(Last Updated On: )
سورج کب کا طلوع ہو چکا تھا۔ بام فلک پر اٹھکیلیاں کرتے سرمئی بادلوں کی بدولت دھوپ کی تمازت آج نہ ہونے کے برابر تھی اور وہ اچھے سے جانتی تھیں کہ ان کی ضدی اور نک چڑی بیٹی کو ایسا موسم کتنا بھاتا ہے۔ وہ چند روز سے خفا بھی تو تھی، شاید سہانا موسم دیکھ کر اس کا موڈ خوشگوار ہو جاتا۔
“سونی! میری جان اٹھو موسم کے رنگین اشارے تو دیکھو۔۔” اس کے کمرے کا دروازہ کھولتے ہی انھوں نے آواز لگائی۔ وہ اسے جگانے آئی تھیں مگر خالی بستر دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔ واش روم کے دروازے کا ہینڈل گھما کر تسلی کی، وہ اندر سے لاک نہیں تھا۔ ہلکے ہاتھ سے دروازہ کھول کر اندر جھانکا اور بیٹی کو وہاں بھی نہ پا کر آہستگی سے بند کر دیا۔
“گھر میں نہیں ہے تو کہاں جا سکتی ہے؟” وہ خود سے الجھ رہی تھیں۔
کمرے سے باہر نکلتے ہوئے سنگھار میز پر دھرا سفید کاغذ دیکھ کر انھیں انجانا سا خوف محسوس ہوا۔ کپکپاتے ہاتھوں سے کاغذ اٹھایا جس پر چند سطور درج تھیں۔ جنھیں پڑھتے ہی بے ساختہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھا کہ سانس اٹکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
“ساجد۔۔۔ ساجد۔۔۔” چلاتے ہوئے وہ کمرے سے باہر آئیں۔
“کتنا کہتی تھی کہ بے جا سختی نہ کریں، جوان خون ہے مگر آپ کسی کی سنتے کہاں ہیں۔ اکلوتی بیٹی بدظن ہو کے گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے۔۔۔” بلکتے سسکتے ہوئے انھوں نے کاغذ شوہر کے سامنے لہرایا۔
اخبار ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر گری اور وہ ہونقوں کی طرح بیوی کو دیکھے گئے۔
“کک، کہاں چلی گئی؟” دل میں اٹھتے اندیشوں کو دباتے ہوئے سوال پوچھا۔
“خود ہی پڑھ لیں۔۔” اپنی طرف اچھالا گیا کاغذ کا ٹکڑا انھیں تیر کی طرح چبھا تھا۔
“والدین اپنی اکلوتی اولاد پر جان تک قربان کر دیتے ہیں۔ مگر آپ لوگوں نے مجھے شیر کی آنکھ سے دیکھنا بس زندگی کا مقصد سمجھا۔ یہ نہ کرو، وہاں نہ جاؤ، ایسے کپڑے نہ پہنو، اس سے دوستی نہ رکھو، پارٹی نہ کرو۔۔۔ مجھ پر زندگی تنگ کر دی گئی، ہاتھ اٹھایا گیا، پسند کی شادی تک کی اجازت نہیں۔۔۔”
انھوں نے پڑھا اور بے دم ہو کر وہیں صوفے پر ڈھے گئے۔ بیٹھے بٹھائے کیا سے کیا ہو گیا تھا۔ زندگی کا پہیہ گھوما اور اکیس برس پیچھے جا رکا۔
ایک دوسرے کی محبت میں پاگل دو کلاس فیلو جن کی خاندانی حیثیت، ذات اور برادری میں واضح فرق تھا۔ لڑکے نے مناسب طریقے سے رشتہ بھیجا، لڑکی کے والدین نے انکار کر دیا اور جلد بازی میں اپنی بیٹی کی شادی اس کے چچا زاد سے طے کر دی۔ مگر عین شادی والے روز لڑکی اپنے محبوب کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ دونوں نے چھپ کر نکاح کر لیا اور ایسی نئی زندگی کی شروعات کی جس کی بنیادوں میں بڑوں کی عزت، مان، آہوں، ارمانوں اور سسکیوں کا خون شامل تھا۔
شہر بدلا تو حالات بھی بدلے مگر وہ چاہ کر بھی قسمت کا لکھا نہیں بدل سکے تھے۔ پشیمانی نے ساجد کو آج چاروں اور سے گھیر لیا تھا، رہ رہ کر اپنے گناہ یاد آرہے تھے۔ وہ کرب اور اذیت محسوس ہو رہی تھی جس سے اکیس برس قبل اس کی بیوی صبیحہ کے والدین گزرے تھے۔ بیٹی گھر سے بھاگی تو انھوں نے لوگوں کا کیسے سامنا کیا ہو گا؟ کیسے کیسے طعنے اور دلخراش باتیں سنی اور سہی ہوں گی۔ خاندان کی عزت پر انگلیاں اٹھی تھیں اور باپ کا سر شرمندگی سے اتنا جھک گیا کہ ہمیشہ کے لیے منوں مٹی تلے دب گیا تھا۔
“میرے اللہ! اسی انہونی کا ڈر تھا۔ دل کا چور ہی تھا جو بیٹی پر اتنی سختی کی مگر۔۔۔ تو کیا وہ اس بگڑے رئیس ذادے کے ساتھ چلی گئی جو چند دن پہلے منہ اٹھا کر اکیلا ہی ہماری بیٹی کا ہاتھ مانگنے آیا تھا؟” وہ بڑبڑائے۔
“آپ نے بھی تو زرا لحاظ نہ رکھا۔ نا صرف اسے صاف انکار کیا بلکہ بےعزت کر کے گھر سے بھی نکال دیا تھا۔ الٹا بیٹی پر ہاتھ بھی اٹھا بیٹھے۔۔” ان کی نظر میں شوہر ہی قصوروار تھا۔۔
“یا اللہ! میرے گناہوں کی سزا سے میری بیٹی کو بچا لے۔۔” باپ کے دل سے آہ نکلی تھی۔۔
————–
سونیا اپنی زندگی مرضی کی شرائط پر جینا چاہتی تھی۔ اس کے بے تحاشا خواب تھے جن کی انگلی تھام کر من پسند زندگی گزارنے کی تمنا اسے کہاں سے کہاں لے آئی تھی۔ باپ کی طرف سے برتی گئی سختی اور صاف انکار سے دلبرداشتہ ہو کر وہ منہ اندھیرے گھر کی دہلیز پر والدین کی لاج اور مان چھوڑ کر اپنے محبوب کے سنگ خواب جینے نکل آئی تھی۔ وہ اسے شہر سے چند کلو میٹر دور اپنے فارم ہاؤس پر لے آیا تھا۔ یہاں وہ پہلی بار آئی تھی۔
“اب یہاں میرا راج ہو گا، اس ریاست کی ملکہ بن کر رہوں گی اور جمال تو ہے ہی میرا شہزادہ۔۔۔” سہانی زندگی کا تانا بانا بن کر سونیا نیند کی وادیوں میں کھو گئی تھی۔
دروازے پر کھٹکا ہوا تو اس کی نیند کھلی مگر خمار کے زیر اثر ابھی آنکھیں بند ہی تھیں۔ وہ جانتی تھی جمال ہی ہو گا۔۔
“ابھی تک بے فکری سے سو رہی ہے۔ ہاں بالکل، شام تک تم سب پہنچ جانا۔۔ چوکیدار کو میں نے چھٹی دے دی ہے۔ بس ہم سب ہوں گے اور۔۔۔” دھیمی آواز میں مزید کچھ کہا جا رہا تھا۔ اس کا ذہن مکمل طور بیدار ہو کر خطرہ بھانپ چکا تھا اور دل پر قیامتیں ٹوٹ رہی تھیں۔۔
“جمال نے تو کہا تھا کہ مولوی صاحب اور گواہوں کا بندوبست کرنے جا رہا ہے مگر۔۔۔؟”
سونیا اچھے سے جانتی تھی کہ جمال کے دوست کتنے اوچھے اور بگڑے ہوئے ہیں، ان سب کو بلایا گیا تھا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی۔
الماری کا پٹ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔ تھوڑی دیر بعد واش روم سے پانی گرنے کی آواز سنائی دینے لگی تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھی۔۔
کمرہ چھوڑنے سے پہلے سونیا پلنگ کی ملحقہ میز پر پڑا جمال کا موبائل اور کمرے کی چابی اٹھانا نہیں بھولی تھی۔ کمرہ باہر سے مقفل کر کے وہ اندھا دھند گیٹ کی جانب بھاگی۔ موبائل پر جمال کے کسی دوست کی کال آرہی تھی، اسے یوں لگا جیسے ہاتھ پر سانپ لپٹنا چاہ رہا ہو۔ نفرت سے اس نے موبائل لان میں اچھالا اور بھاگتے ہوئے وہ غلیظ چوکھٹ ہمیشہ کے لیے پار کر گئی۔
کالے بادلوں نے شام سے پہلے ہی شام کا سا سماں باندھ دیا تھا۔ قسمت کی خود ساختہ سیاہی کو اپنے آنسوؤں سے مٹانے کی جستجو کرتی سونیا اپنی منزل سے باخبر تھی۔ شام گہری ہونے سے پہلے اسے جائے پناہ پہنچنا تھا جہاں دو مشفق چہرے اسے تلاشنے کی ناکام سعی کے بعد نڈھال بیٹھے تھے۔۔۔!
***
تحریر: تنزیلہ احمد – اوکاڑہ، پنجاب پاکستان
تحریر: تنزیلہ احمد – اوکاڑہ، پنجاب پاکستان