خود کو بدلنا شروع کیا ۔ بدلتے بدلتے میں بھی بدل گئی ۔ یہ سوچ کہ میری محبت اسے کسی اچھی راہ لے گئی ، مجھے سکون دینے لگ گئی ۔
ڈیڈی کی بہن۔ تقسیم کے بعد شملہ۔سے یہاں آچکی تھیں ۔ بوا جی کو میں نے اپنا سب کچھ دے دیا ۔ ان کے بچے گھر بیچ کر دوسری جگہ جانا چاہتے تھے لیکن میں نے اپنی زندگی تک کی مہلت مانگی تھی ۔ کیا معلوم کبھی اسے خیال آئے اور وہ یہاں آجائے۔
جسونت کی امید میں سال گزر تے گئے ۔ وہ میرے لئے اپنے دھرم سے کیسا پلٹا تھا کہ میرے پاس ہی نہ پلٹ کر آیا ۔
بوا جی نے بہت کوشش کی میری شادی کے لئے لیکن میں ہر بار یہ کہ کر ٹال دیتی کہ ابھی بہت کام ہیں بوا جی ۔ پہلے مجھے مسلمان ہونے دیں ۔
وہ مجھے حیرت سے تکتی پھر اثبات میں سر ہلا تی
اور ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے زیر لب کہتیں ۔” سٹھیا گئی ہے لڑکی
ڈائری پڑھتے پڑھتے فجر کاوقت ہونے والا تھا ۔ میں نے دیکھا مہرو جی جاگ رہی تھیں ۔ ان کے پاس چلی گئی ۔
انہوں نے سوالیہ نظروں سے بھنویں اچکاتے ہوئے میری طرف دیکھا
“مہرو جی آپکا جسونت تو بہت خود غرض نکلا اپنی راہ سنوار لی ، اپکو بھی موقع دیتا ۔اس نے خود سے سوچ لیا آپ نہیں بدل سکتیں” میں نے جسونت کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا ” آپکی کہانی کا انجام اچھا نہیں ہوا ”
مہرو جی نے بہت اطمینان سے کہا
“عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا سفر ۔۔۔۔ کیا یہ
خوبصورت انجام نہیں “
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...