تحریر : سندھیا بھانو (امریکہ)
مترجم : اسماء حسین (امریکہ)
شاکا ہاری ڈائننگ ہال سے رات کا کھانا کھانے کے بعد اپنے فلیٹ واپس جاتے ہوئے ، مسٹر سوامی ناتھن اچانک گزر گئے ۔ وہ مجھ سے آگے چل رہے تھے ، میں نے انہیں سست ہوتے دیکھا تھا۔پہلے ا ن کی تیز چال دھیمی ہوئی اور پھر جھک کر چلنے لگے ۔ ان کا بایاں بازو لٹک گیا ، قدم اکھڑے اور وہ زمین بوس ہو گئے ۔ اگر میں نے پھرتی نہ دیکھائی ہوتی تو میرا خیال ہے ان کا سر پختہ فرش سے ٹکرا جاتا۔ خون بہہ سکتا تھا ۔ لیکن ان کے گرنے سے پہلے ہی ،میں نے انہیں جالیا۔ میں زمین پر بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھ پھیلا دیئے یوں ان کا سر براہ راست میرے ہاتھوں میں گرا۔ احتیاط سے، میں نے اپنے ہاتھ ان کے سر کے نیچے سے نکالے اور اسے فرش پر آہستگی سے رکھ دیا اور ان کے پہلو میں بیٹھ کر ان سے باتیں کر نے لگی ۔ان کی بائیں آنکھ ، دائیں آنکھ سے نیچے لگ رہی تھی۔ ان کا بایاں گال ایسے لٹک گیا تھا جیسے کھسک گیا ہو۔
ایمبولینس کے آنے تک میں نے اس کا ہاتھ تھامے رکھا ۔ شوہر کی موت کے بعد پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ میں نے کسی آدمی کا ہاتھ پکڑا تھا ۔ مسٹر سوامی ناتھن کی سونے کی انگوٹھی پر جڑا مستطیل ہیرا ان کی گرم جلد کے برعکس سخت اور ٹھنڈا تھا ۔ا سٹریچر پر ڈالنے سے پہلے انہوں نے آنکھیں کھولیں، میری جانب دیکھا اور کہا۔ “رینوکا۔” پھر میرا ہاتھ بھینچا۔ وہ اپنی بیوی کو بلانے کے لیے کہے رہے تھے یا مجھے اپنی بیوی سمجھ رہے تھے ، اس بات کا مجھے کوئی اندازہ نہیں ہے ۔ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ان کی موت ہو چکی تھی ۔ ان کی عمر پچھتر برس تھی ، اگر آج میرے شوہر زندہ ہوتے تو ا تنی ہی عمر کے ہوتے۔
یہ ہمارے لیے پہلی فوتگی تھی۔ یقین کرنا مشکل لگتا ہے، کیونکہ یہ بوڑھوں کی جگہ ہے۔ مالیگا ہومز ایک نئی جگہ تھی اور اولین رہائشی، بشمول میرے ، صرف دو سال قبل یہاں منتقل ہوئے تھے۔
دوسرے دن میں نے اپنی بیٹی کملا سے فون پر بات کی اور اسے بتایا کہ سوامی ناتھن والے پورے معاملے کواہلکاروں نے کتنی مہارت سے سنبھال لیا تھا۔ فوراً مدد کے لیے کال کر دی تھی ۔ علاقے کو فوری طور پر ایمبولینس کے لیے خالی کر دیا گیا اور وہ گولڈن ڈیو ڈراپس پھولوں کو کچلتی ،جنہیں بڑھنے میں ایک سال لگا تھا ، تازہ تازہ تراشیدہ گھاس پر آ کھڑی ہوئی ۔
“مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے۔” کملا نے کہا۔
مالیگا ہومز کوئی بری جگہ نہیں ہے۔در حقیقت اچھی جگہ ہے۔ بس میری طرح کے شہر ی لوگوں، چنائے جیسی جگہوں سے آنے والوں کوتھوڑا سا الگ تھلگ لگتا ہے ۔ یہ سہولت گاہ تھمبور روڈ اور این ایچ – ۱۸۱ کے چوراہے پر واقع ہے، کوئمبٹور سے ذرا باہر ۔ درمیانے سائز کے شہر کے مضافات میں تعمیرات کرنے سے ڈویلپرز کو زیادہ وسیع جگہ مل جاتی ہے اور آسائشات میں سرمایہ کاری کرنے کا موقع ملتا ہے جنہیں ہم سب ہی پسند کرتے ہیں۔ ہمارے باتھ رومز میں پتھر کی ٹائلیں، تھرموفوئل سے بنی الماریاںہیں ،جدیدفیشن کے مطابق لیمنیٹڈ لکڑی کے فرش ہیں، دلکش قدرتی نظارہ اور بجلی جانے کی صورت میں ، جو کہ روزانہ جاتی ہے ، آٹھ گھنٹے چلنے والے ہونڈا کے انورٹر جنریٹر موجود ہیں ۔
یہاں رہنا میری خوش قسمتی ہے ، کملا کو مجھے یہ بات یادکرانا اچھا لگتا ہے ۔ جنوبی ہندوستان میں اپنی نوعیت کی یہ دوسری جگہ ہے اور یونٹ تیزی سے فروخت ہو گئے ہیں ۔ پھر بھی ، قیمتی ٹائلیں یا میری بیٹی کی محتاط تعریف ، یہ حقیقت تبدیل نہیں کر سکتی کہ مالیگا ہومز کیا ہیں : ان لوگوں کے لیے ایک جگہ ،جن کے پاس جانے کے لیے اور کوئی جگہ نہیں ہے ۔
ہم یہاں کا اعلیٰ متوسط طبقہ ہیں۔ ہم ایسے خاندانوں سے نہیں آئے جو ہسپتالوں ، کارخانوں یا وسیع اراضی کے مالک ہیں۔ ہم ان لوگوں کے لیے کام کرتے ہیں __ ان لوگوں کے لیے کام کرتے تھے ۔ ایسے لوگ مکمل طور پر ایک الگ ہی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ،اور چاہے ہمارے باغبان بوگین ویلیا کی بیلوں اور کنیر کی جھاڑیوں کو کتنا ہی سنوار کر رکھیں، وہ کبھی یہاں سکونت اختیار نہیں کریں گے ۔ وہ لوگ اپنے اعلیٰ سٹی فلیٹوں میں ، اپنے بہت سے نوکروں کے ساتھ اوراپنے بچوں کے قریب رہیں گے ۔ امیروں کی اولادیں بھی امیر ہوتی ہیں اور وہ اپنی قسمتیں کہیں اور تلاش نہیں کرتیں ۔
میری طرح، مالیگا ہومز کے تقریباً ہر مکین نے اپنے بیٹے اور بیٹیاں پردیس میں کھو دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے خاندانوں کے ساتھ رہنے کے بجائے ریٹائرمنٹ کمیونٹی-کم- نرسنگ ہوم میں رہتے ہیں ۔ میری کملاپچیس سال قبل ہندوستان چھوڑ گئی تھی ۔ وہ سنکروس نامی ایک کمپنی کی ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر ہے جو اٹلانٹا سے باہر ایک چھوٹے سے شہر میں واقع ہے۔
رینوکا سوامی ناتھن کے بھی دو بچے بیرون ملک مقیم ہیں، ایک جرمنی میں اور ایک آسٹریلیا میں۔ وہ مسٹر سوامی ناتھن کی آخری رسومات میں مدد کے لیے پہنچ چکے ہوں گے۔
میں رینوکا کے لیے باریک سبز موہیر سے سویٹر بنا رہی ہوں۔ کریا م کے بعد ، وہ اپنے بیٹے کے ساتھ وقت گزارنے ایڈیلیڈ جا رہی ہے۔ میں نے ہی اسے کہا تھا ،”جاننا بہتر ہے۔ فوراً ہی تنہا رہنا پژ مردہ کر نے والاہوتا ہے۔” اس کا بیٹا وہاں ایک فلم تھیٹر کا مینیجر ہے ۔ وہ ایڈیلیڈ یونیورسٹی سے اپنا گریجویٹ مکمل نہیں کر سکا تھا ، تاہم کسی نہ کسی طرح وہاں مستقل قیام کی راہ ڈھونڈ لی۔”اس کو مبارک ہو ۔ ” میں نے کہا تھا، جب رینوکا نے مجھے بتایا۔ میرا واقعی یہی مطلب تھا ۔
مالیگا ہومز میں جن لوگوں کے بچے امریکہ میں ہیں ان کا درجہ ان لوگو ں سے زیادہ ہے جن کے بچے دبئی یا قطر میں ہیں ۔ درمیان میں وہ لوگ آتے ہیں جن کے بچے سنگاپور، آسٹریلیا، انگلینڈ، جرمنی، اور باقی مغربی یورپ میں کام کرتے ہیں ۔ افریقہ ، مشرق وسطیٰ سے نچلے درجے پر آتاہے، اس کی ایک وجہ تو وہ خیالات ہیں جولوگ وہاں کی زندگی کے بارے میں رکھتے ہیں ، اور دوسرا کیونکہ وہاں پہنچنا بہت مشکل ہے۔ ہمارے بچے کیا کرتے ہیں، وہ کتنے پیسے کماتے ہیں، ہمارے پوتے پوتیاں ذہین ہیں یا اوسط درجے کے __ یہ سب باتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ ہونہار بچے اور کند ذہن نواسی کا ہونا ایک المیہ ہے ۔
رینوکا کے سویٹر کی اوون ،میں نے پانچ روپے فی میٹر کی خریدی ہے،یہ اس قیمت سے زیادہ ہے جو میں عموماً ادا کرتی ہوں ، لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ اتنا کرنا تو ضروری ہے ۔ سبز رنگ کا سویٹر اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشے گا اور آسٹریلیائی موسم سرما کے لئے اچھا رہے گا۔ میں نے انٹر نیٹ پر ایڈیلیڈ کا آب و ہوا دیکھا ہے ؛ یہ دس ڈگری تک گر سکتا ہے۔ لیکن موت بھی آپ کو ٹھنڈا کر دیتی ہے، اور میں چاہتی ہوں کہ رینوکا گرم رہے۔ میرے شوہر کے انتقال کے مہینوں بعد ،کئی مہینوں تک ٹھنڈ نے میرے وجود کو جکڑ لیا تھا، یہاں تک کہ گرم موسم میں بھی ۔
میرے شوہر کی موت مجھے مالیگا ہومز لائی تھی ۔ باپ کے مرنے کے بعد،کملا ہندوستان آئی تھی اور میرے ساتھ اس نے ہمارے چنائے کے فلیٹ میں دو ہفتے گزارے تھے ۔ اس نے اصرار کیا کہ میں اپنی سرخ بندیا کو ماتھے پر لگا رہنے دوں اور اپنے تمام زیورات پہنے رکھوں ۔
“اماں ، یہ آپ کی زندگی کا اختتام نہیں ہے ۔ میں ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتی۔” اس نے کہا تھا ۔
میں اپنے پیر کی انگوٹھیاں اتارنے پر مصر تھی ۔ مجھے وہ کبھی سے پسند نہیں تھیں ۔ ابتدا میں وہ نہیں اتریں ؛ کملا نے مدد کرنے کی کوشش کی پھر ہار مان لی۔ وہ میں نے پینتالیس سال سے پہن رکھی تھیں ۔ کئی دہائیوں کے دوران جیسے جیسے میں موٹی ہوتی گئی چاندی کی انگوٹھیاں میرے پاؤں کی انگلیوں کے گرد تنگ ہوتی چلی گئیں ۔ میرا گوشت ان کے کناروں کے اوپر ابھر آیا تھا۔ آخر کار ، اپنے پاؤں صابن والے پانی میں تیس منٹ تک بھگو کر رکھنے کے بعد میں انہیں اتارنے میں کامیاب ہوئی ۔
کملا ہمارے بید کے صوفے پر ڈھیر ہو گئی ، وہی صوفہ جس پر اس نے نو عمری میں پڑھائی کرتے ہوئے برسوں گزارے تھے ، اس کی ٹانگیں فرصت سے پھیلی ہوتی تھیں اور سمرسیٹ مام کی کتاب سر کے اوپر اٹھائی ہوتی تھیں ۔ رونے سے اس کی آنکھوں کا میک اپ پھیل گیا تھا ۔ہم دونوں ہی بہت روئے تھے ۔
“اماں، آئیں میرے ساتھ لیٹیں ۔” اس نے کہا تھا، اس کے ایک ہاتھ میں کرکٹ کی گیند اور دوسرے میں ایک کتابچہ تھا۔ میرے شوہر کو کرکٹ پسند تھی اور جب سے وہ آئی تھی اپنے ساتھ گیند لیے گھوم رہی تھی ۔
” پرے کھسکو۔” میں نے کہا۔
ہم ماں بیٹی صوفے پر سمٹ کر لیٹ گئے، ساتھ ساتھ، کولہے سے کولہا ملا کر۔اسی وقت اس نے مجھ سے مالیگا ہومز کا ذکر کیا ۔ اس نے کتابچہ مجھے پکڑا دیا تھا۔
” کھولیں اسے ۔” اس نے کہا۔ “دیکھیں گراونڈ کتنے اچھے ہیں ۔ برنداون کے باغات جیسے ۔”
یہ کتابچہ امریکہ میں کملا کی سہیلی پدمنی وینوگوپال نے اسے دیا تھا۔پدمنی کے والدین حال ہی میں مالیگا ہومز میں منتقل ہوئے تھے۔
’’گھر کی تمام آسائشیں، بغیر کسی فکر کے — اور بہت سارے دوست ۔ ” کملا نے اونچی آواز میں پڑھا۔ اس نے بے تابی سے میری طرف دیکھا۔
“اس پر غور کریں۔” اس نے کہا۔
“کو نسے دوست؟”
“جنہیں آپ بنائیں گی ۔”
“تم مجھے مجبور نہیں کر سکتیں ۔ اگر میں نے تم کو برسوں پہلے اکیلے امریکہ جا نے سے روکا ہوتا تو ؟ “میں نے پوچھا۔
“یہ دو مختلف باتیں ہیں ۔” اس نے کہا۔ وہ مجھے پھلانگ کر صوفے سے اتر گئی ۔”یہ بالکل ایک جیسی بات نہیں ہے۔”
اگلی رات میں باتھ روم میں پھسل گئی ۔ حالانکہ میں زیادہ زخمی نہیں تھی ، مگر کملا اڑ گئی ۔ میں اس کی آواز میں مصصم عزم محسوس کر سکتی تھی ، بالکل ویسے ہی جب وہ لڑکی تھی اور ماونٹ روڈ پر واقع جعفر کی دوکان سے آڑو میلبا مانگتی تھی۔ جب تک میں مان نہ جاوں وہ باز نہیں آئے گی ۔
“اب آپ میری ذمہ داری ہیں ۔” اس نے کہا تھا۔ وہ میرے بالوں میں کنگھی کر رہی تھی،کیونکہ میں کود نہیں کر سکتی تھی ،گرنے سے میری دائیں کلائی میں موچ آ گئی تھی ۔ “میں نے پہلے ہی بکنگ کر وا دی ہے ۔ ڈپازٹ کی رقم آج ادا کی ہے۔”
میرے سفید بالوں کو ڈھیلے جوڑے میں باندھنے کے بعد، اس نے میرے سر کو ایسے تھپتھپایاجیسے میں بچی ہوں ۔ چوٹی میں مقید اس کے اپنے لمبے بالوں میں ہلکی ہلکی سفیدی جھلملا رہی تھی ۔
“یہ دو بیڈ روم پر مشتمل گھر ہے ۔ ” اس نے کہا تھا۔ ” تاکہ ہم بھی آپ سے ملنے آ سکیں۔”
اس نے اپنا قیام ایک ہفتہ مزید بڑھا دیا تھا، تاکہ وہ مجھے مالیگا ہومز میں منتقل کر سکے ۔
—
دو سال گزر گئے ہیں اور ان لوگوں نے چکر نہیں لگایا ہے۔ ان سب کو اگلے مہینے یہاں آنا تھا __کملا ؛ میرا داماد ،ارون اور میری نواسی ، وینا۔ جیسے ہی مجھے کملا نے اپنا ارادہ بتایا میں نے ان کے لیے بیڈ روم تیار کر دیا۔ میں نے نئی چادریں اور ایک اضافی سنگل بیڈ خریدلیا ۔ لیکن صرف چندہفتے پہلے، کملا نے فون کیا کہ وہ اکیلی آرہی ہے۔ ارون کام میں مصروف ہے۔ وینا نے نئی ملازمت شروع کی ہے۔
میرے خیال میں وہ یہاں لطف اندوز ہوں گے۔ یہ تفریحی مقام جیسا ہے۔ بلڈ نگ میں تین سوئمنگ پول ہیں اور ایک لڑکا دن میں متعدد بار بڑی سی چھلنی سے ان میں گرے پتے نکالتا رہتا ہے ۔ شاکا ہاری اور ماسا ہاری کھانے الگ الگ باورچی خانوں میں پکائے جاتے ہیں ۔
ہماری ٹینس کی بازیاں ہوتی ہیں ؛ لاونج میں بڑی اسکرین پر تامل، ہندی اور انگریزی فلمیں چلتی ہیں ؛ یوگا ،واک کرنے والوں کا گروپ ؛ برج کھیلنے والوں کا گروپ ؛ ہندو عبادت کرنے والوں کا گروپ ایک چھوٹے مندر میں اجتماع کرتاہے جو ہم نے گراونڈ میں تعمیر کرایاہے ۔ مسلمان اور عیسائی عبادت کرنے والوں کے مختصر گروپ بھی ہیں جو رہائیشیوں کے گھروں میں جمع ہوتے ہیں۔ مالیگا ہومز، جیسا کہ کملا کہتی ہے ۔ “بلا امتیاز سب کے لیے ہے۔”
الفریٹا، جارجیا میں کوئی خرابی نہیں ہے،لیکن امریکہ تمام تر وسعت اور پرائیوسی فراہم کرنے کے باوجود ،ایسا ملک ہے جو زندگی کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ آپ گاڑی لے کر نکلیں توسڑک لامتناہی ہے۔ ایک کے بعد ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورانٹس ہیں ۔ وینڈیز ، میکڈونلڈز ، وافل ہاؤس۔ شام میں چمکتی رنگ برنگی روشنیاں ،زائرین کو بلاتی ہیں ۔ “مندروں کی طرح۔” میں کہا کرتی تھی ۔اس کے گھر سے گروسری اسٹور تین کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ کس قسم کی جگہ ہے؟ وہ جگہ جہاں لوگ زندگی سے لطف اندوز ہونے کے لیے ڈرائیونگ میں بہت مصروف ہیں۔ کسی کے پاس بات کرنے کا وقت نہیں ہے، اور پھر بھی سب ایک تھیراپسٹ کو دیکھ رہے ہیں ۔
“اسٹاربکس تک صرف دس منٹ کا راستہ ہے۔”جب ہم وہاں تھے تو کملا ہمیں کہتی تھی ۔ ” ہمیں چلنا چاہیے؟”
دس منٹ۔اتنی دیر میں تو میں ایک درخت اگا کر ، پھلیاں توڑ کر خود اپنی کافی پیس سکتی ہوں، میں اپنے شوہر سے کہتی تھی۔ وہ آہستہ سے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیتے اور سرگوشی کرتے۔ “شش۔ وہ سن لے گی ۔”
انہوں نے ہی اسے بگاڑا تھا۔ بہترین سکول۔ بہترین ٹیوٹرز۔ وہ کپڑے جو وہ چاہتی تھی۔وہ کتابیں جو اسے پسند تھیں۔ اسے فلمیں دیکھنے جانے دو۔ اسے آرام کرنے دو۔ اس سے باورچی خانے کے کام نہ کراو، وہ کہتے تھے ۔ اسے زحمت نہ دو۔ اسے پریشان نہ کرو۔چھوڑ دو اسے اس کے حال پر ۔
وہ الفریٹا میں اتنا ہی بور تھا جتنی کہ میں تھی، چاہے اس نے کبھی ایسا نہ کہا ہو۔ اسے اسٹاربکس کے جلے ہوئے ذائقے سے بھی نفرت تھی اور جیسے ہم پورا دن امریکہ میں گزارتے تھے ، پورے کا پورا دن ، کسی انسان کو دیکھے بغیر سوائے ڈاکیے کے ، جبکہ کملا اور ارون کام پر اور وینا اسکول گئی ہوتی تھی ۔ میں نے ہمیشہ چنائے کے وسط میں رہتے ہوئے گلی میں ہونے والے شور کا کا لطف اٹھایا تھا ، میری ضرورت کی ہر چیز قرب جوار میں مل جاتی تھی ۔
“امریکہ میں شہر کے اندر رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔” کملا نے کہا تھا جب انہوں نے گھر خریدا ۔ “گندے، غیر محفوظ، پارکنگ نہیں، گھٹیا اسکول۔” اس نے “امریکہ” کہا تھا لیکن کیا وہ اپنے بچپن کے گھر کے بارے میں بھی بات کر رہی تھی؟ میں بس حیران رہ گئی ۔
اتنے بڑے، خالی گھر کا کیا کرتی ہیں ، اتنے کمروں کی آپ کو ضرورت نہیں ہے؟ وہ اس بارے میں کبھی بات نہیں کرتی ، لیکن اندر ہی اندر کہیں اسے یہ محسوس ہوتا ہو گا ۔ آخر وہ میری بیٹی ہے۔ اس کا گھر اپنی قوسی چھتوں اور اسکائی لائٹس کے ساتھ مالیگا ہومز سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔
“کم از کم وہ امریکہ میں ہے۔” سالوں پہلے، جب اس کا جارجیا ٹیک میں داخلے کا خط آیا تو میں نے اپنے شوہر سے کہا تھا۔”اگر اسے گھر سے دور جانا ہی ہے تو امریکہ جانا ہی بہتر ہے ۔”
میں کملا کی دوست پدمنی کے والدین مسٹر اینڈ مسز وینوگوپال کے ساتھ کھانا کھاتی ہوں۔ جس دورا ن ہم کھاناپیش کیے جانے کا انتظار کرتے ہیں، ڈاکٹر وینوگوپال ان کی موت کے بارے میں بات کرنے سے خود کو روک نہیں پاتے ۔
“میرے لیے، یہ ایک فکری تجسس ہے،” وہ کہتے ہیں۔ وہ ریٹائرڈ ماہر امراض قلب ہیں۔ ان کی چاق و چوبند بیوی، لکشمی کے بال سفید ہیں لیکن جلد شفاف اور چکنی ہے ، جو بلاشبہ برسوں چندن پیسٹ سے فیشل کرنے کا نتیجہ ہے ۔ ہم ماساہاری ڈائینگ ہال میں ہیں اور مسٹر اینڈ مسز شرما بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ وینوگوپال اور شرما خاندان ہمیشہ ساتھ بیٹھتے ہیں۔اس سے پہلے مجھے ان لوگوں نے صرف ایک بار اپنے ساتھ کھانے پر مدعو کیا تھا، جب میں نئی نئی یہاں منتقل ہوئی تھی ۔ یہ ایک طرح کا استقبالیہ اور اظہارِ تشکر تھا۔جب کملا نے مجھے مالیگا ہومز داخل کرایا تو مسٹر اور مسز وینوگوپال کو بطور ” ریفرینس بونس ” اوٹی جانے کے فری ٹکٹس ملے تھے ۔
مسٹر ، مسز شرما اور وینوگوپال جن اور ٹانک پی رہے ہیں۔ ڈاکٹروینوگوپال نے مختلف شرابوں سے بھرے کارٹ والے موبائل بارٹینڈر کو میرے لیے میز کے پاس بلایاہے ۔میں ایک تازہ لائم سوڈا کا آرڈر کرتی ہوں ۔ الکحل مشروبات کی قیمت زیادہ ہے اور مجھے پیسے ضائع کرنا پسند نہیں ہے۔
میری بات سننے کے بعد،کہ مسٹر سوامی ناتھن کیسے گرے، کیسے ان کا چہرہ ایک طرف لٹک گیا اورجب انہوں نے اپنی اہلیہ کا نام لیا تو کیسے ان کی زبان لڑکھڑا گئی تھی ، وینوگوپال کہتے ہیں کہ یہ یقینی طور پر اسکیمک اسٹروک تھا، نہ کہ ہیمرج ۔
“بالکل۔” وہ کہتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ وجہ کا تعین کرنے پر بہت خوش ہیں ۔ ان کی نفیس اور خوش وضع سرمئی داڑھی ہے اور اسی رنگ کی مونچھیں ہیں ۔ ان کی دائیں انگلی ان کی مونچھوں کی طرف جاتی ہے اور میں سوچتی ہوں کہ وہ ا س سے انہیں پُر خیال انداز میں تھپتھپائیں گے لیکن اس کے بجائے انہوں نے اس کا براہ راست میری طرف رخ کر دیا۔
“فالج شاذو نادر مہلک ہوتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ شاید دوسری پیچیدگیاں بھی ہوں ۔شاید سر میں چوٹ لگی ہو؟” وہ تقریباً تہمتی انداز میں پوچھتے ہیں ۔
میں گرنے کی وضاحت کرتی ہوں کہ وہ کتنے آہستہ سے گرے تھے ۔
ڈاکٹر وینوگوپال ہنکارا بھرتے ہیں، تاہم انداز ناخوشگوار نہیں ہے ۔ ” پھر بھی وہ سیمنٹ تھا ۔ انتہائی سخت ۔”
“وہ میرے ہاتھوں میں گر تھے ۔ ” میں کہنے ہی والی تھی ۔ مگر میں خود کو روک لیتی ہوں۔ یہ ا عتراف محسوس ہوتا ہے جو مجھے نہیں کرنا چاہئے۔
سفید لباس میں ملبوس ایک ویٹر مسالے دار مسور دال لے آتا ہے ۔ مسٹر اینڈ مسز وینوگوپال اور شرما اسے اپنی پلیٹ کے چھوٹے اسٹین لیس پیالوں میں دال ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ یہ اشارہ کرنے کے لیے کہ مجھے نہیں چاہیے ، میں اپنی پلیٹ کے اوپر اپنا ہاتھ رکھ لیتی ہوں ۔
“دونوں کا واقعی بہت اچھا جوڑا تھا۔ “مسز شرما کہتی ہیں۔”تصور کریں اپنے شوہر کو اس طرح کھونا۔”
وہ میری طرف دیکھتی ہیں ، جو دو جوڑوں کے درمیان اکیلی ہے اور کہتی ہیں ۔ “میرا کہنے کامطلب تھا کہ یوں اچانک۔”
اس طرح کی باتیں مجھے اب پریشان نہیں کرتیں ۔ ” تنہا ہے، لیکن زندگی گزرتی رہتی ہے ۔ ” میں مسکراتے ہوئے کہتی ہوں ۔
مسز شرما نے پرجوش انداز میں سر ہلایا۔ ان کے باب کٹ بال ان کے ساتھ ساتھ لہرائے ۔ میں مروت میں موضوع بدلتی ہوں۔
“آج آپ اچھی لگ رہی ہیں۔” میں مسز وینوگوپال سے کہتی ہوں ۔ ” وہ بغیر آستینوں والا بلاک پرنٹڈ قمیض شلوار پہنے ہوئی ہیں ۔
“میرے ساتھ خریداری کرو۔” وہ کہتی ہیں۔ “میں نے بادشاہ سے کپڑا خریدا تھا۔اور میر ادرزی بہت ماہر ہے۔”
میں جانتی ہوں کہ وہ بس یونہی کہے رہی ہیں ۔ وہ دیکھتی ہیں کہ میں کیسے لباس پہنتی ہوں۔ میں عام سے کپڑےپہنتی ہوں اور بہت کم نئی چیزیں خریدتی ہوں۔ کسی بھی صورت میں، میں اپنے پیسے بادشاہ جیسی جگہ خرچ نہیں کروں گی ۔
“یہ نئی نسل کے لیے زیادہ بہتر رہے گا۔ شاید کملا جانا پسند کرے۔میں کہتی ہوں۔”لیکن میرے خیال میں وہ اب اتنی جوان نہیں رہی ہے۔”
مسز وینوگوپال کے لیے شائستہ بات یہ ہوتی کہ وہ کہتیں ان کی بیٹی پدمنی بھی اتنی جوان نہیں ہے، لیکن وہ خاموش رہتی ہیں اور مجھے محسوس ہو تاہے جیسے میں نے اپنی بیٹی کو دھوکہ دیا ہو ۔
“آج کا چکن قورمہ لا جواب ہے ۔” مسز شرما اسے چاولوں میں ملاتے ہوئے کہتی ہیں۔ وہ میری کلائی پر Fitbit کو دیکھتیں ہیں ۔ “نیا آلہ ؟”
“میری بیٹی نے تحفہ دیا ہے ۔” میں بتاتی ہوں۔ “یہ آپ کے قدموں کو شمار کرتا ہے۔ کملا کہتی ہے کہ مجھے
ایک دن میں آٹھ ہزار قدم چلنے کا ہد ف پورا کرنا چاہیے۔”
“ہم گولف کھیلتے ہیں۔” مسز شرما کہتی ہیں۔ “ہماری اس سے کافی ورزش ہو جاتی ہے۔ شمار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
“ہاں۔” میں کہتی ہوں۔
بڑھاپے میں، حیثیت صحت سے منسلک ہے، آپ اپنے جسم کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں اورکیا نہیں کر سکتے یا کبھی کبھی، آپ کہتے ہیں کہ آپ کر سکتے ہیں۔
“پدمنی نے ہمارے لیے بھی Fitbits خریدے تھے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم لمبی زندگی گزاریں، ہیں نا؟” مسز وینوگوپال کہتی ہیں۔
“میں پوچھنا چاہتا ہوں ،کس لیے۔” ڈاکٹر وینوگوپال آگے جھکتے ہوئے کہتے ہیں۔ “بچوں کے لیے؟”
“ہمارا بیٹا صرف ہر دوسرے سال کیلیفورنیا سے آتا ہے۔” مسز شرما کہتی ہیں۔
“پدمنی کبھی کبھار آتی ہے۔ “ڈاکٹر وینوگوپال کہتے ہیں۔ ان کی نگاہیں مجھ سے ٹکراتی ہیں اور میں ان میں کچھ بچپناسا دیکھتی ہوں ، کچھ افسردگی سی ۔”مجھے ایک اور ڈرنک کی ضرورت ہے۔”وہ کہتے ہیں۔
“وہ بہت مصروف ہے۔” مسز وینوگوپال کہتی ہیں۔ “اس سال اسے ترقی دے کر ڈائریکٹر بنایا گیا ہے۔”
” آپ کو پتا ہے ۔” ڈاکٹر وینوگوپال کہتے ہیں، ان کی آواز دھیمی ہے ۔ “رینوکا یہاں سے جا رہی ہے۔” ان کی آنکھیں میرا چہرہ ٹٹولتی ہیں۔ “کیا آپ جانتی ہیں؟”
“نہیں۔” میں کہتی ہوں لیکن مجھے فوراً ہی سمجھ آجاتا ہے۔ یہ اکثر بیواؤں اور رنڈوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ اپنے بچوں کے پاس بیرون ملک جا رہی ہے۔”
“کہاں؟” میں نے پوچھا۔ “جرمنی بیٹی کے پاس ، یا آسٹریلیا بیٹے کے پاس؟”
اگر اسے اپنا وقت دونوں میں تقسیم کرنا پڑا تو یہ سب سے برا ہوگا ، میں سوچتی ہوں۔ دو جگہوں پر مستقل اور عارضی رہائشی۔
” کسی کے پاس نہیں ۔” وہ کہتے ہیں۔ ان کی آواز اب بھی دھیمی تھی ۔ “وہ واپس چنائے منتقل ہو رہی ہے ۔اس کا بیٹا اور بیٹی اپنے خاندانوں کے ساتھ واپس آ رہے ہیں، ساتھ جڑے تین فلیٹ خرید رہے ہیں۔”
“لیکن اس کے پوتے، پوتیاں ، نواسے ، نواسیاں ہیں؟”
“وہ ہندوستانی اسکولوں میں داخلہ لے رہے ہیں ۔”
ڈاکٹر وینوگوپال خوش دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے پاس یہ معلومات ہیں اور وہ مجھے تک پہنچا رہے ہیں جو رینوکا کی دوست اور مسٹر سوامی ناتھن کی موت کی گواہ ہے ۔
میں نے اپنا کھانا ختم کر لیا ہےاور میں ڈرنک کے دوسرے دور کے لیے رکنا نہیں چاہتی ۔ ” کملا کا فون آنے والا ہے ۔” میں رخصت لیتے ہوئے کہتی ہوں۔
ڈاکٹر وینوگوپال مجھے سلوٹ کرتے ہیں ۔ “بہتر ہے کہ ان کی کال نہ چھوٹنے پائے ۔ ورنہ، شاید ہم ان سے کبھی نہیں مل سکیں ۔ اسے ہمارا سلام دینا۔”
میں اٹھ ہو کر چلی جاتی ہوں۔ میں مسز وینوگوپال کو کہتے ہوئے سنتی ہوں کہ کملا الفریٹا میں اور پدمنی بک ہیڈ میں رہتی ہے۔” اگر ٹریفک نہ ہو تو تیس منٹ کا راستہ ہے ” وہ کہتی ہیں۔
میں اپنے فلیٹ پر واپس آ کر تو کملا کو فون کرتی ہوں۔ وہاں ہفتہ کی صبح ہو چکی ہے یہ وہ نایاب وقت ہوتا ہے جب میں عام طور پر اس سے بات کر سکتی ہوں ۔
“میں نے آج مسٹر مسز وینوگوپال کے ساتھ رات کا کھانا کھایا تھا۔”
“بہت اچھی بات ہے ۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ وہاں آپ کے دوست ہیں۔”
“مجھے کپڑے کی ایک اچھی دکان کے بارے میں پتہ چلا ہے ۔ ہم دونوں وہاں چلیں گے۔”
کچھ توقف کے بعد وہ کہتی ہے۔”مجھے انڈیا آنے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔”
“کیوں ؟”
“کام۔ اور کیا؟”
“ہمارے پاس انٹرنیٹ کا اچھا کنکشن ہے۔ یہاں آکر کام کرلینا ۔”
” اماں ، سور ی ۔” وہ کہتی ہے۔
” رہنے دو ۔” میں کہتی ہوں، اپنی مایوسی چھپانہیں پاتی ۔ “کیا تم نے کبھی واقعی وینا کو یہاں لانے کا ارادہ کیا بھی ہے؟ یا وہ ہمیشہ بہت مصروف رہے گی؟ وہ پانچ سال سے ہندوستان نہیں آئی ہے ۔”
“یقیناً وہ آپ سے ملنے آئے گی۔ بس ابھی نہیں”
“اسے میرے جنازے پر ہی لانا۔”
“اماں!” کملا کہتی ہے۔
میں کال منقطع کرنا چاہتی ہوں، لیکن مجھے اپنے ہاتھ پر رکھے اپنے شوہر کے ہاتھ کا خیال آتا ہے ۔ میں اپنا لہجہ نرم کر لیتی ہوں ۔ “وینا کیسی ہے؟” میں پوچھتی ہوں ۔
کملا نے لمبی سانس بھرتی ہے ۔
” بس جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ زندگی میں کیا کر سکتی ہے۔ جارجیا ایکیوریم میں اس کی عارضی ملازمت ہے۔”
“کوئی سائنسی کام کر رہی ہے؟”
” نہیں۔” کملا کہتی ہے۔ “وہ جانوروں کے لیے خوراک کاٹتی ہے۔”
کملا بولتی چلی جاتی ہے، لیکن میں سننا چھوڑ دیتی ہوں۔
میں اپنی نواسی کو قصاب کی طرح ابھری ہوئی آنکھوں والی زندہ مچھلیوں کی خوراک بننے کے لیے ابھری ہوئی آنکھوں والی مردہ مچھلیاں کاٹتے ہوئے تصور کرتی ہوں ۔میں کہنے ہی والی ہوں کہ میں جانتی ہوں کہ وینا اتنی کھوئی کھوئی کیوں رہتی ہے،دراصل اسے اپنی ماں کی ضرورت تھی، اسے اب بھی اپنی ماں کی ضرورت ہے۔لیکن ایک بار پھر مجھے اپنے شوہر کی یاد آتی ہے کہ کس طرح انہوں نے مجھے نرمی سے خبردار کردیاتھا۔میں اپنا منہ بند رکھتی ہوں۔
کملا کے بعد میرے اور بچے نہ ہو سکے۔ میرا مینو پاز متوقع وقت سے ایک دہائی پہلے ہی شروع ہو گیا تھا ورنہ ہم اسے کوئی بہن بھائی دے دیتے۔ لیکن ایک ہی بچہ ،کملا کے لیے یہ انتخاب تھا ۔ دوسرا بچہ اس کے کیریئر کے لیے نا موزوں ہوتا۔ جسے بھگتنا پڑا وہ وینا تھی جو چائلڈ کئیر میں گھنٹوں گزارتی اور پھر جب بڑے سے خاموش ، کھلونوں سے بھرے گھر میں آتی تو اس کے ساتھ کھیلنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔
اب جب کہ میں الفریٹا نہیں جاتی ہوں — مجھے یہ سفر بہت تھکا دینے والا لگتا ہے۔مجھے گھر کو ذہن میں تازہ کرنا پڑے گا۔ سامنے دالان کا راستہ سیاہ اور سفید گرینائٹ کاؤنٹر والے باورچی خانے کی طرف جاتا ہے، جہاں میں ہرروز ، وینا کے لیے کچھ مزیدار بنانے کی کوشش کرتی تھی ۔ لاونج ،باورچی خانے سے قالین سے ڈھکی ہوئی دو سیڑھیاں نیچے تھا۔ کملا ہر وقت کس قدر خوفزدہ رہتی تھی کہ میں ان دو سیڑھیوں پر سے پھسل جاوں گی ۔جو سیٹرھیاں پہلی منزل تک جاتی تھیں ان کے درمیان ایک چوڑی سیڑھی(landing) تھی جہاں وینا کنچے مارکر کھیلا کرتی تھی ، اسے لڑھکتے ہوئے نیچے گرتے کنچے دیکھنا اچھا لگتاتھا۔
جب میں فون بند کرنے کے بعد آنکھیں بند کرتی ہوں تو رات گئے کپڑے اپنے اندر اچھالتے ہوئے کملا کے ڈرائیر اور ڈش واشر میں سے آتی پانی بھرنے اور گڑگڑاہٹ کی آواز یں سنتی ہوں ۔
میں مسٹر سوامی ناتھن کے کریام میں ہلکی نارنجی میسور ریشمی ساڑھی پہنتی ہوں۔رینوکا کو جتنا میں جانتی ہوں اس بنیاد پر ہلکا پھلکا اور روایتی پہننا بہترین ہے۔ اس کے باوجود ، میں نے رنگین پہننے کا فیصلہ کیا ۔ آخر کار یہ ایک خوشی کا موقع ہے جس کا اہتمام مسٹر سوامی ناتھن کی موت کے چودھویں دن کیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب سوگ کی روایتی مدت کا اختتام ہے اگرچہ، ماتم حقیقت میں کبھی نہیں رکتا ہے۔ شریک حیات کے لیے نہیں۔ میں نے رینوکا ، کا سویٹر مکمل کر لیا ہے لیکن میں اسے ساتھ نہیں لائی ہوں ۔ چنائے جیسے شہر میں اس کا کیا فائدہ ہے، جہاں سال کے سرد ترین دن میں بھی سورج چمک رہا ہے؟
مسٹر سوامی ناتھن کا کریام ایک پرتکلف تقریب تھی جو ان کے فلیٹ کے بجائے مالیگا ہومز کے کامن لاؤنج میں منعقد ہوئی ہے ۔ ان کا سادہ سا ایک بیڈروم فلیٹ ہے جس میں زیادہ افرادنہیں سما سکتے ۔ میں وقت پر پہنچی ہوں ، لیکن پجاری پہلے ہی پوجا ختم کر چکا ہے۔
“اوہ، ہم جلدی فارغ ہو گئے۔” رینوکا کی بیٹی اطمینان سے کہتی ہے۔ “سب کو آخر تک بٹھائے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم بس یہ چاہتے تھے کہ ہر کوئی ہمارے ساتھ کھانے سے لطف اندوز ہو۔” وہ تیس کے پیٹے میں ایک خوبصورت عورت ہے، ہلکی سبز آنکھوں والی، جیسی اس کی ماں ہیں ۔ اس کے گلے میں زمرد کا چوکر ہار ہے اور ایک نیلی ریشمی ساڑھی پہنی ہوئی جسے وہ بار بار ٹھیک کر رہی ہے۔میں نے دیکھا ہے آج کل کے بچے ہندوستانی کپڑے اچھی طرح پہننا نہیں جانتے ۔ زیادہ تر وقت پینٹ شرٹ اور سکرٹ میں گزارتے ہیں ۔
“میں نے سنا ہے کہ آپ لوگ انڈیا واپس منتقل ہو رہے ہیں۔” میں کہتی ہوں۔
“جی ہاں ۔” وہ کہتی ہے۔
میں اس سے مزید سوالات نہیں کرتی۔ اسے بہت سے لوگوں سے ملنا ہے اور اسے کوئی اندازہ نہیں کہ میں کون ہوں ۔میں نل سے اپنے ہاتھ دھوتی ہوں اور ڈائننگ ایریا میں کھانے کے لیے مسز شرما کے برابر میں ، کیلے کے خالی پتے کے سامنے بیٹھ جاتی ہوں ۔
“کیا آپ نے بھاٹیہ اسکینڈل کے بارے میں سنا ہے؟” وہ مجھ سے پوچھتی ہیں ۔ ” آپ کے شوہر ان کے لیے کام کرتے تھے نا ؟
“جی ہاں۔” میں کہتی ہوں۔ “لیکن میں نے اسکینڈل کے بارے میں نہیں سنا۔”
“مسز بھاٹیہ اپنے ہی بیٹے برج پر دو سو کروڑ کا مقدمہ کر رہی ہیں۔ اور اپنی بیٹی چیری پر ایک سو کروڑکے لیے۔ وہ سر ہلاتی ہیں ۔ “امیر لوگ۔ ان کے پاس اتنا کچھ ہے اور پھر بھی اس طرح لڑتے ہیں۔”
“میں ان سے صرف ایک بار ملی تھی ۔” میں کہتی ہوں۔ “میرے شوہر بھاٹیہ الیکٹریکل میں کام کرتے تھے۔ اچھی خاتون لگتی تھیں۔”
مسز شرما کہتی ہیں۔ ” اپنوں کے علاوہ سب کے لیے اچھی ہیں ۔”
ویٹر کھانے سے بھری ا سٹینلیس سٹیل کی بالٹیاں پکڑے ہمارے پاس آجاتے ہیں ۔ میں سانبھر اور چاول اپنے ہاتھوں سے ملاتی ہوں ۔ کھاناسادہ ہے ، لیکن ڈائننگ ہال کے باورچیوں کے تیار کئے ہوئے کھانوں سے کچھ مختلف کھانے میں بڑا مزہ آتا ہے ۔
میں تقریب سے نکلتے وقت رینوکا سے صرف ایک بار بات کرتی ہوں۔ اس نے سادہ سوتی ساڑھی پہنی ہوئی ہے ، اپنی بندیا صاف کر دی ہے، بالیاں ، چوڑیاں اور پیر کی انگوٹھیاں اتار دی ہیں۔وہ کمزور اور برہنہ سی دیکھائی دیتی ہے۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ آپ یہ چیزیں اتنے سالوں پہنتے ہیں کہ وہ آپ کا لباس بن جاتی ہیں۔
“مجھے بہت افسوس ہے۔” میں کہتی ہوں۔
” آپ کے آنے کا شکریہ۔” وہ کہتی ہے، وہ جملہ جو اس نے پہلے بھی بہت بار کہا ہوگا۔
پہلی بار، میں نے دیکھا ہے کہ اس کے چہرے پر کتنی جھریاں ہیں۔ ہر جگہ ، یہاں تک کہ ناک کے بانسے پر بھی ۔ اس کے باوجود اس کی آنکھیں ہمیشہ کی طرح پرکشش تھیں ، تیز اور دقیقہ رس۔
“مسٹر سوامی ناتھن نے آخری وقت میں آپ کو یاد کیا تھا ۔” میں کہتی ہوں۔
“مجھے خوشی ہے کہ آپ وہاں موجود تھیں ۔” وہ آہستہ سے کہتی ہے۔
—
مسٹر سوامی ناتھن کے کریا م کے کچھ دن بعد، میں رات کے کھانے کے لیے شاکا ہاری ڈائننگ ہال جاتی ہوں،ماساہاری ہال میں خشک، نمکین ہیرنگ مچھلی پیش کی جار ہی ہے ۔ ان دونوں مجھ سے ان کی بو برداشت نہیں ہوتی ، حالانکہ کبھی مجھے یہ بہت پسند تھیں ۔ میں شاکاہاری ہال کے ایک کونے میں چار افراد کی میز پر اکیلی بیٹھی ہوں۔ میں ہال کا جائزہ لیتی ہوں اور اس کی اداسی مجھے کھلنے لگتی ہے ۔ ہم سب بوڑھے لوگ، جنہیں ان کے بچوں نے چھوڑ دیا ہے اس کینٹین میں کھانا کھا رہے ہیں ۔ یہ المناک ہے ۔ کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ غیر مہذب ہے۔
بوڑھوں کو جوانوں کے ساتھ، جوانوں کو بوڑھوں کے ساتھ ہونا چاہیے۔ نسل در نسل ایسا ہی ہوتا آیا تھا: بچے اپنی دادی کے سینے سے چمٹے سو رہے ہیں،بچے اپنے دادا کے کندھوں پر بیٹھے ہیں۔ سب ایک ہی بھرے پرے گھرمیں رہتے ہیں ۔
آج کوئی میرے ساتھ بیٹھنے نہیں آتا اور میں اس سے خوش ہوں۔ میں کچھ روکھی بات کر سکتی ہوں جو میری بُری شہرت کا باعث بن سکتی ہے۔ جتنی جلدی ہو سکے میں اپنی چپاتی اور پھلی دال کا سالن ختم کرتی ہوں اور نل سے ہاتھ دھو لیتی ہوں۔
میرا Fitbit کہتا ہے کہ اندھیرا ہونے سے پہلے مجھے مزید چھ ہزار قدم چلنے کی ضرورت ہے۔ میں اپنے معمول کے راستے پر نہیں جاتی ۔ میں مالیگا ہومز کی اس طرف چلنے لگتی ہوں جہاں چھوٹے فلیٹ ہیں۔ جہاں رینوکا کا فلیٹ ہے۔ جب میں وہاں پہنچتی تو دیکھتی ہوں کہ اس کے مہین زرد پردے کھلے ہیں۔ میں اندر جھانکتی ہوں۔
یہ خالی ہے ۔
وہ جانے کے لیے بہت بے تاب ہوگی۔ میں دروازے کاناب موڑتی ہوں اور وہ مجھے کھلا ملتا ہے ۔
مجھے اپنے پیچھے کسی کی آہٹ محسوس ہے تو میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو رینوکا کھڑی ملتی ہے ۔
“میں بس تمہیں تلاش کر رہی تھی۔” میں کہتی ہوں۔ میں تیزی سے اس کے فلیٹ سے باہر نکل کر دروازہ بند کر دیتی ہوں ، بلا اجازت گھسنے پر میں احسا س جر م محسوس کر رہی ہوں ۔ “تم جلد ہی جا رہی ہو گی ۔”
میں اسے دو دانتوں کے درمیان پھنسے سبز پھلی کے ٹکڑے کو زبان سے صاف کرتے ہوئے دیکھتی ہوں۔ ایک سیکنڈ کے لیے، میں سوچتی ہوں کہ شاید اس کے بچوں نے اپنا ارادہ ترک کر لیا ہے۔وہ بیرون ملک رہیں گے اور یہ ہمارے ساتھ یہاں اکیلی رہے گی۔
“میں نے تمہارے آسٹریلیا ساتھ لے جانے کے لیے سویٹر بنایا تھا، لیکن اب تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔”
“سب کچھ بہت جلدی میں ہوا۔” وہ کہتی ہے۔
“میری بیٹی اگلے مہینے آ رہی ہے۔ ” میں کہتی ہوں۔ “اس کا ہمارے پرانے فلیٹ کی مرمت کرانے اور وہاں ایک دن قیام کا ارادہ ہے۔شاید ہم ایلیٹ بیچ پر بھی واک کرنے جائیں ۔”
“اوہ!” رینوکا کہتی ہے۔ وہ مجھے گلے لگاتی ہے۔ “آج کل کے بچے بہت فرمانبردار ہیں۔” میں اس کے گلے لگانے اور اپنے جھوٹ سے حیران ہوں۔ میں نے جو کہا ہے اسے درست کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
“تم نے غلط سمجھا۔ ” میں کہتی ہوں۔ “اس کی امریکہ میں اچھی گزر رہی ہے۔ وہ صرف اکثر آنے کے منصوبہ بناتی ہے۔”
“میں مقفل کرنے آئی ہوں۔” رینوکا خوشگوار انداز میں کہتی ہے۔ “ہمیں یہ فلیٹ بیچنا ہےتاکہ ہم چنائے میں نئے فلیٹس خرید سکیں۔”
“میں آپ کے جانے سے پہلے آپ کو سویٹر دے دوں گی۔” میں کہتی ہوں۔ ” اگر تم شام میں ساحل پر چہل قدمی کرتی ہو تو شاید تم وہ تمہارے کام آ جائے ۔”
“میں کتنا یاد کرتی ہوں ۔” وہ کہتی ہے۔ “اس سمندری ہوا کو۔”
—
میں مالیگا ہومز کے چاروں طرف چکر لگاتی ہوں یہاں تک کہ آٹھ ہزار قدم پورے کر لیتی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے رینوکا سے جھوٹ کیوں بولا۔ رینوکا، جو کہ مالیگا ہومز کے سب سے چھوٹے فلیٹ میں رہتی تھی۔ رینوکا، جس کا بیٹا ایک عام سے فلم تھیٹر میں مینجر ہے۔میں یہ بات بار بار دہراتے ہوئے تصور کرتی ہوں۔ مسٹر اور مسز وینوگوپال کے سامنے ۔ مسٹر اور مسز شرما کے سامنے ۔ اس آدمی کے سامنے جو ہمارے کپڑے استری کرتاہے۔
کسی وجہ سےمجھے اپنے والد کی یاد آرہی ہے، جنہوں نے اپنے آخری دن چنائے میں ہمارے فلیٹ میں گزارے تھے جب کملا بچی تھی ۔ دانتوں سے محروم ، چاول کا دلیہ کھاتے ہوئے جب ان کی تھوڑی پر دلیے کے قطرے بہتے تو وہ ایک پرانی تامل کہاوت بڑبڑاتے۔”یہ اُس سے زیادہ عجیب ہے، اور اُس سےزیادہ یہ عجیب ہے۔” ۔
مالیگا ہومز میں اب دُھندلکا پھیل رہا ہے۔ جھٹپٹے کے اس تاریک ترین حصے میں، وہ ناقابل گرفت لمحہ جس سے پہلے دن مکمل طور پر رات میں بدل جاتا ہے، میں کنیر کی جھاڑیاں دیکھنے کے لیے رک گئی ۔ ان کے سفید پھولوں کے ہلکے مٹیالے مرکز چمک رہے ہیں۔موٹی بوگین ویلیا کی گہری قرمزی بیلیں مالیگا ہومز کمپاؤنڈ کی دیوار پر پھیلی ہوئی ہیں ۔ کچھ پھول دیوار کی ایک طرف پھنسے ہیں جبکہ دوسرے، سراسر قسمت سے، دوسری طرف جانب لٹکے ہوئے ہیں ۔
Sindya Bhanoo’s stories have appeared in American Literary Review and Glimmer Train. “Malliga homes” was published in Granta.
About Author:
Link for original Text: