(Last Updated On: )
میں چار برس کی تھی۔ اس دن کشمیری بازار میں ابو کا ہاتھ تھامے میں تیز چلنے کی کوشش میں مصروف تھی لیکن دکانوں میں سجے کھلونوں سے الجھتی نگاہیں بار بار قدم روک دیتی تھیں۔ ایک جگہ رک کر ابو سگریٹ سلگانے لگے تو میں نے قریبی دکان کے شوکیس کے شیشے سے ماتھا ٹکا کر اس میں سجی گڑیا کو دیکھنا شروع کر دیا.
ویسے میرے پاس ایک گڑیا تھی تو لیکن محض تین چار انچ لمبی، بنا کپڑوں کے، اس کی بناوٹ میں ہی کپڑوں کے نشان بنے تھے۔ میرا جی چاہتا تھا کہ اس نے بھی کپڑے پہنے ہوں، باقی سب کی گڑیاؤں کی طرح۔ میں بچی کھچی کترنیں اس کے بدن پر لپیٹ کر اسے خوب صورت بنانے کی جد و جہد میں رہتی تھی۔ لیکن شو کیس میں سجی گڑیا بہت لمبی تھی۔ پلاسٹک کی بنی اس گڑیا کے سر پر بالوں جیسی لکیریں تھیں جن پر بھورا رنگ تھا۔ ہونٹوں پر سرخ رنگ لگایا گیا تھا اور اس نے ایک پھولدار فراک پہن رکھا تھا۔ ابو میری جانب متوجہ ہوئے تو ہمیشہ کی طرح انہوں نے میری آنکھوں میں میری خواہش پڑھ لی۔
در اصل ابو جان نے مجھ سے سدا اتنی محبت کی کہ مجھے کبھی ان سے کچھ مانگنا نہیں پڑا۔ تمام عمر انہوں نے کہے بغیر میری خواہش جانی اور میرے شوہر کو امتحان میں مبتلا کر گئے۔ کیونکہ مجھے مانگے بغیر یہی توقع ہوتی تھی کہ وہ میری تمنا جان لیں۔ جبکہ ایسا ہو نہیں پاتا تھا۔
ابو نے میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ” میری بیٹی کو گڑیا پسند آئی ہے؟” میں نے زور زور سے اثبات میں سرہلایا۔ ابو نے دکاندار سے مخاطب ہوکے قیمت پوچھی جسے سن کر ان کے چہرے پر پریشانی اور مایوسی کا غبار سا چھا گیا۔ انہوں نے اپنی جیب کو ٹٹولا۔ مہینے کے کافی دن باقی تھے۔ اور انہیں احساس ہو رہا تھا کہ اس گڑیا کو خریدنا ممکن نہیں ہو گا۔ تنخواہ دار لوگوں کی خواہشات کیلنڈر پر درج ہوتی ہیں اور تاریخوں سے معکوس متناسب ہوتی ہیں۔ جوں جوں تاریخ بڑھتی ہے خواہش کی بارآوری کا امکان کم ہوتا چلا جاتا ہے۔
ہونٹوں کو سختی سے بھینچتے ہوئے ابو نے بھرائی ہوئی آواز میں مجھ سے کہا، ”یہ اچھی نہیں ہے بیٹا.. میں آپ کو دوسری گڑیا لے دوں گا ”۔ شاید میرا دل اس وقت زور سے دھڑکا ہو گا لیکن میں نے گڑیا پر نظریں جمائے ہوئے کہا، ”ہاں، یہ اچھی نہیں ہے۔ میں دوسری گڑیا لے لوں گی۔” ایک لفظ کہے بغیر بجھے دل اور مدھم قدموں سے ہم آگے بڑھ گئے۔ شاید میں نے مڑ کر دوکان کی جانب دوبارہ دیکھا ہو گا۔ شاید کچھ دیر اس کے بارے میں سوچا ہو گا،لیکن پھر بازار کی رونق میں بہل گئی ہوں گی۔ لیکن ابو جی کے لئے ہر قدم دشوار ہو رہا تھا۔ ان کی آنکھوں میں بار بار آنسو آ رہے تھے جنہیں وہ چپکے سے صاف کر لیتے۔ اپنی کم مائیگی سے زیادہ انہیں مجھ سے بولے جھوٹ کی تکلیف ہو رہی تھی۔ اور اس سے بھی زیادہ میرے چپ چاپ مان جانے کی۔ قریباًآدھ فرلانگ چلنے کے بعد ابو واپس مڑ گئے۔ عینک کے شیشے صاف کر کے انہوں نے میری جانب دیکھا اور واپسی کا سفر تیز رفتاری سے طے کرنے لگے۔ اسی دکان کے سامنے جا کر وہ رک گئے۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھا۔ مسکرا کے کہنے لگے، ویسے یہ گڑیا بھی اچھی ہے۔ میرا دل بلیوں اچھلنے لگا، ”جی ابو، بہت اچھی ہے”۔ ابو جان نے گڑیا خرید کر میرے ہاتھ میں دے دی۔ میں نے پیکنگ کے اوپر سے ہی گڑیا کے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے مجھے ہفت اقلیم کی دولت مل گئی ہو۔ جب ہم دلی دروازے تک آ کے ٹانگے میں بیٹھے تو ابو جان نے مجھے گود میں بٹھا لیا۔ میں گڑیا کو بازؤوں میں سمیٹے بیٹھی تھی۔ اور ابو جی کی آنکھوں کے گوشے اب بھی نم تھے۔
کچھ عرصے بعد میرا سکول میں داخلہ ہو گیا۔ ا می اور ابو کی بھرپور توجہ کی بدولت میں پڑھائی میں بہت اچھی تھی۔ امی اپنے زمانہ طالبعلمی میں ہمیشہ ہم نصابی سرگرمیوں میں بہت نمایاں رہی تھیں اس لئے مجھے بھی اس ضمن میں ان کی حوصلہ افزائی حاصل تھی۔ سکول کی ہفتہ وار سرگرمیوں میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ سناتی تھی۔ میری زندگی میں سکول کی پہلی سالانہ بزم ادب منعقد ہونے کو تھی۔کلاس ٹیچر نے مجھ سے پوچھا، ”کوئی نظم یاد ہے؟ ” میں نے لہک لہک کر نظم سنائی۔
گڑیا میری بھولی بھالی
نیلی نیلی آنکھوں والی
ٹیچر کو نظم بہت پسند آئی۔ انہوں نے پوچھا، ”تمہارے پاس گڑیا ہے؟” میں نے ہاتھوں کو حتی الامکان پھیلا کر بتایا، ”جی ہاں، اتنی بڑی”۔ کہنے لگیں کہ جس دن نظم پڑھنی ہے، اس دن بہت اچھا سا فراک پہن کر آنا ہے اور ساتھ گڑیا بھی لانی ہے۔ ”جی مس”۔۔۔میں نے جوش سے کہا۔
گھر جا کر امی کو بتایا تو وہ بھی بہت خوش ہوئیں۔ میرے دو تین فراک لے کر وہ ٹیچر کے پاس گئیں اور ان کے مشورے سے ایک فراک فائینل ہو گیا۔
بزم ادب کے مقررہ دن میں فراک پہنے، گڑیا تھامے خوشی خوشی سکول پہنچی۔ تقریب شروع ہونے میں تھوڑی دیر باقی تھی۔ بزم ادب میں حصہ لینے والے بچے تقریب گاہ سے ملحقہ کمرے میں موجود تھے۔ ٹیچر سب بچوں سے آخری بار ان کی نظمیں سن رہی تھیں۔ میری نظم سن کے انہوں نے بہت شاباش دی۔ بولیں، ”سٹیج پر یونہی پڑھنا۔”اچانک ہماری کلاس کی ایک بچی اپنی والدہ کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئی۔ اسماء کے والد بیرون ملک ملازمت کرتے تھے۔ اس نے بہت خوب صورت میکسی پہن رکھی تھی۔ اس کے ہاتھوں میں بہت خوب صورت گڑیا تھی۔ اس کے سر پہ اصلی بالوں جیسے بال تھے جن میں ایک ربن بندھا تھا۔ گڑیا کی آنکھیں چمکدار کانچ سے بنی تھیں جن پر لمبی اور مڑی ہوئی پلکیں تھیں۔ لٹانے سے گڑیا آنکھیں بند کرتی تھی اور اٹھانے سے کھول لیتی تھی۔ اس کی امی ٹیچر کے ساتھ کچھ بات کر رہی تھیں۔ بات کر کے وہ باہر جا کر باقی والدین کے ساتھ پنڈال میں بیٹھ گئیں۔ ٹیچر میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں، ”تمہیں کوئی لطیفہ آتا ہے؟” میں نے انہیں یاد دلایا کہ پچھلے ہی دن میں نے انہیں کچھ لطائف سنائے تھے۔ انہوں نے بے رخی سے کہا، ”تم وہی لطیفہ سنا دینا۔” میں نے پوچھا، ” مس! نظم کے بعد؟؟” کہنے لگیں، ”نظم اب اسماء پڑھے گی۔”مجھے اعتراض اور احتجاج کی عادت تو تھی ہی نہیں۔ بس حیران ہو کے انہیں تک رہی تھی اور وہ نگاہیں چرا رہی تھیں۔
امارت اور غربت کے درمیان اس بدصورت خلیج سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔
****
سمیرا عابد
لاہور ۔ پاکستان