رشوت کے وافر مواقع والے سرکاری عہدے پر ترقی پاتے ہی قدرت اللہ نے داڑھی رکھ لی۔دفتری اوقات میں جونہی اذان کی آواز سنائی دیتی تو دفتر کے باقی عملے کے ہمراہ وہ بھی قریبی مسجد کا رُخ کرتا۔یوں جلد ہی وہ قدرت اللہ سے مولوی قدرت اللہ ہو گیا۔ نیچے والا عملہ اس کی مرضی کے بغیر کوئی ہینکی پھینکی نہیں کر سکتا تھا اس لئے وہ مولوی قدرت اللہ کا چاپلوس بن گیا۔ محکمے میں ہر طرف مولوی قدرت اللہ کی دین داری کے چرچے ہونے لگے۔
محلے کی مسجد کے پیش امام مولانا عمران جمیل سے بھی راہ و رسم بڑھ گئی اور عشاء کے بعد جب سب نمازی چلے جاتے تو بھی مولوی قدرت اللہ اور مولاناعمران جمیل کچھ دیر بیٹھے تبادلہء خیالات کرتے رہتے۔
مولانا عمران جمیل کی علاقے میں بہت عزت تھی۔ دم درود کے لئے بھی لوگ اُن کے پاس آتے رہتے تھے اور کچھ مرد حضرات کو مولانا سے پُڑیاں درکار ہوتی تھیں کہ مولانا کے پاس باپ دادا کے زمانے سے چلے آتے کچھ نسخے بھی تھے۔ سردرد کا دم کرانے والی عورتیں صرف شام کو ہی آتی تھیں۔ کئی بے اولاد عورتوں کو مولانا کی دعا سے اولاد بھی نصیب ہوئی تھی اس لئے دُور دُور سے ایسی عورتیں مولانا کے حضور نذرانے پیش کرنے بھی آتی رہتی تھیں۔ اب تک جو بچے مولانا کی دعا سے پیدا ہوئے تھے وہ ان کی دعا کی تاثیر کی بدولت تھوڑے بہت مولانا سے شکل میں بھی مشابہت رکھتے تھے۔ اور ایسے بچوں کے ماں باپ کو اس بات پر فخر تھا۔
مولوی قدرت اللہ جو اپنے عہدے میں ترقی سے پہلے کبھی کبھار دوستوں کے ساتھ مِل کر دل بہلانے کے لئے اِدھر اُدھر چلا جایا کرتا تھا وہ سب اب ترک تھا۔ گھر اور دفتر کے علاوہ اس کا باقی وقت اب مولانا عمران جمیل کے ساتھ گزرتا تھا۔
یوں تو بہت سے لوگ اور بہت باقاعدگی سے مولانا عمران جمیل کی خدمت میں نذرانے پیش کرتے اور دعا لیتے تھے مگر اب مولوی قدرت اللہ کے تحائف قدر و قیمت کے لحاظ سے بہت بڑھ گئے تھے۔شاید اسی بنیاد پرہی مولانا نے قدرت اللہ کو اپنے حجرے تک میں ساتھ بٹھانا شروع کر دیا تھا۔ عام طورپر اس حجرے میں دم کروانے یا بچوں کے لئے دعا کروانے والی عورتوں کو ہی آنے کی اجازت تھی۔
جوں جوں مولانا اور قدرت اللہ کی قربت بڑھتی گئی توں توں مولانا کی زبان سے قدرت اللہ کے علم اور کردار کے بارے تعریفوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ ایک سال کے اندر ہی عشاء کی نماز کے بعد کی دعا بھی مولانا اکثر قدرت اللہ سے ہی کرانے لگے۔ یوں رفتہ رفتہ قدرت اللہ بھی یہ سوچنے لگا کہ ضرور خدا اُس سے زیادہ ہی خوش ہے جو اُسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھی موٹی موٹی رشوت ملنے لگی ہے،محکمے کے اعلیٰ افسران کو شبہ تک بھی نہیں اور اس کی دعا میں تاثیر بھی بڑھ گئی ہے۔
مولانا کے حجرے میں تو قدرت اللہ کو جگہ مل ہی چکی تھی، اگلی ترقی اُس کی یہ ہوئی کہ سر درد کا دم کرانے کے لئے آنے والی کسی کسی عورت کو وہ قدرت اللہ کے سپرد کرنے لگے۔ قدرت اللہ بھی مولانا کا شاگردِ رشید تھا۔ وہ آنکھیں بند کرکے کوئی آیت پڑھتا اور پھر وہ جس بھی عورت کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر پھونک مارتا،اُس کے سر کا درد کافور ہو جاتا۔
انہی عورتوں میں مہتاب بانو نام کی ایک پچیس سالہ حسین و جمیل لڑکی بھی تھی۔ جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ دین دار بھی تھی۔ مگر بے چاری روز شام کر آدھے سر کے درد سے تڑپتی ہوئی مولانا کے حجرے میں پہنچتی۔ قدرت اللہ اُس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتا، کچھ آیات پڑھ کر اُسے پھونک مارتا اور مہتاب بانو کا سر درد رفو چکر ہو جاتا۔ مولانا بھی حالات کا گہری نظر سے جائزہ لے رہے تھے۔ یوں جب اس سلسلے کو کئی ماہ گزر گئے تو مولانا نے قدرت اللہ کو مہتاب بانو سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ لڑکی جوان ہے،مہ رخ و مہ جبین ہے اور اُس کی بیماری کا علاج بھی قدرت اللہ کے پاس ہے تو بے چاری کو کیوں یوں روز خوار ہونا پڑے؟ گھر میں ہو گی تو علاج بھی گھر میں ہی ہو جایا کرے گا۔ قدرت اللہ نے مولانا سے کئی سوال کئے، جن کا مولانا نے نہ صرف یہ کہ خاطر خواہ جواب دے دیابلکہ مہتاب بانو سے بھی کہلوا دیا کہ وہ اس نکاح کے لئے راضی ہے۔
قدرت اللہ بے شک ایک صحت مند اور خوش شکل مرد تھا لیکن اس کی عمر اس وقت تینتالیس سال ہو چکی تھی۔ تیرہ سال پہلے اس نے سترہ سال کی رابعہ سے شادی کی تھی۔ جس میں سے اُس کے تین بچے برکت اللہ،نسبت اللہ اور سکینہ بی بی حیات تھے اور دو بچے پیدائش کے فورا ” بعد ہی فوت ہو گئے تھے۔ وجہ جو بھی ہو لیکن رابعہ اس کے بعد حاملہ نہ ہو سکی تھی۔ کچھ تو قدرت اللہ کے پاس مزید اولاد کی خواہش کا بہانہ تھا اور کچھ مولانا کے پڑھائے ہوئے سبق،قدرت اللہ نے ایک رات گھر آکر رابعہ کو بتایا کہ وہ دوسری شادی کرنے جا رہا ہے۔ قدرت اللہ کا بڑا بیٹا بارہ سالہ برکت اللہ اتفاق سے دوسرے کمرے میں اس وقت جاگ رہا تھا، جب اُس نے باپ کے بولنے اور ماں کے رونے کی آواز سنی۔قدرت اللہ اس وقت رابعہ کو بتا رہا تھا کہ اسلام میں مرد کو چار شادیوں کی اجازت ہے اور رابعہ کے استفسار پر اُس نے قرآن شریف کی سورۃ النساء سے آیت نمبر تین کا حوالہ دیا تھا۔جس کے بعد رابعہ بیگم نے خاموشی اختیار کر لی۔قدرت اللہ نے مہتاب بانو سے نکاح کر لیا لیکن برکت اللہ کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ قرآن شریف میں سورۃالنساء کی آیت نمبر تین میں مردوں کے لئے یہ اجازت درج ہے۔
روپئے پیسے کی تو قدرت اللہ کو کوئی کمی نہ تھی اور چونکہ اس کی اوپری آمدنی کا بڑا حصہ مولانا عمران جمیل کی نذر ہو جاتا تھا شاید اسی لئے قدرت اللہ کے پیسے میں برکت بھی بہت تھی۔ ڈرائیور اور باورچی کے علاوہ گھر کے دیگر کاموں کے لئے بھی ایک ملازم موجود تھا۔ یہ شاید قدرت اللہ کے نکاح کا جادو تھا کہ شادی کے بعد مہتاب بانو کی بیماری میں بتدریج کمی آتی گئی اور وہ تین سال میں ہی دو بچوں کی ماں بن گئی۔ مگر تیسرے بچے کی باری شاید اس لئے نہیں آئی کہ اب قدرت اللہ رات کو زیادہ ہی دیر سے گھر آتا اور آتے ہی سو جاتاتھا۔بچوں اور بیویوں سے اُس کی ملاقات صرف صبح کے وقت ہوتی یا پھر اتوار کا آدھا دن اُن کے حصے آتا۔
رابعہ بیگم تو مہتاب بانو سے قدرت اللہ کے نکاح کے بعد سے ہی حقِ زوجیت سے محروم چلی آرہی تھی مگر اب مہتاب بانو بھی ایک معلقہ کی زندگی گزار رہی تھی۔ یوں دو سال اور بیت گئے۔
اس دوران میں مہتاب بانو اور رابعہ بیگم میں بہنوں جیسے تعلقات استوار ہو گئے۔ برکت اللہ اب سترہ سال کا ہو چکا تھا اور کالج میں
سیکنڈ ائر کا طالب علم تھا مگر باپ کے ساتھ اس کے تعلقات میں کافی سرد مہری آ چکی تھی۔ بظاہر وہ باپ کا تابعدار تھامگر دل میں اس سے خاصا خفا تھا۔ اصل وجہ یہ تھی کہ اسے باپ کی پوشیدہ سرگرمیوں کی بھی خبر ملتی رہتی تھی۔ اپنی ماں کے ساتھ قدرت اللہ کا سلوک تو وہ پچھلے پانچ سال سے دیکھ ہی رہا تھامگر اب سوتیلی والدہ کی محرومیوں نے اُسے اُس کا بھی ہمدرد بنا دیا تھا۔اس لئے جونہی اسے خبر ملی کہ قدرت اللہ کسی تیسری شادی کی فکر میں ہے تو اس نے ایک عالمِ دین سے مل کر پہلے تو سورۃ النساء کا ترجمہ اور تفسیر حاصل کی۔اس کا بغور مطالعہ کیا اور پھر اپنی دونوں ماؤں کو حالات سے آگاہ کر دیا۔
سو، اگلی ہی اتوار قدرت اللہ کے لئے کچھ اہم تبدیلیاں لے کر آئی۔
سب سے پہلے تو اورنگ زیب، اُن کاجو گھریلو ملازم تھا اور اکثر اتوار کی صبح قدرت اللہ کی مٹھی چاپی کرکے جگایا کرتا تھا آج غائب تھا۔ خلافِ معمول کوئی بچہ بھی اُس کے پاس نہیں آیا۔ سو وہ اپنی عادت کی نسبت کچھ دیر سے بیدار ہوا۔ غسل کرکے نکلا تو کسی نے اُسے دُھلے ہوئے کپڑے بھی نہیں دئیے۔ اس نے پہلے اورنگ زیب اور باورچی غلام محمد کو طلب کیا پھر باری باری بیویوں کو پکارا اورآخر میں بچوں کے نام کی صدائیں دیں۔مگر کہیں سے کوئی ردِعمل نہیں ملا تو تنگ آ کر رات والے کپڑے پہنے اورسب کو گالیاں دیتا ہوا ناشتے کی میز پر پہنچا۔ وہاں اُس کی دونوں بیویاں ناشتے میں مصروف اور گپ شپ میں مشغول تھیں۔ آج تک تو یہی ہوتا آیا تھا کہ جب تک قدرت اللہ گھر میں ہوتاتو ملازمین اوردونوں بیویاں اُس کے حُکم کے منتظر رہتے۔ مگر آج تو جیسے انہیں قدرت اللہ کی پروا ہی نہیں تھی۔
جب وہ اپنی گالیاں دوہراتے ہوئے شرمندگی محسوس کرنے لگا تو رابعہ بولی”اگر آپ کی گالیوں کی گردان مکمل ہو چکی ہو تو تشریف رکھئیے اور آسان الفاظ میں بتائیے کہ آپ کو اصل تکلیف کیا ہے؟“
وہ پہلے تو کچھ مزید گالیوں کی بوچھاڑ کرنا چاہتا تھا مگر پھر کچھ سوچ کر ایک کرسی پر بیٹھ گیا
”یہ اورنگ زیب کہاں مرگیا ہے آج؟“ اُس نے سوال کیا
رابعہ بولی ” آج آپ نے اُسے عالمگیر نہیں کہا ؟“
”وہ تو میں کبھی کبھی اسے پیار سے کہہ دیتا ہوں۔ لیکن ہے کہاں وہ حرامزادہ؟“
اب کے مہتاب بولی ”وہ بچوں کے ساتھ باہر گیا ہے“
”اور غلام محمد، وہ کدھر ہے؟ “
”وہ بھی ان کے ساتھ گیا ہے۔اورنگ زیب اکیلا بچوں کو نہیں سنبھال سکتا تھا“ دونوں بہ یک زبان بولیں
”اور ڈرائیور؟ اُس کی آواز نہیں آرہی؟“
”وہی تو لے کر گیا ہے سب کو گاڑی میں“
قدرت اللہ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ دونوں بیویاں جو عام طور پر اس کے سامنے بھیگی بلی بنی رہتی ہیں آج تڑاق پڑاق کیسے
بولے جا رہی ہیں۔ کچھ سوچ کر بولا ”میرا ناشتہ کہاں ہے؟“
”ناشتہ بھی مل جائے گا۔ آپ پہلے ہماری بات سنئیے“ رابعہ بولی
”کیوں؟ ناشتے سے پہلے کیوں ضروری ہے تم لوگوں کی بات سننی؟“
اب مہتاب کی باری تھی ”اس لئے کہ ہو سکتا ہے بعد میں آپ کو ناشتے کی حاجت ہی نہ رہے“
”اچھا ! یہ بات ہے؟ تو جلدی بکو کیا بکنا ہے؟“
رابعہ بولی ”ہم دونوں جو آپ کی زوجیت میں ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمیں ہمارا حق دیا جائے“
”کون سا حق ہے جو تمہیں نہیں ملتا ؟ کھانا پیناپہننااوڑھنا بچھونا ہر چیز وافر موجود ہے۔ عالی شان گھر ہے، نوکر چاکر ہیں اور کیا چاہئیے؟“
مہتاب بولی ”آپ ہم دونوں کا حقِ زوجیت ادا نہیں کرتے، یہ ہماری حق تلفی ہے“
وہ مہتاب کو دیکھتے ہوئے بولا ”تم تو ایسی بات نہیں کر سکتی۔ تمہیں تو میں ہر ہفتے دو ہفتے کے بعد ضرور ملتا ہوں۔ اور کتنا ملوں تمہیں؟ تم بھی اب پرانی ہو چکی ہو“
مہتاب نے ترنت جواب دیا ”شاید آپ کی یادداشت بھی کمزور ہو گئی ہے۔ مہینے دو مہینے بعد کہیں ایک بار آپ میرے بستر پر قدم رکھتے ہیں۔ اور اب بات میری نہیں بلکہ ہم دونوں کی ہے۔ آپ کو ہم دونوں کے ساتھ انصاف کا راستہ اختیار کرنا ہو گا“
”یہ انصاف کی بات کہاں سے آگئی؟“
رابعہ بولی ”جہاں سے آپ کو چار شادیوں کی اجازت ملی۔ قرآن شریف کی سورۃالنساء آیت نمبر تین اور ایک سو انتیس، جن کا حوالہ دے کر آپ نے دوسری شادی کی تھی اور اسلام کی اسی اجازت کو آپ شاید تیسری شادی کے لئے بھی استعمال کریں“
”وہ تو میرا شرعی حق ہے۔وہ مجھ سے کون چھین سکتا ہے؟“
”اس کی فکر مت کریں، وہ آپ سے کوئی نہیں چھین سکتا مگر اُس حق کے ساتھ انہی آیات میں تمام بیویوں کے ساتھ جو انصاف کا فرض عائد کیا گیا ہے وہ بھی پورا کریں، ورنہ۔۔۔۔۔۔۔“ اُس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا
”ورنہ۔۔۔۔؟ اچھا۔۔۔ یہ بھی بتا دو ورنہ کیا ہو گا؟“
مہتاب ایک لمحے کے لئے ہچکچائی، مگر پھر مضبوط لہجے میں بولی ”ورنہ ہم دونوں،بچوں کے ہمراہ مولانا عمران جمیل کی مسجد کے باہر جا کھڑی ہوں گی اور ہر آنے جانے والے کو بتائیں گی کہ آپ نامرد ہو چکے ہیں۔ آپ کی مردانگی رخصت ہو چکی ہے۔ آپ ہمارے حقِ زوجیت کی ادائیگی کے قابل نہیں رہے“
”حرام زادیو ! کتیو ! تم مجھے دھمکیاں دے رہی ہو۔ میں تم دونوں کو طلاق دے دوں گا“
”بے شک بے شک۔ آپ اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں“ رابعہ کا لہجہ طنز سے لبریز تھا ”تب تو لوگوں کے لئے یہ سمجھنا اور بھی آسان
ہو جائے گا کہ ہم جو بھی کہہ رہی ہیں صحیح کہہ رہی ہیں۔ ہمارے بچے بھی ہمارے دعوے کی گواہی دیں گے“
”تمہیں ضرور کسی شیطان نے بہکایا ہے“ قدرت اللہ کا لہجہ ایک دم دھیما ہو گیا ”لیکن ذرا سوچو اگر میں ثابت کردوں کہ میری مردانہ خصوصیات میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی ہے تو پھر۔۔۔۔۔ پھر کیا کرو گی تم دونوں؟“
”لیکن ثابت کیسے کریں گے؟ کہیں زنا کرنے جائیں کے اور اس عورت کو گواہ کے طور پر پیش کریں گے یا مسجد میں آنے والے کسی لڑکے پر دکھائیں گے اپنی مردانگی؟“ رابعہ کے لفظوں میں اب رعب بھی در آیا تھا ”اور رشوت کے ثبوتوں کا کیا کریں گے؟اگر ہم نے وہ اخباروں کو دے دئیے تو لوگ آپ پر تھوکیں گے“
”تم دونوں اچھی طرح جانتی ہو کہ میں جو کچھ بھی کرتا ہوں،تم لوگوں کی بھلائی کے لئے کرتا ہوں“
”تو پھر ہمارے ساتھ انصاف بھی کیجئے“
”کیا طریقہ ہے تم دونوں کے ساتھ انصاف کا؟“
مہتاب بولی ”آپ ہر رات کا آدھا وقت باجی رابعہ کے بستر پر گزاریں گے اور باقی آدھا میرے بستر پر۔ آپ کا علیحدہ کوئی بستر نہیں ہو گا“
”تو میں نیند کب پوری کروں گا؟“
”یہ آپ کا مسئلہ ہے۔ بے شک دفتر میں سولیا کریں۔ لیکن انصاف کا واحد طریقہ یہی ہے“
”اچھا؟ اور کچھ؟“
”آپ مغرب کی نماز کے بعد گھر سے باہر نہیں رہیں گے۔ عشاء کی نماز آپ گھر میں ہمارے ساتھ ادا کریں گے“
نہ چاہتے ہوئے بھی مولوی قدرت اللہ نے اپنی بیویوں کا یہ مطالبہ مان لیا۔ ناشتہ کیا او کچھ وقت وہاں گزارا۔ ساتھ ساتھ سوچتا رہا کہ اب کیا کرے؟ پھر دوپہر کے بعد مولانا عمران جمیل کے پاس چلا گیا۔ اس نے کئی بار چاہا کہ مولانا سے بات کرے مگر پھر کچھ سوچ کر رک گیا۔ البتہ مولانا کو یہ بتانا پڑا کہ کچھ دن وہ عشاء کی نماز گھر پر ہی پڑھے گا۔ مولانا کو تشویش تو ہوئی۔ مگر جب قدرت اللہ نے کچھ بتانے سے انکار کر دیا تو انہوں نے بھی ضد نہیں کی اور یہ سوچ کر چپ کر گئے کہ خود ہی وقت آنے پر بتا دے گا۔
قدرت اللہ اب وہ آدھی رات ایک بیوی کے پاس گزارتا، بعد میں وہ تو سو جاتی اور دوسری بیوی جو پہلے ہی کافی نیند پوری کر چکی ہوتی اُس کے پہنچنے پر جاگ جاتی۔ اسے دونوں کے ساتھ جاگنا پڑتا۔ اور کبھی کبھی حقِ زوجیت بھی ادا کرنے پڑتے۔ وہ دونوں دن میں بھی کچھ نہ کچھ سو لیتیں۔ وہ کئی سالوں سے سمجھ رہا تھا کہ رابعہ اب بوڑھی ہو چکی ہے۔ اس کے جذبات بھی مدھم پڑ چکے ہیں۔ مگر اس کی گرمجوشی نے تو قدرت اللہ کو پریشان ہی کر دیا۔ اس کی توقع کے خلاف رابعہ کے ہارمونز ابھی تک بہت ایکٹو تھے۔ مہتاب بھی پچھلے دو سالوں سے نظرانداز کی جا رہی تھی تو اُس کے جذبات بھی چنگاری ملتے ہی شعلوں کی طرح بھڑک اٹھے۔
قدرت اللہ نے مشکل سے دو ہفتے اس روٹین میں گزارے مگر پھر ا س کی برداشت جواب دے گئی۔
اُس نے ایک شام دونوں بیویوں کو بٹھا کر منت کی اور ان سے منوا لیاکہ وہ تین راتیں رابعہ کے بستر میں اور چار راتیں مہتاب بانو کے بستر میں گزارا کرے گا۔
یوں اُس کی گھر والی زندگی تو کسی حد تک قابو میں آ گئی مگر باہر والے سب دم درود اور ٹوٹکے بند ہو گئے۔ اب اُسے مولانا سے اپنی پُڑیوں کی تعداد بھی زیادہ کرنی پڑی۔
مولانا نے بھی آخر ایک دن تنگ آکر پوچھ ہی لیاکہ اصل ماجرہ کیا ہے؟
قدرت اللہ نے جس قدر بتایا جا سکتا تھا بتا دیا۔
مولانا نے اُسے آفر دی کہ وہ اس ضمن میں اُس کے حق میں فتویٰ جاری کر سکتے ہیں۔ اورعابدہ جو کتنے عرصہ سے اُس کا انتظار کر رہی ہے، اس سے نکاح کے لئے راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔ مگر قدرت اللہ ایسی کسی مدد سے انکار کرتے ہوئے بولا
”مولانا ! آپ صاحبِ منبر ہیں، حرف کے سوار ہیں لیکن میں حرب و ضرب کا نشانہ ہوں اور میدانِ جنگ میں ہوں۔ آپ کے نقطہ نظر میں اور میرے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آپ میری کوئی مدد نہیں کر سکتے“
مگر جو بات اس نے مولانا سے بھی نہیں کہی تھی،وہ تھی
اپنی مردانگی کے زعم کی حفاظت۔ ”مردانگی“ جس کے دو سادہ سی عورتوں نے پرخچے اُڑا دئیے تھے
جب حالات مکمل طور پر رابعہ اور مہتاب کے قابو میں آگئے اور قدرت اللہ کی تیسری شادی کا خطرہ پوری طرح سے ٹل گیا تو دونوں نے مل کر برکت اللہ کا شکریہ ادا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسانہ نگار..رشی خان۔ (برلن ۔ جرمنی)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...