” توپھر تم نے کیا سوچا؟”
حسب معمول میں ریڈیو اسٹیشن جانے کی جلدی میں تھی۔ آج ریڈیو پر روزانہ اردو پروگرام ”انجمن“ کی اناؤنسر میں تھی، سو جلدبازی میں ٹی وی پر ۵ منٹ ۵۲خبر یں سنتے سنتے ناشتہ کررہی تھی اور وہ بھی ناشتہ سے فارغ ہوکر میرے پاس ہی بیٹھا تھا۔ اس کی نگاہیں ٹی وی اسکرین پر جمی تھیں، جس میں پلک جھپکتے منظر بدل رہے تھے۔ منظروں کے ساتھ خبریں بھی بدلتی جارہی تھیں۔
پہلی خبر!
فلاں شہر میں ۵ سالہ بچی کی آبروریزی اور قتل
ایک زوردار میوزک اور پھر دوسری خبر!
ڈائن ہونے کے شبہ میں ایک بزرگ خاتون کو زدو کوب کیا گیا،
تیز میوزک کے ساتھ تیسری خبر!
وہ خبروں کو اتنی توجہ سے سن رہا تھا کہ میرے سوال پر دھیان ہی نہیں دے پایا۔
میں نے پھر ٹوکا ”تم نے جواب نہیں دیا“
” جی! جی ہاں! جی ہاں کہئے۔”
”آخر تم کس دنیا میں ہو؟ آگے کیا کرنا ہے کچھ سوچا ہے؟ تم نے دو دن کا وقت مانگا تھا‘ تو پھر کیا فیصلہ کیا؟“
میں نے ناشتہ سے ہاتھ روک کر اس کی جانب دیکھا، پر وہ میری طرف دیکھ ہی نہیں رہا تھا۔ اس کی نگاہیں تو ٹی وی اسکرین پر جمی تھیں۔ میری نظروں نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا، جس پر اس خاتون کا زخموں سے چور جسم اسپتال کے بستر پر پڑا تھا۔ انجانے خوف کی لہر میرے اندر سرایت کرگئی۔ میں نے نظریں گھما کر اس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں خوف‘ غم اور غصہ کے ملے جلے تاثرات رقص کررہے تھے۔
” اُف! بولونا کیا کرنا ہے؟”
میں نے ٹی وی پر سے اس کی توجہ ہٹانے کی کوشش کی‘ پر ناکامی ہوئی کیوں کہ اس کی طرف مکمل خاموشی تھی جیسے وہ کوئی فیصلہ نہیں کرپارہا ہو۔ شدید کشمکش کی کیفیت کے عالم میں ہو۔ قدرے وقفہ کے بعد صرف ہوں……….ہی کہہ پایا۔
میں نے موقع غنیمت جانا اور پھر اپنے سوالوں سے بھری تجسس کی ریوالور اس کی جانب تان دی۔
”تم تو ماشاء اللہ کافی ذہین ہو اور اپنے کلاس میں ٹاپر بھی ہو۔ مقابلہ جاتی امتحانات اور سرکاری نوکری کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے؟“
”سرکاری نوکری؟“
اس کے ماتھے پر کئی سلوٹیں ابھریں جیسے وہ یقین اور وہم کے درمیان کھڑا ہو۔
”ہاں ں ں……..سرکاری نوکری‘ معقول آمدنی‘ رہائشی کوارٹر اور ساتھ ہی معاشرے میں عزت و و قار بھی۔
”تم ایک کام کرو۔“
میں نے مشورے کی گٹھری اس کے سامنے کھول دی۔
”اپنے تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ IPSاور IAS کی تیاری بھی شروع کردو۔کیا خیال ہے؟ ٹھیک رہے گا نا، مجھے یقین ہے تم کرلو گے میری جان“
”پر؟“
”پر…………. پر کیا! ارے بھئی چند سالوں کی محنت پھر زندگی بھر سکھ چین کی زندگی، کوئی ٹینشن نہیں، بڑھاپا بھی محفوظ۔“
”م……م…..م……میں…….. وہ میں سوچ رہا تھا کہ آگے کی پڑھائی کسی باہری ملک میں کروں۔“ اس نے مجھ سے نگاہیں چراتے قدرے جھجکتے ہوئے کہا۔
ہوں ں ں ں ں! میں نے ایک سرد آہ کھینچی
”تو تم نے اتنے غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا۔ اچھا تو بتاؤ کہاں جاؤ گے؟“
” کہیں بھی۔۔۔۔ ہم سبھی دوستوں نے سوچا ہے کہ تعلیمی ویزا پر بیرون ممالک جاکر تعلیم حاصل کریں اور ساتھ ہی کوشش رہے گی کہ وہیں کوئی نوکری کر P.R. حاصل کرلیں۔”
مجھے جھٹکا سا لگا۔ میں سر تا پا لرز گئی۔
” یعنی تم مستقبل میں بیرون ملک میں رہائش پذیر ہونا چاہتے ہو۔ اور ہم؟“
میں نے اپنے وجود میں ہزاروں کرچیاں چبھتی ہوئی محسوس کیں۔
میری یادداشت کے جھروکے کے سامنے وہ ساری راتیں آکھڑی ہوئیں جو میں نے اونگھتے اور جاگتے گزاری تھیں۔ تمہیں تو ہمارے اس درد کا اندارہ ہی نہیں جو ہم نے محسوس کیا تھا جب ڈاکٹر نے تمہاری پیدائش کے بعد تمہیں انکیوبیٹر (Incubator)میں رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”ڈیلیوی کے وقت بچے نے منھ کھول دیا جس کی وجہ سے اس کے حلق میں گندہ پانی چلا گیا ہے۔ بچے کے سینے میں زبردست سردی لگ گئی ہے۔ سانس لینے میں تکلیف ہورہی ہے۔ دعا کریں کہ بچ جائے۔“
تمہارے آنے کی خوشی تمہیں کھونے کے خوف میں بدل گئی۔ ڈاکٹروں کی کئی دنوں کی نگہداشت اور ہماری دعاؤں نے تمہاری سانسوں کو ہموار کردیا پر ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ
”بچے کا بڑا خیال رکھنا ہے۔ خاص کر بدلتے موسم کی سرد ہواؤں سے۔ نو دس سال کی عمر کے بعد ہی یہ دوسرے بچوں کی طرح مکمل صحت یاب ہوپائے گا۔“
بڑی دعاؤں سے تمہیں واپس پایا تھا۔ اب تو میرے شب و روز تمہارے تھے۔ میرا آرام میری نیند تم پر قربان۔ تمہاری ہر ایک سانس پر میری نگاہ ہوتی۔میری فکر مند نگاہیں تمہارے سینے کے زیر و بم کا طواف کرتیں۔ میں راتوں میں چونک کر اٹھ جاتی کہ کہیں تمہارابستر تو گیلا نہیں ہوگیا، کہیں زیادہ پسینہ تو نہیں آرہا، کہیں کوئی کھڑکی کھلی تو نہیں رہ گئی، کہیں کوئی سرد ہوا کا جھونکا تمہاری سانسوں کا دشمن تو نہیں بن گیا۔اتنی Care کے باوجود اگر تمہیں سردی لگ جاتی تو میری سانسیں اکھڑنے لگتیں، میں گھنٹوں تمہیں گود میں لئے دعائیں مانگتی درود شریف پڑھ پڑھ کر دم کرتی۔ گرم تیل کی مالش کرتی۔ پوری پوری رات تمہیں گود میں لئے اونگھتی رہتی کہ بستر میں جاتے ہی تمہاری نیند ٹوٹ جاتی تھی۔تم آرام سے سو سکو اس لئے میں جاگتی رہتی۔ میں نے تمہارا اتنا خیال رکھا کہ تم چار پانچ سال کی عمر میں ہی عام بچوں کی طرح تندرست ہوگئے۔ہم نے کبھی دوسرے بچے کے بارے میں سوچا ہی نہیں کہ ہماری پوری دنیا تم تھے، پر ۔۔۔۔۔۔۔اب تو ہماری دنیا نے ایک نئی دنیا دیکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یادوں کا کرب انگیز کارواں میری پلکوں کو بھگو کر چلتا بنا اور بڑی مشکل سے میری زبان سے نکلا۔
”تم ہمیں یہاں تنہا چھوڑ کر دور دیس میں اپنی دنیا بسا لوگے اور یہ فیصلہ تم نے صرف سترہ سال میں ہی کرلیا۔“
اس نے تڑپ کر میری جانب دیکھا اور کہا۔ ”آپ نے سوچا بھی کیسے کہ میں آپ لوگوں کو یہاں تنہا چھوڑدوں گا“
اس کی آنکھوں میں میری محبت نمی بن کر تیرنے لگی۔ ”P.R. ملتے ہی میں آپ سبھوں کو وہاں بلالوں گا۔“
پر اس کی کیا ضرورت ہے میرے چاند! ایسا کیا ہے غیر ملک میں جو اپنے ملک میں نہیں؟ تمہاری جنریشن کا یہی تو مسئلہ ہے کہ تم لوگ ٹی وی اور فلموں میں مغربی ممالک کی چکاچوند اور دلفریب دنیا دیکھ کر ہی فیصلہ کرلیتے ہو۔ پر یاد رکھو، دور کا ڈھول سہانا ہوتا ہے۔“
”چچ………….ایسا نہیں ہے۔“ اس نے نہیں پر ذرا زور دیتے ہوئے کہا ”میں آپ کو کیسے سمجھاؤں“
الجھن اس کے چہرے پر صاف عیاں تھی۔ ایسا لگ رہا تھا وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ کرنا نہیں چاہتا پر کوئی طاقت ہے جو اسے مجبور کررہی ہے۔
”تم مجھے کیا سمجھاؤ گے۔ میں نے زندگی کے چالیس سال یوں ہی نہیں گزارے۔ بہت کچھ دیکھا سنا اور سمجھا ہے۔ تم مجھے زیادہ سمجھانے کی کوشش نہ کرو۔“‘ غصے میں میں نے گرم گرم چائے حلق میں انڈیل لی۔ میرا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔
”تم کہیں بھی جاکر اپنی نئی دنیا بسا سکتے ہو۔ نئی مٹی، نئی آب و ہوا سے اپنا رشتہ جوڑ سکتے ہو۔ کمزور پودے سے تناور درخت بن سکتے ہو۔ اپنی جڑیں نئی مٹی میں پیوست کرسکتے ہو، پھل پھول سکتے ہو۔ پر ہم۔۔۔۔۔ہم تو جہاں بھی جا ئیں گے یہ مٹی ہمارے جڑوں سے لپٹی رہے گی۔ ہم چاہ کر بھی اس مٹی سے الگ نہیں ہوسکتے۔ کئی دہائیوں پہلے بھی کچھ لوگوں نے ایسی کوشش کی تھی۔ نتیجہ تاریخ کی کتابوں سے کہیں زیادہ روندے ہوئے جسموں اور زخم خوردہ ذہنوں پر درج ہیں اور پھر ہم کیوں جائیں کہیں؟ ہمارے آباواجداد نے فیصلے کی گھڑی میں اسی مٹی کو چنا۔ اسی مٹی کی حفاظت میں اپنی جانیں قربان کیں۔“ ایسے کتنے ہی جذباتی جملے میرے ہونٹوں تک آکر رک گئے۔
”نہیں امی نہیں! میں آپ لوگوں کو تکلیف دینا نہیں چاہتا، پر اس ملک میں رہنا بھی نہیں چاہتا۔“ اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
”آخر کیوں؟ ایسا کیا ہوگیا میرے بچے کہ تم نے اس ملک سے رشتہ ہی توڑ لینے کا فیصلہ کرلیا۔ یاد رکھو منزل تک پہنچنے کے لئے صحیح راستے کا انتخاب ضروری ہے۔ ایک غلط فیصلہ نہ صرف پوری زندگی کا رخ بدل دیتا ہے بلکہ اس کا اثر آنے والی نسلوں پر بھی پڑتا ہے۔“
میرے اندر کی ماں اور استانی ایک ساتھ بولی۔ میں اسے سمجھاہی رہی تھی کہ ٹی وی پر پچیسویں خبر آئی۔
” فلاں گاؤں میں ایک مسلمان کو گائے گوشت کھانے کے شبہ میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا۔”
یہ سنتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور میری رگوں میں خون منجمد ہوگیا۔
*********************