(Last Updated On: )
سیانوں کا کہنا ہے کہ مشکوک نسب کے جہلا، اجلاف و ارذال اور سفہا پر کسی خاص خطے کا اجارہ نہیں زمین کا یہ بوجھ ہر جگہ کثرت سے پایا جاتاہے۔ بستی مستریاں والی ہو یا سیاہی وال کے مضافات کا جنگل ہر جگہ ان درندوں کی کمین گاہ موجود ہوتی ہے۔ مگر مچھ نگر کے شمال میں دس کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے جہلم کے کنارے واقع ایک قصبہ یہاں کے جاہل کمینوں اور رذیل مکینوں کی بد اعمالیوں اور مقدر کی سیاہی کے باعث سیاہی وال کے نام سے مشہور ہو گیا۔ گذشتہ کئی صدیو ںسے یہ علاقہ ان ننگ انسانیت درندوں کے جرائم کی آماجگاہ بنا ررہا۔ نوآبادیاتی دورمیں سیاہی وال چالیس بکھرے ہوئے کچے گھروندوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤ ں تھا جہاں کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا تھا۔ اس کوچے میں جس سمت نظر اُٹھتی ایک سے بڑھ کر ایک خسیس کینہ پرور، حاسد سفلہ اور حیلہ جُوبے بس لوگوں کو اپنی سادیت پسندی کی بھینٹ چڑھا کر ہنہناتا نظر آتا۔ دریا ئے جہلم کے مشرقی کنارے قدرتی جنگل بیلے میں بہت سے سانپ، اژدہا، خار پُشت، کنڈیالے چوہے، چُغد، چمگادڑ، تیندوے، راکون خر سک ، جنگلی باگڑ بِلّے، گینڈے، ریچھ، جنگلی سور، لومڑیاں، گیدڑ اور بھیڑیے رہتے تھے۔ دریا کے گہرے پانی میں بڑے بڑے کچھوے،دریائی ناگ اور مگر مچھ اکثر تیرتے دکھائی دیتے تھے۔ برطانوی استعمار کے غلبے کے بعد اس علاقے میں کردار اور اخلاقیات کو دریا بُرد کر دیا گیا۔ یہاں کے اکثر باشندے بہرام ٹھگ اور نعمت خان کلانونت کے مشکوک نسب سے تعلق رکھنے پر اصرار کرتے تھے۔ یہاں کی عورتوں کا مزاج بھی عجیب تھا اکثر عورتیں مان بائی، نُور بائی، اَد بائی، قدسیہ بیگم، ہِیرا بائی، رعنا دِل، لال کنور، ماہ لقا بائی چندا، زہرہ کنجڑن اور اُدھم بائی سے کھینچ تان کر اپنا شجرہ نسب ملاتیں اور ماضی کی ان رذیل طوائفوں کی پیروکار بن گئی تھیں۔ کماتھی پورہ اورنت پروا سے تعلق رکھنے والی متعدد طوائفیں نسل در نسل جسم فروشی کے دھندے سے یہاں داد عیش دیتی چلی آرہی تھیں ۔ شادی بیاہ کے مواقع پر رقص اور گیت کی محفلوں میں ان طوائفوں پر بے دریغ کرنسی نوٹ نچھاور کیے جاتے تھے۔ وہ لوگ جن کے گھر گارے اور مٹی سے تعمیر کیے گئے تھے اب ان کے پختہ وسیع اور پر تعیش عشرت کدوں میں سونے چاندی کی کئی اینٹوں اور ہیرے جواہرات کے دفینے موجود تھے۔ان عیاش نو دولتیوں کو اپنی جعلی شان و شوکت پر بہت گھمنڈ تھا جس کے باعث جرائم سے آ لودہ اُ ن کی ہنگامہ خیز زندگی اور اُلجھنوں سے متعفن معمولات نے انتہائی قابل نفرت صورت اختیار کر لی تھی ۔ جب بے بصراور کور مغز لوگ اپنی پے درپے غلطیوں ،غیر مختتم حماقتوں اور مضحکہ خیزکو تاہیوں کے باوجود سفلگی اور سادیت پسندی پر مبنی صریح جھوٹ پر مبنی اپنے مجنونانہ موقف پر ڈٹ جائیں،کج بحثی پر اُتر آئیں ، بات بات پر کا ٹنے کو دوڑیں اور واہی تباہی بکنے لگیں اُن کی اصلاح کی کوئی اُمید بر نہ آئے اور نہ ہی بہتری کی کوئی صورت نظر آئے تو یہ صورت حال گہری سوچ کی متقاضی ہے ۔ان حالات میں یہ گمان کیا جا سکتاہے کہ شاید اِن جہا و سفہا نے تیل اور تیل کی دھار دیکھنے کے بعد ہے ہو اکا رُخ پہچان لیاہے اور یہ گروہِ گوسفندانِ قدیم اَب وادی ہوش و حواس میں پلٹ کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے اور چڑھتے سُورج کی پرستش کرنے پر تُل گیا ہے ۔ کوچۂ چہل جہلاکا قدیمی مکین کہرام ٹھگ اپنے ہم نوالہ و ہم پیالہ ساتھی تشفی مَل کنجڑے کی اجازت اور مشاورت سے متمول لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پھیرنے اور عیاشی کی غرض سے جھاڑ کھنڈ جا نکلا مگر کشاکشِ حیات نے وہاں بھی اس کا تعاقب کیا اور وہاں بھی اُسے اماں نہ ملی۔جھاڑ کھنڈکے با ضمیر باشندوں نے ان تلنگوں کی ٹھگی کی وارداتوں کا احوال پہلے سے سُن رکھا تھا۔جھاڑ کھنڈ کے شہر رانچی کے باشندوں نے اجلاف و ارذال کے پروردہ اِن سفہا کی خوب دُھنائی کی اور یہ خاک بہ سر در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے تھے۔ ،جھاڑ کھنڈ سے بے نیلِ مرام لوٹنے کے بعد کہرام ٹھگ نے جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ کا رُخ کیا ۔ وہاں چا ر مینار کے نواحی علاقے میںرقص کرنے والے ایک خواجہ سرا سے کہرام ٹھگ کی آ نکھیں چار ہو گئیں اور یہ جنسی جنونی اس پر جھپٹا ۔موقع پر موجود محافظوں نے حسین خواجہ سرا کو اِس بُھوت سے بچایا۔گردشِ ایام سدا کہرام ٹھگ اور اُس کے جرائم پیشہ ساتھیوں کے تعاقب میں تھی اپنے حال ِزبوں کے بارے میں یہی بات دہراتا تھا:
’’ میں شیوا کادیوانہ ہوں میرا چاک گریبان در اصل عرضِ خمیازہ ٔبہرام ہے ۔ میں نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے وہ پاراوتی دیوی،کالی دیوی اور گھاموندا دیوی کی عطاہے ۔اس وقت دنیا کے بڑے بڑے ٹھگ میرا دم بھرتے ہیں مگر ابلیس نژاد بھوت رکتابیجا(Raktabija) سے تعلق رکھنے والے لوگ مجھے سے حسد کرتے ہیں۔ میں بختاوری کا شوہر ہوں جو کالی دیوی کی پجارن ہے۔ میری بیوی بختاوری نے مجھے یقین دلایا ہے کہ وہ کالی دیوی کی آ شیر باد مجھے رکتا بیجاسے بچا لے گی ۔ میری زبان کالی اور قدم سبز ہیں اس لیے میںجہاں جاتا ہوں میرے مقدر کی سیاہی میرے ساتھ رہتی ہے ۔میں جہاں بھی رہوں تباہیاں اور بر بادیاں میرے ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔ ہم نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے بڑی تپسیا کی ہے ۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میرا بیٹا رمضو ٹھگ اپنے ٹھگ خاندان کے نقشِ قدم پر چلے گا اوراپنے حاسدوں کی چھاتی پر مونگ دَلے گا۔‘‘
جھنگ کے محلہ مستریاں والا میں کہرام ٹھگ کے قحبہ خانے میں دِن کے وقت بھی شب کی تاریکی کا سماں ہوتاتھا۔ یہ سال 1972ء کی بات ہے گرمیوں کی دوپہر تھی بہرام ٹھگ کے سگڑ نواسے کہرام ٹھگ کے گھر میں بیری کے ایک خمیدہ درخت کے نیچے اُس کی بیوی بختاوری اور اُس کی دو بیٹیاں شمی اور آشی پسینے میں شرابور زمین پربچھی پھٹی ہوئی چٹائی پر بیٹھی چرخہ کات رہی تھیں۔ گھر کے آ نگن میں کھڑابیری کا خمیدہ درخت گزشتہ صدیو ںکی تاریخ کا ایک ور ق تھا جس پر ایام گزشتہ کی تاریخ کے نشیب و فرازکی داستان رقم تھی ۔بیری کے اس درخت کے بارے میں کئی داستانیں زبان زد ِعام تھیں ۔کچھ لوگوں کا خیال تھاکہ بیری کا یہ درخت نہ صرف آسیب زدہ ہے بل کہ کالی دیوی کا ٹھکانہ بھی یہیں ہے ۔اس درخت کی شاخوں سے پُر اسرار مافوق الفطرت عناصراور خلائی مخلوق کی گفتگو سنائی دیتی ۔تاریک راتوں میں اس درخت کی بلند شاخو ں پر فاختہ کی جسامت کے طیور پرواز کرتے جن کی گردن لمبی اور سر پر کلغی ہوتی تھی ۔پرواز کے دوران میں ان طیور کے پرو ںسے شعلہ سا لپک جاتا۔کئی لوگوں نے اس درخت پر بھوت ،چڑیلیں ،ڈائنیں اور پریوں کی موجودگی کا حال بھی سنایا۔کہرام ٹھگ نے روشنی کے لیے پڑوسیوں سے بجلی کی تار لے رکھی تھی مگر پنکھا نہیں تھارات کو روشنی کے لیے صفر واٹ کا بلب روشن کیا جاتاتھا تا کہ بجلی کے بھاری بِل سے بچنے کی کوئی صورت نکل آئے۔ کہرام ٹھگ کی پوشیدہ مصروفیات کے باعث گھر کی خانہ دار خواتین کی اب تو صرف چرخہ کاتنے پر ہی گزر اوقات تھی ۔ چھوٹے سے قصبے کے سنسان بازار میں کہرام ٹھگ کی چھوٹی سی کریانہ کی دُکا ن تھی جہاں شکار کے لیے اُس کی مچان تھی ۔جھنگ میںسال 1973ء اگست کے مہینے میں دریائے چناب میں جو تباہ کن سیلاب آیا اُس کی طوفانی لہروں نے بیری کے درخت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔ سیلاب کا پانی اترا تو لکڑ ہارے آ گئے اور اُنھوں نے آروں اور کلہاڑوں سے بیری کے درخت کو کاٹ ڈالا۔کار آمد لکڑی تو فرنیچر کی تیاری کے لیے الگ کر لی گئی جب کہ باقی لکڑی ایندھن کے لیے مقامی لکڑ منڈی میں فروخت کر دی گئی۔بیری کا درخت نہ رہا توبھوت ،آسیب،پریاں ،چڑیلیں اور ڈائنیں بھی غائب ہو گئیں ۔مقامی باشندو ںنے یہ ندائے غیب سنی اَب اس کھنڈرکے ملبے پر ایک چو ر محل تعمیر ہو گاجس میں انسانوں کے رُوپ میں آسیب بسیرا کریں گے ۔ایک مکان میں دو شیطان کیسے قیام کر سکتے ہیں ۔بوسیدہ مکان کے ملبے سے کالے ناگ یہ کہہ کر رخصت ہوئے کہ اب اس جگہ جو نیا مکان تعمیر ہو گااُس میںبروٹس قماش کے محسن کُش، آستین کے سانپ اور سانپ تلے کے بچھو ٹھہریں گے۔ سلطان کو اس بات کا قلق تھاکہ کہرام ٹھگ نے اپنے پورے خاندان کو ذلت اور تخریب کی راہوں پر چلنے کی ترغیب دی ہے ۔ سجاد نے کوچۂ چہل جہلا و سفہا کے حالات کے بارے میں کامل آ گہی رکھنے والے لوگوں سے رابطہ کر کے یہاں کی زندگی کے نشیب و فراز کا سب انداز سمجھ لیا تھا۔ایک دِن وہ شبیر سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
’’قریۂ دِل میں اِس پُر اسرار کُوچے میں رہنے والے جہلا، سفہا اور اجلاف و ارذال کی تلخ یادیں ایک عذاب کی صورت میں سما گئی ہیں ۔سیاہی وال کا وہ علاقہ جو کوچہ ٔ چہل جہلا و سفہا کہلاتا تھا آج بھی اپنی نحوست کامنھ بولتاثبوت ہے ۔ پہلے اس علاقے میں تشفی مَل کنجڑا اور اس کی نائکہ بیوی امیرن بائی رہتی تھی ۔اس کے بعدیہ علاقہ نائکہ تفسہہ اور اُس کے بھڑوے شوہر رمضو ٹھگ کا ٹھکانہ بن گیا۔ان شقی القلب ٹھگوںکی مشق ستم نے علاقے کے مکینوں کے چراغ ِ درد کی لو کو افزوں کر دیا ۔‘‘
شبیر نے جب کوچۂ چہل جہلا وسفہا کے متعلق اپنے بڑے بیٹے کے یہ تاثرات سُنے تو اُس نے آہ بھر کرکہا:
’’سیاہی وال کے کوچۂ چہل جہلا وسفہا کے بارے میں کہا جاتاتھاکہ یہ کوچہ تو بازار ِحُسن اور ہیر ا منڈی ہے۔اس کوچے میں حُسن و رومان اور عشق و محبت کا بیوپار سرِ عام ہوتا تھا۔وہ رِند جنھیں پیمانِ وفاکی دِل کشی ،نیم باز آ نکھوں کی مستی اور عشوہ و غمزہ وادا کی دِل لگی کی تمنا مضطرب ر کھتی وہ اِس کُوچے میں کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے تھے۔ شہر کے ماحول کو بہتر بنانے کے سلسلے میں اس علاقے کے لوگوں کی سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور کوئی اُمید بر نہ آئی۔ آرزوؤںکی مشعل گُل ہونے کے بعد مایوسیوںاور محرومیوںکے دھوئیں سے جب گھٹیا عیاش اور کالا دھن کمانے والے درندوں کے دل کے آ نگن میں تاریکی چھاجاتی تو تنہائیوں اور اُداسیوں سے گھبرا کر مُوذی اس کوچے کا رخ کرتے تھے ۔‘‘
جنسی کارکن ساحرہ نے کہرام ٹھگ ،تشفی مَل کنجڑے اور اس کے خاندان کے لوگوں کے بارے میں کہا:
’’نائکہ تفسہہ کے قحبہ خانے میں ہر رقاصہ کے چہرے پر سجی مصنوعی مسکراہٹ کو دیکھ کر سب مست بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر رقص کرتے اور شر م و حیا کو بارہ پتھرکر دیتے تھے ۔ اصل مسئلہ یہ تھاکہ کوئی شخص بھی تشفی مَل کنجڑے اور کہرام ٹھگ کی قباحتوں کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کی جرأ ت نہ کر سکا۔اس پر طرفہ تماشا یہ کہ کوچہ چہل جہلا و سفہا کا ہر مکین اس زعم میں مبتلا تھاکہ وہی اس عہدکا سب سے بڑا ناصح اور مصلح ہے ۔اس کوچے کے وہ مکین کہ شقاوت آمیز نا انصافی،پیمان شکنی ،فریب کاری ، محسن کُشی اور سادیت پسندی جن کا وتیرہ تھا وہ بھی دردمندوں کی غم گساری کے لیے مر ہم بہ دست پہنچ جاتے۔کوچہ ٔ چہل جہلا و سفہا کے مکینوں کے شب و روز کے معمولات ہمیشہ پردۂ اخفا میں رہتے یہی وجہ تھی کہ مقامی باشندے انہیں دیکھ کر خوف و اضطراب میں مبتلا ہو جاتے تھے ۔‘‘
شبیر نے جب کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے کی بستی کے متعلق وہا ں رہنے والی مشاطہ اور جنسی کارکن ساحرہ کی باتیں سُنیں تو وہ بولا :
’’بعض دانش وروں کا کہنا ہے کہ ہر علاقہ اپنے مکینوں کی وجہ سے پہچانا جاتاتھا۔یاد رکھنا چاہیے اگر کسی کھیت میں حنظل کی بیلیں اُگائی جائیں تو یہ توقع ہی عبث ہے کہ وہ بیلیں خربوزے فراہم کریں گی ۔جس صحرا میں تھوہر اور زقوم کی فراوانی ہو وہاں سے گلاب اور چنبیلی کی مہک کی آس رکھنا خود فریبی کے سوا کیا ہے ؟ہرو قت اور ہر حالت میں لذت ِ ایذ ا حاصل کرنا کوچۂ چہل جہلا و سفہا کے موذی و مکار مکینوں کا مطمح نظر رہا ہے ۔اپنی بد اعمالیوں ،فریب کاریوں اور ٹھگی کی وجہ سے اِس آسیب زدہ کُوچے کے سفاک مکینوں کو معلوم تھا کہ ان کے دروازے پر رحمت کا فرشہ کبھی نہیں آ سکتا۔ کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑا عادی دروغ گو اور پیشہ ور ڈاکو تھے ۔ کاش ان درندوں کے جال میں پھنسنے والے یہاں کے مظلوم مکین حرف صدقت کو ڈھا ل بنالیتے توسادیت پسندی کے مرض میں مبتلا ان درندوں کے شر اور حرص و ہوس کی تیر اندازی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ۔ ‘‘
اقلیم معرفت سے تعلق رکھنے والے بزرگ راناسلطان نے ایک مرتبہ کوچۂ چہل جہلا و سفہا سیاہی وال سے تعلق رکھنے والے ٹھگوں کے بارے میں بتایا :
’’ صرف کوچۂ چہل جہلا و سفہا کے ٹھگ ہی سفا ک نہیں بل کہ سچ تو یہ ہے کہ سیاہی وال کے گرد و نواح میں رہنے والوں کامزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ انھیں ٹھگوں کے ہاتھوں لُٹنے کا شو ق سا ہو گیاہے اور بار بار ان کے فریب کا شکار ہونا ان کا معمول بن گیاہے ۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ تشفی مَل کنجڑے اور کہرام ٹھگ کے آبا کاپیشہ سو پشت سے ٹھگی تھا اس کے باوجود لوگ ان کے فریب میں آکر متاعِ زیست سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔کچھ فریب خوردہ شاہین صفت لوگ ایسے بھی ہیں جو سیاہی وال کے کرگسوںمیں پَل کر پروان چڑھے اور عقابی انداز بُھلا بیٹھے ۔اس شہرِ کوراں کا عجب حال ہے کہ مشق ستم سہنے والے الم نصیب لوگ نہ صرف کینہ پرور حاسدو ںاور آستین کے سانپوں کے لیے جگر کا خون پیش کرتے ہیں بل کہ خود اپنے لیے بھی سہارے کی تلاش میں خجل ہوتے ہیں ۔‘‘
راناسلطا ن کا بڑ ابیٹا شیر خان بڑ ی توجہ سے یہ باتیں سن رہا تھااس نے آ ہ بھر کر کہا:
’’ میں نے بزرگوں سے سناہے کہ کوچۂ چہل جہلا و سفہامیں صدیو ںسے چالیس چوروں کا بسیراہے جنھوںنے علاقے کے لوگوں کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔چوروں کے یہ چالیس جرائم پیشہ خانوادے اپنے سرداروں تشفی مَل کنجڑے اور کہرام ٹھگ کے اشاروں پر کام کرتے ہیں ۔عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے کہ صرف ایک مرتبہ لٹ جانا ہی اُس لٹنے والے کے لیے عبرت کا سامان ہے ۔اگر اتفاق سے اُس الم نصیب کو دوسری مرتبہ بھی وہی ٹھگ لُوٹ لے تو یہ ناحق جی کا زیان کرنے کے مترادف ہے اور اگر تیسری مرتبہ بھی وہی ٹھگ اپنے مکر کی چالوں سے اسی شخص کے گھر کا صفایا کر دے تو یہ نہ صرف لُٹنے والے کی اپنی جہالت مآبی اور حماقت کی دلیل ہے بل کہ اُس کی اپنی کور مغزی اوربے بصری کے باعث اُس پر کوہِ ستم ٹُوٹاہے ۔ یہ ایسا لرزہ خیزالمیہ ہے جس کا مداوا کسی صورت میں ممکن ہی نہیں۔ ‘‘
’’ اس علاقے میں بڑے بڑے چغد بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔‘‘ سجاد حسین نے کہا میں نے یہ خوف ناک جنگلی مخلوق دیکھی ہے ’’ سیاہی وال سے سرگودھا جانے والی سڑک کے کنارے جو پٹرول پمپ ہے وہاں سے ایک گلی مشرقی بستی کی جانب جاتی ہے۔وہاں کھجور کے درختوں کی کھوہ سے نکل کر بڑے بڑے اُلّو اور اُلّو کے پٹھے فضا میں اور بلند مکانات کی چھتوں پر منڈلاتے دکھائی د یتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہو جاتے ہیں اور رمضو ٹھگ کی بیوی تفسہہ اور اُن کی طوائف بیٹی مصبہا بنو اپنے ان شیدائی طیور کو دیکھتی ہیں تو اُن کے دِل کی کلی کِھل اُٹھتی ہے ۔ سیاہی و ال کے کوچہ ٔ چہل جہلاو سفہا کے مکینوں کے بارے میںیہ بات مشہور ہے کہ اُن کے اندر زاغ و زغن اور چغد کی روح پوشیدہ ہے ۔ سیاہی وال کے نواحی علاقے سے طائرانِ خوش نوا کے کُوچ کر جانے کے بعدیہاں کے مکینوں نے کرگس ،چغد ،زاغ و زغن اور چمگاڈر کو نوشتۂ دیوار سمجھ کر حالات سے سمجھوتہ کر لیاہے ۔ کوچۂ چہل سفہا میں آ ستین میں پلنے والے سانپ اپنے محسن کی آ ہ و فغاں کی دلدل کی بالکل پر وا نہیں کرتے ، اس کوچے کے ٹھگ کبھی محتسب کو خاطر میں نہیں لاتے ،یہاں کے بد وضع چغد ظلمت ِ شب سے ہراساں نہیں ہوتے اور عیارغدار سازشوں کی بھر مار سے ہراساں نہیں ہوتے ۔ کوچہ ٔ چہل جہلا و سفہا کے اُلّوکاٹھ کے اُلّو نہیں اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں کے اُلّو کسی چڑیل یا بھوت کے ٹھکانے پر جانے کے بجائے اپنی نحوست کا نشانہ بنانے کے لیے سداکسی عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پورے نو دولتیے کا انتخاب کرتے ہیں ۔ اب اس علاقے میںغلطی سے کوئی عقاب آنکلے تواُس کی جان پہ بن آتی ہے ۔اس شہر نا پرساں کے چغد جب کسی گھر میں سیم و زراور دولت کے انبار دیکھتے ہیں تولب ِ اظہار پر تالے لگالیتے ہیں اور اس وقت تک ایک لفظ بھی منھ سے نہیں نکالتے جب تک اُس گھر کا صفایا نہیں کر دیتے ۔‘‘
سلطان نے سیاہی وال کے کوچۂ چہل جہلا و سفہا کے عقوبت خانے کے بارے میںکہا :
’’سیاہی وال کے کوچۂ چہل جہلا و سفہا کے ڈان اور سسلین مافیا کے پروردہ کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑاپورے علاقے میں خوف اور دہشت کی علامت بن گئے تھے ۔ وادیٔ خیال میںمستانہ وار ستم کشِ سفر رہنے والے خود ستائی اور خود نمائی کے مرض میں مبتلا لوگ جو اپنے تئیں بہت ہوشیار اور دانا سمجھتے تھے ان کو یہ عادی دروغ گو اور پیشہ ور دھوکے باز ٹھگ آسانی سے اپنے جال میں پھنسا لیتے تھے ۔ ان ٹھگو ںنے دھوکہ د ہی کا آغا زاپنے خاندان کے افراد اور اپنی ذات سے کیا اس تجربے کے بعد وہ دوسروں کو دھوکہ دینے میں مہارت حاصل کر سکے ۔ کوچۂ چہل جہلا و سفہا کے فاتر العقل مکینوں نے پینترے بازی ،شعبدہ بازی ،عیاری اور مکاری میں اس قدرہو شیاری کا ثبوت دیا کہ صداقت اور دیانت کو بارہ پتھر کر دیا۔سیاہی وال کے گرد و نواح کے مکین اس قدر سادہ اور موم کی ناک ثابت ہوتے کہ وہ ان ٹھگوں کے پاس کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے اور صیاد کی ہر بات بلا چون و چرا تسلیم کر لیتے تھے ۔‘‘
کہرام ٹھگ کابڑا بیٹارمضوٹھگ بھی اب اپنے باپ کے ساتھ مِل کر چوری، ٹھگی اور ڈاکے سے زرومال بٹورنے لگاتھا۔اس مُوذی کے بارے میںمشہور تھا کہ اِس نے دیہی علاقے کے مکینوں کوبہت لُوٹاہے ۔ رمضو ٹھگ نے کوچۂ چہل جہلا و سفہا کے بارے میں اپنی تین بیٹیوں اور پانچ بہنوں کو بتایا :
’’ بعض اوقات مٹی کی بھی قسمت جاگ اُٹھتی ہے ۔اکیسویں صدی میں گلی کوچوں میں واقع قحبہ خانوںمیں دھندہ کرنے والی جنسی کا رکن، طوائفیں اور کٹنیاں بھی بر ج الضعیفہ کے محلات تک جا پہنچی ہیں ۔ترکی کے سرکس میں ریچھ کو سدھانے والے ایک غریب عیسائی مداری کی سولہ سالہ بیٹی جو محض اُون کات کر روزی کماتی تھی اُس کی مثال ہمیشہ سامنے رکھو ۔ فاقہ کش عیسائی مداری کی یہ حسین و جمیل بیٹی جب جسم فروش طوائف اور ماہر فن رقاصہ بنی تواُس کی دنیا ہی بدل گئی ۔ سر کس کے اس غریب مداری کی بیٹی کا نام تھیوڈورا ( CE-D,548 Theodora: B,497) تھا جو بازنطینی دور میں استنبول میں شہنشاہ جسٹینین ( Justinian ) کی ملکہ بن گئی ۔ دہلی کی طوائف لا ل کنور ہی کو لے لیں جو مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کواپنے دام میں لانے کامیاب ہو گئی اور امتیاز محل کے نام سے ملکۂ ہند بن گئی ۔ ‘‘
نائکہ تفسہہ نے اپنے شوہر کی باتیں سُنیں توبولی :
’’ اس وقت کوچۂ چہل جہلا و سفہاکا سب سے بڑا مداری تو رمضو ٹھگ ہی ہے ۔جس نے اپنی بیٹیوں کو تھیوڈورا ،لال کنور اور نو ر جہاں بنانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ۔ ہمارے قحبہ خانے میں دس سال تک جنسی کارکن کی حیثیت سے کام کرنے والی ہماری بیٹی شگن جس کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ یہ چمن ہزار مرتبہ لُوٹا جا چکاہے ہم نے اُسے ایک بڑے جاگیردار کے حوالے کر دیا۔اب اس کے بچے ہو گئے ہیں ظاہر ہے جاگیردار کے بعد اُس کی سب میراث ہماری بیٹی اور ہمارے نواسوں کے ذریعے ہمیں مِل جائے گی ۔ اپنے قحبہ خانے میں خدمات انجام دینے والی اپنی بیٹی سمن کا بیاہ میں نے اپنے بھتیجے رازی سے کیا جو لاہور کے ایک کارخانے میں ملازم تھا۔اُس کی ایک بیٹی پیدا ہوئی ہمیں اس بات کا شدت سے احساس تھاکہ یہ بیاہ تو سراسر گھاٹے کا سوداہے تو ہم نے فوراً اپنی بیٹی کی طلاق لے لی اور اُس کا دوسرا بیاہ ایک بڑے سرمایہ دار سے کر دیا۔ ایک بیٹی کی ماں نئی نویلی دلہن کے رُوپ میں جب نئے سسرال روانہ ہوئی تومیرے بھتیجے کی بیٹی بھی ساتھ لے گئی ۔یہاں بھی اُس کی ایک لڑکی پیدا ہوئی ہے یوں ہماری نسل اور اُمیدوں کی فصل پیہم بڑھ رہی ہے۔ میں اپنی ایک بھتیجی کو بہو بنا کر اپنے گھر لائی جب میری بہو کے مناسب دام لگے تو ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور اپنے بیٹے گنوار انتھک کو بھڑکا کر بہو کو طلاق دلوا دی اورپہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق میر اُس مطلقہ بھتیجی کی شادی ایک تاجر گھرانے میں ہو گئی ۔اپنے بیٹے گنوار انتھک کے لیے کوچۂ آ ہن گراں سے ایک ایسی لڑکی بیاہ کر لائی جس کے آنے سے ہمارے قحبہ خانے کی رونقیں بڑ ھ گئیں ۔‘‘
رمضوٹھگ نے اپنی نائکہ بیوی کی باتیں سُنیں تو اُس کے منھ سے جھاگ بہنے لگا اور وہ غرانے لگا:
’’ یہ سیاہی وال کا کوچۂ چہل جہلا وسفہاہے اور گنوار انتھک اس وقت تمام چوروں ،ٹھگوں اورڈاکوؤں کا سر غنہ ہے ۔اِس کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر مناسب دام لگیں تو یہ اپنی والدہ کی نیلامی سے بھی گریز نہیں کرے گا۔یہ پیشہ ور ٹھگ کا بیٹاہے اور کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کر سکتا۔میں تو اُس وقت سے ڈرتاہوں جب کبھی اِس بروٹس کو معلوم ہوا کہ میرے بوڑھے والدین مجھ پر بوجھ بن گئے ہیں تو یہ سارا بوجھ اُتار کر پھینک دے گا اور یہ استرہنہناتا ہواکسی اور اصطبل کا رُخ کرے گا۔‘‘
کوچہ ٔ چہل جہلا و سفہا جیسا ماحول ٹھگی کی وارداتوں کے لیے بہت سازگار ہوتاہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں سیاہی وال سے تعلق رکھنے والا ٹھگ مافیا مکر و فریب ،دھوکہ دہی اور پیمان شکنی کو مغربی تہذیب کی ایک پر کشش ارتقائی صورت کا نام دیتا تھا۔اپنی ٹھگی کو وہ اپنی ہیبت و قوت اور سطوت کی علامت قرار دیتے تھے۔ تاریخ کے پیہم رواں عمل سے شپرانہ چشم پوشی ،تاریخی حقائق کی تمسیخ اور مسلمہ صداقتوں کی تکذیب کو وتیرہ بنا کر سیاہی وال کے کوچہ ٔ چہل جہلا و سفہاکے کور مغز اور بے بصر ٹھگوں نے اپنی تخریب اور مکمل انہدام کی راہ ہموار کر دی ۔ مہیب سناٹوں اور سفاک ظلمتوں کے گرویدہ کوچہ چہل جہلا و سفہا کے خطر ناک اور موذی و مکار مکین خلوص و مروّت کی مشعل کو بجھا کرآستین کے سانپ بن کر اپنے محسن کو کاٹ لیتے تھے۔ انسانی ہمدری ،غم گساری اور چار ہ سازی سے اُن کا کوئی تعلق نہ تھا۔ منزلوں کی جستجو میں سر گرداں اسپان ِ ترکی و تازی جب حُسن و جمال کے فرغلوں میںلپٹا ان ٹھگوں کا ڈالاہوا متوقع راحت ،شادمانی اور کامرانی کا چار ہ دیکھتے تو اس بات کا خیا ل کیے بغیر کہ اس چارے کے نیچے اذیتوں اور عقوبتوں کے جال بھی بچھے ہیں چارے پر ٹُوٹ پڑتے ۔اس غفلت کے نتیجے میں اسپان ِ ترکی و تازی تو منزلوں سے بھٹک جاتے مگر مریل استر، ٹٹو،گدھے اور خچر میدان ما رلیتے تھے ۔
جرائم پیشہ درندوںکہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے کی بد اعمالیوں اور ایذا رسانیوں سے عاجز آ کر رانا سلطان نے سیاہی وال سے اپنے روابط پہلے ہی منقطع کر لیے تھے ۔ وہ سیاہی وال کو پاکستان کا کوفہ قرار دیتااور اپنی اولاد کو اس شہر ِ سنگ دِل کے مکینوں سے بچنے کی تلقین کرتاتھا۔کوچۂ چہل جہلا و سفہاکے بارے میں اپنے تاثرات ،تجربات اور مشاہدات اِس بزرگ نے یو ں بیان کیے :
’’ نظام کائنات میں سکوں محال ہے یہاں تبدیلی کا سلسلہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ کوچہ ٔ چہل جہلا و سفہا سیاہی وال کے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز کر گس ،چغد ،زاغ و زغن اور چمگادڑ اپنی وضع کبھی نہیں بدل سکتے ۔ان کی عامیانہ چال اور تباہیوں کی تمنا لیے مہم جوئی کے جال سے بچنا محال ہے ۔ انسانی ڈھانچوں کو نو چنے والے یہ کرگس اپنے شکار سے کبھی مطمئن نہیں ہوتے بل کہ ہر وقت نوچنے اور بھنبھوڑنے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔بچپن میں کم عمر لڑکیا ں اُچھل کود اور جھولا جھولنے میں دلچسپی لیتی ہیں مگر کوچہ ٔ چہل جہلا و سفہا سیاہی وال کی لڑکیاں بچپن ہی سے چڑیل بن کر خون پینے ،سکوت مرگ سے جی بہلانے اور اپنے شکار کو موت کے گھاٹ اُتارنے کی تمنا کرتی ہیں ۔خون آشامی ،سفاکی ،درندگی اورخست و خجالت کی پیکر یہاں کی چڑیلوں کو دیکھ کر زندگی کی کم مائیگی اور کار جہاں کے ہیچ ہونے کا یقین ہو جاتاہے ۔یہاں کے ٹھگ مردبھی آد م خور بھوت ہیں جو رات کی تاریکی میں آسودگانِ خاک کے استخواں نوچتے ہیں اور راہ گیروں کولُوٹ لیتے ہیں ۔‘‘
ستمبر 1939ء اپنے اختتام کوپہنچ رہاتھادوسری عالمی جنگ کا آغاز ہو گیاتھا۔پورا بر صغیر نوآبادیاتی نظام کے چُنگل میںجکڑا ہوا تھا۔برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر جو 1857ء کی ناکام جنگ ِ آزادی کے بعدتاج ور بن چکے تھے وہ اس خطے کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے تھے ۔مغلوں کی حکومت کا جاہ و جلال تاریخ کے طوماروں میں دب چکا تھا۔ سیاہی وال کے علاقے کے ذیل دار کو امر تسر کے قصاب ڈائر کی طرف سے حکم ملا کہ وہ مقامی نوجوان باشندوں کو برطانوی فوج میں بھرتی ہونے پر مائل کریں ۔ ذیل دار کے دھمکی آمیز اصرار سے تنگ آ کر گاؤں دو آبہ کے مکین صالح محمد نے دل پہ جبر کر کے اپنے میٹرک پاس بیٹے سلطان کو برطانوی فوج میں سپاہی بھرتی کرانے پرآمادگی ظاہر کر دی ۔چڑھتے سورج کے پجاری پرائمری فیل کہرام کو جب سلطان کے عزائم کے بارے میں معلو م ہوا تو اُس نے بھی بر طانوی فوج میںبھرتی ہونے کے لیے کمر کس لی ۔سلطان کے گھر میں تو سب لوگ پریشان تھے مگر کہرام کے والدین اپنے بیٹے کے فوج میں بھرتی ہونے پر بہت خوش تھے ۔کہرام کے باپ نے اپنے گھر میں گُڑ کی ٹانگری بنائی اور ہر گھر میں تقسیم کی ۔ محاذِ جنگ پرروانہ ہوتے وقت سلطان نے اپنے دِلِ محزوں کو بہت سنبھالا اور اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ دشتِ ہجر میں افسوں کرنا جی کا زیاں کرنے کے مترادف ہے ۔ نو جوان بیٹے کومحاذ جنگ پر بھیجتے وقت سلطان کے سب اہلِ خانہ کی آ نکھیں اشک بار اور دِل سوگوار تھا۔سب کے حریم ِ خیال میں لُٹی محفلوں کی گرد اُڑ رہی تھی ۔اپنی ضعیف ماں اور بھائیوں سے بات کرتے ہوئے سلطان نے کہا:
’’ اپنی جنم بھومی سے دُوری کے بارے میں سوچتاہوںتو آنکھوں سے جوئے خوں روں ہو جاتی ہے ۔ آب ِ رواں کو ساحلوں سے جدا کرنا کسی کے اختیار میں نہیں ۔سوچتاہوں آپ کی محبتوں کا جو میری جانِ ناتواں پر قرض ہے وہ کیسے اداکروں؟مجھے ہر لحظہ اور ہر گام آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے ۔‘‘
سلطان کے روانہ ہوتے ہی اہلِ خانہ کے دِل کی بستی ویران ہو گئی ۔ سلطان کی ضعیف ماں جو بیوگی کی چادر اوڑھ کر زندگی کے دن پورے کر ر ہی تھی سوچنے لگی تنہائیوں کے بے آ ب و گیاہ صحرا میں کسے مدد کے لیے پکاروں ۔
دوسری عالمی جنگ ( 1939-1945) شروع ہوئی تو برطانیہ نے اپنی نو آبادی ہندوستان کے مظلوم باشندوں کو اپنی جنگ کی بھٹی میں جھو نک دیا۔ جھنگ کے دُور اُفتادہ علاقے کے مکین سلطان اور کہرام پڑوسی تھے انھیں بھی برطانوی فوج میں سپاہی بھرتی کر لیا گیا۔معمولی تربیت کے بعد انھیں جرمن افواج سے لڑنے کے لیے محاذِ جنگ پر بھیج دیاگیا۔ دونوں پڑوسی جنگ کے زمانے میں غیر ملکی اجنبیوں کے روّیے سے ناخو ش و بیزا رتھے ۔مسلسل چھے برس تک مختلف محاذوں پر دونوں پڑوسی برطانوی فوج کے دستوں سے مِل کر جرمن افواج کے ساتھ مصرف ِ جنگ رہے۔ دوسری عالمی جنگ زوروں پر تھی اس عرصے میںحالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ سلطان اور کہرام اپنے گھر سے رابطے میں نہ ر ہے ۔ پہلی مرتبہ اس عالم آب و گِل میں آنکھ کھولنے کے بعد ایک انسان کے لیے صبرآزماحالات میں زندگی بسر کرنا در اصل مر مر کے زندہ رہنے کا نام ہے۔ایسے لوگوں کی ہر اُمید مرگ ِ نا گہانی پر منحصر ہوتی ہے وہ روز مرتے ہیں اور سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پورے کرتے ہیں۔وطن سے دُوری کی عقوبت ،اذیت اور مجبوری ، جبر کے ماحول میںزندان ِ حوادث میں محبوس ہونے کے اعصاب شکن حالات اور گردشِ ایام کے ستم انسانوں کے لیے ابتلااورآزمائش سے کم نہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران میں سلطان اور کہرام کو مشرقِ وسطیٰ میں مختلف محاذوں پر بھیجا گیا۔چھے سال کی جنگ میں مشرقِ وسطیٰ میں قیام کے دوران میں سلطان نے ہر سال حج کی سعادت حاصل کی اور ماہِ صیام میں مسجد نبوی میں اعتکاف میں بیٹھ کر عبادت کی ۔کہرام ٹھگ نے اپنا منشیات کا دھندہ جاری رکھااور یہ پھندہ لے کر وہ موقع ملتے ہی قدیم کھنڈرات، مختلف تاریخی عمارات اورتفریحی مقامات کی سیر کو نکل جاتاتھا۔ جب وہ عراق میں بابل کے کھنڈرات دیکھنے کے لیے گیا تو اُس نے تنہا راتوں میں سکون دینے والی چار ہزار قبل مسیح سے تعلق رکھنے والی جنگ،حُسن و رومان، جنس اور محبت کی دیوی ’’ اِنانہ اِشتر ‘‘ ( Inana Ishtar)کے مجسمے پرپھولوں کی پتیاں نچھاور کیں ۔ اس نے اہرام مصر میں فراعنہ کی قبروں پر حاضری دی اور ابوالہول کا مجسمہ بھی دیکھا۔ابوالہول کے مجسمے اورفراعنہ کی نشانیوںپر پھول نچھاور کر کے وہ بہت خوش ہوا ۔کہرام ٹھگ کی منحوس شخصیت منافقت کے حصار میں بند تھی جو شخص بھی اُس کے قریب جاتاواپسی کا راستہ بھول جاتا۔ قاہرہ سے ساٹھ میل دُور غزہ کے ریگستان میں اہرام مصر اور ابوالہول کا مجسمہ دیکھ کر کہرام ٹھگ خوشی سے پھولا نہ سمایا اور فخر سے اپنے ساتھی سلطان کو بتایا :
’’ بابل کے بادشاہ بخت نصر کو میں بہت پسند کرتاہوں ۔ بابل کے کھنڈرات سے میں ایک اینٹ اُٹھا کر اپنی بغل میں دبا کر لایا ہوں جس پر قدیم بادشاہوں میں سے کسی ایک کا نام کندہ ہے ۔میں یہ اینٹ اپنے گھر کے دروازے پر لگاوٗں گا۔ میں اس نیم کے درخت کی نمولیاں بھی اُٹھا لایا تھا جس کے نیچے پلاسی کی جنگ میں شکست کھانے کے بعد دو جولائی 1757ء کو سراج الدولہ دم لینے کے لیے رُکا تھا۔یہیں پر میر جعفر کے بیٹے میرن کے حکم پر محمدی بیگ نے سراج الدولہ کو قتل کر دیا گیاتھا۔نیم کی یہ نمولیاں میں نے اپنے گھر میں اگائی ہیں ۔ مغربی بنگال کے شہر مرشد آباد میں میر جعفر کی نمک حرام ڈیوڑھی سے جو اینٹ میں اُٹھا کر لایا تھا وہ پہلے ہی میں نے اپنے گھر کے دروازے پر نصب کر دی ہے ۔میں نے تین ہزار سال قبل مسیح کی یادگار قدیم عمارات دیکھی ہیں ۔میں نے چشم تصور سے دیکھا کہ میں اپنے اسلاف کی نشانیاں دیکھ رہا ہوں ۔ابوالہول (SPHINX) جس کا دھڑ شیر کااور سر انسان کا ہے واقعی یہ مجسمہ خوف کا باپ ہے جب میں نے پہلی بار اسے دیکھا تو خوف کے مارے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔یہ دنیا کا بہت بڑا عجوبہ ہے جو چونے کا پتھر کاٹ کر بنایا گیاہے ۔ ابوالہول کی لمبائی ایک سو نواسی(189) فٹ اور بلندی پینسٹھ (65) فٹ ہے ۔میں دیر تک ابو الہول سے باتیں کرتا رہا اور ابوالہول مجھے آشوب ِ آگہی کی اذیت و عقوبت سے خبردار کرتا رہا۔ماضی کی ان نشانیوں کو دیکھ کر میرے دِل میں خیال پیدا ہوا کہ میں بھی ابوالہول بن کر دنیا پر اپنی دہشت کی دھاک بٹھا دوں۔ آج کے دور میںبغداد کو پھر کسی تیمور کی ضرورت ہے ۔ ‘‘
سلطان اور کہرام ٹھگ دونوں نے مختلف محاذوں پر جرمن فوج کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔خاص طور پر جنرل منٹگمری کی کمان میں العالمین کے محاذ پر برطانوی فوج میں ملازم بر صغیر سے تعلق رکھنے والے ان سپاہیوں کو اپنے فوجی دستوںکی کارکردگی پر ہمیشہ فخر رہا۔ اس عرصے میں جب بھی چھٹی ملی سلطان نے سعودی عرب میں عمرے کی سعادت حاصل کی اور ایران ،شام ،عراق کے تاریخی مقامات کی زیارت کی سعادت بھی حاصل کی ۔ چھے سال جاری رہنے والی اس عالمی جنگ میں وہ برما،بصرہ ،بغداد ،قاہرہ ، طبرق صحرائے سینااور صحرائے کیارہ کے نزدیک مختلف محاذوں پر تعینات ر ہے ۔ حج کے موقع پرسلطان ہر سال اپنی کمان سے اجازت لے کر سعودی عرب پہنچتا اور فریضہ ٔ حج ادا کر کے روحانی سکون محسوس کرتا ۔ ہر سال ماہ صیام میں سلطان عمرے کی سعادت حاصل کرتا اور رمضان کے مبارک مہینے کے آخری عشرے میں مسجد نبوی میں اعتکاف میں بیٹھتا۔ کہرام ٹھگ کو اپنے ہم وطن اور پڑوسی سلطان پر اعتمادنہ تھا اس لیے وہ اپنی مصروفیات سے اُسے آگاہ نہ کرتا۔ سلطان اور کہرام ٹھگ کے ذوق مختلف تھے ۔ سلطان روحانیت کو پسند کرتاتھا جب کہ کہرام ٹھگ کی مادیت پسندی اس کی پہچان بن گئی ۔کہرام ٹھگ کو یونانی طریقہ علاج کے طبی نسخوں ،ٹونے ٹوٹکوں اور آثار قدیمہ سے گہری لچسپی تھی ۔ دوسری عالمی جنگ میں صحرائے سینا میں برطانوی فوج تعینات تھی۔اپنی یونٹ کے مجاز افسروں کی اجازت سے سلطان اپنے کچھ رفقا کے ساتھ جبلِ موسیؑ ( کوہِ طُور ) کی زیارت کے لیے پہنچا۔سیاحت کے شوق میں سلطان اور اُس کے ساتھیو ں نے سال 1869میں مکمل ہونے والی 183کلو میٹر لمبی نہر سویز کو اِس نہر کے مقام ِ آغاز پورٹ سعید پر جا کر دیکھا۔کہرام اور اُس کے عیاش ساتھیوں نے اہرام مصر دیکھے اور بیس برس کے عرصے میں 2560 BC میں مکمل ہونے والے 481 فٹ بلند فرعون خوفوکی آخری نشانی کے سرہانے فقط سنگ دیکھ کر دنگ رہ گئے ۔برطانوی فوج میں بھرتی ہونے سے پہلے کہرام ٹھگ جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے والے
مقامی معالج کے معاون کے طور پر کام کر چکا تھا۔دوسری عالمی جنگ کے دوران میںمصر میں قیام کے عرصے میں کہرام ٹھگ کو مقامی اطبا نے بتایا کہ لوبان کے استعمال سے کئی بیماریوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ دوسر ی عالمی جنگ کے زمانے میں مصر میں لوبان کی کاشت کثرت سے ہوتی تھی ۔لوبان کے تنے کو کئی مقامات پرتیشے یا کلہاڑی سے ایک انچ کے قریب کاٹا جاتا تھا ۔اس جگہ سے خاص قسم کی گوند نکلتی جسے خشک کر کے لوبان تیارکیا جاتاتھا ۔ یونانی اطبا کا خیال ہے کہ لوبان جن بیماریوں کے علاج میں مفید ہے ان میں بواسیر ،رسولی ،جنسی بیماریاں ،دمہ ،متلی اور گلے کی سوزش شامل ہیں ۔ مشرق وسطیٰ میں قیام کے عرصے میں بہرام کو علمِ نجوم ، دست شناسی ،پیرا سائیکالوجی ، مافوق الفطرت عناصر اور مابعد الطبیعات کے بارے میں بھی بہت مفید معلومات حاصل ہوئیں ۔اسے یہ بھی بتایا گیا کہ لوبان کے سلگانے سے آ سیب ، بد روحیں ،دیو ، جن ،بھوت ،چڑیلیں اور ڈائنیں بھاگ جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ حشرات الارض ،چھپکلی ،سانپ ،بچھو ،اژدہا ،مچھر ، کن کھجورا،کھٹمل،پسو ،مچھر اور لال بیگ سے نجات حاصل کرنے کے لیے لوبان کی دھونی اکسیر ہے ۔فوجی ملازمت سے جب بھی چھٹی ملتی کہرام ٹھگ اپنے آبائی گھر پہنچتااور جہاں لوبان کے شیدائی اس کا شد ت سے انتظار کرتے تھے۔ سیاہی وال میں کہرام ٹھگ کے عزیزجھارو کا سوتیلا باپ شفو رہتاتھا ۔یہ شقی القلب مسخرا ایک طالع آزمااور مہم جُو درندہ تھا۔ اس علاقے میں لوبان کی مانگ بہت زیادہ تھی اور اس کا استعمال یو ں سمجھ لیں کہ ویاگرا کے مانند تھا ۔ شفو نے لوبان سے منشیات کی تیاری کا مکروہ دھنداشروع کر دیا۔ خلق ِخدا کا حلق کسی کی گرفت میں نہیں اس زمانے میںہر شخص یہی کہتا کہ عالمی جنگ کے سنگ شفو کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ۔ اس نو دولتیے کو دیکھ کر سب لوگ دنگ رہ گئے جس نے اس دھندے میں بہت کچھ کمایا ۔ کہرام اور اس کے گروہ میں شامل ٹھگوں نے زمانہ جنگ میں جو چاند چڑھایا وہ کسی کی نظر سے اوجھل نہ تھا ۔
اپنی اور گردو نواح کی زندگی کے معمولات پر گہری نظر رکھنے کے باوجود اپنے حاسدوں اور کینہ پرور منافقوں کو اُن کے احمقانہ فیصلوں پر ٹوکنا سلطان کا شیوہ ٔ گفتار نہ تھا۔ اس بار جب سلطان نے اپنے ساتھی کہرام کی باتیں سُنیں تو وہ چُپ نہ رہ سکا اور کہا:
’’ تم واقعی فرعون کی اولاد ہو اس صحرامیں نہ تو تمھیں اپنی اوقات کا کچھ خیال ہے اور نہ ہی جنگ کی تباہیوں کا کوئی ملال ہے ۔ اس ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ اہرام مصر اور ابو الہول کو دیکھنے کے لیے تو تم نے طویل مسافت کی مگر سیناکے علاقے میںواقع جبل ِموسیٰ ؑ کے جلوے دیکھنے کی تمنا تمھارے دِل میں پیدا نہ ہو سکی ۔ میں جبل موسی ؑ دیکھنے گیا تو دریائے نیل میں فرعون کے غرق ہونے کا واقعہ یاد آ گیا جو ہر عہد کے فر اعنہ کے لیے عبرت کا تازیانہ ثابت ہو گا۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ ابوالہول کی ناک اور ٹھوڑی کاٹ دی گئی ہے جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے ہر قسم کے جاہ و جلال اور کر و فرکو نیست و نابودکر دیتے ہیں۔ بغداد کے شاہ بندر کیفے کے نواحی قحبہ خانوں میں سنگیت ناچ دیکھنے کے سوا تمھارے پا س کوئی مصروفیت ہی نہیں۔حریتِ فکر کا ہر مجاہد تمھارے دِل میں کانٹے کی طر ح کھٹکتاہے مگر ظالم و جابر مطلق العنان حاکم تمھارے محبوب ہیں۔‘‘
کہرام نے جب سلطان کی سچی باتیں سُنیں تو وہ آگ بگولا ہو گیااور غرانے لگا:
’’ مجھے اٹلی کا سیاست دان اور مطلق العنان حاکم مسو لینی ( : 1883-1945 Benito Mussolini)بہت پسند ہے ۔مسولینی نے اٹلی میں ڈنڈے کے زور پر حکومت کی اور سب کو سیدھا کر دیا۔میں آئر لینڈ سے تعلق رکھنے والی عورت وائلٹ گبسن(1876-1956:Violet Albina Gibson )کے اس بزدلانہ اقدام کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتاہوں جس نے اپنی دیوانگی کے ہاتھوں مجبور ہو کر سات اپریل 1926کو مسو لینی پر گولی چلا دی تھی مگر مسولینی محفوظ رہا۔اٹلی کی حکومت نے اقدام قتل کرنے والی اس سفاک حملہ آور کو جلاوطن کر کے غلطی کی موقع پر ہی جان سے مار دینا اس کے سنگین جرم کی مناسب سزاتھی ۔‘‘
بر طانوی افواج نے دوسری عالمی جنگ میں کچھ عرصہ بغداد میں بھی گزارا۔ بغداد میںیورپی انداز اور فیشن کی نمائش سے کہرام ٹھگ بہت متاثر ہوا ۔ عیاشی اور مے نوشی کے لیے وہ اکثر یورپی عورتوں کے عشرت کدوں میں چلا جاتا تھا۔ یورپی عورتوں نے اس گھٹیا عیاش کی فطرت کو سمجھ لیا تھا اس لیے انھوں نے اس مسٹنڈے کو صفائی کے کاموں میں لگائے رکھا ۔یہ مُورکھ یورپی عورتوں کے قحبہ خانوں میںفرش دھوتا اور دیواروں کی جھاڑ پھونک میںمصروف رہتااور حسیناؤں کے درشن سے دل بہلاتاتھا۔ اس اختلاط سے وہ کسی حدتک انگریزی بولنے اور سمجھنے کے قابل ہوگیا۔ کہرام ٹھگ نے بنو عباس کی حکومت کا ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا اور ہلاکوخان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کو اپنے اسلا ف کی بہادری کی مثال قراردیا۔ ہلاکو خان نے بغدا د کا تیرہ دن (29جنوری 1258تا10فروری 1258)کا جو محاصرہ کیا کہرام اُسے بہترین جنگی چال قرار دیتاتھا۔سقوط بغداد کے وقت ہلاکوخان کے مسلح دستوں نے بغدادشہرمیں جو قتل عام اور لوٹ مار کی اُسے کہرام ٹھگ اپنے آبا کی شجاعت پر محمول کرتاتھا۔کہرام ٹھگ نے ہلاکو خان کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی کے بارے میں کہا:
’’ میں وہ محروم ہوں کہ میں نے ہلاکو خان کا زمانہ نہیں دیکھا اور ہلاکوخان کے مسلح دستے خوش قسمت تھے کہ انھوں نے موجودہ زمانے کی جنگیں نہیں دیکھیں جو سپاہیوں اور عوام کو مفلس و قلاش کر دیتی ہیں ۔میرے دل میں ایک تمنا ہے کہ کاش میں بھی ہلاکوخان کی مسلح فوج میں شامل ہوتااور بغدا دشہر سے جی بھر کرمالِ غنیمت لُوٹ کر اپنے گھر لے جاتا۔اس عالمی جنگ سے تو مجھے یورپ کی نیم عریاںحسیناؤں کے جلوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ۔‘‘
سلطان نے اپنے خود غرض ،حریص اور موقع پرست ساتھی کہرام ٹھگ کی باتیںنہایت تحمل سے سنیں اور کہا:
’’ اے ابلیس نژد درندے !تمھارے اندر ایک چھوٹے منھ والا تنگ نظر فربہ ابلیس پنہاں ہے جو ہر وقت حرام کھانے کے لیے بھوکا رہتاہے اور اس کی بھوک کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ کہتے ہیںکہ تمھاری خست ،خجالت ،حرص اور ہوس کا معاشی مسائل سے کوئی تعلق ہی نہیں بل کہ تم ایک سنگ دِل حاسد ہو تمھیں کسی کی خوش حالی ایک آ نکھ نہیں بھاتی ۔ تم سداوہ مال غنیمت ہتھیا لینے کی فکر میں رہتے ہو جس کے لیے تم نے سرے سے کوئی مہم جوئی ہی نہیں کی ۔تمھارے جیسے خسیس لوگوں کی ہوس اور حرص کے نتیجے میں قسمت سے محروم غریب طبقہ صدیوں سے مصائب و آلام کے پاٹوں میں پستاچلا آ رہا ہے ۔تم ہر وقت لُوٹ مار کی فکر میں رہتے ہو مگر دردمندوں ،ضعیفوں اور حاجت مندوں کی چارہ گری کا تمھیں کبھی خیال ہی نہیں آتا۔ حاجت مند کی احتیاج تومخیرلوگ پوری کر سکتے ہیں مگر تم جیسے حریص اور خسیس درندے کی تباہ کن ہوس کاچاک دامن رفو کر نا بعید از قیاس ہے ۔تمھارے جیسے ذہنی قلاش کو قناعت کا درس دینا وقت اور محنت کا صحیح مصرف نہیں ۔ ‘‘
جنگ ختم ہوئی توزمانے کے حالات اور برطانوی نو آبادیات کے محکوم باشندوں کے خیالات بدل چُکے تھے ۔ساری دنیا کے سیاسی اور معاشرتی حالات تبدیلی کی زد میں تھے مگر الم نصیبوں اور جگر فگاروں پر
جو شام ِ الم مسلط تھی اُس کے بدلنے کے امکانات بہت کم تھے ۔سلطان نے تو اپنے آبائی گاؤں دو آبہ کا رخ کیا اور کھیتی باڑی کے کاموں کو حصول معاش کا ذریعہ بنایا اِس کے ساتھ ساتھ اُس نے نے دکھی انسانیت اور مدد کے مستحق انسانوں کے کرب کا مداوا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔دوسری عالمی جنگ کے ختم ہونے کے بعد جب کہرام وطن واپس پہنچا تو وہ اپنے آبائی قحبہ خانے اور چنڈو خانے کے دھندے میںمصروف ہو گیا۔ جنس و جنون اورمنشیات کی فروخت کے دھندے سے کہرام نے بہت کالا دھن کمایا۔کہرام کے قحبہ خانے میں عیاش جاگیرداروں اور نوابوں کا تانتا بندھا رہتاتھا۔ وہ سادہ لوح کہرام جو برطانوی فوج میں جانے سے پہلے دیہات کے ماحول میں دلچسپی لیتاتھا بیرون ملک سے لوٹا تو بڑے شہروں کے ماحول کا گرویدہ ہو گیا اوراُس نے اپنے گھر کا ماحول ہی بدل دیا۔ یورپی اقوام کی فوج میں بڑی تعداد میں نو جوان انگریزعورتیں بھی شامل تھیں۔کہرام نے یورپی تہذیب و ثقافت کے رنگ کو بہت پسندکیا او رجب گھر آیاتو پردے کی مشرقی روایات قصہ ٔ پارینہ بن گئیں ۔اس کی سب رشتہ دار خواتین اب فیشن،منشیات اور جنس جنون کی رسیا بن گئیں اور نیم عریاں لباس پہن کر تقریبات میںشرکت کرتی تھیں ۔کہرام جس گورکھ دھندے میں اُلجھ گیا تھا اُس کو دیکھ کر اکثر لوگ اس سے کنارہ کش ہو گئے ۔سلطان نے بھی کہرام سے رابطے کم کر دئیے ۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران میںجب کہرام ٹھگ برطانوی فوج میں بھرتی ہو گیا تو اِٹلی میں سسلین مافیا کے ساتھ ربط میں رہا۔ اس عرصے میں اُس نے دہشت اور خوف کے ذریعے لُوٹ مار کے طریقے سیکھے ۔کہرام ٹھگ کے طرز زندگی سے یہ بات واضح ہو جاتی تھی کہ زندانوںاور احتساب کے افسانوں کے سب کرداروں کا جرائم سے گہرا تعلق ہے ۔ اپنے انگریز آقاؤں کے جوتے پالش کرنا اس ابلہ کا وتیرہ تھا۔ ذاتی مفادات حاصل کرنے کی خاطر انگریز آقاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر وہ ارض وطن کے غداروں کا بہت بڑا مداح بن گیا۔ اس جنگ میں وہ کچھ عرصہ مغربی بنگال میں بھی رہا وہ مرشد آباد پہنچا اور نمک حرام ڈیوڑھی( Traitor Gate) میں رسوائے زمانہ غدار اور اپنے خاندان کے بزرگ میر جعفر( 1691-1765) کی قبر پر حاضری دی اور وہاں پر پھولوں کی چادر چڑھائی ۔ نمک حرام ڈیوڑھی کے کھنڈرات کو دیکھ کر وہ مگر مچھ کے آ نسو بہانے لگا۔ٹیپو سلطان کے ساتھ میسو ر کی جنگ میں غداری کرنے والے میر صادق کو کہرام ٹھگ اپنا ہیر و قرار دیتا تھا۔ اس نے میر صادق کے مرقدپر کئی بار حاضری دی اور وہاں پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں ۔ وہ اکثر اپنے جرائم پر گھمنڈ کرتا اور کہتا کہ بے ضرر اور بزدل لوگوں کی وجہ سے آبادیاں سکوت مرگ کا منظر پیش کرتی ہیں ۔
کھیتوں اور کھلیانوں کی بربادی ، توپوں کی گھن گرج اورمکانات کا انہدام دوسر ی عالمی جنگ کا بہت بڑا المیہ تھا۔دوسری عالمی جنگ کی تباہیوں اور قتل و غارت کے آلام نے بر صغیر کے باشندوں کو بالعموم اور اس علاقے سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کو بالخصوص شدید اضطراب اور تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ ان کے مزاج میں عدم برداشت اور تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی جس کا اظہار کرنے کے لیے وہ کبھی کبھار کوئی چیز توڑ کر اپنے غصے کا اظہار کرتے تھے۔ نوآبادیاتی دور کے حالات کے پیش نظر کہرام ٹھگ اور سلطان نے یہ محسوس کر لیاتھاکہ وہ گردش ِ ایام کے نتیجے میں حالات کا جبر سہنے پر مجبور ہیں ۔ حالات کے جبر کی پیدا کردہ ناقابل برداشت اذیت و عقوبت برداشت کرتے کرتے وہ اکثر دل برداشتہ ہو جاتا مگر کہرام ٹھگ ہر وقت ہنہناتا رہتا۔محاز ِجنگ پر آلام ِ روزگار کے ستم سہنے والا سپاہی سلطان اس نتیجے پر پہنچاکہ نو آبادیاتی دور میں ایک محکوم قوم کے فرد کی حیثیت سے اُسے حالات کے دھارے کی سمت ہی میں بہنا ہوگا۔دوسر ی عالمی جنگ میں دُکھی انسانیت پر کوہِ ستم توڑنے والے درندوں کی مشق ستم کا سلسلہ پیہم جاری تھا۔جنگ کی تباہیاں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتاتھاکہ اقوام ِ یورپ نے مخلوقِ خدا کے قصر ِ وقار کو مکمل طور پر منہدم کرنے کا فیصلہ کر ر کھاہے اور ابلیس نژادسفاک درندے مظلوم، بے بس اور دُکھی انسانیت کو پتھر کے زمانے کے ماحول میں پہنچانے پر تُل گئے ہیں۔سلطان اور اس کے ساتھی نہ چاہتے ہوئے بھی لرزہ خیز جنگی جرائم میں شامل تھے ۔ مہیب سناٹو ں اور جان لیوا ظلمتوں میںحرف صداقت لکھنے والے نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے تھے۔ہر طرف موت کا عفریت منڈلا رہا تھا مگر جنگی جنون میں مبتلا سالار خچر بیچ کر مُردو ں سے شرط باندھ کر سو رہے تھے ۔ دوسری عالمی جنگ میں محا ذ ِ جنگ پر سلطان کے معتمد ساتھی حاجی محمدیوسف نے سلطان کے بارے میں بتایا:
’’ہم سب لوگ متلون مزاجی ،اضطراب اور تذبذب کے عالم میںتھے ۔ایک عجیب ذہنی کشمکش تھی جس میں ہم سب پردیسی فوجی مبتلا تھے۔ اجنبی ماحول اور برطانوی افسروں کے ناروا سلوک نے ہمیں زُود رنج اور چڑ چڑا بنا دیا تھا۔ ہم ایشائی باشندے اس ناروا سلوک اور اپنی توہین ،تذلیل و تضحیک کے خلاف احتجا ج کرنا چاہتے تھے مگر ہماری کوئی امید بر نہ آتی اور نہ ہی اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر آتی تھی ۔کئی بار ہمارے جی میں یہ خیال آیا کہ بر طانوی فوج کی ملازمت کو خیر بادکہہ کر یہاں سے دُور نکل جائیں اور خاکِ وطن سے لپٹ کر اپنے دُکھوں کاحوال بیان کریں۔ شدید بمباری کے بعددرخت بھی جھلس گئے تھے جہاں بھی کھیتوں کے کنارے کھڑے بانکے پہرے دار درختوں کی کچھ چھاؤں دیکھی ہم لوگ بے اختیار سایہ طلب وہاں جا پہنچے تودرخت پکار اُٹھے اے پردیسیو تم اس وقت یہاں آئے جب جنگ کے شعلوں نے ہمیں اس قدر جھلسا دیاہے کہ ہمارا دامن بُور اور ثمر سے تہی ہو چکاہے ۔
حاجی محمد یوسف کی باتیں سُن کر سلطان نے اپنے ساتھیوں کو سمجھایا:
’’محاذ ِ جنگ پر خزاں کی مسموم گرد میں لپٹے ہوئے اشجار کے جھلسے ہوئے مظلوم تنوں پر اثمار کی محرومیوں اور مجبوریوں کے ملبوسات دیکھ کر لرز اُٹھتاہوں ۔گولیوں کی بوچھاڑ سے سہمے ہوئے طیور بھی طلوع ِصبح بہاراںسے مایوس ہو چکے ہیں ۔ ہوا میں گرہ لگانے سے کچھ حاصل نہ ہوگایہ باتیں ناقابل عمل ہیں ۔برطانوی فوج کے سراغ رساں ہر وقت اور ہر جگہ ہماری نگرانی کر ر ہے ہیں۔اس وقت ہماری بے بسی کا یہ حال ہے کہ ہم صرف اپنے دِل میں جنگی جنون اور مسلح فوجی تصادم سے نفرت کر سکتے ہیں ۔ توپوں کی گھن گرج سُنتاہوںتو ایسا محسوس ہوتاہے کہ زہراب ِزندگی رگوں میں اُتر گیا ہے ۔ یورپی اقوام کی بڑھتی ہوئی منافقت ،شقاوت آمیزجنگی جنون اور فوجی طاقت کابے رحمانہ اور بے تحاشا استعمال دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور چبانے کے اور ہوتے ہیں ۔ یورپی اقوام کی طرف سے تہذیب و تمدن اور شائستگی کے جو دعوے کیے جاتے ہیںوہ سب کے سب منافقت اور مکر و فریب پر مبنی ہیں۔ غریب الوطنی میں کربِ فراق کا تریاق کہاں ملے گا؟‘‘
دوسری عالمی جنگ اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی اور اتحادی افواج کے حلق میں فتح کے شیریں اثمارکا ذائقہ اُترنے لگاتھا ۔ 6۔ اگست اور 9۔ اگست 1945ء کو امریکہ نے علی الترتیب جاپان کے دو شہروں ہیر و شیما اور ناگاسا پر ایٹمی حملہ کر دیا۔اس کے ساتھ ہی نازیوں کو شکست ہو گئی اور اتحادی افواج نے فتح کا جشن منایا ۔ بر صغیر سے تعلق رکھنے والے فوجی اپنے وطن واپس جانے کے لیے بے قرارتھے ۔سلطان ،حاجی محمد یوسف ،احمد یار ،شہامنداور کہرام ٹھگ اپنی جنم بھومی جھنگ کے لیے عازم سفر ہو گئے ۔اس موقع پر سلطان نے ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہا:
’ ’ ہمارے بہت سے ساتھی ایسے تھے جو اِس طویل جنگ کے شعلوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔آج کسی کو اُن نام تک معلوم نہیں مگر وطن کی آزادی کے لیے ان کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔جنگ میں جان
کی قربانی دینے والے حریت ضمیر سے جینے و الے سر فروش سپاہی ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر موت سے وہ مر نہیں سکتے ۔ ہم زندہ و سلامت اپنے وطن واپس جا رہے ہیں اور نازی افواج کو اسلحہ اورافرادی قوت کا جو گھمنڈ تھا وہ سب جنگ کے شعلوں میں جل کر راکھ ہو گیاہے ۔طالع آزما اور مہم جُو نازی افواج نے جنگ کی جو گرد اُڑائی اب اس کے گردباد سے اُن کی دستار اَٹ گئی ہے ۔ ہم نے جنگ کی تباہیاں ،بربادیاں اور اموت دیکھی ہیں اس لیے ہمیں اقوامِ عالم کے مسلح تصادم سے سخت نفرت ہے ۔‘‘
عالمی جنگ ختم ہوئی تو سلطان اور کہرام ٹھگ مدراس پہنچے ۔ مغل بادشاہ جہاں دارشاہ کی اہلیہ لا ل کنور کی سہیلی زہرہ کنجڑن کا نواسہ تشفی مَل کنجڑا مدراس کا بدنام اچکا تھا۔ تشفی مَل کنجڑے نے مدراس کی ایک مشاطہ سے شاد ی کر لی ۔ کو ٹھے پر بیٹھنے والی یہ مشاطہ شہر کی بدنام نائکہ اور رذیل طوائف تھی ۔اس طوائف سے تشفی مَل کنجڑے کے پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں ۔تشفی مَل کنجڑے کی طوائف بیوی اور اس کی اجرتی بد معاش اولاد نے سلطان کو لُوٹ لیا اور فرضی مقدمات اور جھوٹی گواہیوں کے ذریعے اُسے زندان بھجوانے کی سازش کی ۔مصیبت کی اس گھڑی میں کہرام ٹھگ نے طوطے کی طرح آنکھیں بدل لیں ۔سلطان نے اپنے دیرینہ ساتھی نور خان کی مددسے اس بلائے ناگہانی سے نجات حاصل کی ۔کہرام ٹھگ نے ایک رانڈ سے خفیہ شادی کر لی اور اس کے سابقہ شوہر سے اس بیوی کے بچوں کو اپنی کفالت میں لے لیا۔پرِ زمانہ تو پرواز نُور سے کہیں بڑھ کر تیز ہے وقت گزرتا رہا، سلطان اور کہرام ٹھگ دونوں اب جنگ کی تلخ یادوں سے باہر نکل آئے تھے ۔سلطان نے تو معرفت کی منازل طے کر لیں مگر کہرام ٹھگ دنیا داری میں الجھ کر ر ہ گیا۔سیاہی وال کے مضافات میں ایک چنڈوخانے اورقحبہ خانے میںتشفی مَل کنجڑے کا حصہ تھاجہاں وہ لوبان اور کئی دوسرے نشے فروخت کرتا تھا۔ تشفی مَل کنجڑے کے قبیح کردار کی وجہ سے اکثر لوگ اس کی ملامت کرتے مگر اِس چکنے گھڑے نے بازار میں دی جانے والی ہر گالی سدا ہنس کر ہی ٹالی ۔ تقسیم ہند کے بعد حالات بدل گئے اور کہرام ٹھگ در در کی ٹھوکریں کھاکر اپنی بیوی اور بچوں کو لے کر سیاہی وال پہنچا۔سرمایہ دار ہندو ساہوکار اس علاقے سے نکل گئے اور مسلمانوں کے لیے ترقی اور خوش حالی کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔ یہاں تشفی مَل کنجڑے نے خشک میوہ جات ،پھلوں اور سبزی کی ایک دکان کھولی مگر یہاں بھی اس کے وہی لچھن رہے ۔وہ منشیات بیچتا اور کالا دھن کمانے کی فکر میں مبتلا رہتا۔
دوسری عالمی جنگ میں سپاہی بھرتی ہونے سے پہلے کہرام ٹھگ دیہی علاقے کے جاٹوںکے ڈیرے پر جھاڑو دیتا چلا آ رہا تھا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد جب وہ واپس آیا تو اس نے اپنے معمولات کو جاری رکھا۔جاگیرداروں کے ڈیرے سے اُسے چاٹی کی لسی اوردیوی کے درشن کی ایسی چاٹ لگی کہ وہ اپنے گھر کا پتا اور اوقات تک بھول گیا۔کہرام ٹھگ جو کچھ کماتا وہ قحبہ خانوں اور چنڈو خانوں میں دادِ عیش دے کر اُڑا دیتا۔ زہرہ کنجڑن کاسگڑ نواسا تشفی کنجڑاقصبہ سیاہی وال کا اُجرتی بد معاش اور پیشہ ور ٹھگ تھا۔ اپنا ہم پیشہ ،ہم مشرب و ہم راز ہونے کی وجہ سے کہرام ٹھگ کی تشفی کنجڑے کے ساتھ گاڑھی چھنتی تھی ۔ ان عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگوں کی دیوانگی ہی ان کی پہچا ن بن گئی تھی ۔حسن و رومان،لُوٹ مار،زرومال بٹورنے ،منشیات فروشی ،قحبہ خانے کے دھندے اور جعل سازی کے پھندے،مظلوموںکو اذیت و عقوبت میں مبتلا رکھنا اور حرص و ہوس کے رندے چلانا ان کا وتیرہ تھا۔ وہ دیوانگی کی حد تک اپنے ان گورکھ دھندوں میں انہماک کا مظاہر ہ کرتے اور کسی ناصح یامصلح کو خاطر میں نہ لاتے ۔کالا شاہ کاکو ، کالا باغ ،سیاہی وال اورتلہ گنگ کے سب تلنگے ،لُچے ،شہدے اوراُچکے اِن رسوائے زمانہ بد معاشوں کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے۔ گردِ ش ِایام نے وہ عجیب دن دکھائے کہ بُھور بازار میں ایک تھڑے پر پکوڑوں کا چولھا دھرنے والا بھڑوا کہر ام ٹھگ اپنے گھر کی طوائفوں کی خرچی کی کمائی سے دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں روپے کی بیش قیمت اراضی ،محلات اور کارخانوں کا مالک بن گیا اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ کالا دھن کمانے کے بعد ان نو دولتیو ںنے دُکھی انسانیت پر جو کوہِ ستم توڑا اُس کی یاد آج بھی متاثرہ خاندانوں کے ستم رسیدہ افراد کو خون کے آ نسو رُلاتی ہے ۔
کہرام ٹھگ اور تشفی کنجڑے نے اپنے کاروبار کو وسعت دینے کی غرض سے رشتہ داری کرنے کی ٹھان لی ۔کہرام ٹھگ کے بیٹے بھڑوے رمضو ٹھگ کی شادی تشفی مَل کنجڑے کی رذیل طوائف بیٹی تفسہہ سے کر دی گئی ۔پیشہ ور ٹھگوں کے اس خاندان میں وٹے سٹے کی شادی کا رواج ہے اس لیے تشفی کنجڑے کے بیٹے کھالوکی شادی کہرام ٹھگ کی بیٹی شانو سے کر دی گئی ۔ شادی کے موقع پر کہرام ٹھگ اور تشفی کنجڑاسر جو ڑ کر بیٹھے اور سب احباب کو اپنے پاس بُلا کر انھیں اچھی زندگی بسر کرنے کے راز سمجھانے کا فیصلہ کیا۔سب لوگ جب اکٹھے ہو گئے تو کہرام ٹھگ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا :
’’میںنے زندگی بھر تشفی کنجڑے کے ساتھ وفا کی ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ زہرہ کنجڑن کا سگڑنواسا تشفی کنجڑا میرے ساتھ کیا سلوک کرتاہے ؟سوچتاہوں کیا اس کا بیٹا کھالو میری بیٹی شانو کو خوش رکھ سکے گا۔ٹھگی اور لُوٹ مار میں تو یہ ہمیشہ میرا ساتھ دیتا رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ رشتے ناتے میں یہ میرے ساتھ کیا سلوک کرتاہے ۔‘‘
کوچہ ٔ چہل سفہاکے ڈان تشفی کنجڑے نے اپنی گنجی کھوپڑی کو سہلاتے ہوئے کہا:
’’ میں بھی سوچتاہوں کہ قحبہ خانے کی زینت میری چندے آفتاب چندے مہتاب بیٹی تفسہہ کے ساتھ بہرام ٹھگ کے بد صورت اور بد قماش پڑ پوتے بھڑوے رمضوٹھگ کی شادی سے کیا گُل کھلتاہے ۔ اس وقت شہر کا شہر میری بیٹی تفسہہ کا شیدائی ہے ابھی سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تو سیاہی وال کی حُور کے ساتھ جنگل بیلے کے لنگور والا معاملہ ہے ۔ بھڑوا رمضوٹھگ جو اپنی ماں اور بہنوں کی خرچی کی کمائی پر گل چھرے اُڑانے کا عادی ہے اب وہ میری نو جوان بیٹی تفسہہ کی کمائی پر عیش کر ے گا۔‘‘
ایک رذیل طوائف اور بھڑوے ٹھگ کی یہ جوڑی جرائم کی وادی میں نئے عزم کے ساتھ داخل ہو گئی ۔ رذیل طوائف تفسہہ نے اپنے آبائی قحبہ خانے کی رونقیں بحال کرنے کا فیصلہ کیا اور موم کی ناک بھڑوے رمضوٹھگ کو ساتھ لے کر سیاہی وال میں مستقل قیام کا فیصلہ کر لیا۔ منشیات کے دھندے کے لیے رمضوٹھگ زیادہ تر گھر سے باہر ر ہتامگر طوائف تفسہہ نے سیاہی وال میںمستقل ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ سر گودھا ڈویژن سے تیسرے درجے میں میٹرک پاس کرنے کے بعد تفسہہ نے ایک پرائمری سکول میں معلمہ کی حیثیت سے ملازمت کر لی مگرقحبہ خانے میں خرچی کی کمائی ہی اس کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔سو پشت سے دونوں خاندانوں کا پیشہ ٹھگی تھااس لیے رمضوٹھگ اور تفسہہ نے پرانے شکاریوں کی رہنمائی میں اپنے قحبہ خانے میں نئے جال لگا کر پنچھی پھانسنے کے عمل کا آغاز کر دیا۔کالا باغ سے تعلق رکھنے والا کھابرو اپنی دولت نائکہ تفسہہ کے قدموں میں ڈھیر کر چکا تھا۔منشیات کی سمگلنگ کے ذریعے رمضوٹھگ نے کالادھن کمانے میں اپنی ساری توانائی خرچ کر دیتااور ہنہناتا پھرتاتھا۔سیاہی وال میںتفسہہ کے قحبہ خانے کے دروازے پر عیاش نو دولتیوں کا جمگھٹا ہوتاتھا۔ منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں ایک مرتبہ قبائلی سرداروں نے رمضوٹھگ کو دھر لیا اوراسے اپنے نجی زندان میں قید کر لیا ۔چار سال کے بعد جب رمضوٹھگ رہا ہو کر سیاہی وال پہنچا توتفسہہ کی گود میں دو ماہ کا بیٹاتھا۔ تفسہہ کی اس بے حسی ،بے غیرتی اور بے ضمیری پر شہر کا شہر پریشان اور حیران تھا۔رمضوٹھگ جیسے چکنے گھڑے کو زبانِ خلق کی کوئی پروا نہ تھی وہ نومولود بیٹے کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایااور شہر بھر میں مٹھائی تقسیم کی ۔
رمضوٹھگ کے اس بیٹے کا نام گنوار انتھک رکھاگیا۔رمضوٹھگ نے شہر بھر کے ستارہ شناسوں اور نجومیوں سے اپنے اس بیٹے کی قسمت کا حال پوچھا ۔پھوہڑپکھنڈی جو سیاہی وال کے دیہاتی علاقے میں عہدِ زوال کا بے کمال رَمال سمجھاجاتاتھااُس نے جب مشکوک نسب کے اس ا بلہ کو دیکھا تواُس نے آہ بھر کر کہا:
’’ یہ تو سانپ تلے کا بچھو ہے جب یہ بڑا ہوگا تو بروٹس کو بھی مات دے گا ۔ اس کی بے حسی ،بے غیرتی اور بے ضمیری اسے اُس مقام تک پہنچا دے گی کہ یہ توفیقِ اضطراب بھی نصیب نہ ہوگی ۔یہ موذی جس
تھالی میں کھائے گا اُسی میں چھید کرے گا اور جس شجرِ سایہ دار کی چھاؤں میں بیٹھے گااُسی کی جڑی کھوکھلی کرے گا۔ منشیات ،جنس و جنوں اور ٹھگی کی وارداتوں میں یہ جرائم کی لرزہ خیز داستانیں رقم کرے گا۔‘‘
رمضوٹھگ نے یہ سنا تو پورے زورسے ہنہنانے لگا۔تھوڑی دیر کے بعد اس نے رَمال پھوہڑپکھنڈی سے مخاطب ہو کر کہا:
’’ آج تو تم دُور کی کوڑی لائے ہوتمھیں معلوم ہے کہ اس کا پرداداجمعدار بہرام بھی رسوائے زمانہ ٹھگ تھا جس نے دس سال کی عمر میں ٹھگی کی دنیا میں سبزقدم رکھا اور اپنی شریک جرم محبوبہ ڈولی کے ساتھ مِل کر 931مظلوموں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔جلد ہی ڈولی نے اس ٹھگ سے اپنی راہیں الگ کر لیں میری بیوی تفسہہ کا شجرہ نسب ڈولی سے ملتاہے ۔ہمارے خاندان کے مورث جمعدار بہرام نے ٹھگی اور قتل کی وارداتوں کے لیے ایک مسلح گروہ بنایا جو دو سو ٹھگو ں پر مشتمل تھا۔جب بھی جمعدار بہرام کے منھ سے لفظ ’’ راموس ‘‘ نکلتالوگ سمجھ جاتے کہ اس کے کسی شکار کے سر پر موت کا عفریت منڈلارہاہے اورشکار اب اپنی موت کا انتظار کر رہاہے اور اس شکار کا دنیا سے جانا ٹھہر گیاہے ۔جمعدار بہرام نے کبھی کسی عورت ،جذام اور کوڑھ کے مریض ،درویش ،فقیر ،سادھو ،سازندے اور غیر ملکی باشندے کو موت کے گھاٹ نہ اُتارا۔‘‘
’’ تمھارا مجلسی تبسم اور اس کے پس پر دہ حقائق سے میں بے خبر نہیں ۔یہ بات تو تم نے واضح نہیں کی کہ قتل و غارت اور ٹھگی کی وارداتوں میں تمھارے خاندان کے مورث نے کن لوگوں کو نشانہ بنایا ۔‘‘ رَمال پھوہڑپکھنڈی نے سر کھجاتے ہوئے پوچھا’’ یہ عہدِ بے ہنراں ہے تم جیسے سفلہ اور خسیس لوگوں کی وجہ سے یہاں اہلِ کمال نوحہ بہ لب دکھائی دیتے ہیں ۔تم نے اپنے اسلاف کا ذکر کیا نظر کو وقفِ حال کر کے کچھ تو حقائق کا خیال کرو۔حرص و ہوس اور قتل و غارت کی باتیں کل پر اُٹھا رکھو آج ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرکے اپنے شقی القلب بزرگوں کی سفاکی کے قصے پر دھیان دو۔ نہتے انسانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹنا اور اُن کی لاشوں کی بے حرمتی کرنا تو درندگی ہے ۔ جمعداربہرام کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے خون کی ندیاں بہادیں اور اس کے مظالم کے نتیجے میںسیکڑوں گھر بے چراغ ہو گئے ۔ جمعدار بہرام جیسے پیشہ ور قاتل ،سفاک ڈاکو، مکار ٹھگ اور خون آشام درندے کی اولاد ہونے پر فخر کرنے کے بجائے تمھیں تو شرم سے چُلو بھر پانی میں ڈُوب مرناچاہیے ۔‘ ‘
’’ ہاں میں ایک خون آشام درندے کی اولاد ہوں اور آدم خوری میری گھٹی میں پڑی ہے ۔‘‘ شراب کے نشے میںدھت رمضوٹھگ نے حقارت سے رَمال پھوہڑپکھنڈی کی طرف دیکھا اور پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا’’ہمارے خاندان کامورث جمعدار بہرام ہمیشہ تجارتی قافلوں ،سیاحوں ،حج و زیارات کے لیے جانے والے مسافروں اور شادی کی براتوں کو لُوٹتا اور مزاحمت کرنے والوںکو پلک جھپکتے میں ٹھکانے لگادیتاتھا۔ جبل پور ،وسطی ہند، سندھ اور یورپ میں یہ بات عا م تھی کہ جمعدار بہرام کانام ہی موت کا پیغام تھا۔ نو آبادیاتی دور میں ہما رے خاندان پر جو کوہِ ستم ٹُوٹااُسے یاد کرتے ہیں تو روح زخم زخم اور دِل کرچی کرچی ہو جاتاہے ۔ جمعدار بہرام کے عبرت ناک انجام کے بعد اس کے پس ماندگان آج تک انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں۔جب تک ہماری نسل موجود ہے ہم لُوٹ مار ،ٹھگی اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔ جو بھی ہماری راہ میںدیوار بنے گاوہ خوار و زبوں ہو کر ملک عدم کو سدھارے گا ۔ ‘‘
نائکہ تفسہہ اپنے بیٹے گنوار انتھک کواپنی گود میںلے کر وہاں آ پہنچی جہاں اس کا شوہر رمضوٹھگ اپنے مہمان اور پرانے آشنا رَمال پھوہڑپکھنڈی سے بات چیت میں مصروف تھا۔نائکہ تفسہہ نے یہ سب باتیںسُن لی تھیں ۔ اپنی چر ب زبانی اور بد کلامی کی وجہ سے رمضوٹھگ نے تفسہہ کے ایک آشنا رَمال پھوہڑپکھنڈی کو پریشان کر دیاتھا۔حالات کو سنبھالنے کی خاطر نائکہ تفسہہ نے اپنی کالی زبان باہر نکالی اور مگر مچھ کے آنسوبہاتے ہوئے اپنے خاندان کے مورث ادنیٰ کے بارے میں کہا:
’’ تاریخ کے تاریک باب کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ کالی دیوی کی پرستش کرنے والے ہمارے خاندان کے بزرگو ںنے صدیوں پہلے مدھیہ پردیش کے ضلع نر سنگھ پورہ کو اپنا ٹھانہ بنایاتھا۔نوآبادیاتی دور میںسال 1822ء میں ہمارے خاندان کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا گیااور مجسٹریٹ ولیم سلیمن کوہمارے خاندان کے خلاف کارروائی کا حکم دیاگیا۔ ہندوستان کے گورنر جنرل ولیم بینٹک نے ہمارے خاندان کے افراد پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔سولہ سال کی سر توڑ کوششوں اور سازشوں کے بعدسال 1838ء میں جمعدا ربہرام کو گرفتار کیا گیا۔یہ سال 1840ء کی شام تھی جب جمعدار بہرام اور اُس کے ساتھیوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ اِن اجل گرفتہ قیدیوں کے گلے میں مونج کی موٹی رسیوں کا پھندہ ڈال کر اُنھیں جبل پور کے نواح میں ایک نخل تناور کے بلند تنے سے لٹکا دیا گیا۔یوں یہ پیشہ ور ٹھگ ،عادی دروغ گو اور بے رحم قاتل عبرت ناک انجام کو پہنچے۔ جمعدار بہرام اور اُس کے ساتھیوں کی درخت سے لٹکی لاشوں کو پانچ دِن تک زاغ و زغن ،کرگس اور شِکرے نوچتے اور بھنبھوڑتے رہے ۔یہاں تک کہ رسیاں ٹُوٹ گئیں اور یہ لاشیں زمین پر آگریں ۔صفائی کے عملے نے سزائے موت پانے والے ان بد نصیب مجرموں کے ڈھانچوں کو گھسیٹ کر کوڑے کے اُس ڈھیر پر پھینک دیاجہاں پہلے ہی جھاڑ جھنکار اور کوڑا کرکٹ کے انبار لگے تھے ۔اُسی شام کسی افیونی نے کوڑے کے ڈھیر پر پڑے خشک پتوں پر سگریٹ کا جلتاہوا ٹکڑا پھینکا تو سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔
نہ مفت بر کی حکایت حساب چاک ہوا
یہ خون ِٹھگ اسیراں تھا رزقِ خاک ہوا ‘‘
اس داستان کا پر اسرار اور لرزہ خیز حصہ یہ ہے کہ کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑا دونوں اکٹھے دیکھتے ہی دیکھتے عدم کی بے کراں وادیوں کو سدھار گئے اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ان ننگ انسانیت درندوں کے انجام کے بارے میں رمضو ٹھگ کے ایک قریبی دوست نے بتایا:
’’ ہر سال دسمبر کے مہینے میں رات کے پچھلے پہرکہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑادونوں منشیات کے دھندے کے سلسلے میںسیاہی وال کے مغرب میں دریائے جہلم کے کنارے واقع گھنے جنگل میںچلے جاتے تھے اور وہاں قبائلی علاقے سے آنے والے سمگلروں سے لین دَین کا حساب کرتے تھے ۔ منشیات کی سمگلنگ سے جو کالا دھن کمایا جاتاوہ اسی علاقے میں ٹھکانے لگایاجاتاتھا۔اسی قسم کے ایک سفر میں قبائلی علاقے کے لوگوں نے دونوں کواپنے پاس اسی جنگل میں بلایا اور تلاشی دینے کے لیے کہاتو دونوں نے فائرنگ شروع کر کے ایک نوجوان کومارڈالا ۔اس کے بعدانھوں نے بھاگنے کی کوشش کی تو درخت کی چوٹی پر مورچہ بند قبائلیوں نے دونوں کو گولیوں سے بُھون ڈالا۔جب رمضوٹھگ اور کھالُو کو اپنے ان بزرگوں کی ہلاکت کا علم ہوا تو وہ گھنے جنگل کے پُر خارعلاقے سے لاشیں ایک گدھا گاڑی پر لاد کر گھرلائے ۔ چند گھنٹے پہلے یہ گدھاگاڑی شہر سے فضلہ باہر لے جانے کے لیے استعمال کی گئی اس لیے اس کے تختوں پر ہر طرف غلاظت بکھری پڑی تھی ۔ رمضوٹھگ ،کھالو اور کوچوان میں سے کسی نے گدھا گاڑی کی صفائی کی طرف توجہ نہ دی ۔رمضوٹھگ اور کھالو بھی ناک لپیٹ کرگدھا گاڑی پربیٹھ کر گھر واپس آ گئے ۔اگلی شام کہرام ٹھگ اور تشفی کنجڑے کو سپردِ خاک کر دیا گیا اور زمین کا بوجھ کچھ کم ہو گیا۔‘‘
تفسہہ کے قحبہ خانے میں صفائی کرنے والا نوجوان خاکروب رُلدو اس خاندان کے سب راز جانتاتھا۔ وہ کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے کی ہلاکت پر بہت دل گرفتہ تھا۔اس نے آہ بھر کر کہا:
’’ کہاں دریائے جہلم کے کنارے جنگل اور خاردار جھاڑیوں والے علاقے کا سفر اور کیسا مقابلہ ؟ یہ سب کچھ کھابرو ، لنگڑے درزی عتابی ،رمضوٹھگ اور کھالُو کا کیا دھراہے ۔کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑے کے پاس دس کلو سونا تھاجو اُنھوں نے مٹی کے ایک دابڑے میں بند کرکے کہیں دبا رکھا تھا۔ یہ دونوں سال میں ایک مرتبہ اس دفینے کو نکالتے اور اُس میں مزید سونا ڈالتے تھے ۔ رمضوٹھگ اور کھالو نے اس دفینے کا راز جاننے کے لیے اپنے ان بزرگوں پر بہت دباؤ ڈالا مگر انھوں نے خزانے کے سانپ کے حکم پر لب ِ اظہار پر تالے لگا رکھے تھے ۔سردیوں کی ایک شام تھی رات کا پچھلا پہر تھا کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑادبے پاؤں گھر سے نکلے اور سیاہی وال کے نواح میںواقع صدیوں پرانے ایک کھنڈر کی جانب چل پڑے ۔ کھنڈر کی بوسیدہ عمارت پر غول در غول اُلّواورچمگادڑ منڈلا رہے تھے ۔ان بوڑھے ٹھگوں کو دیکھ کر چمگاڈر اور اُلّو ان پر جھپٹے مگر یہ چالاک نکلے اور انھوں نے اپنی گنجی کھوپڑی پر بڑے بڑے پگڑ باندھ رکھے تھے۔رمضوٹھگ اور کھالُو نے ان کا تعاقب کیا اور کچھ فاصلے سے چُھپ کر ان کی حرکات کا جائزہ لیتے رہے ۔ ٹھگوںنے ایک بوسیدہ قبرکو کھودا اور مٹی کا بڑا دابڑا باہر نکالا ۔اس اثنا میں رمضوٹھگ اور کھالُو نے آگے بڑھ کر انھیں پکڑنے کی کوشش کی تو دونوں نے مزاحمت کی۔ رمضوٹھگ نے کلاشنکوف اور کھالُو نے اپنا پستول نکال کر کہرام ٹھگ اور تشفی مَل کنجڑا کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ دفینے کو آپس میں بانٹ کر ٹھکانے لگانے کے بعد اگلی شام گدھا گاڑی پر دونوںلاشیں لاد کر کوچۂ چل جہلا و سفہا سیاہی وال پہنچایا گیا۔اُسی شام چند لوگوں کی موجودگی میں اُن کی تدفین کر دی گئی ۔‘‘
نائکہ تفسہہ نے مگر مچھ کے آ نسو بہاتے ہوئے کہا:
’’ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ اس خاندان کی تو روایت ہی یہی ہے کہ سب سے بڑے بیٹے کی جب شاد ی ہوجاتی ہے تو وہ اپنے بوڑھے باپ کا دھڑن تختہ کر دیتا ہے ۔کہرام ٹھگ اور تشفی مل کنجڑا پہلے یہ کام کر چُکے ہیں اب وہ فطرت کی تعزیروں کی زد میں آ ئے ہیں ۔گمان ہے کہ میرا بیٹا گنوار انتھک اپنے باپ رمضوٹھگ کے ساتھ یہی سلوک کرے گا۔اگر وہ رمضوٹھگ کو جلد کیفر کردار کو پہنچا دے تو میںجلددوسری شادی اپنے بچپن کے کسی آ شنا سے کر لوں گی ۔اس دغاباز اور فریبی شخص کی ہلاکت کے بعد میں جان لیوا تنہائیوں کی بھینٹ نہیں چڑھ سکتی۔ میری تنہائیوں نے مجھے یہ راز بتا دیا ہے کہ رمضوٹھگ کے شب و روز کہاں گزرتے رہے ہیں۔ میں اس عیار ٹھگ سے یہ بات نہیں پُوچھ سکی کہ وہ کِس کِس ِکی زلف گرہ گیر کا اسیر رہا ہے ۔‘‘
گنوار انتھک سب باتیں سُن چکا تھاوہ آگے بڑھا اور اپنی ماں تفسہہ سے مخاطب ہو کر بولا:
’’ اِس احسا ن فراموش اور سفلہ ٹھگ نے دفینے کی ہوس میں میرے نانا اور داد ا کو بڑی بے دردی سے ہلاک کر ڈالا ۔ان بوڑھوں کے اعضا مضمحل ہو چُکے تھے اور عناصر کااعتدال بھی عنقا تھا۔اس حالت میں ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر نا بزدلی اور شقاوت کی انتہا ہے ۔رمضو ٹھگ ایک مُوذی و مکار درندہ ہے اپنی خاندانی روایت کے مطابق اِس گرگ کو جلداز جلد ٹھکانے لگاؤں گا۔‘‘
پانچ مارچ 2018ء کی شام رمضو ٹھگ کے لیے عدم کے کُوچ کا پیغام لائی ۔گنوار انتھک ، مصبہابنو اور نائکہ تفسہہ نے نہایت رازداری سے رمضوٹھگ کے کھانے میں زہرمِلادیا۔اگلی صبح کوچۂ چہل جہلا و سفہامیں واقع اپنے چنڈو خانے کے ایک گوشے میں رمضوٹھگ اپنے عفونت زدہ بستر پر پڑاتھا اور اُس کے ارد گردتمام عزیز رسم دنیا نبھانے کی خاطر گریہ و زار ی میں مصروف تھے جمع تھے ۔نائکہ تفسہہ ،مصبہا بنواور گنوار انتھک پا س کھڑے مگرمچھ کے آ نسو بہا رہے تھے۔
——————————