(Last Updated On: )
وقت کی دہلیز پر کھڑی انتظار کرتی ،سسکتی مائدہ ۔۔۔۔۔زندہ تھی ۔۔۔۔۔سانس لے رہی تھی۔۔۔۔۔ گھٹن کا احساس جو اند ر ہی اندر ختم کرتا جارہا تھا ۔کب جان نکل جاتی ؟؟؟کچھ معلوم نہیں تھا ۔حالات کی چکی میں پس رہی تھی ۔ گھروالے لعن طعن کرتے۔۔۔۔ کبھی سسرال والے۔۔۔۔۔۔کس کے پاس جاتی۔۔۔؟ کوئی بھی سہارا نہیں تھا؟ بھائیوں کے نزدیک ایک زندہ لاش تھی ۔جس کو کہیں بھی دھکیلا جاسکتا تھا۔
رن مریدی کا عالم اپنے سگے بھائیوں کو اکلوتی بہن سے دور کر چکا تھا۔ رن مریدی کا معیار بھی اعلیٰ درجے کا تھا ۔غلط اور درست کو پرکھنے سے قاصر۔۔۔۔۔۔ گھر کی چوکھٹ پر آس لگائے تنہائی، سوالات کا انبار۔۔۔۔۔خاوند کے نزدیک بدکردار ۔۔۔۔۔کب تک پاکیزگی کا ثبوت دیتی؟ تین شادیاں ہوچکی تھیں۔ چوتھی شادی بھی ذلت ثابت ہوئی ۔تعلق ٹوٹ چکا تھا ۔رشتہ ٹوٹنا منتظر نگاہ تھا۔پہلے خاوند نے خود سے زیادہ خوبصورت پایا احساس کمتری کا شکار ہو کر گھر سے نکال دیا۔غصے میں سمجھ بوجھ بھلا بیٹھا۔تیسرے نے خودکشی پر اُکسایا۔ مائدہ ظلم کی علامت بن چکی تھی ۔پریشانیاں گھٹتی نہیں تھیں بلکہ روزبروز بڑھتی جارہی تھیں۔
جہانگیر کا کردار مضبوط تھا ۔سنبھال لیتا جہانگیر تھا کون؟صرف اور صرف ہمسایہ جس کے حقوق میں یہ شامل نہیں تھا وہ مائدہ پر کیے گئے ظلم کا علم بلند کرتا۔۔۔۔اولاد کی باتوں پرآنکھیں بند کر کے بھروسا کرناوالدین کا فرض اولین ہے۔جب آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہو تب کیا ہوسکتا ہے۔۔۔۔؟صد افسوس ناز نخرے سے پالی ہوئی بیٹی کو کہا جائے اور کیا یہ کہنا آسان تھا۔۔۔۔۔؟شرم کرو ہماری جان چھوڑ دو۔۔۔۔۔بیس سال پال کر اپنی نظروں کے سامنے اولاد کو بڑا ہوتا دیکھنا اور پلک جھپکتے کہہ دینا ہماری جان چھوڑ دو۔۔۔۔۔کس طرح برداشت کیا ہوگا مائدہ نے ؟
نشے میں دُھت باپ ساری رات گھر سے باہر رہتا ۔گھر آکر گالی گلوچ کرتا ۔مائدہ کی ماں کو مارتا پیٹتا۔۔۔۔۔حالاں کہ ماں قریب المرگ تھی۔اپنی ہی بیٹی سے زیادتی ۔۔۔۔باپ کے نام پر دھبہ ۔۔۔باپ بیٹی کا محافظ ہوتا ہے ۔عالم شباب میں بیٹی کو داغ دار کرچکا تھا ۔مائدہ زخموں سے لبریز تھی ۔ہر زخم آبدیدہ کرتا۔آسمان کو تکتی زمین کو دیکھتی نظر خود پر ڈالتی ۔زندگی سے تنگ آچکی تھی ۔مرنے کا ٹھکانہ ڈھونڈ رہی تھی ۔جہانگیر چھت سے آوازیں دیتا مائدہ میری طرف دیکھو۔۔۔۔۔۔مائدہ خاموشی کا لبادہ اوڑھ چکی تھی۔پانچ دفعہ اولاد کی خوش خبری ملی۔ستم ظریفی اولاد پیدا ہونے سے پہلے مرجاتی ۔۔۔۔۔۔ماں بننے کا شوق وہ بھی ادھورا۔۔۔۔۔۔
سسر کے خوف سے بہوئیں کمرے سے باہر آنے کا خیال ذہن میں لانا ناپسند کرتیں۔۔۔۔۔جمع پونجی نشے میں ضائع ہوچکی تھی۔خوش قسمتی سے گھر تھا ۔وہ بھی عنقریب بکنے والا تھا۔جائیداد کے پیاسے گھر میں دربدر بھٹک رہے تھے ۔رمیز کہنے کو مائدہ کا بڑا بھائی تھا۔سوچ گھٹیا مرنے مارنے پر آمادہ تھی۔پیسوں کے عوض کسی کا بھی خون بہایا جاسکتا تھا۔۔۔۔۔مائدہ کو جائیداد سے دست بردار کیا جاچکا تھا۔کیوں کہ وہ بدکرداری کی مرتکب ٹھہری تھی۔سزا اور جزا کا قانون گھر میں خود ہی رائج کرلیا گیا تھا۔
تپتی دھوپ،خشک ہونٹ،چہرہ زردآلود،رعب دبدبہ ،سانس پھولی ،آواز کانپتی ۔۔۔۔۔۔حکم صادر کیا۔۔۔۔باپ کو مار ڈالا۔زندہ رہ کر کیا کرے گا؟آج نہیں تو کل مر ہی جائے گا۔خون کی پیاس بیٹے کو باپ کے مقابل لے آئی۔خوفناک تاریکی تیز دھار خنجر کی مدد سے باپ کو لہو لہان کردیا گیا۔مجھے بچاو یہ سنائی بھی دیتا۔۔۔۔پھر بھی کہاں ممکن تھا؟جان بچ جاتی ۔۔۔۔۔مرنے والا دہائیاں دیتے دیتے مرگیا۔
باورچی خانے میں روٹیاں پکاتی رمشا ۔۔۔۔پسند کی شادی گھر سے بھگا کر لے آیا۔محبت نے اندھا کردیا تھا۔وقت نے پلٹا کھایا محبت نفرت میں بدل گئی ۔انہونی فضا قائم ہوچکی تھی۔کہیں میری بیوی مجھے مارنے کی کوشش کرے۔ یہ نیک کام میں کردیتا ہوں۔آگ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیا ۔چیختی چلاتی رمشا اللہ کو پیاری ہو چکی تھی۔رمیز دولت کی ہوس میں باپ اور بیوی کو مار چکا تھا۔۔۔۔باپ کا قتل ۔۔۔۔۔تاکہ اکیلا جائیداد پر قابض ہوسکے ۔باورچی خانے میں مٹی کا تیل چھڑک کر آگ بھڑکانا۔۔۔۔رمیزمجرم تھا ۔۔۔۔۔یہ سچ سب جانتے تھے ۔چپ کی تصویر بنے ہوئے تھے۔دو کردار کہانی میں سے ختم ہوچکے تھے۔
رضا۔۔۔۔۔۔۔رمیز کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔رمیز جانتا ڈرامائی انداز میں ایکٹنگ کرتا۔۔۔۔۔۔جیسے معصوم بھولا بھالا ہو۔مائدہ جس حالت سے گزر چکی تھی یا گزر رہی تھی ۔لہجے میں تلخی ،ہر سوال کا اُلٹ جواب۔۔۔۔۔۔چند دن گزرے ماںرضا کے قدموں میں آکر بیٹھ گئی۔گھرکی باتیں سنا سنا کر پاگل کردیا۔نینا کی چغلیاں کیں۔۔۔۔کڑوی باتیں ۔۔۔۔۔صبر کا پیمانہ چھلک اُٹھا ۔رضا سیر و تفریح کے بہانے گھر سے نکلا۔ واپس کبھی نہیںلوٹا۔نگاہیں راستہ دیکھ دیکھ کر تھک چکی تھیں۔دن مہینوں میں مہینے سالوں میں۔۔۔۔۔۔زمین کھا گئی یا ٓسمان نگل گیا ۔رضا کا نشان تک نہیںملا۔
رضا کی بیوی سارا دن کمرے میں خود کو قید رکھتی ۔ابھی بھی تین لوگ زندہ تھے۔رمیز رات بھر یہی سوچتا ۔ماں رمیز کے ساتھ مل کر منصوبے بناتی۔نینا کمرے میں بے ہوش پڑی رہی ۔ہر کوئی انجان بن کر لا علم گھومتا رہا۔مائدہ کی آواز سے یہ خبر سننے کو مل گئی ۔۔۔۔۔۔نینا مرچکی ہے۔اپنی موت آپ ۔۔۔۔رمیز ناچتا گاتا خوشی سے سرشار ۔۔۔۔خودبخود موت ۔۔۔۔۔جان چھوٹی خدا خدا کرکے۔۔۔۔۔راستے کی رکاوٹ مائدہ اور ماں۔۔۔۔۔مارنے کے درپے۔
ماں بیٹا خون کے پیاسے ۔۔۔۔۔امیری کے لالچ نے ضمیر کو مردہ کردیا تھا۔رمیز ماں سے مخاطب ۔۔۔۔۔ماں جی آپ کہیں مائدہ کو بے ہوش کرکے سڑک کنارے چھوڑ آئیں۔کوئی بھی نہیں جانتا یا جان پائے گا ۔مائدہ کے ساتھ کیوں یہ سب ہوا۔۔۔۔۔؟ماں رمیز کو جواب دئیے بغیر چلی گئی ۔رمیز ماں کی موت کا شکنجہ تیار کررہا تھا۔ماں کو شکنجے کی طرف کیسے لایا جائے؟انسانی ذہن شیطان بن چکا تھا۔۔۔۔۔نیکی بدی سے ماورا تھا۔سازش کی بُو ماں کو محسوس ہورہی تھی۔سونے پہ سہاگہ دونوں مارنے کی کوشش میں پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔۔۔۔ممکن تھا ۔۔۔۔۔۔وقت سے بڑھ کر خطرناک کچھ نہیں تھا۔رمیز جیل کی سلاخوں کو دیکھتا ۔ماں شش و پنج میں مبتلا ۔۔۔۔۔ابھی رہائی مل جائے گئی ۔یہ نا ممکنات میں سے تھا۔جرم کی دلدل میں دھنس چکے تھے ۔آخری رہائی موت تھی۔ہر کوئی آزاد ہوچکا تھا۔جان بچی مائدہ کی۔۔۔۔۔مائدہ درودیوار۔۔۔۔۔۔زندہ کوئی بھی نہیں تھا ۔سب مرچکے تھے۔ ویران گھرکھانے کو دوڑ رہا تھا ۔جائیداد ،دولت ،امیری ،ہوس نے کہیں کا رہنے نہیں دیا۔خدا کی لاٹھی بے آواز ۔۔۔۔۔سب کچھ تہس نہس ہوگیاتھا ۔دولت کے پجاری خالی ہاتھ رہ گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔زندگی بوجھ ثابت ہورہی تھی ۔ جان چھوڑ دو !۔۔۔۔۔جملہ گلے پڑ چکا تھا۔
****
تحریر: حمیرا جمیل
تحریر: حمیرا جمیل