کھڑکی کے دونوں جانب کی زندگی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ کھڑکی کے باہر بحری جہاز کے عملے کا ایک فرد کرین جیسی مشینری پر چڑھ کر کھڑکیاں دھونے میں مصروف تھا۔ گزشتہ رات کے سمندری طوفان سے کھڑکیاں گدلی ہوگئی تھیں۔ اس سے پہلے کہ خصوصی لگژری کلاس کے مسافر نظارے سے لطف اندوز نہ ہونے کی شکایت کرتے، عملے کو معیار برقرار رکھنے کے لئے اس کروز کی بیرونی جانب کھلنے والی کھڑکیوں کو چمکانا تھا۔ بحری جہاز کی کھڑکیاں کچھ ایسی اونچائی پر تھیں کہ وہاں پہنچنے کے لئے الگ قسم کی مشینیں استعمال کی جاتیں۔ چلتے بحری جہاز کے دوش پر ان مشینوں کو ساکت اور غیر متحرک رکھنے کا خصوصی انتظام کیا جاتا تھا تاکہ عملے کو ان پر چڑھ کر کھڑکیوں کو بیرونی جانب سے چمکانے میں آسانی ہو۔ سمندری طوفان کبھی کبھار محض لہروں کے طلاطم پر مشتمل ہوتے اور کبھی کبھار ہوائیں بھی سمندری جھاگ سے آلودہ ہوتیں جن کی وجہ سے آؤٹ ڈور کا سارا نظام آلودہ ہوجاتا۔
جہاز کے عرشے پر کھڑے ہو کر الہڑ ہواؤں کو سینے سے لگانا فلموں میں بہت خوابناک لگتا ہے۔ ایسے مناظر، دیکھنے والوں کی نگاہوں میں خواب بن کر سما جاتے ہیں۔ لیکن بحری جہاز پر اصل زندگی فلموں جیسی نہیں ہوتی۔ فلم کے پردے پر دل دھڑکانے والے مناظر کی تیاری میں کتنے ہی محنت کش ہاتھوں کی مشقت شامل ہوتی ہے۔ اس سوچ کے ساتھ ارشد کی نظر اپنے ہاتھوں پر چلی گئی۔ ہتھیلیوں میں گہری مشقت کے سبب سختی پیدا ہوگئی تھی۔ ہاتھوں کی لکیروں میں بھاری مشینوں کی گریس رچ بس گئی تھی۔ ہاتھ کی انہی لکیروں میں فریحہ کا نام بھی تھا۔
ہائے فریحہ کتنے فاصلے درمیان آگئے۔ اب تم کہاں اور میں کہاں۔ شاید اسی کو سات سمندر پار کہتے ہوں گے۔ جب ارشد کے ہاتھوں نے فریحہ کا ہاتھ تھاما تھا تو مقدر کا چکر فریحہ کے نصیب سے لڑھک کر ارشد کے قدموں میں آن ٹھہرا تھا۔ اور وہ سمندروں کے دوش پر رزق کی سعی کرنے لگا۔ ارشد جو ایک معمولی ٹیکنیشن تھا ایک دوست کی وساطت سے ولایت آگیا اور بحری جہازوں کی اس کمپنی میں ملازم ہوگیا۔ شروع شروع میں اسے لگتا کہ شاید یہ انسانوں کی بستی نہیں ہے۔ اس نے ایسے انسان تو کبھی نہیں دیکھے تھے جو اب ان جہازوں پر سفر کرتے نظر آتے۔ بڑے بڑے کاروباری ٹائیکونز، ان کی دمکتی بیگمات، غیر بیگماتی الہڑ خواتین، بےپروا متمول خاندان، مہنگے بےڈھبے ملبوسات، ہیروں اور مہنگی اشیا کی چمک دمک، ۔ ۔ ۔یہ سب ارشد کے لئے کوہ قاف جیسی اَن سنی کہانی کا حصہ تھا۔ اس کے ذہن کو یہ تسلیم کرنے میں خاطر خواہ وقت لگا کہ یہ سب حقیقت کی دنیا میں ہورہا ہے۔ وہ تیسری دنیا کے ایک ترقی پذیر ملک کے زیریں متوسط طبقے سے تھا جہاں ضروریات کی گاڑی دھکیلتے ہوئے زندگی کی نقدی ختم ہوجاتی ہے۔ جہاں کھانے کا مقصد بھوک مٹانا اور بھرم قائم رکھنا ہوتا ہے۔ چھوٹے گھروں میں روٹیوں اور بوٹیوں پر لڑائیاں ہوتی دیکھی تھیں۔ کپڑوں کو رنگ اڑ جانے تک نیا سمجھا جاتا تھا۔ جہاز کی نوکری میں اس کی سفید براق وردی ہی اس کو مرعوب کرنے کو کافی تھی۔ فریحہ اس کی باوردی تصویریں دیکھ کر خوش ہوتی اور دوسروں کو بڑے فخر سے دکھاتی۔ تصویر کے دوسری جانب کا منظر کیا تھا، ارشد کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا کہ وہ کسی کو بتاتا، اور بتاتا تو سمجھاتا کیسے، اس کے بچے وہاں جانے کو مچل نہ جاتے اور ان کے ننھے دل ٹوٹ جاتے۔
ولایت کی یہ کمپنی، سفری اور لگژری جہازوں کے لئے مشہور تھی۔ ان کے کئی کروز جہاز تھے۔ ان کے لگژری جہازوں میں دنیا کا امیر ترین طبقہ ہی سفر کر سکتا تھا۔ دنیا کی ہر مہنگی تفریح یہاں میسر تھی۔ یہاں تو وہ لوگ آیا کرتے جو عام انسان نظر بھی نہیں آتے تھے۔ ان کی باتیں، سوچیں ہی الگ تھیں۔ امارت کا یہ تماشا دل کو مٹھی میں لے کر مسل دینے جیسا تھا۔ اکثر بحری جہازوں میں اٹھارہ یا بیس پچیس تک ڈیک تھے، اور ہر ڈیک پر الگ دنیا آباد تھی۔ اوپر کے ڈیک پر دھوپ سینکنے کی آرام کرسیاں، تفریح کے لئے خیمے، باسکٹ بال کے کورٹس، ہر ڈیک سے دوسرے پر پہنچنے کے لئے متعدد سیڑھیاں بل کھاتی دائیں بائیں کو نکلتی چلی جاتیں۔
مختلف مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لئے بالکونیاں، ہر بالکنی سے اطراف کے دیدہ زیب مناظر تک رسائی، کمروں، برآمدوں اور جانبی جگہوں کی باہر کی جانب کھلتی بلند و بالا کھڑکیاں، حقیقت پر طلسماتی دنیا کا گمان، چھوٹے بچوں کا الگ سوئمنگ پول جس کے ساتھ حفاظتی سامان اور گارڈز مستعد تیار ہوتے تھے۔ وسطی مرکزی سوئمنگ پول کی ایک جانب بڑا بارونق بار تھا جہاں دنیا کی بہترین منتخب شرابیں میسر تھیں۔ اس کی دوسری جانب پول سائڈ آئس کریم بار جلوہ گر تھا۔ موسیقی کا بھرپور اور مسحور کن نظام فعال تھا۔ پول کے سامنے کی جانب ایک بےتحاشا بڑی سکرین، جس پر جہاز کی اپ ڈیٹس اور دیگر پروگرام چلتے۔ دولت اور نشہ لنڈھاتی دعوتیں، موسیقی کی تال پر جاگتی راتیں، پیسے کا وہ محشر جو دنیا کی نصف آبادی کے لئے محض خواب تھا۔
یورپ کے مختلف شہروں کے ناموں سے منسوب بوفے اور سنیما تھیٹرز بنائے گئے تھے۔ پنج ستارہ ہوٹلوں جیسے استقبالیہ کاونٹر اور اعلی فرنیچر سے سجے ڈائننگ ہالز، شیشے کی چمکتی دیواریں، کھڑکیاں اور دروازے جو مکمل طور پر آرپار دیکھنے کے لئے تھے تاکہ روشنی کا گزر خوب رہے۔ فرنیچر اور کراکری ایسی جو عام انسان کی سوچ سے باہر ہو۔ تربیت یافتہ باوردی بیرے جو مسافروں کے سفر اور اس یادگار تجربے کو شاندار ترین بنانے پر مامور تھے۔
اوپر نیچے اڑان بھرتی لفٹیں، چمچماتے فرش، راستہ دکھاتی فرشی روشنیاں، ویڈیو گیمز کا سینٹر اور جوئے بازی کے کیسینوز، رہائشی کمروں کو جاتی سیڑھیاں اور اس سب کے درمیان کاموں میں مصروف عملہ، جو سفید وردی میں ملبوس، چہرے پر مسکراہٹ اوڑھے، مستعد اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ سمندر کے درمیان، بحری جہاز پر ان کے ذوق کی تسکین کے لئے دنیا بھر کے شیف رکھے گئے تھے۔ ان کی خوراک کے معیار پورے کرنے کے لئے بحری جہاز پر گودام اور بڑے سردخانوں کا الگ انتظام تھا۔ جہاز کی روانگی سے قبل سفر میں استعمال ہونے والے تمام خام مال کو لادا جاتا، جس میں باورچی خانے، اور مختلف ڈیکوں پر موجود ریستورانوں اور کیفے کے آرڈرز شامل ہوتے۔ اس بحری جہاز پر دنیا بھر کے شیفس سمیت کام کرنے والا طبقہ ہزاروں پر مشتمل تھا، جن کی اپنی زندگیوں کا اس معیار سے کوئی لینا دینا نہیں تھا جو معیار فراہم کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل تھا۔
بہرحال جب کاتبِ تقدیر نے رزق کا راستہ یوں ہی لکھا تھا تو ارشد کی دوڑ دھوپ جاری تھی۔ سال بھر پہلے ہی اسے جہاز کی انتظامیہ نے ایک اعزازی شیلڈ اور کچھ نقد انعام سے نوازا تھا۔ وہ ایک شام سوئمنگ پول میں کود پڑا تھا اور ایک ڈوبتے بچے کو بحفاظت بچا لایا تھا۔ کسی متمول خاندان کا بچہ تھا جو ارشد کو اپنے چھوٹے بیٹے جیسا نظر آیا۔ بچے کو غوطے کھاتا دیکھ کر ارشد نے بلا کچھ سوچے سمجھے پول میں چھلانگ لگا دی تھی۔ بچے کی ماں نے الگ انعام سے نوازا۔ کرُوز کی انتظامیہ کی جانب سے خبروں میں ایک جانب کو ارشد کی تصویر چھپی تھی۔ وہ انتظامی افسر اور بچے کی گوری ماں سے انعام وصول کر رہا تھا۔ چار دن اس کا نام سب کی زبانوں پر رہا۔ پھر وہی معمول کے دن۔
انعامی رقم سے اس نے اپنے مکان کی آخری قسط ادا کر دی تھی۔ فریحہ کا اصرار تھا کہ اس مرتبہ ارشد پاکستان آیا تو ہی وہ اپنے مکان میں جائیں گے۔ ارشد کا دل کہتا تھا کہ اس کے ماں باپ، بیوی اور بچے جلد سے جلد کرائے کے مکان سے اپنے گھر میں چلے جائیں۔ وہ دن ارشد کے لئے عید جیسا تھا جب اس کے ابا نے نئے مکان سے اس کو فون کیا۔ فریحہ کی کیفیت میں خوشی کے ساتھ جدائی کا درد بھی شامل تھا۔ وہ یہ سب سمجھتا تھا۔ خوشی کے مارے اس رات اسے نیند بھی نہ آئی۔ اس کا سب سے بڑا خواب سچ ہوگیا تھا۔ اس کی تھکن ختم ہوگئی تھی۔ اس نے چھٹی کی درخواست جمع کروا دی تھی۔
ایک صبح،گزشتہ رات کے سمندری طوفان کے بعد کھڑکیوں کی صفائی ہو رہی تھی۔ کرین مشینیں متحرک تھیں۔ مشینوں کے سٹور روم اور ملازمین کے کوارٹرز کے وسطی برآمدے میں ارشد آڑا ترچھا گرا ہوا تھا۔ مشینوں کی جانچ پڑتال کے بعد مشینوں کی درستگی کی سند بنا دی گئی تھی۔ جائے وقوعہ پر حادثے کا سبب بننے والی کوئی خاص شے نہیں پائی گئی۔ ڈاکٹر کو بلوایا گیا اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں لکھا تھا کہ جسم کے تمام اعضا درست حالت میں پائے گئے ہیں۔ پاؤں پھسلنے کی وجہ سے سر کے عقبی جانب شدید ٹھوکر لگنے سے ٹیکنیشن ارشد کی وفات ہوئی۔
****
افسانہ نگار .ثروت ع ج(اسلام آباد ،پاکستان)
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...