”بھورے ،نذیر ، راجی اور باقی سارے کہاں رہ گٸے ہو “؟
عبدالکریم کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی ۔ گھر کے تینوں کمروں میں ہر عمر کی عورتیں ، لڑکیاں اور بچیاں بلاامتیاز بھری ہوئی تھیں ۔
نواڑی پلنگوں پر عمر رسیدہ عورتیں جو رتبے میں دادی نانی ، تاٸی ،چچی ،ممانی اور پھپھی جیسے عہدوں پر فائز تھیں ,براجمان تھیں ۔کچھ شادی شدہ نوجوان عورتیں میسر آٸے مونڈھوں پر بیٹھیں تھیں ,جن میں سے کچھ اپنا پیٹ سنبھال رہی تھیں ,تو کچھ شیر خوار کو چھاتی سے لگائے اور دوسرے کو گھٹنے پر ٹکائے مامتا لٹانے میں مصروف تھیں ۔لڑکیاں بالیاں نیچے کھیس نما دری پر بیٹھی ایک دوسرے کے کانوں میں گھسی سرگوشیوں میں مصروف نظر آتی تھیں ۔
بڑا سارا صحن رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجا تھا ایک طرف اگربتیاں سلگ رہی تھیں جو ختم ہونے پر دوبارہ لگا دی جاتی تھیں ۔
صحن میں موجود عبدالکریم کلف لگی پگڑی اور سفید کرتا دھوتی میں ملبوس بڑی شان سے مونچھوں کو تاؤ دیتے موجود تھے ۔
پیر پیراں بڑی سرکار کی آمد کا وقت ہوا ہی چاہتا تھا ,”ارے ناہنجاروں کوئی بڑی سڑک تک بھی گیا ہے یا نہیں !!! ؟ بڑے سرکار کی آمد تمام خاندان برادری کے لئے باعث خیر و برکت ہے ,بڑی عزت دی ہے پاک پروردگار نے جو اونچی سرکار ہم کم ذاتوں کے گھر خاندان کو دعائے خیر دینے اور منت کی دیگ کو ہاتھ لگانے آتے ہیں “
”جی ابا جی آپ فکر ہی نہ کریں میں نے کوئی گھنٹہ بھر پہلے سے لڑکوں کو دوڑایا ہوا ہے , بڑی سرکار کی عزت و تکریم میں کوئی کمی نہیں آئے گی جی“۔
”ہوں “ عبدالکریم نے ایک ہنکارا بھرا۔
کمروں میں بیٹھی خواتین میں ایک ہلچل سی پیدا ہوئی ساری آوازیں جو عبدالکریم کی دھاڑ سے ایک چپ میں بدل چکی تھیں آہستہ آہستہ دوبارہ سے بیدار ہونے لگیں ۔
فاطمہ بھی ایک جانب چپ چاپ سر گھٹنوں پر ٹکائے نہ جانے کن سوچوں میں گم تھی ۔وہ ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی یہ سب چیزیں اس کی سمجھ سے باہر تھیں , جب اللہ تبارک و تعالی نے خود فرما دیا ”بندے جو مانگنا ہے مجھ سے مانگ میں تیری شہہ رگ سے بھی قریب ہوں “
تو پھر اپنی مرادوں کے لئے پیروں ، فقیروں، منتوں ، تعویذوں پر اعتقاد کرنا یہ سب اسے کبھی بھی قبول نہ ہوا تھا ۔کچھ اس کی تربیت بھی ایسی ہی ہوئی تھی ,ماں باپ کو ہمیشہ ہر مسئلے ہر پریشانی کے لئے سوھنے پروردگار سے ہی مانگتے دیکھا تھا ,اور اس بہت مہربان پروردگار نے کبھی اپنے در سے مایوس نہیں لوٹایا تھا ۔
اب شادی کے بعد سے ہی اسے ان تمام چیزوں کا شدت سے سامنا تھا اس کی سسرال والوں نے اس طرح کے عقائد دل و جان سے اپنائے ہوئے تھے اور اس سب کے آگے اس کی ہر دلیل ہر بحث بیکار ہی گئی تھی ۔
اللہ کی رضا تھی کہ اس کی شادی شدہ زندگی کو دوسرا سال لگ چکا تھا اور وہ ابھی تک کوئی خوشخبری بھی نہ سنا سکی تھی ۔
آج اس کا یہاں موجود ہونا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی جو اس کی ساس نے گزشتہ کچھ ماہ سے شروع کر رکھا تھا ,ہر بتائے گئے ٹوٹکے سے لے کر نا جانے کہاں کہاں سے دم والا پانی ,دم والا گڑ ,اور دم والے دھاگے اس کے لٸے لاٸے جا رہے تھے ۔
گزشتہ دن بھی اس کی ساس کریماں اور شوہر جنید سے اس بات کو لے کر کافی بحث ہوئی تھی جس پر اسے بے دید ، نامراد اور آخر میں کریماں نے گا ل پیٹتے ہوئے کافر ہونے کا فتویٰ تک صادر کر دیا تھا ,اور اسے مجبوراً خاموش ہونا پڑا ۔۔۔۔اور آج وہ سب کے ساتھ تایا عبدالکریم کے گھر ”منت کی دیگ“ گھمائی کی تقریب میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کرنے والوں میں شامل تھی ۔
عورتوں میں چھڑی بحث جو کب سے جاری تھی کبھی ہلکی ہوجاتی اور کبھی تیز ,ہر عورت یہی چاہتی تھی کہ اس سال منت کی دیگ گھمائی اس کے حصے میں آئے ۔
اسی لیے تمام عورتیں خود کو زیادہ ضرورت مند ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے تھیں ۔
بڑی دیر کی کشمکش کے بعد فاطمہ کی ساس کریماں اور پھپھی شاکراں ہی میدان میں بچی تھیں ,باقی ساری خواتین ان دونوں کے حق میں دستبردار ہو کے دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھیں ۔
اب آخری کانٹے کا مقابلہ پھپھی شاکراں اور فاطمہ کی ساس کے درمیان تھا ۔۔۔۔جو فاتح ٹہرتا آج اس کے بھاگ جاگ جانے تھے ۔
دونوں ہی پوری شدومد سے ایک دوسرے کو جھٹلانے اور اپنی حمایتی خواتین کی مدد سے خود کو حقدار ثابت کرنے کی پوری کوشش میں مصروف تھیں ۔
اچانک ہی پیر صاحب کی آمد کا غلغلہ اٹھا اور تمام خواتین ہر دستیاب کھڑکی ,دروازہ , جھری سے باہر کی جانب پر شوق نگاہوں سے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔جنہیں کوئی بھی آڑ میسر نہ آ سکی وہ پورا زور لگا کر آگے والیوں کو پیچھے کھینچنے کی تگ و دو میں لگی تھیں اور کامیابی حاصل کرنے والی کسی طور اپنی جگہ چھوڑنے پر تیار نظر نہ آتی تھیں ۔اتنے میں ڈھول کی تھاپ اور گلاب کی پتیوں کی بارش میں اعلی حضرت بڑی سرکار بڑی شان سے اپنے آٹھ دس مصاحب کے ساتھ قدم رنجہ فرما چکے تھے ۔
اس کے ساتھ ہی پورا صحن ہر عمر کے مرد حضرات سے بھر چکا تھا ۔پیر صاحب کو صحن کے بیچوں بیچ ایک تخت پر جو خوبصورت سرخ مخملی تخت پوش سے ڈھکا ہوا تھا اور خوبصورت مخملیں تکیوں سے مزین تھا بٹھا دیا گیا ۔
باقی تمام عقیدت مند چاروں جانب رکھی چارپائیوں پر عقیدت و احترام سے نظر جھکائے بیٹھ چکے تھے ۔لڑکے بالے دیواروں سے لگے کھڑے تھے اور کچھ چھت کی طرف جاتی سیڑھیوں پر جگہ بنا چکے تھے ۔
ایک واحد ,عبدالکریم کو پیر صاحب کے تخت پر جگہ ملی تھی , جہاں پیر کرامت شاہ پھولوں کے ہاروں سے لدے نیم دراز تھے ۔
قدم بوسی کا سلسلہ شروع ہوا , تمام حضرات باری باری اٹھ کر جاتے پیر صاحب کا ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگاتے اور نظرانے کی رقم دبے ہاتھ سے پیر صاحب کے ہاتھ میں منتقل کرتے الٹے قدم پیچھے ہٹ جاتے ۔
تخت کے ارد گرد بیٹھے مصاحبوں میں سے کوئی تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک نعرہ مستانہ بلند کرتا اور وجد کی کیفیت میں اٹھ کر ایک گول چکر کاٹ کر پھر زمین بوس ہو جاتا ۔ایسے میں ایک اور ہلچل پیدا ہوئی اور لڑکے اٹھ کر باہر کی جانب بڑھے ”منت کی دیگ “آ چکی تھی ۔
عام دیگ سے دوگنا بڑی دیگ جو کہ اوپر سے گوٹا کناری والے سرخ پوش سے ڈھکی ہوئی
جانب بڑھے ”منت کی دیگ “آ چکی تھی اس سرخ پوش کے اوپر جگہ جگہ گھنگھرو بھی ٹنکے ہوٸے تھے ,اوپری گہرائی کو گلاب کے پھول کی پتیوں سے بھرا گیا تھا ۔ چار پانچ لڑکے اس دیگ کو بڑے احترام سے پکڑے صحن کے عین درمیان پیر سرکار کے سامنے کے خالی حصے میں رکھ کے سر جھکائے بڑے احترام سے الٹے قدموں پیچھے ہٹ چکے تھے ۔
خواتین کی طرف بھی ہلچل اپنے عروج پر تھی دیگ کی رونمائی کے لیے خواتین ایک دوسرے پر ٹوٹے پڑ رہی تھیں ,اس منت کی دیگ کی تعریف و توصیف اس طرح کی جا رہی تھی جو کہ شاید ہی کسی دلہن کو بھی نصیب نہ ہوئی ہو گی ۔
پیر سرکار نے ایک مصاحب کو اشارہ کیا تو ایک لمبی سفید ریشمی ڈوری جو خوب چوڑی بُنی گئی تھی اوراس میں جگہ جگہ موتی جھولتے تھے نہ جانے کہاں سے برآمد کی اور پیر صاحب کے سامنے رکھ دی ,پیر صاحب خاموشی سے آنکھیں بند کئے کسی وظیفے میں مگن ہوگئے جس کے اختتام پر اس ریشمی ڈوری پر پھونکیں ماری گٸیں اور پھر یہ ریشمی ڈوری عبدالکریم کے حوالے کر دی گئی ۔
عبدالکریم نے بڑے اعزاز اور احترام سے ریشم کی ڈوری کو ایک چاندی کے تھال میں رکھ کے تھال سر پر رکھا اور اسے اٹھا کر دیگ کے گرد تین چکر لگائے ,اس کے بعد اس ریشمی ڈوری کو بڑے احترام سے دیگ کے گرد کس دیا گیا ,اس ڈوری کے دو لمبے سرے لٹکتے چھوڑ دیے گئےتھے ۔
یہ ”منت کی دیگ “اسی طرح ہر سال تیار کی جاتی تھی خاندان کا سربراہ ہونے کی وجہ سے عبدالکریم کے گھر ہی اس تقریب کا اہتمام پوری شان و شوکت سے کیا جاتا تھا ۔
اب زیارت کی باری تھی تو تمام مرد حضرات ایک ایک کر کے آتے بڑی عزت اور تکریم سے دیگ کو ہاتھ لگا کر پیر صاحب کی قدم بوسی سے شرف یاب ہوتے ہوئے باہر نکل جاتے ۔
تمام مردوں کے بعد اب عورتوں کی باری تھی , ہرسال اس منت کی دیگ کو گھمانے کا اعزاز جس خوش نصیب عورت کے حصے میں آتا تھا اس کے من کی مراد اسی سال بر آتی تھی , اسی مضبوط عقیدے کی بناءپر اس اعزاز کو حاصل کرنے کے لیے کڑی محنت کرکے اپنے آپ کو اس کا حقدار ثابت کرنا پڑتا تھا ۔جو معاملہ فہم اور عقلمند عورت یہ بازی جیت لیتی پھر یہ اعزاز اس کی جھولی میں جا گرتا ۔
یہاں موجود خواتین میں سے کئی اسی طرح سے بامراد ہوچکی تھیں ,کتنی ہیں کنواری لڑکیاں اب اپنے شوہروں کے ساتھ آباد تھیں ,کٸی بے اولاد جھولی میں اولاد کی خوشی لیے موجود تھیں ,اور کسی نے بڑی تگ و دو کے بعد دو تین بیٹیوں کے اوپر اسی برکت سے بیٹا پایا تھا اور اب گردن اونچی کئے بیٹھی تھیں ۔
فاطمہ ایک بے چینی کی کیفیت میں مبتلا وقفہ وقفہ سے اپنی ساس اور پھپھی شاکرہ کی جانب دیکھتی تھی ,دونوں اب شاید کسی ایک بات پر متفق ہو چکی تھیں ,کریماں کے چہرے پر پھیلا اطمینان اس کے دل کو بے چین کٸے دے رہا تھا ,اس نے ابھی تک اپنی جگہ سے اٹھنے اور کسی بھی تاک جھانک میں شامل ہونے کی کوٸی کوشش نا کی تھی ۔
مقابلے کی اس دوڑ سے الگ وہ اپنی ہی سوچوں میں گم وہ کب سے اسی جگہ بیٹھی تھی ۔تمام خواتین ایک قطار میں باہر کی جانب پیر سرکار کی قدم بوسی کے لیے آگے بڑھ رہی تھیں ۔
کریماں کے چہرے سے جیت کی خوشی پھوٹی پڑ رہی تھی ,اس نے مضبوطی سے فاطمہ کا ہاتھ تھاما اور قطار کے آخرمیں جا کھڑی ہوئی , اب وہ اس کے کانوں میں ہدایتیں انڈیل رہی تھی ۔
قطار آگے سرکتی جا رہی تھی عورتیں , لڑکیاں پیر سرکار کی قدم بوسی کرتیں اور دیگ کو احترام سے ہاتھ لگاتے آگے بڑھ جاتیں , ابھی یہ عمل جاری ہی تھا کے عبدالکریم کی آواز گونجی ”ہاں بھٸی !! تم سب نے مل کر فیصلہ کر لیا اس بار کون خوش نصیب دیگ گھماٸے گی ؟“
اور اس کے ساتھ ہی کریماں بڑے تفاخر سے فاطمہ کا ہاتھ تھامے قطار سے نکل آئی ۔
آج تین دن ہو گئے تھے پر کریماں کا ماتم ختم ہونے میں نہیں آرہا تھا ۔اس کی ساری محنت ساری امیدوں پر پانی پھر گیا تھا اس کے کوسنے اور بد دعائیں ہر تھوڑی دیر بعد پھر سے شروع ہو جاتے ,جن کا محور فاطمہ کی ذات تھی ۔
فاطمہ نے بھری برادری میں اس کی ناک جو کٹوا دی تھی اور اسی سبب مراد والی خوشی پھوپھی شاکرہ کی جھولی میں جاگری تھی ۔
وہ بار بار اس وقت کو یاد کر کے آنکھوں میں آنسو بھر لاتی اور ایک دفعہ پھر کوسنے شروع کر دیتی ,تمام عورتوں نے اس کا کیسا مذاق بنایا تھا ۔۔۔۔جب اس کی بہو سے ”منت کی دیگ “کو ریشمی ڈوری سے گھمانے کو کہا گیا اور اس بدبخت سے وہ ہلائی بھی نہ گئی الٹا وہاں غش کھا کر گر پڑی ,اور کیسے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر پھپھی شاکرہ کی بہو نے ایک ہی دفعہ میں پوری طاقت لگا کر دیگ گھما ڈالی تھی ۔
دوسری طرف فاطمہ بڑی مطمئن سی یہ کوسنے سنتے اپنے کام انجام دیے جا رہی تھی ,وہ دلیل سے نہ سہی تدبیر سے ہی اپنے ایمان کو بچانے میں کامیاب ہو چکی تھی ,اسے اپنے اللہ سے پوری امید تھی جس کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں ,جو اپنے بندوں پر بہت ہی مہربان ہے کچھ دنوں سے جو طبیعت خراب سی تھی اس کی وجہ ایک انعام کی شکل اس کے علم میں آ چکی تھی , اور بہت جلد وہ اپنے نقلی بے ہوش ہونے کی اصلی وجہ بھی کریماں کو بتانے والی تھی ,دھیمی سی مسکان لبوں پر لیے وہ اپنے رب کی شکر گزار تھی جس نے منت کی دیگ گھماٸے بغیر بھی اس کی مراد پوری کر دی تھی۔
****
تحریر: رخشندہ بیگ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...