سعد ایک اچھا اور فرمانبردار بیٹا ہے۔ پہلی اولاد کی جو خوشی اور مسرت ہوتی ہے یہ ہر ماں باپ جانتے ہیں۔ میں ان لمحوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا جب ہسپتال میں میری والدہ نے اسے میری گود میں لاکر دیا تھا۔ بس اسی لمحے میرے اندر یہ احساس جاگا کہ یہ میری ملکیت ہے اور اب میں نے اس کی زندگی کے فیصلے کرنے ہیں۔
اور یہ احساس پھر میری زندگی میں سانس اور خون کی روانی کی طرح شامل ہوگیا۔ یہ احساس اس وقت اور شدت اختیار کرگیا جب سعد کے بعد اللہ نے مجھے دو بےحد پیاری شہزادیاں عطا کی۔
ویسے تو میں کبھی بچیوں کی تعلیم سے بھی غافل نہیں ہوا تھا لیکن سعد کے لیے میں ضرورت سے زیادہ حساس تھا۔ اس کے سونے ، جاگنے کے اوقات ، اس نے کیا پہننا ہے، کب بال کٹوانے ہیں ، ہفتہ بھر میں پاؤں اور ہاتھ کے ناخن کاٹنا۔۔۔۔۔ کھانے میں کیا کھانا ہے کیا نہیں کھانا ۔۔۔ الغرض میٹرک کے رزلٹ تک اس نے ایک روبوٹ کی طرح زندگی گزاری۔۔۔۔ امتحانات میں شاندار کامیابی کو میں نے اپنی تربیت کا انعام سمجھا۔
اس نے بڑی تیزی سے قد نکالا تھا۔ کالج جاتے جاتے قریباً چھ فٹ کے قریب قد ہوچکا تھا۔ کالج کے آزاد ماحول کی وجہ سے میں نے اس کی اور کڑی نگرانی شروع کردی۔ اس کی ماں کبھی کبھی مجھے ٹوک بھی دیتی کہ اب جوان ہورہا ہے۔ بےجا سختی سے کہیں اس کے اندر بغاوت نہ پیدا ہوجائے۔۔۔۔ میں نے اس بات پر بیگم کو سختی سے روک دیا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت نہ کریں۔ سعد کی کامیابیوں میں میری سختی اور نظم و ضبط کا بڑا ہاتھ ہے۔ اب کالج میں آکر بچوں پر نئی نئی جوانی آتی ہے تو ضروری ہے کہ میں ذرا زیادہ نظر رکھوں۔ آج کی سختی آگے اس کے کام آئے گی۔
میں اس فلسفے کو کوئی الہامی نظریہ سمجھ کر اس پر بھر پور عمل کررہا تھا۔ سعد کوئی بھی کام کرتا تو میں اس سے پوچھتا اور اگر محسوس ہوتا کہ یہ اس کے لیے بہتر نہیں تو اسے سختی سے روک دیتا۔ وہ اس البیلی عمر میں ہی سنجیدہ مزاج ہو گیا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ مسکرائے لیکن زندگی اس طرح گزارے جس طرح میں اس کے لیے ڈیزائن کررہا ہوں۔
سعد جب بارہویں جماعت میں تھا تو دفتر جاتے ہوئے میرا روڈ ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ ایک تیز رفتار سوزوکی نے میری موٹر سائیکل کو اس زور سے ٹکر ماری کہ میں اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور گر پڑا۔ میری بائیں ٹانگ فٹ پاتھ سے ٹکرائی اور فریکچر ہوگئی۔
یہ حادثہ ایسا تھا کہ جس کے بارے میں شاید کوئی بھی انسان نہیں سوچتا کہ کبھی ایسا ہوا تو کیا ہوگا۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ بیٹیاں پڑھائی اور بیگم مکمل طور پر گھر داری میں مصروف رہتیں۔ جب کہ سعد بھی ایک طےشدہ پروگرام کے مطابق زندگی گزارتا۔ یہ سب میرے اس قدر عادی ہوچکے تھے کہ باہر کا کوئی بھی کام میرے بغیر کرنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ سعد چونکہ کالج جانے لگا تھا تو تھوڑا بہت وہ باہر کے معاملات کو دیکھ سکتا تھا۔ مجھے دو ماہ کے لیے مکمل آرام کا کہا گیا۔۔۔۔
یہ میرے لیے بڑا اذیت ناک وقت تھا کیونکہ میں ایک چاق و چوبند اور چست انسان تھا تو یہ بیڈ ریسٹ میرے لیے کسی سزا سے کم نہ تھا۔ بہرحال ان مشکل لمحات میں سعد نے ذمہ داری کو محسوس کیا۔ سب سے زیادہ حیرت مجھے تب ہوئی جب وہ مجھے گاڑی میں بٹھا کر ہسپتال چیک اپ کے لیے لے جاتا۔ اس نے کب گاڑی چلانا سیکھی یہ بات میرے لیے باعث حیرت رہی۔ عام حالات ہوتے تو شاید میں اسے بہت ڈانٹتا لیکن اس وقت اس کی یہ مہارت ہمارے گھر کے لیے بہت کام آرہی تھی۔ بہنوں کو اسکول چھوڑنا ، لانا۔ بازار سے سودا سلف لینا۔۔۔۔ اپنی ماں کو بازار لے جانا۔ ضرورت کے وقت مجھے دفتر لے جانا۔۔۔۔
وہ عمدگی سے گاڑی چلاتا لیکن ایک بات میں محسوس کررہا تھا کہ وہ ریس کو غیر معمولی طور پر دباتا تھا جس سے گاڑی کے آر پی ایم اوپر چلے جاتے تھے۔ ہماری گاڑی آٹومیٹک اور پندرہ سو سی سی تھی تو مجھے سخت کوفت ہوتی جب ریس دبانے سے آر پی ایم اوپر جاتے اور انجن غیر معمولی شور کرتا۔ ابتدا میں ، میں نے سعد کو پیار سے سمجھایا لیکن جلد مجھے احساس ہوا کہ وہ غیر ارادی طور پر ریس کو دباتا ہے۔ شاید اسے خود یہ بات محسوس نہیں ہوتی تھی۔
مجھے تو ہر کام میں سعد کو روکنے کی اس قدر عادت تھی کہ اگر وہ میری بات پر عمل نہیں کرتا تھا تو میں جھنجلا جاتا۔ اب تک وہ میری شخصیت کے بوجھ کے نیچے دبا ہوا تھا۔ لیکن میں اس زعم میں ہی تھا کہ یہ سب اس کے بہتر مستقبل کے لیے اچھا ہے۔
میرے باوجود کئی دفع منع کرنے کے وہ ریس دبانے کی عادت ترک نہ کرسکا اور میں حیران ہوتا کہ اتنی معمولی سے بات اس کی سمجھ میں کیوں نہیں آرہی۔ دو ماہ بڑی اذیت سے گزرے ۔ اللہ اللہ کرکے میرا پلاسٹر کھلا۔ خدا کا شکر ہوا کہ ہڈی اپنی جگہ پر صحیح بیٹھ گئی تھی۔ میں نے ڈاکٹرس کی ہدایت کے مطابق اسٹک کی مدد سے چلنا شروع کردیا تاکہ پیر پر زیادہ زور نہ پڑے۔ اب میں نے دفتر جانا شروع کردیا تھا۔ سعد مجھے گاڑی میں دفتر چھوڑ آتا اور واپسی پر اکثر میرے دفتر کے ساتھی مجھے گھر اتار جاتے۔۔۔۔۔
ایک دن رات کے وقت میری آنکھ کھلی تو سعد کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی۔ گھڑی دیکھی تو رات کا ایک بج چکا تھا۔ مجھے شدید غصہ آیا کہ اتنی رات کو سعد کیوں جاگ رہا ہے۔ میں نے پلنگ کے ساتھ رکھی اپنی اسٹک کو اٹھایا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سعد کے کمرے کی طرف چل دیا۔ اندر دیکھا تو سعد اپنی پڑھنے والی مخصوص میز کرسی پر ڈائری کے اوپر سر رکھ کر سورہا ہے۔
مجھے اس کا سوتا چہرہ دیکھ کر اس کی معصومیت پر بہت پیار آیا۔ میں نے نہایت آہستگی سے اس کے سر کے نیچے سے ڈائری نکالی۔ وہ بدستور گہری نیند میں تھا۔ میں نے ڈائری میں دیکھا تو ایک نامکمل تحریر اس میں درج تھی۔ شاید لکھتے ہوئے ہی وہ سو گیا تھا۔ میں نے اس نامکمل تحریر کو پڑھنا شروع کیا ۔۔۔۔ سعد نے لکھا تھا کہ
” اللہ کا شکر ہے کہ میرے ابو اب بہت بہتر ہوچکے ہیں۔ میری دعا ہے کہ دوبارہ ایسا کبھی نہ ہو۔ وہ بہت تکلیف میں رہے۔ ان کی تکلیف تو بہتر ہوتی جارہی تھی۔ لیکن ان کے مسلسل گھر رہنے کی وجہ سے میری آزادی مکمل سلب ہوکے رہ گئی تھی۔ آج تک وہ ہمیشہ مجھے دباتے چلے آئے ہیں۔ یہ کرو، وہ نہ کرو۔۔۔۔۔ یہ اچھا ہے، یہ اچھا نہیں ہے۔ یہ سن سن کر میرے کان پک چکے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ یہ سب کچھ میرے مستقبل کے لیے بہتر ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ میری اپنی شخصیت ان کے حکموں پر چل چل کر ختم ہوچکی ہے۔ ان دس گھنٹوں میں جو وہ آفس میں گزارتے تھے مجھے بہت عزیز تھے لیکن ان کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اب وہ وقت بھی۔۔۔۔۔۔۔ ”
اگر چہ تحریر نامکمل تھی لیکن آگے کی بات میں بنا پڑھے ہی سمجھ سکتا تھا۔ میں نے وہ ڈائری دوبارہ آرام کے ساتھ اس کا سر اٹھا کر اس کے نیچے رکھ دی۔۔۔۔ میں چند لمحے کھڑا رہا اور پھر پیار سے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور بڑی محبت سے اسے آواز دی کہ سعد بیٹا۔ اٹھو بستر پر جاکر سوجاؤ۔۔۔۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھا اس نے جلدی سے ڈائری کو بند کردیا۔ میں نے بھی ایسا رویہ رکھا کہ اسے محسوس ہو کہ میں نے کچھ نہیں پڑھا۔۔۔۔۔
بارہویں امتحانات کے پرچوں میں سعد نے نمایاں ترین کامیابی حاصل کی۔ اب وہ میڈیکل یونیورسٹی میں جاتا ہے۔ وہ اپنے فیصلے خود کرتا ہے کیونکہ میں نے صاف صاف کہ دیا تھا کہ اب تم بڑے ہوگئے ہو۔ اپنی ذمہ داری خود اٹھاؤ۔۔۔۔۔ یہ بات سن کر اس کے چہرے پر خوشگوار حیرت امڈ آئی۔ اب اس کے چہرے پر ایک پروقار متانت بھری مسکراہٹ رہتی ہے جو اس کے چہرے پر بہت بھلی لگتی ہے۔۔۔۔
اور ہاں یاد آیا کہ اب سعد گاڑی چلاتے وقت ریس کو زور سے نہیں دباتا۔۔۔۔۔ حالانکہ میں نے تو اسے ٹوکنا بھی چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔
****
افسانہ نگار.عامر انور(کراچی،پاکستان)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...