آج پھر قمر آرا پر جن کی سواری آٸی ہے۔
ایسا جب بھی ہوتا ہے پورے گاؤں میں بھونچال سا آجاتا ہے۔ جسے دیکھو وہ اُدھر ہی دوڑا جا رہا ہے۔ ان میں بہت سے تو صرف تماش بین ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ان باتوں پر یقین نہیں ہوتا، پھر بھی وہ اپنی آنکھ سے دیکھ کر اپنی تشفی کرنا چاہتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کوئی نہ کوئی سوال لے کر جاتے ہیں اور انہیں اس وقت بے حد حیرت ہوتی ہے جب قمر آرا سوال پوچھے بغیر ان کا جواب دے دیتی ہے۔ پہلے تو ہر جمعرات کو یہ سواری آتی تھی اور لوگ بہت پریشان ہوتے تھے۔ شروع میں جن کا تیور بھی بہت اُگر ہوتا تھا۔ سامان اٹھا پٹخ کرنا، توڑ پھوڑ، لوگوں کو دھکا دینا اور گالی گلوج کرنا بھی اس کی عادت میں شامل ہوا کرتا تھا، لیکن دھیرے دھیرے اس کا تیور شانت ہوتا گیا اور اس کے مزاج میں شانتی آتی گئی۔
قمرآرا اکرام بابو کی بھانجی ہے۔ اس کی شادی سونار پٹی گاؤں کے محمد بابو کے بڑے لڑکے عباس سے ہوئی ہے۔ اپنے مزاج سے وہ لڑکی بڑی نیک طینت اور گھریلو فطرت کی ہے۔ لڑنا جھگڑنا اس کی فطرت سے باہر ہے۔ وہ اپنے اچھے برتاؤ کی وجہ سے گاؤں بھر میں مقبول بھی رہی ہے۔اس کا زیادہ تر وقت اپنی نانیہال میں ہی گزرا ہے، اس لئے وہ فلاں کی بیٹی کے بجائے فلاں کی بھانجی کے نام سے جانی جاتی ہے۔
’’یہ جن کی سواری قمرآرا پر ہی کیوں آتی ہے؟‘‘
اس سوال کا جواب تلاشنے کی بہت کوشش کی گئی، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ لے دے کر سب یہی کہہ کر خاموش ہوگئے:
’’بھئی یہ تو جن کی اپنی مرضی ۔۔۔ وہ جسے بھی چاہے منتخب کرلے۔‘‘
گاؤں کے زیادہ تر لوگ کم پڑھے لکھے ہیں۔ آدھی سے زیادہ آبادی تو مزدوروں پر مشتمل ہے۔ کسان طبقہ کے لوگ بس واجبی پڑھے لکھے ہیں، اس لئے وہ جن کو آدمی سے بھی بڑا تصور کرتے ہیں۔ جن کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں بھی مشہور ہیں۔ لوگ طرح طرح کے سوالات بھی دریافت کرتے ہیں جن کا انہیں خاطر خواہ جواب بھی ملتا ہے۔ اس طرح دھیرے دھیرے قمرآرا کی اہمیت لوگوں کی نگاہ میں بڑھتی چلی گئی ہے۔
ایک دن میں نے اماں سے کہا:
’’اماں ان سب فضولیات میں گاؤں والے کیوں یقین رکھتے ہیں؟‘‘
اماں نے اپنے دونوں کانوں کی لو کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا:
’’نابیٹا نا! ایسا نہیں کہتے جن ناراض ہوجائے گا۔‘‘ انہوں نے اپنی بات جاری رکھی: ’’بیٹا قرآن میں بھی جن کا ذکر آیا ہے۔ ان کی پہنچ تو آسمان تک ہے۔ وہ تو وہاں تک کی خبرلے آتے ہیں۔‘‘
’’اماں آپ بھی کہاں کہاں کا اڑا رہی ہیں‘‘ میرے یہ کہنے پر اماں نے بتایا:
’’بیٹا تو قرآن پڑھ، سب جان جائے گا۔ یہ جب آسمان کی سرحد پر پکڑے جاتے ہیں تو انہیں شہاب ثاقب سے مارا جاتا ہے۔ تم نے دیکھا نہیں کبھی کبھی رات میں آسمان سے انگارہ گرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی تو شہاب ثاقب ہے نا۔‘‘
میری اماں مذہبی خیال کی ہیں۔ قرآن و حدیث کا مطالعہ بھی کرتی ہیں، اس لئے انہیں سمجھا پانا میرے لئے مشکل ہے اور قمر آرا کی وجہ سے تو جن اور اس کے کرامات پر ان کا یقین اور پختہ ہوگیا ہے۔
جیسے ہی جمعرات کا دن آتا لوگوں کے ذہن میں ایک ہی سوال ابھرتا۔
’’آج پھر جن کی سواری آئے گی؟‘‘
یہ جن بھی خوب تھا۔اب تو لوگوں میں کافی گھل مل گیا تھا۔ لوگوں سے ان کی خیریت بھی دریافت کرتا اور انہیں تسلی بھی دیتا۔ طرح طرح کی باتیں کرتا اور مذاق مذاق میں لوگوں کے بھید کھول کر رکھ دیتا۔ ایک بار قمر آرا کے رشتے کے خالو قیام صاحب بھی گاؤں میں موجود تھے، وہ بھی سواری کا سن کر قمر آرا کو دیکھنے گئے۔ قمر آرا نے انہیں دیکھتے ہی مسکراتے ہوئے کہا۔
’’آئیے قیام صاحب۔ کہئے آپ کی منی بیگم کاکیا حال ہے؟‘‘ یہ سننا تھا کہ قیام صاحب پر گھڑوں پانی پھرگیا۔ قیام صاحب دراصل قمر آرا کی چھوٹی خالہ کے شوہر تھے اور انہوں نے پٹنہ میں منی بیگم نام کی ایک عمر دراز خاتون سے شادی بھی کر رکھی تھی۔ یہ بات گاؤں میں کم لوگوں کو معلوم تھی۔
’’کیا بکتی ہوتم؟‘‘ قیام صاحب یہ سن کر چراغ پائے گئے۔
’’میں بکتی ہوں ؟ کہئے تو شادی کے گواہ حلیم اور اسرائیل صاحب کو بھی حاضر کردوں؟‘‘
یہ سننا تھا کہ قیام صاحب وہاں سے چپکے سے کھسک لئے۔ انہیں اندیشہ تھا کہ اگر انہوں نے اور کچھ کہا تو وہ ایسے اور بھی سچ اگل دے گی۔
اس دن کے بعد سے یہ بات پورے گاؤں میں پھیل گئی کہ قمر آرا کاجن بالکل سچ سچ سب کچھ بتا دیتا ہے۔ اب بہت سے لوگ اس سے ڈرنے بھی لگے کہ کہیں ان کا پول نہ کھل جائے اور بہت سے لوگ چھپی باتوں کا بھید جاننے کے لئے قمر آرا کی منت بھی کرنے لگے۔
قمر آرا شادی کے بعد تو دوچار بار سونارپٹی ہو آئی تھی، لیکن اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ اس بار جب وہ بیل گاڑی سے پوٹھیہ سے سونارپٹی جارہی تھی تو راستے میں ایک جگہ بیل ایسا ہڑکا کہ اس نے آگے جانے سے انکار کر دیا۔ بہلوان نے دوچار دوا لی جب بیل کو لگائی تو بیل کے پیٹھ پر دوالی کی مار کے نشان ابھر آئے اور وہ درد سے بلبلاتے ہوئے جوا سے کھل کر ہی باہر نکل گیا، لیکن گاڑی آگے نہیں بڑھی۔ بہلوان نے بیل کو پکڑا پھر گاڑی میں جوتا اور اسے ذرا چمکارتے ہوئے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ اس بار بیل نے توپوری کوشش کی، زور بھی لگایا، لیکن گاڑی ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھی۔
شام کا بیلا پسر چکا تھا۔ گؤدھول سے آسمان بھی گرد آلود تھا۔ شفق کی سرخی پر سیاہی غالب آتی جارہی تھی۔ نئی دلہن کی سواری تھی۔ اس طرح سڑک پیڑا پر رکے رہنا مناسب بھی نہیں تھا۔ اس لئے اب بہلوان کے ساتھ دولہا عباس میاں کو بھی تشویش ہونے لگی۔ ایک بارعباس میاں نے بھی اپنی سی کوشش کی اور بیل کی راس پکڑ کر بہلوان کی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ یہ دونوں بیل ان کے اشارے پر ہوا سے باتیں کرنے کے لئے مشہور تھے۔ اس نے بیل کی پیٹھ سہلائی، اسے تھپتھپایا اور دھیرے سے دم پر ہاتھ رکھا۔ بیل نے اپنے مالک کے لمس کو پہچان کر پورا زور لگایا، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا۔ بیل جوئے سے باہر تھا اور جوا، زمین پر آرہا تھا۔
عباس کی پریشانی بڑھنے لگی۔ نئی دلہن کے سامنے اپنی سبکی کا خیال بھی ستانے لگا۔ راہ چلتے کچھ لوگوں کو پکڑا اور اپنی مدد کی التجا کی۔ گاؤں کے لوگ ایسے معاملے میں بہت فراخدل ہوتے ہیں۔ دوچار لوگ جٹ گئے اور سب نے مل کر گاڑی کے چکا میں ہاتھ لگایا۔ بیل نے بھی پوری کوشش کی، لیکن گاڑی ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھی۔
اسی دوران ایک سفید سا لمبا سایہ لہرا کر غائب ہوگیا۔ جس کی بھی نظر پڑی وہ بھونچک رہ گیا۔ گاؤں کے لوگ بغیر کچھ بولے کھسک گئے۔ عباس کی نظر بھی اس سایہ پر پڑی تھی وہ بھی قدرے پریشان ہوگیا۔ اچانک اس پورے واقعے میں پہلی بار گاڑی کے اندر سے دلہن کی آواز آئی۔
’’گاڑی پوٹھیہ کی جناب موڑ لو۔ یہ گاڑی اب سونارپٹی نہیں جائے گی۔‘‘
یہ قمر آرا کی آواز تو تھی،لیکن لہجہ بدلا ہوا تھا۔ اس میں ایک خاص وقار، رعب اور ٹھہراؤ بھی تھا۔ اس آواز میں نہ جانے کون سا جادوتھا تھا کہ عباس نے بہلوان کو گاڑی واپس لے جانے کا حکم دیا۔ گاڑی جب واپسی کے لئے روانہ ہوئی تو یہی بیل ہوا سے باتیں کر رہا تھا۔
دلہن کو لے کر رات گئے جب گاڑی واپس آئی تو گھر کے سارے لوگ پریشان ہوگئے۔ عباس نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ جس نے بھی سنا دنگ رہ گیا۔
’’آخر اس میں راز کیا ہے؟‘‘
رات بھر تو یہ معاملہ یونہی ذہنوں میں پلتا رہا۔ دوسرے دن جمعہ تھا۔مسجد کے امام صاحب تک بات لے جائی گئی اور انہوں نے سارا واقعہ سن کر اس راز کو افشا کردیا۔
’’گاڑی کے اندر قمر آرا پر جن کی سواری آئی تھی اور اسی نے اپنی طاقت سے گاڑی کو جام کردیا تھا۔ دنیا کی کوئی طاقت گاڑی کو آگے نہیں بڑھا سکتی تھی۔ آپ لوگوں نے اچھا کیا کہ اس کے حکم کی تعمیل کی ورنہ۔۔۔‘‘
اور یہ ’’ورنہ‘‘ پھیل کر خوف کے ایک بہت بڑے دائرے میں تبدیل ہوگیا۔ بس وہ دن ۔۔۔ اور آج کا دن۔۔۔ جن کی سواری کے لئے قمر آرا پورے گاؤں میں مشہور ہوگئی اور لوگوں کو جمعرات کا انتظار رہنے لگا۔
ویسے گاڑی واپس آنے کے بعد گاؤں میں عورتوں کے درمیان طرح طرح کے چرچے بھی شروع ہوگئے۔ اس میں نصیبن بوا، سب سے آگے تھیں۔ گفتگو کا نتیجہ اس بات پر ٹھہرا کہ قمر آرا کا چکر ضرور گاؤں کے کسی نوجوان کے ساتھ رہا ہوگا، اس لئے وہ اپنی سسرال نہیں جانا چاہتی اور جن کا ڈرامہ کرکے وہ کسی نہ کسی طرح گاؤں میں ہی رہنا چاہتی ہے، لیکن ہزار کوشش کے باوجود اس خاص لڑکے کو تلاش کرنے میں سب ناکام رہے اور یہ معاملہ اس روز اچانک ختم ہوگیا جب ایک جمعرات کو قمر آرا کی سواری نے نصیبن بوا کو آڑے ہاتھوں لیا۔
دراصل ہوا یوں کہ جمعرات کا دن تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر ابھی مصلی گھرکو واپس بھی نہ ہوئے تھے کہ جن کی سواری آگئی۔ دیگر عورتوں کے ساتھ نصیبن بوا بھی یہ تماشہ دیکھنے پہنچی۔ انہیں دیکھ کر قمر آرا نے کہا:
’’کیوں جی نصیبن۔۔۔ قمرآرا کا چکر کس نوجوان سے ہے؟ اری کم بخت اپنے خصم کو کھا کر بھی ہوش نہیں آیا۔ اپنی بیٹی پر توجہ کیوں نہیں دیتی ،جو ہفتہ دن کے اندر مجید کے بیٹا کے ساتھ بھاگ جائے گی۔‘‘
یہ سن کر ایک ہنگامہ ہوگیا۔ اِکا دُکا لوگوں کو مجید کے بیٹا کا چکر تو معلوم تھا، اب سب کی زبان پر اس بات کا چرچا ہوگیا اور لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب واقعی ایک ہفتہ بعد نصیبن کی بیٹی مجید کے بیٹے کے ساتھ بھاگ گئی۔
گاؤں کے لوگوں میں یہ بات زور پکڑ گئی کہ قمر آرا کا جن جو بھی بولتا ہے، بالکل سچ بولتا ہے۔ پھر کیا تھا دور دراز کے گاؤں کے لوگ بھی جمعرات کے انتظار میں رہنے لگے، لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ جمعرات گزر گیا اور سواری نہیں آئی۔ اب ہر جمعرات کے بجائے مہینے میں دوبار یا پھر حد سے حد تین بار سواری آنے لگی۔ لوگ اپنے مسائل لے کر اس کے پاس آتے اور وہ سب کو مسائل کا حل بتادیتی۔ اس کے بتائے راستے پر چل کر بہتوں کا بھلا بھی ہوا۔
اس جن کے بارے میں بھی طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں اور سب کی سب لوگوں کے اپنے قیاس پر مبنی تھی۔کوئی کہتا کہ شاہِ جن کی سواری آتی ہے۔ کسی کا خیال تھا کہ کسی ملنگ کی سواری ہے۔ کوئی اسے کسی بزرگ کی روح بتاتا کوئی پریت آتما کہتا اور کوئی ان سب کو صرف دھونگ کہتا۔ غرض کہ جتنا منھ اتنی باتیں۔ جن کی سواری طرح طرح کے انکشافات بھی کرتی۔ پڑوس کے سمراہا گاؤں کے انوار کی بیوی نے سوال کیا۔
’’مجھے بچہ کب ہوگا؟‘‘
’’جب تمہارا میاں تمہارے ساتھ سوئے گا۔‘‘
یہ جواب سن کر موجود لوگوں میں قہقہہ بلند ہوا۔ پھر قمر آرا نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’تمہارا میاں تم سے زیادہ رنڈی کے پاس سوتا ہے۔ اسے اپنے ساتھ سلا۔ اگلے سال تمہیں بیٹا ہوگا۔‘‘
اس طرح انوار میاں کے لچھن جگ ظاہر ہوگئے اور اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ اپنی بیوی کے پلو سے بندھ گئے۔ کچھ لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ قمر آرا کے جن نے انوار کی بیوی کو ایک تعویذ دیا تھا جس کے اثر سے وہ بیوی کے غلام ہوگئے تھے۔
ایک صاحب کے گھر سے ان کی بیوی کے سارے زیورات چوری ہوگئے۔ وہ بے چارے پریشان ہوکر جمعرات کا انتظار کرنے لگے۔ جیسے ہی سواری آئی، وہ دوڑے ہوئے قمر آرا کے پاس گئے، اس نے ان کے حواس باختہ چہرے کو دیکھتے ہوٸے کہا ” تم نے کوٹھی کے چاول میں چھپا کر رکھی تھی زیور کی پوٹلی۔۔۔؟‘‘
سب حیرت زدہ کہ جن کو یہ راز کیسے معلوم ہوگیا اور اس نے بن سوال کئے ہی جواب کیسے دے دیا۔
’’ہاں ہاں! چاول میں چھپا کر رکھی تھی ۔‘‘ اس نے جلدی سے جواب دیا۔
’’تمہارے بڑے بیٹے نے پوٹلی چرائی ہے۔ ابھی اسی کے پاس ہے۔ اس کا ٹین کا بکس دیکھو، وہیں رکھی ہے پوٹلی۔۔۔‘‘ پھر اس نے تاکید بھرے لہجے میں کہا:
’’اسے جوئے کی لت پڑ گئی ہے۔ اسے روکو، ورنہ وہ ایک دن سارا گھر بار ہی جوئے میں ہار جائے گا۔‘‘ یہ سب جانتے تھے کہ ان کا بڑا بیٹا گاؤں کا سب سے بڑا جواری ہے۔ بیٹے کے گھر سے ہی زیور برآمد ہوگیا اور قمر آرا کے جن کی دھاک پورے گاؤں میں بیٹھ گئی۔
میں گاؤں میں کم رہتا تھا، لیکن جب بھی آتا مجھے ایک ایک واقعہ کی خبر ہوتی رہتی۔ میری اماں چونکہ اس کی بڑی معتقد تھیں اس لئے بڑے احترام سے ساری کہانیاں سناتیں اور مجھے تاکید بھی کرتیں کہ ایک بار میں بھی اس سے مل لوں۔
اس بار جب میں گاؤں پہنچا تو دو چار روز رکنے کا اتفاق ہوا اور اسی دوران جمعرات کا دن بھی آگیا۔ اس روز مغرب کی نماز کے بعد جن کی سواری آئی اور میری اماں یہ سنتے ہی لالٹین کو اُسارے پر رکھتے ہوٸے جھٹ قمر آرا کے آنگن کی جانب لپک پڑیں۔
تھوڑی دیر بعد وہ افسردہ واپس آئیں اور وہاں کے واقعات سناتے ہوئے بولیں:
’’چھی چھی کیسا زمانہ آگیا ہے بیٹا۔‘‘
’’کیا ہوگیا اماں۔۔۔؟‘‘
’’ارے تم رشید کو جانتے ہو نا؟‘‘
’’ہاں اماں، بہت سیدھا سادا لڑکا ہے۔‘‘
’’ارے خاک سیدھا سادا ہے۔ اس کے ککرم کو تو آج قمر آرا کے جن نے کھول کر رکھ دیا۔‘‘
’’آخر ہوا کیا؟‘‘
’’ارے ہوگاکیا ۔۔۔ اسے تو سب بہت شریف جانتے تھے۔ اس کا چکر تو علیم کی بیٹی سے ہے۔ ارے حد تو یہ ہے بیٹا کہ اس کا ایک پیٹ، وہ کم بختی کا مارا فاربس گنج لے جاکر گروا چکا ہے۔‘‘
’’یہ سب جھوٹ ہے اماں ۔۔۔ رشید ایسا کرہی نہیں سکتا۔‘‘
میں بچپن سے اسے جانتا تھا، وہ میرا اچھا دوست بھی ہے، اس لئے میں نے اپنا دوٹوک فیصلہ سنا دیا، لیکن اماں اسے ماننے کے لئے تیار نہیں تھیں۔ میں نے پھر اپنی دلیل دی۔
’’اماں آپ بھی کیا لغو باتوں میں الجھ رہی ہیں۔ یہ جن نہ ہوا کوئی پیر اولیا ہوگیا۔ میں یہ کیسے مان لوں کہ وہ جو بھی بول رہا ہے وہ سچ ہے؟‘‘ لیکن اماں نے میری بات اَن سنی کرتے ہوئے پورے یقین سے کہا:
’’بیٹا قمرآرا کا جن آج تک جھوٹ نہیں بولا۔ اس کا کہا اب تک تو سچ ہی نکلاہے۔ وہ بھلا کیوں جھوٹ بولنے لگا؟ اور یہ تو سب جانتے ہی ہیں کہ رشید کا علیم کے یہاں بہت آناجانا ہوتا تھا۔‘‘
میرے یقین میں اب دراڑ پڑنے لگی۔ اماں نے زور دیتے ہوئے کہا:
’’بیٹا آج تو بھی گاؤں میں ہے اور سواری بھی آئی ہے۔ میں تو کہتی ہوں چل تو بھی اپنی آنکھوں سے سب دیکھ لے پھر میری باتوں پر یقین تجھے بھی آجائے گا۔‘‘
اماں کی بات سن کر میرے اندر کچھ الٹ پلٹ ہونے لگا۔ میں نے جانے سے صاف انکار کردیا۔
’’نہیں اماں۔۔۔ میں نہیں جاؤں گا۔ اس نے کچھ ایسا و یسا کہہ دیا تو۔۔۔؟‘‘
’’ارے بیٹا وہ بھلا تمہارے بارے میں کیا کہہ سکے گا۔ کون نہیں جانتا کہ پورے گاؤں میں تمہارا کوئی ثانی نہیں ہے۔ تمہارے جیسا بیٹا کوئی عورت جَن کر تو دیکھے ۔ چاند میں داغ ہو تو ہو، مگر میرا چاند تو بے داغ ہے۔ توچل تو سہی خود اپنی آنکھوں سے سب دیکھ لے گا۔۔۔‘‘
لیکن ہزار کوشش کے باوجود میں خود کو وہاں لے جانے کے لئے تیار نہیں کرپارہا ہوں۔ دل میں بس ایک ہی خوف ہے جو میرے پاؤں پکڑے ہوئے ہیں۔
’’کہیں اس نے واقعی سب کچھ سچ سچ بتادیا تو۔۔۔‘‘
مصنوعی ذہانت انسانی تخیل اور ادب کا مستقبل
مصنوعی ذہانت کا لفظ پہلی بار Dartmouthبرطانیہ میں ہونے والی ایک سائنسی کانفرنس میں معرض وجود میں آیا۔مصنوعی ذہانت یعنیArtificial...