مسجد سے ذرا فاصلے پر اچانک " دوڑو پکڑو ۔ ۔ ۔ جانے نہ پائے ۔! " کی صدائیں بلند ہوئیں ، تھوڑی ہی دیر میں ہجوم نے بھاگتے نوجوان کو جا لیا اور اس کے ہاتھوں سے نوٹوں سے بھری چندے کی پیٹی چھین لی ۔
" مسجد میں چوری کرتا ہے ! خبیث ,کافر کے بچے , شرم نہیں آتی تجھے ۔ ۔ ۔!!!
ایک باریش شخص نے چور کو گریبان سے پکڑ کر اس پر تھپڑوں کی بارش کردی ۔مشتعل ہجوم میں شامل دیگر افراد بھی نوجوان پر پل پڑے اور اسے لاتوں , مکوں اور گھونسوں پر رکھ لیا ۔ نوجوان کا لباس تار تار ہوگیا ۔ اس کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا اور اس میں سےخون رسنے لگا ۔
" اسے پیش امام صاحب کے پاس لے چلو۔ " ایک شخص نے چیخ کر کہا ۔
" ہاں ہاں چلو چلو ۔ ۔ ۔ یہی بہتر ہے."
" وہی فیصلہ کریں گے اس کمینے کا ۔"
ایک اور آواز آئی .
" لے چلو اس مردود کو ۔ ۔ ! "
کوئی چیخا
" ہاں ہاں ۔ ۔ ۔لے چلو . . !! "
"چلو چلو ۔ ۔ ! "
تائید میں کئی اور آوازیں ابھریں اور نوجوان کو گھسیٹتے ہوئے مسجد میں لا کر پیش امام صاحب کے سامنے پیش کردیا گیا ۔
پیش امام نے ملامت بھری نظروں سے نوجوان کی طرف دیکھا ۔ شکل سے وہ کسی شریف گھرانے کا تعلیم یافتہ نوجوان لگتا تھا ۔ اس میں عادی چوروں والی کوئی بات نظر نہ آتی تھی ۔
"مسلمان ہو ؟ " پیش امام صاحب نے پوچھا ۔
نوجوان سر جھکائے خاموش کھڑارہا۔
ایک منحنی سا شخص بولا ، " مسلمان ہوتا تو رمضان المبارک میں چوری کرتا ! "
ایک اور نے بھی لقمہ دینا ضروری سمجھا " اور وہ بھی مسجد شریف میں سے . . ! "
نوجوان نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ ایک لمبے قد کا نوجوان گھونسا تانے اس کی سمت بڑھا ۔
" بولتا کیوں نہیں اوئے !! " ۔
" کیوں بے ! سالے گونگا ہے کیا ؟"
ایک اور پہلوان نما شخص اسے مارنے کے لیے آگے بڑھا ۔
پیش امام صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روک دیا ۔
اور نوجوان سے بڑی نرمی سے پوچھا ,
" کیوں بیٹا ! کیا ہے یہ سب ۔۔؟ "
نوجوان نے اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا ۔ مولوی صاحب اس بار قدرے برہمی دوبارہ گویا ہوئے ۔
" رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں چوری جیسا قبیح فعل ، اور وہ بھی ﷲ کے گھر میں ! استغفر ﷲ . . . "
نوجوان خاموشی سے کھڑا سر جھکائے ہونٹ کاٹتا رہا ۔ اس کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا ۔
" اِنَّالِلَه وَاِنَّااِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ ، چچ چچ. . . ! " مولوی صاحب تاسف سے بڑبڑائے ۔
نوجوان نے تو شاید چپ کا روزہ رکھ لیا تھا۔
" تم خدا کے مجرم ہو ۔ سوہنے رب کے مجرم ، سوچو ! کیسے بخشے جاؤ گے ۔ ۔ ۔ ؟ " پیش امام نےاچانک اسے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا ۔ "تمہیں ذرا شرم نہ آئی ؟ کیوں کیا ایسا ؟ جواب دو ۔"
" میں مجبور تھا ! "
نوجوان نے پہلی بار ہونٹ کھولے ۔
" بہت مجبور ۔ ۔ ! "
"ایسی بھی کیا مجبوری تھی کہ اس ماہ مقدس کا بھی خیال کیا نہ ﷲ کے گھر کا ؟ بولو ۔ ۔ "
نوجوان فرش پر گرگیا ۔ اس نے سر اٹھایا تو اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا ۔
" میری بچی ہسپتال میں ہے اور ۔ ۔ ۔ ۔اور ۔ ۔ ڈاکٹروں نے ۔ ۔ ڈاکٹروں نے آپرے ۔ ۔شن ۔ ۔ ۔ !" نوجوان کی آواز بھر آئی ، الفاظ ہونٹوں میں ہی دم توڑ گئے
اس نے ایک نظر مجمع کی طرف دیکھا اور کہا ،
" مم ۔ ۔ مم ۔ ۔ مانتا ہوں میں کہ ، میں نے ﷲ کے گھر چوری جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کیا ہے , میں اس کا مجرم ہوں لیکن ، میرے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا ۔ ۔ ۔ میری معصوم بچی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ۔ " وہ بلک اٹھا ۔
" مجھے جانے دیں ، میں خدا کا مجرم ہوں نا ! میں جانوں , میرا رب جانے , میرا رب ۔ ۔ ۔ میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے ، مجھے معاف کردے گا ۔ خدا کے لیے مجھے جانے دو ۔ ۔۔ !! "
اس نے ہاتھ جوڑ لیے ۔ مجمع کو جیسے سانپ سونگھ گیا ۔ ہر طرف اک خاموشی طاری تھی ۔
پیش امام صاحب تھوڑی دیر کے لیے گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ پھر اچانک سر اٹھایا اور آہستگی سے بولے ,
" ﷲ ﷻ رحیم وکریم ہے ، توبہ کرنے اور عفوودرگزر سے کام لینے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔ پروردگار اس کے حال پر رحم فرمائے ، جانے دو اسے ! "
" ایسے کیسے جانے دیں اسے ! " غلہ منڈی کے سود خور آڑھتی حاجی عبدالغفار نے ، جو مسجد کمیٹی کے صدر تھے ، انگلیاں نچاتے ہوئے مداخلت کی , "یہ اچھی کہی مولبی صاحب نے ! جانے دو اسے ۔ ۔ ہونہہ ! ، ارے یہ بہت چالاک چور ہے ! یہ جانتا ہے کہ یہ ﷲ کے سامنے توبہ کرے گا تو وہ تو اسے پل بھر میں معاف کردے گا ۔ لیکن۔ ۔ ہم اسے اتنی آسانی سے نہیں چھوڑیں گے ."
ایک بزرگ آگے بڑھے اور حاجی عبدالغفار کو سمجھایا ،
" حاجی صاحب ! یہ بےچارہ جب اپنی غلطی پر پشیمان ہو کر توبہ کرچکا ہے ، اسے روکنا یا مارنا پیٹنا اسلام کی روح کے منافی ہے۔ اس سے ہمدردی یا اس کی مدد کرنے کے بجائے آپ اس پر تشدد کرنا چاہتے ہیں ، خدا کا خوف کریں ۔ ! "
" لو جی اب شرم بھی ہم کریں ۔" حاجی عبدالغفار نے بزرگ شخص کا تمسخر اڑاتے ہوئےکہا۔
بزرگ شخص نے نوجوان کو اٹھایا اور بولا " بیٹا ! ﷲ پر بھروسہ رکھو ۔ وہ سب بہتر کرے گا ۔ تمہاری بچی کا علاج اب میری ذمہ داری ہے ! ، میں کراؤں گا تمہاری بچی کا علاج ! "
نوجوان نے نظریں اٹھا کر اس فرشتہ صفت بزرگ کی طرف دیکھا ۔ اس کے چہرے پر بیک وقت خوش گوار حیرت تشکر اور ممنونیت کےجذبات ابھر آئے۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا ۔ سامنے مسجد کے بلند مینار رب کریم کی عظمت کی گواہی دے رہے تھے ۔ نوجوان اچانک
" یا ﷲ۔ ۔ ۔۔ ! " کہہ کر سجدے میں گر گیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ اس کی ہچکی بندھ گئی ۔ سب پر سکتہ طاری تھا ۔
" سالا ڈرامے باز کہیں کا ! " اچانک مسجد کمیٹی کے صدر آڑھتی حاجی عبدالغفار چلائے ۔ اس نے ہجوم کی طرف دیکھا اور چلایا ۔ " بھائیو ! ﷲ کے گھر چوری کرنے والا خدا کا مجرم ہے ۔ اسے چھوڑنا غیرت ایمانی کے خلاف ہے ۔ ۔ ۔! "
" ہاں ہاں …نہیں چھوڑیں گے ! " چند ایک آوازیں ایک ساتھ ابھریں ۔
"۔ ۔ مارو ۔ ۔ مارو کافر کے بچے کو ۔ ۔ ۔!!! "
اور پھر اُس غفورِ رحیم اور رحمٰن و کریم کو ماننے کے دعوے داروں کا گروہ, اپنی غیرت ایمانی کا ثبوت دینے کے لیے ایک بار پھر
" خدا کے مجرم " پر پل پڑا ۔ ۔ ۔!!!