(Last Updated On: )
رمضوٹھگ کے لے پالک بیٹے گنوار انتھک کی پیدائش کے بارے میں جتنے منھ اُتنی باتیں۔واقف ِحال لوگ بتاتے ہیں کہ رمضو ٹھگ کی پہچان ہی اروڑی پھرول پھیری والے کی تھی۔ رمضو ٹھگ منھ اندھیرے اپنے چنڈو خانے سے نکلتااور سیاہی وال کے گردونواح سڑک کے کنارے بِکھرے کوڑے کے ہر ڈھیر سے کار آمد اشیاچُنتا۔ اروڑی پھرولنے کے اس دھندے سے بعض اوقات کئی لعل و جواہر بھی اُس کے ہاتھ لگ جاتے۔سردیوں کی ایک صبح رمضوٹھگ جب کوڑے کے ایک ڈھیر پر پہنچا توایک نولودبچے کے رونے کی آواز سُن کروہ تیزی سے اُس کی طرف لپکا ۔ نومولود بچہ جس کمبل میں لپٹا تھااُس میں بچے کے ساتھ کرنسی نوٹوں کی گڈیاں اور سونے کے زیورات بھی پڑے تھے ۔رمضو ٹھگ نے سب کچھ سمیٹ لیا اور اپنے چنڈو خانے کا رُخ کیا ۔ اس بچے کی صورت اس قدر کریہہ تھی کہ جسے دیکھتے ہی لوگوں پر لرزہ طاری ہو جاتاتھا۔ نائکہ تفسہہ اوراُس کے شوہر رمضو ٹھگ نے یہ بچہ گو دلے لیا اور بڑا ہو کریہی بچہ گنوار انتھک بنا۔اس قبیلے کی تنگ نظری اور کم ظرفی سے سب لوگ واقف تھے یہ جب بھی کسی شخص سے ملتے سر کنڈے کے مانند اکڑ کر کھڑے ہوتے اور گستاخانہ لہجے میں بات کرتے ۔پے در پے صدمات ، رفتگاں کی یا د اور حسرتوں نے میری رو ح اور قلب کو ناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار کر دیا۔آستین کے سانپوں کی ایذا رسانی برداشت کرنے کے بعدکینہ پرور حاسدوں اور سادیت پسنداعدا سے شکوے کی گنجائش ہی نہ رہی ۔ میں سوچنے لگاکہ جس طرح غیر یقینی حالات میں یاس و ہراس کا شکار ہونا ایک خطرناک غلطی ہے اُسی طرح ہوا میں گرہ لگانا اور مفروضوں پر یقین رکھتے ہوئے سرابوں کی جستجو میں خجل ہونا بھی ہلاکت خیزیوں کا سبب بن جاتاہے ۔ کافی دیر تک میں سجاد حسین ،کوثر پروین ،منیر حسین ،سلطان محموداور اللہ وسائی جیسے عزیز رفتگاں کی یاد میں کھویا رہا ۔اس کے بعدآتش لکھنوی کا یہ شعرمیرے ذہن میں گردش کرنے لگا:
اُٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کِس کِس کا ماتم کیجیے
اچانک عالمِ خیال میں میرا بڑا بھائی شیر خان ( مرحوم ) میری ڈھارس بندھانے کے لیے میرے پاس آیا۔نوجوان بھائی منیر حسین اور نو جوان بیٹے سجاد حسین کی وفات کے صدمے نے مجھے زندہ در گور کر دیا۔میں اپنے مر حوم بھائی کے تکلم کے سلسلوں میں ہمہ تن گوش تھا جو باتیں مجھے یاد رہ گئیں ان کا خلاصہ پیش کر ر ہا ہوں ۔
’’ شبیر تم اچھے افسانے لکھتے رہے ہو مگرحالات نے ایسا رُخ اختیار کیا کہ گردشِ ایام نے تمھیں بھی افسانہ بنا دیا ہے ۔ایک تخلیقی فعالیت کی حیثیت سے داستان ،افسانہ اور کہانی لکھنا کوئی بچوں کا کھیل نہیںبل کہ یہ تو اسرارِ کائنات کی ایسی تفہیم ہے جس کے وسیلے سے زندگی کی تعمیر نو اور کارِ جہاں کی از سرِ نو تشکیل کی راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔‘‘ میرے بڑے بھائی شیر خان نے مجھے سمجھاتے ہوئے آ ہ بھر کر کہا’’ ا ِس دنیا میں بے بس و لاچار مظلوم انسانوں پر جو کوہِ ستم ٹُوٹتاہے کوئی اُس پر دھیان نہیں دیتا۔آلام ِروزگار کی تمازت بے بس انسانوں کو صحرا کی ایسی خشک لکڑی کے مانند بنا دیتی ہے جسے کاروان ِ ہستی کا تیزگام قافلہ سپردِآتش کر کے اپنی گلی منزل کی جانب روانہ ہو جاتاہے ۔ اپنے تجربات، مشاہدات اور تاثرات کو پوری دیانت سے زیبِ قرطاس کرنا دراصل انھیں اپنی کتاب ِ زیست کا ایک معتبرحوالہ بنا پیش کرنا ہے جومستقبل کے قاری کے لیے ایسا زاد ِراہ ہے جو اُسے سرابوں کے عذابوں سے محفوظ رکھتاہے ۔ کہانی کارکی جان پرتین قسم کا عذاب ہوتاہے سب سے پہلے تو وہ معاشرتی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کو دیکھتاہے ،ان کے بارے میں سوچ کر کُڑھتاہے اورپھر تزکیہ نفس کی خاطراِنھیں قلم و قرطاس کا معتبر حوالہ بناتا چلا جاتاہے ۔تم کہانیاں لکھتے ہو مگر یہ بات یاد رکھنا کہ ایک حساس اور زیرک تخلیق کار کی یہی تمناہوتی ہے کہ تخلیق ِ فن کے لمحوں میں خون بن کر رگِ سنگ میںاُترجائے ۔ ملبوس ِ بہار کی تیاری میں دُکھوں کے خاروں سے تخلیق کار کی اُنگلیاں فگار ہو جاتی ہیں ۔ زندگی کے ساز پر کہانی کی تان چھیڑتے وقت لمحات کی سارنگی کے تار سے جب اُس کی اُنگلیاں ٹکراتی ہیں تو فگار اُنگلیوں سے بہنے والاجگر کا خون فرشِ زمین پر ہر طرف بکھر جاتا ہے ۔ مظلوم انسانوں کے کرب کی آواز کو لوحِ دِل سے نقل کر کے صفحہ ٔ قرطاس پر منتقل کرنا جا ن جوکھوں کا کام ہے ۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے بے بس انسانیت کی مظلومیت اور درندوں کی سادیت پسندی کے نفسیاتی مطالعہ پر توجہ دینا افسانہ نگار کی اہم ترین ذمہ داری ہے ۔ تمھاری طر ح کئی ذہین افسانہ نگار ایسے بھی ہیں جو پہلے تو سنسنی خیز المیہ افسانے لکھتے تھے مگر جب انھیں کوئی مخلص دوست نہ مِل سکا تو وہ دشمنوں کے فریب میںآ گئے اور اُن پر اعتماد کرنے لگے ۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں اور ابن الوقت محسن کُشوں کے بکھیڑوں نے خود انھیں ایک المیہ افسانہ بنا دیااور اہلِ جور نے انھیں اس دنیا کے آئینہ خانے میں تماشا بنا دیا۔‘‘
اپنے بڑے بھائی کی نصیحت سُن کر میں سوچنے لگا کہ ا س دنیا میں خوابوں کی خیابا ں سازیاں انسان کو نت نئی قلابازیاں کھانے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔ انسانیت کے وقار پر مکر و فریب،دغا و دُزدی ،جبر و اِستبداد ،پیمان شکنی،محسن کشی اور ٹھگی کی قبیح واردات کے مرتکب درندوں کی سادیت پسندی کا پردہ فاش کرنا اور مظلوموں سے عہدِ وفا استواررکھنا ایک کٹھن مر حلہ ہے ۔کوئی نصف صدی پہلے کی بات ہے میرے بڑے بھائی شیر خان کا رمضوٹھگ سے پالا پڑا ۔اُس زمانے میں کہرام ٹھگ کے تینوں بیٹے رمضو ٹھگ،نازی ،رازی اور ایازو بُری صحبت میں مبتلا ہوکر چوتیاں چٹخاتے پھرتے تھے ۔میرے بھائی شیر خان نے ان کی حالت ِزار دیکھ کر انھیںکام پر مائل کیا اور یہ کندہ ٔ ناتراش باروزگار ہو گئے ۔ رسوائے زمانہ پینترے باز اور مرغ ِ باد نما رمضو ٹھگ سے میری جان پہچان اسی زمانے کی یاد ہے ۔دریائے چناب کے سیلاب سے جھنگ کو محفوظ رکھنے کے لیے تعمیر کیے گئے حفاظتی بند کے مشرق میں ایک نشیبی علاقے کی کچی آبادی مستریا ںوالی بستی میںاُپلوں کے ڈھیر جیسے عفونت زدہ کھنڈرمیںدس افراد پر مشتمل اس گھرانے کا بسیرا تھا۔ یہ شکستہ جھونپڑا جو طوفانِ نوح ؑ کی باقیات تھا اپنے مکینوں کی زندگی کی بے سروسامانی پرنوحہ کناں تھا۔ جب کہرام ٹھگ کی پانچ بیٹیوں نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو غربت و افلاس کے بادل چھٹ گئے اور اِس گھر میں ہُن برسنے لگا۔ زندگی کا معیار بدلنے کے ساتھ ہی اِن سب کا مزاج بھی بدل گیا۔عشرت کدے تعمیر ہونے لگے اور بڑے بڑے فارم ہاؤس اِس خاندان کی ملکیت بن گئے ۔ اپنے ٹھکانے اور پینترے بدلنے میں رمضوٹھگ کا کوئی ہم پلہ نہ تھا۔ رمضوٹھگ یہ بات بر ملا کہتا کہ لکشمی دیوی کے کرم سے اُس کے تیرہ و تار مقدر چمک اُٹھے ہیں۔رمضوٹھگ کی نائکہ بیوی تفسہہ کہتی تھی کہ دولت کی یہ ریل پیل پارواتی دیوی کی کرپا کا نتیجہ ہے۔ رمضوٹھگ اپنی بہنوں ،ماں اور بیٹیوں کو لے کر نئے زمانے اور نئی صبح و شام کی جستجو میںجھنگ سے نکل گیا اور سیاہی وال جا پہنچا۔ رمضوٹھگ نے کالا دھن کمانے کے لیے اپنے مورث ادنیٰ بہرام ٹھگ کی طرح ہر حربہ استعمال کیا اور عزت ،غیرت اور ضمیر کی نیلامی سے تجوری بھر لی ۔ رمضو ٹھگ کا بد طینت لے پالک بیٹا گنوار انتھک سمگلنگ میں ملوث سسلین مافیا کا آلۂ کاربن گیااور بلوچستان کے بیابان صحرائی علاقے میںجہاں سیکڑو ںکوس تک کسی انسان کی شکل دکھائی نہیںدیتی ایک چور محل میں ٹھکانہ کر لیا۔
بلوچستان کے ضلع بولان کی یونین کونسل مچھ ( Machh)کے پہاڑی سلسلوں اور گھنے جنگلوں میں منشیات کادھندہ کرنے والے گنوار انتھک نے اپنے والدین سے بھی رابطہ رکھا۔جرائم پیشہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگ گنوار انتھک کی سادیت پسندی نے مجبور اور مظلوم انسانوں کے لیے بلائے نا گہانی کی صورت اختیار کر لی۔منشیات، سمگلنگ اور انڈر ورلڈ کے سرغنہ گنوار انتھک نے سسلین ما فیا سے اپنے روابط کو بڑھایا اور کالا دھن کمانے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ گنوار انتھک جس سفاکی سے مظلوم انسانوں کے پیراہن ِ حیات کو چاک چاک کرتا سوزن ِ تدبیر کی رفوگری بھی کسی کام نہ آتی اور وہ درد لادوا بن جاتا۔اکثر لوگ اس کے تکیہ کلام کی وجہ سے گنوار انتھک کو مگر مچھ کہتے تھے ۔وہ جہاں بھی جاتا اپنی جائے واردات کو ضرور یاد رکھتا۔ ہر سوال کے جواب میں وہ پہلے ’’ مگر ‘‘ کہتا اور اس کے فوراً بعد اپنی جائے واردات ’’ مچھ ‘‘ کا نام لے کر اپنے جرائم کے مرکزقصبے کو یاد کرکے آہیں بھرتا اور ٹسوے بہاتاتھا۔ اس کے تکیہ کلام کی چند مثالیں درج ہیں :
کچھ عرصہ قبل گنوارانتھک جب رابن ہڈ کے پڑ پوتے اور بہرام ٹھگ کی نواسی کے پوتے ایازوٹھگ کے پاس سیاہی وال پہنچاتو ایازو ٹھگ نے اپنے اِس ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز درندے کے سراپا کو غور سے دیکھا اور حیرت سے کہا :
’’ گنوارانتھک ! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رمضوٹھگ نے تمھیں کوڑے کے ڈھیر سے اُٹھا کرپروان چڑھایا۔ دو سال پہلے تم سیاہی وال چھوڑکر قسمت آزمائی کے لیے مچھ چلے گئے ۔آج تم مجھ سے ملنے آئے ہو تم پر کیااُفتادپڑی کہ تمھارے سر کے سارے بال سفید ہو گئے ہیں؟ کچھ عرصہ ہمارے پاس سیاہی وال میں رہو تو تمھیں معلوم ہو جائے گاکہ رُو سیاہی کس چیز کانام ہے ۔پتھر کے زمانے کے ماحول کے امین اِس شہر ِ نا پُرساں میںمقدر کی تاریکی انسان کو جگ ہنسائی کے بے آب و گیاہ ریگستانوںمیں بھٹکنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔قحط الرجال کا وبال سیاہی وال کا احوال ہے اور یہاں جب دیکھو باسی کڑی میں اُبال ہے ۔بُوڑھی گھوڑی اور لال لگام کا یہاں کمال ہے ۔میں تمھیں چکوال کی ریوڑیاں کھلاؤں گا، تمھارے لیے بھیرے کی مہندی منگواؤں گا اس مہندی کے لگانے سے تمھارے سر کے بال بھی تمھارے چہرے اور دِل کے مانند کالے ہوجائیں گے ۔‘‘
رمضو ٹھگ نے جب ایازو کی باتیں سُنیں تو بولا:
’’ اپنا ماضی کسے یاد رہتاہے ؟ گنوار انتھک کو کُوڑے کے ڈھیر سے اُٹھانے کے بعد میں نے اور نائکہ تفسہہ نے بڑی محنت سے پالا ۔ہم اس کے والدین تو نہیں مگر ہم نے پوری کوشش کی کہ اسے حقیقی والدین جیسا پیار دے سکیں ۔‘‘
گنوار انتھک نے رمضو ٹھگ اورایازوٹھگ کی طرف معنی خیزنگاہوں سے دیکھااور کہا:
’’ میں یہ بات تسلیم کرتاہوں کہ رمضو ٹھگ نے میری جان بچائی ۔ اس خرابے کے دُکھ اور صدمات اتنے زیادہ ہیں انسان کا سینہ و دِ ل حسرتوں سے چھا جاتاہے ۔فرہاد کے بعدکوہ کنی میرا مقدربنی اورقیس کی ہلاکت کے بعدمیں نے نجد کے صحرا اور بیابان آباد کرنے کی ٹھان لی ہے ۔سیاہی وال میں رہتے ہوئے تم لوگ نہ جانے کن بکھیڑوں میں پڑ گئے دو سال کے عرصے میں میرے تو صرف سر کے بال ہی سفید ہوئے ہیں مگر تمھارا تو خون بھی سفید ہو چکاہے۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے اپنے بھائیوں ،بہنوں اور یتیم بھتیجوں کو اپنی راہ سے ہٹا کر اُن کی ساری جائیداد پر قبضہ کر لیا ہے ۔ آثار قدیمہ کے ماہرین کاخیال ہے کہ ’’وال ‘‘کے لاحقے والے شہر اپنا الگ مزاج رکھتے ہیں ۔ خانیوال ،ملک وال ،بھلووال، ساجھو وال ،چکوال ،کانڈی وال اور ہانڈی وال وغیرہ ۔ آہ ! میں مگر مچھ کا کیا کروں جس کی یادیں میرے دِل میں بس گئی ہیں۔ یہ سب شہر اپنی جگہ خوب صورت ہیں مگر مچھ کی تو بات ہی الگ ہے ۔ ‘‘
یہ سُن کر اُجرتی بد معاش اور پیشہ ور لٹیرے ایازوٹھگ نے قہقہہ لگایا اور کہا :
’’ یہ ہانڈی وال تو کوئی شہر نہیں یہ تواپنے ہم پیشہ و ہم مشرب ساتھیوں کے بارے میں کہا جاتاہے ۔جیسے رابن ہڈاور بہرا م ٹھگ ہم سب اُچکوں ،ٹھگوں اور پیشہ ورقاتلوں کے ہانڈی وال تھے۔ بزرگو ںسے سنا ہے کہ حرف ِ صداقت کو تحریف، تخفیف یا اضافہ جیسی قباحت کی تمازت پگھلا کر نیست و نابود کرد یتی ہے مگر تم جیسے عادی دروغ گو کے مکر و فریب کی کوئی انتہا ہی نہیں ۔ ضمیر کی نیلامی کے بعد اگرچہ تمھاری زندگی کاسفر تو کٹ چکاہے مگر تمھارا پورا وجودکِرچیوں میں بٹ چکاہے اور اب تمھارے پاس کوئی زادِ سفربھی باقی نہیں بچا۔ ایک پیشہ ور ٹھگ کی حیثیت سے تم دنیا کی ہر چیز کو بُھلا سکتے ہو مگر مچھ اور اُس کی نواحی بستیوں کا بُھلانا تمھارے لیے ممکن ہی نہیں ۔گمان ہے کہ تمھاری خاک بھی وہیں پہنچے گی جہاںسے تمھارا خمیر اُٹھا ہے ۔‘‘
گنوارانتھک کا پرانا رقیب غمازو جو لاہور کے مضافات میں شاہدرہ کے قریب ایک یتیم بچے کے آبائی مکان پر قابض تھا۔اُس نے بتایا کہ گنوار انتھک کی کوئی بات اپنے آبائی قصبے مچھ کے ذکر کے بغیر مکمل ہی نہیں ہو سکتی تھی ۔ایک شام وہ غمازوکے ہمراہ لاہور کے آثار قدیمہ کی سیر کرر ہاتھا۔ مغل شہنشاہ جہاں گیر اور نو رجہاں کے مقبرے پر پہنچا تو زارو قطار رونے لگا اور چیخ مار کر کہا:
’’ جہاں گیر کا مقبرہ بھی قدیم طرز تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے مگر مچھ جیل کی تو کیا ہی بات ہے ۔سال 1929ء میں سنگلاخ چٹانوں اور پہاڑوں کے درمیان تعمیر ہونے والی اِس تاریخی جیل میں میری زندگی کے حسین مہ و سال گزرے ہیں ۔ مجھے اپنی زندگی میں جو بھی دکھ اور درد ملے وہ میں نے دوسروں کے سر تھوپ دئیے ،میں نے زندگی بھر کسی کا احسان نہیں لیاہاں میری گردن بادہ و ساغرکے بارِ احسان سے ہمیشہ خم رہے گی ۔ قفس کو میں اپنا دوسرا گھر سمجھتاہوں ملک میں اور بھی زندان ہیں مگر مچھ جیل کی اذیت و عقوبت اپنی مثال آپ ہے ۔‘‘
شاہدرہ کے قریب سے گزرنے والی ریلوے لائین نو آبادیاتی دور کی یاد دلاتی ہے ۔لاہور ریلوے سٹیشن کو دیکھ کر گنوار انتھک نے کہا:
’’ مجھے معلوم ہے کہ کراچی سے پشاور جانے والی اس ریلوے لائین پر سال 1860ء میں ریلوے سفر کا آغاز ہوا۔ لاہورریلوے سٹیشن کی قلعہ نماعمارت کی دل کشی کی بات درست ہے مگر مچھ ریلوے سٹیشن کی فطری سادگی ،قدامت ،ندرت ،سکوت اور تنہائیوںکا مقابلہ دنیا کا کوئی ریلوے سٹیشن نہیں کر سکتا۔مجھے ارض ِ وطن کے چپے چپے سے محبت ہے مگر مچھ کی خاک کا ہر ذرہ میرے لیے دیوتاہے ۔ کوئٹہ سے پچاس کلو میٹر جنوب میںواقع وسیع کوہستانی علاقہ بہت حسین مگر مچھ جیسے قصبے کی اِس کوہستانی علاقے میں موجودگی فطرت کے مقاصد کی ترجمانی کی ایک صورت ہے ۔ ‘ ‘
منشیات کے پھندے اور اس سے وابستہ گورکھ دھندے کی وجہ سے گنوار انتھک طویل سفر کرنے کا عادی تھا۔اپنے ایک بزرگ مَل تشفی کنجڑے کے نواسے کرگس صحرائی سے ملنے یہ ابلہ کالاباغ پہنچا۔ کرگس صحرائی نے اس پیشہ ور لٹیرے کو اپنے علاقے میں سیر و سیاحت کی دعوت دی اور کہا ـ:
’’ کالا دھن بٹورنے کی دوڑمیںبہرام ٹھگ کے خاندان کے سب افراد نے اپنے ضمیرکی نیلامی کے اشتہار لگارکھے ہیں۔ حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ اب جرائم کے احتساب کا تصور ہی عنقا ہے ۔میںبھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے اور اپنی تجوری بھرنے کی خاطر زندگی بھر لوگوں کو سبز باغ دکھاتا رہا ہوںمیری دلی تمناہے کہ تمھیں بھی سبزباغ دکھاؤںاور تمھارا دِل بہلاؤں مگر وقت کی کمی کے باعث آج تو صرف کالا باغ کی سیر کریں گے ۔‘‘
گنوار انتھک نے کرگس صحرائی کی لاف زنی کے جواب میں کہا:
’’ ارے او ٹھگی،چوری ، رہزنی اورڈکیتی سے اپنی توند کا دوزخ بھرنے والے مچھندر کرگس صحرائی!مجھے یقین ہے تم اپنی عادت سے مجبور ہو کر اپنی جبلت مطابق مجھے سبز باغ ضرور دکھاؤ گے مگر مچھ کی بات ہی نرالی ہے ۔ تم جب میرے پاس قیام کرو گے تو میں تمھیں دِن میں تارے دکھادوں گااور تمھیں چھٹی کادودھ یاد آ جائے گا۔ تمھارے شہر میں بھی بِکاؤ حسن کی فراوانی اور ضمیر کی ارزانی ہے مگر مچھ والی بات یہاں ممکن نہیں۔تم میرے پاس میری جنم بھومی مچھ آنا یہاں کوئلے کی کانیں ہیں اور تمھارے لیے کوئلے کی دلالی میں منھ کالا کرنے کے بے پناہ مواقع ہیں۔ یہاں ایک بستی مگر مچھ نگر کے نام سے مشہور ہے جو بھی یہاں پہنچا وہ آدم خور قبائل اور اُن کے پالتو مگر مچھوں کا لقمۂ تر بن جاتاہے ۔اس پر اسرار بستی پر موت کا عفریت منڈلاتاہے اسی لیے کوئی اس بستی کا رخ نہیں کرتا۔‘‘
یہ سنتے ہی اپنے ہوش و خرد کو بارہ پتھر کرنے والا کرگس صحرائی اپنی گنجی کھوپڑی کو سہلانے لگا اورمصنوعی جوش دکھاتے ہوئے پھنکارتے ہوئے بولا:
’’ یہ تم نے مگر مچھ کی جو رٹ لگار کھی اس سے یہ تاثر ملتاہے کہ واقعی مگر مچھ سے تمھارا کوئی گہرارشتہ ہے ۔تم مگر مچھ سے رشتہ نبھانے کی فکر میں مبتلاہو۔‘‘
تشفی مَل کنجڑایہ سب باتیں سُن کر حیرت و حسرت میںڈُوب گیااور گنوار انتھک سے مخاطب ہو کر بولا:
’’ میں تمھاری دعوت قبول کر کے درد سے عاری بھاری پتھروں میں گِھرے تمھارے آبائی قصبے مچھ میں تم سے ملنے ضرور آؤں گامگر مچھ میں کوئلے کی کانوںسے نکلنے والے پتھر کے کوئلے کی دلالی میںاپنا منھ کالاکرنے کی مجھ میں تاب نہیں ۔یہاں سیاہی وال میں میری بیٹی نائکہ تفسہہ نواسیوں شگن ،سمن ، مصبہا بنو اور نواسوں اذکارو اور تنوارانے رقص و موسیقی اور قحبہ خانے کا جو دھندہ شروع کر رکھا ہے اُس کی وجہ سے نہ صرف اپنے گھر میں بل کہ شہر بھر میں ہر روز میرا منھ کالا ہوتاہے۔میری اس قدر ذلت و رسوائی اور جگ ہنسائی ہو رہی ہے کہ میں کسی کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ میں گھر سے بازار کو نکلتا ہوں تو جب اہل شہر کی دو طرفہ ندامت اور بھرے بازار کی ملامت میرا تعاقب کرتی ہے تومیرا زَہرہ آب ہو جاتاہے ۔میرا گھر تو میرے لیے عقوبت خانہ اور چنڈو خانہ بن گیاہے جہاں میں سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کر رہا ہوں۔ تم نے ہر با ت میں مگر مچھ کی رَٹ لگا رکھی ہے میری مانو تو ایک مگر مچھ اپنے گھر میں پال کر اُس سے دِل بہلاؤ ۔ ‘‘
شدید عفونت اور سڑاند سے لبریز جھگڑوں اور فسادات کا سر غنہ اُجرتی بد معاش اور پیشہ ور ٹھگ گنوارانتھک بڑی توجہ سے کرگس صحرائی اور تشفی مَل کنجڑے کی باتیں سُن رہاتھااچانک اُس نے جمائی لی اور اپنے بھاڑ جیسے منھ سے بہنے والے جھاگ کو اپنی آستین سے صاف کرتے ہوئے ہوا میں ہاتھ لہرایا ۔اس کے فوراً بعد گنوارانتھک نے اپنے پٹاری کھولی تو اُس میں سے ایک مگر مچھ نے زمین پر چھلانگ لگادی ۔ غذا کی کمی کے شکار دُبلے مگر مچھ کو تیزی سے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر تشفی مَل کنجڑے کے اوسان خطا ہو گئے ۔ گنوارانتھک نے مگر مچھ کو دوبارہ اپنی پٹاری میں بند کردیا اور کہا :
’’ تشفی مَل کنجڑے ! میں اگرچہ یہاں موجود ہو ں مگر مچھ کے خواب و خیا ل میرے شریک ِ سفر رہتے ہیں ۔تم خاطر جمع رکھو میرے گھر میں بھی تمھیں اپنے ہی گھر جیسا ماحول ملے گا۔تمھاری بیٹی نائکہ تفسہہ ،نواسی مصبہا بنو اور بہو سموںمجھ پر بہت مہربان ہیں اور مزے مزے کے کھانے تیار کرکے پیش کرتی ہیں مگر مچھ جیسے کھابے یہاں نہیں مِلتے۔ جب تم میرے پاس آؤ گے تو میں پِدی کے شوربے سے تمھاری تواضع کروں گا۔تمھیں کیا معلوم کہ طبی لحاظ سے پدی کا شوربا کس قدر مفید اور فرحت بخش ہے ۔‘‘
’’ تم پورے علاقے کے لیے آفت ِ ناگہانی بن گئے ہو ۔‘‘ کرگس صحرائی نے آہ بھر کر کہا’’ تم چلتے ہو تو اہلِ شہر کی ندامت ،بے بس انسانوں کی ملامت اور تمھاری ذلت ،تخریب اور خست و خجالت تمھارا
تعاقب کرتی ہے ۔ تمھاری حیات ِ رائیگاں کے صحراؤں میں پائے جانے والے عقرب ،مارِ آستین اور شِپر وہ جعل ساز حسینائیں ہیں جو سدا اِس بات کی شدت سے منتظر رہیں کہ کب اُن کی زلف ِ گرہ گیر میں اُلجھ کر کوئی منھ کے بَل گِرتاہے ۔تمھارے گروہ نے ہمیشہ مظلوموں کے حوصلے اور صبر کا امتحان لیا ہے۔حادثے سے کہیں بڑھ کر سانحہ یہ ہوا کہ تمھارے مکر و فریب کے زخم کھانے کے بعد دُکھی انسانیت جبر کے سامنے سپر انداز ہونے کے بجائے اپنی باری بھر کے اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کر زینہ ٔ ہستی سے اُتر گئی ۔ آج مجھے اپنی نحوست بھری حیات رائیگاں کی کہانی اپنی زبانی سناؤ۔‘‘
گنوارانتھک نے مگر مچھ والی اپنی وہ غلیظ پٹاری جس سے عفونت اورسڑاند کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے ایک طرف رکھ دی اور یوں ہرزہ سرا ہوا:
’’ میری زندگی سفلگی ،ٹھگی ،دغا ،دُزدی ،محسن کُشی اور پیمان شکنی کے مداروں میں گھو متی رہی ۔ان میں سے ہر مدار جرائم کے پُر اسرار سرابوں کی نشان دہی کرتا ہے ۔میری پوری زندگی حیرت انگیز ،نفرت انگیز ،خوف ناک اور شرم ناک واقعات سے لبریز ہے ۔لوگ مجھے گنوار سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں عفونت زدہ اور غلیظ کوڑے کے ہر ڈھیر پر مکھیوں کی طرح بھنبھنانے کا عادی ہوں ۔ جرائم کی دنیا میں میں تنہا نہیں بل کہ یہاں میرے ہم پیشہ و ہم مشرب رازدانوں کی کمی نہیں ۔ہمارے گروہ میں شامل جنسی کارکن ، ماڈل اور کال گرلز کااپنا کام ہے ۔وہ محبت کی اداکاری کرکے ایسے ایسے سگھڑ اورسیانے لوگوں کو زیر دام لاتی ہیں جو جان لیوا تنہائیاں سے گھبرا کر جعلی پیمانِ وفا اور ملاقاتوں کے جھوٹے وعدوں پر انحصار کرکے خوار وزبوں پھرتے ہیں ۔اُن کی یہی مہلک غلطیاں اُن کی جگ ہنسائی کا باعث بن جاتی ہیں ۔ سادہ لوح لوگ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس بے حس معاشرے میں ہر کوئی اپنی فضا میںمست پھرتاہو وہاں اپنے گلے میں اپنی ہی بانہیں ڈالنے کے سِوا کوئی چارہ ٔکار نہیں۔ میں نے اَرُوڑ اور سروڑ جیسی جھونپڑیوں میں پرورش پائی ہے ۔ مجھے اپنی نیش زنی سے تکلیف دینے کی خاطر لوگ مجھے احمق کہتے ہیں مگر میں اُن کو اُلّو بنانے کا فن جانتاہوں ۔ میری جھوٹی انا اور کینہ پروری نے مجھے منتقم مزاج اور حاسد بنا دیا ہے ۔ اپنی ایک خفیہ محبت کی خاطرمیں نے اپنی پہلی بیوی جو میرے ماموں کی بیٹی تھی کو اپنی راہ سے ہٹا دیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وٹے سٹے کی شادی کے نتیجے میں میری حقیقی بہن جو ایک بچی کی ماں تھی اسے میرے ماموں کے بیٹے نے اپنے گھر سے فارغ کر دیا۔ دو خاندانوں میں اذیت ناک نفرتوں کا یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے ۔جو بھی میری راہ میں حائل ہوا میں نے اُسے اپنی راہ سے فوراً ہٹا دیا۔میرا باپ رمضو ٹھگ بھی میرے انتقام کا نشانہ بن گیااور منوں مٹی کے نیچے سما گیا۔اب تو میری ہر خوشی میری دوسری بیوی سموں آہن گر سے وابستہ ہے ۔سموں آہن گر کی یہ چوتھی شادی ہے مگر میں نے اِپنی محبوبہ کو اُس کی پہلی شادی سے ہونے والے بچوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت دے رکھی ہے ۔ مجھے اِس کی کوئی پروا نہیں کہ سموں آہن گر کے سابق شوہر اور پرانے آ شنا اپنی اولاد اور اُن کی ماں سے ملنے چلے آتے ہیں۔ میری اپنی کوئی اولاد نہیں مگر سموں آہن گرکی پہلی شادیوں سے ہونے والے بچے مجھے بہت عزیز ہیں ۔ کورونا وائرس کے باعث میرے کاروبا ر کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے ۔ سموں آہن گر کی بڑی بیٹی کی اُٹھتی جوانی دیکھ کر مجھے یقین ہو گیاہے کہ اب میں پھر سنبھل جاؤں گا۔ میں بہرام ٹھگ کا پوتاہوں میرا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ ‘ ‘
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے وہ تکلم کے سلسلوں سے بے نیاز ہے ۔الم نصیبوں اور جگر فگاروں کا سارا معاملہ قلب حزیں کی دسترس میں ہے ۔سال 2020ء دنیا میں اپنے ساتھ کورونا کی عالمی وبا بھی لایا مژگاں میں محفوظ ہو جانے والے مناظر اب بھی خون کے آ نسو رُلاتے ہیں ۔مارچ کا مہینا تھالاک ڈاؤن سے زندگی کو پورا نظام ہی جمود کی بھینٹ چڑھ گیا اس کے باوجود گنوار انتھک جیسے مشکو ک نسب کے درندو ںنے اپنے لیے جس شرم ناک لائحۂ عمل کا انتخاب کیا وہ اُن کی ذلت و تخریب کاثبوت ہے ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں حرص و ہوس کی مظہر محبت نے بھی کورونا وائرس کی صورت اختیار کر لی ہے محسن کش اورپیمان شکن سفہا کے جس قدرقریب جاؤگے یہ اُسی قدرقوت کے ساتھ تمھیں اپنی گرفت میں لیں گے اور تمھاری جان لے کر ہی نکلیں گے ۔یاس و ہراس کے عالم میں توہم پرست لوگ اس وبا سے بچنے کی فرضی تدابیر سوچنے لگے۔اِن حالات میں شعبدہ باز ٹھگوں کی بن آئی اور انھوں نے جنتر منتر ،ٹونے ٹوٹکے اور دم کی آڑ میں خوب اودھم مچایا اور لُوٹ ما رکا بازار گرم کر دیا۔رمضو ٹھگ ، نائکہ تفسہہ ،مصبہا بنو،گنوار انتھک ، ،جھابو،مُرتی ،نازی ،فازی،ایازو اوررازی پر مشتمل پیشہ ور ٹھگوں اور جرائم پیشہ لٹیروں کا ایک گروہ وبا کے دنوں میںبے حسی ،بے غیرتی اور بے ضمیری کی عفونت زدہ چادر اوڑھ کر ساد ہ لوح لوگوں کی زندگی کی سب رُتیں بے ثمر کرنے میں مصروف رہا۔اُس زمانے کے الم ناک واقعات کے چشم دید گواہ چوب دار تغاری نے آہ بھر کر کہا:
’’ لاک ڈاؤن کے باعث شہر سنسان تھااورہر شخص اس وبا کے اثرات کی وجہ سے حیران و پریشان تھا۔ کچھ آدم خور درندوں نے سیاہی وال کو شہر کوراں میںبدلنے کی شرم ناک سازشوں کا آغاز کر دیا۔ چشم ِ بینا رکھنے والے جب اِن حالات کو دیکھتے تو زارو قطار رونے لگتے۔وہ حالات کی سنگینی کا مشاہدہ کرتے توحوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں کرنے کی مساعی پر توجہ دیتے مگررمضو ٹھگ، نائکہ تفسہہ ،مصبہا بنو ،گنوارانتھک ،ازارو،نازی ،فازی،ایازو اوررازی پر مشتمل پیشہ ور ٹھگوں،اُچکوں ،تلنگوں اور لُچوں کا ٹولہ ان کٹھن حالات میں آرزو ،ولولے اور اُمید کی ٹمٹماتی ہوئی مشعل کو بجھانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھتا۔ کورونا کی عالمی وبا کے دوران میںمجبوروں کے حال کی درہمی کو دیکھ کر ٹھگوں کا ٹولہ خوشی سے پھولا نہ سمایا ۔پریشاں حال اوردرماندہ لوگوں کو جھوٹی تسلیاں دینے کی خاطراپنے مکر کی چالوں سے عجیب سماں باندھا۔جعل سازی اور عملیات کے ذریعے جھوٹ کے بازار میں بددیانتی کا تراز و لیے یہ درندے دغا و دُزد ی کی فراوا ں جنس تولتے اور مرہم بہ دست پہنچنے کے دعوے کر کے صبح ومسا جھوٹ بولتے تھے ۔کورونا کی عالمی وبا کے ستم سہنے والے مظلوم اور بے سہارا لوگ اِن شقی القلب ٹھگوں کی اصلیت کو نہ سمجھ سکے اوراپنی متاعِ زیست لُٹوا کر جب خالی ہاتھ اپنے گھروں کو سدھارتے توحسرتوں،محرومیوں اورمایوسیوں کی آ ہ و فغاں اُن کی منتظر ہوتی تھی ۔ بہرام ٹھگ کے اولاد نے اپنے سر غنہ رمضو ٹھگ کی رہنمائی میں کورونا کی عالمی وبا کے دوران میںالم نصیب ،جگر فگار اور بے بس لوگوں کو بڑی بے دردی سے لُوٹااور اُن سے لاکھوں روپے بٹور لیے ۔ کورونا کی عالمی وبا نے دنیا کی معیشت کو منہدم کر دیا مگر اس وبا کے دوران میں بہرام ٹھگ کی اولاد کی پانچھوں گھی میں تھیں ۔ ‘‘
کورونا کی عالمی وبا کے دوران میںجب لوگوں کو جان کے لالے پڑے تھے سیاہی وال کی ایک کچی آبادی سے کچھ دُوررمضوٹھگ کی آخری نشانی پرایک میلی سی چادربچھا کرگنوار انتھک ہر شام توہم پرست اہلِ کرم کی سادگی کا تماشا دیکھنے بیٹھ جاتا اور ’’ سائیں کرونا پرشاد ‘‘ کا بھیس بنا کر سادہ لوح لوگوں کو فریب دیتا۔ اس قدر ابتر معاشرتی حالات میں بھی اِن ننگ ِ انسانیت ٹھگوں کو الم نصیب اور جگر فگار مظلوموں سے دولت بٹورنے کے علاوہ کوئی اورکام نہ سُوجھا۔ لوگ رمضو ٹھگ کے اس فرضی اور خود ساختہ مجاورکو نذرانے ،صدقات اور خیرات دیتے ۔ٹھگی کا یہ سلسلہ پیہم دس ماہ تک جاری رہااوراس کے بعد جب شہر کے لوگوں کو ان عیار چوروں اور پیشہ ور ٹھگوں کی جعل سازی کے بارے میں تمام حقائق معلوم ہوئے تو سب لوگوں نے ان پر دھاوا بول دیا ۔عوامی غیظ و غضب کی تاب نہ لاتے ہوئے ٹھگوں کا یہ ٹولہ وہاں سے ایسے غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
اِ ن سفہا اور اجلاف و ارذال نے ٹھگی کو بھی شطرنج کی بازی بنا دیاجس کی بساط میںمصبہا بنو سب سے کامیاب مہرہ ثابت ہوئی ۔مکر و فریب ،دغا و دُذدی ،پیمان شکنی اور محسن کشی میں مصبہا بنوکا کوئی ثانی نہ
تھا۔بروٹس قماش کی یہ لڑکی بتیس سال کی عمر میں ہزاروں نوجوانوں کو شادی کا فریب دے کر لُوٹ چکی تھی ۔ نوجوان لڑکوں کے بوڑھے والدین کو یہ دھوکا دیا جاتاکہ اعلاتعلیم یافتہ حسینہ مصبہا بنو اب ان کی بہو بن گئی ہے۔ اس قسم کی جعلی منگنیاں کر کے اس حسینہ کے والدین رازداری کے ساتھ شادی کے خواہش مند نوجوان لڑکوں کے ضعیف والدین سے زندگی بھر کی کمائی اور زرومال ہتھیا لیتے۔ منگنی کی صورت میںبہو کی اداکاری کر کے اور تکلف کی رواداری کے ذریعے اِس شعبدہ باز حسینہ نے نوجوان لڑکوں کے سر پر سہرا سجانے کی تمنا رکھنے والے ضعیف والدین کی آ نکھوں میںدُھول جھونک کر اُنھیں کوڑی کوڑی کا محتاج کردیا۔ منگنیاں تو دُھوم دھام سے ہوتیں مگر مصبہا بنوکے والدین جلد ہی شکوک و شبہات اور بد گمانیوں کی مینگنیاں ڈال کر خلوص کے دودھ جیسے صاف اور شیریں رشتوں کو آلودہ کر دیتے۔جب بھی مصبہا بنو کی منگنی ٹُوٹتی وہ خوش ہوتی اور مٹھائیاں تقسیم کرتی تھی۔ اپنی منگنی ٹُوٹنے کے بعد مصبہابنو نہایت ڈھٹائی سے کہتی :
’’ایک نشیمن پر بجلی گری تو کیا ہوامیری نگاہ میں سیکڑوں آ شیا ں اوربھی ہیں ۔ فضا میں بلند ہوا رکھنے والے نوجوان لڑکوں کے سٹھیائے ہوئے اور شکی مزاج والدین کی احتیاطی تدابیر کے نتیجے میں اگر میری ایک منگنی ٹُوٹتی ہے تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں میرے سامنے ہزاروں خاندان اور بھی ہیں ۔‘‘
چوب دار تغاری کاٹھگوں کے اس ٹولے سے واسطہ پڑ چکا تھا۔اُس نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں بتایا:
’’ مصبہا بنوکو جب بھی کہا جاتاکہ تم فلاں ضیعف کی بہو بنو تو وہ آناً فاناً اُس بوڑھے کی بہو کا رُوپ دھار لیتی او ر اُس چراغِ سحری کو بُجھانے کے لیے اپنی مکروہ سانسوں کی ہوا دیتی اور اُس کے گرد گھیرا تنگ کر دیتی ۔اُونچی ہوا میں چڑھنے والی سنگت کی پتنگ کی ڈوری ہوس کی کاٹ سے ٹُوٹ ٹُوٹ جاتی۔ جعلی رشتوں اور منگنیوں کی آ ڑ میں لُوٹ مار کرنے کے بعدمصبہا بنوبے حسی کی چادر اوڑھ لیتی اور کہتی :
’’ جہاں تک زرو مال کی لُوٹ مار کا تعلق ہے بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی کرپٹو کرنسی (Cryptocurrency) کی ملکہ رُوجا اِگناٹوا ( Ruja Ignatova) بھی میرے قدموں کی دُھول ہے ۔ میں نے اور میری ضعیف والدہ نائکہ تفسہہ نے برج الضعیفہ میں کئی پُر تعیش فلیٹ خریدے ہیں۔ وطن عزیز سمیت دنیا کے کئی ممالک کے بڑے شہروں کے نواح میں ہمارے فارم ہاؤس موجود ہیں۔‘‘
غفوراں پھونک پھونک کرقدم رکھنے کی عادی خاتون تھی ۔ اُس کے بیٹے رافع کے ساتھ مصبہا بنو کی منگنی کر دی گئی ۔ ا س کے ساتھ ہی مصبہا بنو نے عشوہ و غمزہ و ادا کے تیر چلا کر اس منگنی کی آڑ میں سادہ لوح خاندان کے گھر میںجھاڑو پھیر دیا۔نائکہ تفسہہ کی پروردہ اُس کے قحبہ خانے میں جنسی کارکن کی حیثیت سے کام کرنے والی حسیناؤں کا حسن و جمال ،عشوہ و غمزہ و ادا اور عہد و پیما ن بھی ناقابلِ برداشت قسم کی ایک جذباتی دہشت گردی کی صورت اختیار کر جاتی جس کی تاب لانا بہت مشکل تھا۔ ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ سات آسمان را ت دِ ن گردش میں رہتے ہیں۔ مصبہا بنوکی بے شمار منگنیوں کی داستان بھی اِسی گردش ِمدام کی آ ئینہ دارہے ۔ دِلی اُمنگ کے نتیجے میں منگ کے بعد سنگ کی کبھی نوبت ہی نہ آ ئی اور لڑکوں کے ضعیف والدین پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا۔غفوراں نے آ ہ بھر کر کہا:
’’ میں نے اس طرح کی دو سو منگنیاں عجیب ڈھنگ سے ہوتی اور ٹُوٹتی دیکھی ہیں ۔ میں بھی اُن مظلوموں میںشامل ہوں جو بہو بنو کے اِس کھیل میں در بہ در اور خاک بہ سر ہیں۔ گنوار انتھک ایک ایسا خطرناک بھڑوا ہے جس نے اپنی بہن اور ماں کی خرچی کی کمائی سے عشرت کدے تعمیر کیے ہیں۔ ذلت ،تخریب ،نحوست ،بے برکتی ،بے غیرتی اور بے حیائی کا شرم ناک کھیل اسی عیار ٹھگ کی وجہ سے جاری ہے ۔ہر لحظہ نیا منگیتر نئی منگنی کی روداد توبہ توبہ اِن سفاک ٹھگوں کی بے رحمانہ اور بد بختانہ لوٹ مار کا مرحلہ طے ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔منگ اور سنگ کے ٹوٹنے کے اس کھیل کے بارے میں مجھے نو سو چوہے کھا کر گنگا کی یاترا پر روانہ ہونے والی ایک تارک الدنیا راہبہ ’’ مہابِلّی ‘‘ کا واقعہ یاد آتاہے جس نے سیال کوٹ کے نواح میں واقع پُورن بھگت کے کنویں کی غواصی کر کے تپسیا کی اور لکشمی دیوی ،رتی دیوی اور کالی دیوی سے آشیر باد حاصل کرکے نروان حاصل کیا ۔مہابِلّی نے سیال کوٹ سے مکروال کا رُخ کیا اور وہاں ایک کچی آبادی میں مستقل طور پر بسیرا کر لیا ۔کہتے ہیں قسمت کی دیوی نے مہابِلّی پر اس قدر مہربانی کی کہ اُس کی سدا نئی آن بان اوراُٹھا ن سامنے آتی ۔جب بھی کوئی عقیدت مند اِس پُر اسرار حریص راہبہ سے مِلنے جاتا اُس کا نیا آ ہنگ،الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجہ سب کو حیران کر دیتا۔ اُس راہبہ کی زندگی کا ہر ڈھنگ اُس کے سیاہ دِل کی نئی اُمنگ کی عکاسی کرتا۔اس کے باوجود جب کوئی شخص اس مہابِلّی کی چال ڈھال پر گرفت کرتا تو یہ کھسیانی ہو کر کھمبا نوچنے لگتی اور اِس کے شیدائی بھیگی بِلی بنے سب کچھ دیکھتے رہتے ۔ کئی توہم پرست لوگ اسی آس پر زندگی کے دِن پورے کر رہے تھے کہ شاید کسی صورت مہابِلّی کے بھاگوں چھینکا ٹُوٹنے کی نوبت آ جائے ۔حیران کن بات یہ تھی کہ ہر بار کئی نئے چہرے اور نامانوس عیاش اس راہبہ کے شریک کار اور شریک زندگی بن کر نئی تابندگی کا اظہار کرتے ۔ مہابِلّی کے عشرت کدے میںوقت کے اس قدر تیزی سے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر پنجابی زبان بولنے والے مقامی لوگ اکثر یہ بات دہراتے تھے :
’’ مہا بِلّی سدا نویاں ‘‘
ترجمہ : مہابِلّی کی محفل میںسدا نئی آ ب و تاب دیکھی جاتی ہے ۔
مصبہابنو کا بھی یہی حال تھا جو بھی اس سے ملتاوہ اُس کی کسی نہ کسی کے ساتھ نئی منگنی کی خبر لاتا۔ وقت کے اس سانحہ کو کس نام سے تعبیر کیاجائے کہ ابتدا ہی میں سب منگنیاں ٹُوٹ جاتیں اور اس جعلی تعلق کی انتہا کوئی نہ لا سکا۔ ‘‘
گنوار انتھک کی ٹھگی میں اس کے تمام اہلِ خانہ بھی شامل تھے ۔ان پیشہ ور ٹھگوں نے جن سادہ لوح لوگوں کو لُوٹااُن میں جالب، موہن ، راجو، کہرام، جلال،رافع،مبشر ، شبیر،طاہراور کرشن شامل ہیں ۔معاملہ فہم لوگ ان مظلوموں کو سمجھاتے کہ گنوار انتھک اور اس کا ٹولہ بھی کورونا جیسے جان لیوا اور لادوا وائرس ہی کی ایک شکل ہے ۔اس کی زد میں آنے والوں کو صبر و استقامت سے کام لیتے ہوئے کچھ عرصہ کے لیے قرنطینہ میں رہنا چاہیے ۔اس طرح نہاں خانۂ دِل میں نمو پانے والے انتقامی جذبات پر قابو پایا جا سکتاہے ۔مایوسی اور محرومی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو زندگی میں ایسے مسائل سر اُٹھاتے ہیں جن کا کسی مسیحا کے پاس کوئی حل موجود نہیں ۔یہی وہ مقام ہے جہاں ذہن و ذکاوت کی بے بسی دیکھ کرانسان کی نا رسائی اور عبرت ناک مجبوری پر تر س آتاہے ۔گنوار انتھک کے ہاتھوں لُٹنے والوں کے ذہن میں کئی سوال تھے مگر ان کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ حالات نے انھیں ایک ایسے موڑ پر پہنچا دیا کہ وہ اپنی زندگی کے باقی ایام میں انہی سوالوں کا جواب تلاش کرنے میں جی کا زیاں کرتے رہے۔ یہ فریب خورد ہ لوگ خوب سے خوب تر کی جستجو میںہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جانے والے شعبدہ بازوں کے جال میںپھنس گئے ۔ ان کی مثال ِ ترکی ،عرب اور مارگن اسپان کی تھی جو گندم کے رسیا تھے مگراَب سادہ بُھس سے بھی محروم تھے ۔ یاس و ہراس کے صحرا کے اِن آ بلہ پا مسافروں کو گردشِ ایام نے قلعۂ فراموشی کااسیر بنا دیا جہاں وہ مکمل انہدام کے قریب پہنچ گئے ۔محبتوں اور چاہتوں کی موہوم منزلوں کے یہ درماندہ رہرو جب اپنی میزان ِ صبح و شام پر نظر ڈالتے تو اِس نتیجے پر پہنچتے کہ مجبوریٔ حالات نے اُنھیں ایسے سرابوں کی جانب دھکیل دیا جو جان لیوا عذابوں سے کم نہ تھے جب چڑیا ںکھیت چُگ کر اُڑ گئیں ، فصل کی برداشت کے بعد فصلی بٹیرے لمبی اُڑان بھر گئے اور سانپ نکل کر اپنے بِل میں جا گھسا تو جالب، موہن ، راجو، کہرام، جلال،رافع،مبشر،طاہراور کرشن کفِ افسوس مَلنے لگے۔اپنی تباہ کن غلطیوں سے وابستہ حقائق اور احتسابِ ذات کے تصور کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ لوگ طویل عرصہ تک اُن عیارو ںسے وفا کی توقع میںخجل ہوتے رہے جو وفا کے مفہوم ہی سے نا آشنا تھے ۔آلام ِ روزگار کی زد میں آ کر بکھر جانے والے یہ لوگ حالات کی قبروں کے کتبوں کی صورت بن گئے تھے جنھیں سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں نے کرچی کِرچی کر دیا تھا۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ زندگی کا سفر نہایت کٹھن اور پر اسرار ہے مگر اپنے من کی غواصی کر کے زندگی کے گوہریکتا کی جستجو اس سے کہیں بڑھ کر صبر آزما مرحلہ ہے ۔
نوجوان بیٹے کی وفات کے بعد ضعیف معلم شبیرآنے والے حالات کا صحیح ادراک نہ کر سکا۔ کاروان ِہستی کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ یہ ہمیشہ وقت مقررہ کے مطابق صحیح سمت میںرواں دواں رہتاہے ۔ ضعیف معلم شبیرکی کوتاہی یہ تھی کہ وہ مرہم بہ دست مسیحا کا سوانگ رچا کر آنے والے رہزنوں کو نہ پہچان سکا۔برادرانِ یوسف اور بروٹس قماش کے آ ستین کے سانپوں نے اُس کا صبرو قرار،زرومال اور متاعِ علم کو لُوٹ لیا۔ دِلِ حزیں کے ہاتھوں مجبور ہو کرضعیف معلم شبیرفکری توازن اور فیصلوں میں اعتدال قائم نہ رکھ سکااور موہوم خوشیوں کی جستجو میں پیشہ ور ٹھگ گنوارانتھک کے اہلِ خانہ کے مکر و فریب کے جال میں پھنس گیا۔گنوارانتھک نے اپنی بہن مصبہا بنو کو ضعیف معلم شبیر کی بہو بننے کی ذمہ داری سونپ دی اس قسم کے ڈراموں میں مصبہا بنویہی کردار سیکڑوں مرتبہ ادا کر چکی تھی ۔ضعیف معلم شبیرکی بہو کا کردار ادا کرتے وقت مصبہابنونے حسب معمول مگر مچھ کے آ نسو بہاتے ہوئے کہا :
’’ اے ضعیف اُستاد! مرگِ نا گہانی کے صدمات اور اِس عالمِ تنہائی میں تمھاری زندگی کو شدید خطرات کا سامنا ہے ۔ میں تمھاری بہو بننے والی ہوں اَب غم و آلام کی تلاطم خیز موجوں میں تمھاری کشتیٔ جاں کو ساحلِ عافیت تک پہنچانا میری ذمہ داری ہے۔ میںگزشتہ دو سال ( 2015-2017)سے سر گودھا شہرکی ایک نئی جامعہ سے قدیم دکنی اور موجودہ اردوزبان کے افعال کا تقابلی جائزہ کے اہم موضوع پر اردو میں ایم ۔فل کر ر ہی ہوں ۔میرا رول نمبر PURSO-15 E 05 ‘‘ہے ۔میں نے تمام متعلقہ مواد مختلف ذرائع سے جمع کر لیاہے ۔‘‘
رنج و اَلم کے ستم کھا کر نیم جاں ہوجانے والے ضعیف معلم شبیرکے لیے یہ بات حیران کن تھی کہ ایک اجنبی نو جوان حسینہ پہلی ملاقات میں اس قدرخلوص کے ساتھ اُسے صبر، حوصلے اور اعتماد سے کام لینے کا مشورہ دے رہی ہے ۔وہ دِل ہی دِل میں سوچنے لگاکہ پریشاں حالی اور درماندگی کے اِن لمحات میں اُس کے زخموں پر مرہم رکھنے والی یہ عورت شاید اُس کے لیے ابرِ کرم کی صورت بن کر آ ئی ہے جوکِشت ِجاں کو سیراب کر دے گی اور گھر کے آ نگن میں اُمنگوں کے گل ہائے رنگ رنگ کھل اُٹھیں گے ۔وہ اِس نتیجے پر پہنچا کہ کسی ایسے انسان کو جو حالات سے اس قدر دِل برداشتہ ہوکہ مرگِ ناگہانی کی راہ دیکھ رہاہوزندگی کا مژدۂ جانفزا سنانا خلوص ،مروّت ،وفا اور ایثارکا ارفع ترین معیار ہے ۔ فہم و فراست کی نارسائی اور فکر ِانسانی کا سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ وہ بالآخرکسی نہ کسی فریب کا شکار ہو کر اُسی چیز کے طلسم کے اسیر ہو جاتی ہے جسے گرفت میں وہ سالہا سال سے ناکامی کا منھ دیکھ رہی ہے ۔ضعیف معلم شبیرنے آ ہ بھر کر کہا:
’’جس موضوع ِ تحقیق کا تم نے ابھی ذکر کیا ہے اُس پر میرا مقالہ میرے بیٹے سجاد نے اردو ان پیج میں کمپوز کر کے اپنے دو قیمتی لیپ ٹاپ اور یو ایس بی میں محفوظ کیا تھا۔ چھے جولائی 2017ء کو قزاق ِ اجل نے جب ہمارے گھر کے گلشن سے یہ پھول توڑا توموقع پرستو ں نے سجاد کا جو اثاثہ لوٹ لیا اُس میں دو قیمتی لیپ ٹاپ،ایپل کے دو موبائل فون ،انعامی بانڈ،گھر کے زیورات اور ایپل کی دو گھڑیاں شامل ہیں ۔ چونکہ واردات کا ارتکاب کرنے والوں کو موقع پر رنگے ہاتھوں پکڑا نہیںجا سکا اس لیے چوروں،ٹھگوں اور ڈاکووں کا ٹولہ یہ سمجھنے لگاہے کہ سجاد کا تمام سامان تو اُن کی پیدائشی میراث تھا۔رابن ہڈ کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ غریبوں کی مدد کرتا تھامگر تم ایسے ڈاکو ہو جو اپنی تجوری بھرنے کی خاطر غریبوں کو زندہ درگور کر دیتے ہو۔ ‘‘
عینی شاہدین نے بتایا کہ مصبہا بنو اور گنوارانتھک نے ضعیف معلم شبیرکے بڑے بیٹے سجاد مرحوم کے وہ دو قیمتی لیپ ٹاپ بھی اُچک لیے جس میں اس نے اپنے باپ کا لکھا ہوا چار سو صفحات کا ایک اہم مقالہ ’’ دکنی اور موجودہ اُردو زبان کے افعال کا تقابلی جائزہ ‘‘ دِن رات ایک کر کے بڑی محنت سے کمپوز کیا او راُسے اشاعت کی غرض سے محفوظ کیا تھا۔مصبہا بنونے اپنی جسارت سارقانہ اور چربہ سازی سے اسی مقالے پر پنجاب کی کسی نئی جامعہ سے( 2015-2017) سیشن میں ایم۔فل ( اُردو ) کی ڈگری حاصل کر لی اور ملازمت ملتے ہی ضعیف معلم شبیرکے خاندان سے تمام روابط منقطع کر لیے ۔ جعلی منگ اور فرضی سنگ کے بدلتے اور ٹُو ٹتے مرضی کے ڈھنگ دیکھ کر سب احباب دنگ رہ گئے۔گنوارانتھک اور مصبہا بنونے مِل کر ضعیف معلم شبیرکو زیر دام لانے اور اُسے پیہم فریب دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔ضعیف معلم شبیرنے اپنے چھوٹے بیٹے کی شادی کے حوالے سے مصبہا بنو کی ماں نائکہ تفسہہ سے کہا :
’’بعض اوقات حالات ایسا رُخ اختیار کر لیتے ہیں کہ دِل کے افسانے نگاہوں کی زباں تک پہنچ جاتے ہیں۔ایسی صورت میں انھیں جنبشِ لب سے نہیں بل کہ پلکوں کی سر سراہٹ سے بیان کیا جاتاہے ،گریزاں لمحات کو گرفت میں لانا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ۔سجاد کی رحلت کے سانحہ نے دِلِ بے تاب میں دِل کش خوابوں کی دنیامیں زلزلہ بر پا کر دیاہے ۔مصبہا بنو کی شادی کے اِس نیک کام میںہم مزیدتاخیرکے متحمل نہیں ہو سکتے۔میں پہلے ہی اپنے بڑے بیٹے سجاد کی الم ناک وفات کے صدمے سے غرقاب ِغم ہوں ۔چھوٹے بیٹے کی شادی کی تاریخ کے سلسلے میںاَب تمھاری جھوٹی تسلیاں اور مانوس دلاسے بھی ہمیں متوجہ نہیں کر سکتے ۔‘‘
کوثر نے اپنے والد کی باتیں سُن کر کہا:
’’تم نے میرے ضعیف والد کو منظم انداز میں جس بے دردی سے لُوٹاہے وہ اس قدر خطر ناک ہے کہ اس سے میرے مظلوم والدین کی زندگی خطرے میںپڑ گئی ہے ۔ تمھاری شان و شوکت اور مال و دولت کا محنت ،لگن اور دیانت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں تم نے سادہ لوح لوگوں کومکر و فریب اور غداری سے لُوٹاہے۔ قحط الرجال کے موجودہ دور میں انصاف کُشی کے ایسے منظر دیکھ کر مظلوم انسان تڑپ اُٹھتے ہیں جہاں معمولی نوعیت کی چوری پر کڑی سزا دی جاتی ہے مگر تم جیسے عیار بنکو ں اور گھروں کا صفایا کرنے والے ہاتھ کی صفائی دکھا کر صاف بچ نکلتے ہیں ۔میرے والد کو سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہونے پر جی پی فنڈ کی جو رقم ملی تھی وہ ساری تم نے اینٹھ لی اور اب تم کرگس کی صورت میں اُس کی ہڈیاں بھی نوچنے کی فکر میں ہو۔ تم سب لوگ عادی دروغ گو ہوچوری ،ٹھگی اور ڈکیتی ہی اب تمھاری پہچان بن گئی ہے ۔‘‘
نائکہ تفسہہ نے اس کے جواب میں کہا:
’’ میں امتحانات میں نقل کے سخت خلاف ہوں اس لیے اپنی تعلیم زندگی میںمیری بیٹی مصبہا بنو نے آج تک کبھی نقل نہیں کی ۔ایم۔فل اُردو کا چار سو صفحات کا مقالہ کا سرقہ اس کے کمال ِ فن کی دلیل ہے ۔اُس نے چوری،سرقہ اور ڈاکہ ڈال کر کے حاسدوں کو اپنے ہونے کا احسا س دلا دیا ہے ۔اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے لیے طویل عرصہ تک جس محنت شاقہ ،جفاکشی اوراشک فشانی کی احتیاج ہے ۔میری بیٹی نے دوسروں کی محنت پر ہاتھ صاف کر کے منزل تک رسائی کا جو راستہ چُنا ہے وہ نہ صر ف سہل ہے بل کہ اس میں ٹھو کریں کھانے کا کوئی امکان نہیں۔ ‘‘
اس عیار نائکہ کی باتیں سُن کرعزیز نے کہا:
’’ کافی دنوں سے مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ تمھاری باتیں اب تاثیر سے عاری ہو گئی ہیں ۔ایک عادی دروغ گو کی حیثیت سے تمھیں اپنے سب جھوٹے وعدے اب بھی یاد ہیں مگر ہم تمھاری نا انصافیوں کو بُھلا بیٹھے ہیں ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ کبھی بھول کر تم سچ بھی بولو تو کوئی تمھاری بات کا یقین کرنے پر تیار نہیں ۔تمھاری باتیں صرف ذاتی مفادات کی گھاتیں ہیںجو الم نصیب انسانوں کے لیے رنج و کرب کی سوغاتیں ثابت ہوتی ہیں۔فریبی ٹھگوں کے ساتھ ہم کہا ںتک وفا کریں اب تو ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ یہ تمھار ی خام خیالی ہے کہ تم پیہم سفیدجھوٹ بول کر یہ توقع کرتے ہو کہ لوگ تمھاری بے سر وپا باتوں کا یقین کر لیں گے ۔ سکوت ِ مرگ ہو یا تکلم کے سلسلے تمھاری فریب کاری کا سب حال ہمیں معلوم ہو چکاہے ۔‘‘
’’ اگر تمھیںہماری تسلیوں اور یقین دہانیوں پر تمھیں اعتماد نہیں تو تم اپنی پسند کے مطابق کسی اور لڑکی کو بہو بنا سکتے ہو۔‘‘ مصبہابنونے غرور سے کہا ’’میں بھی اَب اپنے بارے میں کوئی بڑا فیصلہ کرنے والی ہوں ۔میر ی ما ںنائکہ تفسہہ کا خیال ہے کہ میں تسرینہ الیکز نڈرا ہوں وہ میرے لیے کسی ایسے شریک حیات نو جوان لڑکے کی تلاش میں ہے جو راسپوٹین کا مسند نشین ہو۔جس کے پاس بہت بڑی کار ،فارم ہاؤس اور بیرونِ ملک وسیع جائیداد ہو۔ تمھارا بیٹاابھی تعلیم حاصل کررہاہے اوراس ضعیفی کے عالم میں تمھاری مثال اُس فاقہ کش چِیل کی ہے جِس کے آ شیانے میں ماس عنقا ہے ۔‘‘
اِن دغابازوں نے ماضی سے وابستہ تمام حقائق کو خیال و خواب بنا دیا۔ اب تشنگی کے عالم میں سرابوںکے صحرا میں بھٹکتے وقت ضعیف معلم شبیر کے پاس اندیشہ ہائے دُور دراز ،تفکرات اور حادثات کی ریت پھانکنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔
ضعیف معلم شبیرنے آہ بھر کر کہا:
’’قلبِ حزیں کی بات قلب ہی میں محفوظ رکھنا قرین انصاف ہے ۔تقدیر کے ستم سہنے کے بعد میں نے یہ سب کچھ بادِل ِ نا خواستہ کیا ۔ مجھے معلوم ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی احساس حتمی نہیں ہوتا اور ہر شب ڈھل جاتی ہے ۔ ایامِ غم رفتہ رفتہ بِیت رہے ہیں چربہ سازی اور جسارتِ سارقانہ سے اپنی جہالت کا انعام پانے کے بعد اس قدرگھمنڈ بلاجواز ہے ۔تقدیر کی بے آوا ز لاٹھی سے ڈرو یہ زندگی جاہ و منصب اور زر و مال جمع کرنے یا اعداد و شمار کا کھیل ہر گز نہیں ۔زندگی تو بُورلدے چھتنار کی مثال ہے جو کچھ عرصہ پھل دینے کے بعد طوفانِ حوادث کے مہیب تھپیڑوں کی تاب نہ لا کر زمیں بوس ہو جاتاہے ۔ اب دیکھتے چلے جاؤکہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے تمھیں جلد معلوم ہو جائے گاکہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آ سکتاہے ۔تم سب پیشہ ور ٹھگ آخر کب تک خیر مناؤ گے ؟وہ وقت دُور نہیں جب تم حالات کی زدمیں آؤ گے ۔اُس وقت تم سب بہت پچھتاؤ گے مگر کوئی بھی تمھارا پرسانِ حال نہ ہوگا۔‘‘
سمگلنگ ،منشیات فروشی اوراغوا برائے تاوان کے کئی مقدموں میںگنواروکا ٹولہ ملوث تھا مگر خونِ خاک نشیناں ہمیشہ رِزقِ خا ک ہوجاتا۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا تھا کہ جِس دِن جرائم و تخریب کاری کی وادیٔ پُر خار سے ذلیل و خوار ہو کر گنوارو در بہ در اور خاک بہ سر ہو گاوہ علاقے کے باشندو ںکے لیے اچھا شگون ہو گا۔سادیت پسندی کے اس موذی و مکار مریض کے بعد عفونت و سڑاندکی قابل نفرت داستانوں کو نیا عنوان مِلے گااو ر اِس شہر ناپرساں کے لوگ سُکھ کا سانس لیں گے ۔گنوارو کے ہاں بہرام ٹھگ کے خاندان کے رسوائے زمانہ مجرموں کا بسیرا تھا۔ شہر میں منشیات اور جنس وجنوں کے بڑھتے ہوئے قبیح دھندے اور لُوٹ مار کے پھندے نے حفاظتی انتظامات پر مامور دستوں کو سخت پریشانی نے گھیراتھا۔گنوا ر انتھک اور اُس کے ٹولے کے گرد گھیر تنگ کر دیاگیا تو وہ اپنے اہلِ خانہ سمیت مچھ کی جانب چل نکلا لیکن مچھ میں بھی اُسے کہیں پناہ نہ مِلی ۔جن لوگوں کے پاس گنوار انتھک نے اپنا اندوختہ امانت رکھا تھا سب نے اپنی آ نکھوں پر ٹھیکری رکھ لی اور اُسے پہچاننے سے بھی انکار کر دیا۔ حالات سے دِل برداشتہ ہو کرگنوارانتھک نے ایک دلدلی علاقے میں جھیل کے کنارے واقع ایک بستی میںپناہ لی ۔اگست 2020ء کے آ غاز میں موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی گنوارانتھک اور اُس کے اہل خانہ کے مقدر کی تبدیلی کے آ ثار سامنے آ نے لگے ۔مصبہابنو، نائکہ تفسہہ اور گنوار انتھک کو کھانسی اور چھینکوں کے ساتھ تیز بخار نے دبوچ لیا ۔بستی کے لوگوں نے جب اِن درندوں کی یہ حالت دیکھی تو اُنھیں یقین ہو گیا کہ یہ سب کورونا وائرس کے مریض ہیں ۔بستی کے لوگوں نے اِنھیں وہاں سے نکل جانے کے لیے کہا تو گنوارانتھک نے اپنا پالتو مگر مچھ اُن کی طرف اُچھا ل دیا۔ اس اسیر مگر مچھ نے عجیب قسم کی آوا زنکالی اوردیکھتے ہی دیکھتے جھیل سے بڑی تعدا دمیں مگر مچھ نکلے اور اُنھوں نے گنوارانتھک ،مصبہابنو اور نائکہ تفسہہ پر حملہ کر دیا۔ فضا میں زاغ و زغن،کرگس اور چغد منڈلانے لگے ۔فضا میں طیور ِ منحوس و ناکارہ کی پرواز ،مگر مچھوں کے حملے اور بستی کے لوگوں کی یلغار سے بو کھلا کر ٹھگوں کا یہ ٹولہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔کچھ دُور بہ ظاہر تو خشک زمین تھی مگر مٹی کی تہہ کے نیچے خطرناک دلدل تھی ۔جوں ہی ان ٹھگوں نے اِس خشک زمین پر قدم رکھا وہ گھٹنوں تک دلدل میں دھنس گئے ۔مگر مچھ اِن پر ٹُوٹ پڑے اور اِ ن سفہا اور اجلاف و اررذال نے بڑی مشکل سے جان بچائی اور مچھ سے نکل کر سیاہی وال کا رُخ کیا ۔وہ دِن اور آج کا دِن گنوار انتھک نے کبھی مچھ کا سفر نہیں کیا۔اب گنوار انتھک یہی بات کہتاہے :
’’ سب بلائیں تمام ہو چُکی ہیں اب مجھے مرگ ِ نا گہانی منظور ہے مگر مچھ کا سفر میرے بس سے باہر ہے ۔میںہر صعوبت اور عقوبت برداشت کر سکتاہوں مگر مچھ نہیں جا سکتا۔ سیاہی وال بھی مقدر کی سیاہی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا مگر مچھ میں جنس و جنون کی ارزانی نے اب آفتِ ناگہانی کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ ‘ ‘
————————