دائروی کینوس پر تین فلک بوس ٹاور۔ کنارے کے دونوں ٹاوروں کے رنگ و روغن روشن۔ درمیانی ٹاور چمک دمک سے خالی۔ بے رنگ، بے نور۔
ہر ایک ٹاور کے سینے پر ا یک بڑا سا فریم۔ روشن ٹاوروں کے فریموں میں تصویریں آویزاں۔ دائیں جانب کے فریم کی تصویر کے کئی ہاتھ۔ ہر ایک ہاتھ میں ایک آلہ¿ حرب: کسی میں تیر، کسی میں تفنگ، کسی میں تلوار، کسی میں بندوق، کسی میں بم، کسی میں بارود۔
بائیںطرف کی تصویر سر سے پا تک سیم و زر اور لعل و گہر سے مزیّن۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں انگوٹھیاں۔ انگوٹھیوں میں جڑے رنگ برنگ کے نگینے۔ نگینوں سے پھوٹتی ہوئی شعاعیں۔
بے رنگ اور بے رونق ٹاور کا فریم تصویر سے خالی۔
روشن ٹاوروں کے فریم کی تصویروں پر بہت ساری آنکھیں مرکوز۔ ان آنکھوں کی پتلیوں میں چاہ اور چمک۔
بے رنگ ٹاور کے خالی فریم کی طرف ایک بھی نگاہ مبذول نہیں۔
ٹاوروں کے آگے پیچھے، دائیں بائیں کی سرسبز زمین پر جگہ جگہ لمبی چوڑی خاکستری پٹیاں۔ ادھر اُدھر بکھری ہوئی چھوٹی بڑی ہڈّیاں۔ کہیں کہیں پر جمے ہوئے سرخ مٹ میلے چکتّے۔ خاک و خون میں لتھڑے ہوئے لوتھڑے۔ جھیلوں اور تالابوں کے شفاف پانی سے نکلتے ہوئے شعلے۔ نیلگوں فضا میں اُڑتے ہوئے آتشیں گولے اور سیاہ مرغولے۔
ایک گوشے میں دخانی کھمبے پر سنہرے، روپہلے اور اور قِرمزی تاروں سے بندھی ہوئی ایک تصویر جس کے ماتھے پر تیج اور آنکھوں میں جوت۔ تصویر کے پیروں کے نیچے ٹوٹا ہوا ایک ساز اور مرجھایا ہوا ایک گجرا۔
شائقینِ فنِ مصوری کی آنکھیں جزئیاتِ تصویر میں اور زبانیں تعبیر و تفسیر میںمشغول ۔
”یار! یہ تیسرا فریم خالی کیوں ہے؟ “ ایک نے اپنے پاس والے شخص کو مخاطب کیا۔
”ممکن ہے تصویر نکل گئی ہو؟“ دوسرے نے خالی فریم پر نظریں جماتے ہوئے جواب دیا۔
”نکل گئی ہو یا نکال دی گئی ہو؟ “پہلے نے دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
”ایک ہی بات ہے۔“ مختصر ساجواب دے کر دوسرا پھر سے معائینے میں مصروف ہوگیا۔
”کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ تصویر لگائی ہی نہ گئی ہو، میرا مطلب ہے کہ اس کے لیے تصویر بنی ہی نہ ہو؟“
”نہیں، یہ ممکن نہیں ہے۔ فریم بنا ہے تو تصویر بھی ضروری ہوگی اور فریم کی زمین بتارہی ہے کہ تصویر لگی بھی ہوگی۔“
”تصویر پھر نکال کیوں دی گئی؟“
”ہاں، یہ سوال تو اٹھتا ہے مگر کیا یہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ نکال دی گئی ہو؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ فریم سے نکل گئی ہو۔“
”مگر فریم سے کوئی تصویر اپنے آپ نکل سکتی ہے کیا؟“
”کیوں نہیں نکل سکتی؟“
”اس لیے کہ اپنے آپ کچھ نہیں ہوتا، کچھ ہونے کے پیچھے بھی کچھ ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ ”کچھ“ کبھی کبھی دکھائی نہیں دیتا۔“
”ہاں یہ بھی صحیح ہے مگر اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ تصویر نکلی یا نکالی گئی بلکہ یہ ہے کہ تصویر فریم سے باہر کیوں ہوئی؟“
”ہاں، اصل مسئلہ تو یہی ہے۔“
”تو اس فریم سے تصویر کے باہر ہوجانے کا سبب کیا ہوسکتا ہے؟“
اس سوال پر جب اس نے غور کرنا شروع کیا تو اس کی آنکھوں میں اس کے باغ کا گرا ہوا ایک پیڑ ابھر آیا۔ نہ کوئی آندھی چلی تھی، نہ ہی کسی نے اس کی جڑ پر کوئی کلہاڑا مارا تھا، پھر بھی ایک دن وہ پیڑ گر گیا۔ گھراور پڑوس کے سبھی لوگ حیران تھے کہ ایسا کیوں ہوا کہ ایک سیانے نے ”کیوں“ کے اس کاٹنے کو ذہنوںسے نکال دیا۔ اس نے بتایا کہ اس پیڑ کے پاس تھوڑے فاصلے پر جو دوسرا پیڑ کھڑا ہے اس کی جڑیں گرنے والے پیڑ کی جڑوں میں پہنچ کر موٹی ہونے لگی تھیں۔
”کیا سوچنے لگے۔ بتایا نہیں کیا سبب ہوسکتا ہے؟“
”شاید اس کا سبب دباﺅ ہوسکتا ہے۔“
”کس کا دباﺅ“
”اگل بغل کا دباﺅ۔“
”مطلب“
”پہلو میں کھڑے ٹاورو ںکی تصویروں کا دباﺅ۔“
”کس طرح کا دباﺅ؟“
”چمک دمک کا دباﺅ۔“
”دباﺅ کی منطق؟“
”ایک کا عروج دوسرے کا زوال۔“
”یعنی ؟“
”توجہی اور بے توجہی کی نفسیات۔ خود کو مرکزِ نگاہ میں رکھنے اور دوسرے کو دائرہ¿ نظر سے دور اور بے بساط کردینے کی نفسیات۔
”اچھا! اور یہ ٹاور کیا ہیں؟“
”مجھے تو لگتا ہے کہ یہ ٹاور ان تصویروںکی ماہیئت کے مظہر ہیں۔“
”اور تصویریں؟“
”ترجمان ہیں۔“
”کس شے کی ترجمان؟“
”اس شے کی جو زمین کو آسمان بنادیتی ہے۔ پست کو بلند کردیتی ہے اور جو قریب آجاتی ہے تو کوئی بھی دوری باقی نہیں رہتی۔“
”اور یہ آنکھیں جن کی پتلیاں تصویروں پر مرکوز ہیں؟“
”یہ شاید روشِ دوراں ہیں۔“
”روشِ دوراں؟“
”ہاں“ روشِ دوراں جو بتاتی ہے کہ زمانہ کس سمت جارہا اور شاید اس بات کا اشارہ بھی کرتی ہیں کہ کدھر دیکھنا ہے اور کدھر نہیں دیکھنا ہے۔“
”یہ آتشیںگولے اور سیاہ مرغولے کیا ہیں؟“
”آلہ¿ کار۔“
”اور یہ ہڈیاں، خاستری پٹیاں، سرخ مٹ میلے دھبے، لوتھڑے اور پانی سے نکلنے والے شعلے؟“
”انجام“
”یہ بات تم وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو؟“
”وثوق سے نہیں کہہ رہا ہوں، اندازہ لگا رہا ہوں۔“
”ان کا اِن تصویروں سے کیا رشتہ ہے؟“
”شاید یہ کہ زمین کو آسمان بنانے والی شے زور وزر کے ساتھ شور و شر بھی برساسکتی ہے۔“
”اچھا یہ بتاﺅ کہ روشن ٹاوروں والی تصویروں سے کیا اس تصویر کا بھی کوئی رشتہ ہے جو طرح طرح کے تاروں سے جکڑی ہوئی ہے اور جس کے پیروں کے نیچے ایک ٹوٹا ہوا ساز پڑا ہے اور ایک مرجھایا ہوا گجرا بھی۔
”ہوسکتا ہے۔“
”کیا رشتہ ہوسکتا ہے؟“
”یہ بتانا ابھی مشکل ہے۔“
”کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ سارے تار بھی علامات ہوں۔“
”ممکن ہے۔“
”یہ تار کس بات یا شے کی علامت ہوسکتے ہیں؟“
”اسی پر تو غور کرنا ہے، یہ جاننا ہے کہ یہ سنہرے، روپہلے اور قرمزی تار کس کس بات یا کس کس شے کی علامات ہیں۔ تصویر کو رسّی یا زنجیر میں بھی جکڑا جاسکتا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ ان کی جگہ مخصوص قسم کے تار استعمال کیے گئے۔ ضرور ان کی کوئی منطق بھی ہوگی۔“
”اور یہ منہ سے دھواں چھوڑتا ہوا کھمبا؟“
”ہاں، یہ بھی یوں ہی نہیں آیا ہوگا۔ اس کی بھی کوئی نہ کوئی معنویت ضرور ہوگی۔ اس پر بھی غور کرنا ہوگا۔“
”اور اس گجرے پر نہیں جو سر سے اتر کر پاﺅں کے نیچے پڑا ہے؟“
”یقینا اس پر بھی اور صرف اسی پر کیوں ؟ اس ساز پر بھی جس کے تار ٹوٹ کر بکھر گئے ہیں۔“
”ہاں، اس پر بھی۔ اچھا یہ بتاﺅ کہ اگر یہ ساز سالم و ثابت ہوتا اور تصویر کے ہاتھ میں ہوتا تو کیا ہوتا؟“
”انگلیاں تاروں کو چھیڑتیں اور تاروں سے سُر نکلتا۔“
”کیسا سر؟“
”انتشار کو ہموار اور اضطراب کو پُرسکون کرنے والا سُر۔ ”تزکیہ¿ نفس والا سُر“، قلب کو اطمینان بخشنے والا سُر۔
”اور گجرا اپنی جگہ پرہوتا اور اس کے پھول تازہ ہوتے تو کیا ہوتا؟“
”خوشبو نکلتی۔“
”کیسی خوشبو؟“
”مدمست کردینے والی خوشبو، فکر ِدو عالم سے آزاد کردینے والی خوشبو۔
”کہیں ایسا تو نہیں کہ یہی تصویر پہلے——؟“
”ہوسکتا ہے۔“
”اگر ایسا ہے تو یہ وہاں کے بجائے یہاں کیوں ہے؟“
”اس لیے کہ بے اثر اور بے ضرر ہوجائے۔ دوسرا سوال کیا تھا؟“
”اگر یہ وہاں ہوتی تو کیا ہوتا؟“
”جیسا کہ پوٹریٹ میں دکھائی دیتا ہے کہ اس تصویر کے ساتھ ساز بھی ہے اور ایک گجرا بھی۔ یعنی آواز اور خوشبو بھی۔ ممکن یہ دونوں اپنا رنگ و آہنگ دکھاتی ہوں جن سے دوسری تصویروں کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہو، ان کی چمک دمک پر روک لگ جاتی ہو، نگاہ کے زاویے بدل جاتے ہوں۔“
”ایسا کیوں ہوتا ہوگا؟“
”شاید اس لیے کہ ساز کی آواز میں صوتی کاٹ اور معنوی دھار بھی شامل ہوتی ہے۔“
”تو——“
”تو اس سے ممکن ہے کہ تیغ و تفنگ کا پانی اتر جاتا ہو۔ لعل و گوہر بے آب و تاب ہوجاتے ہوں اور خوشبو چوں کہ تن من کو مہکا دیتی ہے اور مہکا ہوا من اور معطر تن پرسکون ہوتا ہے لہٰذا کسی انتشار ، خلفشاراور آزار کا باعث نہیں بنتا۔“
” یہ سب تو ٹھیک ہے مگر روک۔روک کا کیا فائدہ؟“
”روک اس لیے کہ آتشیں گولے اور سیاہ مرغولے نہ اڑیں۔“
”کہیں تم یہ تو نہیں کہنا چاہتے کہ جس طرح دیپک راگ سے شعلے بڑھک اٹھتے ہیں اسی طرح اس ساز و آواز سے بھڑکے ہوئے شعلے تھم جاتے ہوں گے۔“
”شاید ایسا ہی کچھ ۔تمھارا تیسرا سوال کیا تھا؟“
”یہاں یہ تصویر جکڑی ہوئی کیوں ہے؟“
”کسی کو باندھ کر کیوں رکھتے ہیں؟“
”تاکہ وہ ہاتھ پیر نہ چلا سکے۔ اپنی طاقت نہ دکھا سکے۔ اپنی اصل جگہ پر دوبارہ نہ جا سکے۔“
”تم نے بالکل صحیح کہا۔ یہ تصویر بھی شاید اسی لیے جکڑی گئی ہے کہ یہ دوبارہ اپنی جگہ پر نہ جا سکے۔ اپنی طاقت نہ دکھا سکے۔ اگر یہ فریم سے نکال کر یوں ہی چھوڑ دی جاتی تو ممکن ہے یہ کسی طرح دوبارہ اپنے فریم میں پہنچ جاتی یا کوئی اسے اٹھا کر پھر سے خالی فریم میں سجا دیتا اور اسے پھر سے اپنا جوہر دکھانے کا موقع مل جاتا۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تصویر وہاں سے نکلی نہیں بلکہ نکالی گئی ہے؟“
”لگتا تو ایسا ہی ہے اور کیا سوال تھا تمھارا؟“
”یہ کہ اسے زنجیر یارسّی کے بجائے تاروں سے کیوں جکڑا گیا ہے۔ وہ بھی مخصوص رنگ کے تاروں سے۔“
”مخصوص رنگ کے تار؟“
”ہاں روپہلے سنہرے اور قرمزی رنگ کے تار“
”روپہلے، سنہرے، قرمزی، روپہلے، سنہرے، قرمزی“ —— کچھ دیر تک وہ ان تاروں کی گردان کرتا رہا۔ پھر یکایک بول پڑا۔
”یار، کہیں یہ بھی روشِ دوراں کے مظاہر تو نہیں ؟“
”یہ کیسے کہہ سکتے ہو؟“
”اندازے سے کہہ رہا ہوں، وثوق سے نہیں۔“
”یہ اندازہ کیوں؟“
”اس لیے کہ ان تاروں کے تار رفتارِ زمانہ سے لگّا کھاتے ہیں “
”ہوسکتا ہے تمہارا اندازہ صحیح ہو مگر یہ تار اب بھی میری گرفت سے باہر ہیں۔“
”گرفت میں تو پوری طرح میری بھی نہیں آسکے ہیں۔“
”ایک بات اور بتاﺅ۔“
”پوچھو۔“
”یہ تصویر بھی تو کسی کی علامت ہوسکتی ہے؟“
کیوں نہیں، بہ شرطیکہ یہ وہاں رہی ہو۔“
”تو تمھیں اس کے وہاں ہونے میں کیا اب بھی شبہ ہے؟“
”شبہ تو ہونا ہی چاہیے کہ ہم قیاس کی بنیاد پر بات کررہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہم جو سمجھ رہے ہیں وہی سچ ہو۔ سچ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔“
’اگر مان لو کہ ہمارا قیاس صحیح ہو تو ایسی صورت میں کیا یہ دھواں چھوڑنے والا کھمبا بھی بامعنی ہوسکتا ہے؟“
”یقینا ہوسکتا ہے۔“
”تو اس پر بھی کچھ روشنی ——“
”اس کے لیے تو اس کھمبے کے منہ سے نکلنے والے دھویں کے ہمراہ اڑنا پڑے گا۔“
”تو اُڑو۔“
”اڑیں گے مگر ابھی نہیں، ابھی تو بھاپ چھوڑنے والی چائے کی طلب محسوس ہورہی ہے۔ چلو کہیں چائے پیتے ہیں۔“
چلو میرا بھی سر دُکھنے لگا ہے۔“
دونوں نمائش گاہ سے نکل کر کینٹین میں پہنچ گئے۔ کینٹین میں زیادہ تر میزوں پر یہی پوٹریٹ زیر بحث تھا۔
”مصوّر نے اس میں کائنات کی ساری قوتیں یکجا کردی ہیں“ کسی میز سے آواز گونجی تھی۔
”پتہ نہیں یہ ٹاور کس لیے کھڑے کردیے گئے ہیں۔ بات تو تصویروں سے ہی پوری ہوجاتی ہے۔“
کسی دوسری میز سے یہ جملہ بلند ہوا تھا۔
”ارے یار! کچھ نہیںہے، یہ محض چوںچوں کا مربّا ہے۔ کسی سے کسی کا کوئی ربط نہیں۔ سب کچھ بے تکا ہے۔ یہ ایک بے معنی پوٹریٹ ہے۔ بے کار میں ہم اپنا سر کھپا رہے ہیں۔“ یہ آواز کسی تیسرے گوشے سے آئی تھی۔
” کیا واقعی یہ بے معنی ہے؟“
”تمہیں کیا لگتا ہے؟“
”مجھے بے معنی تو نہیں لگتا۔“
”یعنی با معنی لگتا ہے؟“
”ہاں، لگتا تو ہے مگر——“
”مگر کیا؟“
”معنی پوری طرح کھل نہیں پارہا ہے؟“
معنی بھی کھل جائے گا مگر اتنی جلدی نہیں جتنی جلدی ہم چاہتے ہیں۔ مصور نے جسے بنانے میں برسوں لگائے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ وہ منٹوں میں کھل جائے۔ آرٹ یوں نہیں کھلتا۔ اسے کھولنے کے لیے مصوّر ہی کی طرح محنت کرنی ہوتی ہے۔ پتلیوںکو پیڑا سے گزرنا پڑتا ہے۔ لکیروں سے لڑنا اور رنگوں سے الجھنا پڑتا ہے۔ خیر چھوڑو، یہ بتاﺅ کہ کیسا لگا؟“
”اچھا لگا اور تمھیں؟“
مجھے بھی اچھا لگا۔ اگر ہم معنی نہ ڈھونڈیں تب بھی یہ اچھا ہے کہ یہ اپنی طرف دل کو کھینچتا ہے۔ اس کے
رنگ و روغن آنکھوں میں نور اور رگوں میں سرور بھرتے ہیں۔“
”سچ کہہ رہے ہو، مگر تشنگی باقی رہتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ یہ جلد سے جلد کھل جائے۔ اس کا معنی باہر نکل آئے۔ سب کچھ سامنے آجائے۔سارا کچھ سمجھ میں آجائے۔ تمہاری سمجھ میں کچھ آیا؟“
”واضح طور پر تو نہیں، مبہم سی اتنی بات ضرور گرفت میں آئی ہے کہ شور و شر کو روکنے والا سر خود رُک گیا ہے۔ شاید اسے شکنجوں میں کس دیا گیا ہے اور جس کا تار اس فریم سے جڑتا ہے جو دو بھرے ہوئے فریموں کے درمیان خالی پڑا ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...