اس نے دونوں ہاتھوں کو میری گردن میں حمائل کرتے ہوئے کہا،
” لاک ڈاؤن ۔۔ اب اس سے باہر نکلنے کی کوشش مت کرنا.”
میں بھی جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور اس کی پتلی نازک اور خوبصورت کمر کے گرد دونوں ہاتھ ڈالتے ہوئے اسے مزید قریب کرتے ہوئے بولا
” اوکے بے بی ڈن. ”
وہ مجھ سے اور قریب آنے لگی اس کی سانسیں میری سانوں میں گھل مل رہی تھیں۔ اس کے گلاب کی پنکھڑی جیسے نازک مگر خشک ہونٹ میرے تر ہونٹوں سے پیاس بجھانے کے منتظر تھے ۔ وہ اور قریب آرہی تھی کہ شاید ہم دونوں کو ہی کچھ یاد آیا اور ہم دونوں ایک دوسرے کو چھوڑ کر الگ ہوگئے جیسے کسی بجلی کے ننگے تار نے ہمیں چھو لیا ہو۔۔
“ارے جولیانا تم کیا کررہی تھی؟ اس وقت شوشل ڈیسٹن کے لیے کہا گیا ہے نا!”
میں اس سے مخاطب ہوا۔
“تو کیا کروں ٹام ۔۔ تم کو دیکھ کر مجھ سے رہا بھی تو نہیں جاتا۔”
اس نے جوابا کہا ۔
” تب ہی میں آج تمھارے یہاں نہیں آنا چاہ رہا تھا۔ ”
“ہاں لیکن دیکھو چھ ہفتے ہوگئے اس لاک ڈاؤن کو آخر کب تک رہتی تم سے ملے بنا اسی لیے میں نے تم سے کہا تھا کہ گھر کے اندر نا صحیح کم از کم گارڈن والے راستے سے ہی آجاؤ تاکہ تم کو دیکھ سکوں۔”
جولیانا نے پھر جذباتی ہوتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
“ہاں جولیانا ڈارلنگ یہ سچ ہے اسی لیے تو تمھارے کہنے پر آگیا مگر تم نے تو وعدہ کیا تھا نا کہ ہم حکومت کے لگائے گئے حفاظتی اقدام کا خیال رکھتے ہوئے شوشل ڈیسٹنس کا خیال رکھیں گے۔”
اب بات بڑھتی جارہی تھی۔
اس نے بھی فوری جواب دیا،
“بس بھی کرو نا اب ہوگئی غلطی ہم سے۔ تم نے بھی تو مجھے قریب کرلیا تھا۔”
“ہاں ڈارلنگ یہ سچ ہے اس وقت میں بھی کچھ جذ باتی ہوگیا تھا لیکن جولیانا دیکھو ! یہ جو کرونا وائرس کی وبا ہے نا یہ بہت خطرناک صورت حال اختیار کر چکی ہے۔ دیکھ اور سن تو ہم سب ہی رہے ہیں، چین کے بعد اٹلی، اٹلی کے بعد اسپین ،انگلینڈ ، پھر خود ہمارا ملک اوراب امریکہ کتنی انسانی جانیں ضائع جارہی ہیں۔”
“ہاں ہاں بس کرو ٹام۔۔۔۔۔ پلیز بس کردو۔۔۔ انھی ڈر خوف کی فضا سے تو نکلنے کے لیے تم کو بلایا تھا میں نے ۔۔۔ پلیز اب مت یاد دلاو۔”
وہ میری بات کاٹتے ہوئے بولی۔
” اوہ سوری جولیانا ویری سوری ۔۔۔”
میں نے ملتجائی آواز میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے معافی مانگی۔
“اچھا خیر ٹام بھول جاتےہیں یہ سب ۔۔۔ تم بتاؤ تمھاری بیوی انا کیسی ہے اب؟”
“ہاں جولیانا تم تو جانتی ہی ہو وہ سخت بیمار چلی آرہی ہے اس لیے تو میں باہر کہیں جانے سے اور زیادہ ہی ڈرتا ہوں کہ کہیں میں یہ کم بخت وائیرس لے کر گھر نا آجاؤں اور کہیں اس کو یہ بیماری نا لگ جائے ۔۔ جیسا کے تم جانتی ہو وہ تو اپنی بیماری کی وجہ سے اس وقت بہت خطرناک والے گروپ میں شمار کی جاتی ہے۔”
” ہاں ٹام تم صحیح کہتے ہو سوری بابا میں نے تم کو یہاں بلا لیا اب تم جاؤ اپنے گھر واپس۔”
اس نے مجھے ہدایت دیتے ہوئے کہا۔
“بس اب کوئی سوری ووری نہیں میرا بھی تو دل چاہ رہا تھا تمھیں دیکھنے کو اس لیے بنا کچھ سوچے سمجھے چلا آیا۔ چلو پھر بات کریں گے فون سے۔”
یہ کہتے ہوئے میں نے دور سے اسے فلائینگ کس دی اور جوابا” اس نے بھی کئی فلائینگ کسز میری جانب اچھال دیں۔۔۔
راستے میں گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا میرا ذہن گاڑی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے پچھلے سالوں کی باتوں کو یاد کررہا تھا۔ ٹھیک ڈھائی سال قبل ہی تو میری ملاقات جولیانا سے ہوئی تھی ۔۔۔ جب میں نے لینگویج اسکول میں اپنی انگریزی سکھانے کی کلاس شروع کی تھی۔ میرے سیدھے ہاتھ کی طرف بیٹھی جولیانا نے پہلے ہی دن اپنی خوبصورت اور دلفریب مسکراہٹ سے مجھے اپنی حصار میں لے لیا تھا۔ ویسے بھی انگریزی سیکھنے والے مرد اور عورتوں کی تعداد صرف دس ہی تھی اور یہ سب اپنی نوکری کی ضرورت کے تحت انگریزی سیکھنے آئے تھے۔ جرمنی میں بھی انگریزی تیزی سے روزمرہ کی زندگی میں شامل ہورہی تھی۔ بہت سی نوکری کے لیے جرمن زبان کے ساتھ اب انگریزی بھی لازمی کردی گئی تھی۔ جرمن زبان میں بھی انگریزی کے کئی الفاظ کو لے لیا گیا تھا۔
جولیانا ایک سرکاری دفتر میں کام کرتی تھی اس لیے اسے انگریزی جاننا اور بھی بہت زیادہ ضروری ہوچکا تھا کہ اس کا زیادہ تر کام غیر ممالک سے ہوتا اور اسے پھر سب کچھ انگریزی ہی میں کرنا ہوتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کلاس میں سب سے زیادہ توجہ وہی دیتی تھی اور کلاس ختم ہو جانے کے باوجود مجھ سے انگریزی میں غٹرغوں کرتی رہتی تھی۔
” ٹام کیا آج تمھارے پاس وقت ہے؟”
اچانک ایک دن جب کلاس ختم ہوئی تو اس نے پوچھا۔
” ہاں مگر کیوں؟”
میرا جواب سن کرفورا بولی،
” چلو پھر کسی ریستورانت میں بیٹھ کر کافی پیتے ہیں۔”
” اسوقت کافی؟ ”
میں نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا اور پھر اس سے کہا،
” ابھی توڈنر کا وقت ہوچکا ہے چلو کہیں ڈنر کرتے ہیں۔”
اس کے چہرے کی مسکراہٹ مزید نکھر گئی ایسا لگا کہ میں نے اس کے دل کی بات کہہ دی ہو۔
” ارے ہاں اچھا خیال ہے اگر تمھارے پاس وقت ہے تو چلتے ہیں۔”
میں نےجوابا اسے کہا،
” ٹہرو میں اپنی بیوی کو فون کردوں۔ ”
یہ کہتے ہوئے میں نے فون نکالااور انا کو فون ملایا،
“ہیلو آنا میں اپنے لینگویج کے اسٹوڈنٹ کے ساتھ ڈنر پر جارہا ہوں تم انتظار نہ کرنا اور کھانا کھا لینا۔”
میں نے انا کو اطلاع دی تو جولیانا بھی بہت غور سے سن رہی تھی۔ میں نے فون بند کیا تو فورا بولی،
” تم اپنی بیوی سے بہت محبت کرتے ہو؟ ”
“محبت ہاں شاید ! محبت تو ایک جذبہ ہے ساتھ رہتے رہتے پیدا ہوہی جاتا ہے۔”
میرے اس جواب پر اس نے بڑی زور کا قہقہہ لگایا۔ اس کا چہرہ مزید سرخ ہوگیا اور اس نے میرے بازو کو پکڑتے ہوئے میرا جملہ دہرایا ۔
” محبت تو ایک جذبہ ہے ساتھ رہتے رہتے پیدا ہوہی جاتا ہے۔ ”
وہ اپنی شوخ ادا سے مجھے اپنے قریب لائی اور پھر بہت قریب آکر کہنے لگی،
” کہیں ہفتے میں دو بار مل کر مجھے بھی تم سے محبت نا ہوجائے۔”
اس کی دلفریب ادا اور مسکراہٹ تو پہلے ہی مجھے سب کچھ سمجھا چکی تھی اور میری طرف سے بھی جواب منفی میں نہیں تھا۔
انا اور میں ساتھ تو تھے لیکن ایک مدت سے کسی جسمانی تعلق کے بنا بس صرف ساتھ تھے، رشتے نبھاتے ہوئے اور یہ کمی مجھے بہت شدت سے محسوس ہوتی تھی ۔ لیکن انا میں یہ سارے احساسات کب کے ختم ہوچکے تھے۔ وہ تھی اور اس کی ساتھی اس کی کتابیں، فیس بک اور واٹس ایپ یہی زندگی تھی اس کی۔ لیکن گھر کے سب کام کاج کے ساتھ وہ میرا بھی بہت خیال رکھتی تھی اور پچھلے کئی سالوں سے اپنی بیماری سے بھی تنگ رہتی تھی شاید اسی لیے کسی اور طرف دھیان ہی نہیں جاتا تھا ۔
ان ہی باتوں نے مجھے بھی جولیانا کی طرف جھکنے پر مجبور کردیا وہ اپنی مست ادا سے مجھے اپنی طرف مائل کرچکی تھی۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ ہفتے میں ایک بار لینگویج کلاس کے بعد ہم ضرور کسی ریستورانت میں ساتھ بیٹھے گپیں لگا رہے ہوتے ۔ جولیانا نے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا کہ اس کے شوہر نے اسے چھوڑ دیا ہے اور وہ اب تنہا ہے ۔ اس کے ماں باپ بھی اب زندہ نہیں ہیں، بھائی بہن بھی کوئی نہیں ہے لے دے کہ صرف ایک چچا ہیں جو اپنی دنیا میں رہتے ہیں ۔ اس کی داستان نے مجھے اس کے اور قریب کردیا کہ اس بالکل تنہا عورت کو واقعی کسی کی قربت اور پیار کی طلب ہے۔ یوں ہماری دوستی محبت میں تبدیل ہوتی گئی اور پھر اس نے اپنے گھر آنے کی دعوت دے ڈالی۔
پہلی بار جب میں اس کے گھر گیا تو اس نے شاندار استقبال کیا اور پھر میری برسوں کی پیاس بھی ایسی بجھائی کہ لگا جیسے ایک صحرا تھا جو ایک مدت سے پیاسا تھا ۔ جسے ایک بہتا دریا مل گیا ، جس سے جسم کا رواں رواں ترہوگيا ہو۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور میری ملاقات جولیانا سے نہ صرف اسکول میں بلکہ اس کے گھر میں بھی ہونے لگی ۔۔۔
پھر اچانک اس کرونا وائیرس کی وبا نے پوری دنیا کو دیکھتے ہی دیکھتے اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ جرمنی پورا لاک ڈاؤن کا شکار ہوگیا ۔اسکول کالج یونیورسٹیز سب بند کردی گئیں ۔ میرا لیکنگوئج اسکول بھی اسی کی زد میں آگیا۔ اسکول والوں نے آن لائن کلاس لینے کی ہدایت کی۔ میں نے سب سے رابطہ کیا اور اسکائپ پر کلاس لینی شروع کردی ۔ پہلے شروع میں ویڈیو کلاس لی لیکن دس لوگوں کی وجہ سے کافی دشواری پیش آئی تو میں نے آڈیو کلاس لینے کا فیصلہ کیا۔ گویا جولیانا سے اب صرف کلاس کے دوران ہی انگریزی زبان پر ہی بات ممکن رہ گئی تھی۔ واٹس اپ پر بھی لکھ کر ہی بات ہوتی تھی۔ اب ملنے جلنے پر جرمن حکومت نے سختی سے پابندی لگا دی تھی۔ صرف دو افراد ایک ساتھ باہرجا سکتے تھے جس میں یہ دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہوں۔ کرونا کا عتاب بڑھتا ہی جارہا تھا۔ عجیب وحشت کا ساعالم تھا۔ لوگ گھبر ا کے کھانے پینے کے سامان ذخیرہ کررہے تھے کہ ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کہ جنگ کے حالات ہیں بہت سامان زخیرہ کرلو۔۔۔۔ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے پر بھی پابندی عائد تھی۔ چار ہفتے تو عجیب گزرے ۔ خبر سننے میں بھی ڈر لگنے لگا۔ لیکن حالات سے باخبر بھی رہنا ضروری تھا، مرتا کیا نا کرتا روزانہ ہی حکومت کی پریس کانفرس دیکھتا اور ایسا لگتا کہ حکومت نے ہر روز صور پھونکنے کا کام اپنے ذمہ لے لیا ہے اور ہر روز آکر مرنے والوں کی تعداد بتاکر ہمیں خبر دار کررہے ہوتے ہیں کہ بچ کر رہو، کبھی بھی کسی وقت بھی باری آسکتی ہے۔۔۔ ایسے میں جولیانا سے بھی ملنا ناممکن ہوچکا تھا۔ وہ بار بار یہی لکھتی،
“ٹام یہ لاک ڈاؤن کب ختم ہوگا؟ ہم کب پھر سے ملیں گے؟ مجھ سے اب نہیں رہا جاتا ۔”
میری تسلی تشفی اس کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ مجھ پر بھی ڈر خوف طاری تھا۔ میں انا کی طرف سے بھی بہت پریشان تھا۔
چھ ہفتے گزر گئے تو پھر جولیانا کی ملنے کی خواہش مزید بڑھنے لگی۔ مجھے بھی جولیانا کی فرقت پریشان کررہی تھی لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ایک دن جب اس نے مجھے فون کیا اور روہانسی آواز میں مجھے یاد کیا تو میرا دل بھی پسیج گیا اور میں نے اس سے وعدہ لیے لیا کہ صرف گارڈن کے راستے آؤں گا اور ہم شوشل ڈیسٹنس کا خیال رکھتے ہوئے ملیں گے۔۔۔ لیکن جب ملنے گیا تو ایک دوسرے کے قریب آہی گئے۔۔۔ وہ تو شکر ہے کہ ہم دونوں ہی کو وقت پر خیال آگیا ۔۔۔۔۔
دوسرے دن ان لائن کلاس کے بعد جولیانا پھر بے چین تھی ۔ میں سمجھ سکتا تھا، لاک ڈاؤن اور اکیلے گھر میں ۔۔ بہت ہی کٹھن وقت ہے اس کے لیے۔۔۔
میں بھی ا سے تسلی دیتا رہتا کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ اسی طرح ایک ہفتہ اور بھی گزر گیا۔ جرمنی سمیت اسپین اٹلی اور اب امریکہ و برطانیہ کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی۔
آج جب میری جولیانا سے بات ہوئی تو وہ کافی پریشان تھی اور بہت کھانس بھی رہی تھی۔
” جولیانا کیا بات ہے؟ اتنا کھانس کیوں رہی ہو ؟ ”
میں نے پوچھا۔
“ہاں پتہ نہیں تین دن پہلے میں کچھ گروسری خریدنے باہر گئی تھی ۔۔ دکان میں ایک شخص بہت کھانس رہا تھا۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہیں اسی سے تو نہیں لگ گئی مجھے بھی کھانسی ۔”
” اےگاڈ رحم کرنا۔ ”
میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔
” اچھا ڈراؤ تو نہیں۔”
جولیانا عاجزی سے بولی۔
“دیکھو جولیانا اپنا بہت خیال رکھو، خوب پانی پیو اور ہوسکے تو گرم پانی سے غرارے بھی کرو ۔”
“ہاں ٹام تم پریشان نہ ہو میں اپنا خیال رکھ رہی ہوں۔”
اب میں اپنی بیوی سے بچ بچا کر اسے دن میں دو بار فون کرتا۔ وہ کلاس بھی نہیں لے رہی تھی۔ اس کی حالت خراب ہورہی تھی۔ اب بخار بھی بہت تیز تھا اسے۔
پھر اچانک ایک دن صبح صبح جومیں نے اسے فون کیا تو جولیانا نےبہت مشکل سے صرف اتنا ہی کہا،
“مجھے ایمبولینس والے ہاسپٹل لے جارہے ہیں ٹام، میرے لیے گاڈ سے دعا کرنا۔”
“سنو جولیانا۔۔۔۔ سنو تو ۔۔۔۔ کونسے ہاسپٹل لے جارہے ہیں تم کو ۔۔۔ جولیانا۔۔۔جولیانا ۔۔۔؟”
میں آواز دیتا رہ گیا دوسری طرف سے فون بند ہوچکا تھا۔
میرا ہر پل اب عجیب عذاب سا تھا ۔ دو دن گزر چکے تھے کوئی خبر نہیں تھی اس کی ۔۔۔ میں ہر لمحے اسی کے بارے میں سوچتا رہتا۔۔ آن لائن کلاس میں بھی اب دل نہیں لگ رہا تھا۔ عجیب بے چینی تھی میری طبعیت میں ۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کروں ۔ ہاسپٹل کا بھی نہیں پتہ کہ کہاں فون کروں ۔ سوچا کہ جولیانا کے گھر کے آس پاس کے سارے ہاسپٹلز فون کروں اور جولیانا کو تلاش کروں۔ پھر اپنے ان بے وقوفوں والے خیالات کو رد کردیا بھلا کتنے ہاسپٹلز کو فون کروں گا؟ ۔۔۔ بس صبر کرنے کے علاوہ کچھ تو تھا نہیں۔ جولیانا کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی،
” ٹام میرے لیے گاڈ سے دعا کرنا۔”
میرے قدم غیر ارادی طور پر گھر میں بنے اس کمرے کی طرف اٹھ گئے جہاں ہم نے عبادت کی جگہ بنائی ہوئی تھی۔ عبادت کرنے کہیں اور تو جا بھی نہیں سکتا تھا۔ شہر اور محلے کی دوسری عبادت گاہیں چرچ ، مسجد اور مندر بھی تو اس وبا کی وجہ سے بند تھیں۔ میں بہت دیر تک اس کمرے میں یسوع مسیح سے مدد مانگتا رہا کہ وہ میرے گاڈ سے سفارش کردیں کہ جولیانا کی کوئی خبر آجائے کچھ پتہ تو چلے اس کے بارے میں۔ گاڈ اس کی جان کی حفاظت کردے۔۔۔۔
عبادت کرتے ہوئے بہت سارا وقت گزر گیا میں تو دعا میں مصروف تھا وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔۔۔ جب کافی دیر بعد باہر نکلا تو سامنے انا کھڑی تھی مجھے دیکھتے ہی سوال داغ دیا۔
“ٹام آج اتنے عرصے بعد اس کمرے میں۔۔۔ اور پھر اتنی دیر تک کیا ہوا ؟ خیر ہے نا تم چند دنوں سے کچھ پریشان پریشان بھی لگ رہے ہو کیا ہوا ۔۔ مجھے بتاو؟”
میں عبادت کرکے ہی نکلا تھا ایسے میں سب کچھ انا کو صاف صاف بتا دیا۔
“انا ! میری انگریزی کلاس کی ایک اسٹوڈنٹ خاتون کو کرونا وائرس نے آدبوچا ہے اسی کے لے دعا کررہا تھا۔”
” اوہ ! گاڈ اس کو صحت دے۔! ”
اور کندھا اچکاتے ہوئے ایسے واپس اپنے کمرے کی طرف گئی جیسے کہہ رہی ہو اسٹوڈنٹ کی اتنی فکر۔۔۔
اب انا کو کیا بتاتا کہ میں کیوں بے چین ہوں کیا ہے اس بے چینی کا سبب۔۔۔۔
ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ میرے فون پر ایک اجنبی نمبر سے کال آئی لیکن نمبر لوکل ہی تھا۔ میں نے اپنا نام بتاتے ہوئے مخاطب ہوا۔ کسی خاتون کی آواز تھی
” کیا آپ ہی ٹام آرنٹ ہیں ؟ ”
” جی میں ہی ہوں۔ فرمائیے آپ کون ہیں؟”
“میں والڈ ہاسپٹل سے نرس علینا بول رہی ہوں۔ آپ کی جاننے والی خاتون جولیانا شمٹ ہیں انھیں جب یہاں لایا گیا تھا تو ہمارے پوچھنے پر انھوں نے اپنے جاننے والوں میں صرف آپ ہی کا نمبر دیا تھا اسی لیے میں نے فون کیا ہے۔”
وہ ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گئی۔
” جی میں بہت اچھے سے جانتا ہوں انھیں۔”
میں نے جان کر بات مختصر کی ویسے بھی نرس کو اس سے کیا غرض کہ میں اس کا کیا لگتا ہوں ۔ جولیانا نے میرا نمبر دیا سو اس نے مجھے فون کردیا۔
“جی آپ بتائیں تو جولیانا کی طبعیت اب کیسی ہے؟ ”
میں نے بہت بے چینی سے اپنا سوال دھرایا۔۔
“جی جی یہی بتانے کے لیے فون کیا ہے ۔جولیانا شمٹ کی حالت اچھی نہیں ہے ۔ انکی سخت نگرانی میں علاج ہورہا ہے۔۔۔”
” او مائی گاڈ کیا کہہ رہی ہیں آپ ۔۔ میں ! میں! اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔”
“معافی چاہتی ہوں اس وبا کی پیش نظر ملاقاتی کو ہاسپٹل آنے کی اجازت نہیں ہے۔”
“معاف کیجیے گا ! میں اس کا دوست ہوں۔ مجھے اس سے ملنا ہے ۔۔۔”
میں نے اپنی آواز کی پچ کو زرا کم کیا کہ کہیں انا نا سب کچھ سن لیے۔
“دیکھیں ملنا تو آپ بھول جائیں، میں آپ کو ان کی حالت بتاتی رہوں گی یہی کرسکتی ہوں۔”
“نہیں آپ مجھے ملنے سے نہیں روک سکتیں مجھے اپنی جولیانا کو دیکھنا ہے۔”
مجھے ایک دم خیال آیا کہ میرا لہجہ کافی سخت ہوگیا۔
” اوہ! معاف کیجیے گا میں نے سخت لہجہ اختیار کرلیا۔”
” جی جی میں سمجھ سکتی ہوں لیکن ہم مجبور ہیں۔”
اس نے اک سپاٹ لہجے میں اپنی بات مکمل کی ۔
اس ٹیلی فون کی گفتگو نے میرے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا ۔ مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اور کس طرح جولیانا کو ایک نظر دیکھ آؤں۔
پھر میں نے ساری احتیاطی تدابیر کو بالائے طاق رکھی اور ہاسپٹل جا پہنچا۔ نرس کے بتائے وارڈ نمبر بارہ ا ے میں۔ ہاسپٹل میں اس سے آگے جانے کی اجازت نہیں تھی مگر میرے ہی طرح وہاں ایک خاتون اور ایک مرد بھی موجود تھے۔۔ میں حیران تھا ۔۔ پوچھا تو پتہ چلا کہ خاتون کے شوہر یہاں ہیں اور مرد کی بہن ۔۔۔ یہ بھی اسی امید پر آئے ہیں کہ ملاقات ہوجائے۔
وارڈ کے شیشے کے دروازے سے اندر کا کوریڈور نظر آرہا تھا۔ عجیب سا ماحول تھا ڈاکٹر نرس سب بدحواسی میں ادھر سے ادھر دوڑ رہے تھے لیکن لگ ایسا رہا تھا کہ میں کسی اور سیارے پر آگیا ہوں ۔ سب احتیاطی لباس میں سیارے پر اترے ہوئے اسٹروناٹ لگ رہے تھے یا کوئی مریخی مخلوق۔۔۔۔ عجیب نفسا نفسی کا عالم تھا۔ اس عجیب و غریب لباس میں ڈاکٹر اور نرس عجیب ڈر و خوف کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ میری حالت بھی غیر ہورہی تھی لیکن پھر بھی مجھ سے صبر نہیں ہورہا تھا دل چاہ رہا تھا کہ خوب زور زور سے دروازہ پیٹوں ۔۔۔اور چیخوں کہ ہمیں اپنے عزیزوں سے ملنے دیا جائے۔۔۔۔ لیکن اس بدتمیزی کی ہمت نہ ہوئی۔ میں شکست خوردہ واپس لوٹ ایا۔ لیکن دل دماغ سب وہیں چھوڑ آیا تھا۔
کئی دن یونہی گزر گئے نرس کا پھر فون آیا اور اس نے اطلاع دی کہ جولیانا کی طبعیت بہتر ہورہی ہے۔۔۔۔ابھی ایک ہفتے اور ہاسپٹل میں رہنا ہوگا اور ایک ہفتے کے بعد گھر میں بھی دو ہفتے قرنطینہ میں رہنا لازمی ہوگا اور اس وقت اسے کسی سے ملنے کی اجازت نہیں ہوگی ۔۔
میں نے نرس کا بہت شکریہ ادا کیا کہ اس نے اتنی اچھی خبر سنائی ۔۔۔۔ میں یہ اچھی خبر سن کر گاڈ کا شکر ادا کرنے عبادت کرنے والے کمرے میں چلا آیا۔۔۔۔ یسوع مسیح نے گاڈ سے میری دعا کی سفارش کردی تھی۔۔۔میں اسی بات کا شکریہ ادا کررہا تھا کہ اچانک انا کی آواز ائی۔۔میں جلدی جلدی اپنی عبادت کرکے باہر آیا اور انا سے پوچھا،
” کیا ہوا انا تم نے آواز ۔۔۔۔۔۔۔ ”
یہ کہتے ہوئے میری نظر انا پر پڑی تو میرا جملہ درمیان میں ہی رہ گیا ۔ انا سرخ رنگ کے چست بلاؤز اور بیلو اسکرٹ میں خوب اچھے سے تیار نظر آئی۔ یہ وہی لباس تھا جو میں نے کبھی اسے لا کر دیا تھا۔ میں حیرت سے اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ اچانک آگے بڑھی اور اپنے دونوں بازوں کو میری گردن میں حمائل کرتے ہوئے کہنے لگی۔
” لاک ڈاؤن ! بھول جاؤ اپنی اسٹوڈنٹ کو۔ ”
اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا اس نے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں میں پیوست کر دیا۔ اس کے برسوں بعد اس بھرپور بوسے نے مجھ پر نشہ سا طاری کردیا اور مجھے لگا کہ اس انگارے جیسی تپش سے میرا پورا جسم جل جائے گا ۔۔۔۔۔
****
سید انور ظہیر رہبر۔ برلن ، جرمنی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...