(Last Updated On: )
جیک واڑی ڈیم کے ادھ کھلے دروازوں سے اپنے آنچل کو ایک جھٹکے کے ساتھ کھینچتی ہوئی گوداوری نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا اور دوڑتی ہوئی کنارے سے کچھ دور سنت ایکناتھ مندر کو پرنام کرتی ہوئی ناگ گھاٹ کی طرف بڑھنے لگی ۔ تبھی ایک ننھی سی چڑیا نے دیکھا منجدھار میں ایک برگد کا پتہ بھی ساتھ ساتھ بہہ رہا تھا وہ ڈیم کی دیوار سے اُڑی اور کسی طرح اُس پتے پر سوار ہو گئی ۔گوداوری ذرا سانس لینے کی خاطر منادر کی سیڑھیوںکے پاس رُکی ہی تھی کہ بے شمارلوگوں نے اپنے پاپوں کی گٹھڑیوں سے اُس کا دامن بھر دیا ، وہ اس بے تحاشہ وزن سے کچھ ڈگمگائی مندروں کی دیواروں سے ٹکرائی اور پھر خود ہی سنبھل گئی اور بھاری لہروں کے غصے کو پیتی ہوئی آگے بڑھی ہی تھی کہ چڑیا نے آہستہ سے کہا، ’’ ہے مئیا بھگتوں کی ان آوازوں کو تو سنو ۔‘‘
مندروں سے کھڑتال منجیرہ اور ڈھولک کی تھاپوں میں بھجن کی آوازیں گونج رہی تھیں ، ’’وٹھل وٹھل ہری ہری وٹھل۔۔۔ وٹھل وٹھل ہری ہری وٹھل۔۔۔‘‘ گوداوری نے مسکراکرچڑیا کی طرف دیکھا، ’’ دوہزار برسوں سے ایسے بھجن میںسن رہی ہوں ،وقت بدلتا رہا، موسم بدلتے رہے ،اور ساتھ ہی وارکریوں کی شردھا کا مزاج بھی بدلتا رہا ، پہلے صرف شردھا تھی اور اب اُس میں دکھاوا بھی شامل ہو گیا ہے ۔دل کہیں اور ہوتا ہے اور زبان سے نکلنے والے الفاظ بے معنی سے لگتے ہیں۔ چڑیا رانی اب سنت گیا نیشور کا پسائے دان کاجاپ سنائی نہیں دیتا، جانتی ہو اُس میں خود کے لیے کوئی دعا نہیں ہے ۔بلکہ سارے عالم کے لیے امن اور آتشی کا پیغام ہے ۔ اُسے تو لوگوں نے بھلا دیا۔
سونا سجّن سادھو جن ٹوٹے جُڑے سوبار
درجن کمبھ کمہار کا ایک ڈھک درار
چڑیاسچائی میں ڈوبی اس آواز کو سن کر ایک لہحے کے لیے خاموش ہو گئی،آسمان میں بہت سارے پرندے اُڑ رہے تھے اور کنارے کنارے کچھ سادھو ایک پیر اُٹھائے گیان دھیان میںمگن آنکھیں موندے کھڑے تھے ،چپووں کے زور پر ڈولتی ہوئی ایک کشتی مسافروں کو دوسرے کنارے پر آباد کوسن گاؤں کی طرف لے جا رہی تھی ۔ دور انجن گھر میں آپریٹر نے بجلی کے بٹن پر اُنگلی رکھی اور زمین کے بہت نیچے سے پائپوں نے پانی کھینچنا شروع کیا اور سات کنووں میں پانی صفائی کے مرحلوں سے گزرتا ہوا عظیم الشان ٹاکیوں میں جمع ہونے لگا جہاں سے وہ پورے شہر کی پیاس بجھائے گا ۔ گوداوری رواں تھی۔۔۔اور چڑیا اُس کی بڑبڑاہٹ سن رہی تھی ۔۔۔یہی کنارے تھے، یہی شہر تھا ، شنکھ پھونکے جاتے ،وٹھل وٹھل ہری ہری وٹھل کی صدائیں گونجتیں، دلوں پر پریم کی برسات ہوتی ، دھرتی سونا اُگلتی ،گھر گھر سکھ اور شانتی کا بسیرا تھا، کارخانوں میں تلواریں ڈھلتیں،نوجوان جے ہو جئے ہو کے نعرے لگاتے ،گھوڑے دوڑاتے ، مندروں میں گھنٹیاں بجتیں،کوئی گھر بھوکا نہ سوتا، برہمنوں اور چھتریوں کا بول بالا تھا ۔
’’ میری مئیایہ کب کی بات بتا رہی ہو ؟ ‘‘
’’ چڑیارانی تم تو ننھا سا جیو ہو ،تمہاری عمر ہی کتنی ، تم کیا جانو میں نے کتنے یگ دیکھے ہیں، موریہ ونش، ستواہانہ ونش، راشٹر کوٹ ، بہمنی دور ، نظام شاہی ، مغل آن بان، آصف جاہی ، اور اب یہ لوک شاہی ، ان سارے یگوں میں میں نے انسان کو دکھ اُٹھاتے ہی دیکھا ہے ۔ اب تم کو کیا بتاؤں۔۔۔۔۔ندی اپنے ہی بھنور میں گردش کرنے لگی ۔
’’ مہاراج گوتمی پُتر ساتکرنی کی جئے ہو ؟
مہاراج نے ریشمی شال کو کندھے پر اُچھالتے ہوئے اپنے مخاطب کی طرف دیکھا، ’’ کیا سندیس لائے ہو آمیتہ ۔ ‘‘
’’ عرب سے گھوڑوں کے بیوپاری اور جاوا و سمٹرا سے اوشک سامگری آئی ہے ۔‘‘
’’ ہوں ۔۔۔اُن کا مولیہ چکادیا جائے ۔‘‘
ٹھیک اُسی وقت ایک عورت روتی پیٹتی، چیختی چلاتی داخل ہوئی ، ’’ دیا کرو مہاراج ۔۔۔ دیا کرو ۔۔۔۔‘‘
سپاہیوں نے اُس عورت کو مہاراج کے قریب جانے سے روک دیاتھا۔ مہاراج نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور وہ مہاراج کے سنہا سن کے سامنے سجدہ ریز ہوگئی ، ’’ ہے شکتی شالی ایشور سمان ستواہان پُتر۔۔۔ ۔میری دس برس کی بچی کو ستی ہونے سے بچالیجیے ۔ ابھی تو اُس نے اپنے سنسار کی شروعات بھی نہیںکی ، ابھی تو اُس ابھاگن نے سسرال کی سیڑھی بھی نہیں چڑھی ۔ ابھی تو اُسے سہاگن کا ارتھ بھی نہیں معلوم ۔ ہے مہابلی ۔۔۔ مجھ دکھیاری پر کرپا کرو۔ میری بچی کو ستی ہونے سے بچالو ۔ ‘‘
مہاراج نے مہا ماتیہ کی طرف دیکھا اور مہا ماتیہ نے انکار میں گردن ہلادی ۔
’’ دیوی۔۔۔! راجہ کا ادھیکار اُس سے سب کچھ کرواسکتا ہے کنتو دھرم کے نییم توڑنے کا اُسے ادھیکار نہیں ہے ۔ دھرم کے انوسار تمہاری پُتری کا وواہ ہوا تھا، تو اُسی دھرم کے انوسار اُسے ستی ہونا پڑے گا ۔اُ سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ ‘‘ راجہ اپنے سنہاسن سے اُٹھ گیا اور وہ عورت اُسی طرح روتی چلاتی اور اپنے کپڑے پھاڑتی رہی ۔
دوسرے دن راجہ اپنی سینا کے ساتھ پلوی راجہ پر چڑھائی کرنے نکل پڑا ،
چڑیا رانی صدیوں سے صدیوں تک جانے ایسی کتنی بیواؤں کی راکھ پر میں آنسو بہاتی رہی ہوں ۔‘‘
’’ بھگوان کو ہزار پرنام کہ اُس نے دھرم کی یہ نیتی ہم پکشیوں پر نہیں لگائی۔ ‘‘
’’ یہ نئیم بھی بھگوان نے نہیں بنائے تھے بلکہ اسی انسان نے دھرم کے نام پر بنایا تھا ، جسے اُس نے اپنا ادھیکاری بنا کر بھیجا تھا ۔ ۔ ‘‘
چڑیا خاموش ہو گئی اورگوداوری نشیب کی طرف بڑھی۔اُس کے ایک طرف لہلہاتے کھیت تھے ۔ دھوبی گھاٹ پر دھوبی کپڑے دھو رہے تھے ۔ منجدھار میں کشتیوں پر کھڑے مچھیرے جال پھینک رہے تھے۔اور کنارے کنارے باڑیوں میں ہرے ہرے تربوز اور رنگ برنگے خربوز دھوپ میں چمک رہے تھے ، کچھ لوگ یو نہی بے مقصد ریت پر چہل قدمی کر رہے تھے ، اور ایک سیلانی ریت پر لیٹا ریڈیو پر آنے والی خبروں کو سن رہا تھا ، ’’ پست اقوام کے جھونپڑوں کو نہ صرف جلا دیا گیا بلکہ اعلیٰ ذات کے لوگوں نے مار پیٹ کے بعد اُن کی عورتوں کا ننگا جلوس بھی نکالا ۔۔۔ ‘‘ گوداوری کی لہریں تڑپ کر کناروں کی طرف دوڑی ۔۔۔، ’’ چڑیا رانی جو میں نے ابھی ابھی سنا کیا تم نے بھی سنا ؟ ‘‘
چڑیا نے اقرار میں گردن ہلائی ، ’’ ہم پشو پکشی تو کبھی ایسا نہیں کرتے ۔ ‘‘
’’ گیانی انسان بھی ایسا نہیں کرتے ۔اس اونچ نیچ کے انتر کو اُنھوں نے سدا پاٹنے کی کوشش کی ۔ گوداوری نے ایک لمحے کے لیے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ اُس کی نظریں ماضی پر چھائے ہوئے اندھیاروں کو چیرتی ہوئی بہت دور نکل گئی۔۔۔
بستی کے باہر شدر جاتیوں کی جھونپڑیاں، میلے کچیلے مرد، پھٹے پرانے چیتھڑوں سے جسم چھپاتی عورتیں، غلاظت کے انبار میں دھنسے ہوئے بچے۔۔۔ یہ انسان تھے ؟ جانوروں سے بدتر زندگی کی سانسیں لینے والے یہ افراد ۔۔۔ جن کا چھونا بھی دھرم کو بھرشٹ اور پوترتا کو بھنگ کرنے کے لیے کافی تھا ۔۔۔ایسا ہی ایک دن تھا ۔ آسمان سے آگ برساتی دھوپ تھی ۔ چنگاریوں کے مانند ریت دہک رہی تھی ، اور اُس پر کھِلیوںکی طرح اُچھلتا، تڑپتا،روتا بلکتا، ننگ دھڑنگ ایک معصوم بچہ انسانوں کے رحم کو متوجہ کر رہا تھا ، لیکن انسانیت کے کان بند تھے اور آنکھیں محو تماشہ تھی۔۔۔ اچانک دو ہاتھوں نے اُسے اپنی گود میں اُٹھالیا ، اُس کی بہتی ناک کو صاف کیا، اُس کے آنسوپونچھے اور اُسے اُس کے گھر پہنچا دیا ۔گوداوری کی تہہ سے کسی مروڑ کی مانند وہ دبی ہوئی چیخیں بلند ہوئیں ، ’’ اس کا تو دھرم بھرشٹ ہو گیا ہے ۔شدھی کرن اوشیہ ہے۔ ‘‘
ان چیخوں نے چڑیا رانی کو بھی گھبرادیا ، وہ اُڑنا ہی چاہتی تھی کہ مئیا نے اُسے روک لیا ، اور سمجھانے لگی، ’’ ان آوازوں سے اب کیا ڈرنا، اب تو اس سے بھی بھیانک آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ ‘‘
چڑیا رانی اب بھی خوف سے پلکیں جھپکا رہی تھیں ۔
’’ جانتی ہو چڑیا رانی وہ برہمن کون تھا ؟ ‘‘
’’ اپنے وقت کا مہاسنت ، سنت ایکناتھ ، سوامی جناردھن سوامی کا چہیتا، اور دونوں کے گرو کون تھے ؟ دولت آباد کے ایک مسلمان صوفی شاہ بودھلے با با ، جنھوںنے اُن سے کہا تھا جب ایشور کے نزدیک سب انسان برابر ہیں تو ہم کیوں فرق کرتے ہیں ۔چڑیا رانی یہ تھا بھارت کی دھرتی پر ذات پات کے خلاف پہلا سبق اور پہلا عمل ۔ ‘‘
گوداوری نے اپنے کناروںسے ساری گندگی سمیٹا اور تیزی سے بہنا شروع کیا ، وہ اپنے آپ میں بڑبڑارہی تھی، ’’ لیکن لوگوں نے اُس سبق اور اُس عمل کو بھلا دیا ، بلکہ دو قدم آگے بڑھ گئے ۔اُس وقت تو صرف چھون کی بات تھی لیکن اب تو جانوروں کی رکھشا کے نام پر انسان کو مارا جارہا ہے ۔ ‘‘
چڑیا نے عقیدت سے اپنا سر جھکایا، ’’ مئیاتم کتنی گیانی ہو ، اس دھرتی پر جو کچھ ہوا اور ہو رہاہے ،وہ تم کو سب پتہ ہے ۔ ‘‘ پھر اُس نے گوداوری کا بوسہ لیا، ’’ اسی لیے تو تم مقدس سمجھی جاتی ہو ۔ ‘‘
گوداوری کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی ، ’’ چڑیا رانی یہ بھی صرف بھارت میں ہو سکتا ہے ۔مصر میں دریائے نیل ہے، امریکہ میںدریائے مسس سپی،، لندن میں دریائے ٹیمس اور بھی دنیا میں بہت ساری ہیں لیکن وہ اپنے ممالک میں مقدس نہیں کار آمد کہی جاتی ہیں ۔ وہ لوگ اپنی دریاؤں میں گندگی ہونے نہیں دیتے اور یہاں گندگی کودور نہیں کیا جاتا۔ بہت پہلے قرۃ العین حیدر کا ایک کردار ابوالمنصورکمال الدین بغداد سے آیا تھا تو اُس نے بھی یہی سوال کیا تھا کہ یہاں دریا مقدس کیسے ہوجاتے ہیں ؟‘‘
ابھی وہ کچھ اور کہنا ہی چاہتی تھی کہ ایک کشتی جس میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سوار تھے اور زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔اُن کی باتیں سننے کے لیے مئیا چڑیا کو لے کر تیزی سے اُن کے قریب پہنچی۔۔۔۔
’’ بہت اچھے مارکس کے باوجود ایم ڈی میں میرا سلیکشن نہیں ہوا ۔‘‘
’’ مسٹر پانڈے ! کاش ہم آج کے یگ میں ایک لویہ کے جنم میں آتے ؟ ‘‘
’’ لیکن یار گپتا ۔۔۔ یہ تو سوچو کب تک اس ریزرویشن کا چکر باقی رہے گا ؟ ‘‘
’’ آپ دونوں بھول رہے ہیں ، یہ سہولت آ پ کے بزرگوں نے ہی دی ہے ۔‘‘
’’ ہاں تو ۔۔۔؟ تب اُن کو واقعی ضرورت تھی ۔ مگر آج ۔۔۔؟ ‘‘ کو شلیا نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا ۔
پانڈے کے چہرے پر طنز اُبھر آیا ، ’’ آج یہ ووٹ بنک ہے ۔ ‘‘
گوداوری نے مسکراکر چڑیا کی طرف دیکھا ، ’’ وقت بھی کیسے کیسے بدلاؤ لاتا ہے چڑیا رانی ،اس کی ایک مثال تو تم نے ابھی سنی ،اور اب ایک مثال یہ بھی ہے ، کبھی ایک برہمن نے اپنے ایک ملیچھ لیکن ایماندار نوکر حسن گنگو کو شاہی دربار تک پہنچایا تھا ، اور بعد میں وہ صرف اُس کا ہی نہیں بلکہ پورے دکن کا بادشاہ بن گیا ۔ ‘‘
’’ ہاں لیکن میں نے سنا ہے کہ وہ اُس کا اتنا احسان مانتا تھا کہ مسلمان ہونے کے باوجود اُس نے اپنے نام کے ساتھ اُس کا بھی نام جوڑ لیا تھا، اور حسن گنگو بہمنی ہوگیا تھا ۔‘‘
’’ اور اس کے خاندان نے دکن پر پورے سوا سو سال تک حکومت کی تھی ،مالیہ کا سارا بندوبست ان ہی برہمنوں کے ہاتھ میں تھا ۔ ‘‘
گوداوری نے ایک بڑا سا چکر کاٹا، اور پانی کی لہروں نے جونہی سر اُٹھا یا ، دور کنارے پر مولانا معز الدین آب پاش کی درگاہ دکھائی دینے لگی ۔ وہ پوری عقیدت کے ساتھ درگاہ کی طرف بڑھی ۔اور کچھ ہی لمحوں میں اُس کا پانی درگاہ کی سیڑھیوں کو دھونے لگا ۔سمندری جہاز کی صورت تعمیر شدہ درگاہ کی بلند و بالا عمارت پر امن و آتشی کا پرچم لہرا رہا تھا ۔ مر د و برقعہ پوش خواتین کا ایک ہجوم تھا ۔ اود اور اگربتیوں کی خوشبو مہک رہی تھی ۔فقراء آوازیں لگا رہے تھے ، صدقہ پنجتن پاک کا مولا بھیج۔۔۔ بھیج ۔۔۔ بھیج ۔۔۔اِلا اللہ۔ اِلا للہ۔۔۔
گوداوری کے چہرے پر ایک پُر سکون مسکراہٹ کھیلنے لگی تھی ۔۔۔
’’ ائے ڈوبتے جہازوں کو اپنی انگلی کے ایک اشارے سے اوپر بلانے والے ، ائے خطرناک بلاؤں سے یہاں کی عوام کو بچانے والے ، میری حکومت کا جہاز بھی ڈوبنے کو ہے ۔ ایک طرف بیجاپور کی فوجیں میرے خلاف جنگ کااعلان کر رہی ہیں تو دوسری جانب مغلوں کا خواب ہے کہ وہ دکن فتح کرلیں گے ۔وجیا نگر کا راجہ بھی اس دسہرے کے موقع پر اپنے ملک کی سیماؤں کو وسیع کرنے کی خاطر میری ہی حکومت کی طرف دیکھ رہا ہے ۔میری حکومت کے اس جہاز کو بھی ڈوبنے سے بچالے، کوئی تدبیر سجھا دے ، کوئی طریقہ بتا دے ۔‘‘ حسین نظام شاہ نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور اپنے دل و دماغ کو اس طرح ایک مرکز پرلے آیا جیسے اُسے کچھ الہام ہونے والا ہے ۔ وہ بہت دیر تک اُسی طرح بیٹھا رہا ، اور پھر اُس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی ۔جیسے اُس نے اپنا مدعا پالیا،’’ قسمت کے لکھے کو یہ فقیر بھی مٹا نہیں سکتا ، ہاں اُس سے کہہ کر کچھ مہلت ضرور دلا دے گا۔ ‘‘ اُس نے اپنی آنکھیں کھول دیں ۔ صاحب ِ مزار کو سلام کیا اور درگاہ سے باہر نکل گیا ۔
اُس نے غیبی اشارے کو سمجھا اور اپنی ہونہار بیٹی چاند سلطانہ کی شادی بیجا پور کے سلطان علی عادل شاہ سے کردی ، اور اپنے لڑکے مرتضی نظام شاہ کا عقد علی عادل شاہ کی بہن سے پڑھوادیا ۔ اس طرح اُس کی حکومت کا جہازفوری ڈوبنے سے بچ گیا تھا ۔
’’ مئیا کس گمبھیر سوچ میںچلی گئیں آپ ؟ ‘‘
’’ چڑیا رانی جو حکومت بنتی ہے وہ ٹوٹتی بھی ہے ۔ دنیا کا اتہاس اس سے بھرا پڑا ہے ۔ کتنے ہی راجا اور بادشاہ آئے ۔ اپنی حکومتیں قائم کیں اور پھر زمین کا پیوند بن گئے ۔ مجھے ان کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا اتنا افسوس نہیں ہوتا ۔ میں نے ایسے منظر بہت بار دیکھے ہیں ۔ ہزاروں لوگ مرتے ہیں لیکن ان مرنے والوں اور مارنے والوں کا ایک مقصد ہوتا ہے ۔ مجھے افسوس ہوتا ہے اُن لوگوں پر جن کے ہاتھ کچھ نہیں آتا پھر بھی وہ خون خرابہ کرتے ہیں ۔ ‘‘
چڑیا نے سوالیہ نظروں سے گوداوری کی طرف دیکھا ، ’’ وہ خون خرابہ کیوں کرتے ہیں ؟ ‘‘
’’ کبھی سیاسی اقتدار کے لیے، کبھی مذہب کے نام پر دنگے اور فسادکی آڑ میں، اور کبھی کسی اور کا آلئہ کار بن کر بم بلاسٹ ۔اور بے شمار معصوموں کی جان کا کھلواڑ ۔وہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس سے نہ اسلام یہاں سے ختم ہوگا اور نا ہی ہندو مت کو کوئی نقصان پہنچے گا ۔ ‘‘
’’ میری مئیا ۔۔۔ یہ بات اُن کو کوئی سمجھاتا کیوں نہیں ؟ ‘‘
’’ بہت سمجھایا ۔۔۔ کچھ لوگوں نے اس کی خاطر اپنی جانیں قربان کردیں ۔کچھ لوگوں نے اپنی ساری زندگی لگادی تو کچھ لوگوں نے ذات پات کو بھول کراپنے عمل سے ثابت کردیا کہ انسانیت سب سے بڑی چیز ہے ۔ ‘‘ گوداوری کا بہاؤ کچھ لمحوں کے لیے ساکت ہوگیا ، اور اُس کی نظروں میں پھر ایک بار سنت ایکناتھ مہاراج کا مندر اُبھر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایکناتھ باڑے کے کواڑ کھلنے لگے اور ایک پوسٹ کارڈ ہوا کے دوش پر اُڑتا ہوا نظاام ِ دکن میر عثمان علی خان بہادر کے دربار میں پہنچ گیا ۔ بادشاہ نے افسوس کے ساتھ کہا، ’’ سنت ایکناتھ مہاراج کے پجاری اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔اُن کا کم سن بچہ اور بیوی پریشان ہیں۔لوگ اُن کی جائداد کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں ۔ مابدولت کا حکم ہے کہ اُن کی جائداد کو محفوظ کیا جائے ۔ماں اور بچے کی سرپرستی ہمارا فرض ہے ۔‘‘
ہندو مسلم کو اپنی دو آنکھیں کہنے والے بادشاہ نے نہ صرف اُن کو حیدرآباد بلوالیابلکہ اپنی سرپرستی میں اُن کی رہائش کا انتظام بھی کیا، بچے کی تعلیم و تربیت کے لیے اپنے وقت کے قابل ترئین پنڈتوں کومقرر کیا گیا اور جب تعلیم مکمل ہو گئی اور لڑکے کی عمر اٹھارہ برس کی ہو گئی ، تو اُسے شاہی اعزازات کے ساتھ پٹن روانہ کر دیا گیا، تاکہ وہ اپنے خاندانی منصب کو انجام دے سکے ۔
’’ میری مئیا ان باتوں کا پرینام تو آنے والے زمانے پر اچھا ہی ہو نا چاہیے تھا ۔ ‘‘
’’ مگر ایسا ہوا نہیں ، بھارت کی آزادی تقسیم ِ ملک پر ہوئی اور پھر سقوط ِ حیدر آباد ، اوراُس کے بعد آنے والا زمانہ ۔۔۔ نفرت کا وہ بیج اب پوری طرح پروان چڑھ چکا ہے ۔ ‘‘
’’ ایسا بھی نہیں ہے مئیا ۔۔۔اچھے لوگ بھی تو ابھی باقی ہوں گے ۔‘‘
’’ تمھیں میری بات سے انکار ہے تویہاں سے کچھ آگے چلتے ہیں ۔سچائی سامنے آجائے گی ۔ ‘‘ گوداوری زور سے اُچھلی اور بی چڑیا ڈگمگا گئی ، ’’ مئیا ذرا دھیرے بہو ۔۔۔ ‘‘
’’ اوہ۔۔۔ ! ‘‘ گوداوری نے ننھی سی چڑیا کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھا ، ’’ یہیں پر غلطی ہو تی ہے ۔ طاقتور کو چاہیے کہ وہ کمزور کا خیال رکھے ،مگر ایسا ہوتا نہیں ۔ ‘‘
چڑیا ابھی تک بھی اپنے آپ پر قابو نہیں پاسکی تھی ۔ اُس نے دیکھا یہاں گوداوری مئیا کا پاٹ بہت چوڑا ہو گیا تھا ۔ دور جانور گھانس چررہے تھے۔ کناروں پر اونچے اونچے درخت کھڑے تھے۔سورج ڈوبنے کی تیاری میںتھا اور ایک کشتی پانی کے بہاؤ کے مخالف سمت آگے بڑھنے کے لیے پورا زور لگا رہی تھی ۔ اچانک مئیا نے چڑیا کو مخاطب کیا ، ’’ وہ دور جلتی ہوئی آگ دیکھ رہی ہو ؟ ‘‘
چڑیا نے فوری اُس طرف دیکھا ، ’’ ہاں مئیا دیکھ رہی ہوں اور اُس آگ کے قریب ہی کچھ لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں ۔ ‘‘
’’ وہ شمشان گھاٹ ہے ۔ جہاں مردہ انسان کا آخری سنسکار کیا جاتا ہے ۔ ‘‘ پانی کی لہریں اُس طرف بڑھنے لگیں ، ’’ آو اُس طرف چلتے ہیں ۔ ۔۔۔عجیب بھیانک منظر تھا ۔ آگ کی لپٹیں مردے کے جسم کے ایک ایک حصے کو کسی خونخوار جانور کی طرح کھا رہی تھی۔ فضاء میں چرانڈبو پھیل رہی تھی ۔ کچھ لوگوں کے آنسو تھمتے نہ تھے ا ور کوئی کہہ رہا تھا، ’’ بیٹا رو مت تم کو تو ابھیمان ہونا چاہیے کہ تمہارے باپ نے جو قسم کھائی تھی اُس پر پورا اُتر ا ۔ ‘‘ پھر اُس نے پلٹ کر کہا ، ’’ کیوں نیتاجی یہ تو سورگ میں جائے گا نا ؟ ‘‘
’’ ہاں ہاں کیوں نہیں۔۔۔‘‘
’’ رام جی کا مندر بن جائے اس کے لیے اُس نے کیا کچھ نہیں کیا تھا ۔ ‘‘
’’ یہ بابر کی اولاد ۔۔۔ ان کو جتنا کاٹو یہ بکریوں کی طرح بڑھتی ہی جاتی ہیں ۔ ‘‘
’’ لیکن نیتاجی ان کا کچھ تو اُوپائے کرنا ہی ہوگا ؟ ‘‘
’’ ہم وہی تو کر رہے ہیں۔۔۔۔۔دیکھو گئو مئیا اور اُسکے ونش کا قصہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ تین طلاق کے مسلے میں ہم نے اُنھیں ایسا اُلجھا دیا کہ اب وہ نہ سچر کمیشن کے بارے میں سوال اُٹھا سکتے ہیں اور نا ہی اپنے وکاس کا کوئی مّداہمارے سامنے لا سکتے ہیں ۔‘‘
’’ ارے اس دیش کا ہم ہندو کرن کرکے ہی رہیں گے ۔ ‘‘
’’ یہ مشنری والوں کو بھی پھر ایک بار دیکھنا ہوگا ۔ ‘‘
’’ سرکے آدھے بال کٹاکر گدھے پر بٹھاکر اُن کا منہ تو ہم کالا کرچکے ہیں ۔ ‘‘
’’ بھیاجی ۔۔۔ بہار کا دلت بھی مسلمانوں کا بہت گیت گا رہا ہے ۔ ‘‘
’’دیکھا چڑیا رانی۔۔۔ موت کے کنارے بیٹھ کر بھی یہ انسان سبق نہیں لیتا۔ وہ مانوتا کو بھول چکا ہے ۔اپنے پرکھوںکی تعلیم اُن کے آدرش اور اُن کی سنسکرتی اور سبھیتا کو فراموش کر چکا ہے ۔ سنا تم نے وہ کیسی باتیں کر رہا ہے ۔‘‘ گوداوری پھر ایک بار کنارے سے منجھدھارکی طرف بڑھی ، ’’ چڑیا رانی میں انسانوں کے اس کرم کو دیکھ دیکھ کر بہت دکھی ہو گئی ہوں ۔ میرا من اُچاٹ ہوگیا ہے۔ میں نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ میں بھی سرسوتی کی طرح لُپت ہو جاؤں اور پھر کبھی دوبارہ اس دھرتی کا چہرا نہ دیکھوں ۔۔۔ أہ۔۔۔ چڑیا رانی اب جتنی جلدہو سکتا ہے تم بھی اُڑ جاؤ۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی میرے ساتھ لپت ہو جاو ۔ ‘‘
چڑیا نے محسوس کیا کہ بہتا پانی کھارا ہوتا جارہا ہے ۔اُچھلتی گاتی موجیں خاموش ہوتی جارہی ہیں ۔ اُسے ڈر لگنے لگا کہیں مئیا سچ مچ لپت نہ ہوجائے ۔ اُس نے پوری طاقت کے ساتھ پکارا ، ’’ مئیا ۔۔۔ مئیا ۔۔۔۔۔ مئیا ۔۔۔۔۔
گوداوری کی آواز بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ جیسے پانی زمین کے اندر اُترتا جا رہا ہے ، ’’ اُس نے جلدی سے کہا ، ’’ مئیا ہم دونوں نے ایک دوسرے کے خیالات کو پرکھنے کی بات کی تھی ۔ ابھی میری بات کو پرکھنا باقی ہے ۔ جب تک وہ نہیں ہوجاتا تم لپت نہیں ہو سکتی ۔‘‘
’’ تم ایک ننھا سا جیو ہو، تم مجھے میرے ارادوں سے نہیں روک پاؤ گی ۔ ‘‘ مایوس گوداوری کا لہجہ بکھرنے لگا تھا ، ’’ لیکن میں اپنے قول پر قائم ہوں کہ بڑوں کو چھوٹوںکا خیال رکھنا چاہیے۔ کہو مجھے کس سمت چلنا ہے ؟ ‘‘
اُس نے فوراً کہا، ’’ میری مئیا جب ہم شمشان گھاٹ کی طرف جا رہے تھے تو ایک کشتی بہاؤ کے مخالف سمت جانے کے لیے زور لگا رہی تھی کیا آپ مجھے اُس کے پاس لے جاسکتی ہیں ؟ ‘‘
’’ اُلٹی ندی بہے تو انرتھ ہوجائے گا ‘‘ گوداوری کا پانی پھر ایک بار زمین کے اندر اُترنے لگا ۔ یہاں تک کہ وہ کشتی چڑیا کے قریب آگئی ۔چپو پر زور لگاتے ہوئے کوئی کہہ رہا تھا ، ’’ بابوجی ہمارا دیش غلط راہ پر جا رہا ہے ۔‘‘
چڑیا نے مئیا کی طرف دیکھا۔
’’ گجرات، جمشید پور اعظم گڑھ اور بے شمار مقامات پر جو ہوا ، تاریخ اُسے کبھی معاف نہیں کرے گی ۔ ‘‘
’’ اورگئو رکھشا کے نام پر جو سیاست اور ظلم ہو رہا ہے ۔۔۔ وہ ۔۔۔؟ ‘‘
’’ ہم ذات پات کے بھنور میں پھنس گئے ہیں ۔ ترشول اور خود کش بم اِسے ڈبو کر ہی رہیں گے ۔ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ ہمیں اس بھنور سے نکلنے کے لیے اپنی سنسکرتی اور سبھیتا کے چپوؤں کی ضرورت ہے جو پانی کے اس زور کو توڑ کر باہر نکال سکیں ۔‘‘
’’ فی الحال یہ بہت مشکل نظر آرہا ہے ۔ ‘‘
’’ ہاں ۔۔۔ مشکل تو ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے ۔ جب ہم بہاؤ کے مخالف سمت اپنی کشتی کو کھیے سکتے ہیں تو اپنے دیش کو بھی صحیح دشا دکھا سکتے ہیں ۔ دوستو پوری طاقت سے چپو چلاؤ ۔۔۔۔‘‘
اندھیرے میں چپوؤں کی آوازیں گونج رہی تھیں اور کشتی اندھیرے کا سینہ چاک کرتی ہوئی اس اُمید پر آگے بڑھ رہی تھی کہ اندھیرے بعد ہی روشنی آتی ہے ۔ ‘‘
ننھی چڑیا نے مایوس مئیا کی جانب دیکھا ، ’’ میری مئیا کبھی سرسوتی مئیا سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی کہ وہ حالات سے مایوس ہوکر لپت ہو گئی تھی ۔اُس کے لپت ہونے ہی سے اگیان کا اندھیرا چھا گیا اور یہ دھرتی سنسکرتی اور سبھیتا کو بھول گئی اور حالات یہاں تک پہنچ گئے ۔مئیا آپ اس دھرتی پر گنگا مئیا کے بعد سب سے بڑی اور وشال درہوہر کی مالک ہو ، آپ لپت ہوجائیں گی تو کئی ڈیم سوکھ جائیں گے ۔ کھیتیاں اُجڑ جائیں گی ۔کال پڑے گا ، روزگار ویسے بھی نہیں ہے لوگ پیسے پیسے کو محتاج ہوجائیں گے ۔ بیماریاں پھیلے گی ہزار ہا انسان اور جانور مریں گے اوریہ وشال دیش ۔۔۔‘‘
’’ بس کرو ۔۔۔ بس کرو ۔۔۔ ‘‘ گوداوری نے چڑیا کو مزید کچھ کہنے سے روک دیا ، ’’ جو غلطی بہن سرسوتی نے کی تھی وہ میں نہیں کروں گی ۔ ‘‘ پانی میں ایک دم اُچھال پیدا ہو گیا اور پانی کی روانی تیز ہوگئی ۔
’’ مئیا ۔۔۔ ذرا دھیرے بہو۔۔۔ ‘‘
گوداوری نے محبت بھری نظروں سے ننھی چڑیا کی طرف دیکھا اور پھر اُس کی رفتار پُر سکون ہو گئی ۔