(Last Updated On: )
آدم اپنی کامیابی کی میٹھائی لینے چورنگی تک گیا ہے اور میں آدم کا رزلٹ ہاتھوں میں تھامے ساکت بیٹھا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ مجھے اپنے آپ سے کیا گیا وعدہ بھی تو نبھانا ہے اور اب مجھے شدید غصہ آ رہا ہے کہ میں نے اپنے آپ سے ایسا مہلک وعدہ کیا ہی کیوں؟ پر اب بندہ اتنا تھڑدلا اور پلپلا بھی نہ ہو کہ کیا گیا وعدہ بھی نہ نبھا سکے۔ وہ وقت جس سے میں عرصے سے شعوری طور خائف تھا آج میرے سامنے مجسم ہے اورمیرے کانوں میں بھولی بسری آوازیں گونج رہی ہیں۔
یہ تم نے کیا کیا؟
جرنیلی میڈم اب تیری کھال میں بھس بھروا چھوڑے تو بھی کم ہے۔ کمبخت مارے تو بات کیوں نہیں سنتا؟
اب جو باقی کے تین نگینے ہیں نا ان پر تو کمیشن تم بھول ہی جاؤ۔ خود مرتا ہے تو مر مرن جوگے ،مجھے کیوں پھنساتا ہے؟
راگنی غصے سے تن فن کرتی کمرے میں چکراتی پھر رہی تھی۔
لے آ گئی کال جرنیلی کی۔ میں نے کان سے ٹیلی فون لگاتے ہوئے غضب ناک نظروں سے مختارے کو گھورا۔ ویسے مجھے کان سے فون لگانے کی قطعاً ضرورت نہ تھی کہ جرنیلی کی دھاڑ آٹھ بائی چھ کے حبس بھرے کمرے میں ہر طرف گونج رہی تھی۔ یہ بھی شکر کہ ابھی فون سے کود کر باہر نکلنے کا آپشن نہیں تھا ورنہ آج جرنیلی یہ بھی کر گزرتی۔
“تیرے سمجھ میں ایک دفعہ کی کہی ہوئی بات نہیں آتی کیا؟ میں نے کتنی بار بولا ہے کہ مجھے بچے والی کا ٹنٹا نہیں چاہیے۔ صرف کم عمر لڑکیوں کی ڈیمانڈ ہے، گاہک فریش گوشت مانگتا ہے۔ اگر مختارے سٹھیا گیا ہے تو اسے لات مار کر باہر نکالو ۔ مجھے کام چاہیے کام، سمجھی !
اگر تم لوگوں سے کام نہیں ہوسکتا تو مجھے بھی حرام خوروں کی فوج اکٹھی کرنے کا کوئی شوق نہیں۔ مختارے کو بولو کہ یہ اس کا آخری چانس ہے کسی بھی طرح بچے کا قصہ پاک کرے۔ ”
میں نے پسینے پسینے ہوتے ہوئے فون بند کر کے ٹیبل پر پھینکتے ہوئے مختارے کو دیکھا، جو بجائے پریشان ہونے کے کمینگی سے مسکرا رہا تھا۔
ابے مسکرا کیوں رہا ہے بھڑوے سنا نہیں تم نے جرنیلی کیا بھونک رہی تھی؟
میں نے غصے سے دانت پیستے ہوئے اسے گھورا کیونکہ مجھے اپنا کمیشن ڈوبتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ میں سجیلی کے علاج کے لیے پیسے ویسے ہی نہیں جوڑ پا رہی اور جو رہا سہا اس کمیشن کا آسرا تھا وہ اس بدذات مختارے نے خواہ مخواہ میں بچے کا پخ پال کر سرے ہی سے ڈبو دیا۔
کائے کو ٹینشن لیتی رے راگنی!
چھٹانک بھر کا تو چھوکرا ہے پھڑکا دوں گا۔
جرنیلی تو کتنی لڑکیوں کا قتل بے آواز ڈکار گئی ہے، سالے پلے کو کون پوچھتا ہے؟ ارے کم عقلی یہ حسینہ بچے کی وجہ سے ہی تو سستی ملی ہے، جرنیلی خسیس دمڑی خرچنے کو تیار نہیں اور مال چاچاہیے کھرا۔ آج کل نیلامی منڈی میں ریٹ بہت اونچا چل رہا ہے، سارا اچھا مال باہر اسمگل ہوتا ہے۔ یہ چاروں تو مجھے بہت مناسب داموں مل گئی ہیں۔ جرنیلی نے تو ویسے بھی ان کا ماس، ہڈی سب ہی بیچ دینا ہے مگر پھر بھی چھوکری مفت چاہیے۔
ہونہہ مختارے نے بھری ہوئی سگریٹ سلگاتے ہوئے مجھے مزید سلگایا۔
۔۔۔۔
جو میں سچ بولوں راگنی تو جرنیلی سٹھیا گئی ہے۔ میرا اس کا تیس پینتیس سال کا ساتھ رہا ہے۔ پہلے میں اس کا طبلچی تھا، حادثے میں میری دو انگلیاں کٹی تو طبلہ بھی گیا اور میرا رول بھی بدل گیا۔ پاپی پیٹ کو روٹی تو ہر حال میں چاہیے، بچپن سے ادھر ہی رہا، یہ سب ہی دیکھا سنا اور جرنیلی کا مزاج آشنا بھی تھا، بس پھر اسی دھندے میں لگ گیا۔ مجبوری بڑی کڑوی اور نوکیلی ہوتی ہے اور دنیا کی منڈی میں سب سے سستا انسان۔ اس بیوپار میں کوئی کسی کا نہیں۔ میں نے اس دھندے میں رشتوں کو غرض ہو یا مجبوری دولت میں تُلتے دیکھا ہے اور وہ چاہے باپ ہو ، بھائی یا میاں، انہیں اس منڈی میں رشتوں کو سکوں میں ڈھالتے بھی دیکھا کہ یہاں رشتوں کا کوئی تقدس نہیں۔ تم مجھے اس سالی دنیا کا ایکو ایک رشتہ بتا دو راگنی جو اس دھندے میں ملوث نہیں ، قسم سے میں اپنی مونچھیں منڈوا دوں جو تم مجھے ایک بھی اعتبار کا رشتہ گنا سکو۔ سب سے سستی تو مجھے وہ چھوکریاں پڑتی ہیں جو ٹرین اسٹیشن اور بس اڈے پہ خالی پیلی پھوکھٹ میں محبت کے نام پر گھر کی دہلیز الانگتی ہیں اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برباد ہو جاتی ہیں۔ میرا یقین کرو راگنی یہ سالی محبت وحبت کی جو راس لیلیٰ رچائی جاتی ہے نا یہ سب محض زبانی کارتوس ہے، ایسے ہی بوم مارتے ہیں یہ سالے لونڈے حرام خور۔
ارے!! تم عورتوں کے کھوپڑیاں میں کیا دماغ و ماغ بالکل ہے ہی نہیں کہ اماں حوا کے وقت سے ابھی تک تم لوگ اسی سال خوردہ محبت کے پھندے میں پھنستی آ رہی ہو؟
مختارے نے طنزیہ انداز میں مجھے دیکھا۔
تم مجھے دنیا کا بتاؤ گے مختارے، مجھے ؟
مجھے تو خود میرا گھر والا یہاں بیچ کر گیا تھا۔
میں نہ وہاں اس کے ساتھ خوش تھی نہ یہاں مزے میں ہوں۔ وہاں بھوکے پیٹ نشئی میاں کے ہاتھوں پِٹتی رہی اور بلآخر اسی نشے کی نذر ہوئی اور یہاں دھندے سے انکاری پر بجلی کے تار سے پٹی بھی اور بجلی کے جھٹکے بھی سہے۔ شکر کہ جوانی ڈھلی تو اس دھندے سے جان چھوٹی مگر اب یہ نئی مشقت ہے۔ سچ مختارے میرا بس چلے نا تو میں شہر کے سارے اڈے بند کروا دوں مگر جب میں کم سن بچوں کی ادھڑی ہوئی لاشیں دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں طوائف اور کبسی کا دم بھی غنیمت ہے ورنہ شاید دنیا کی کوئی مادہ بھی محفوظ نہ رہے۔ جانے کیسی ہوا چلی ہے ؟ لگتا ہے بیشتر بشر ہی چاک سے اتر گئے ہیں۔
کہتی تو تم ٹھیک ہو راگنی، شاید یہی کل یُگ ہے۔
ویسے تم نے ڈیرے پر آنے والیوں کو ایسا سدھایا ہے کہ تم جرنیلی کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہو ۔تم لڑکیوں پر پوری چنگیز خان ہو۔ تم کو راگنی کون سالا بولتا؟ تم تو پوری کی پوری چنگیزی ہو۔
میں ہنستے ہنستے دوہرا ہو گیا تھا۔
مختارے تو اب کیا کرے گا اس بچے کا؟
راگنی نے ہولے سے دوبارہ پوچھا۔
میں ! جانے کیا کروں گا؟ ابھی کچھ سوچا نہیں۔
مجھے تو یہ سالا بھی اپن ہی جیسا دکھائی پڑتا۔ جیسے میری ماں اور مجھے کوئی راجھستان سے خرید کر ادھر لایا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میرے باپ نے مجھے اور میری ماں کو اس دلال کے حوالے کیا تھا تو میں اپنے باپو کی ٹانگوں سے چمٹ کر چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔ میرے باپ نے جھٹکے سے اپنی ٹانگیں چھڑائیں اور میرے رنگین عدسوں والے کھلونے کیلڈیسکوپ پر پیر رکھتے ہوئے میرے دل کو کچلتا ہوا چلا گیا اور مانو اس کے ٹوٹے ہوئے عدسے آج تک میرے دل میں چبھتے ہیں۔ ویسے ہی میں بھی تو اسے اور اس کی ماں کو بھاؤ تاؤ کر کے ایک بے جان چیز کی طرح مول لایا ہوں۔ میں ایسا بننا بالکل بھی نہیں چاہتا تھا راگنی پر میں ایسا ہی بن گیا ہوں۔
تمہیں پتہ ہے راگنی! جرنیلی کی ماں بخت جہاں بڑی کائیاں تھی۔ وہ ڈیرے پہ اندر کبھی بھی مرد ملازم نہیں رکھتی تھی، ہمیشہ کھسرے ہی زنان خانے کی خدمت پر رکھے جاتے اور باہر خونخوار بندوق بردار گورکھا پہرے دار رہتا۔ میں جب بہت چھوٹا تھا تو بخت جہاں نے مجھے اندر کے کاموں کے لیے چن کر ختنے کے بہانے مجھے خصی کرا دیا تھا، اس ظالم نے تو میرا کچھ بھی میرا نہیں رہنے دیا حتیٰ کہ میرا اپنا آپ بھی۔ میں آدھا ادھورا ادھر ہی پان اور پھول لاتے لاتے بڑا ہو گیا۔
تو۔۔ تو۔۔۔ پیدائشی ایسا نہیں تھا؟؟
راگنی نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
نہیں رے ! یہ تو اس کپتی جرنیلی کی ماں حرافہ کا کیا دھرا ہے۔ کیڑے پڑیں منحوس کی قبر میں۔ میں نے دل سے بد دعا دی۔
جانے جرنیلی کو مجھ میں کیا نظر آیا کہ اپنی ماں سے بھڑ گئی اور مجھے بڑے استاد کے حوالے کر دیا اور میں کم عمری ہی میں طبلہ سیکھنے لگا۔ میں جرنیلی کا طبلچی اور سکھی تھا۔ وہ اپنا سارا دکھ سکھ مجھ سے کرتی تھی اور جرنیلی کے کتنے راز اس سینے میں دفن ہیں۔ چڑھتی جوانی میں جرنیلی بادام کی گری کی طرح نرم تھی پر بڑھتی عمر اور ناکام محبت کے صدمے نے اس کے دل کو سنگ کر دیا، ایسا سخت پتھر جو کبھی ٹوٹتا ہی نہیں لہذا کبھی چشمہ پھوٹا ہی نہیں ۔ اب تو کوئی مان ہی نہیں سکتا کہ جرنیلی کبھی رسیلی اور سریلی بھی تھی۔ یہ تو اب اپنی ماں سے بھی زیادہ کھڑوس ہے۔
تو بچے کا کیا کرے گا مختارے؟؟؟
راگنی نے پھر ہولے سے پوچھا۔
ارے تیری سوئی بچے پہ کیوں اٹک گئی ہے؟
کہیں تو اسے گود لینے کا تو نہیں سوچ رئی۔ ؟
نہ بابا نہ !! میں سجیلی کا علاج تو کرا نہیں پا رہی، میں بھلا نیا ٹنٹا کیوں مول لوں؟
بس انسان کا بچہ ہے اس لیے تھوڑا دل دکھ گیا۔
راگنی نے رنجیدگی سے کہا۔
ہیں ! تیرے پاس دل ہے؟
جب تو بھوک اور ہنٹر سے لڑکیوں کو کمان کی طرح سیدھا کرتی ہے تب تیرا یہ دل کہاں ہوتا ہے؟
وہ تو میری مجبوری ہے مختارے۔ میں ان کی کھال نہ اڈھیڑوں تو جرنیلی میری کھال میں بھس بھروا کر دیوان خانے میں کھڑا کر دے۔ جیسے تو پیٹ کے لیے دلالی کر رہا ہے ویسے ہی میں بھی پیٹ کے لیے حالات کے تھپیڑوں سے پٹ رہی ہوں۔ ہم لوگوں کی بھی کیا زندگی ہے مختارے!!
اتنی بد دعا لیکر ہم لوگوں کا کیا انجام ہو گا؟
بد دعا ! کیسی بد دعا ، کیوں بھلا؟
نہ کبھی کسی کو اغوا کیا، نہ ورغلایا، ہمیشہ نقد سودا کیا ہے، مول لیا ہے۔ بیچنے والے نے بیچا میں نے خریدا۔ ہاں اسٹیشن اور بس اڈے سے ضرور چھوکریوں کو مفتا لیا، تو بھئ میں نہ ڈیرے پر لاتا تو کوئی اور اڑا لے جاتا۔ جب ایک دفعہ انہوں نے گھر چھوڑا تو پھر کیا کوٹھا اور کیا ڈیرہ ۔
چلو چھوڑ ہو جائے کا پلے کا بھی کچھ نہ کچھ، تم بےکار میں اس کا غم مت پالو۔
راگنی دو دن سے مختارے سلام کو نہیں آیا, کدھر ہے وہ؟
جرنیلی نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے تیکھے لہجے میں پوچھا؟
میں خبر لیتی ہوں میڈیم، کہیں دو دن کی لگاتار بارش میں بھیگ کر بیمار نہ ہو گیا ہو، پرسو ں بھی کھانس رہا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں لرزتے ہوئے جرنیلی کو جواب دیا کہ مجھے مختارے کا مستقبل تاریک ہی لگ رہا تھا۔
میڈم نے ہنکارہ بھرتے ہوئے کھڑکی کے شیشے کا بٹن دبا دیا۔
میں نے فون ملایا، جواب ندارد۔ ابھی میں باہر نکلی ہی تھی کہ مجھے جمن، مختارے کا پڑوسی مل گیا۔
ارے جمن، مختارے کدھر ہے؟ فون بھی نہیں اٹھا رہا ، میڈیم پوچھ رہی ہے۔
میرے کو کیا معلوم، دو دن سے اس کی کھولی میں تالا جھول ریا ہے۔
کیا؟ کیا کہہ رہے ہو ، کھولی میں تالا پڑا ہے؟
مگر وہ بتائے بغیر کیسے جا سکتا ہے؟
عجب پریشانی میں ڈال دیا مختارے نے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے میڈم کو یہ خبر دی مگر اس کا کوئی خاص رد عمل نہ تھا ۔ بس پوچھا تو صرف اتنا پوچھا کہ وہ نئی لڑکی (بچے کی ماں، نازنین) کام کے لیے تیار ہوئی کہ نہیں؟
میں نے کہا میڈیم بس ایک دو دن میں بالکل چالو ہو جائے گی۔
جرنیلی کسی گہری سوچ میں تھی بس سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ میں حیران تھی کہ مختارے کے متعلق کوئی باز پرس نہیں؟ شاید وہ اب واقعی اس کے کام کا نہیں رہا تھا۔
وقت گزرتا گیا ڈیرے کی زندگی معمول پر تھی اب مختارے کی ڈیوٹی ماسٹر قمر نبھا رہا تھا۔ سب کچھ روٹین کے مطابق گو کسی اور کو تو نہیں پر مجھے مختارے کی کمی محسوس ہوتی تھی، جانے منحوس مارا کدھر کو دفعان ہوا تھا؟ ڈیرے پر اس کے متعلق کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ نازنین بھی اب بچے کی جدائی کو قبول کر کے گاہک سنبھال رہی تھی۔ بس کسی کسی دوپہر اس کی کبوتر کی طرح خونم خون آنکھیں دیکھ کر میرے دل کو کچھ ہوتا اور جہنم کی بھڑکتی آگ میرا وجود جھلسانے لگتی۔ ایک دفعہ میں نے مختارے سے پوچھا تھا کہ مختارے ہم سب جہنم میں جلائے جائیں گے نا؟ مختارے بہت ہنسا تھا اور بولا،
رے دیوانی ! ہم لوگ تو ہیں ہی جہنم کا ایندھن۔ یہاں دنیا میں بھی رلتے ہیں، وہاں بھی جھلسیں گے ،کیا فرق پڑتا ہے۔
مگر یقیناََ فرق پڑتا ہے کہ اب مجھے بہت ڈر لگنے لگا ہے اور میرا دل چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کہیں بھاگ جاؤں مگر میرے پیروں میں سجیلی کے علاج کی بیڑیاں ہیں۔ اس سے میرا کوئی خونی رشتہ نہیں مگر سجیلی نے اس وقت میرا دفاع کیا تھا جب میں بالکل اکیلی اور بے آسرا تھی۔ جب میں اس ڈیرے پر بیچی گئی تھی اور کام نہ کرنے کی پاداش میں بجلی کے تار سے مار کھاتی اور بھوک کی اذیت برداشت کرتی تو یہ سجیلی ہی تھی جو میرے زخم پر مرہم لگاتی اور چپکے سے اپنے حصے کا کھانا مجھے دیتی۔ اب وہی سجیلی لاچار میری کھولی میں پڑی ہے اور میں نے از خود اس کی تیمارداری اور علاج کی ذمّہ داری اٹھا لی ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ علاج بہت مہنگا ہے اور میری بساط سے باہر۔ اب دنیا کا تو یہ ہے کہ یہاں صرف انسان اور موت سستی ہے باقی سب کچھ عام آدمی کی پہنچ سے بہت بہت دور۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لینے کو تو میں اپنے ساتھ اس بچے کو لے آیا ہوں پر اپنے اس عمل پر خود ہی حیران بھی۔ ظاہر ہے وہ دو سال کا بچہ تھا اور اپنی ماں کے لیے بلک رہا تھا مگر سالا پلا میرا نشہ بھی خراب کر رہا تھا۔ سوچا آج سالے کا ٹیٹوا دبا کر یہ ٹنٹا ہی ختم کر دوں۔ میں نے جیسے ہی گلا دبانے کو اس کی نحیف سی گردن پر ہاتھ رکھا، اس کی گردن میں بندھی تعویذ کی شکستہ ڈور ٹوٹ گئی اور ڈوبتے سورج کی آتشیں کرن نے اس تعویذ کے چپٹے خول سے اچٹ کر منعکس ہوتے ہوئے مجھے بہت کچھ یاد دلا دیا اور یکلخت اس کی گردن پر میرے ہاتھوں کی گرفت بالکل ڈھیلی پڑ گئی۔ میں نہ جانے کس رو میں اسے لے کر ڈیرے سے بھاگ آیا، میں نے یہ قدم اٹھانے کو اٹھا تو لیا تھا پر اب سمجھنے سے قاصر تھا کہ اس کا کروں کیا؟
میرے خدا ! بچہ پالنا بھی کس قدر مشکل کام ہے، دانتوں میں پسینہ آ جائے۔ میں نے مچھر کالونی میں کھولی کرائے پر لی اور کچھ عرصہ وہاں چھپ کر بیٹھ رہا، مگر کب تک؟ کام کا سمجھ میں آتا نہ تھا کہ کروں تو کیا کروں؟ ہاتھوں میں نہ کوئی ہنر اور نہ ہی تعلیم۔ پچھلی زندگی سے میں تائب ہو چکا تھا سو اس ڈگر پر اب چلنا نہیں اور پلے کچھ خاص جمع جتھا نہیں۔ جرنیلی کے خوف سے کچھ مہینے تو میں روپوش رہا پر جانے کیوں مجھے یقین تھا کہ جرنیلی مجھے نہیں ڈھونڈ ے گی۔ سو کام کاج کی ٹھانی مگر میں تھا ہی کس جوگے؟ جس کام میں ماہر تھا اسے میں ترک کر چکا تھا۔ پھولوں سے ہمیشہ کی قربت نے گجرے بنا کر سگنلز پر بیچنے کے دھندے سے لگا دیا۔ اس میں آسانی یہ تھی کہ آدم بھی میرے ساتھ رہتا۔ ارے میں تو بتانا بھول ہی گیا ، بچے کا نام میں نے آدم رکھ دیا تھا۔ بس گجرے کا کام چل پڑا اور ساتھ ہی ساتھ زندگی بھی۔ آدم کا ساتھ ایک بالکل نیا تجربہ تھا۔ واقعی بچے اللہ کی رحمت ہوتے ہیں، اس ننھے وجود نے میری زندگی بدل دی۔ کہاں میں لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتا تھا اور اب اتنا حساس کہ چیونٹی روندنے سے بھی جھجھکتا۔
جب آدم نے اسکول جانا شروع کیا تو میں مچھر کالونی چھوڑ کر غریب آباد منتقل ہو گیا اور مینا بازار میں دکان پر کپڑوں کی رنگائی کا کام شروع کر دیا اور رات کو سگنلز پر گجرے کا کام بھی برابر جاری رکھا۔ آدم کے پاس میرے لیے ہزارہا سوالات تھے پر میں اس کو ٹالتا رہتا مگر کب تک؟
مجھے یاد ہے انٹر کے بعد اس نے گہری سنجیدگی سے اپنے متعلق سوال کیا تھا اور میں نے اسے جھوٹی کہانی سنائی کہ میں نے اسے کوڑے کے ڈھیر پر سے اٹھایا تھا، یوں میں اس کی نظروں میں فرشتہ بن گیا اور اب اس کا سُپر ہیرو تھا۔ قسم سے میں یہ بالکل نہیں چاہتا تھا کہ آدم مجھے فرشتہ مانے اور یہ حقیقت ہے کہ میں اس کی پرورش اپنے گناہوں کے کفارے کے طور پر کر بھی نہیں رہا تھا۔ میں اچھی طرح سے جانتا ہوں میری بخشش کا کوئی چانس نہیں کیوں کہ یہ معاملہ تو اللہ تعالیٰ کا ہے ہی نہیں اور بندوں کے معاملے میں اللہ میاں مارجن دیتے نہیں۔ یہ سب نئی نئی اور ان سنی و انجانی باتیں تھیں جو میرے کبھی کبھار کے جمعہ کے خطبہ میں شرکت کی دین تھیں۔ مگر میں یہ بھی سوچتا کہ یہ مُلا لوگ خالی پیلی ڈراوے ہی کیوں دیتا ہے؟
کیا اللہ مہربان نہیں؟
ویسے سچ تو یہ ہے کہ نہ جاننے ہی میں سُکھ ہے۔ اب مجھے ہر لمحے اپنے گناہ ڈراتے ہیں۔ جن کی زندگیاں میں نے برباد کی ہیں میں ان سے اپنے ظلم کی معافی کیوں کر مانگوں۔ سچ تو یہ ہے کہ آدم نہ ہوتا تو شاید میں کسی مزار کا فقیر ہوجاتا مگر آدم کی ذمہ داریوں نے مجھے کولہو کا بیل بنائے رکھا۔ کبھی کبھی مجھے راگنی بھی یاد آتی ہے وہ کتنا ڈرتی تھی جہنم سے اور اس وقت میں بے وقوف انجان، انجام سے بےخبر ہنستا تھا اور بے فکری سے کہتا، “ری ہم لوگ یہاں بھی جھلستے ہیں اور وہاں بھی جلیں گے”, مگر اب میں واقعی خوفزدہ تھا۔
رو رو کر اللہ سے معافی مانگتا تھا مگر اللہ مجھ ظالم کو کیوں معاف کرے گا۔
آخر آج میرا یوم حساب آ ہی گیا۔ میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ جس دن آدم کی تعلیم مکمل ہو گی میں اسے اصل قصہ سنا دو ں گا۔ آج آدم کا پولی ٹیکنیک کا نتیجہ آیا ہے اور یہ اچھے نمبروں سے کامیاب ہو گیا ہے اور اب زندگی اپنی پوری توانائی اور مواقع سمیت اس کے سامنے بکھری پڑی ہے۔
پچھلے ایک ہفتے سے گھر میں تاریکی اور تنہائی ہے کہ آدم گھر چھوڑ کر جا چکا ہے اور مجھے آگے کا کچھ بھی نہیں سوجھتا ۔ آدم کے رزلٹ کے دو دن بعد میں نے اسے اس کی اصل کہانی سنا دی تھی اور اسے جرنیلی کا پتہ بھی دے دیا تھا گو کہ مجھے یقین ہے کہ نازنین اب تک زندہ نہ ہو گی۔ بھلا موم بتی کے دونوں سروں کو آگ دیکھا دو تو شمع کتنی دیر۔ یہ سب سننے کے بعد پہلے تو آدم بے یقینی سے مجھے تکتا رہا پھر گویا مغلظات کا دہانہ کھل گیا اور پھر اس نے مجھے لاتوں گھونسوں پر رکھ لیا اور میں بغیر مزاحمت کے پٹتا رہا کہ یہ اس کا حق تھا۔ جب وہ مجھے مار مار کر ادھ موا ہو گیا تو روتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ وہ دن گزرا اور آج دسواں دن ڈوب رہا ہے اور آدم کی کوئی خیر خبر نہیں۔ دو دن تو میں لاچار بستر پر پڑا کراہتا رہا پھر خود ہی اپنے زخموں کی سکائی کر کے اسے ڈھونڈنے نکلا۔ سارے ہسپتال اور مردہ خانے چھان مارے مگر اس کا کہیں کوئی سراغ نہ تھا۔ جو سچ کہوں تو میرا جی اب زندگی سے اچاٹ ہو چکا ہے۔اور زندگی کرنے کو کچھ بچا بھی نہیں۔ مجھے شدید دکھ ہے کہ میں نے آدم کو اس کی اصلیت کیوں بتائی؟
یہ سب جان کر آدم کو بھلا کیا فائدہ ہوا؟
اس کی زندگی تو اور مشکل ہو گئی کہ آگہی کا آزار بھی جگر پاش۔ یہ میں نے کیا کر دیا؟
میری زندگی تو یوں بھی پچھتاؤوں کی گٹھڑی ہے۔ اب میں نے اپنے لیے مزید پچھتاوے اکٹھے کر لیے۔
میں مرنے سے پہلے اپنے ضمیر کا بوجھ ضرور اتار پھینکنا چاہتا تھا مگر میں یہ کیوں نہ جان سکا کہ میرا یہ بوجھ آدم کے لیے ناقابل برداشت ثابت ہو گا۔ میں اسی خسارے اور زیاں کے جوڑ توڑ میں الجھا صحن میں دھری ٹوٹی چارپائی پر بیٹھا ڈوبتے سورج کی سہمی پیلاہٹ میں اسے یاد کر رہا ہوں جو جانے دنیا کی اس بھیڑ میں کہاں بھٹک رہا ہو گا۔
وہ گھر سے جاتا ہوا بکھرا شکستہ وجود ویسے ہی رنجیدہ و وحشت زدہ تھا جیسے آدم جنت سے جدائی پر۔