(Last Updated On: )
برتنوں کی کھنک میں بھی ذائقہ ہوتا ہے ۔ ۔دوسال چھابی میں روٹی کےاوپر آلو گوبھی، آلو گاجریں رکھ کر کھاتے کھاتے صغریٰ جیسے بھول ہی گئی تھی قورمہ، ہو تو ڈنر سیٹ نکلتا ہے ۔
اس نے شوربےمیں پڑی چھوٹی سی بوٹی کو نوالے میں لپیٹ کرمنہ میں ڈالا تو سواد روح تک گھل گیا۔۔صغری نے شکر سے آسمان کی طرف اور فخر سے نذیرے کےچہرے کی طرف دیکھا ۔جوکھانے سے زیادہ بیوی کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
دوسال کا پردیس تھوڑا تو نہیں ہوتا ۔
صغری نے پتر کی بجائے ڈونگے میں موجود اچھی بوٹی کو دیکھا کہ دل ابھی بھرا نہیں تھا اور روٹی بھی تو ابھی باقی تھی۔۔۔۔
جب سے نذیر حسین پردیس گیا تھا۔ ہر چیز اوپری لگنے لگی تھی ،کھانا پینا بھی۔بہو کہتی تو کچھ نہیں تھی۔۔پر خود ہانڈی میں ڈوئی مارتے شرم آتی ۔ نظر کےحصار میں۔۔۔ بھوک مٹنے کی بجائے مرنے لگی تھی۔
رات کی شرموں شرمی کھائی پونی روٹی تہجد تک اینٹھن بن جاتی تو مصلہ بچھالیتی ۔نذیر کی خیر مانگتے مانگتے دن چڑھ جاتا ۔۔
ناشتے میں چائے میں سوکھی روٹی ڈبونے سے نرم ہوجاتی ، پراٹھا دیسی گھی کا نہ ہو تو چپیڑ جیسا لگتا ہے۔ مہنگائی بھی تو اتنی ہے ۔۔کہ گوشت بقر عید یا نذیر کے آنے پہ نصیب ہوتا تھا۔۔بہو کہتی ہے،قصائی عورتوں کو ہزار روپے کلو میں چھیچھڑے ہڈیاں تول دیتے ہیں ۔ نیاپھل بھی تب گھر آتا جب گلی میں ریڑھیوں آجاتا ۔مرد گھر میں ہو تو بازار سے اچھا چن کر لے آئے۔نذیرکے جانے کے بعد ہفتوں نیلی پیلی سبزیاں اور دالیں ہی پکتیں کہ سارابجٹ خراب ہوجاتا ۔کمیٹیوں کا الگ سیاپہ تھا ۔
حفیظاں کو کوئی لتھی چڑھی نہیں تھی ۔دو دن کمیٹی لیٹ ہوئی نہیں ۔چھت پہ چڑھ کے سناتی ۔
اب نذیر خیری صلا گھر آ گیا تھا۔۔
صغری کی تو زبان گھس گھس گئی اس کی واپسی کی دعائیں مانگتے۔۔پہلے نذیرے کی جوڑی رلنےکی دعائیں مانگتے نہ تھکتی تھی کہ بھرا، بھراواں دیاں باواں۔ ۔۔
پر وہ کہتے ہیں ناں جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں ۔نذیر کی جوڑی نہ رلی، صغری کا جوڑی دار چلتا بنا ۔
کسی کو پتہ ہی نہ چلا کہ شوہر کے بنا طوفانوں میں قدم جمانے والی کے پیر کس بھنور میں تھے ۔بیوہ کو پوت پالتے دانتوں پسینہ آگیا ۔ ۔پالا بھی توایسے ۔۔۔ جیسے۔۔اوک میں دیا۔۔۔جانے ۔۔۔جوانی کی کتنی راتیں اس کے ننھے جسم سے لپٹ کر گزاری تھیں ۔خود پہ پڑنے والی ہر نظر سے نظریں چرائیں تھیں۔
ڈرڈر کے، خدا خدا کرکے پتر جوان ہوا ۔کام دھندے لگا ۔بیاہا ،تو پوترے والی ہوگئی۔
اب۔۔۔پوترے کی جوڑی رلنے کی دعائیں کرتے کرتے صغری اتاؤلی ہونے لگی تھی۔
دنوں میاں بیوی روٹی سامنے رکھے موبائل دیکھ کر ہنس رہے تھے۔صغری کا دل چاہا کسٹرڈ والا ڈونگا خود ہی فریج سے نکال لاؤں ،ایک تو جوڑوں کا درد اور پھر ازلی شرم ۔ صغری نے بےشرموں کی طرح ڈونگھے میں پڑی بوٹی کو دیکھا ۔
بہو کے بھی موبائل کے بٹن گھس جاتے نذیر کو بلاتے۔۔ نذیر کی جب تک چھٹی رہتی،بچے رات میں صغری کے پاس سوتے اور صغری۔۔ نوں پت کو ہنستے کھیلتے دیکھ دیکھ کر واری صدقے جاتی۔۔۔
نذیر حسین کے آنے سے صغری کا پیر گٹھ اُونچا ہو جاتا۔میاں بیوی باہر جاتے تو خود کو گھر کا تالا سمجھ کر۔۔اترائی اترائی پھرتی۔
مگر ہاتھ بڑھا کر بوٹی ہی تواٹھانی مشکل تھی ۔پڑی پڑی ٹھنڈی ہورہی تھی اور ہاتھ میں پکڑی ادھی روٹی بھی سوکھنے لگی تھی ۔
نذیرے کے ساس سسر آئے تو کیسے زبردستی ساس کو سالن ڈال کر دے رہا تھا ۔
گھر آئے سالے کو روٹھ روٹھ کر کھلاتا۔
سوچتی اچھا، ہے، بہو کا مان سمان بڑھ جاتا ہے اس کے میکے سے آئے مہمان بھی خوش ہوتے ،کہتے ۔ ۔بڑا بیبا اور بھولا جوائی ملا ۔ ۔
برتنوں کی کھنک صغری کو واپس کھینچ لائی ۔۔۔نذیر ،بیوی کی پلیٹ میں بصد اصرار بوٹی ڈال رہا تھا۔۔۔۔نہ نہ کرتی کی کے منہ میں ڈال دی ۔
دونوں کھلکھلا کر ہنس دیے ۔
صغری کے اندر کی بیوہ تڑخ گئی ۔۔۔ چار بہاریں شوہر کے ساتھ دیکھی ہوتیں۔ اکلوتے پت کی بجائے شوہر کی خدمت کی ہوتی تو پتہ چلتا نا ۔حساس لہجوں میں محبتیں کیسے بولتی ہیں ۔۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ۔۔کہنا۔۔سننا۔۔۔کتنا ضروری ہوجاتا ہے۔
پر پتہ ہی نہ چلا۔۔۔ساری عمر دل اسے سمجھاتا رہا۔ ۔اب دل کو یہ سمجھانے کی باری تھی۔۔۔۔کہ دعاؤں سے زیادہ۔۔۔واٹس اپ تیز ہے۔
صغری نے آخری نوالہ آنکھ سے گلے میں آئے کھارے پانی سے نگلا اور اٹھ گئی ۔