(Last Updated On: )
موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔چار سو تاریکی چھائی ہوئی تھی۔سڑک سنسان تھی۔ہوا تیز چل رہی تھی۔ درخت زور زور سے جھوم رہے تھے۔ پتوں کی سرسراہٹ سے ایک دلفریب سی موسیقی پیدا ہو رہی تھی۔کنڈی سے بے نیاز کھڑکی کے پٹ کھلے ہوئے تھے اوربارش کی ننھی ننھی بوندیں کمرے کے اندر آرہی تھیں۔بارش کی یہ بوندیں ادیبہ کے چہرے پر پڑتیں تو اس کے نیم مردہ جسم میں ہلکی سی جنبش پیدا ہوتی اور وہ کانپ کر رہ جاتی۔
یہ ایک تنگ و تاریک کمرہ تھا جس میں پرانے سامانوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ دیوار کا پلاسٹر جھڑ رہا تھا۔ان دیواروں پر مختلف قسم کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔پورا کمرہ گرد آلود تھا۔اس کمرے میں ایک پرانا ٹوٹا پھوٹا پلنگ پڑا تھا جس پر ایک پھٹا پرانا گدّا بچھا ہوا تھا۔چھت کے اوپر ایک بلب روشن تھا جس کی زرد روشنی کمرے کے ماحول کو اور بھی ڈراونا بنا رہی تھی۔یہ جلتا کبھی اور کبھی بجھ جاتا۔آسمان میں بجلی گرجتی تو ادیبہ سہم جاتی اور اس کے پورے جسم میں کپکپی سی دوڑ جاتی۔سردی بڑھ گئی تھی۔ پلنگ پر ایک چھوٹی سی چادر تھی جو اس کے پورے جسم کو ڈھکنے میں ناکام تھی۔ سر چھپاتی تو پیر کھل جاتا۔پیر چھپاتی تو سینہ کھل جاتا اور اس کا گداز جسم نمایاں ہو جاتا جسے وہ اپنے نازک اور ملائم ہاتھوں سے ڈھکنے کی ناکام سی کوشش کرتی۔
بارش کچھ اور تیز ہو گئی تھی۔ ہوا کے جھونکوں سے کھڑکی کے پٹ آپس میں ٹکرا رہے تھے۔ پٹوں کے ٹکرانے سے ادیبہ کے ذہن کی کھڑکیاں کھل گئیں اور اسے دھیرے دھیرے سب کچھ یاد آنے لگا۔
نہ جانے وہ کون سا پل تھا….نہ جانے وہ کون سا منحوس پل تھا جب اس کی ملاقات جاوید سے ہوئی تھی۔وہ ایک کمسن اور خوبصورت لڑکی تھی۔کمر تک لہراتی سیاہ زلفیں،جھیل جیسی گہری آنکھیں،گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ اور صراحی دار گردن۔وہ ہر لحاظ سے ایک حسین لڑکی تھی اور اس کا ملکوتی حسن کسی کو بھی دیوانہ بنا دینے کے لیے کافی تھا۔وہ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور چار بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی۔اس سے بڑی تین بہنوں کی شادی ہو چکی تھی۔اس کے والد نوکری سے سبک دوش ہو چکے تھے۔ ان کی پنشن قلیل تھی اس لیے گھر کے مالی حالات اطمینان بخش نہیں تھے۔ بی ۔اے پاس کرنے کے بعد ادیبہ نے نوکری کی تلاش شروع کر دی۔آخر کافی تگ و دو کے بعد اسے ایک جگہ کام مل گیا ۔اسی آفس میں جاوید نام کا ایک نوجوان اور خوبصورت لڑکا بھی کام کرتا تھا جس کا نام جاوید تھا۔جاوید کے والد کا بہت بڑا کاروبار تھا ۔روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن جاوید کو اپنے والد کے کاروبار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے محض اپنا شوق پورا کرنے کے لیے یہ نوکری کی تھی۔وہ جو کہتے ہیں نا کہ فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن۔دونوں کی نظریں ملیں اور کیوپیڈ نے اپنا تیر چلا دیا۔دونوں کے دل گھائل ہو گئے۔ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔رفتہ رفتہ دونوں قریب آتے گئے۔وہ اس سے سنہرے مستقبل کی باتیں کرتا۔ادیبہ اسے اپنے گھر کے حالات بتانا چاہتی مگر وہ اس کی باتوں پر دھیان نہیں دیتا۔
وقت گزرتا گیا۔ادیبہ چونکہ آخری بیٹی تھی،اپنے والدین کی آخری ذمہ داری تھی لہذا انہوں نے اس کے لیے رشتہ تلاش کرنا شروع کیا۔رشتے کی بات سن کر وہ کافی پریشان ہو گئی۔ایک روز اس نے جاوید سے کہا۔
”جاوید! میرے لیے رشتہ دیکھا جا رہا ہے۔ تم کچھ کرو نہیں تو میری شادی کہیں اور ہو جائے گی۔“
”ارے ! اتنی جلدی شادی؟ ابھی ہم لوگوں کو ملے ہوئے وقت ہی کتنا گزرا ہے؟کچھ دن رک جاؤ۔ابھی تو ہم لوگوں کو کافی مستی کرنی ہے۔“جاوید نے اسے اپنی مضبوط بانہوں میں بھرتے ہوئے کہا۔وہ چھٹپٹا کر اس سے الگ ہو گئی۔جاوید کی باتیں سن کر اسے اپنے خوابوں کا محل مسمار ہوتا دکھائی دیا۔اسے جاوید کی محبت جھوٹی لگنے لگی…. ایک دکھاوا…. ایک فریب۔اس کا گلاب چہرہ مر جھا گیا۔جاوید اس کی بدلتی ہوئی کیفیت کو بھانپ گیا۔ اس نے پیار بھرے انداز میں ادیبہ کا ہاتھ تھام لیا اور اسے نرمی کے ساتھ سہلاتے ہوئے کہنے لگا۔
”کیوں پریشان ہوتی ہو میری جان! ابھی میں زندہ ہوں اور جیتے جی تمہیں کسی دوسرے کا نہیں ہونے دوں گا۔“اس نے پھر ادیبہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔لڑکیاں معصوم ہوتی ہیں اور محبت کی ذرا سی گرمی سے موم کی طرح پگھل جاتی ہیں۔ادیبہ بھی پگھل گئی۔اس نے جاوید کے چوڑے سینے میں اپنا سر چھپا لیا اور خود کو محفوظ و مامون تصور کرنے لگی۔
رات کافی بیت چکی تھی مگر ادیبہ کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔آج اس نے اپنے والدین کی گفتگو سنی تھی۔ دونوں اس کی شادی کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔سونے سے پہلے ادیبہ کی ماں حمیدہ اس کے پاس آئی۔اس نے کہا۔
”بیٹی! اب تو اپنے سسرال چلی جائے گی اور ہم لوگ اکیلے رہ جائیں گے۔“ادیبہ نے خاموشی کے ساتھ اپنی ماں کی باتیں سنیں۔اس کی بوڑھی اور بے بس ماں کا چہرہ بالکل زرد پڑ گیا تھا۔ادیبہ شش و پنج میں پڑ گئی۔ ایک طرف اس کا مستقبل تھا اور دوسری جانب بوڑھے ،بے بس اور بے سہارا والدین۔وہ سوچنے لگی کہ اس کے چلے جانے کے بعد انہیں کون سنبھالے گا؟کیا جاوید اس کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کی بھی ذمہ داری اُٹھانے کے لیے تیار ہو جائے گا؟ یہی سب سوچتے سوچتے نہ جانے کس وقت وہ نیند کی گہری وادیوں میں اُتر گئی۔
دوسرے روز جب وہ آفس گئی تو اس نے جاوید سے دو ٹوک لہجے میں پوچھا۔
”جاوید! تم مجھ سے نکاح کر رہے ہو یا نہیں؟“جاوید نے اس بات سنی ان سنی کر دی۔وہ جھلّا گئی۔اس نے جاوید کا کالر پکڑ لیا اورذرا تیز لہجے میں بولی۔
”جاوید! کیا تم میری بات سن رہے ہو؟کیا تم اپنے والدین کو لے کر میرے گھر آؤگے؟“
”یار ! یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟اچانک تم پر شادی کا بھوت کیسے سوار ہو گیا ؟“ادیبہ خاموش ہو گئی۔ جاوید کہنے لگا۔
” آج تمہیں کیا ہو گیا ہے؟کیوں خود کو اور مجھے بھی پریشان کر رہی ہو؟ آخر تم چاہتی کیا ہو؟“
ادیبہ محبت بھرے لہجے میں کہنے لگی ۔
”میں تمہیں چاہتی ہوں۔تمہارا پیار چاہتی ہو۔زندگی کے خوشگوار لمحات تمہارے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں۔تم جسم ہو میں تمہاری روح بننا چاہتی ہوں۔تم سمندر ہو تو میں لہر بننا چاہتی ہوں۔تم سُر ہو تو میں سنگیت بننا چاہتی ہوں۔میں تم سے مل کر مکمل ہونا چاہتی ہوں۔“اتنا کہتے کہتے ادیبہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سمندر بہہ نکلا اور وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگی۔جاوید نے اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے دلاسہ دینے کے انداز میں کہا۔
”چلو، آج میں تمہیں وہ سب کچھ دوں گا جو تم چاہتی ہو۔“ادیبہ کے چہرے پر ایک دلنواز مسکراہٹ دوڑ گئی۔اسے اپنا مستقبل خوبصورت نظر آنے لگا۔اسے جاوید کا کیا ہوا ہر وعدہ سچ دکھائی دینے لگا۔اسے جینے کی خوبصورت وجہ مل گئی تھی۔
بارش رک چکی تھی۔آسمان صاف ہو گیا تھا اور چاند روشن تھا۔ کمرے کا بلب کب کا بجھ چکا تھا مگر چاند کی کرنیں کھڑکی سے اندر آ رہی تھیںاور ان کی روشنی میں ادیبہ کے گالوں پر بہتے ہوئے آنسو موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔اس نے بستر سے اُٹھنے کی کوشش کی مگر اُٹھ نہ سکی اور ایک کراہ کے ساتھ پھر سے بستر پر ڈھ گئی اوراس پر ایک بار پھر بے ہوشی طاری ہونے لگی۔ڈوبتے ہوئے ذہن کے ساتھ اسے خیال آیا۔
”افسوس!اس نے جسے ہیرا سمجھا تھا وہ کانچ کا ٹکرا نکلا جس نے اس کے سارے وجود کو ٹکرے ٹکرے کر دیا تھا اور وہ اپنی زخمی روح کے ساتھ ایک بے جان شے کی طرح ایک انجان اور تاریک جگہ پر پڑی صرف یہ سوچے جا رہی تھی کہ نہ جانے وہ کون سا منحوس پل تھا جب اس کی ملاقات جاوید سے ہوئی تھی۔
٭٭٭