(Last Updated On: )
افوہ ! آج بہت دیر ہوگئی ہے۔
کبیر نے جلدی جلدی اپنی بد رنگی شرٹ کا بٹن بند کرتے ہوئے کہا۔
کوئی بات نہیں پہلے ناشتہ تو کر لو۔
میں نے رات کی باسی روٹی کو پانی سے نم کر کے، ہلکے سے تیل میں تل کر چائے کے ساتھ، اس کے آگے رکھتے ہوئے کہا۔
کیسے کوئی بات نہیں؟ تین لیٹ پر ایک فل دیہاڑی کٹ جاتی ہے۔ سالا کھٹو مرو بھی اور حاصل وصول صفر، گویا کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے ۔ عید پر کیا امیر، کیا غریب، سب ہی کچھ نہ کچھ اہتمام کرتے ہیں اور اس سال ہم لوگوں کی میٹھی عید بھی کیسی پھیکی سیٹھی گزری۔ بونس تو کیا ہی ملتا، دو ماہ سے تنخواہ کی شکل بھی نہیں دیکھی۔ کمبخت خون چوس فیکٹری مالکان کا وہی ازلی رونا کہ بزنس نہیں ہو رہا اور حالت یہ کہ فیکٹری کی شفٹیں فل کیپسٹی پر چل رہی ہیں۔ کبیر نے تین نوالوں ہی میں روٹی ختم کرتے ہوئے اپنی سکینڈ ہینڈ سال خوردہ ویسپا کی چابی جیب سے نکال لی۔
میں نے افسردہ دلی سے اسے رخصت کیا اور کوارٹر کی کواڑ بند کرتے ہوئے، باوجود چاہنے کہ اسے یہ نہ بتا سکی کہ میرے پاس اب برے وقتوں کے لیے، سنبھال کر رکھا گیا ہزار کا صرف ایک ہی پتہ بچا ہے۔ سامنے ضرورتوں سے بھرپور مہینہ، بھاڑ جیسا منہ کھولے سب کچھ نگلنے کو منتظر۔ یہ تو طے تھا کہ ارحم اب اسکول نہیں جا پائے گا کہ کل ہی فیس نہ دینے پر اس کی سرخ سرخ سزا یافتہ ہتھیلیاں میرے دل پر آبلہ ڈال چکی ہیں۔ آج گیارہ تاریخ ہے، اگر آج کبیر کو تنخواہ ملتی ہے تو خوب ورنہ جانے کیا ہو گا؟ دودھ والا ، کریانہ والا سب اپنے اپنے قرضوں کے منتظر و متقاضی ۔ میں نے ناشتے کے نام پر پھیکی، کالی چائے پی لی تھی اور رحمہ کو روٹی کا چورا کھلاتے ہوئے، سوچ کے گرداب میں ڈوبتی ابھرتی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم بابا، کیسے ہیں آپ، اماں اور باقی سب ؟
ہم سب خیریت سے ہیں بیٹی ، تم کیسی ہو؟
اس وقت کیسے فون کر لیا، سب خیریت ہے نا؟
بس بابا آپ سب بہت یاد آ رہے ہیں اور میرا دل چاہ رہا کہ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کوٹری آ جاؤں۔ مسرت نے اپنی آواز کی نمی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
میری بچی کوشش کرو، اگر چھٹی مل سکے تو آ کر مل جاؤ۔ میں اپنے لہجے کے کھوکھلے پن سے بخوبی واقف تھا۔
یہ میری بڑی بیٹی مسرت کا کراچی سےفون تھا ، اس نے گھر کے کمزور معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے میرا بازو بننے کا فیصلہ کیا۔ مسرت کراچی میں اپنے چچا کے گھر بلدیہ، دہلی کالونی میں رہتی ہے اور وہیں اپنے چاروں چچا زاد بہنوں اور اکلوتے چچا زاد بھائی کے ساتھ ” علی انٹرپرائز گارمنٹس فیکٹری” میں کام کرتی ہے۔ پچھلے دو ماہ سے اسے تنخواہ نہیں ملی اسی سبب وہ عید پر گھر بھی نہیں آ سکی۔ ہاتھ کی تنگی اور ذمہ داریوں کا انبار غریبوں کے بچوں کو بچپن ہی سے دل مارنا سکھا دیتا ہے۔ مسرت میری پہلوٹی کی اولاد ہے، میرے جگر کا ٹکڑا۔ مجھے یاد ہے بچپن میں اس نے مجھ سے، بڑے مان سے سنہرے بالوں ، نیلے کنچے جیسی آنکھوں اور پلکیں جھپکانے والی مہنگی گڑیا کی فرمائش کی تھی۔ اتنی قیمتی گڑیا خریدنے کی بھلا میری کب استطاعت تھی؟ پر اپنی گڑیا کی آنکھوں میں آنسو دیکھنے کا حوصلہ بھی دل ناتواں میں نہیں تھا۔ سو میں نے لگاتار دو مہینے اوور ٹائم کیا مگر گڑیا تب بھی نہیں خرید سکا کہ وہ پیسے تیمور میرا منجھلا بیٹا، جو کھلے مین ہول میں گر کر اپنی ٹانگ تڑوا چکا تھا، اس کے علاج معالجے پر خرچ ہو گئے بلکہ میں مزید قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا ۔ غریب کی زندگی بھی بے بسی کی تفسیر کہ بال بال ذمہ داریوں اور مجبوریوں سے بندھا ہوا۔ مجھے مسرت کو رخصت کرنے کی بھی جلدی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا نفس اس کے ہر ماہ بھیجے جانے والے روپے کے عوض تن آسان ہو جائے اور میں فرض سے کوتاہی کا مرتکب ہو جاؤں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا سعید آج فیکٹری نہیں جانا کیا؟
جو سچ پوچھو اماں تو آج جانے کا بالکل جی نہیں بلکہ ہلکا بخار بھی محسوس ہو رہا ہے۔
سعید نے کسلمندی سے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
تو آج نہ جاؤ میرے لعل۔
میری ممتا نے بلک کر دہائی دی۔
کہاں اماں !! دیہاڑی کٹ جائے گی، پہلے ہی دو ماہ سے تنخواہ نہیں ملی ہے۔ دیکھو، آج جاوید تنخواہ ملنے کی بات کر تو رہا تھا، اللہ اپنا کرم کرے اور کام بن جائے۔ سالے فیکٹری مالکان تو بالکل ہی فرعون بن بیٹھے ہیں، جب چاہتے ہیں حقہ پانی بند کر دیتے ہیں۔ اماں ! میں نے سیکٹر انچارج رحمان بھائی سے تنخواہ نہ ملنے کی شکایت تو کی تھی، اور ادھر تواتر سے میں نے رحمان بھائی، زبیر بھائی اور دو تین بار حماد صدیقی کو بھی فیکٹری میں آتے جاتے دیکھا ہے۔
بلکہ اماں !! ایک بار تو میں نے روئف صدیقی کو بھی فیکٹری میں دیکھا ۔ اماں یہ ہمارے لوگ ہیں، یہ ضرور ہمارے لیے کچھ کرینگے ۔ سعید کی آواز میں جوش کی حدت تھی۔
اے ہے سعید !!! بٹوا، میرے منہ میں خاک،
خدا نہ کرے کہیں تم پگلیا وگلیا تو نہیں گئے؟
یہ سیاسی لوگ کسی کے نہیں ہوتے بچے۔
ان کو بس اپنے فائدے سے مطلب ہوتا ہے۔
بٹوا تم میری ایکو ایک ہی اولاد ہو، خدارا پارٹی بازی سے دور رہو۔ کسی اور کا تو کچھ نہ بگڑے گا مگر میں بیوہ مفت میں ماری جاؤں گی۔
میں نے دوپٹے سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا۔
اللہ اماں آپ بھی نا !
مجھے ابھی تک کیا بچہ سمجھتی ہیں؟
اس جولائی کو میں اٹھارہ سال کا ہو چکا ہوں اور اب تو ووٹ ڈالنے کا اہل بھی ۔
میں نے ہنستے ہوئے اماں کو گدگدایا پر اماں کی رنجیدگی کم نہ ہوئی اور میں نے باتھ روم میں گھس کر تیار ہونے میں ہی عافیت جانی۔
فیکٹری میں حسب معمول چہل پہل تھی۔ صفدر اور میں بیسمنٹ ہی میں ڈیوٹی نبھا رہے تھے ۔ مجھے زیر زمین رہنا زہر لگتا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جیتے جی قبر میں اتر گئے ہوں۔ کتنی دفعہ شفٹ انچارج سے جگہ بدلنے کی بات کی، مگر وہ بس لارا ہی دیتا رہتا ہے۔
کھانے کے وقفے میں کینٹین میں چچا شبیر سے ملاقات ہوئی۔ یہ فیکٹری کا بہت دلچسپ کردار ہیں۔ نہایت دبلے پتلے، پھرتیلے پر انتہائی کڑوے مزاج کے حامل ، ہمہ وقت ساری دنیا سے خفا رہتے ہیں۔ بھری کائنات میں تنہا تھے یعنی نہ جورو نہ جاتا، نہ رولا نہ گانا۔ مجھے چچا کو تپانے میں بہت مزہ آتا ہے۔ کینٹین کی کھڑکی سے میں نے بلدیہ کے سیکٹر انچارج عبدالرحمان عرف بھولا بھائی اور زبیر بھائی کو پروڈکشن مینجر کے آفس کی طرف جاتے دیکھا۔ میں نے چہکتے ہوئے کہا، دیکھا چچا !! ایم کیو ایم اپنے لوگوں کا کتنا خیال رکھتی ہے۔ بھولا اور چریا مزدوروں کی تنخواہوں کے مسئلے پر مسلسل فیکٹری مالکان سے رابطے میں ہیں۔
میاں ! اس بھرے میں مت رہنا، یہ سالے غرض کے پتلے، پیسے کے جنے، کسی کے نہیں۔ کمبخت مارے بہروپیوں نے پائجامہ کرتے پر کالی واسکٹ چڑھا کر عوام کی آنکھوں میں خوب دھول جھونکی ہے۔ لعنتی بھتہ خوروں نے ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں سے قلم چھین کر جھاڑو اور کلاشنکوفیں پکڑا دیں۔ تم جو بھولا ، چریا کو اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہو نا، یہ سالے جب تمہاری بلی چڑھائیں گے، تب تمہاری عقل ٹھکانے آئے گی۔
میاں صاحب زادے !! یہ قاتلوں کا ٹولہ لاشوں کا بیوپاری ہے۔
چچا نے چائے کی پیالی پریچ میں پٹک کر کچکچاتے ہوئے کہا اور میں بے ساختہ صفدر کی ران پر ہاتھ مار کر ہنس پڑا۔
میں تو بڑی سنجیدگی سے ایم کیو ایم کا پارٹی ورکر بننے کا سوچ رہا تھا مگر صفدر ، میرے بچپن کا لنگوٹیا، اس فیصلےکا مخالف تھا۔ اماں اگر میرے ان خیالات کی بو بھی پا لیں تو بلا تکلف اپنی قینچی چپل سے میری ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کر دیں اور ایسا کرتے ہوئے قطعی بھلا دیں گی کہ میں ان کی اکلوتی اولاد ہوں۔ کیا کروں کہ مجھے پینٹ میں پیچھے کی جانب ریوالور اڑسے ، بھرم مارتے ورکر بڑا متاثر کرتے تھے۔ خیر مجھے ایسی کوئی جلدی بھی نہیں کہ پہلے مجھے دسویں کا امتحان پاس کرنا تھا۔ یہ اکلوتا ہونا بھی نری درد سری ہے۔ جب میں فقط دو سال کا تھا تو ابا فیکٹری حادثے میں مارے گئے اور اماں نے مجھے پالنے کی مشقت میں اپنی جوانی ہوزری فیکٹری میں مشین کے ٹانکوں میں ٹانک دی۔ ان کی محبت اور وہم کا یہ عالم ہے کہ میرا نزلہ بھی انہیں نمونیا لگتا ہے۔
صفدر مخنچو بھی خوب چھوڑتا ہے، بتا رہا تھا کہ ایم کیو ایم کی کراچی میں تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی نے سیکٹر انچارج رحمان بھولا کے ذریعے فیکٹری مالکان شاہد اور ارشد بھائیلہ سے پچیس کروڑ بھتہ اور فیکٹری میں حصے داری کا مطالبہ کیا ہے۔ صفدر بھی چریا گیا ہے، بھلا بھائی کو کیا ضرورت ہے ایسی اوچھی حرکتوں کی ؟
پورا کراچی ان کی ایک کال پر لبیک کہتا ہے۔ بھئ ایم کیو ایم کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ
” منزل نہیں ہمیں رہنما چاہیے”
جہاں جاں نثاری یہ عالم ہو وہاں بھلا کوئی ایسی چھوٹی حرکت کر سکتا ہے؟
ارے یار ! اماں کو تو میسج کرکے بتا دوں ، کہ مجھے آج بھی تنخواہ نہیں ملی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکر ہے اب چھٹی میں گھنٹہ ہی رہ گیا ہے، میرا پورا جسم ٹوٹ رہا ہے اور شاید بخار بھی تیز ہے۔ بس جلدی گھر پہنچوں ، کھانا کھا کر دوا لوں اور لمبی تان کر سو جاؤں۔ ان شاءاللہ صبح تک سب بخار وخار اڑنچھو ہو جائے گا۔
ارے ، ارے ! یہ بھگڈر کیسی ہے؟
یہ ایک دم اندھیرا کیوں ہو گیا؟
ابے صفدر ذرا کھڑکی سے جھانکیو تو ،
کیا ہوا ہے؟
اتنا شور کیوں ہے؟
او میرے خدا ! یہ گوشت جلنے جیسی بو کہاں سے آ رہی ہے؟
بھاگ سعید ! بھاگ ،
فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے۔
مجھے کہیں دور سے صفدر کی آواز سنائی دی۔
اندر تیزی سے بڑھتا ہوا دھواں دم گھونٹ رہا تھا اور تاریکی اتنی شدید کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ میں دیوانہ وار باہر نکلنے کی کوشش میں مشینوں سے ٹھوکریں کھاتا ہوا ادھر ادھر لڑھک رہا تھا، دھوئیں سے میرا دم گھٹ رہا تھا اور تپش تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ مجھے جیسے کسی نے جیتے جی جلتے تنور میں جھونک دیا ہو
اماں، اماں
اللہ، ال۔۔۔ال۔۔۔ لا الہ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے چاولوں کو دم پہ رکھنے کے لیے چولھے کی آنچ بالکل مدھم کی ہی تھی کہ مجھے اپنی پڑوسن کی دہشت زدہ آواز سنائی دی۔
بلقیس، او بلقیس !! ہائے !! سعید کے فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے۔
میں گرتے پڑتے فیکٹری کی طرف بھاگی۔ وہاں ایک خلقت جمع تھی اور فیکٹری کی تین منزلہ عمارت ، جہنم کی بھڑکتی آگ بنی ہوئی تھی۔ اندر سے چیخوں کی دل خراش آوازوں کا کہرام اور فضا میں شدید تپش اور جلنے کی بو۔ فیکٹری کا داخلہ دروازہ بند تھا۔ لوگ دروازہ کھولنے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے اور فائر بریگیڈ یا ایمبولینس کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ بے بسی سی بے بسی کہ اپنے پیاروں کو کوئلہ ہوتے دیکھو اور کچھ بھی نہ کر سکو۔ آگ اس قدر تیزی سے بھڑکی اور پھیلی کہ آنے والی فائر بریگیڈ بھی اس پر قابو پانے میں ناکام رہی۔ میں جلے پیر کی بلی کی طرح دل پکڑے ادھر ادھر بھاگتی رہی ۔ فائر بریگیڈ والوں نے دوسری اور تیسری منزل کی کھڑکیاں توڑ دیں اور لوگوں کو بچانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ میں سیعد کی تلاش میں ہر ایمبولینس کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتی رہی، ساری رات جناح ، سول اور عباسی شہید ہسپتال کے بیچ بھاگتے گزری۔ زیادہ تر ایمبولینسز لاشیں ہی لا رہیں تھی اور اب نہ میرے دل میں طاقت تھی اور نہ ہی ہاتھوں میں دم کہ چادر اٹھا کر ان سوختہ جگر پاروں کو دیکھ سکوں۔ ایمبولینس کے ہسپتال کے احاطے میں داخل ہوتے ہی اس کے گرد لوگوں کا گھیرا لگ جاتا اور آہ و فغاں بلند ہوتی۔ پیچھے ہٹتے ہوئے، مجمع کے چہرے پر ایک وقتی سکون ہوتا اور اپنے پیارے کی زندگی کی ٹمٹماتی امید دل کو تقویت دیتی۔ فجر قریب تھی، میں نڈھال سول ہسپتال کے چبوترے پر بیٹھی تھی اور میرے دل میں پر ہول سناٹے کا محشر بپا تھا۔ ایمبولینس آئی مگر میرے پیروں نے میرا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ مجمع اسٹریچر کے قریب گیا اور پھر چھٹتا چلا گیا۔ میری نظریں اس بےکسی سے پڑے لاوارث اسٹریچر پر گڑی تھیں کہ اچانک ہوا سے تھوڑی سی چادر کیا اُڑی کہ میرا دل مکمل ڈوب گیا۔ اس سیاہ سوختہ انگلی میں چاندی میں جڑی عقیق کی انگوٹھی دمک رہی تھی۔ وہی انگوٹھی جو پچھلے مہینے سعید نے بڑے چاؤ سے اتوار بازار سے خریدی تھی۔ میرا لخت جگر، جلی ہوئی لکڑی کی طرح میرے سامنے تھا۔ کیسی عجیب بات کہ ناپائیدار چیزیں سلامت اور ہزاروں سال جیو کی دعائیں وصولنے والے نابود ۔ میرے سامنے وہ قیمتی اور محبوب وجود تھا جیسے میں نے لو اور تپش سے بچایا تھا، بچپن میں جسکا دودھ ہمیشہ اپنی کلائی اور نہانے کا گرم پانی اپنی کہنی سے جانچا تھا۔ سعید کا بدن اس قدر سوختہ اور لجلجا تھا کہ جہاں پہ انگلی رکھو وہیں سے کھال ادھڑتی چلی جائے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اتنی بڑی قیامت جھیلنے کے بعد بھی، میرے نوشتے میں ممتا کی مزید آزمائش مرقوم ہے ۔ اپنے بچے کو مٹی کی ردا اوڑھانے سے پہلے، ابھی جانچ، شناخت اور ثبوت کے کئی کٹھن اور صبر آزما مراحل باقی ہیں۔
میں برے حالوں میں کوٹری سے کراچی پہنچا اور اپنے بڑے بھائی صاحب کے ساتھ اپنی گڑیا اور چاروں بھتیجی اور بھتیجے کی تلاش ہسپتالوں میں مارا مارا پھر رہا تھا۔ ہسپتالوں میں قیامت صغریٰ کا منظر تھا اور ہم لوگوں کی قیامت آ چکی تھی کہ چار بچے جناح اور دو بچے سول ہسپتال میں ملے۔ لمحوں میں بڑے بھائی صاحب کا دل اور دنیا دونوں تاراج ہو چکے تھے کہ ایک جھٹکے میں موت کی کڑک نے ان کا گلشن حیات پھونک دیا اور بھائی صاحب مردہ خانے ہی میں اپنے بیٹے تجمل کے خاکستر وجود کے آگے مٹی کا ڈھیر ہو گئے۔
دہلی کالونی وہ الم نصیب بستی ، جس کے تقریباً ہر گھر سے جنازہ اٹھا۔ اس سانحے میں 259 انسان اپنی جانوں سے گئے اور ان کے لواحقین جیتے جی مر گئے۔ ہمارے لیے زندگی اپنا مفہوم کھو چکی ہے اور اب ہم لوگ محض چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔ میں نے گڑیا کو کوٹری نہیں لے گیا کیوں کہ اسے کراچی بہت پسند تھا سو وہ بھی یہیں اپنی چچازاد بہنوں کے ساتھ آسودہ خاک ہوئی۔ میں اب نہ کوٹری کا، نہ ہی کراچی کا، بلکہ میں تو کہیں کا بھی نہیں رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
میں رحمہ کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی جب اسلم بھیا نے میرا دروازہ دھڑ دھڑا یا،
الہی خیر !!!
اسلم بھیا نے کبیر کی فیکٹری میں آگ لگنے خبر بد سنائی، اس وقت تک مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ کیا قیامت پیش آ چکی ہے؟ چھ ماہ پہلے بھی فیکٹری میں آگ لگی تھی، جس میں کبیر کے ہاتھ کی پشت بری طرح جھلس گئی تھی ۔ ان کی فیکٹری میں بھی بیشتر فیکٹریوں کی طرح ہنگامی صورتحال سے نبٹنے کی کوئی سہولت نہیں تھی۔ رحمہ اور ارحم کو پڑوسن کے حوالے کر کے، میں اسلم بھیا کے ساتھ فیکٹری پہنچی تو یقین آ گیا کہ جیتے جی بھی قیامت آتی ہے۔ بھڑکتی آگ کے شعلے آسمانوں سے باتیں کر رہے تھے اور اس آتش فشانی سے کسی کا بھی زندہ بچنا معجزہ ہی ہوتا۔ ریسکیو آپریشن شروع ہو چکا تھا مگر آگ پر ابھی بھی قابو نہیں پایا جا سکا تھا۔ مجھے بلند شعلے اپنی خوشیوں کو نگلتے محسوس ہوئے اور میرا ذہن تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا۔
اس سانحے کے بعد زندگی پھر کبھی نارمل ہوئی ہی نہیں کہ میرے کبیر ملے ہی نہیں۔ سترہ گمنام لاشیں تھیں ، ان ہی میں کوئی ایک کبیر کی لاش بھی، مگر کون سی؟
یہ ایسا سوال تھا جس کا جواب باوجود متعدد ڈی این اے ٹیسٹ حاصل نہیں ہوا۔ ٹسٹ اور کبیر کی لاش کی باریابی کی کوششوں میں مرے تولے ماشے جتنے زیور اور گھر کے اسباب سب بک گئے مگر مجھے میرا کبیر نہیں ملا۔ اب مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنا کتنی بڑی سعادت اور آسائش ہے کہ آپ ان کی قبر پر جا سکتے ہیں۔ وہ مٹی کی ڈھیری آپ کی روح کے لیے مرہم اور دل ناصبور کے لیے وقتی ہی سہی پر تسلی ہوتی ہے۔ آپ قبر کے سرہانے بیٹھ کر، اس مٹی کو ہاتھوں میں لیکر درد دل بیان کر سکتے ہیں، رو سکتے ہیں۔ جب ارحم اپنے ابا کے لیے بہت بے چین ہوا اور قبرستان جانے کی ضد میں اپنے آپ کو رو رو کر ہلکان کر لیا، تو میں نے اسے اسلم بھیا کے ساتھ ان سترہ گم نام قبروں کی زیارت کے لیے بھیج دیا۔ ارحم جب قبرستان سے وآپس آیا تو بہت خوش تھا، کہنے لگا امی !! مجھے ابا مل گئے ہیں۔
میں ماموں کے ساتھ قبروں پر پانی ڈال رہا تھا کہ ایک قبر پر مجھے ابا کا چہرہ نظر آیا اور وہاں سے ان کی مہک بھی محسوس ہوئی۔ یقیناً وہی میرے ابا کی قبر ہے اور اب میں سیدھے اسی قبر پر جایا کروں گا بلکہ وہاں ابا کے نام کی تختی بھی لگاؤ گا۔ ارحم کے اس معصومانہ اصرار کا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔ کبیر کی چونکہ شناخت نہیں ہو سکی لہزا ہم لوگوں کو مرنے والے کا معاوضہ بھی نہیں ملا اور ہم زندوں کی زندگیاں مردوں سے بدتر ہوتی چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سانحے کی تحقیقات کے لیے رینجرز اور پولیس سمیت دیگر اداروں کے افراد پر مشتمل 9 رکنی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی تھی۔
اب نو سال کے کٹھن اور جان لیوا انتظار کے بعد ، اس کیس میں کئی نئے موڑ اور انکشافات کے سامنا کرتے ہوئے، انسداد دہشت گردی عدالت نے بلدیہ فیکٹری میں آتش زنی کے مقدمے میں متحدہ قومی موومنٹ کے سیکٹر انچارج عبدالرحمان عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کو 264 بار سزائے موت سنائی ہے۔ چار ملزمان کو سہولت کاری کے الزام میں عمر قید کی سزا جبکہ سابق صوبائی وزیر روئف صدیقی سمیت چار ملزمان کو عدم شہادت کی بنیاد پر بری کر دیا گیا۔
کیا یہ قانون کے ساتھ سنگین مذاق نہیں؟
کیا جسٹس ڈیلیڈ، جسٹس دینائیڈ نہیں؟
میں لاوارث بیوہ کیا ہی کہہ سکتی ہوں؟
بھلا میں غریب دکھیاری کس کا گریبان پکڑنے کی طاقت رکھتی ہوں؟
مگر ہاں !! ان عدالتوں سے ماوراء ایک اور عدالت عظمیٰ بھی ہے، جہاں ان شاءاللہ انصاف ہو گا اور ضرور ہو گا۔
میری بد دعا ہے کہ اس سانحے کہ ہر ذمہ دار اور اس کی نسلوں کو اللہ تعالیٰ اس صفحہ ہستی سے نابود کر دے۔
یہ ایک دکھیاری ماں کی بد دعا جو بالیقین عرش تک جائے گی اور شرف باریابی بھی پائے گی۔ ان شاءاللہ
قریب ہے یارو روز محشر، چھپے گا کشتوں کا قتل کیوں کر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا!