وہ ہوا میں معلق تھا۔
اوپر آسمان تھا اور نیچے زمین….
لیکن وہ نہ تو آسمان پر تھا نہ زمین پر….
وہ تو بس ہوا میں معلق تھا۔
ہوا یوں کہ ایک مصروف شاہراہ کے کنارے ایک جادوگر اپنا تماشا دکھا رہا تھا۔اس کے سر پر ایک لمباساہیٹ تھا،آنکھوں پر خوبصورت فریم کا چشمہ،ہلکی سفید مونچھیں اور منہ میں سگار۔سگار کو سلگایا نہیں گیا تھا۔شاید وہ صرف ایک نمائشی حربہ تھا۔اس نے ملگجے رنگ کا ایک لانبا سا ا وور کوٹ زیب تن کر رکھا تھا اور اسی رنگ کی پتلون پہن رکھی تھی۔پیروں میں گرد آلود لیکن مضبوط جوتے تھے۔گویا اس کی زندگی اسفار سے عبارت تھی۔اس کے کاندھے پر ایک بڑی سی زنبیل تھی جس میں دنیا بھر کے تجربات و مشاہدات بند تھے۔اس نے زنبیل ایک جانب رکھی اور کوٹ کی جیب سے ایک ڈگڈگی نکال کر اسے بجانا شروع کیا۔ ڈگڈگی کی آواز سن کر راہ گیر اس کی جانب متوجہ ہونے لگے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے گرد تماش بینوں کی بھیڑ لگ گئی۔اس بھیڑ میں بچے بھی تھے، بوڑھے بھی اور جوان بھی۔لیکن کوئی عورت نہ تھی۔جب بہت سارے لوگ جمع ہو گئے تب ا س نے اپنے منہ میں دبے سگار کو نکال کر کوٹ کی جیب میں رکھ لیااور پھر اس کی زبان سے سحر زدہ کرنے والے الفاظ نکلنے لگے۔ا س کی زنبیل میں دنیا بھر کے قصے تھے جنہیں وہ مزے لے لے کر سنا رہا تھا۔مجمع اس کی باتوں کو بہت غور سے سن رہا تھا۔اس کی باتوں پر زورزور سے تالیاں بجنے لگیں۔ وقفے وقفے سے وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاتا اور اس دوران گہری نظروں سے تماش بینوں کو دیکھتا۔اس کی خاموشی پر بھی تالیاں بجتیں اور جب تالیوں کی گڑ گڑاہٹ ختم ہو جاتی تو وہ پھر سے بولنا شروع کر دیتا۔جب ا س کے قصے سنانے کا سلسہ ختم ہوا تو ا س نے ایک دس گیارہ برس کے بچے کو اشارے سے اپنی جانب بلایا۔پہلے تو وہ ہچکچایا ،پھر ا س نے مڑ کر اپنے والد کی طرف دیکھا۔والد نے اسے آنکھ کے اشارے سے اجازت دے دی۔ تب وہ دھیرے دھیرے چلتا ہوا جادو گر کے پاس پہنچا۔جادوگر نے اسے مسکرا کر دیکھا۔پھر اس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کرکوئی منتر پڑھنا شروع کیا۔بچے کی آنکھیں مندنے لگیں۔منتر پڑھ چکنے کے بعد اس نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
’ ’اڑ جاو ۔“اور بچے کسی پرندے کی طرح آسمان کی جانب اڑ چلا۔تالیوں کے شور سے آس پاس کے درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے بھی شور مچاتے ہوئے آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرنے لگے۔جب وہ بچہ کچھ اونچائی پر پہنچ گیا تب جادوگر زور سے چلایا۔
”ر ک جاو ۔“بچہ وہیں رک گیا۔
تماش بینوں نے ایک بار پھر تالیوں سے خراج تحسین پیش کیا۔جادوگر نے اپنے چاروں طرف نظریں گھمائیں اور مجمع سے پوچھا۔
”کیا کوئی اس بچے کو زمین پر واپس بلا سکتا ہے؟“
لوگ ایک دوسرے کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔پھر ایک شخص نے اس بچے کی طرف انگلی ا ٹھا کر کہا۔
”نیچے آو۔“لیکن اس کے حکم کا بچے پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ بدستور ہوا میں معلق رہا۔جادوگر نے ایک بار پھر مجمع پر یوں نظریں دوڑائیں۔گویا وہ سبھوں کو چیلینج دے رہا ہو۔پھر سبھوں نے مل کر ایک ساتھ آواز لگانا شروع کیا۔
”نیچے آو ،نیچے آو ۔“لیکن بچہ بدستور اپنی جگہ پر معلق رہا۔
تب اس نے بچے کی جانب اپنی انگلی ا ٹھا کر کہا۔
”نیچے آو ۔“بچہ آہستگی کے ساتھ زمین پر ا تر آیا۔لوگوں نے ایک بار پھر زبردست تالیاں بجائیں۔
اس کے بعد جادو گر نے اور کئی لوگوں کے ساتھ یہ جادو دکھایا۔ان میں بچے بھی تھے،بوڑھے بھی اور جوان بھی۔
اب شام ہو چلی تھی۔ جادوگر نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کیا۔تبھی ایک شخص تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور ملتجیانہ انداز میں یوں گویا ہوا۔
”سر ! پلیز، مجھے بھی ا ڑا دیجیے۔“جادوگر نے اس کی جانب چونک کر دیکھا کیونکہ یہ پہلا شخص تھا جو خود ہی ا ڑنا چاہ رہا تھا۔جادوگر خاموش تھا۔ا س شخص نے اس کی خاموشی کا نہ جانے کیا مطلب نکالا کہ وہ اس کی خوشامد پر ا تر آیا اور اس کی قصیدہ خوانی کرنے لگا۔جادوگر کے چہرے پر ایک پر اسرار مسکراہٹ دوڑ گئی۔پھر اس نے اس شخص کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ایک جانب کیا اور با اواز بلند مجمعے سے مخاطب ہوا۔
”کیا میں اسے بھی ا ڑا دوں؟“
”ہاں ،ہاں، ضرور، کیوں نہیں !“ہر طرف سے یہی آواز آنے لگی۔تب وہ اس شخص کے مقابل آ کھڑا ہوا۔ اب دونوں آمنے سامنے تھے۔اس کے بعد جادوگر نے وہی منتر پڑھنا شروع کیا۔اس شخص پر تنویمی کیفیت پیدا ہونے لگی اور اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ا س کے بعد جادو گر نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ہوا میں ا ٹھا کر کہا۔
”ا ڑ جاو ۔“ اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص ہوا میں ا ڑ چلا۔جب وہ کافی اونچائی پر پہنچ گیا تو جادوگر نے اس کی جانب انگلی کے اشارے سے کہا۔
”رک جاو ۔“اور وہ وہیں پر ر ک گیا۔مجمعے پر ایک بار پھر جوش طاری ہو گیا اور پوری فضا تالیوں کی گڑ گڑاہٹ سے گونج ا ٹھی۔ہوا میں معلق شخص نے نیچے زمین پر نظر ڈالی۔ہر آدمی اسے بونا دکھائی دینے لگااور اسے اپنی ذات بلند،بہت بلند لگنے لگی۔اس کی آنکھوں میں غرور کا نشہ تیر گیا اور ہونٹ تفاخرانہ انداز میں پھیل گئے۔
جادو گر نے اپنا سامان سمیٹنا شروع کیا۔لوگوں میں اب بے چینی پھیلنے لگی۔ وہ کہنے لگے۔
”ارے ،پہلے اسے زمین پر تو واپس بلاو “جادوگر نے ایک نظر ہوا میں معلق شخص پر ڈالی۔اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوئی۔پھر اس نے مجمعے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”اِس شخص کو اونچائی پر پہنچے کا بہت شوق تھا۔اب اسے وہیں رہنے دیں۔زمین سے اس کا رشتہ کٹ چکا ہے۔اب یہ زندگی بھر ہوا میں معلق رہے گا۔
٭٭٭
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...