تحریر: صادق ہدایت (ایران)
فارسی سے اردو ترجمہ: ح ر مہر
نہیں ، نہیں میں یہ کام ہر گز نہیں کروں گا ، اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں ۔ دوسروں کے لئے خوشی کا باعث ہے جبکہ میرے لئے دکھ اور پریشانی ۔ ہرگز ہرگز ۔۔۔ داؤد اپنے آپ سے کہتا ہوا اپنے چھوٹے سے زرد رنگ کے عصا کو جو اس کے ہاتھ میں تھا ، زمین پر مارتا ہوا مُشکل سے چل رہا تھا ، ایسا لگ رہا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو مشکل سے سنبھالا ہوا ہے ۔ اس کا بڑا سا منہ اس کی باہر نکلی ہوئی چھاتی اور ہڈیوں بھرے کاندھوں میں دھنسا ہوا تھا ۔ سامنے سے کرخت ، اسمارٹ اور کریہہ لگتا تھا ۔ باہر کی طرف اُٹھے ہوئے باریک ہونٹ ، لمبی بھنویں اور نیچے کی طرف جُھکی ہوئی پلکیں ، پیلی رنگت ، گالوں کی ہڈیاں نمایاں ، دور سے دیکھنے میں اس کی نازک قمیض ، اس کی اُوپر اُٹھی ہوئی پیٹھ ، لمبے بازو ، بڑی سی ٹوپی پہنے ہوئے ، سنجیدہ سی شکل بنائے ہوئے جب وہ اپنی لاٹھی کو زمین پر زور زور سے مارتا تو وہ اور بھی مضحکہ خیز لگتا تھا ۔
وہ خیابانِ پہلوی کے موڑ سے شہر سے باہر جانے والی سڑک ، دروازۂ دولت کی طرف جا رہا تھا ۔ مغرب کا وقت تھا اور موسم معمولی گرم ، بائیں ہاتھ کی طرف ڈھلتی ہوئی سورج کی روشنی میں مٹی کی دیواریں جن کی اینٹوں سے بنی ہوئی بنیادیں خاموشی سے آسمان کی طرف منہ کیے ہوئے کھڑی تھیں ۔
دائیں ہاتھ پر وہ گڑھا تھا جسے آج ہی بھرا گیا تھا ۔ اس کے نزدیک تھوڑے تھوڑے فاصلے سے اینٹوں کے نامکمل گھر دکھائی دے رہے تھے ۔ یہاں نسبتاً سکون تھا ، البتہ اِکا دُکا گاڑی یا تانگا گذرتے وقت چھڑکاؤ کے باوجود ہوا کو گرد آلود کر دیتا ۔ سڑک کے دونوں طرف بہتے ہوئے صاف پانی کی نہر کے کنارے درخت اور نہال لگائے ہوئے تھے ۔
وہ سوچ رہا تھا کہ بچپن سے اب تک لوگوں نے طنز و تمسخر یا پھر رحم کی نظروں سے اسے دیکھا ہے ۔اسے یاد آیا کہ پہلی مرتبہ جب اُستاد نے تاریخ کے بارے میں لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ (اسپارٹ) کے لوگ اپنے معذور بچوں کو قتل کرتے تھے تو سب شاگردوں نے مُڑ کر اس کی طرف دیکھنا شروع کیا تو اس کی عجیب سی حالت ہوگئی ۔ لیکن اب وہ شدید خواہش رکھتا تھا کہ تمام دنیا میں اس قانون پر عمل ہو یا کم از کم بعض ممالک کی طرح پابندی ہو کہ کوئی معذور شخص شادی نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ اسے پتا تھا کہ یہ سب اس کے والد کا قصور ہے ۔ بے رنگ سا چہرہ ، گالوں کی ہڈیاں نمایاں ، اندر دھنسی ہوئی آنکھیں اور ان کے گرد نیلے حلقے ، ادھ کھلا منہ ، اپنے باپ کو مرتے وقت دیکھا تھا ۔ وہ سارا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ۔ بوڑھا اور ضعیف شخص جس نے نوجوان عورت سے شادی کی تھی ۔ نتیجتاً اس کے سب بچے اندھے یا معذور پیدا ہوئے ۔ اس کا ایک بھائی جو زندہ رہ گیا تھا وہ بھی گونگا اور نیم دیوانہ تھا جو دو سال پہلے مر گیا ۔
لیکن وہ زندہ تھا اپنے آپ اور دوسروں سے بیزار اور دوسرے بھی اس سے گریزاں ، لیکن اُسے تنہا زندگی گذارنے کی عادت ہو چکی تھی ۔
بچپن سے اسکول میں ورزش ، کھیل کود ، دوڑنا ، فٹ بال کھیلنا غرض وہ سب چیزیں جو اس کے ہم عمر ساتھیوں کے لئے دلچسپی کا باعث تھیں ، یہ ان سب سے دور تھا ۔ کھیل کود کے وقت اسکول کے ایک کونے میں کتاب کو اپنے منہ کے سامنے پکڑ کر چوری چھپے دوسرے لڑکوں کا تماشہ دیکھتا ۔ لیکن اس نے بھی ٹھان لی کہ علم کے ذریعے سے دوسروں پر برتری حاصل کرے گا ۔ دن رات پڑھتا ، اسی وجہ سے دو نالائق شاگردوں نے اس سے دوستی گانٹھ لی ۔ وہ بھی اس لئے کہ وہ ریاضی اور دیگر مضامین کے جوابات اس کی مدد سے حل کریں ۔ اسے بھی پتا تھا کہ ان کی دوستی بے غرض نہیں ہے کیوں کہ حسن خان خوب صورت ، اسمارٹ اور اچھے اچھے کپڑے پہنتا اور بیشتر لڑکے کوشش کرتے کہ اس سے دوستی کریں ۔ صرف دو تین استاد اس پر توجہ دیتے ، وہ بھی ترس کھا کر ۔ چنانچہ بہت کوششوں کے بعد بھی وہ اپنے مقصد تک نہ پہنچ سکا ۔
اب وہ خالی ہاتھ تھا ۔ سب اس سے گریزاں ، دوست اس کے ساتھ چلنے میں شرم محسوس کرتے ، عورتیں اسے کہتیں ” کبڑے کو دیکھو ۔“ ایسی باتیں اسے احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتیں ۔
چند سال پہلے دو مرتبہ رشتہ مانگا تھا مگر عورتوں نے اس کا مذاق اڑایا تھا ، اتفاق سے انہی میں سے ایک زبیدہ اسی علاقے فیشر آباد میں رہتی تھی ۔
ایک دوسرے کو کئی مرتبہ دیکھا تھا ، باتیں کی تھیں ، دوپہر کو جب وہ اسکول سے آتی تو یہاں آ جاتا تاکہ اسے دیکھ سکے ۔ اب صرف اتنا یاد ہے کہ اس کے رخسار پر تِل تھا
۔ لیکن جب اپنی خالہ کو رشتے کے لئے بھیجا تو اسی لڑکی نے اس پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا ،
" کیا دنیا میں سارے مرد مر چکے ہیں جو میں کُبڑے کی بیوی بنوں؟"
ہر چند کی اس کے ماں باپ نے اس کی اچھی خاصی پٹائی کی تھی لیکن وہ راضی نہ ہوئی اور ایک ہی رٹ لگائی تھی کہ " کیا سارے مرد مر چکے ہیں؟" لیکن داؤد اب بھی اس سے محبت کرتا تھا اور یہ اس کی جوانی کا ایک یاد گار وقت تھا ۔ اب بھی دانستہ یا نادانستہ اس علاقے میں نکلتا اور پھر ماضی کی باتیں اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم جاتیں ، وہ شدید عدم خوداعتمادی کا شکار ہوچکا تھا ۔ اس لئے اکیلا گھومنے نکلتا اور لوگوں سے دوری اختیار کرتا کیوں کہ جو کوئی بھی ہنستا یا اپنے دوست سے آہستہ گفتگو کرنے لگتا ، اس طرح محسوس ہوتا کہ اس کے متعلق گفتگو ہو رہی ہے یا اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے ۔ اپنی گردن کو بمشکل گھماتا ، تحقیر آمیز نگاہ ڈالتا اور چلا جاتا ۔ راستے میں اس کی تمام توجہ لوگوں کی طرف ہوتی اور اس کا منہ بھنچ جاتا تاکہ دوسروں کے خیالات اپنے متعلق جان سکے ۔
نہر کے کنارے آہستہ آہستہ گذرتا اور کبھی کبھی اپنے عصا کی نوک سے پانی میں شگاف کرتا چلا جارہا تھا ۔ اس کی سوچ و فکر پریشان اور درہم برہم تھی ۔ اس نے دیکھا کہ ایک کتے نے جس کے لمبے سفید بال تھے ، اس کے عصا کی آواز سے جو ایک پتھر سے ٹکرایا تھا ، سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ موت کی دہلیز پر ہے اس لئے اپنی جگہ سے نہ ہلا اور دوبارہ سر کو زمین پر رکھ دیا ۔
وہ بمشکل جھکا اور چاند کی روشنی میں ان کی نگاہیں چار ہوئیں ، ایک عجیب و غریب احساس نے جنم لیا ، ایسا لگ رہا تھا کہ یہ پہلی نظر ہے جو سادہ اور مہربان تھی ۔ دونوں بدبخت اور فالتو چیز کی مانند انسانی معاشرے سے دُور پڑے ہیں ۔
اس کا دل چاہا کہ اس بدنصیب کتے کے پاس جو اپنی بد بختیوں کو شہر سے باہر لا کر لوگوں کی نظروں سے چھپا رہا ہے ، بیٹھے اور اسے اپنی آغوش میں لے کر اس کے سر کو اپنی باہر نکلی ہوئی چھاتی سے بھینچے ۔ لیکن اسے خیال آیا کہ اگر کسی نے یہاں گزرتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کا اور زیادہ مذاق اڑائیں گے ۔ سورج غروب ہونے والا تھا ۔ وہ یوسف آباد کے دروازے سے نکل گیا ۔ چودھویں کا چاند جو اپنی چاندنی دلچسپ مگر الم ناک رات کے اس پر سکون ابتدائی حصے میں پھیلا رہا تھا ، کی طرف نگاہ کی ۔ نامکمل گھر ، اینٹوں کے ڈھیر ، خواب آلود شہر ، درخت ، گھروں کی چھتیں ، نیلے پہاڑ کو دیکھ رہا تھا جو اس کی آنکھوں کے سامنے تاریک پردے کی مانند نظر آتا تھا ۔ دُور و نزدیک تک کوئی نظر نہیں آرہا تھا ۔ دُور سے ابوعطا * کی مدھم آواز آرہی تھی ۔ سر کو مشکل سے اُٹھایا ، وہ تھکا ہوا تھا، غم و اندوہ سے نڈھال اور اس کی لال آنکھوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا سر ، تن پر بوجھ بن رہا ہو ۔ داؤد اپنے عصا کو نہر کے کنارے رکھ کر اس کے دوسری طرف بغیر سوچے سمجھے ، سڑک کے کنارے ایک پتھر پر بیٹھ گیا ۔ اچانک اس نے دیکھا کہ ایک عورت اس کے نزدیک نہر کنارے بیٹھی ہوئی ہے ۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی ، اس عورت نے بغیر کچھ کہے ، منہ اس کی طرف کر کے مسکراتے ہوئے کہا ،
" ہوشنگ ! اب تک کہاں تھے؟"
داؤد عورت کے اس اندازِ گفتگو سے بہت حیران ہوا کہ اسے دیکھ کر اس عورت نے اب تک اظہارِ نفرت کیوں نہیں کیا؟ ایسا لگ رہا تھا کہ دنیا کی ساری خوشیاں اس کی جھولی میں ڈال دی گئی ہوں ، اس کے پوچھنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ باتیں کرنا چاہ رہی تھی لیکن اس وقت وہ یہاں کیا کر رہی ہے ؟ کیا شریف زادی ہے ؟ شاید کسی سے دل لگایا ہو ۔ بہر حال جرات کر کے اپنے آپ سے کہا جو ہوتا ہے وہ ہو جائے ۔ اوّلاً بات چیت کرنے والا مل گیا ہے شاید مجھے کچھ حوصلہ مل جائے ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی زبان بے قابو ہو گئی ہے ، کہنے لگا ،
" خانم ! آپ تنہا ہیں؟ میں بھی تنہا ہوں ، ہمیشہ سے اکیلا ہوں ! ساری عمر اکیلا رہا ہوں ۔۔۔ " ابھی اس نے بات ختم نہیں کی تھی کہ اس عورت نے منہ گھما کر عینک جو اس نے آنکھوں پر لگا رکھی تھی ، سے اسے دیکھا اور پھر کہا ،
" آپ کون ہیں ؟ میں سمجھی ہوشنگ ہے ، وہ ہر وقت آتا ہے اور میرے ساتھ ہنستا کھیلتا ہے ۔ "
داؤد اس آخری جملے کو نہ سمجھ سکا ، لیکن اسے اس بات کا انتظار بھی نہ تھا ۔ مدت ہوئی کہ کسی عورت نے اس کے ساتھ بات کی ہو ۔ ٹھنڈے پسینے کے قطرے جسم پر رینگنے لگے اور مشکل سے کہا ،
" خانم ! میں ہوشنگ نہیں ہوں ، میرا نام داؤد ہے ۔"
عورت نے ہنستے ہوئے جواب دیا،
" میں آپ کو دیکھ نہیں سکتی ، میری آنکھوں میں درد ہو رہا ہے۔ اچھا داؤد ۔۔۔ کُبڑا داؤد " (ہونٹوں کو کاٹنے لگ گئی) لگ رہا تھا کہ کوئی جانی پہچانی آواز کانوں سے ٹکرا رہی ہے ،
" میں زبیدہ ہوں مجھے جانتے ہو؟ "
اس کے بالوں کی لٹ جس نے اس کا آدھا چہرہ چھپا دیا تھا ، کو جھٹکا لگا اور داؤد نے اس کے رخسار پر تِل کو دیکھا ۔ فرطِ غم سے اس کا سانس لینا مشکل ہو رہا تھا اور بدن میں آگ سی لگ گئی ۔ پسینے کے قطرے اس کی پیشانی سے گرنے لگے ۔ اپنے ارد گرد دیکھا کوئی نہیں تھا ۔ ابو عطا کی آواز کافی قریب سے آرہی تھی ۔ دل کی دھڑکن اتنی تیز ہو چکی تھی کہ سانس لینا مشکل ہو رہا تھا ۔ کچھ کہے بغیر لرزتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا ، بغض نے اس کے گلے کو جکڑا ہوا تھا ۔ اپنے عصا کو اُٹھایا اور گرتے پڑتے جس راستے سے آیا تھا اسی پر واپس ہو لیا اور رندھی ہوئی آواز میں اپنے آپ سے کہنے لگا ،
" یہ زبیدہ تھی ! مجھے نہیں دیکھ سکتی تھی ۔ ۔ ۔ ہوشنگ شاید اس کا منگیتر یا شوہر ہے ۔ ۔ ۔ کیا پتا ؟" نہیں ۔ ۔ ۔ ہرگز نہیں۔ ۔ ۔ مجھے کچھ نہیں سوچنا چاہیے ! ۔۔۔ نہیں نہیں میں کچھ نہیں کر سکتا ۔۔۔ وہ اپنے آپ کو گھسیٹتا ہوا اسی کتے تک لے گیا جس کو راستے میں دیکھا تھا ، قریب بیٹھا اور اس کا سر اپنی باہر نکلی ہوئی چھاتی سے بھینچا لیکن کتا مر چکا تھا ۔
Written by:
Sadegh Hedayat (17 February 1903 – 9 April 1951)
– an Iranian writer, translator and intellectual.