(Last Updated On: )
محفلِ مشاعرہ، جس میں پُر بہار رنگینی چھائی ہوئی تھی یہاں ہر طرح کے غزل گو شاعر مدعو تھے ۔کسی نے انقلابی کلام پیش کیا اور کسی نے نیم رومانوی اشعار سے سامعین کے دلوں کے تار چھیڑ دیے تھے۔ لیکن فائزہ پروین، کے آتے ہی ایک پُر کیف سما بندھ گیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح محفل پر چھا گئی۔سامعین اور معزز صدر کی طرف سے اتنی پذیرائی اور دادِتحسین حاصل ہوئی کہ وہ مغرور ہونے لگی۔۔۔۔اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ مشاعرہ جب اختتام کو پہنچا تو مختلف الوان ضیّافتوں سے سجے میز پر پروین نے تناول طعام کیا۔ کچھ ساعتوں بعد ہاتھ میں پیپسی کا ٹن لیے لان میں چلی آئی۔لان کی کھلی فضا اس کے بدن کے ساتھ جیسے روح کو معطر کرگئی ۔وہ پیپسی کے چھوٹے چھوٹے سِپ لیتی ہوئی ٹہل رہی تھی، اچانک کہیں سےخوبصورت آواز سماعت سے ٹکرائی۔آواز میں اتنا سحر تھا کہ وہ مبہوت ہو کر اس کی طرف کھینچی چلی گئی ۔ پتا نہیں کون تھا جو اس کا کلام نہایت خوبصورت ترنم میں پڑھ رہا تھا۔سُر کی تان ٹوٹی تو اس پر چھایا سحر بھی ٹوٹا اور وہ بے اختیار تالیاں بجانے لگی۔ وہ شخص بدحواسی کے عالم میں کھڑا ہوا اور دوسرے ہی پل حیرت ومسرت سے کہہ اٹھا۔ ”فائزہ پروین آپ ؟“جواب میں پروین دلفریب انداز میں مسکرائی اور کچھ توقف کے بعد گویاہوئی۔
”آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے”
لیکن دوسرے ہی لمحے پروین کے چہرے پر حیرت کی پرچھائیاں لہرائیں۔۔۔۔ اس غیر متوقع طور پررونما معجزے سے وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی ۔
دل و دماغ پر یادوں کا دھواں پھیلنے لگا۔”معاذ“ وجود کے تئیں ایک طوفان سااٹھا۔ وہی جاذب نظر،بلند قد،خوبرو نوجوان جس کی آنکھوں پر صرف ایک عینک کا اضافہ ہوا تھا۔وہ خاموش تھی، اس کی سماعت سے اس شخص کی گھمبیر آواز ٹکرائی۔”یقین کریں ، میں آپ کا بہت بڑا مداح ہوں ۔“ جواب میں پروین دلفریب انداز میں مسکراتی ہوئی شیریں آواز میں اجازت طلب کی۔ ” کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں۔؟“
”شرمندہ نہ کریں یہ تو میری خوش نصیبی ہوگی” اس کا لہجہ پُرمسرت تھا۔پروین شکریہ ادا کرتی ہوئی اس کے پہلو میں بیٹھ گئی۔کچھ لمحات تعارفی گفتگو کے نذر ہوئے پھر معاذ ، اجازت طلب کرتا ہوا پروین کی پہلی غزل اپنی خوبصورت آواز میں سنانے لگا جو ابتدائی دنوں میں بہت ہی مشہور ہوئی تھی۔
فلک پہ چمکتا چاند اور لان کے کناروں پر کیاریوں میں سجے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو نے دل ودماغ کو معطر کیا۔آواز کاجادو تھا یا ماحول کا سحر،دونوں کے وجود پر سرور بخش کیفیت طاری ہونے لگی۔معاذ کے پاس پروین کے کلام کا ایک ذخیرہ موجود تھا ، پروین کی سانسیں سینے میں الجھنے لگیں۔جس کی یاد اور ہجر میں قید ، اس نے بےشمار اشعار لکھے تھے۔ وہی شخص ساری امانتیں سنبھالے ،حقیقت کا روپ دھارے اس کے پہلو میں بیٹھا تھا۔
”مجھے آپ کے کئی اشعار یاد ہیں ۔”
” اچھا۔۔۔۔”
” آپ استادِسخن ہیں۔“ یہ سن کرپروین دوبارہ ہنس پڑی اور شکریہ ادا کیا ۔
”آپ کا آٹوگراف چاہتا ہوں۔“اس نے اپنی ڈائری پیش کی ۔
پروین کچھ تذبذب کا شکار ہوئی پھر ہاتھ بڑھا کر ڈائری لےلی۔
” اس حقیقت کے نام جسے میں نے سراب سمجھا !! “
نیچے اپنا نام لکھ دیا۔
خوبصورت عبارت کا مفہوم سمجھنے سے قاصر معاذ کے چہرے پر مسرت خیز تبسم چھا گیا۔”بہت بہت شکریہ “
”آپ شملہ سے تعلق رکھتی ہیں؟“
”جی“
”میرا آبائی وطن بھی وہی ہے“
” مجھے پتا ہے”
”کیا مطلب ؟“معاذ حیرت سے پروین کو دیکھنے لگا۔
”ہم کبھی آپس میں پڑوسی تھے“
” واقعی ۔۔۔؟ تعجب کا مقام ہے۔۔؟ مجھے اس بات کا علم ہی نہیں ؟“
وہ ایک بار پھر حیرت سے اچھل پڑا۔
”مرتضی احمد خان میرے والد محترم ہیں “ پروین نے انکشاف کیا تو وہ کھل کر مسکرایا۔
” اوہ! بالکل پڑوس میں ان کا مکان تھا۔لیکن میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔؟جبکہ ان کے ایک فرزند ، علی میرے ہم عمر تھے۔اُن سے رسمی تعلقات تھے “
” جی ! مجھے پتاہے۔
ابو کی خواہش تھی کہ علی بھائی آپ جیسے ہونہار انسان بنیں۔۔۔ !“
” اچھا ! “ معاذ ، پروین کی باتیں بڑی دلچسپی سے سنتا ہوا مسکرائے جارہا تھا۔
”محلے میں سب آپ سے متاثر تھے”
یہ بات قابل قبول نہیں۔۔۔!!! وہ بڑی شرمندگی سے ہنستا ہوا کہا تھا۔
ان دونوں کے درمیان گفتگو کا سلسلہ تقریب کے اختتام تک جاری رہا۔
“کچھ وقت آپ کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔کل آپ مصروف تو نہیں؟”
” مکمل زندگی سونپ رکھی ہے ، ایک شام کی بات کررہے ہو ؟ “ پروین کی دھڑکنیں شکوہ کرگئیں۔ پروین کو خاموش پاکر اس نے دوبارہ اصرار کیا
”پلیز۔۔۔۔۔۔“۔
” ان شاءاللہ ۔۔۔ میں کوشش کرتی ہوں “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاذ ایک سافٹ ویئر انجینئر تھا۔ سلجھا ہوا ، قابل انسان ، محلے کے بزرگ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد بھی معاذ کی روش اختیار کرے۔ پروین کے والدین کی آرزو تھی کہ ان کا بیٹا علی، معاذ جیسا ہونہار بنے۔۔۔گھر میں صبح وشام صرف معاذ اور اس کی خوبیاں کا ذکر ہوتا۔۔۔ پروین ، معاذ کی خوبیوں سے واقف تو نہ تھی ہاں دن رات کے ذکر سے اس کے دل میں معاذ کے لیے حسین ورنگین جذبات بیدار ہوئے ۔۔۔دل ہولے ہولے دھڑکنے لگا اور ان دھڑکنوں پر معاذ کا نام لکھا جانے لگا۔وہ ہر پل اسے سوچتی اور تنہائی میں اس کے تصور سے ڈھیر ساری باتیں کرتی۔۔۔خوبصورت جذبات و احساسات سے مزین یہ وقت کھلکھلاتا ہوا آنکھ مچولی کھیلتا تیزی سے گزرگیا۔
معاذ، ترقی کی منازل طے کرتا چلاگیا۔اس کے برعکس پروین کی زندگی کچھوے کی مانند رینگنے پر مجبور تھی۔مفلسی،بے روزگاری، آہیں اور تفکرات نے گھر کے آنگن میں بسیرا ڈال رکھاتھا۔امن اور سلامتی کے کسی کبوتر کا یہاں گزر نہ ہوتا۔۔۔۔ان حالات میں پروین کی شادی بہت بڑا مسئلہ تھی۔ غریبی اسقدر تھی کہ بیاہ کے تئیں سوچنا جیسے جرم تھا۔ اکثر وہ خیالوں کی مہکتی راتوں میں معاذ کے ساتھ ایک زندگی جی لیتی ، احساس کے دھویں کو ڈائری میں تحلیل کرنے کی کوشش کرتی ۔۔۔اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ایک شاعرہ بن کر دنیا کے سامنے ابھر آئی۔۔۔۔۔ بے رحم وقت نے کوئی کروٹ نہیں بدلی تھی۔ صرف یہ احسان ضرور کیا تھا، اسے وقت کی معروف شاعرہ بنادیا ۔
معاذ نے کسی امیرزادی سے شادی کرلی تھی اور یہ خبر پروین پر بجلی بن کر گر پڑی۔وہ جیسے غم و یاس کے سمندر میں ڈوبتی چلی گئی ۔ اس کے اشعارمیں یاسیت، ہجر اور تنہائی کے رنگ اترنے لگے۔
شادی کے چند ہی ہفتوں بعد وہ اپنی بیوی کو لے کو پتا نہیں کہاں روپوش ہوا تھا۔اس بات کا کسی کو کوئی علم نہ ہوسکا۔
۔۔۔۔۔
معاذ کی گاڑی وسیع سڑک پر فراٹے بھرتی ہوئی منزل کی جانب کوشاں تھی۔دونوں کے درمیان بوجھل سی خاموشی طاری تھی۔۔۔ہاں دل کی دھڑکنیں سنائی دے رہی تھیں۔ خوبصورت جھیل کے کنارے پہنچ کر معاذ نے گاڑی پارک کی۔گنگناتی ہوئی اس سرمئی شام کا منظر بہت حسین اور دلفریب تھا۔پرندے ، رنگ برنگی ، شوخ مچھلیوں کا شکار کرتے ہوئے مغرور نظر آرہے تھے۔ بطخوں کے خوبصورت جوڑے ایک دوسرے سے چونچیں ملاتے ہوئے جیسے عہد وپیماں نبھانےکی قسمیں کھاتے ہوئے نظر آئے۔۔۔یہ نظارہ سیاحوں کی دلچسپی کاخصوصی مرکز بنا ہوا تھا۔ سیاحوں کے موبائل سیلفی کے ذریعے ان کی معصوم محبت کے گواہ عینی بنتے ہوئے مسکرارہے تھے۔
سرسراتی ہوائیں اور ان ہواؤں سے اڑتے خشک زرد پتے، ڈوبتے سورج کی سنہری کرنیں ،ماحول کو ایک جادوائی کیفیت بخش رہےتھے ۔ معاذ نے پروین کی کئی غزلیں خوبصورت ترنم میں سنائی ۔
” اپنی فیملی اور بچوں کے تعلق سے کچھ بتائیں۔؟“
اس اچانک کیے گئے سوال پر معاذ بجھ گیا۔پروین نے محسوس کیا کہ ذاتیات پر مبنی سوال شاید معاذ کو ناگوار گزرا تھا۔
”آپ سنائیں آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟ آئے دن یہ موضوع میڈیا پر خوب گردش میں رہتا ہے۔“معاذ نے سوال کے جواب میں سوال داغا تو پروین ہنس پڑی۔
:یہ غلط ہے۔۔۔آپ نے میرا سوال تو حذف کیا ۔”
“خیر۔۔۔۔! شادی نہ کرنے کی وجہ ،مجھے کسی شہزادے سے عشق ہوگیا تھا“
”کہیں وہ میں تو نہیں؟“
”خوش فہمی “ پروین زور سےہنسی ،معاذ بھی ہنسنے لگا۔
”مجھے اکثرڈوبتے سورج کی کرنیں اداس کر دیتی ہیں ، حیرت ہے آج میں اداس نہیں “پروین سنہری بوجھل کرنوں کو دیکھتی ہوئی گنگنائی۔ معاذ اس کی جھیل سی گہری آنکھوں میں کھو گیا۔
فطرت کا لطف اٹھاتے ہوئے دونوں نے اس شام کو یادگار بنایا۔
دوسری شب معاذ نے پروین کو ڈنر پر مدعو کیا۔اس کی نگاہیں معاذ کی
بیگم اور بچوں کو تلاش کررہی تھیں۔ معاذ نے اس کی کیفیت بھانپتے ہوئے ہنسا
”شاید آپ میری بیگم اور بچوں کو کھوج رہی ہیں؟“
” جی ہاں۔۔۔“
” میری بیوی میرے ساتھ نہیں رہتی !!“
”میں سمجھی نہیں؟“
” شادی کے صرف چند ماہ بعد ہی اس نے مجھ سے خلع لے لیا تھا“ پروین حیرت سے معاذ کو دیکھنے لگی۔ معاذ ایک قابل انسان تھا۔دنیا کی ہر نعمت اور آسائش اس کے قدم چوم رہی تھی۔بیوی کا خلع لینایقیناً ایک معمہ تھا۔
کھانا،معاذ نے خود بنایا ، جو بے حد لذیذ تھا۔اس حسین شام کی ملاقات بھی ہجر کی چادر اوڑھے دونوں کو جدا ہونے پر مجبور کیا اور وہ جدا ہوگئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔
یادوں کے خوشنما پھول سمیٹے وہ شملہ لوٹ آئی۔دونوں کے درمیان مکمل رات بے شمار موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوتا لیکن ذاتیات پر مبنی گفتگو سے دونوں ہی پرہیز کرتے۔وقت تیزی سے بڑھ رہاتھا۔۔۔اس دوران پروین کے والدین کا انتقال ہوگیا اوربھائی اپنے سسرال ممبئی شفٹ ہوگیا۔ پروین کی تقرری کسی کالج میں بطورِ پروفیسر ہوئی۔
۔۔۔۔۔
ایک شام ڈور بیل پر پروین نے دروازہ کھولا تو سامنے معاذ کو پاکر حیران رہ گئی۔ ” آپ؟“
”جی میں“ اس نےمسکراتے ہوئےاس کی آنکھوں میں جھانکا۔
”سرپرائز ، بنا کسی اطلاع ؟“
”کیوں آپ کو اچھا نہیں لگا؟ واپس چلا جاؤں؟“
”ایسی بات نہیں “
” آفس کے کام سے شملہ آیا ہوں ، سوچا اپنی دوست کی خیریت پوچھ آوں۔
”اچھا کیا۔۔۔کچھ تو حوصلہ دکھایا“
”آپ چوٹ کررہی ہیں؟“
”نہیں۔۔۔۔۔۔“پروین کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔
”گزشتہ ملاقات کو کتنا عرصہ بیت گیا لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے کل ہی کی بات ہے”معاذ کے اس جملے پر پروین اداسی سے مسکرائی اور نہایت کرب انگیز لہجے میں کہنے لگی ۔
”رب العالمین نے جھوٹ سے منع کیا ہے۔۔۔۔پھر کیوں جھوٹ بولتے ہو ۔۔۔؟
ہجر کی لمبی و سیاہ راتوں کو گن گن کر گزرا گیاہے۔۔۔۔یاسیت میں ڈوبی غزلوں کا ہر مصرع گواہ ہے!!
معاذ دکھ سے مسکرایا۔۔۔۔ڈھیر ساری باتیں انہوں نے دروازے پر کھڑے کھڑے ہی کرلی تھیں۔شاید دونوں ہی اس ملاقات کے سحر میں تھے۔باہر برف گر رہی تھی۔پروین نے آتش دان میں لکڑیوں کو سلگایا۔اس کے باوجودکمرے کی یخ بستہ خنکی میں کوئی فرق نہیں آرہا تھا۔شاید دونوں کے وجود میں ماضی برف بن کر جم گیا تھا۔
” آتش دان کے قریب اس صوفے پر بیٹھ جائیں”پروین آتش دان میں لکڑیوں کااضافہ کرتی ہوئی اشارہ کی۔
یہ سن کر وہ اٹھا اور آتش دان کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا۔دونوں نے وہیں بیٹھ کر خاموشی سے ڈنرکیا ۔ اس کے بعد پروین نے کافی بنائی اور کافی کی چسکیوں کے دوران شاعری پر بات چیت ہونے لگی۔اشعار پر تبصرے بھی ہوئے لیکن ذراسی دیر میں وہ پروین کی غزل گنگنانے لگا۔ پروین پر ایک سحر طاری ہوا۔ گویا خود کا کلام پہلی بار سن رہی تھی ہرلفظ دل اور روح کی گہرائیوں میں پیوست ہوتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔
دنیا و مافیہا سے بے خبر، سلگتے وجود کے اطراف شاعری کی کئی کتابیں پھیلی ہوئی تھیں۔ان کتابوں سے کوئی کتاب اٹھا کر جب وہ معاذکو دینے لگتی اس دوران لمس کا ننھا سا شبنمی قطرہ جو دل پر چھائےریگستان کو چھو کر اسے سیراب کرنے کی کوشش کرتا۔پروین جب شاعری سے اکتاگئی تو اس نے پہلو بدلتے ہوئے بنا کسی تمہید کے سوال داغا۔
”شریک حیات کی کبھی یاد آئی؟ “
پروین کے اچانک سوال پر معاذ چونکا۔
”کچھ یادیں صرف یادیں نہیں بلکہ زندگی کا اثاثہ ہوتی ہیں جیسے آپ کے ساتھ گزرے مسوری کے وہ حسین لمحات ! لیکن کچھ یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو سوائے درد اور زخموں کے کچھ نہیں دیتیں۔ شریک حیات سے منسلک یادیں تو صرف زخموں سے پُر ناسور بنی ہوئی ہیں۔“
پروین نے اسے غم کے دریا میں غوطہ زن پاکر نہیں چھڑا اور چپ چاپ سنتی رہی
”بے وفا چاہتیں ! “وہ اپنی زندگی کی کتاب کے اوراق پلٹے ہوئے گہرے کرب سے بول رہاتھا ۔پروین دھیرے سےبھیگی پلکھوں کی جھالر اٹھاتے ہوئےنم آواز میں گویا ہوئی۔
” چاہتیں کبھی بے وفا نہیں ہوسکتیں !“
”ممکن ہے لیکن میری بد نصیبی کہہ لیں کہ تقدیر کی سیاہی نے اس المیہ کو میری پیشانی پر پیوست کردیا۔ آزمائش کی بھٹی میں جل رہا ہوں ۔ایک آگ کادریا ہے جس میں ڈوب چکا ہوں مگر اب دم گھٹ رہا ہے۔۔“ معاذ کی آنکھیں چھلک گئیں۔
پروین بس خاموش نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔
”اختلاف اور نفرتیں زیادہ ہوں تو محبت کی دلیلیں کارآمد ثابت نہیں ہوتیں ۔ایسے میں خاموشی کے دریا میں خود کو غرق کردینا چاہیے نفرت اور اختلاف کی آگ خود بخود بجھ جاتی ہےسو میں نے خاموشی کی چادر تان لی، تقدیر کے فیصلوں کے آگے کبھی لب کشائی نہ کی لیکن اب تھک گیا ہوں“
آتش دان کی دھیمی تپش محسوس کرتے ہوئے پروین نے پہلو بدلا اور نہایت سنجیدگی سے استفسار کیا۔
” علیحدگی کی کوئی وجہ ،کوئی سبب ؟ مناسب سمجھیں تو اس غم میں اپنا شریک بنائیں۔کیونکہ دکھ بانٹنے سے کچھ کم ہوتے ہیں “
”صحت کے کچھ مسائل تھے” معاذ شرمندگی سے نظریں چرانے لگا۔
”اوہ۔۔۔!!“ خواہ مخواہ اس نے معاذ کی دکھتی رگ پر انگلی رکھی تھی۔ شرمندگی محسوس کرنے لگی۔
” علاج کی کچھ ضرورت تھی سب ٹھیک ہوسکتا تھالیکن اس نے انتظار نہ کیا اور صرف چند ہفتوں میں خلع کا تقاضہ کرلیا۔دنیا کے سامنے مجھے اتنا رسوا کیا کہ میں کئی مہینوں تک اپنا چہرہ چھپائے بیٹھا رہا“
”اوہ!!!!!“
”پروین ! تم بتاؤ ، تم نے شادی کیوں نہیں کی ؟“ معاذ آپ سے تم پر اترآیا اور نہایت اپنائیت سے سوال کیا تھا۔
معاذ کے اس سوال پر پروین دھیرے سے اٹھی اور فریج سے پانی کی بوتل نکالنے لگی۔پیاس سے اس کا گلہ خشک ہو رہا تھا۔ باہر برف میں تیزی آگئی تو پروین نے بوتل تھامے ہوئے آتش دان کے قریب پہنچ کر اس میں مزید لکڑیاں ڈال دی ۔ کھڑکیوں کے گلاس پر کمرے کی حرارت اور باہر کی خنکی کے باعث بھانپ کے قطرے ایک عجب انداز میں رقص کرتے لہراتے ہوئےنظر آرہے تھے۔خاموشی بوجھل ہونے لگی تو پروین نے بوتل کے اطراف انگلیوں کی گرفت تنگ کرلی۔گلے کو تر کیے بنا جیسے خود کو سزا دیتی ہوئی معاذ کے سوال کا جواب دیتی گویا ہوئی۔
” زندگی میں کئی موقعے آئے۔۔۔ کئی ایک نے قدموں میں دل بچھایا۔۔۔۔۔ لیکن اس دل نے کہیں قرار نہ پایا۔کیونکہ وہ کسی اور کی امانت تھا”
معاذ خاموش دھڑکتے دل کے ساتھ سن رہا تھا۔ پروین کچھ توقف کے بعد سوزِ جگر میں ڈوبی آواز میں گویا ہوئی۔
” آپ نے اپنے پڑوس میں کبھی ایک نگاہ بھی نہیں ڈالی ۔۔۔جبکہ میں گھنٹوں اسی امید میں کھڑی رہتی کہ وقت کا کوئی مہربان لمحہ ایسا ضرور آئے گا کہ آپ کی نگاہ کرم عنایت ہوگی۔۔۔ لیکن افسوس میرے خواب تو سراب تھے ۔ “
پروین جیسے روح سے چمٹی ہجر کی چنگاریاں کو بجھانے کی کوشش کرتی، بوتل ہونٹوں سے لگاکر گھٹاگھٹ پانی پی گئی۔ معاذ ہونقوں کی مانند دیکھتا رہا ایسالگاجیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جب بوتل ختم ہوئی تو وہ ہولے ہولے رونے لگی۔معاذ دھیرے سے اٹھا اور پروین کو تھام لیا۔
”یہ عجیب داستانِ محبت ہے۔تم مجھے دن رات دیکھتی رہی، مجھ سے محبت کرتی رہی جبکہ میں تم کو بنا دیکھے ،تم سے عشق کرنے لگا۔۔۔تمہاری شاعری میری روح میں سرایت کرگئی “
کچھ توقف کے بعد گہری سانس لیتا ہوا دوبارہ گویا ہوا۔
”تمام راز عیاں ہونے کے باوجود ہم ادھورے ہیں ادھوری محبتیں ہیں ۔کیونکہ ہماری تقدیر کا لکھا بھی ادھورا ہے ! اگر ہم ایک ہوئے بھی تو شاید تمھاری تشنگی کم نہ ہوگی۔ ہوسکتا ، نا آسودہ خواہشات تمہارے دامن میں ایسی محرومیاں اور قنوطیت بھر دیں،جس کے زیر اثر تم ہوش وخرد سے بیگانہ پاگل وحشی بن جاؤ۔کیونکہ میں ایک ادھورا انسان ہوں میرے پاس زندگی کے رنگ کچے ہیں اور میں کچے رنگوں کی محبت کیسے کرسکتا ہوں بھلا؟!“
”یہاں کوئی مکمل نہیں ہر انسان کسی نہ کسی اعتبار سے ادھورا ہوتا ہے ! “پروین نے سسکاری کے درمیان کہا۔
” پیار ، محبت ، عشق ان سب پر میرا کوئی حق اور اختیارنہیں۔ “معاذ کی آواز بھراگئی۔
”کون کہتا ہے؟“پروین ہولے سے چیخی
”یہ کہوکون نہیں کہتا؟“وہ کرب سے مسکرایا۔
جب ہم نے اتنے سال ایک تصوراتی خاکے میں مقید ہوکر محبت کی، تو کیا اسے حقیقت پاکر۔۔۔۔محض ادھوراجان کر کنارہ کشی اختیار کرلیں؟جب زندگی نے ایک عرصے تک تہی دامن رکھا توبھلا آگے کی کیا پرواہ کریں۔ ؟!“
معاذ کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔
”جسموں کی پیاس عشق کے آگے ایک حقیر سی شے ہے۔ اگر بجھ گئی تو عشق کہیں دور رہ جائے گا پھر معشوق اسے زندگی بھر تلاش کرتا رہے گا !!“
”فیصلے آسمان سے اتر رہے ہیں تو انھیں کسی دلائل سے شرمندہ نہ کریں!!!!!“
معاذ نے مسکرانے کی کوشش کی تو پروین نے آگے بڑھ کر اس کی پلکوں سے گرتے آنسو اپنی انگلیوں کی پوروں میں جذب کر لیے۔
” روح کی پیاس بجھانا چاہتی ہوں جو پتا نہیں کتنی صدیوں سے پیاسی ہے۔“
وقت کا فیصلہ ہے جو شاید ایک عرصے بعد ان کے قدموں سے خود ہی آکر لپٹ گیا یا شاید محبت کے سمندر کی تیز لہریں،ویران جزیروں سے ٹکرا کر انہیں سیراب کرنا چاہتی تھیں۔
دونوں نے سوچا:
یادوں کی مزار پر دیپ جلا کر زیست کو روشنی بخشی نہیں جاسکتی بلکہ حقیقت کی پگڈنڈیوں پر شمع جلاکر زندگی میں اجالا ضرور پھیلایا جا سکتا ہے”