(Last Updated On: )
وہ سانولی سلونی تیکھے نقوش کی مالک، جب ہنستی تو سفید دانت موتیوں کی لڑی کی طرح ایسے منہ سے باہر آجاتے جیسے کہر زدہ رات میں چاند اپنے حسن کی جھلک دکھانے اچانک سے نمو دار ہو جاے،باتیں کرتی تو خوشیاں اور خواب اسکی آنکھوں میں روشن ستاروں کی طرح ٹمٹماتے، اسکی کالی لمبی گھنی زلفیں، دن میں سرمئ شام کا عکس تھیں۔وہ شوخ چنچل حسینہ جب چلتی تو باد صبا کو مات دیتی ۔
پڑھائی میں اچھی ہونے کے ساتھ وہ ایک سمجھ دار بیٹی بھی تھی ۔ماں کے ساتھ سارا گھر سنبھالا ہوا تھا۔
اسکے چچا کا بیٹا ارسلان جو تعلیم اور پھر کاروبار کے سلسلے میں کافی سالوں سے انگلینڈ مقیم تھا،اور اپنی دونوں بہنوں سے عمر میں بڑا بھی تھا۔بہنوں کی شادیاں تو اسکی غیر موجودگی میں ہی کر دی گئیں ۔کیونکہ لڑکے والے اور انتظار نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔
اب بیٹیوں کے فرض سے فارغ ہو کہ چچی کی تمام تر توجہ ارسلان کی شادی کی طرف ہو گئ۔”اب میں مزید کوئ بہانہ نہیں سننے والی،بس مجھے بہو چاہیئے “۔چچی ارسلان کو بغیر کوئ موقع دئیے گویا ہوئیں ۔”کرن ،گھر کی بچی ہے،گھر سنبھالنے والی اور ملنسار بھی ہے،اور تو اور جائیداد بھی گھر کی گھر میں رہے گی۔ہمیں اور کیا چاہیئے؟ “بس تم ہاں کرو یا ناں ۔۔۔۔میں منگنی کرنے اگلے ہی ہفتے جا رہی ہوں ۔”مگر امی میری بات تو سنیں”۔۔۔ارسلان نے التجا کی۔۔”نہیں پتر اب کوئ گل نہیں منی جانی تیری تو آرہا ہے اب بس اگلے مہینے شادی کی تاریخ لے کر ہی آوں گی۔”چچی نے حکم صادر کر دیا ۔ارسلان بھی خاموش ہو گیا۔
اور یوں کرن کے ہاتھ میں ارسلان کے نام کی انگوٹھی پہنا دی گئی ۔چچا اور چچی نے بہت چاو اور مان سے کرن کو اپنی بہو بنا لیا۔”اگلے ہفتے ارسلان بھی آرہا ہے”چچا نے خوش ہوکے اپنے بھائی کو بتایا۔دونوں خاندان پھر سے ایک ہونے کی خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔دونوں گھروں نے رشتہ پکا ہونے پہ مٹھائیاں تقسیم کیں۔
اس نے کبھی ارسلان کے بارے میں ایسا سوچا ہی نہیں تھا ۔بلکہ۔ارسلان کو تو صحیح سے دیکھا بھی نہیں تھا ۔وہ بہت چھوٹی تھی جب ارسلان میٹرک کر کے ملک سے باہر اعلی تعلیم حاصل کرنے چلا گیا۔۔مگر اب۔۔۔۔۔اب وہ اسکے بارے میں سوچنے لگ گئ۔۔منگنی کی خوشی اسکے چہرے پہ پھیلتی مسکراہٹ سے عیاں تھی۔وہ اب ارسلان کی ہونے جا رہی ہے۔۔یہ سوچ کہ اسکی آنکھیں مسرت سے چمک اٹھتیں۔
اس روز جب سورج اپنی تمام تر تمازت لئے افق کے اس پار بدلیوںسے آنکھ مچولی کھیلتا ہوا گہری شام کی بانہوں میں کھو جانے کو بیتاب تھا،وہ دیکھ رہی تھی کہ دن کے اجالے کو رات کی سیاہی کیسے آہستہ آہستہ اپنی آغوش میں تھپکانے کو تیار ہے۔وہ اس منظر کا پرتپاکی سے خیر مقدم کرنے کیلیئے اپنے لان میں آگئ۔ ہلکے گلابی رنگ کا سوٹ پہنے اپنی گیلی زلفوں کو سنوار رہی تھی، پانی قطرہ قطرہ اسکی گنگھریالی زلفوں سے جھولتے ہوے ہمیشہ کیلئے زمین میں پرسکون ننید سونے کیلئے بیتاب تھا،اس کے پہلو میں کچھ ادھ کھلے گلاب شام گہری ہونے کا۔بے صبری سے انتظار کر رہے تھے تاکہ اندھیرہ ہوتے ہی وہ چپکے سے کھل جائیں۔ہری ہری گھاس اسکے قدموں کا بوسہ لینے کیلیئے ہوا کے جھونکوں کے سنگ صدقے واری جا رہی تھی۔اس منظر کے سحر میں کھوئ ہوئ تھی۔اسکا من چاہا کہ سرمئ بدلیاں ہمیشہ کے لیے سورج کو اپنی گھنی اور ٹھنڈی چھاوں میں چھپا کے رکھ لیں ۔ سرمئ بدلیاں اس سے کہہ رہی تھیں” سورج کیساتھ یہ لکن مٹی کاکھیل کتنا دلچسپ اور رومانوی ہے۔مگر سورج ہم سے بیوفائ کریگا اور وہ افق کے اس پار اپنے محبوب کی بانہوں میں ہی رات بسر کریگا “
“یہ لال ڈوپٹہ اوڑھ کر دکھاو” ۔۔۔ارسلان نے مچلتے ہوے کہا!۔۔۔
اس کی اچانک آمد پہ پہ وہ ششدر رہ گئی ۔وہ زرا سا پیچھے ہٹی ۔۔۔۔۔”م۔۔۔م۔۔میں۔۔۔میرے لیئے ۔۔۔۔”میرےلئے لاے ہو تم یہ لال ڈوپٹہ” ؟
ہاں تمہاری عیدی”۔۔۔۔۔ارسلان نے بہت سکون سے جواب دیا۔۔۔
یہ گوٹی لگا لال ڈوپٹہ ۔۔۔اسکا مطلب سمجھتے ہو تم”؟۔”ہاں ناں مجھے لال رنگ بہت پسند ہے میں چاہتا ہوں میری ہونے والی بیوی لال رنگ پہنےاور اگلے ماہ شادی ہے ہماری”! ۔۔۔۔
“لاو میں تمہیں خود اوڑھا دوں!۔ ۔۔۔”
اس لال ڈوپٹے میں وہ دہکتے انگاروں کی طرح لگ رہی تھی۔ارسلان اسکو خاموش نگاہوں سے تکنے لگا ۔
سورج اب بدلیوں کی اوٹ چھپ گیا۔ہوا میں نمی کا تناسب بڑھنے لگا۔بدلیاں بہت پر امید تھیں کہ وہ سورج کو اپنے پاس ہی کہیں چھپا کے رکھ لیں گی اور کہیں جانے نہ دیں گی۔اپنی محبت کی زنجیر سے سورج کو باندھ لیں گی۔
“تم تو دہکتا ہوا کوئلہ ہو۔۔۔۔کہیں میں جل ہی نہ جاوں”۔۔
اسکے کان میں یہ کہہ کر وہ تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔
ارسلان کی اس بات کا مطلب وہ سمجھ نہیں پائ۔
“دہکتا ہواکوئلہ”
اس نے یہ الفاظ دہراے۔
وہ کچھ دیر سوچتی رہی۔
شام گہری ہوگئ تھی۔سورج ڈوب چکا تھا۔ہوا بھی تیز تھی۔بدلیاں اب گہری سرمئ ہوچکی تھیں ۔اندھیرہ چھا جانے کیلیئے بین کر رہا تھا۔سورج کے جاتے ہی بدلیاں بھی آپس میں گلےمل مل کےدھاڑیں مار کے رونے لگیں۔ انکے سینے سے بجلیاں ایک دوسرے کو کوسنے سنانے لگیں۔مگر کرن کوانکی چیخ و پکار سمجھ نہ آئ۔وہ تیز قدم اٹھاتے ہوئےاپنی خواب گاہ کی طرف بڑھی۔ہاں بدلیوں کے آنسو جو ٹپکے ،اسکا لال ڈوپٹہ کچھ بھیگ گیا۔
اندر آتے ہی اسی تذبذب میں وہ آئینے کے سامنے آکھڑی ہوی ۔۔۔۔
“دہکتا ہوا کوئلہ “۔
ایک بار پھر آئینے کے سامنے یہ الفاظ دہرائے
خود سے شرماتی،مسکراتی آنکھوں میں روشن خواب لیئے۔۔۔۔
لال ڈوپٹے میں لپٹی آنے والے کل کی منتظر۔۔۔نیند کی وادی میں چلی گئی۔
وہ ایک مہینہ شادی کی تیاریوں میں پلک جھپکتے ہی ختم ہو گیا۔
اس نے بہت سے جوڑے لال رنگ کے سلواے ۔اس دوران چچا کے گھر سے کم ہی رابطہ ہوا۔سارا انتظام تو چچی اور ارسلان کو کرنا ہے۔چچا تو ویسے بھی جب سے ایکسیڈنٹ ہوا چل پھر نہیں سکتے۔اسی مصروفیت کے باعث ارسلان نے فون نہیں کیا ہوگا۔اپنے آپ کو یہ سوچ کر دلاسے دیتی ۔
شادی پہ سب ارمان پورے کئے گئے ۔ہوتےبھی کیوں نہ،کرن تو ویسے بھی اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی اور ارسلان، اپنی دو بہنوں کا لاڈلا بھائ۔
کتنا پیار کرتی تھی وہ ارسلان سے۔۔۔۔جب سے رشتہ طے ہوا۔۔۔۔۔وہ اسکی محبت کا محور و مرکز بن گیا تھا ۔
دل میں ڈھیروں ارمان ،امنگیں سجاے وہ بابا کی دہلیز پار کرکے پیا کے گھر آئ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس لال عروسی جوڑے میں ملبوس، لال گلابوں کی مسہری میں سجی سنوری وہ اپنے ارسلان کی منتظر،پلکیں بچھاے، ہونٹوں پہ دبی دبی مسکراہٹ لیئے،۔
نگاہوں میں دیدکی خواہش لئے
شادی کی پہلی رات ۔۔۔۔
وہ اسکا انتظار ہی کرتی رہ گئ۔
وہ آیا اور کچھ بھی بولے بغیر سر درد کا کہہ کے سو گیا۔
اور پھر کام کی مصروفیت کے بہانے سے کئ کئی دن گھرسے باہر رہتا۔اور جب آتا تو چند گھنٹوں کیلئے۔”کرن کوکبھی گھمانے بھی لے جایا کرو”۔چچی ارسلان کو تاکید کرتیں “بےچاری سارا دن تمہارا انتظار کرتی رہتی ہے”۔
مگر وہ ہمیشہ ہی کوئ نیا بہانہ کر دیتا۔
نئی نویلی دلہن کی حنا کارنگ مانند پڑنے لگا۔
“ارسلان!آج دونوں مل کے بازار چلیں”
وہ کبھی فرمائش کرتی ۔ارسلان نفی میں سر ہلا دیتا
جب چچی کرن کے ساتھ وقت گزارنے کے لیئے زرا سختی سے کہتیںتو وہ
ان سے بات بات پہ الجھتا۔گھر میں تناو کی فضا دیکھ کے وہ چپ سی ہو جاتی۔لبوں کو سیئے والدین کے سامنے بھی جھوٹی خوشی کا ڈھونگ رچاتی۔پتہ نہیں چچی سے کیوں بدتمیزی کرتا ہے؟آخر کیا بات ہے؟وہ اسی بات میں الجھی رہتی۔مجھ سے کیا غلطی ہوئ ہے؟وہ اپنے آپ سے پوچھتی ۔خود سے الجھتی۔ارسلان میری طرف دیکھتا بھی نہیں ۔آخر کیا ہوا ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کرن بیٹا ! دودھ ابل کے گر رہا ہے۔جلدی سے چولہا بند کرو ” ۔۔۔۔۔۔
چچی کی آواز سن کے وہ بوکھلا سی گئ
اوہو! ۔۔۔۔۔یہ کیا ہوتا جا رہا ہے مجھے ۔۔۔۔پتہ کیوں نہیں چلتا ۔۔۔جھلی ہوتی جا رہی ہوں میں ۔۔۔۔۔
آج اسکی شادی کو ایک سال گزر گیا ۔۔۔۔
وہ ہر دن اس امید پہ شروع کرتی کہ آج ارسلان کے دل میں میرے لیئے سوئ ہوئ محبت جاگے گی۔
آج میرا حسن میرے شوہر کی آنکھوں کو خیرہ کردیگا ۔محبت کی وہ چنگاری ضرور بھڑکے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میری محبت کی گہرائ اور سچائ کو ضرور سمجھے گا ۔۔۔۔۔
وہ ان کہی محبت۔۔۔۔۔۔ضرور الفاظ کی گہرائیاں سمجھ پائے گی۔
خاموشیاں چیخ چیخ کر اظہار کریں ۔محبت کاحسن ،ایک فرمانبردار بیوی کا حسن اس عشق کا حسن ،جو اسے اپنے شوہر سے تھا ۔
وہ اسکے گھر کو سجاتی ،سنوارتی۔اسکے والدین کی خدمت کرتی ۔ہر ممکن کوشش جس سے ارسلان خوش ہو سکے۔۔۔۔
وہ سجتی، سنورتی اسکے آنے سے پہلے۔۔۔لال ڈوپٹہ بھی اوڑھتی ۔۔۔۔
وہ ضرور مجھے توجہ اور چاہت دیگا جسکی میں حقدار ہوں۔۔۔۔۔
میرا سانولا حسن جلد ہی ارسلان کے دل میں میرے
لیئے محبت کی آگ بھڑکاے گا۔۔۔
“کرن۔۔۔۔کرن۔۔۔۔۔کدھر ہو کرن جلدی باہر آو”۔۔۔۔۔۔۔”
ارسلان کی آواز سن کے وہ بھاگی بھاگی باہر آئ۔
دل پاگل ہوا جارہا تھا۔آج ارسلان نے گھر آتے مجھے پکارا ۔۔۔۔۔۔۔
ایسے لگا کہ جیسے کئ دنوں کی برستی بارش میں اچانک سے سورج اپنا چمکتا ہوا چہرالے کر آگیا ہو،اب دھرتی کو نور ملے گا،بہاریں لوٹ آویں گی،ہر سو پھول کھلیں گے۔اتنے دنوں کی بارش میں ہر چیز ڈوب گئ تھی۔۔۔۔۔۔یہ بھیگا بھیگا سماں یہ غم کی بدلیاں چھٹنےکو ہیں۔میرا آفتاب اپنی چمک دکھانے کو بیتاب ہے
کچن سے صحن کا وہ چھ گز کا راستہ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔کیا کیا ارمان جاگے۔۔۔۔۔
“یہ ہے طیبہ” ۔۔۔۔۔۔۔”میری محبت،میری زندگی میری ہر”
خوشی” ۔۔۔۔
ہم انگلینڈ میں ہی ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے ،اور دیکھو یہ وہاں سے سب چھوڑ کہ میرے لیئے یہاں آگئی ہے۔۔ہم نے آج ہی نکاح کیا ہے۔آج سے یہ یہیں رہے گی ۔اور خبر دار جو کوئ تماشہ کھڑا کرنےکی کوشش کی۔”
وہ گوری رنگت کی لڑکی لال لباس لال ڈوپٹے میں قیامت ڈھا رہی تھی ۔۔۔۔نئ نویلی دلہن کا حسن آگ کے انگارےبن کے ہر سو برس رہا تھا،ان انگاروں کی۔تپش نے اسکاسانولا حسن جلا کر خاکستر کر ڈالا ۔
سورج کی روشنی اسکے لیے پیغام بہار نہیں لائ تھی۔بلکہ وہ اس تمازت میں ننگے پیر اور ننگے سر کسی صحرا میں زخم رسیدہ ادھر ادھر بھٹک رہی تھی جہاں نہ بدلیاں،نہ سایہ نہ پانی۔۔۔۔صرف سورج کی جلتی دھوپ اور تھوہر۔
سانولی عورت میں حسن ہوتا ہی کہاں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو “دہکتا ہوا کوئلہ” تھی۔۔۔۔۔ ۔
****
رفعت امان اللہ
سرگودھا پاکستان