غلام عباس بعض لوگوں کو گانے بجانے سے قدرتی لگاؤ ہوتا ہے۔ خود چاہے بے سرے ہی کیوں نہ ہوں مگر سریلی آواز پر جان دیتے ہیں۔ راگ ان پر جادو کا سا اثر کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ وہ گانے بجانے کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں جیسے کسی کو کوئی نشہ لگ جائے۔ صاحب ثروت ہوئے تو عمر بھر گویوں کی پرورش کرتے رہے، نہیں تو استادوں کی جوتیاں سیدھی کر کے ہی اپنے ذوق کی تسکین کر لی۔ در اصل ان ہی لوگوں کے لیے موسیقی روح کی غذا کے مصداق ہوتی ہے۔ گانے بجانے والوں کی اصطلاح میں ایسے لوگوں کو ’کن رسیا‘ کہتے ہیں۔
فیاض کو بھی قدرت کی طرف سے موسیقی کا کچھ ایسا ہی ذوق عطا ہوا تھا۔ مگر بدقسمتی سے ایک تو وہ پیدا ہی ایک غریب وثیقہ نویس کے گھر ہوا، دوسرے اس کا باپ بڑا سخت گیر اور پابند صوم و صلوٰۃ تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فیاض کا یہ ذوق پنپنے نہ پایا۔ پھر بھی اس نے بچپن سے لے کر جوانی تک جیسے تیسے موسیقی سے اپنی دل بستگی قائم رکھی۔
جب اسکول میں پڑھتا تھا تو کبھی کبھی اسے بھی حمد گانے کو کہا جاتا۔ وہ بھی عجب سماں ہوتا تھا۔ صبح صبح لڑکے قطاریں باندھے کھڑے ہیں اور فیاض ان کے سامنے کھڑا حمد کا ایک ایک مصرعہ گارہا ہے، جسے سارے لڑکے کورس کی صورت میں دہراتے جاتے ہیں۔ قوالی اور سماع کی محفلوں میں بھی وہ بچپن ہی سے شریک ہونے لگا تھا کیونکہ باپ ان میں جانے کی اجازت دے دیتا بشرطیکہ وہ پڑوس ہی میں کہیں منعقد ہوتیں۔ کبھی کبھی وہ ان براتوں کے ساتھ بھی ہولیتا جن کے آگے آگے بینڈ باجا بجتا۔ اور ڈھولکیا زرق برق وردی پر شیر کی کھال پہنے طرح طرح کے کرتبوں سے ڈھول بجاتا، جو اس نے گلے میں لٹکا رکھا ہوتا۔ وہ جو سڑک کی پٹری پر کسی ہنڈے کے نیچے میاں میلی سی چادر بچھا ، ہارمونیم کھول ، بیٹھ جاتا ہے، اور بیوی ڈھولک گھٹنے تلے دبا، گھونگھٹ کے اندر سے کراری کوئل کی سی آواز سے الاپنے لگتی ہے، ان کا گانا بھی فیاض بڑی محویت سے سنا کرتا۔ ایسے موقع پر اس کی تمنا ہوتی کہ میں بھی کوئی سستا سا ہارمونیم خرید لوں، اور گھر میں گانے کی مشق کیا کروں۔ مگر وہ جانتا تھا کہ باپ کے جیتے جی یہ ارمان پورا ہونا محال ہے۔
طالب علمی ہی کے زمانے میں ایک بار جب اس کے باپ کو کسی ضروری کام سے کسی دوسرے شہر جانا پڑا تھا تو فیاض کا ایک دوست ایک رات اسے تھیڑ دکھانے لے گیا۔ یہ پارسیوں کی کوئی مشہور کمپنی تھی جس میں نامی گرامی ایکٹر اور گویے ملازم تھے۔ کھیل بھی ایسا تھا کہ اس میں شروع سے آخر تک گانا ہی گانا تھا۔ فیاض تمام وقت مبہوت ہو کر سنتا رہا، اور پھر برسوں اسے اپنے کانوں میں ان نغموں کی گونج سنائی دیتی رہی۔ فیاض نے اسکول کی تعلیم ختم کی تو باپ نے تنگ دستی کے باوجود اسے کالج میں داخل کرا دیا۔ اس کا خیال تھا کہ لڑکا جتنی زیادہ تعلیم حاصل کرے گا اتنی ہی اچھی اسے نوکری مل جائے گی۔ کالج میں فیاض نے خود کو زیادہ آزاد محسوس کیا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ باپ کی نظروں سے اوجھل رہ کر اسے کالج کی ’’بزم موسیقی‘‘ میں اپنے ذوق کی تسکین کا سامان نظر آنے لگا تھا۔
باپ کا قاعدہ تھا کہ رات کو جب تک فیاض بستر پر لیٹ نہ جاتا، وہ خود بھی آرام نہ کرتا تھا۔ اور پھر رات کو وہ دو ایک بار اٹھ کر بیٹے کے پلنگ کے پاس ضرور جاتا۔ ایک دفعہ پچھلے پہر اس نے فیاض کو نیند میں بڑبڑاتے سنا۔ وہ اٹھ کر بیٹے کے پلنگ کے پاس گیا۔ فیاض کی زبان سے بے خبری میں عجیب عجیب الفاظ نکل رہے تھے۔ کچھ انگریزی کے کچھ اردو کے۔ بیچ بیچ میں وہ کبھی ٹھنڈی سانسیں بھرنے لگتا کبھی کراہ اٹھتا۔ باپ بڑے تعجب کے ساتھ یہ کیفیت دیکھتا رہا۔ رات بھر وہ طرح طرح کے اندیشوں میں کھویا رہا۔ اگلے ہی روز اس نے بیٹے کے لیے موزوں رشتہ تلاش کرنا شروع کردیا۔ اور پھر تھوڑے ہی دنوں میں ایک اپنے سے بھی غریب گھر کی مگر شکل صورت کی اچھی لڑکی منتخب کرکے فیاض کی شادی کردی۔ اور یوں بیٹے کی آوارگی کے امکانات کا بڑی حدتک سد باب کر دیا۔
کالج میں فیاض کا تیسرا سال تھا کہ اچانک باپ کا انتقال ہوگیا۔ ماں اس سے ایک برس پہلے ہی سدھار چکی تھی۔ چنانچہ اب فیاض آزاد تھا۔ مگر یہ آزادی اپنے ساتھ کئی ذمہ داریاں لے کر آئی تھی۔ سب سے اہم مسئلہ اپنی اور اصغری کی، جو ایک بچی کی ماں بن چکی تھی، گزر اوقات کا تھا۔ کیونکہ باپ اپنے پیچھے نہ تو کوئی جائیداد ہی چھوڑ مرا تھا اور نہ کچھ روپیہ پیسہ ہی۔ چنانچہ اگلے روز اس نے کالج کے بجائے دفتروں کا رخ کیا اور نوکری کی تلاش شروع کردی۔ اسے اپنی بیوی اور بچی سے بڑی الفت تھی۔ چنانچہ ان کی خاطر اس نے ادنیٰ سے ادنیٰ محنت مزدوری کو بھی اپنے لیے عارنہ جانا اور جیسے تیسے ان کاپیٹ پالتا رہا۔ آخر مہینوں سڑکوں کی خاک چھاننے اور دفتروں میں دھکے کھانے کے بعد اسے آبکاری کے محکمے میں ایک کلرک کی جگہ عارضی طور پر مل گئی۔
اس نے دن رات کی محنت اور اپنی قابلیت سے جلد ہی اس دفتر میں اپنے لیے مستقل جگہ پیدا کرلی۔ اس کے بعد اسے اپنی آمدنی بڑھانے کی فکر ہوئی کیونکہ دوسری بچی کی پیدائش کے ساتھ ہی گھر کے اخراجات بڑھ گئے تھے۔ چنانچہ وہ دن کو دفتر میں کام کرتا اور رات کو گھروں پر جا کر لڑکوں کو پڑھاتا اور اس طرح بڑی مشکل سے گھر کا خرچ چلاتا۔ اس زمانے میں اس کا ذوق موسیقی فائیلوں کے انبار اور جمع خرچ کے اندراجات میں گم ہو کے خواب و خیال بن گیا تھا۔ پھر بھی کسی رات پچھلے پہر کے سناٹے میں اگر وہ جاگ رہا ہوتا اور کوئی تانگے والا سنسان سڑک پر تانگہ چلاتے ہوئے اپنی سریلی اور پاٹ دار آواز میں کوئی لوگ گیت گاتا ہوا نکل جاتا، تو اس کے دل میں ہوک سی اٹھنے لگتی۔
رفتہ رفتہ اس کی حالت سنبھلتی گئی، یہاں تک کہ دس سال کے عرصہ میں وہ اپنی لیاقت، محنت اور خوش اخلاقی کے باعث اسی دفتر میں ہیڈ کلرک بن گیا۔ سب افسر اس کے کام سے خوش تھے اور وہ بھی اپنی حالت پر مطمئن تھا۔ اسےجو مشاہرہ ملتا وہ اس کے اور بیوی بچوں کے گزارے کے لیے کافی تھا اور اب اسے دوسرے کے بچوں کو ان کے گھر پر جا جا کر پڑھانے کی ضرورت نہ رہی تھی۔
جب سے اسے ہیڈ کلرکی ملی تھی، اس کا کام خاصا بڑھ گیا تھا۔ اس کا معمول تھا کہ جب سب لوگ دفتر سے چلے جاتے، تو وہ تنہائی میں اپنے ماتحت کلرکوں کے کام کا محاسبہ اور حسابات کی جانچ پڑتال کیا کرتا۔ اس طرح اسے دفتر میں دوڈھائی گھنٹے زیادہ گزارنے تو پڑتے مگر اس کی دل جمعی ہو جاتی۔ وہ چراغ جلنے سے پہلے شاذ ہی دفتر سے اٹھتا۔ دفتر سے نکل کر وہ اس باغ کا راستہ لیتا جو فصیل کے ساتھ ساتھ شہر کے گرداگرد چلا گیا تھا۔ اس کا گھر شہر کے اندر ایک تنگ اور گنجان آباد محلے میں تھا۔ باغ سے ہو کر گھر پہنچنے میں اسے ایک آدھ میل زیادہ چلنا پڑتا۔ پھر بھی وہ اسے شہر کے پرشور بازارں اور تنگ گلیوں والے راستے پر ترجیح دیتا۔
وہ باغ کی کشادہ سڑک پر جس پر سرخ بجری بچھی تھی اور جس پر ہر قسم کی گاڑیوں کے چلنے کی ممانعت تھی، مزے مزے سے قدم اٹھاتا خاصی دیر میں گھر پہنچا کرتا۔ اس ہوا خوری سے اس کے دن بھر کے تھکے ہوئے دماغ کو آسودگی حاصل ہوتی۔ اور جس وقت وہ گھر پہنچتا تو خاصا تازہ دم ہوتا۔ اس کے بیوی بچے ملازمت کے ابتدائی زمانے ہی سے اس کے دیر سے گھر پہنچنے کے عادی ہو چکے تھے۔ ایک دفعہ ہفتہ کی ایک شام کو وہ معمول سے بھی کچھ زیادہ ہی دیر میں دفتر سے نکلا۔ یہ گلابی جاڑوں کے دن تھے۔ ابر چھایا ہوا تھا اور اکا دکا بوند بھی اس کے منھ پر آپڑتی تھی۔ وہ حسب عادت باغ کی سڑک پر ٹہلتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ سڑک کے کنارے کنارے تھوڑے فاصلے پر بجلی کے کھمبے تھے، جن کی روشنیوں کی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ خم کھاتی ہوئی دور سے بڑی بھلی معلوم دیتی تھی۔
فیاض اپنی دھن میں مست چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس کے کان میں کسی ساز کے بجنے کی دھیمی دھیمی آواز پڑنی شروع ہوئی۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتا گیا، آواز زیادہ واضح ہوتی گئی۔ آخر جب وہ قریب پہنچا تو اس نے بجلی کے ہنڈے کی روشنی میں دیکھا کہ سڑک کے قریب ہی باغ کے گوشے میں ایک درخت کے نیچے کوئی شخص فقیروں جیسی گدڑی اوڑھے سرکاری بنچ پر اکڑوں بیٹھا ایک بڑا سا ساز بجا رہا ہے۔ اس موسیقی میں بلا کا سوز تھا۔ نغمہ تھا کہ بے اختیار دل میں اترا جاتا تھا۔ رات کی خاموشی میں ایک ایک سر واضح اور الگ الگ سنائی دے رہا تھا۔ فیاض کے قدم خود بخود رک گئے، اور وہ سازندے پر نظریں جمائے ایک محویت کے عالم میں اس موسیقی کو سننے لگا۔
سازندہ آنکھیں بند کیے اس امر سے بے نیاز کہ کوئی اس کے فن پر دھیان دے رہا ہے یا نہیں، بڑے انہماک کے ساتھ ساز بجا رہا تھا۔ اس کی انگلیاں تھکنے کا نام نہ لیتی تھیں۔ وہ کبھی اس تار پر دوڑتیں کبھی اس تار پر۔ دوسرے ہاتھ سے وہ تاروں پر ضربیں لگا رہا تھا ، اس قدر تیزی کے ساتھ کہ فضا میں ایک مسلسل ارتعاش کی کیفیت پیدا ہو رہی تھی۔ عجب سماں بندھا ہوا تھا۔ فیاض کے دل و دماغ پر اس موسیقی کا کچھ ایسا اثر پڑا کہ پہلے تو اس کا سانس تیز تیز چلنے لگا۔ پھر رفتہ رفتہ اعصاب ڈھیلے پڑنے شروع ہوئے اور نقاہت سی محسوس ہونے لگی۔ پھر ایک آنسو اس کی آنکھ سے بے اختیار ٹپک پڑا۔
فیاض کی زندگی کے پچھلے دس گیارہ سال ایسے سپاٹ گزرے تھے کہ اس میں موسیقی یا کسی اور فن لطیفہ کا کچھ دخل نہ رہا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا مقصد فقط عزت و آبرو کی روزی کمانا اور بچوں کی پرورش کرنا قرار دے لیا تھا اور وہ یہ فرض بڑی مسرت کے ساتھ انجام دے رہا تھا۔ اور اگر اس کی زندگی میں کسی چیز کی کمی رہ جاتی تھی تو اصغری سے اس کی والہانہ گرویدگی اس کمی کو پورا کر دیتی تھی مگر اب اس موسیقی کو سن کر اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے دل کے اندر کوئی سوئی ہوئی چیز دفعتاً جاگ اٹھی ہو۔
کچھ دیر کے بعد سازندے نےساز بجانا بند کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی فیاض کو ایسا محسوس ہوا کہ جس طلسم نے اسے مسحور کر رکھا تھا وہ ٹوٹ گیا، اور اب وہ چاہے تو جا سکتا ہے۔ مگر اتنے ہی میں سازندے نے آنکھیں کھول دیں اور پہلی مرتبہ سڑک پر اپنے واحد سامع کو دیکھا۔ پھر اس خیال سے کہ کہیں وہ چل نہ دے، اس نے جلدی سے ہانک لگائی، ’’بابو جی کی خیر ہو۔ مل جائے کوئی دھیلی پاولا فقیر کو نشے پانی کے لیے۔‘‘ فیاض کے قدم رک گئے۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا، جس میں اتفاق سے اس وقت صرف ایک دونی ہی تھی۔ ایسے صاحب کمال کو ایسا حقیر نذرانہ پیش کرتے ہوئے اسے بڑی ندامت محسوس ہوئی۔ آخر اس نے سازندے کی طرف بڑھتے ہوئے ہمت کر کے کہا، ’’استاد! اس وقت تو یہی قبول کرو۔ ہاں اگر کھانا کھانا ہو تو میرے ساتھ چلے چلو۔ میرا گھر یہاں سے قریب ہی ہے۔‘‘ سازندے نے لمحہ بھر تامل کیا۔ سازبجاتے بجاتے یقیناً وہ تھک بھی گیا تھا اور اسے بھوک بھی لگی تھی۔ ایسے میں گھر کا پکا پکایا گرم گرم کھانا مل جائے تو کیا برا تھا!
’’چلتا ہوں بابو جی۔ اللہ تمہاری خیر رکھے۔‘‘ اور وہ ساز بغل میں دبا، گدڑی سنبھال بنچ سےاٹھ کھڑا ہوا، اور فیاض کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ وہ لمبے قد کا دبلا پتلا آدمی تھا۔ ادھیڑ عمر۔ سر پر لمبی سی ترکی ٹوپی جو بہت میلی ہوگئی تھی اور جس کا پھندنا ٹوٹ چکا تھا۔ لمبے لمبے پٹے جن میں گھاس پھونس کے تنکے الجھے ہوئے تھے۔ کڑبڑی داڑھی جو کئی روز سے منڈائی نہیں گئی تھی۔ آنکھیں سرخ سرخ گویا دکھنےآئی ہوں۔ ان میں سے پانی رستا ہوا۔ اس کا لباس جو کرتے پاجامے اور کالی واسکٹ پر مشتمل تھا، سخت بوسیدہ اور میلا تھا۔ پاؤں میں ٹوٹا ہوا بوٹ جو اس کے پاؤں کے ناپ سےبڑا تھا، اور اسے جوتے کو گھسیٹ گھسیٹ کر چلنا پڑتا۔ پیٹھ میں تھورا سا کوب، جو شاید جھک کر ساز بجانے کی وجہ سے پیدا ہوگیا تھا۔
’’یہ باجا جو تم بجاتےہو اس کو کیا کہتے ہیں؟‘‘ فیاض نے چلتے چلتے پوچھا۔
’’اس کو سرود کہتے ہیں۔ تمہاری خیر رہے بابو جی۔‘‘
’’سرود؟‘‘
’’جی ہاں، سرود۔‘‘
’’بہت کمال کا بجاتے ہو استاد تم تو۔‘‘
’’اجی کمال تو بس اللہ کی ذات کو حاصل ہے بابو جی۔‘‘
’’میں نے آج تک اتنا اچھا ساز بجاتے کسی کو نہیں سنا۔‘‘
’’کرم ہے کلیر والے بابا کا۔ میں کس لائق ہوں بابو جی۔‘‘
’’مجھے تو آج تک خبر ہی نہ تھی کہ موسیقی میں اس قدر دلکشی ہوتی ہے۔‘‘
’’اجی کیا پوچھتے ہو بابو جی۔ ایک مرتبہ اس کی چیٹک لگ جائے تو پھر عمر بھر چھٹکارا مشکل ہے۔ مجھی کو دیکھو۔ فقیروں سے بدترحال ہے۔ کمبخت جی کا جنجال ہو گئی ہے۔‘‘
’’کب سے یہ ساز بجا رہے ہو استاد؟‘‘
’’کوئی چالیس برس کا ریاض ہے بابو جی۔ چار برس کا تھا جب بجانا شروع کیا تھا۔ باوا نے چھوٹا سا بنوا کے دیا تھا کھیلنے کو۔ کیونکہ میں ان کا سرود بجانے کے لیے بہت مچلا کرتا تھا۔ بس میں اپنےاس کھلونے سےکھیلتا رہتا۔ اور اپنے کبھی ٹوں ٹاں بھی کر لیا کرتا۔ ایک دن کیا ہوا، اللہ تمہاری خیر رکھے بابو جی، کہ صبح ہی صبح استاد دلدار خاں مرحوم باوا سے ملنے گھر پر آئے۔ استاد دلدار خاں مرحوم کے سرود کی ساری خدائی میں دھوم تھی۔ مگر اللہ بخشے، بچاروں کی الٹے ہاتھ کی کلائی پر چکی کا پاٹ گر پڑا تھا اور ہاتھ عیبی ہو گیا تھا۔ خود بجانے سے معذور ہوگئے تھے۔ بس سکھلایا کرتے تھے۔ وہ بھی رجواڑوں میں۔ باوا سے ان کا بڑا یارانہ تھا۔ ہاں تو بابو جی، وہ دونوں آنگن میں چارپائی پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ مزے مزے کی باتیں ہو رہی تھیں۔ اور میں ان سے ذرا ہٹ کے زمین پر اپنے اسی کھلونے سے کھیل رہا تھا۔ ایکا ایکی استاد دلدار خاں باوا کی بات کاٹ کر چلا اٹھے، ’اے میاں ذرا سننا یہ لونڈا کیا بجا رہا ہے؟‘
لو بابو جی، مولا تمہاری خیر رکھے، دونوں نے سنا تو میں گن کری کی گت بجا رہا تھا۔ باوا نے کلام مجید اٹھا لیا کہ میں نے بچے کو بتایا ہو تو اسی کی مار پڑے۔ بلکہ میں نے تو اس کے ساز کے کبھی تار بھی ملا کے نہیں دیے۔ اس پر استاد دلدار خاں مرحوم باوا سے کہنے لگے، میاں یہ لونڈا تو تم مجھے دے دو۔ دیکھو میرا ہاتھ عیبی ہو گیا ہے۔ دل میں بہت سی حسرتیں رہ گئی ہیں۔ اب میری جگہ یہ لونڈا دنیا کو بتاے گا کہ دلدار خاں کیا چیز تھا۔ لو بابو جی، مولا تمہاری خیر رکھے، بڑی حیل حجت ہوئی۔ آخر باوا مان گئے۔ کیونکہ مجھ سے بڑے دو بیٹے اور تھے ان کے۔ استاد مجھے اپنے ساتھ لے آئے۔ بس اس دن سے میں ان کی خدمت میں رہنے لگا۔ چلموں پر آگ رکھتے رکھتے چٹکیاں جل جل گئیں۔ چار چوٹ کی مار مارا کرتے تھے بابو جی مجھے۔ آج جو چار آدمیوں میں میری واہ واہوتی ہے، استاد دلدار خاں کی جوتیوں کا ہی صدقہ ہے بابو جی۔‘‘
فیاض نے بڑی دلچسپی سے یہ قصہ سنا۔ جب ختم ہوا تو دونوں کچھ دیر چپ چاپ چلتے رہے۔
’’تمہارا نام کیا ہے، بابو جی؟‘‘ اچانک سرودیے نے سوال کیا۔
’’مجھے فیاض کہتے ہیں۔‘‘
’’طبیعت کے بھی ماشاء اللہ فیاض ہو۔ اسم بامسمیٰ۔ اور کام کیا کرتے ہو بابو جی؟‘‘
’’میں ایک دفتر میں ملازم ہوں۔‘‘
’’تنخواہ کیا ملتی ہے تمہیں بابو جی؟‘‘
’’کچھ زیادہ نہیں۔ مگر شکر ہے، گزارا ہو جاتا ہے۔‘‘
’’پھر بھی کتنی؟‘‘
’’یہی کوئی ڈیڑھ سو۔‘‘
’’اور بچے کتنے ہیں، ماشا اللہ سے تمہارے؟‘‘
’’دو۔‘‘
’’لڑکے یا لڑکیاں؟‘‘
’’لڑکیاں۔‘‘
یہ سن کر سرودیے کی زبان سے ایک مہمل سا کلمہ نکلا۔ پھر وہ کہنے لگا، ’’خیر جیتی رہیں، اللہ کی دین ہے اور بابو جی۔۔۔؟‘‘
فیاض اس کے ان تابڑتوڑ سوالوں کا جواب دیتے دیتے زچ ہو گیا۔ اس نے اس سلسلے کو روکنے کے لیے خود یہی حربہ استعمال کرنے کی سوچ لی اور خود اس سے سوال کرنے شروع کر دیے۔ اسے معلوم ہوا کہ سرودیے کا نام حیدری خاں ہے۔ وہ پیار خاں کا چھوٹا بھائی ہے، جو کسی مہاراجہ کے دربار میں ’’پان سے‘‘ روپے پر ملازم ہے۔ ایک بڑا بھائی اور تھا۔ وہ بھی کسی رجواڑے میں ملازم تھا مگر کسی نے دشمنی سے اسے زہر دے کر مار ڈالا۔ اپنی بدمزاجی کی وجہ سے اس کی اپنے گھرانے میں کسی سے نہیں بنتی۔ وہ کسی کا دبیل ہو کر نہیں رہ سکتا۔ اس کی طبیعت میں آزادی اور فقیری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا گھر گھاٹ ہے نہ جورو جاتا۔
جس وقت وہ دونوں باغ سے نکل فصیل کی ایک گلی سے شہر کے اندر داخل ہوئے تو رات کے کوئی دس بجے کا عمل ہوگا۔ فیاض حیدری خاں کے آگے آگے چلتا، راستہ دکھاتا دو تین گلیوں سے گزر کر آخر اسے اپنے بالا خانے کے نیچے لے آیا۔
’’استاد تم ذرا یہاں گلی میں ٹھہرو۔‘‘ اس نے کہا، ’’میں اوپر جا کر پردہ کرا دوں۔‘‘
’’بہت دیر نہ لگانا بابو جی۔ اللہ تمہاری خیر رکھے۔‘‘
فیاض سیڑھیاں چڑھ کر مکان میں پہنچا۔ اس کی بیٹیاں تو سوگئی تھیں مگر اصغری حسب معمول اس کی راہ دیکھ رہی تھی۔ فیاض نے مختصر الفاظ میں اسے حیدری خاں سے ملنے اور اپنے ساتھ لانے کا حال سنایا اور تاکید کی کہ جلدی سے کھانا گرم کر لو۔ پھر وہ لالٹین لے کر نیچے گیا اور حیدری خاں کو اوپر بیٹھک میں لے آیا۔ اس گھر میں باورچی خانہ کے علاوہ دو کمرے تھے۔ ایک بڑا جس میں وہ، اس کی بیوی اور لڑکیاں سویا کرتیں۔ دوسرا کچھ چھوٹا جو سیڑھیاں چڑھتے ہی سامنے پڑتا اور بیٹھک کا کام دیتا۔ فیاض اکثر وہاں بیٹھ کر دفتر کا کام کیا کرتا۔ اس میں ایک پرانی دری بچھی تھی۔ ایک چھوٹی سی میز، دو کرسیاں اور کتابوں کی ایک الماری تھی۔ حیدری خاں نے سرود کو بہت احتیاط سے کمرے کے ایک کونے میں رکھ دیا۔ خود دری پر بیٹھ گیا اور گردن پھرا پھرا کر گھر کا جائزہ لینے لگا۔
’’کیا کرایہ دیتے ہو بابو جی اس کا؟‘‘ اس نے پھر سلسلہ سوالات شروع کیا۔
’’پندرہ روپے۔‘‘
’’افوہ! اتنے سے مکان کے پندرہ روپے! بہت کرایہ دیتے ہو تم تو بابو جی۔ بجلی بھی تو نہیں ہے اس میں۔‘‘ اس کی چندھی آنکھیں پیتل کے اس پرانے لمپ پر جمی ہوئی تھیں جو تپائی پر رکھا ہوا تھا اور جس کی چمنی کچھ کچھ دھواں دے رہی تھی۔
’’ہاں استاد کرایہ تو کچھ زیادہ ہی ہے۔‘‘ فیاض نے کہا، ’’پر کیا کروں مدت سے یہیں رہتا ہوں۔ اس محلے میں جی لگ گیا ہے۔‘‘ ایک لمحہ خاموشی رہی۔ پھر حیدری کہنے لگا، ’’لے اب بابوجی جلدی سے کھانا لے آؤ۔ اللہ تمہاری خیر رکھے۔‘‘ چند منٹ کے بعد اس کے سامنے دری پر ایک چھوٹا سا دسترخوان بچھا کر کھانا چن دیا گیا۔ کھانا تھا تو معمولی سا ، مگر پکانے والی نے ایسے سلیقے سے پکایا تھا کہ حیدری خاں کی زبان چٹخارے لینے لگی۔
’’خوب پیٹ بھر کر کھاؤ استاد۔‘‘ اور یہ کہہ کر فیاض نے اپنے حصے کا سالن بھی جو وہ اندر سے اٹھا لایا تھا اس کے سامنے رکھ دیا۔ حیدری خاں کے سرود کا ابھی تک اس کے دل و دماغ پر ایسا اثر تھا کہ اسے کھانے کی ذرا اشتہا نہ تھی۔
’’بس بس بابو جی۔‘‘ حیدری خاں نے کہا، ’’فقیر کا تو بس دونو الوں ہی میں پیٹ بھر جاتا ہے۔ لے اب بس چائے اور پلوا دو۔ اللہ تمہاری خیر رکھے۔‘‘
’’چائے ابھی آتی ہے۔ میں نے کیتلی چولہے پر رکھوادی ہے۔‘‘ برتن ہٹا دیے گئے اور فیاض حیدری خاں کے پاس ہی دری پر بیٹھ گیا اور بڑی اشتیاق بھری نظروں سے اس کے سرود کو دیکھنے لگا۔ حیدری خاں اس کے اشتیاق کو بھانپ گیا۔ وہ کونے سے اپنا ساز اٹھا لایا اور فیاض کی طرف بڑھا کر کہنے لگا، ’’لو شوق سے دیکھو بابو جی۔ ایسا ساز بھی تم نے کم ہی دیکھا ہوگا۔ یہ میرے استاد دلدار خاں مرحوم (کان کی لو چھو کر) کی نشانی ہے۔ کئی سرودیوں نے سیکڑوں روپے کا لالچ دے کر مجھ سے یہ سرود خریدنا چاہا مگر میں نےان کے روپے پر لات ماردی۔ میری تو جان ہے اس میں بابو جی جیسے پریوں کی کہانی میں جن کی جان طوطے میں تھی۔ مجھے کوئی لاکھ روپیہ دے تب بھی میں اس سرود کو اپنے سے جدا نہ کروں۔‘‘
فیاض نے سرود کو اپنی گود میں رکھ لیا۔ اچھا تو یہی وہ طلسمی ساز ہے جس سے ایسے ملکوتی سرنکلتے ہیں! وہ بڑے غور سے اسے دیکھنے لگا۔ اس کی عجیب سی بناوٹ، اس کی درجنوں کھونٹیاں، اس کا بڑا سا ڈھانچہ جس پر کھال منڈھی تھی۔ اس کی سینگ کی بنی ہوئی گھوڑی جس پر سارے تار ٹکے تھے۔ غرض ہر چیز اس کے لیے عجوبہ تھی۔
’’اس کو بجاتے کس طرح ہیں بھلا؟‘‘ فیاض بے اختیار پوچھ بیٹھا۔
’’لو میں تمہیں بتاتا ہوں بابوجی۔‘‘ حیدری خاں نے کہا، ’’پہلے یوں آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاؤ جیسے میں بیٹھا ہوں۔ اور سرود کو یوں اپنے آگے رکھ لو۔ یہ لو جوا۔ اس کو دہنے ہاتھ کی انگلیوں میں یوں پکڑ لو اور اس طرح تار پر ضرب لگاؤ۔‘‘ فیاض نے ایسا ہی کیا۔ ایک منحنی سی آواز نکلی۔
’’پھر ضرب لگاؤ۔‘‘ اب کے آواز کچھ بہتر تھی۔
’’شاباش! بس یوں ہی ضربیں لگاتے رہو۔ لو اب بایاں ہاتھ سرود کے نیچے سے نکال لو۔ یوں۔ اب پہلی انگلی سے یوں اس تار کو دباؤ۔ اور دہنے ہاتھ سے ضرب لگاؤ۔ دیکھا ایک نئی آواز پیدا ہوئی۔‘‘ سبق یہیں تک پہنچا تھا کہ دوسرے کمرے کی کنڈی کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔
’’خاں صاحب! ذرا سرود کو تھامنا۔ میں چائے لے آؤں۔‘‘
چائے پینے کے بعد موسیقی کی تعلیم پھر شروع ہوگئی۔ حیدری خاں نے فیاض سے کھرج، رکھب، گندھار اور مدھم یہ چار سر سرود پر نکلوائے۔ اس وقت فیاض کی یہ کیفیت تھی کہ فرط شوق سے اس کا بند بند کانپ رہا تھا۔ اسے یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ سر میرے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں۔ اس سرود نوازی کی دھن میں اسے یہ بھی دھیان نہ رہا کہ رات تیزی سے گزری جا رہی ہے۔ آخر دوسرے کمرے سے پھر کنڈی کھٹکھٹانے کی آواز آئی۔ فیاض ناچار اٹھ کر اندر گیا تو اصغری نے کہا، ’’شاباش ہے تم کو۔ بارہ بج لیے مگر تمہاری تن تن ختم نہ ہوئی۔ اب سونے بھی دوگے کسی کو۔ شریفوں کا محلہ ہے لوگ کیا کہیں گے آخر۔‘‘
’’تم سچ کہتی ہو۔ بس اب میں ختم کیا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ بیٹھک میں آیا تو حیدری خاں کو گدڑی اوڑھے فرش پر دراز پایا۔ سرود کو اس نے پھر کونے میں رکھ دیا تھا۔ اس سے فیاض کو کسی قدر مایوسی ہوئی۔
’’بابو جی!‘‘ حیدری خاں نے گدڑی کے اندر سے کہا، ’’رات بہت بیت لی۔ میں نے سوچا اب کہاں جاؤں گا۔ یہیں پڑ رہتا ہوں۔ صبح ہوتے ہی چل دوں گا۔ تمہاری خیر ہو، ذرا لمپ کی بتی نیچی کر دینا پر بجھانا نہیں۔‘‘
’’بہت اچھا۔‘‘ فیاض نے کہا۔ اور وہ لمپ کی بتی نیچی کر کے اپنے کمرےمیں چلا گیا۔ اگلے روز صبح دم ابھی سورج نکلنے نہ پایا تھا کہ فیاض بستر سے اٹھ بیٹھک میں آگیا۔ اس وقت سردی خاصی بڑھ گئی تھی۔ حیدری خاں اپنی گدڑی میں گٹھری بنا بے خبر سو رہا تھا۔ مگر فیاض کو جیسے سردی کی کمی بیشی کا کچھ احساس ہی نہ تھا۔ وہ سرود اٹھا فرش پر اکڑوں بیٹھ گیا اور ہلکے ہلکے ان ہی چاروں سروں کو بجانے لگا جو حیدری خاں نے رات اسے سکھائے تھے۔ سرود کی آواز سن کر گٹھری میں حرکت ہوئی۔ حیدری خاں نے گدڑی میں سے سر نکالا۔ فیاض کی صورت دیکھی۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے سوکھے ہوے ہونٹوں پر نمودار ہوئی اور اس نے سر پھر گدڑی کے اندر کر لیا۔
فیاض بڑے انہماک کے ساتھ سرود پر مشق کرتا رہا۔ اس کام میں اسے ایسی طمانیت حاصل ہورہی تھی کہ زندگی میں پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ جب اسے سرود بجاتے کافی دیر ہو گئی تو اس کی دونوں بیٹیاں نجمہ اور سلیمہ بھی اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ دونوں نے سر اور کانوں کو اونی رنگ دار گلوبند سے ڈھک رکھا تھا۔ نجمہ کی عمر گیارہ برس تھی اور سلیمہ کی نو برس۔ دونوں بڑی پیاری پیاری بچیاں تھیں۔ وہ ایک معصومانہ ادا کے ساتھ جس میں حیرت کے ساتھ ساتھ تمسخر کا عنصر بھی شامل تھا، باپ کو یہ بڑا سا عجیب و غریب ساز بجاتے دیکھنے لگیں۔ ہنسی ان کے ہونٹوں پر آ آ کر رک جاتی۔
’’میں نے کہا آج دفتر نہیں جاؤگے؟‘‘ اصغری نے چلمن کے پیچھے سے کہا۔
’’اتوار ہے بھئی اتوار ہے۔‘‘ یہ کہہ کر فیاض پھر سرود بجانے میں مشغول ہوگیا۔ اصغری نے حیدری خاں کو گدڑی میں منہ چھپائے بے خبر سوتے دیکھا تو دوپٹہ سنبھالتی ہوئی بیٹھک میں چلی آئی اور فیاض کے کان کے قریب منہ لا کر کہنے لگی، ’’یہ کب دفان ہوگا؟‘‘
’’خدا کے لیے چپ رہو۔ کہیں سن نہ لے۔ بڑا صاحب کمال آدمی ہے۔‘‘
’’ہوا کرے۔ میں پوچھتی ہوں یہ جائے گا کب؟‘‘
’بس ناشتہ کرا کے بھیج دیں گے۔ تم یہاں سے چلی جاؤ۔ کہیں اٹھ نہ بیٹھے۔‘‘
کوئی دس بجے کے قریب حیدری خاں جمائیاں لیتا اپنی کالی کالی انگلیوں کو جن کے ناخن بے تحاشا بڑھے ہوئے تھے اور ان میں میل بھرا تھا، چٹخاتا ہوا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ فیاض ابھی تک سرود بجانے میں منہمک تھا۔ اس تین چار گھنٹے کے ریاض سے اسے ان چاروں سروں کی خوب مشق ہوگئی تھی۔ سر روانی اور زور کے ساتھ نکلنے لگے تھے۔ حیدری خاں کو فیاض کے اس انہماک پر اچنبھا سا ہوا۔
’’لو بابو جی۔ اب تم گنڈا بندھوانے کی فکر کرو۔ تم نے تو کمال ہی کر دیا۔ تم تو سچ مچ بجانے لگے۔ مجھے اب تک جو شاگرد ملا، کمبخت کوڑھ ہی ملا۔ تم جیسا ذہین شاگرد ہو تو تین ہی مہینے میں استاد نہ بنا دوں تو میری مونچھیں منڈوا دینا۔ پر یہ سن رکھو میاں میری ٹیوشن کی فیس سو روپیہ مہینہ ہے سو روپیہ مہینہ!‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگا، ’’ایک بات ہے بابو جی ، ماشا اللہ سے تمہارے ڈیل ڈول پر یہ ساز پھبتا بھی خوب ہے۔ شیر کے بچے معلوم ہوتے ہو شیر کے بچے!‘‘ ناشتہ ہو لیا مگر حیدری خاں کے رخصت ہونے کے آثار دکھائی نہ دیے۔ اس پر دوسرے کمرے میں اصغری نے پھر کنڈی کھٹکھٹائی۔ فیاض اٹھ کر اندر گیا۔
’’میں نے کہا آج سوداسلف نہیں آنے کا؟ تم کو تو گانے بجانے میں کھانے پینے کی بھی سدھ نہ رہی۔ مگر بچوں کو تو بھوکا نہ مارو۔‘‘
’’اوہو۔ میں تو بھول ہی گیا تھا۔ لو ابھی بازار جاتا ہوں۔‘‘
جس وقت فیاض کپڑے بدل کر بیٹھک میں آیا تو حیدری خاں بھی سر پر اپنی بے پھندنے کی میلی ٹوپی رکھ، سرود بغل میں دبا، گدڑی سنبھال چلنے کو تیار کھڑا تھا۔ فیاض کا منہ اتر سا گیا۔
’’کیوں استاد کہاں چل دیے؟‘‘
’’ذرا جا کر نشہ پانی کروں گا۔‘‘ حیدری خاں نے جمائی لیتے ہوئے کہا، ’’ایک روپیہ ہو تو دلواؤ۔‘‘ فیاض فوراً اندر جا کر روپیہ لے آیا۔
’’خیر ہو بابو جی کی۔‘‘ اس نے روپیہ واسکٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے کہا، ’’شاید شام کو پھر آنا ہو۔‘‘ اس نے ایک اور جمائی لی۔ واقعی اس کا نشہ ٹوٹ رہا تھا۔ وہ دروازے کی طرف چلا۔ جب تک وہ سیڑھیوں سے اتر نہ گیا فیاض برابر دروازے میں کھڑا اسے جھانکتا رہا۔ اس کے جانے کے بعد فیاض کو اچانک ایک بے چینی سی محسوس ہونے لگی۔ کاش حیدری خاں اپنا سرود یہیں چھوڑ جاتا اور وہ آج چھٹی کے دن خوب خوب مشقیں کرتا رہتا۔ وہ کھویا کھویا سا چارپائی پر لیٹ گیا۔ رات سے اس پر ایک مسلسل اضطراب کی کیفیت طاری تھی۔ اسے نیند بھی اچھی طرح نہ آئی تھی۔ اصغری نے اس کی اداسی کو بھانپ کر کہا، ’’یہ ایکا ایکی کیسا شوق لگ گیا ہے تمہیں۔ ڈوم ڈھاڑی بنوگے؟ اور یہ موافقیر۔۔۔‘‘
فیاض نے اس کی بات کاٹ کر کہا، ’’جس کو تم موافقیر کہتی ہو، ملک میں جواب نہیں اس کا۔‘‘
’’بلا سے نہ ہو۔ بھاڑ میں جائے۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ نامراد نے گھر دیکھ لیا ہے۔ اب تو روز ہی آدھمکا کرے گا۔‘‘
’’کاش ایسا ہی ہو۔‘‘
’’تو کیا ساز بجانا سیکھوگے تم؟‘‘
’’کاش میں اسے سو روپیہ ٹیوشن کی فیس دے سکتا!‘‘
اصغری کا منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ سوداسلف آیا۔ کھانا پکا۔ میاں بیوی اور لڑکیاں کھانے بیٹھیں مگر فیاض نے دو چار نوالوں کے بعد ہی ہاتھ کھینچ لیا۔ اصغری نے یہ حال دیکھا تو اس کو سچ مچ تشویش ہونے لگی۔ پچھلے چند گھنٹوں میں وہ اسے بہت بدلا ہوا پار رہی تھی۔ وہ نہ تو اس کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھتا، نہ اس کی بات غور سے سنتا اور نہ ڈھنگ کا جواب دیتا۔ لڑکیوں کی طرف بھی اس کی کچھ توجہ معلوم نہ ہوتی تھی۔ دن ڈھل گیا۔ شام ہوگئی۔ چراغ جل گئے مگر حیدری خاں نہ آیا۔ فیاض بار بار سیڑھیوں میں جھانکتا، پھر آکر بستر پر لیٹ جاتا۔ پھر اٹھ بیٹھتا۔ اس کی بے چینی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ آخر آٹھ بجے کے قریب سیڑھیوں میں کسی کے کھنکارنے کی آواز سنائی دی۔ یہ حیدری خاں ہی تھا۔ وہ جھوم رہا تھا۔ اس کی آنکھیں پچھلی رات سے زیادہ سرخ ہو رہی تھیں۔ اس کے حواس بجا نہ تھے۔ معلوم ہوتا تھا آج اس نے کچھ زیادہ ہی نشہ پانی کر رکھا ہے۔ سرود کو دیکھ کر فیاض کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’لو میاں آگئے ہم۔ تم بھی کیا یاد کرو گے‘‘ یہ کہہ کر وہ آلتی پالتی مار فرش پر بیٹھ گیا۔
’’فیاض میاں! ذرا بہو سے کہہ کر چائے بنوا لو۔ بس چائے ہی۔ میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔‘‘ پھر نہ جانے کیا ترنگ اٹھی کہ وہ سرود بجانے لگا۔ ابتدا تو بڑے جوش و خروش سے کی مگر دو ہی منٹ بعد انگلیاں سست پڑنے لگیں اورجب اندر سے چائے بن کر آئی تو وہ سرود پر جھکا خراٹے لے رہا تھا۔ فیاض نے اس کا شانہ پکڑ کر ہلایا، مگر اس پر ایسی بے ہوشی کی نیند طاری تھی کہ مطلق آنکھ نہ کھولی۔ فیاض نے سرود کو اس کی گرفت سے الگ کر کے اسے آہستگی سے فروش پر لٹا دیا اور گدڑی اوڑھا دی۔ پھر بڑے اشتیاق کے ساتھ سرود کو اٹھا کر بجانا شروع کر دیا۔ اگلے روز حیدری خاں کی آنکھ صبح سویرے ہی کھل گئی۔ دیکھا کہ فیاض اس کے قریب ہی بیٹھا اس کے بتائے چاروں سروں کی مشق کر رہا ہے۔ وہ سراہے بغیر نہ رہ سکا۔
’’فیاض میاں! ماشا اللہ سے کیا سچے سر نکال رہے ہو۔ واہ وا، جی خوش ہوگیا۔ آج میں تمہیں اگلے تین سر بھی بتا دوں گا۔ پھر سپتک مکمل ہو جائے گی۔‘‘ اور سچ مچ تھوڑی ہی دیر میں حیدری خاں نے پنچم دھیوت اور نکھاد کے سر بھی فیاض کے ہاتھ سے نکلوا دیے۔ خوشی سے فیاض کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مگر جلد ہی با دل نخواستہ اسے موسیقی کی یہ تعلیم ختم کرنی پڑی کیونکہ آٹھ بجنے والے تھے اور اسے دفتر جانے کے لیے تیار ہونا تھا۔ حیدری خاں نے ناشتے کے بعد اپنا سرود اٹھایا۔ اس دفعہ اسے روپیہ مانگنے کی ضرورت نہ پڑی، کیونکہ فیاض نے خود ہی اندر سے روپیہ لا کر اسے دے دیا تھا۔
’’خوش رہو میاں!‘‘ حیدری خاں بولا۔ پھر چند لمحے تامل کر کے اس نے بڑے گمبھیر لہجے میں کہنا شروع کیا، ’’سنو میاں! اگر تمہیں مجھ سے سیکھنا ہے تو تمہیں میری تین شرطیں منظور کرنی ہوں گی۔ یوں تو یہ شرطیں بہت آسان معلوم ہوں گی، پر غور کرو تو دشوار بھی بہت ہیں۔ کیونکہ میں سڑی مشہور ہوں۔ ذرا بھی کوئی کام میری مرضی کے خلاف ہو تو مجھے بڑا قلق ہوتا ہے۔ اپنی اس بدمزاجی ہی کی خاطر میں نے فقیری قبول کی ہے۔ لو اب وہ شرطیں بھی سن لو۔ اول یہ کہ صبح کو تمہیں میرے ناشتے اور نشے پانی کا انتظام کرنا ہوگا۔ دوپہر کو میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ صبح ادھر تم دفتر کو چلے اور ادھر میں کھسکا۔ شام کو جب تم دفتر سے آ چکوگے تو میں بھی اپنے پھر پھرا کے پہنچ جایا کروں گا۔ دوسری شرط یہ کہ رات کا کھانا ہم دونوں ساتھ ساتھ کھائیں گے اور تیسری شرط یہ کہ میں سویا یہیں بیٹھک میں کروں گا۔ وہ جو میں نے سو روپیہ مہینہ ٹیوشن کی بات کی تھی، وہ تو میں تم سے مذاق کرتا تھا میاں۔ مجھے روپے کا لالچ ہوتا تو حویلیاں نہ کھڑی کرلی ہوتیں اب تک۔ بس یہی ہیں میری شرطیں اگر تمہیں منظور ہوں تو بسم اللہ!‘‘
فیاض کچھ دیر گردن جھکائے ہوئے سوچ میں ڈوبا رہا۔ جب اس نے سر اٹھایا تو سب سے پہلے اس کی نظر چلمن پر پڑی۔ حیدری خاں کی طرح اصغری بھی اس کے جواب کی منتظر تھی۔
’’خاں صاحب!‘‘ اس نے دھیمی آواز مگر فیصلہ کن لہجے میں کہا، ’’مجھے آپ کی تینوں شرطیں منظور ہیں۔ آج سے آپ میرے استاد ہیں۔‘‘ اسی شام حیدری خاں اپنا بوریا بدھنا لے فیاض کے ہاں اٹھ آیا۔ یہ بوریا بدھنا کیا تھا، ٹین کا ایک ٹرنک جس کا روغن اڑا ہوا اور کنڈا غائب تھا۔ حیدری خاں نے اسے بند کرنے کے لیے رسی باندھ رکھی تھی۔ ایک مٹی کا سڑا سا حقہ تھا اور ایک پیالہ۔ اصغری کے دل کو چوٹ تو لگی اور اس نے کچھ آنسو بھی بہائے۔ مگر وہ طبعاً ان اطاعت گزار بیویوں میں سے تھی جو شوہر کو مجازی خدا سمجھتی ہیں اور ہر حال میں ان کی خوشنودی کی جویا رہتی ہیں۔ موسیقی سے میاں کے اس جنون کی حد تک بڑھے ہوئے شوق کو دیکھ کر اس نے زیادہ مزاحمت نہ کی۔ اور حیدری خاں کا اپنے ہاں رہنا منظور کر لیا۔ دوچار ہی دن میں اسے حیدری خاں کی سرشت کا اندازہ بھی ہو گیا۔ وہ نشہ باز تو تھا مگر بدنظر ہرگز نہ تھا۔ پرائی بہو بیٹیوں کو تانکنے جھانکنے کی اسے عادت نہ تھی۔ وہ اصغری کو ہمیشہ بہو یا بیٹی کہہ کر پکارتا اور جب تک فیاض باہر رہتا، گھر کے نزدیک نہ چلتا۔
سب سے پہلے فیاض کو حیدری خاں کی ظاہری حالت سدھارنے کی فکر ہوئی۔ حیدری خاں بہتیرا منع کرتا رہا، مگر اس نے ایک نہ سنی۔ اس نے خاں صاحب کے لیے ایک نیا جوڑا سلوایا۔ اس کے پاس بڑھیا سیاہ کپڑے کی ایک شیروانی تھی جسے وہ کبھی کبھی پہن لیا کرتا تھا۔ یہ شیروانی دو ایک جگہ سے مسک تو گئی تھی مگر ابھی اچھی حالت میں تھی۔ وہ اسے ایک درزی کے پاس لے گیا اور اس میں قطع و برید کرا کے اسے خاں صاحب کے ناپ کا بنوا لیا۔ پھر اس نے خاں صاحب کی ترکی ٹوپی کو دھلواکے اس میں نیا پھندنا لگوایا۔ اس نے خاں صاحب کے لیے ایک مضبوط سا جوتا بھی خریدا۔ پھر ان سب چیزوں کو ایک سوٹ کیس میں رکھ کر، خاں صاحب کو ساتھ لے ایک حمام میں پہنچا۔ وہاں پہلے تو خاں صاحب کے پٹوں کو مختصر کرایا، داڑھی منڈوائی، مونچھوں کو ترشوایا، ناخن کٹوائے۔ پھر حمام والے سے دو تین مرتبہ حمام میں پانی بھروا کے اسے خوب نہلوایا، اس کے کپڑے بدلوائے۔ جس وقت حیدری خاں حمام سے نکلا تو وہ ایک اچھا خاصا معقول انسان نظر آنے لگا۔
اس وقت دوپہر ہوچکی تھی، ظہر کا وقت قریب تھا۔ دونوں گھر واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک مسجد نظر آئی۔ حیدری خاں وہیں ٹھہر گیا۔ اس نے بڑی رقت بھری آواز میں فیاض سے کہا، ’’فیاض بیٹے! آج بڑی مدت کے بعد پاک صاف ہوا ہوں اور کپڑے بھی پاک ہیں۔ میرا جی چاہتا ہے کہ آج اپنے مولا کے سامنے ذرا سر جھکا لوں۔‘‘
فیاض کو کچھ تعجب تو ہوا مگر اس نے خاں صاحب کی خواہش کو رد نہ کیا اور وہ دونوں دوسرے نمازیوں کے ساتھ مسجد میں داخل ہوگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب حیدری خاں مسجد سے نکلا تو اس کی آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہوگئی تھی۔ لباس کی اس تبدیلی کے ساتھ ہی اس کے طور طریقے بھی ایک دم بدل گئے۔ اس کی زبان سے وہ بات بات پر دعائیہ کلمات کا نکلنا بند ہو گیا۔ اس کے بجائے اس کے انداز تخاطب میں ایک تحکم پایا جانے لگا۔ جس وقت فیاض اس کے ہم راہ بازار سے گزر رہا تھا تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی مؤدب شاگرد استاد کے ساتھ ساتھ جا رہا ہو۔ اصغری نے حیدری خاں کی یہ دھج دیکھی تو حیران رہ گئی۔ اسے پہلے پہل اس شخص سے جو کراہت محسوس ہوئی تھی وہ جاتی رہی تھی۔ حیدری خاں نجمہ اور سلیمہ سے بڑی شفقت سے پیش آنے لگا تھا۔ فیاض اسے ہر روز نشے پانی کے لیے جو ایک روپیہ دیا کرتا تھا، وہ اس میں سے دو تین آنے بچا، ان بچیوں کے لیے کچھ مٹھائی یا پھل ضرور خرید لاتا۔ بچیاں چند ہی روز میں اس سے خوب مانوس ہوگئیں۔ وہ اسے ’’خاں صاحب جی‘‘ کہہ کر بلاتیں۔
حیدری خاں اصغری کے کھانا پکانے کی بھی سچے دل سے تعریف کیا کرتا۔ وہ کہتا، ’’بیٹی سبحان اللہ! کیا لذیذ کھانا پکاتی ہو، جو را جوں اور نوابوں کو بھی نصیب نہیں۔ ان کے کھانوں میں تو بس تکلف ہی تکلف ہوتا ہے۔ مزہ خاک بھی نہیں۔‘‘ رفتہ رفتہ اس کی تعریفوں میں اصغری کو مزہ آنے لگا۔ وہ کبھی کوئی خاص چیز پکاتی تو دل میں کہتی، ’’دیکھیں آج خاں صاحب کیا کہتے ہیں۔‘‘ اب خاں صاحب پر گھر میں آنے جانے کی کوئی پابندی نہ رہی تھی کیونکہ اصغری نے میاں کا عندیہ پا کر ان سے پردہ کرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ حیدری خاں سے کہا کرتی، ’’خاں صاحب آپ دوپہر کا کھانا بھی گھر ہی آکر کھا لیا کریں۔‘‘ مگر حیدری خاں کو یہ وقت تکیوں میں گزارنا زیادہ پسند تھا۔
ادھر فیاض کے ذوق و شوق کو دیکھ کر حیدری خاں نے اسے پوری توجہ سے سرود کی تعلیم دینی شروع کردی تھی۔ اس نے مہینے ڈیڑھ مہینے کے اندر ہی فیاض کو دوتین راگوں کی الاپ اور کچھ گتیں بھی سکھا دیں تھیں اور اب فیاض سرود نوازی میں روز بروز ترقی کرنے لگا تھا۔ اگرچہ اس پر حیدری خاں کے اخراجات کا پورا بوجھ پڑ گیا تھا جس سے وہ بہت تنگ دست ہوگیا تھا۔ پھر بھی وہ خوش تھا۔ ایسا خوش کہ زندگی میں پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ چونکہ حیدری نے بازاروں میں بیٹھ کر سرود بجانا اور مانگنا ترک کر دیا تھا، اس لیے اس کا سرود زیادہ تر گھر ہی میں رہتا۔ اس نے فیاض کو پوری اجازت دے رکھی تھی کہ وہ جب تک چاہے اس کے سرود پر ریاض کرتا رہے۔ فیاض صبح کو دفتر جانے سے پہلے دو گھنٹے خوب ریاض کرتا۔ دفتر میں بھی سارا دن اس کی انگلیاں فائلوں پر یوں دوڑتی رہتیں جیسے وہ سرود بجانے کی مشق کر رہا ہو۔ اب وہ ٹھیک پانچ بجے دفتر سے چھٹی کر لیتا اور شہر کے پرشور بازاروں اور تنگ گلیوں سے ہوتا ہوا جلد سے جلد گھر پہنچ جاتا۔ چھٹی کے روز سرود کو ہاتھ سے چھوڑنے کی اسے قسم ہو جاتی۔
تھوڑے ہی دنوں میں حیدری خاں کے دل میں فیاض کی انسیت بے حد بڑھ گئی۔ وہ اس سے اس طرح پیش آتا جیسے باپ اپنے بیٹے سے۔ وہ اب تکیوں میں زیادہ دیر نہ ٹھہرتا۔ بلکہ فیاض کے دفتر سے آنےسے گھنٹہ دو گھنٹے قبل ہی وہ گلی میں اس کے مکان کے نیچے چارپائی ڈال کر بیٹھ جاتا۔ اکثر اوقات وہ اکیلا ہی ہوتا مگر کبھی کبھی اس کے دو تین دوست بھی اس کے ساتھ آجاتے۔ اس پر گلی میں گانے بجانے کے لمبے لمبے تذکرے چل نکلتے۔
’’میاں جانتے بھی ہو لفظ موسیقی کے معنی کیا ہیں۔‘‘ حیدری خاں اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر کہتا، ’’اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ استاد دلدار خاں (کان کی لو چھو کر) کہا کرتے تھے کہ یہ یونانی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی ہیں ہوا میں گرہ لگانا۔ اب تم خود ہی اندازہ کر لو کہ یہ فن کس قدر مشکل ہے۔‘‘ پھر وہ مکان کی سیڑھیوں میں منہ کر کے پکارتا، ’’نجمہ بیٹی دو تین پان بھیج دینا۔‘‘ کبھی کبھی فیاض کو بھی استاد کی خوشنودی کے لیے گلی ہی میں بیٹھ جانا پڑتا۔ ایسے موقع پر حیدری خاں اپنے دوستوں سے فخریہ کہتا، ’’میاں یہ عطائی اب تم سب کے گنڈا باندھے گا۔ ہے تو مولوی کا بیٹا مگر خدا کی دین ہے۔ ہاتھ ایسا سریلا ہے کہ سرودیوں کے گھرانوں کے لونڈوں کا بھی کیا ہوگا۔‘‘ اور فیاض کے ماتھے پر شرم سے پسینہ آجاتا اور نیچی نظریں کیے یہ باتیں سنتا رہتا۔ ایسے میں جو لوگ گلی میں آجارہے ہوتے، ان کی نظریں بے اختیار اس منڈلی پر اٹھ جاتیں اور وہ تھوڑی دور تک ادھر مڑ مڑ کر دیکھتے ہوئے چلے جاتے۔
یہ محلہ خاص شرفا کا تھا۔ زیادہ تر متوسط طبقے کے لوگ ہی یہاں رہتے تھے، مگر کچھ گھر کھاتے پیتے لوگوں کے بھی تھے۔ کچھ مولویوں اور ثقہ قسم کے لوگوں کے تھے۔ ایک چھوڑ تین تین مسجدیں اس چھوٹے سے محلے میں تھیں۔ علی الصباح مرغوں کی ککڑوں کوں کے ساتھ ہی آگے پیچھے مسجدوں سے اذانیں سنائی دینے لگتیں او رسارے محلے پر ایک تقدس کی فضا چھاجاتی۔
فیاض کو اس محلےمیں رہتے دس برس ہو چکے تھے۔ اس عرصے میں کبھی کسی کو اس سے وجہِ شکایت پیدا نہ ہوئی تھی۔ سب لوگ اسے خاموش، کم آمیز اور شریف سمجھ کر پسند کرتے تھے۔ مگر اب حیدری خاں کے آجانے کی وجہ سے گھر پر دن رات گانے بجانے کا جو ہنگامہ رہنے لگا تو اس پر محلے والے ٹھنکے۔ انہیں تعجب تھا کہ فیاض نے اپنے گھر پر ایسے عجیب غریب قماش کے لوگوں کے تسلط کو کیسے گوارا کر لیا۔ پھر فیاض کو یہ بھی تو احساس نہیں کہ ان لوگوں کی بے ہودہ حرکات کا اس کی زوجہ اور معصوم بچیوں کے اخلاق پر کتنا گھناؤنا اثر پڑتا ہوگا۔ جگہ جگہ چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ ناراضگی کی لہر بڑھتی ہی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ایک شام جب فیاض دفتر سے گھر آرہا تھا تو گلی کے موڑ پر اس کی مڈبھیڑ محلے کی بڑی مسجد کے امام صاحب سے ہوئی۔
’’السلام علیکم!‘‘ امام صاحب نے مصافحہ کرنے کے بعد سینے پر ہاتھ رکھا۔ اور یوں گویا ہوئے، ’’برادر! میں کئی دن سے آپ سے ملنا چاہتا تھا۔ وہ بات یہ ہے کہ آپ کوموسیقی سے ازحد لگاؤ پیدا ہوگیا ہے۔ ہرچند اسلام میں خوش آوازی اور لحن کو بڑا درجہ حاصل ہے۔ مگر استغفراللہ۔ یہ خرافات جو دن رات آپ کے گھر پر ہوتی رہتی ہیں، ان کی تو کسی صورت میں بھی اجازت نہیں ہے، بلا شک آپ اپنے فعل کے خودمختار ہیں اور رب العزت کے سامنے آپ اپنے اعمال کے خود جواب دہ ہوں گے مگر یہ مسئلہ صرف آپ ہی کی ذات تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ پورے محلے پر آپ کی ان خرافات کا نہایت قبیح اثر پڑ رہا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ جناب ٹھنڈے دل سے میری اس گزارش پر غور فرمائیں گے اور ان لغویات سے جلد چھٹکارا حاصل کرلیں گے۔ بس مجھے یہی کہنا تھا۔‘‘
جس وقت فیاض گھر پہنچا تو وہ بڑا رنجیدہ اور دل شکستہ تھا۔ اتفاق سے حیدری خاں ابھی گھر نہیں آیا تھا۔ فیاض سیدھا اپنے کمرے میں جا کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ گو اس کادل ریاض کرنے کے لیے بے چین تھا مگر اسے سرود کو ہاتھ لگانے کی جرأت نہ ہوئی، وہ دیر تک کروٹیں بدلتا رہا۔ اصغری نے اس کی یہ کیفیت دیکھی تو پوچھا، ’’نصیب دشمناں کچھ طبیعت خراب ہے آپ کی؟‘‘
’’نہیں تو۔‘‘ فیاض نے کہا۔ مگر وہ بستر سے نہ اٹھا۔ آخر جب شام کا اندھیرا پھیلنے لگات و حیدری خاں آیا۔ فیاض سیڑھیوں سے ہی اس کے قدموں کی چاپ سن جلدی سے سرود اٹھا، بجانے بیٹھ گیا۔ وہ اب استاد سے ڈرنے لگا تھا اور اس پر ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتا تھا کہ اس نے یہ دو گھنٹے یونہی ضائع کر دیے۔
’’فیاض بیٹے!‘‘ حیدری خاں نے بیٹھک میں قدم رکھتے ہی کہا، ’’تھک گئے ہو تو ذرا دم لے لو۔ بھئی آج میں نے اپنے ایک واقف کار کے ذریعہ تمہارے لیے بمبئی سے اچھا سا سرود منگوانے کا بندوبست کرہی لیا۔ اب اللہ نے چاہا تو جلد ہی طبلچی کا انتظام بھی ہو جائے گا۔‘‘ فیاض نے تشکر آمیز نظروں سے استاد کی طرف دیکھا مگر زبان سے کچھ نہ کہا۔ اس کے بعد حیدری خاں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ اتنے ہی میں کھانے کا وقت ہوگیا، اور یوں فیاض اس شام سرود سے کنارہ کش ہی رہا۔ مگر اس کے دل میں اہل محلہ اور امام مسجد کے خلاف سخت غصہ بھرا ہوا تھا۔ اگلے روز فیاض وقت سے کچھ پہلے ہی دفتر چلا گیا۔ دوپہر کو حیدری خاں ایک شخص کو ساتھ لیے ہوئے آیا، جس کی وضع قطع پنڈتوں کی سی تھی۔ پردہ کرا دیا گیا اور وہ دونوں بیٹھک میں فرش پر بیٹھ گئے۔ ٹھیک اسی وقت نجمہ اور سلیمہ استانی سے پڑھ کر گھر آئیں۔ انہوں نے حیدری خاں کو سلام کیا۔
’’جیتی رہو میری بچیوں۔‘‘ حیدری خاں نے پرشفقت لہجہ میں کہا، ’’ہاں بھئی ذرا بستے رکھ کر ادھر آ جاؤ۔ آج تمہارا امتحان لیں گے ہم۔‘‘ دونوں لڑکیاں بستے ماں کے حوالے کر خاں صاحب کے سامنے ادب سے آکر بیٹھ گئیں۔ خاں صاحب نے سرود اٹھایا اور اس کا ایک سر بجا کر نجمہ سے کہا، ’’لے بیٹی! ذرا اس آواز کے ساتھ اپنی آواز تو ملا۔ شاباش۔‘‘ نجمہ کچھ شرمائی۔ مگر خاں صاحب کے اصرار پر آواز ملانے کی کوشش کرنے گی۔
’’بیٹی اونچی آواز سے کہو آ۔ آ۔ یوں۔‘‘ لڑکی ذہین تھی۔ تھوڑی سی مشق کے بعد اس نے ساز کے سر کے ساتھ اپنی آواز ملا دی۔ اس پر حیدری خاں نے اپنے ساتھی پنڈت کی طرف پرمعنی نظروں سے دیکھا۔ اور کہا، ’’کیوں کالکا پرشاد جی؟‘‘ کالکا پرشاد نے تحسین آمیز نظروں سے نجمہ کی طرف دیکھتے ہوئے سر ہلایا۔ اس کے بعد چھوٹی بہن سلیمہ کی باری آئی۔ وہ اپنی آپا کو آواز ملاتے دیکھ چکی تھی، اس لیے وہ جلد ہی اس امتحان میں پوری اتر گئی۔ ایک بار پھر حیدری خاں نے اپنے ساتھی کی طرف دیکھ کر کہا، ’’کیوں کالکا پرشاد جی؟‘‘ کالکا پرشاد کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اس نے دوتین مرتبہ ’’ہوں ہوں‘‘ کہا، اس کے بعد حیدری خاں نے نجمہ اور سلیمہ سے کہا، ’’بس جاؤ۔ شاباش شاباش! منہ ہاتھ دھوکر کھانا کھاؤ۔‘‘
جب لڑکیاں چلی گئیں تو وہ کالکا پرشاد سے کہنے لگا، ’’شام کو ان کا باپ آئے گا تو اس سے بات کروں گا۔‘‘ پھر وہ تھوڑی دیر کے بعد اپنے دوست کو لے کر چلا گیا۔ اس شام جب فیاض دفتر سے آیا تو اصغری بھری بیٹھی تھی۔ اسے دیکھتے ہی برس پڑی، ’’دیکھو جی! اب تک تو ہم تمہاری سب باتیں مانتے چلے گئے تھے مگر اب معاملہ حد سے بڑھ گیا ہے۔ میں اپنی لڑکیوں کو ہرگز ہرگز گانا نہ سیکھنے دوں گی۔‘‘
’’کچھ بتاؤ تو سہی، ہوا کیا۔ تم تو معموں میں باتیں کر رہی ہو۔‘‘
’’آج دوپہر کو خاں صاحب آئے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی پنڈت جی بھی تھے۔ نجمہ اور سلیمہ بھی اسی وقت اسکول سے آئی تھیں۔ پہلے خان صاحب نے دونوں لڑکیوں کو گوایا۔ پھر نہ جانے چپکے چپکے آپس میں کیا باتیں کرتے رہے۔ میں چلمن میں سے سب دیکھتی رہی۔ سنو جی! اگر خان صاحب چاہیں کہ میری معصوم بچیاں رنڈیوں کی طرح ناچنے گانے لگیں تو یہ ہونے کا نہیں۔ چاہے مجھے ان کو لے کر میکے ہی میں کیوں نہ بیٹھ رہنا پڑے۔‘‘ فیاض کچھ کہنے ہی کو تھا کہ اتنے میں حیدری خاں بھی آگیا۔
’’فیاض بیٹے!‘‘ اس نے بیٹھک میں قدم رکھتے ہی کہنا شروع کیا، ’’اللہ تمہاری عمر میں برکت دے۔ میں تم سے ایک بہت ضروری بات کرنا چاہتا ہوں اور اصغری بیٹی اللہ تیرا سہاگ قائم رکھے، تو بھی کان دھر کے سن۔ تم دونوں نے کبھی یہ بھی سوچا کہ دونوں بیٹیاں ماشا اللہ سے دو تین برس میں جوان ہونے کو ہیں۔ تم نے کچھ ان کی شادی بیاہ کی بھی فکر کی۔ مجھے تو نظر آتا نہیں کہ تم نے ان کے لیے کچھ جہیز جمع کیا ہو اور پھر تم کر بھی کیا سکتے ہو۔ ڈیڑھ سو روپلی کی بھلا حقیقت ہی کیا ہے۔ آخر تم ان معصوم بچیوں کو کس طرح نیگ لگاؤگے۔ کسی کنجڑے قصائی کو تو خدا نخواستہ تم بیٹی دینے سے رہے۔ رہے دفتروں کے بابو جن کو تیس چالیس روپلی سے زیادہ تنخواہ نہیں ملتی، ان کو لڑکی دینا ایسا ہی ہے جیسے بھاڑ میں جھونک دینا۔ بچیاں ماشااللہ سے ایسی خوبصورت ہیں جیسے چاند کا ٹکڑا۔ ان کو تو کسی قدردان رئیس کے ہاں رانی بن کر راج کرنا چاہیے۔ مگر میاں صاحب زادے امیر لوگ شادی بیاہ کے معاملے میں بڑی مین میخ نکالتے ہیں۔ لڑکی خوبصورت ہو، پڑھی لکھی ہو، بہت سا جہیز لائے، اور پھر اسے کوئی ہنر بھی آتا ہو جیسے گانا یا مصوری۔ مگر ان بچیوں میں سوائے صورت شکل کے اور رکھا ہی کیا ہے!
مجھے کئی دن سے اس بات کی بڑی فکر تھی۔ تم دونوں میاں بیوی تو سو جاتے تھے مگر میں رات رات بھر اس فکر میں غلطاں پیچاں رہتا تھا۔ آخر سوچ سوچ کر میں نے یہ ترکیب نکالی ہے کہ ان لڑکیوں کو تھوڑا سا ناچ گانا سکھا دیا جائے۔ تم جانو آج کل امیر امرا میں ناچ گانے کا شوق کس قدر ترقی پر ہے۔ پہلے ہندؤں نے یہ بات شروع کی تھی۔ ان کی دیکھا دیکھی اب مسلمان بھی اپنی بیٹیوں کو گانا بجانا سکھلانے لگے ہیں۔ میں دوپہر کو پنڈت کالکا پرشاد کو لایا تھا۔ وہ شہر کے نامی کتھک ہیں۔ نواب شمشیرعلی خاں کی لڑکیاں، رائے بہادر سنتانم کی لڑکیاں، چودھری نیک عالم کی لڑکیاں آج کل ان ہی سے سیکھ رہی ہیں۔ ان تین گھرانوں کو تو میں جانتا ہوں۔ اللہ جانے اور کتنے گھرانوں میں جاتے ہوں گے۔ تو میاں صاحب زادے! خدا شاہد ہے تم مجھے بیٹوں سے بھی زیادہ عزیز ہو اور اصغری بیٹی تو بھی میری سگیوں سے کم نہیں۔ میں نے جو بات سوچی ہے تمہارے ہی بھلے کے لیے سوچی ہے۔ میرے نہ آل ہے نہ اولاد۔ جو کچھ ہو تمہیں ہو۔ پھر میں تمہارا براکیوں چاہوں گا۔‘‘
اس تقریر کے آخری حصے کے دوران حیدری خاں کی آواز شدت جذبات سے بھرا گئی تھی، اور ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے تھے۔ آخر وہ کرتے کے دامن سے آنسو پونچھتا ہوا اٹھا اور یہ کہتا ہوا سیڑھیوں کی طرف چلا، ’’تم دونوں خوب سوچ سمجھ لو۔ اگر منظور ہو تو کل ہی سے بچیوں کی تعلیم شروع کرا دی جائے۔۔۔ لو اب میں چلتا ہوں۔ میرے کچھ دوست نیچے کھڑے ہیں۔ مجھے ان سے کام ہے۔ میں ذرا دیر میں آؤں گا۔‘‘ اس کے جانے کے بعد فیاض اور اصغری دیر تک خاموش بیٹھے ایک دوسرے کا منہ تکا کئے۔ آخر فیاض نے سکوت توڑا، ’’کہو کیا کہتی ہو؟‘‘
’’میری سمجھ میں تو کچھ آتا نہیں۔‘‘ اصغری نے جواب دیا۔
’’میرا خیال ہے خاں صاحب جو کچھ کہتے ہیں درست ہی کہتے ہیں۔ واقعی ہم نے بچیوں کے مستقبل کا کچھ خیال نہیں کیا اور جو تمہیں اس میں برائی نظر آتی ہو، تو ہمارے ہوتے کوئی کیا کر سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتی۔ تم مختار ہو جو چاہے کرو۔‘‘
حیدری خاں رات کو کوئی دس بجے کے قریب گھر آیا۔ اصغری نے اس کے اور فیاض کے لیے کھانا گرم کیا۔ کھانے کے دوران میں فیاض نے مسجد کے امام سے اپنی ملاقات کا حال سنایا۔ حیدری سنتے ہی کھلکھلا کر ہنس پڑا، ’’وہ تو میں پہلے ہی سمجھے ہوئے تھا بیٹے۔ مگر تم کوئی فکر نہ کرو۔ اپنے کام سے کام رکھو۔ جب دیکھیں گے کہ کوئی چارہ نہیں تو اس محلے ہی کو چھوڑ دیں گے۔‘‘ یہ سن کر فیاض کی کچھ کچھ ہمت بندھی اور اس نے پھر ریاض شروع کر دیا۔ اس واقعہ کے دو دن بعد لڑکیوں کے ناچ گانے کی تعلیم شروع ہو گئی۔ اب محلے والوں کے کانوں میں ظہر سے لے کر عصر تک کچھ اس قسم کی آوازیں، گھنگھرؤں کی جھنکار کے ساتھ مل کر سنائی دینے لگیں، تاتت تھئی تھئی۔ تاتت تھئی تھئی۔ ایک دو تین چار۔ ایک دو تین چار۔ تاتت تھئی۔ تاتت تھئی۔ ایک دو تین۔ ایک دو تین۔
اگلے روز جب نجمہ اور سلیمہ استانی کے ہاں پڑھنے گئیں تو پانچ ہی منٹ کے بعد بستے اٹھائے واپس آگئیں۔ استانی نے بچیوں سے کہا تھا کہ تم یہاں نہ آیا کرو۔ اسی روز شام کو مالک مکان فیاض سے ملنے آیا۔ وہ سر جھکائے تھا۔ شرم کے مارے منہ سے بات نہ نکلتی تھی۔ پچھلے دس برس میں اسے فیاض سے کسی قسم کی شکایت پیدا نہ ہوئی تھی۔ نہ فیاض نے کبھی مکان کی مرمت کے لیے کہا تھا، نہ سفیدی کرانے کے لیے اور کرایہ ہر مہینے بلاناغہ پیشگی ہی اس کی دکان پر پہنچ جاتا تھا۔
’’معاف کیجیے گا فیاض صاحب!‘‘ آخر اس نے زبان کھولی، ’’میں آپ کی بڑی عزت کرتا ہوں، خواہ آپ کو گانے بجانے کا شوق ہی کیوں نہ ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ خود مجھے بھی موسیقی سے دلچسپی ہے۔ مگر کیا کروں ان کمبخت محلے والوں نے میری دکان پر آ آ کر میرا ناک میں دم کر دیا ہے۔ آپ کے ہاں کا نقشہ ایسے بھیانک طریقے سے کھینچتے ہیں گویا محلے بھر کی بہو بیٹیوں کی عزت خطرے میں پڑ گئی ہے۔ میں جانتا ہوں یہ سراسر جھوٹ ہے۔ مگر اتنے آدمیوں کے سامنے مجھ اکیلے کی کچھ پیش نہیں چلتی۔ آپ جیسے شریف اور ایماندار کرایہ دار کو گنوا کر مجھے بڑا دکھ ہوگا، مگر کیا کروں مجبور ہوں۔ امید ہے آپ میرا مطلب سمجھ گئے ہوں گے۔‘‘
’’میں سمجھ گیا ہوں۔‘‘ فیاض نے جواب دیا، ’’آپ فکر نہ کیجیے۔ میں ہفتے بھر میں مکان خالی کر دوں گا۔‘‘ جب یہ ماجرا حیدری خاں کے کانوں تک پہنچا تو وہ بول اٹھا، ’’چلو یہ جھگڑا بھی نمٹا۔ فیاض بیٹے ہم خود اس مکان میں رہنا نہیں چاہتے۔ شہر میں ایک سے ایک اچھا مکان موجود ہے اور کرایہ بھی کم۔‘‘
’’مگر خاں صاحب مجھے مکان تلاش کرنے کی فرصت کہاں!‘‘
’’تم فکر نہ کرو میری جان۔ آج کیا دن ہے جمعرات۔ بس اسی اتوار تک میں خود مکان تلاش کر لوں گا۔ اس دن تمہیں چھٹی بھی ہوگی آسانی سے اسباب لے چلیں گے۔‘‘
حیدری خاں نے سچ مچ اتوار سے پہلے ہی مکان تلاش کر لیا۔ وہ فیاض کو مکان دکھانے لے گیا۔ جس علاقے میں یہ مکان واقع تھا، وہ شہر سے الگ تھلگ مضافات کی سی کیفیت رکھتا تھا۔ فیاض کا اس علاقے میں کبھی جانا نہیں ہوا تھا۔ بازار خوب چوڑا تھا۔ آمنے سامنے اونچے اونچے مکان، نیچے دکانیں، کسی میں بنیا، کسی میں قصاب، کسی میں کنجڑا، بساطی، تنبولی، بزاز۔ ان تمام اشیاء کی دکانیں جنہیں خریدنے کے لیے فیاض کو لمبی لمبی گلیاں طے کرنی پڑتی تھیں۔ علاوہ ازیں جوتے والوں کی دکانیں، درزیوں کی دکانیں، لانڈری والے، کیمسٹ، ایک کارخانہ بسکٹ بنانے کا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک یتیم خانہ تھا اور ایک جگہ حکیم بھورے میاں کے مطب کا بورڈ لگا تھا۔ ان دکانوں کے اوپر خوبصورت پختہ مکان تھے۔ کوئی تین منزل کا اور کوئی چار منزل کا۔ زیادہ تر مکانوں کے دروازے اور کھڑکیاں یا تو بند تھیں یا ان پر چلمنیں پڑی تھیں۔
اسی نواح میں حیدری خاں نے فیاض کے لیے دو کمروں کا ایک فلیٹ تلاش کیا تھا۔ یہ ایک عمارت کی دوسری منزل پر تھا جس کے نیچے ایک ایرانی چائے خانہ تھا۔ فلیٹ کے دونوں کمرے صاف ستھرے اور کشادہ تھے۔ بجلی اور نل کا انتظام۔ ٹائیلوں کے فرش۔ چوڑے چوڑے دروازے۔ کھلی کھلی کھڑکیاں، ان کے روشن دانوں میں سرخ، سبز، نیلے، پیلے رنگوں کے شیشے کٹاودار پھولوں کی وضع کے لگے تھے۔ بازار کے رخ ایک خوبصورت بالکونی تھی۔ اسے دیکھ کر فیاض کی باچھیں کھل گئیں۔ یہاں وہ گرمی کے دنوں میں چھوٹی سی چوکی بچھا کر سرود کا ریاض کیا کرے گا۔ وہ مارے خوشی کے استاد سے لپٹ گیا۔
’’فیاض بیٹے!‘‘ حیدری خاں نے اس کے خیال کو بھانپتے ہوئے کہا، ’’یہاں تمہیں کوئی نہیں روکے گا۔ جی چاہے تو ساری رات سرود بجاتے رہو۔‘‘ فیاض خوشی خوشی اصغری کو یہ مژدہ سنانے گھر آیا۔ مکان کی اتنی بہت خوبیاں سن کر اصغری اور نجمہ و سلیمہ کو بھی اس کے دیکھنے کا اشتیاق ہوا مگر حیدری خاں نے کہا، ’’بس ایک ہی دفعہ چل کے دیکھ لینا۔ فوراً اسباب باندھنا شروع کر دو، تاکہ تیسرے پہر تک وہاں پہنچ جائیں۔‘‘
دو پہر کے کھانے سے فارغ ہو کر فیاض، حیدری خاں، اصغری اور دونوں لڑکیاں جلدی جلدی اسباب باندھنے میں مصروف ہو گئیں۔ پچھلے دس برس میں نہ جانے کیا کیا ضروری اور غیر ضروری سامان اکٹھا ہو گیا تھا جس کا چھانٹنا مشکل تھا۔ صلاح یہ ٹھہری کہ نئے مکان میں پہنچ کر چھانٹ لیں گے۔ فی الحال تو سارا کا سارا جوں کاتوں وہاں پہنچا دیا جائے۔ پھر بھی سامان باندھتے باندھتے اور ٹھیلا آتے آتے چار بج ہی گئے۔ جس وقت یہ لوگ اپنے نئے مکان میں پہنچے تو شام ہونے کو تھی۔ فیاض، اس کی بیوی اور بیٹیاں صبح سے کام کرتے کرتے ایسی تھک گئی تھیں کہ انہوں نے مکان کا جائزہ بھی نہ لیا۔ چاروں ایک کمرے میں بڑی سی دری بچھا، اس پر پڑ رہے۔ مگر حیدری خاں کے چہرے سے تھکاوٹ کے کچھ آثار ظاہر نہ ہوتے تھے۔ وہ کہیں جانے کی سوچ رہا تھا۔
’’فیاض بیٹے اندر سے کنڈی لگا لینا۔‘‘ اس نے سیڑھیوں کی طرف جاتے ہوئے کہا، ’’میں ایک ضروری کام سے جا رہا ہوں۔ جب تک میں نہ آؤں کنڈی نہ کھولنا۔ اگر مجھے دیر ہو جائے تو گھبرانا نہیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ سیڑھیوں سے اتر گیا۔ اس کے جانے کی دیر تھی کہ چاروں کو نیند نے آ دبوچا اور وہ دو ڈھائی گھنٹے خوب بے خبر سوتے رہے۔ سب سے پہلے فیاض کی آنکھ کھلی۔ اس نے خود کو گھٹاٹوپ اندھیرے میں پایا۔ وہ جانتا تھا کہ دیوار پر بجلی کا بٹن کہاں ہے۔ مگراس خیال سے اس نےروشنی نہ کی کہ کہیں اصغری اور بچیوں کی نیند نہ اچٹ جائے۔ وہ اندھیرے میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بالکونی کی طرف گیا اور اس کی آہنی کٹہرے پر جھک کر اس نواح کی سیر دیکھنے لگا۔ آمنے سامنے، اغل بغل، نیچے اوپر جس طرف بھی اس کی نظر گئی، اسے ایک نئی ہی کیفیت دکھائی دی۔ اس نے د یکھا کہ آس پاس کے تمام فلیٹوں میں بجلی کی تیز روشنی ہو رہی ہے اور کمروں کے دروازے اور کھڑیاں جن پر دن کو چقیں پڑی تھیں، اب چوپٹ کھلے ہیں۔ جو کمرہ اس کے فلیٹ کے عین سامنے تھا، اس میں اجلی چاندنی کا فرش بچھا ہے۔ گاؤ تکیے لگے ہیں۔ پاندان، خاصدان ، پیچوان قرینے سے رکھے ہیں اور وہ سارا اہتمام ہے جو کسی دعوت کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ مگر یہ کمرہ ابھی اپنے مکینوں سے خالی ہے۔
ادھر سے ہٹ کر اب اس کی نظر نیچے بازار پر پڑی۔ اس وقت وہاں کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ وہ دکانیں جن میں دن کو آٹا، دال، گھی، گوشت، سبزی، کپڑا، سونا چاندی ، تانبا پیتل بکتا تھا، وہ تو سب بند تھیں اور ان کے ٹھکانوں پر گل فروش چنگیروں میں طرح طرح کے ہار، گجرے، کنگن، چمپا کلی وغیرہ پھولوں کے گہنے سجائے دکان لگائے بیٹھے تھے۔ گندھیوں نے اپنی بڑی بڑی پٹاریاں کھول رکھی تھیں۔ ان کی چھوٹی چھوٹی عطر کی رنگ برنگی شیشیاں دور سے چمکتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔
ایک جگہ مٹھائی کے بڑے بڑے تھال چنے ہوئے تھے، جن میں قسم قسم کے لڈو، قلاقند اور جلیبیاں سجی تھیں۔ امرتی اور برفی کے قلعے بنے تھے۔ یتیم خانے کا پھاٹک بند تھا۔ اس کے باہر اس وقت نظربندی کا تماشا ہو رہا تھا۔ ایک جگہ ایک نوجوان جو شاید نابینا تھا، گاندھی ٹوپی پہنے ہارمونیم بجا کر گا رہا تھا۔ پاس ہی چادر پر اکنیاں، دونیاں، ٹکے، پیسے بکھرے پڑے تھے۔ ہر شخص خوش طبعی کے سبھاؤ میں تھا۔ میلے کا سا سماں بندھا ہوا تھا۔ بازار میں خاصی بھیڑ تھی جب کوئی بڑی سی چمکتی ہوئی موٹر پوں پوں کرتی ہوئی گزرتی تو لوگ سامنے سے یوں ہٹ جاتے جیسے سمندر میں دخانی کشتی کے چلنے سے جھاگ چھٹ جاتے ہیں۔
فیاض کو اپنے فلیٹ کے سامنے جو کمرہ خالی نظر آیا تھا، اب اس میں چہل پہل ہونے لگی تھی۔ لوگ آتے جاتے تھے اور گاؤ تکیوں سے لگ کر بیٹھتے جاتے تھے۔ یک بارگی طبلے پر تھاپ پڑی اور ایک غیرت ناہید رو پہلی پشواز پہنے چھم سےمحفل میں کودی اور نرت کرنے لگی۔ ہاتھ پاؤں کی چلت پھرت اس غضب کی تھی کہ ہر ہر ادا پر دیکھنے والوں کے دل مسلے جاتے۔ تحسین کی صدائیں بلند ہوتیں مگر رقاصہ کو اپنے حسن اور اپنے کمال پر ایسا ناز تھا کہ وہ ہر توصیف سے بے نیاز معلوم ہوتی تھی۔
فیاض ایک حیرت کے عالم میں بالکونی پر کھڑا یہ ماجرا دیکھ رہا تھا کہ اسے محسوس ہوا جیسے اندھیرے میں کوئی سایہ سا اس کے پیچھے آکر کھڑا ہو گیا ہے۔ فیاض کچھ لمحے ساکت و جامد کھڑا رہا۔ سائے نے بھی کوئی حرکت نہ کی۔ آخر اس نے گردن پھیر کر دیکھا تو وہ اس کی بیوی اصغری تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...