” مر گئی اماں ری، مر گئی ۔۔۔۔۔۔۔” درد سے تڑپتی نیتو کی آواز پر مالتی نے اپنے بستر سے گردن اوپر اٹھا کرجھگی کے دوسرے کونے میں زمین پر بچھی پرانے کپڑوں کی کترن سے ُبنی اس میلی کچیلی دری کی جانب دیکھا جس کے دھاگے جگہ جگہ سے ٹوٹ جانے سے کترن بکھرنے لگی تھی اور وه چیخ چیخ کر خود اپنی خستہ حالی بیاں کر رہی تھی۔ اُس دری پر اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ دراز درد سے دوہری ہوتی نیتو دونوں ہاتھوں سے اپنی داہنی کوکھ کو دباۓ درد پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔
تکلیف کی شدت سے اس کی پیشانی پر ابھر آئی پسینے کی بوندیں ٹمٹماتے بلب کی روشنی میں صاف نظر آ رہی تھیں۔ مالتی کو اپنی جانب دیکھتا پاکر اس نے پھر کہاں “اماں ری بری جور کا درد ہے اب سہن نا ہی ہوۓ ہے۔” اس کی بات پر کوئی رد عمل نہ دیتے ہوۓمالتی نے اپنی خاموش مگر وحشت زده نظروں سے اُسے ایسے دیکھا جیسے وه اس سے نہیں کسی اور سے مخاطب ہو۔
مالتی کی اس بیگانگی پر نیتو نے ایک لمبی آه کے ساتھ دکھ سے آنکھیں موندتے ہوۓایک اضطرابی کیفیت میں آہستہ آہستہ اپنا پیٹ پیٹنا شروع کر دیا۔ زرد پڑتے اس کے چہرہے اورجسم سے باہر آتے پسینے میں گھلا درد کا سیلاب اس کے اندر سے باہر آکر دری کی کترنوں میں جذب ہونے لگا۔
سائیں سائیں کرتی رات میں انس کے اطراف نیتو کی آہوں کی پکار تھی یا کتے بلیوں کے بولنے کی آوازوں کے ساتھ پاس کی جھگیوں سے آتی رخصت سفر باندھتے ان جیسے دوسرے مزدور لوگوں کی آوازیں تھیں۔
نیتو سے نظریں بچا کر مالتی نے ایک نظراس کے برابر میں سوئی ہوئی دونوں بچیوں کو دیکھا جو دنیا و جہان کے ہر غم سے بے نیاز پرسکون نیند کی آغوش میں تھیں۔ جن کی سوئی پلکوں کے بھیتر بھی اُسے کوئی خواب نظر نہیں آیا۔ وه تو فقط بیٹ کی آگ بجھ جانے بھر سے ایسے نشے میں تھیں کہ ان کے خوابوں پر ہی لاک ڈاؤن لگ چکا تھا۔ ایک ٹیس سی مالتی کے سینے میں اٹھی۔
دکھ سے اس نے جھگی کے اس سونے کونے کی جانب دیکھا جہاں ٹھنڈا پڑا چولہ اورچند خالی برتن اسے منہ چڑا رہےتھے۔ اور ساتھ والے کونے میں ٹین کے ایک پرانے بکسےکے اوپر کھیس میں ستلی سے بندھا بستربند اسے آگے کے سفر کے لئےآگاه کر رہاتھا۔ اور وہ سبھاش کے بیوی بچو کی زمہ داری اٹھاۓ اس کے انتظار میں پہاڑ جیسی یہ راتیں کاٹ رہی تھی۔
مسلسل درد سے تڑپتی نیتو کی گھٹی گھٹی سسکیاں جھگی کے باہر گشت کرتے کتوں کے بھوکنے اور دوڑنے کی آواز میں شامل ہو کر اب اسے اپنے سینے پر ضرب کرتی محسوس ہونے لگیں تو گھٹن کا شدید احساس لئے کمر میں جا دھسے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر اپنے بوڑھے لاغر جسم کے ساتھ وه بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
آہٹ پاکر نیتو نے ایک بار پھرملتجی نظروں سے اسے دیکھا۔ جس کا مفہوم سمجھ کر اپنی انہیں وحشت زده آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوۓ بولی “ابھی ست ماه ہی ہیں کیوں باویلا مچائےہے ری، پہلا بچہ جن ری ہے تو۔۔۔۔۔۔؟” یہ کہتے ہوۓ جھٹکے سے جھگی کا پرده ہٹا کر وه باہر نکل آئی۔
جمنا کے کنارےکھلے میدان میں بسی اس بستی میں اپنی جھگی سے باہر آ کر چہره اوپر کر کے چند لمحے یونہی آنکھیں موندے آسمان کے نیچے کھڑے رہنے کے بعد کھلے نتھنوں سے لمبی سانس کھینچ کر پھیپڑوں میں اتارتے ہوۓ اپنے خالی پیٹ کو بھرنے کی ناکام کوشش کے ساتھ اپنے اندرون کی آگ بجھانے کی بھی کوشش کی۔ اندر سے گرم ہو کر آتی ہوا کو باہر چھوڑتے ہوۓ آنکھیں کھول کر پر تجسس نظروں سے نیلے آسمان کو دیکھا۔ جو پہلے سے کچھ زیاده ہی نکھرا ہوا نظر آ رہا تھا۔ جب سے ساری دنیا پر یہ مصیبت ٹوٹی تھی آسمان کچھ زیاده ہی رنگ بدلتے ہوئے اترانے لگا تھا۔ فضاء اتنی صاف ستھری ہو گئی تھی کہ چاند کی اپنی چاندنی میں اس کے دھندلے ہوتے سارے داغ کچھ زیاده ہی نمایا ہو گئے تھے۔ ہوا میں بھی ایسی تازگی آگئی تھی کہ بے اختیار اسے اپنےگاؤں کی یادستانے لگی۔ ٹھاکر کی ہویلی کے باہر لگے بیل کے درخت سے آتی بھینی بھینی خوشبو اسے اپنی سانسوں میں اترتی محسوس ہونے لگی۔
“گاؤں کی کیسی اچھی جندگی تھی؟ سرد آه بھر کرجھگی کے آگے خالی پڑی زمین پر بیٹھ گئی۔ اور اپنے حال اور ماضی کا موازنہ کرنے لگی۔ “ٹھاکر کے کھیت پر کام کر کے سبھاس کے باپو نے اور میں نے کھوسی کھوسی جندگی کے کتنے برس گجارے پر کبھی سہر جانے کی نہ سوچی۔ ٹھاکرائین بھی تو یہی کہوے تھی کہ “پردیس کی پوری سے دیس کی آدھی بھلی۔” پر یہ نیتو ہی نہ مانی سہر کی ایسی رٹ لگاوے تھی کہ سہر لا کر ہی باج آئی۔ سبھاس کا باپو ہوتا تو کبھی نہ آن دیتا۔ کوئی اور سنتان ہوتی تب میں بھی نہ آوں تھی۔ پر سبھاس کو اکلا پردیس کیسے آن دیتی؟ اس مری نیتو کی کارن آج ہم اس بریے حال میں پرے ہیں۔
گاؤں میں اپنی جمین پر کچا چھپر کا گھر تھا اس جھگی سے تو بھلا تھا۔ پر کدر ہی نہ جانی اس حرامجادی بہو نے۔ وہاں ہوتی تو اج ایک آواج پر سارا گاؤں ہاجر ہو جاتا۔ ٹھاکرآئین سے ناج لا کر ہی ان سب کے پیٹ کی نرک بھر دیتی کھان پین کی پریسانی نہ ہون دیتی۔ اب یہاں ماٹی ملی اس سرکار کی مدد سے کا پیٹ بھرے ہے سب کا۔۔۔۔۔۔؟
“ہے سبھاس رے کب آوے گا رے تو؟ تیری انتجار میں کس حال میں پرے ہیں ہم سبھ رےےے۔” اس نے من ہی من سبھاش کو پکارا۔پتہ نہ کس حال میں ہوگا مارا پوت؟” سبھاش کا خیال آتے ہی افسرده ہو کر وہ اسے یاد کرنے لگی۔
” گاوں سے آ کر پہلے پہل جب وہ ٹھیلی لگاوے تھا تو دو سو چار سو ہی کماوے تھا پر اس سمے روٹی کی پریسانی نہ ہوئے تھی۔ کسی دن سبھاس اپنی سوک (شوق) کی کارن منہ کو “لگا” بھی لیوے تھا تو ٹھیلی نیتو یا میں سنبھال لیوے تھے۔ پر موا جب سے “انگریجی” کی چکر میں کلونی میں کوٹھی بنگلوں پر کام کرنے جاوے ہے اب تو گھر ہی نہ آوے ہے۔ کام کرنے والے ان لونڈوں کو جھگی میں مہاماری کی بھیں سے جو نہ آن دیے ہیں ساب لوگ۔ اب جب بو آوئےتب ہم بھی گاؤں نکلننے کی سوچیں۔ بس ایک بار نکل جاوے یہاں سے پھر لوٹ کر ناہی آوینگے کبھی۔۔۔۔۔” اپنی سوچو میں الجھی وہ اور نہ جانے کیا کیا سوچتی رہی۔
رات کا تیسرا پہر گزرچلا تھا اور جمنا کے کنارے بسی ان جھگیوں کے باہر معمول کے مطابق چہل پہل بڑھ گئی تھی۔ اُسے جھگی کے باہر بیٹھا دیکھ کر کئی جھگی والوں نے آکر اس سے ایک کٹھن سفر کے لئے رخصت لی تھی جس کی منزل تک پہنچ جانے کا انہیں خود بھی یقین نہیں تھا۔ مسائل میں الجھے اور وسائل کی کمی کے چلتے قافلوں کی کی شکل میں پیدل واپسی کے سفر کے لئے مجبور ان مزدوروں سے ایک ایک کر کے جھگیاں اب خالی ہونے لگی تھیں۔ خالی ہوتی اس زمیں کی ویرانی کو دیکھ کر اس نے ایک نظر جمنا پر ڈالی جس کی بہتی پتلی سی دھار کے صاف ہوتے پانی میں اسے ایک طرف بلند و بالا عمارات کا عکس نظر آ رہا تھا تو دوسری طرف اس کے چاروں طرف پھیلی چنگلی گھانس اور اجڑتی جھگیوں کا عکس دکھ رہا تھا۔ جمنا اپنی خالی ہوتی زمین کو دیکھ کر بڑے فاتحانہ انداز میں مسکرا رہی تھی۔۔۔۔۔
“ہے بھگوان، ہے بھگوان ۔۔۔ ” مسلسل کانوں میں آ رہی آواز پر اس نے اپنی جھگی کی طرف دیکھا جہاں نیتو تھک کر اب “ہے بھگوان” کا جاپ الاپنے لگی تھی۔ اور دور مسجد سے آتی آذان کی آواز پر کتوں میں بھی ہلچل بڑھ گئی تھی۔ کوڑے کے ڈھیر پر کھانے کی تلاش میں اچھل کود مچاتے کتوں کو دیکھ کر وه بھی ایک اضطرابی کیفیت میں اٹھ کر سیدھے جھگی کے اندر گئی اور سب پر ایک نظر ڈالی۔ بچیاں ابھی بھی سوئی ہوئی تھیں اور نیتو خستہ حال دری کو اپنی دونوں مٹھیوں میں دباۓ دھیمی آواز میں بھگوان کو پکار رہی تھی۔ “تنِک دھیرج رکھ۔” ابھی لے کر آؤں ہوں۔” نیتو سے پہلی بار زرا نرم لہجے میں یہ کہتے ہوۓ منہ چڑاتے برتوں میں سے کھانے کا ایک برتن اٹھا کر اپنی قوت سے زیاده تیز چلتے ہوئے وه سرکاری اسکول کی جانب جا رہے قافلیں میں شامل ہو گئی۔ چار، پانچ گھنٹے کی مشقت کے بعد آدھا برتن کھانا لے کر جب وه واپس جگھی میں داخل ہوئی تو نیتو قطره قطره اپنا درد دری کے سپرد کر کےشانت ہو گئی تھی۔ اور پاس بیٹھی دونوں بچیاں متجسس نظروں سے دری کی بکھری کترن پر پڑے ایک زنده کھلونے کو دیکھ رہی رتھیں۔
“ہے بھگوان۔” کہہ کر کھانے کے ڈبے کواپنے ہاتھ میں سنبھالے سنبھالے گھٹنوں کے بل وه زمیں میں دھنستی چلی گئی۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...