برسوں پہلے کسی نے مجھے کہا تھا رات کی خاموشی میں چاند کو تکتے رہنے سے روح میں ایک ٹھنڈا سکون سا اترتا ہے اورپھر میں نے چاند کو ہی اپنا طبیب بنالیا۔ شام کو شہر کے مرکزی علاقے میں گلاب اور چنبیلی کے ہار بیچے جاتے ہیں، لوگ وہ خرید کے پانی کے گھڑوں پہ ڈال دیتے اور پانی پیتے سمجھتے ہیں خوشبو ان کے اندر جا کے ساری گھٹن کو ختم کر رہی ہے۔ اسی چوک سے ایک ٹھنڈی سڑک ایک شاہی محل کو جاتی ہے۔ کہتے ہیں ایک نواب نے اپنی محبوب بیوی کے لیے یہ بنوایا تھا جس نے ایک رات گزارنے کے بعد صبح سویرے محل کی بالکونی سے قبرستان کا منظر دیکھا۔ وہ دوبارہ کبھی اس محل میں نہ آئی۔ مجھے شاہی محلّات سے وحشت سی ہوتی ہے۔ مجھے تو دریا کناے کٹیا، صحرا کی جھونپڑی اور گاؤں کا کچا پکا چھوٹا سا مکان زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ میں کوئی انقلابی نہیں ہوں جو دکھ سے تڑپتے ہوئے لوگوں کو غم سے نجات دلا دوں، ہاں، ایک خواہش برسوں سے میرے اندر پنپ رہی ہے کہ کوئی ایسا طریقہ ہو کچھ لوگ تو میری وجہ سے زندگی کی سسکیوں سے نجات پا سکیں۔ کبھی مذہب میں پناہ لینا اور کبھی کڑی دھوپ میں جھلستے رہنا۔
دراصل میں برسوں سے اس لمحہ موجود کی تلاش میں رہا ہوں جس کے اندر خوشی کا حقیقی احساس چُھپا ہوا ہوتا ہے۔ اسے نفیس کپڑوں، قیمتی لش پش کرتی گاڑی، ایک حسین جیون ساتھی اور خوبصورت بنگلے میں ڈھونڈنے کے لیے طویل جدوجہد کے بعد جب یہ سب کچھ پا لیا تو معلوم ہوا وہیں کھڑا ہوں جہاں سے چلا تھا۔
جب میں کہتا، ”مذہب، نسل، رنگ اور زبان کے نام پہ لوگوں کو دکھ دینا، ان کے گھروں میں انھیں قید کر دینا، جس سر زمین پہ وہ صدیوں سے رہتے چلے آئے ہوں وہ دھرتی ان پہ تنگ کر دینا اور پھر دنیا بھر کے وسائل پہ اپنا قبضہ جمانے کے لیے وبائیں لے کے آنا کیا کوئی اس میں بھی خوشی کو ڈھونڈتا ہے؟ َ“، تو میرے دوست مجھے ایک پاگل کا خطاب دے کے ہنس دیتے۔
میں نے کچھ بلبلوں، فاختاؤں، ہدہدوں، چڑیوں، اور مکوڑوں کو اپنا دوست بنایا ہوا ہے۔ کئی بار ان سے پوچھا وہ روزانہ کھانا ڈھونڈنے کی محنت کرنے کی بجائے ایک ہی بار خوراک جمع کیوں نہیں کر لیتے؟۔ آخر زندگی کو مسلسل متحرک رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟۔کچھ درخت بھی میرے حلقہ احباب میں شامل ہیں۔ انھیں بھی سمجھایا ہے جب کوئی کلہاڑی سے آپ پہ وار کرے تو چُپ رہنے کی بجائے اس سے انتقام لو۔ پتہ نہیں یہ سب میری بات کو کیوں نہیں سمجھتے۔آخر کو یہ پرندے اور درخت ہیں کوئی اشرف المخلوقات تھوڑی ہیں جو عقل رکھتے اور میرے جیسی سوچ اپناتے۔
ارے، میں اپنا تعارف کرانا تو بھول گیا۔ پیشہ کے لحاظ سے میں ایک کمرشل پائلٹ ہوں۔ جہاز اڑاتا ہوں۔دراصل میں اپنے سوال کہ خوشی کہاں ملتی ہے کا جواب نہیں پا سکا۔ میں یہ جان چکا ہوں میں دنیا سے آہیں اوررونا پیٹنا ختم نہیں کر سکتا۔ جو ہو رہا ہے وہ ہوتا رہے گا۔ بس سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ نہ کوئی ماضی ہے نہ کوئی حال اور نہ کوئی مستقبل۔ خود کو تسلی دینا بھی ایک فریب ہے۔ بس اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے میں اپنے دل کے اطمینان کی خاطر اپنے حصّہ کا کام کر جاؤں گا۔ اس دنیاسے کچھ ظالموں کو ختم کر جاؤں گا اور کچھ مظلوموں کو سسکیوں اور آہوں سے نجات دلا جاؤں گا۔
میں اس وقت بھی ایک بڑا مسافر بردار جہاز اُڑا رہا ہوں۔ جو مسافر اس میں بیٹھے ہیں کچھ اس میں مظلوم اور کچھ ظالم ہوں گے کیوں نہ اپنے حصّے کا کام کر جاؤں۔ بعد میں کوئی کہہ رہا ہوگا، جہاز کا گیئر کام کرنا چھوڑ گیا۔کوئی ماہر رائے دے رہا ہوگا جہاز کے پہیے نہ کھل سکے۔ کوئی اپنی رپورٹ میں لکھے گا جہاز کے انجنوں کو پہلی لینڈنگ سے آگ لگ گئی اور پائلٹ نے پہیے کھولنے کے لیے جہاز کو ایک بار اوپر اُٹھایا لیکن دوبارہ لینڈنگ سے پہلے انجن کام کرنا چھوڑ گئے۔ مجھے کیا جتنی مرضی باتیں کی جائیں، میں نے جہاز گرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ خُدا حافظ۔
****
اکبر شیخ اکبر، بہاول پور۔ پاکستان
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...