گُلگشت سوسائٹی کے عقب کی ویران سڑک پر بڑے بڑے نیلے شیشوں کے پکاڈلی ہوٹل کی کینڈل لائٹ میں نازو کے ساتھ ڈنر کرنا وجاہتے کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا ۔ پکاڈلی ہوٹل اگرچہ کہ اس کے راستے میں نہیں آتا تھا لیکن وجاہتے دو سڑکیں گھوم کر ہمیشہ اسی ہوٹل کے سامنے سے گزر کر بس اسٹاپ تک جاتا تھا۔
چھ ماہ پہلے جب وہ نازو کو بیاہ کر لایا تو وہ نازیہ اشفاق حسین تھی اور یہی نام نکاح نامہ میں لکھا گیا تھا۔ خود وجاہتے، وجاہت حسین ہوا کرتا تھا لیکن نہ جانے کب اُن کے نام سمٹ گئے تھے۔ وجاہتے گاؤں میں بھی وجاہتے ہی تھا اور شہر آنے سے پہلے گاؤں کے بازار میں لیموں پانی اور فالسے کے شربت کی ریڑھی لگایا کرتا تھا۔ اُس کی ریڑھی سرخ سبز جھالروں سے سجی رہتی جس پر ایک پرانے ٹیپ ریکارڈر پر ہمیشہ فلمی گانے چلتے رہتے تھے جب وہ اکیلا ہوتا تو اُن گانوں پر سر دھنتا رہتا ۔ پھر اُس پر شہر جانے کا بھوت سوار ہوا اور وہ چلتا کاروبار چھوڑ کر شہر آگیا۔ یہ اُس کی سوچ سے بڑا اور تیز رفتار شہر تھا لیکن اُس نے زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا وہ جلد ہی بہت کم تنخواہ پر ایک گتہ فیکٹری میں ملازم ہو گیا یہیں اُس کی ملاقات نازو سے ہوئی تھی جو اس فیکٹری میں صفائی ستھرائی کے کام پر مامور تھی نازو بھی وجاہتے کی طرح اکیلی تھی اور اپنے دور کے چچا کے ساتھ فیکٹری کے سرونٹ کوارٹر کے ایک تنگ و تاریک مکان میں رہتی تھی ۔ نازو سے شادی کا تذکرہ وجاہتے ہی نے چھیڑا تھا دونوں کا سماجی سٹیٹس ایک سا تھا اور جب نازو نے اس پیشکش کو قبول کیا تو وجاہتے نے صرف ایک شرط رکھی کہ وہ فیکٹری میں مذید کام نہیں کرے گی اور اُس کے ساتھ ہی رہے گی ۔ وہ کم پڑھا لکھا تھا لیکن اسے نازو سے شدید محبت تھی اور یہی محبت نازو کا کام کرنا گوارہ نہیں کرتی تھی۔ ایک شام وہ نازو کو بیاہ کر ایک اور تنگ و تاریک مکان میں لے آیا چند کپڑوں اور نازو کی انگلی کی طلائی انگوٹھی جو وجاہتے نے اسے پہنائی تھی، اس کا حق مہر تھا جس کے ساتھ نازو کا چچا اسے فیکٹری سے چار اسٹاپ آگے وجاہتے کے کرائے کے گھر چھوڑ آیا ۔ گھر کیا تھا ایک کمرہ، جس کے اندر ہی رسوئی اور ایک چھوٹے سے صحن کے ساتھ باتھ روم کی سہولت کو گھر کا نام دیا گیا تھا ۔
رات آٹھ بجے جب وجاہتے کی چھٹی ہوتی تو وہ گُلگشت سوسائٹی کے عقب کی ویران سڑک پر چلتا ہوا چھوٹی فیکٹریوں اور کارخانوں کے مخصوص علاقے سے دو سڑکیں گھوم کر بس سٹاپ پر آتا اور اپنی مطلوبہ بس کے ذریعہ سیدھا گھر پہنچتا ۔
پکاڈلی ہوٹل شہر بھر میں اپنے رومانوی ماحول اور لذیذ کھانوں کی وجہ سے جانا جاتا تھا یہاں عموماً نئے شادی شدہ جوڑے اور محبتوں میں گرفتار شہر کے معزز ہی لنچ، ڈنر کے لئے آتے تھے سامنے کے ویران گراؤنڈ میں پارکنگ کی سہولت کی وجہ سے بھی لوگ اس طرف کا رُخ کرتے تھے ہوٹل کی سامنے کی دیوار بڑے بڑے نیلے شیشوں سے آراستہ تھی جس کے باہر موتیئے کے گملوں کی قطار لگی تھی دن کو باہر کی روشنی میں ہوٹل کی راہداری سے آگے کے مرکزی ہال میں بیٹھے ہوئے لوگ منعکس شیشوں کی وجہ سے نظر نہیں آتے تھے لیکن رات کو جب لائٹس روشن کی جاتیں تو گملوں کے عقب سے ہال میں بیٹھے لوگوں کے چہروں کی سطح تک نظر جاتی تھی یہ گملے اسی وجہ سے رکھے گئے تھے کہ باہر سے گزرنے والے لوگوں کی نظر کھانے سے لطف اندوز ہونے والے جوڑوں پر نہ پڑے ۔ہوٹل میں چار سال سے کم عمر بچوں کا داخلہ ممنوع تھا انتظامیہ کا خیال تھا کہ اس سے کم عمر کے بچے بلاوجہ شور کا سبب بنتے ہیں جس سے ماحول کے سکون میں خلل واقع ہوتا ہے ۔
وجاہتے ہر روز یہیں سے گزرتا تھا ہوٹل اور ہوٹل میں آنے والوں کو وہ محبت کی علامت سمجھتا تھا ۔ اسے نازو سے شدید محبت تھی اسی لئے نازو کے ساتھ یہاں ڈنر کرنا اُس کا خواب تھا۔ اگر وہ شادی کے بعد اس راستے سے گھر نہ جایا کرتا تو شاید اس کا خواب کچھ اور ہوتا ۔شاید وہ اس بڑے شہر میں ٹیکسی چلانے کے خواب دیکھتا یا کسی پُر رونق چوک پر شیشوں کی دکان پر بیٹھا لیموں پانی اور فالسے کا شربت بیچتا لیکن اب پکاڈلی ہوٹل اُس کے اعصاب پر سوار تھا وہ گتے کے خالی ڈبوں کو پیک کرتے یا دوپہر کو آرام کرتے ہوئے ہمیشہ پکاڈلی ہوٹل کے خیالوں میں کھوجاتا ۔وہ ہمیشہ سوچتا، لوگ یہاں محبت کی کیا باتیں کرتے ہیں؟ وہ گمان کرتا کہ یہاں آنے والی لڑکیوں کے ہونٹ سرخ انگاروں کی طرح دہکتے ہوں گے اور جب اُن کے محبوب انہیں چھوتے ہوں گے تو اُن کی انگلیوں کے پور جل جاتے ہوں گے۔ وہ ہر روز خیالوں میں نازو کے ساتھ خود کو اس ہال میں لے کر جاتا لیکن اُس کی اُنگلیوں کے پور جلنے کا سمے کبھی نہیں آیا ۔
وجاہتے کی زندگی کا حساب کتاب بہت آسان تھا۔ سولہ ہزار تنخواہ، چھ ہزار ایک کمرے والے گھر کا کرایہ، سات ہزار کا ماہانہ راشن، باقی بس کا کرایہ اور جیب خرچ جو مہینے کے آخری دن تک بمشکل چلتا تھا ۔ اُس نے اپنے ساتھ کام کرنے والے ساتھی سے پتا کر لیا تھا کہ ہوٹل پکاڈلی میں ایک رات کا کھانا کھانے کے لئے اسے تین ہزار رپوؤں کی ضرورت ہوگی جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر وہ نازو کو ساتھ لے کر جاتا ہے تو اسے کم ازکم چھ ہزار روپے جیب میں رکھنا ہوں گے ۔ پکاڈلی ہوٹل میں کینڈل لائٹ ڈنر جب سے اُس کا خواب بنا تھا اُس نے چار ہزار روپے جمع کر لئے تھے ۔ نازو اُس کے اِس خواب پر ہنستی کہ یہ امیروں کے چونچلے ہیں یہ ہم جیسے طبقہ کو کب زیب دیتا ہے وہ ہمیشہ اس کے ساتھ جانے پر انکار کرتی لیکن وجاہتے کے ذہن میں رات فیکٹری سے واپسی پر پکاڈلی ہوٹل کے نیلے شیشے، موتئے کے گملے اور اندر ہال میں بیٹھے محبت کرنے والے لوگ سوار رہتے ۔
اگلے ماہ کے پہلے ہفتے جب وجاہتے اور بیگم وجاہتے کے پاس آٹھ ہزار روپے جمع ہوگئے تو نازو کے انکار کے باوجود انہوں نے اتوار کی شام ہوٹل جانے کا پروگرام بنایا۔ پہلا مرحلہ کپڑوں کا تھا انہیں کپڑوں کے انتخاب میں زیادہ وقت نہیں لگا اس لئے کہ اُن کے پاس سب سے قیمتی کپڑے وہی تھے جو انہوں نے شادی کے روز پہن رکھے تھے اگرچہ کہ وہ اس ہوٹل کے لئے مناسب نہیں تھے لیکن وہ اس پر خوش تھے ۔ شام سات بجے کپڑوں پر گُلِ صندل کا عطر لگا کر وہ دونوں آٹو رکشہ میں پکاڈلی ہوٹل کی طرف چل پڑے وجاہتے نے عطر میں ڈوبا ایک تُنبہ کان میں بھی اڑس رکھا تھا اُس نے بوسکی کلر کی کاٹن کی شلوار قمیص، اسی رنگ کی جیکٹ اور سفید تلے والا کُھسہ پہن رکھا تھا نازو نے البتہ شادی کا سادہ سوٹ لیکن اوپر بڑے بڑے پھولوں والا کامدار دوپٹہ لیا ہوا تھا ۔ وجاہتے نے جان بوجھ کر رکشہ ہوٹل سے کچھ پیچھے رکوایا تھا تاکہ انہیں دیکھنے والے لوگ یہ نہ جان سکیں کہ وہ رکشہ میں یہاں تک آئے ہیں ۔ اتوار کی چھٹی کی وجہ سے یہ علاقہ سنسان نظر آتا تھا اور ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھی ۔ ہوا میں خنکی تھی ہوٹل کی چمنی سے اُٹھنے والا دھواں ہوا کے رُخ پر سفر کر رہا تھا، باہر کا ماحول پُرسکون تھا ۔ رکشے کو کرایہ ادا کر کے وہ ہوٹل کی طرف بڑھے ۔ وجاہتے نے سینہ کچھ چوڑا کر لیا تھا اور نازو اُس کے پیچھے کسی سرکس کے سدھائے ہوئے جانور کی طرح چل رہی تھی ۔ وہ جوں جوں ہوٹل کے دروازے کے قریب پہنچ رہے تھے، موتئیے کی خوشبو اُن کے قریب آتی جارہی تھی ۔ ہوٹل کے مرکزی دروازے کے اندر کلف لگے سفید شلوار قمیص پر سُرخ مغلئی پگڑی پہنے ایستادہ گرانڈیل جوان نے بڑھ کر دروازہ کھولا لیکن وہ وجاہتے اور نازو کو دیکھ کر سمجھا کہ وہ کوئی راہگیر ہیں جو یہاں سے گزر رہے ہیں لیکن جب وجاہتے نے درمیانی انگلی کو خم دے کر عقبی ہڈی سے شیشے کا دروازہ کھٹکھٹایا تو سُرخ مغلئی پگڑی والے نے دروازہ کھول دیا دونوں راہداری سے آگے کشادہ ہال کی طرف بڑھ گئے ۔ بس اسی اثنا میں وجاہتے کی سانسیں اکھڑ گئیں، اُس سے نازو کا ہاتھ نہ پکڑا گیا، نازو اُسے اس کی قمیص کی جیب کے پاس سے پکڑے آگے بڑھ رہی تھی وجاہتے کو اس کا بالکل اندازہ نہیں ہوا کہ اس کی سانسیں خلافِ معمول کیوں چل رہی ہیں ۔ آگے ہال میں چار چار کرسیوں کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل، جن پر سفید موٹی چادر بچھی ہوئی تھی اور درمیان میں دو کینڈل روشن تھیں، ایک خاص ترتیب کے ساتھ لگی ہوئی تھیں، دیواروں پر جا بجا پکاسو، وین گو اور گُل جی کی ڈُپلیکیٹ پینٹنگز اور عقبی دیوار پر اونچی چھت کو چھوتا ہوا گہرا سبز مخملی پردہ آویزاں تھا پیچھے کی بیشتر ٹیبلوں پر لوگ کھانوں اور سرگوشیوں میں مصروف تھے بائیں طرف کی رو میں ایک ٹیبل خالی تھا، وہ دونوں اُسی پر بیٹھ گئے ۔
کچھ ہی دیر میں ویٹر نے موٹی سبز جلد والا مینیو کارڈ، جو سفید موٹی پلیٹ، جس پر سفید رومال بچھا ہوا تھا اور جس کے عین وسط میں ہوٹل کا نام کندہ تھا، اُن کے سامنے رکھ دیا ۔ وجاہتے نے کارڈ کا پہلا ورق اُلٹا، اُسکے چہرے کا رنگ تبدیل ہوگیا وہ انگریزی میں لکھے کھانوں کے نام بالکل نہیں جانتا تھا لیکن دوسرے کالم میں لکھی ہوئی قیمتوں کے ہندسوں سے واقف تھا ۔اُس نے کارڈ نازو کے آگے کیا تو اُس نے شرما کر گردن نیچے کر لی ۔ وجاہتے نے کھانوں کی تصویروں پر نظر ڈالنے میں خاصہ وقت لیا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا آرڈر کرے ۔ اُس نے بمشکل بٹر چکن کڑاہی، روغنی نان، اور مکس گرلڈ کا منصوبہ بنایا پھر وہ اِن تینوں کی قیمتوں کو جمع کر کے جیب میں رکھے ہوئے پیسوں کا توازن کرنے لگا اس کے پاس کچھ رقم اضافی ہو رہی تھی اطمینان کی ایک لہر اس کے چہرے پر دوڑ گئی اُس نے کولڈ ڈرنک میں پیپسی کولا کو سوچا، اُس نے دیکھا کہ ہر ٹیبل پر بیٹھے جوڑوں کے سامنے کولڈ ڈرنک کا صرف ایک گلاس رکھا ہے جس میں دو سٹرا لگے ہوئے ہیں، اُس نے بھی ایک پیپسی شامل کر کے ویٹر کو صفحے پر بنی تصویروں پر انگلیاں رکھ کر کھانا لکھوا دیا ۔ آس پاس کے تمام جوڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے کسی نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام رکھے تھے اور کئی جوڑے اپنے اپنے سٹرا کے ساتھ ایک ہی گلاس میں مشروب پینے کا مظاہرہ کر رہے تھے لیکن کسی کی آواز سنائی نہ دیتی تھی ۔ یہاں کسی کے ہونٹ سرخ دہکتے انگارے نہیں تھے۔ میک اپ کی دبیز تہوں، مصنوعی روشنیوں اور مَردوں کے ملے جلے برانڈڈ پرفیوم، جن میں گُلِ صندل کی تیز بو بھی شامل ہوگئی تھی، سے ماحول بوجھل محسوس ہوتا تھا ۔ وہ اس پورے ماحول میں اجنبی تھے کیونکہ وہ وہی کچھ کر رہے تھے جو انہیں کرنا چاہئے تھا ۔ وجاہتے اس دوران نازو سے محبت کی ایک بات نہ کر سکا اٌس نے صرف سبز مخملی پردوں کی تعریف کی۔
کھانا اُن کے سامنے لگایا گیا، وجاہتے نے دیکھا کہ لوگ گلے میں سفید رومال اٹکائے بیٹھے ہیں جو کھانے کے ساتھ انہیں دیا گیا تھا، اُس نے بھی رومال کھول کر گلے میں ڈال لیا دوسرا رومال اُس نے نازو کو دیا تو اُس نے اسے ایک جانب رکھ دیا ۔ ویٹر نے ایک ایک خالی پلیٹ دونوں کے سامنے رکھ دی اور دوسرے ٹیبل کی طرف بڑھ گیا وہاں کسی سے رائتے کی پلیٹ گر گئی تھی، ویٹر نے مسکرا کر جوڑے کی جانب دیکھا، کچن کی طرف سے ایک دبلا پتلا لڑکا نمودار ہوا اور فرش صاف کر کے واپس چلا گیا ۔ حسبِ ماحول وجاہتے اور نازو کو چھری کانٹے کی مدد سے کھانے میں دشواری کا سامنا تھا رائتے کی ٹوٹی ہوئی پلیٹ بھی اُن کے ذہن میں تھی دونوں نے چھری کانٹا سائیڈ پر رکھ کر ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا ۔ وجاہتے کو خیال آیا کہ یہ تمام جوڑے اپنے گھروں میں یقیناً ہاتھوں کی مدد سے ہی کھانا کھاتے ہوں گے اور رائتے کی پلیٹ ٹوٹنے پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوں گے ۔ کھانے کے دوران روغنی نان کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نازو کے رخسار سےچپک گیا، ماحول کی اجازت ہونے کے باوجود وجاہتے اسے اپنے ہاتھ سے صاف نہ کرسکا اور جب وجاہتے نے اس طرف اشارہ کیا تو نازو نے ایک طرف رکھے رومال سے اسے صاف کردیا ۔ کچھ دیر بعد دونوں جب اُس ماحول سے آشنا ہوئے تو وجاہتے کو خیال آیا کہ اگر نازو بے دھیانی میں اپنا ہاتھ ٹیبل پر رکھے گی تو وہ ہمت کر کے ضرور اُس کا ہاتھ پکڑ لے گا لیکن نازیہ اشفاق حسین نے ایسا نہ کیا اور وجاہت حسین اُسے ایسا کہنے کی ہمت نہ کر سکا ۔
کھانے کے بعد ویٹر نے بل پیش کیا، یہ سیلز ٹیکس کے ساتھ پانچ ہزار تین سو کا تھا وجاہتے نے بغلی جیب سے ہزار ہزار کے چار، پانچ پانچ سو کے دو اور سو سو کے تین جمع کئے ہوئے نوٹ پلیٹ میں رکھ دیئے ۔ نازو نے اُس کی توجہ ٹِپ کی جانب دلائی تو اُس نے بیس روپے کا ایک نوٹ اور نکالا اور ویٹر کو دکھاتے ہوئے پلیٹ میں رکھ دیا ۔ اب وہ شانِ بے نیازی سے ہوٹل کی راہداری سے ہوتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا، نازو اب بھی سرکس کا سدھایا ہوا جانور تھی، دروازے پر ایستادہ جوان نے گرمجوشی سے دروازہ کھولا، دونوں ہوٹل سے باہر نکل گئے ۔
وجاہتے کاندھوں کو اٹھائے اور شانوں کو پھیلائے منہ میں رکھی ٹوتھ پک کو چباتے ہوئے ہوٹل سے کچھ آگے سڑک پر رک کر آٹو رکشہ کا انتظار کرنے لگا ۔ پولیس کانسٹبل اور پاس سے گزرتے ہوئے اکا دکا لوگ اسے غیر اہم نظر آنے لگے لیکن وجاہتے کو علم تھا کہ وہ نازو سے محبت کی کوئی بات نہ کرسکا تھا ۔ رکشہ اُن کے پاس آکر رکا تو اُس نے بھاؤ تاؤ کے بعد بیٹھنے سے پہلے مڑ کر پکاڈلی ہوٹل کی طرف دیکھا بڑے بڑے نیلے شیشوں کے پیچھے میک اپ کی دبیز تہوں اور مردانہ خوشبو سے اٹے ماحول میں شہر کے معززین پُر لطف کھانوں میں مصروف تھے۔ وہ مسکراتا ہوا رکشے میں بیٹھ گیا۔
دوسرے روز رات آٹھ بجے جب وہ گھر لوٹا تو نازو چولہے کے آگے بیٹھی تیسری اور آخری روٹی پکا رہی تھی وہ وہیں نازو کے پاس بچھی ہوئی چٹائی پر بیٹھ گیا نازو نے کل کی بچی ہوئی ترکاری کے سالن کی پلیٹ اور روٹیوں کا چھابا اُس کے آگے کردیا اُس نے پہلا نوالہ نازو کے منہ میں رکھا، وہ شرما گئی ۔ دوسرا نوالہ اُس نے اپنے منہ میں ڈالا اور اسے چبانے لگا پکاڈلی ہوٹل کے خواب کے پس منظر میں محبت کا جذبہ، جو اُس کی روح میں چُھپا ہوا تھا اور جس کا اظہار وہ پکاڈلی ہوٹل کی کینڈل لائٹ پر چھوڑے بیٹھا تھا، اُس کی آنکھوں میں اُتر آیا۔ نازو کی گردن کا تِل، جو اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اِس مدھم روشنی میں بھی نمایاں ہورہا تھا ۔ اُس نے زرد بلب کی اِس مدھم روشنی میں نازو کے چہرے پر نظر ڈالی، دھویں کی کالک اس کے رخساروں پر جمی ہوئی تھی اُس نے شہادت کی انگلی سے اسے صاف کیا، رخسار پر اٌس کی انگلی جیسی موٹی ایک سُرمئی لکیر کھنچ گئی اُس نے سرگوشی میں نازو سے کوئی بات کی جسے سُن کر وہ شرما گئی۔ نازو کے ہونٹ اسے دہکتے انگاروں کی طرح نظر آنے لگے اُس نے انگلیاں نازو کے ہونٹوں پر رکھ دیں، نازو کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ وجاہتے کی انگلیوں کے پور جلنے لگے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...