(Last Updated On: )
میں پچھلے کئی دنوں سے یہ فریم دیکھ رہا ہوں۔ یہ ایک خالی فریم ہے۔ مجھے لوگ کہتے ہیں خالی فریم اچھے نہیں ہوتے، ان کے اندر کوئی تصویر ہوتی ہے مگر میں جب اس فریم کو دیکھتا ہوں تو ان کی باتوں پر ہنسی آجاتی ہے۔ بعض اوقات انسان بھی فریم کی طرح خالی ہوتے ہیں۔ میں بتاتا چلوں کہ میں ایک نارمل انسان ہوں۔ میں عام انسانوں کی طرح وقت پر اٹھتا ہوں۔ کھانا بھی عام انسانوں جیسا ہی کھاتا ہوں۔ میں وقت پر واک کرتا ہوں۔ مجھے قصے کہانیاں بہت پسند ہیں۔ مجھے چڑیوں کی چہچہاہٹ، کوئل کی کوک بھی بہت ہی پسند ہے۔ بعض اوقات میں ان مناظر کو دیکھنے کسی پارک میں نکل جاتا ہوں۔ پارک کی نرم گھاس پر کافی دیر لیٹ کر میں درخت سے چہچہاتے پرندوں کو سنتا ہوں۔ میں بتانا بھول گیا ہوں کہ واک کے دوران میں چشمہ نہیں پہنتا۔ مجھے لگتا ہے شاید وہ گر جائے گا۔پچھلی دفعہ جب میں اسی پارک میں واک کررہا تھا تب چشمہ گر کر ٹوٹ گیا تھا اور اس کا فریم بھی بری طرح متاثر ہوا تھا۔
میں اب اپنی اس بیماری سے تنگ آگیا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم یہ بیماری ہے یا میرا ذہنی اختراع ، لیکن ہر جگہ دو فریم نظر آنا شاید نارمل بھی نہیں ہوسکتا۔ کبھی کبھار مجھے ان میں کوئی شبیہہ بھی نظر آتی ہے اور کبھی وہ شبیہ کسی ویڈیو کی صورت حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ میں نے یہیی بات اپنے قریبی رفیق کو بتائی تھی تو اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ مجھے کسی ماہر نفسیات سے ملنا چاہئیے۔ جب میں نے اس سے پوچھا تھا کیا میں پاگل لگتا ہوں تو وہ دیر تک دور خلاوں میں دیکھنے کے بعد یہی کہہ سکا تھا۔
“کہ اس کا فیصلہ اسی ماہر کو کرنے دو۔”
میں اپنی اس کیفیت سے واقعی بے حد تنگ آچکا ہوں۔ میں اگرچہ خود کو پاگل نہیں سمجھتا مگر میں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ مجھے ماہر نفسیات سے مل کر اس بابت ضرور بات کرنی چاہئیے۔ میرے شہر میں ایک سے بڑھ کر ایک ماہر نفسیات موجود ہیں لیکن میں نے ڈھونڈ کر جس ماہر نفسیات کے پاس جانے کا فیصلہ کیا ہے شاید مجھے وہ اس لیے پسند آیا ہے کیوں کہ اس کے نام کا پہلا حرف وہی ہے جو میری بیوی کے نام کا ہے۔
میری بیوی آہ! اس کا نام جب بھی لیتا ہوں تب لبوں پر ایک حسرت سی آجاتی ہے۔ ایک وقت تھا جب ہم دریائے نیل کے کنارےایک دوسرے سے کتنے وعدے کیا کرتے تھے۔ مجھے وہ مصر کی اپسرہ لگتی تھی۔ اس کی غزال آنکھیں اور شب دیجور جیسے بال، چہرہ جیسے ماہتاب جہاں اور رنگت جیسے آٖفتاب کہ نظر ٹھہر ہی نہ پاتی تھی ۔ میں اس کی تعریفیں ایسے ہی کرتا تھا۔ ان دنوں میں مصر میں تھا اور وہ مجھے وہیں ملی تھی۔ لفظ “ملی” پر ہمارا اکثر جھگڑا ہوتا تھا۔ اس کے بقول محبت اندھوں اور بیوقوں کامفت میں جسمانی اور جذبات سے بھرے ہوئے پیٹ کو بھرنے والا ایندھن ہے۔ اسے محبت پر کامل یقین نہ ہوتے ہوئے بھی اس درجہ یقین تھا کہ وہ مجھ سے محبت کربیٹھی تھی۔ شروع شروع میں کئی گھنٹے ہم کسی چائے خانے میں دنیا بھر کے موضوعات پر گفتگو کرتے۔ چائے کے ہر سپ میں کیفے کے شیشوں سے باہر دیکھتی وہ اپسرہ مجھے اس جہاں کی نہ لگتی۔ میں اس سے محبت کے فلسفے بیان کرتا اور اسے عشق کے سچ ہونے کی تاویلیں دیا کرتا۔ پھر نا جانے باتیں کب تعلقات بنے اور تعلقات کب محبت کے سانچے میں ڈھلے میں نہیں جانتا مگر ہماری محبت اتنی شدید تھی کہ میں اسے اکثر کہتا تھا کہ مرنے کے بعد میں اس کی ممی بنادوں گا۔
“ھاھاھاھا! مرنے کے بعد انسان ممی ہی بن جاتا ہے۔ سو سالوں بعد بھی اسے کھود کر باہر نکالو تو لفظوں کے نشان اس کی خاک آلود ہڈیوں کے راکھ میں لازما ملیں گے اور محبت کرنے کے بعد انسان شاید ممی جیسا ہی بن جاتا ہے۔”
وہ ہنس کر میری بات کا مزاق اڑاتی۔ وہ اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ انسان مصری ممی ہی ہے جسے مرنے کے بعد دل کی کسی عمارت میں دفن کردیا جاتا ہے اور سالوں بعد جب ضرورت محسوس ہوتی ہے اسے باہر نکال لیا جاتا ہے۔ ساری بات تب بھی ضرورت کی ہی ہوتی ہے۔ کبھی انسان ضروری ہوتا ہے کبھی تنہائی اسے ضرورت بنا دیتی ہے۔
یہ قصہ بتانا ضروری تھا کیوں کہ میری بیوی اب ممی ہی بن چکی ہے۔ وہ کہیں وجود نہیں رکھتی مگر پھر بھی مجھے نظر آتی ہے۔ شاید اسی فریم میں کہیں وہ بھی موجود ہی ہے۔ ہم مصر میں پہلی دفعہ ملے تھے اور اس کے بعد اتنی دفعہ ملے کہ ہم نے اپنے دل پر ساری دفعات لگا دیں۔
خیر یہ ایک پرانا قصہ تھا۔ پرانے قصے وقت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں جیسے ہمارا تعلق ختم ہوا تھا۔ اک دن خاموشی سے ٹیبل کے کنارے رکھے چائے کے خالی کپ میں، میں نے بھی اسے کھو دیا تھا۔ شاید پیالی خالی تھی یا تعلق، میں کبھی جان ہی نہیں سکا تھا لیکن وہ شام کافی سرد تھی۔ بالکونی سے باہر دیکھتے ہوئے اس نے یقین سے مجھے محبت کا گلستان کہا تھا اور میں کتنی دیر اسے اس گلستان میں گھماتا رہا تھا جہاں ہر سو وفا کی کوئل عشق کے پیڑ پر دل کے گیت گارہی تھی ۔ جہاں خلوص کا سورج سرد موسم میں میٹھی سی گرماہٹ کے ساتھ ہمارے وجود کو معطر کررہا تھا اور پھر کتنی دیر ہم باتیں کرتے کرتے ایک دوسرے کو کھو بیٹھے تھے۔ وہ کہتی تھی کہ
” اس گلستان میں پھولوں کے ساتھ جو کانٹے ہیں وہ اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ کسی کو بھی زخمی کردیتے ہیں یہاں تک کہ پھول بھی ان کے شر سے محفوظ نہیں ہیں۔”
اکثر دوست کہتے ہیں جب انسان شدت کے ساتھ محبت کرتا ہے تو پاگل ہوجاتا ہے یا پھر پاگل ہی شدید محبت کرتے ہوں۔ بہرہال یہ ایک مفروضہ ہی ہے۔
میں آج شہر کے مشہور ماہر نفسیات کے کمرے میں موجود ہوں۔اس کمرے میں لگی مونا لیزا کی پنٹنگ مجھے بالکل اچھی نہیں لگ رہی۔ مجھے ہنستی ہوئی عورتیں اچھی نہیں لگتیں۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ انسان بلاوجہ ہنستا ہی کیوں ہے؟ میری بیوی شادی کے کچھ دنوں بعد جب بلاوجہ میرے سامنے ایسے ہی ہنستی تھی تب میرا دل کرتا تھا ان لمحوں میں اس کی جانب نہ دیکھوں۔ اگرچہ میں اس سے بے حد محبت کرتا تھا مگر جب وہ بے طرح ہنستی تھی تو میرا دل کرتا تھا کہ اسے بے طرح رلا دوں۔
میرے سامنے چائے کا مگ پڑا ہوا ہے۔ چائے کا مگ جس کے ساتھ میری یادیں جڑی ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں اکثر دوست اسی چائے خانے میں بنائے ہیں جہاں چائے کے پہلے سپ میں محبت کے پہلے لفظ کا سا لطف آتا تھا مگر اکثر آخری سپ پر میں نے انہیں کھویا بھی ہے۔۔ ابھی میرے سامنے ایک لڑکا چائے کا مگ رکھ کر گیا ہے جس میں سے اڑتی بھاپ شاید مجھے اس وقت کا سب سے بہترین منظر لگ رہا ہے۔ تبھی میں ڈاکٹر کو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں۔
وہ میرے سامنے ایک بھاری بھرکم کرسی پر بیٹھ گیا ہے۔ سامنے سجی ہوئی لکڑی کی میز پر کاغذوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ یہ انسان مجھے ڈاکٹر کم اور لکھاری زیادہ لگ رہا ہے۔ ہم دونوں غور سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔
“کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ تم کیا دیکھتے رہتے ہو؟”
ابتدائی تعارف اور گفتگو کے بعد یہ وہ سوال تھا جو ہمیشہ مجھ سے کیا جاتا تھا اور میرا جواب بھی ایک جیسا ہی ہوتا تھا۔
“مجھے ایک فریم نظر آتا ہے۔ ایک فریم جس کے اندر ایک اور فریم ہے۔”
میں نے غور سے اس کی جانب دیکھا اور گویا ہوا۔
“بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ “اس نے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
شاید وہ میری اندر کسی چھپی ہوئی ذات کو باہر نکالنے کی کوشش کررہا تھا۔ اتنی نفسیات تو میں بھی جانتا تھا۔
“فریم کے اندر دوسرا فریم، انسان کے اندر دوسرا انسان، خواب کے اندر دوسرا خواب۔۔سب کچھ تو ممکن ہے۔”
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
“مجھے یہ بتاؤ تم جو فریم دیکھ رہے ہو اس میں کیا ہے؟”
“ایک عدد تصویر ہے۔ شاید یہ ایک انسان کی تصویر ہے بلکہ وہ شاید کچھ اور ہی ہے۔”
میں نے وہ منظر یاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے بتایا۔
“وہ کچھ اور کیا ہے؟”
ڈاکٹر نے مجھ سے سوال کیا۔
“اس کے لئے تمھیں دوسرے فریم میں دیکھنا ہوگا۔ کیا تم اسے دیکھ سکو گے۔ تم لوگ تو مردہ انسانوں کو اکثر فریموں میں ٹانگتے ہو نا۔۔۔۔شاید اسے تم یاد کا نام دیتے ہو۔ کیا ایسا نہیں ہے ڈاکٹر! اگر ایسا ہے تو تم کیسے دیکھ سکو گے؟”
میں نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
اس نے شاید میری بات نظر انداز کردی تھی۔ وہ غور سے میری حرکات وہ سکنات کو ویسے ہی دیکھ رہا تھا جیسے میری بیوی دیکھتی تھی۔ وہ بھی اکثر اس ڈاکٹر کی طرح میرے سامنے بیٹھ جاتی اور مجھ سے فضول سے سوال کرتی۔ ایسے سوال جن کے میرے پاس جواب ہی نہیں ہوتے تھے۔ پھر جب تک ہمارے درمیان میں لڑائی نہ ہوجاتی وہ چپ نہ کرتی۔ لڑائی کے بعد ہم گھنٹوں باتیں نہیں کرتے تھے۔
“تم یہ بتاؤ بھلا اس فریم میں تمھیں نظر کیا آتا ہے؟”
اس نے پھر سے وہی روایتی سوال مجھ سے پوچھا ، میں جو اپنے خیالوں میں کھویا ہوا تھا دوبارہ سے اصلی دنیا میں لوٹ آیا۔
“رکو میں دیکھتا ہوں۔”
میں نے غور سے ڈاکڑ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
“تو سنو! وہاں دوسری تصویر ہے۔ وہ بھی کسی انسان کی ہی ہے۔ مجھے معاف کرنا مگر تمھیں افسوس کے ساتھ سننا ہوگا کہ شاید وہ بھی انسان نہیں ہے۔میری سمجھ میں نہیں آرہا وہ کیا ہے؟
“بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ “
ڈاکٹر اب کی بار خود الجھ گیا تھا۔
“یہ معاملہ ہمیں مزید الجھا دے گا۔اس کے لیے ہمیں تصویروں کو غور سے دیکھنا ہوگا۔”
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“پہلے فریم میں ایک عورت مسکرا رہی ہے مگر مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسےوہاں کوئی جانور بھی ہے۔ اب دوسرے فریم میں دیکھو ایک عورت رو رہی ہے بلکہ یہاں بھی کوئی جانورنظر آرہا ہے۔
ڈاکٹر ! کیا تم کچھ سمجھ پائے کہ کیوں مجھے ہر جگہ دو فریم نظر آتے ہیں کیوں ایک فریم میں ایک انسان ہنستا اور دوسرا روتا ہوا نظر آتا ہے۔”
میں نے ڈاکٹر سے کہا جو شاید اب کی بار جھلا گیا تھا۔
“میں یہی جاننے کے لیے تم سے سوال پوچھ رہا ہوں؟کیا تم بتانا پسند کرو گے کہ وہ دونوں جانور کیا کرتے ہیں۔”
مجھ سے دوبارہ سے سوال ہوا
“پہلے فریم میں وہ جانور اس عورت کو ہنساتا ہے مگر رکومیں اب خاصا الجھن کا شکار ہوچکا ہوں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ تصویر میں نظر آنے والی صورت کسی عورت کی ہے ، کسی بچے کی ہے یا پھر وہ کوئی مرد ہے۔ یقین جانو میں قطعی سمجھ نہیں پایا ، شاید یہ میرے فہم کا قصور ہو۔”
“کیا کوئی ایسا واقعہ جس نے تمھیں بے چین کیا ہو۔ تم چیزوں کی ترتیب بھول رہے ہو۔ جیسے واقعات کی بھول رہے ہو۔”
ڈاکٹر نے عینک سیدھی کرتےہوئے مجھ سے کہا۔
“ڈاکٹر میں تمھیں بتانا چاہتا ہوں کہ میری بیوی کے الگ ہونے سے پہلے مجھے بہت سی چیزیں درست مقام پرترتیب سے نظر آتی تھیں مگر محبت شاید ذات کے ساتھ چیزوں کی ترتیب بھی بدل دیتی ہے۔ اب مجھے چیزیں ویسی نظر نہیں آتیں۔ محبت کے بعد شاید ترتیبات اور ترکیبات دونوں بدل گئی ہیں۔ “
میں ڈاکٹر کی جانب دیکھ رہا تھا جو قلم گھماتے ہوئے کاغذ پر چند سطریں تحریر کرنے میں مگن تھا۔
“مجھے محسوس ہوتا ہے تمھیں بیوی سے بہت محبت تھی اور اسے چھوڑ کر جانے کا غم تم برداشت نہیں کرپائے۔”
اس نے کاغذ پر کچھ لکھتے ہوئے کہا۔
“محبت! میں نے غور سے اس کی جانب دیکھا۔ وہاں ایک شیشے سے بنا کرسٹل بال ڈاکٹر کے ہاتھوں میں مسلسل حرکت کررہا تھا۔ محبت تمھارے اس بال سے بہت مختلف ہے۔ تم اسے مرضی سے گھما سکتے ہو مگر محبت میں اتنی طاقت ہے کہ یہ ہمیں ایسے گھما سکتی ہے جیسے تم اس بال کو میرے سامنے گھما رہے ہو۔ پھر ہمارا کوئی مرکز نہیں رہتا۔”
میں نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
“اچھا اور کوئی بات جو تمھیں یاد ہو۔”
وہ شاید میری باتوں سے اکتا گیا تھا لہذا بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہنے لگا۔ ویسے نفسیات کے ڈاکٹر اتنی جلدی الجھتے نہیں ہیں۔ ان میں کافی صبر اور برداشت ہوتا ہے۔
” ویسے ایک بات بتاؤں ڈاکٹر ! میں جن تصویروں کو فریم میں دیکھتا ہوں۔ وہاں میں یہ بھی دیکھتا ہون کہ پہلے فریم میں موجود انسان ہنستا ہے تو جانور بھی ہنسنے لگتا ہے۔ جب کہ دوسرے فریم میں وہی جانورانسان کے رونے کے باوجود بھی ہنستا رہتا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے نا ڈاکٹر !”
“یہ کیسے ہوسکتا ہے شاہد تم شدید الجھن کا شکار ہوچکے ہو اس لیے تمھیں ایسا لگ رہا ہے۔”
ڈاکٹر نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“ھاھاھا ، ڈاکٹر صاحب ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔فریم کے اندر فریم، وجود کے اندر دوسرا وجود،روپ کے اندر دوسرا روپ ، انسان کے اندر دوسرا انسان ۔۔۔۔۔۔سب کچھ تو ممکن ہے یہاں۔۔”
میں نے اردگرد دیکھتے ہوئے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔
“رکو! میں ابھی آتا ہوں۔ شاید مجھے سردرد کی دوائی کی ضرورت ہے۔ “
تبھی ڈاکٹر نے مجھ سے کچھ لمحوں کی اجازت چاہی اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ شاید اسے کوئی ضروری کام یاد آگیا تھا۔ نفسیات کے ڈاکٹرشاید ہی ہوتے ہیں وہ شائد ضروری کام بھول جاتے ہیں۔
میں نے کرسی سے ٹیگ لگاتے ہوئے آنکھیں بند کیں۔ دفعتا میں نے دیکھا کہ منظر بدل رہا ہے۔ جانور تیزی سے عورت کی جانب بڑھ رہے تھے۔ جب کہ دوسرے فریم میں وہی جانور شاید کہیں موجود نہیں تھا جب کہ عورت ہنس رہی تھی۔
اوہ! خدایا! پھر وہی فریم۔۔۔۔۔
دفعتا مجھے اپنی بیوی یاد آنے لگی ۔ اس کے ساتھ گزرا ہر لمحہ جیسے مجھے بے قرار کررہا تھا۔ میرے لبوں پرلگا خاموشی کا قفل تیزی سے کھلتا جارہا تھا اور آنکھیں جیسے اندھیرے میں کھو رہی تھیں۔ تبھی سرعت کے ساتھ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک سونے کی انگوٹھی نکالی، سونے کی قیمتی انگوٹھی اور اسے ٹیبل پر موجود چھوٹے سے آئینے پر رکھنے کی کوشش کی جب کہ اسی کشمکش میں یاتھ لگنے سے وہ آئینہ زمیں پر گر کر ٹوٹ گیا اور کئی فریموں میں تقسیم ہوگیا۔
میں نے غور سے زمیں کی جانب دیکھا۔ ایک ٹوٹے ہوئے فریم میں مجھے اپنی بیوی کی شبیہ نظر آئی جب کہ دوسرے میں ڈاکٹر کو دیکھا جو شاید میری جانب آرہا تھا جب کہ آئینہ کئی فریموں میں تقسیم ہوچکا تھا۔
****
افسانہ نگار: سخاوت حسین
لاہور پاکستان