”ارے اس میں رونے کی کیا بات ہے ؟“
اس نے حیرانی سے اپنے بابا کی طرف دیکھا
”بابا میرے لیے بہت مشکل ہوگا نا ، آپ آخر کیسے اتنے بڑے شخص سے میرا رشتہ طے کر آئے
آپ نے تو مجھ سے پوچھا ہی نہیں؟“
”بیٹا ضرار بھائی میرے ابو کے دوست کے بیٹے ہیں وہ پریشانی میں تھے، مجھے بس یہ لگا کہ ایسے وقت میں مجھے ان کی مدد کرنا چاہیے ۔“
”مدد !!!یہ مدد ہے آپ کی ؟ آپ نے سوچا بھی ہے کبھی کہ کیا مدد کر رہے ہیں ؟“ وہ حیرانی سے چیخی
”ایک لمحہ صرف ایک لمحہ یہ انسانیت کے علم کو بلند کرنے سے پہلے نیچے دیکھ تو لیتے کہ نیزے پر کس کو بلند کرنے جا رہے اپنی بیٹی کو ،اپنی لخت جگر کو ،بابا میں جاندار ہوں میں زندہ وجود ہوں میں ایک انسان ہوں جس کی بلی چڑھانے کا فیصلہ آپ نے کر لیا ۔“نمرہ بری طرح چیخ پڑی تھی ۔
“بیٹا دیکھو میں کوئی تمہاری بلی نہیں چڑھا رہا ،تمہاری شادی کی عمر ہو چکی ہے۔“
”آپ غلط نہیں کر رہے میرے ساتھ یوں اچانک اور اتنے عمردراز انسان سے شادی کر رہے جسے میں نے کبھی دیکھا بھی نہیں ،جانتی بھی نہیں “
”دیکھو بیٹا وہ لوگ بہت پریشان تھے ،عین وقت پر لڑکی والوں نے شادی سے انکار کر دیا، ان کے یہاں پوری تیاری ہو چکی ،شادی کے کارڈ تک چھپ چکے ۔“
”تو ہم کیا کریں بابا ؟ اور پھر کوئی وجہ تو ہوگی نا انکار کی ،لڑکی والوں کے لیے تو یہ اور بڑی بات ہوگی نا عین وقت پر رشتہ ختم کرنا “
”بیٹا ،میں ضرار بھائی اور عمر کو جانتا ہوں ،نہایت شریف ہیں وہ ،تم وہاں خوش رہوگی ۔تم نہیں جانتیں جب میں نے تمہارے رشتے کی بات کی تو ان سب کے چہرے کیسے کھل اٹھے تھے ، کتنا سکون ملا تھا سب کو ۔“
”بابا ان کے سکون کے لیے آپ نے میرا سکون ختم کر ڈالا ،بابا آپ نے جب ممی حیات تھیں اور جب وہ دنیا سے چلی گئیں تب بھی کبھی کوئی چیز میری پسند اور مشورہ کیے بغیر نہیں لی پھر زندگی کا فیصلہ یوں اچانک کیوں کر ڈالا ،بابا میری پڑھائی تو پوری ہولینے نے دیتے ۔“ اس نے پھر سمجھانے کی کوشش کی ۔
”بیٹا عمر سے بات کی ہے میں نے ،وہ تمہاری ایم بی اے کی پڑھائی پوری کرائے گا ،میں سب بات کر کے آیا ہوں ۔“
”لیکن پھر بھی بابا مجھے اتنے بڑے آدمی کے ساتھ شادی نہیں کرنا ،میں آپ کی اس دوستی اور انسانیت پر خود کی بلی چڑھانے کو بالکل تیار نہیں ہوں ۔“ اس نے غصے سے کہا
”بس خاموش ہو جاﺅ !کہا نا میں نے بلی ولی کچھ نہیں، تمہاری شادی کی عمر ہو چکی ہے اس لیے تمہاری شادی کر رہا ہوں ،بس اب وہی ہو گا جو میں نے کہا ہے۔“اقبال خان نے سخت لہجے میں کہا
” کیا کہا ہے آپ نے ؟“
”یہی کہ ضرار بھائی کے بیٹے عمر سے تمہارا نکاح اسی تاریخ میں ہوگا جس کے شادی کے کارڈ تقسیم ہو چکے ہیں بس اس لڑکی عارفہ کے نام کی جگہ تمہارا نام لکھ دیا جائے گا ۔بس آگے مجھے کچھ نہیں سننا ہے ۔“
اور یوں آگے کے تمام الفاظ اس کے حلق میں دفن ہو گئے ، اس کے تمام احتجاج کے باوجود، صرف اور صرف ایک نام کی تبدیلی عارفہ کی جگہ نمرہ کا نام درج ہوا اور وہ سترہ سال بڑے مرد کی بیوی بنا دی گئی۔ ،اس کے خواب ، اس کی تعلیم ،اس کی عمر یہاں تک کہ ایک جیتا جاگتا اس کا وجود سب کچھ نظر انداز کر دیا گیا ۔
زندگی نے صرف اسی ستم پر بس نہیں کیا تھا بلکہ ایک سلسلہ شروع کر دیا تھا اس کے امتحان لینے کا ۔اس شادی نما حادثے کی وجہ سے عمر اس کی زندگی میں آگیا لیکن وہ عمر کی زندگی میں نہ آ سکی کیونکہ عمر اپنی منگیتر کے رد کر دئیے جانے کے غم میں ایسا غرق ہواکہ قبول کو وہ ناقبول کرتارہااور اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ جس کرب سے وہ گزر رہا ہے وہی درد وہ کسی کو عنایت بھی کر رہا ہے ۔وہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ اس کے ساتھ یہ رویہ کیوں ہے ؟ اس کا کیا قصور ہے اس سب میں ؟ اگر عمر کو عارفہ نے اپنے محبوب پر ترجیح نہیں دی تو وہ کیا کرے؟ عمر اپنے والدین کے سامنے اس کے ساتھ بڑے اچھے انداز سے پیش آتا ،اس کا خیال رکھتا لیکن کمرے میں آتے ہی اجنبی بن جاتا۔ اس کے ساتھ بے اعتنائی برتتا ، وہ درد کے بستر پر کروٹیں بدلتی رہتی ،درد کا یہ لا متناہی سلسلہ کچھ یوں دراز ہوتا گیا کہ وہ مسرتیں تلاش کرنا ہی بھول گئی یا پھر شاید کاتب تقدیر کے لکھے کو وہ سمجھ ہی نہیں پائی یا اسے مسرت اور نفرت کے مابین رشتہ بنانا ہی نہیں آیا تھا ۔ تنہائی کا درد اسے بے سکون کرتا رہتا ،وہ عمر کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کو ششیں کر تی لیکن وہ اس کے ساتھ ہتک آمیز رویہ رکھتا جسے برداشت کرنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا تھا ۔ وہ کب تک اپنی فطری خواہشوں کا نظر انداز کیا جانا سہن کرتی اس لیے اس نے بھی اب عمر سے دوری بنا لی ،اب وہ اپنے آپ پر جبر کرنا سیکھتی جارہی تھی لیکن اس کےاندر بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ،وہ جتنا اپنے جذبات کو دباتی وہ اتنی ہی شدت سے اسے پریشان کرتے ۔ وہ ابھی یہ فیصلہ کر ہی نہیں پائی تھی کہ عمر کے رویے کو زندگی کا حصہ بنا ئے یا نہ بنائے کہ اس کے امتحان کی تاریخیں آگئیں ،وہ بابا کے گھر آگئی اور اپنی تمامتر توجہ پڑھائی کی طرف مبذول کر لی ۔
امتحانات کے بعد عمر لینے آیا تو وہ اس کے ساتھ سسرال آ گئی لیکن اب اس کے اندر ایک عزم تھا کہ اسے عمر کو جیتنا ہے ،اس کے اندر کے تمام درد کو سمیٹ لینا ہے اس نے ایک مرتبہ پھر عمر کے ساتھ رشتہ استوار کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ایک نا دیدہ دشمن نے اس کی خوشیوں کو ڈسا ہوا ہے ،ایک ایسے پیکر نے جس نے صرف عمر کے تخیل میں ہی سارے خواب بنے تھے تعبیر تو ملی ہی نہیں تھی کہ سب کچھ بکھر گیا، ان کی منگیتر نے اپنے عاشق سے نکاح کر لیا تھا اور عمر اپنی محبت و آرزوﺅں سمیت بکھر گیا تھا گو کہ نمرہ نے اپنے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں سمیٹ کر اپنی زندگی سے سمجھوتہ کیا تھا پھر بھی اس نے عمر کو سمیٹنے کی کوشش کی لیکن ہر طرف سے وہ بس لہو لہان ہوتی چلی گئی ،وہ تہی دامن امید کے آنچل کو پھیلائے کھڑی تھی کہ خوشی کا کوئی قطرہ برسے اوراسے سیراب کر جائے ،کوئی پھول کھل جائے لیکن سراب نما صحرا کب کسی کی تشنگی بجھاتے ہیں؟ سرا ب اور سیراب جن میں فرق صرف ایک حرف کا لیکن دو کنارے زندگی اور موت کے درمیان کے ،سیراب ہو جائے تو زندگی، سراب کے نزدیک پہنچے تو موت ۔نمرہ کو یہ سراب کا سفر ایک عر صے کے بعد سمجھ میں آیا تھا کیونکہ عمر نے تو خود کو رد کی ردا میں چھپا رکھا تھا، جب اس ردا میں سوراخ نمایاں ہوا تب نمرہ کے سامنے عمر کے اندرون کا راز افشاں ہوا جسے جان کروہ ششدر رہ گئی تھی ۔
وہ تو بانجھ مرد تھا۔ یہ حقیقت جانتے ہی نمرہ نے زمین بن کر سوراخ بھرے آسمان کے تلے رہنے سے انکار کر دیا کہ جس آسمان میں سائبان بننے کی قوت ہی نہ ہو ،جو اس کے زیر سایہ کسی وجود کو پناہ دینے کی اہلیت ہی نہ رکھتا ہو تو بھلا وہ اس پر سایہ فگن بھی کیوں رہے ؟ وہ آسمان ہی کیا جو د ھرتی کی پیاس نہ بجھا سکے ،جو اس میں اکھوے پھوٹنے کے بیجوں کی کاشت ہی نہ کر سکے ، اور تو اور جس میں بادلوں کا بوجھ ڈھونے کی سکت نہ ہو وہ کیسا آسمان ؟ اور جہاں بادل ہی نہیں وہاں کالی گھنگھور گھٹائیں کہاں جو دھرتی کو سیراب کر دیتیں ،انتظار اور اعتبار دونوں کے ختم ہوتے ہی دھرتی نے آسمان کو ٹھکرانے کا فیصلہ کر لیا ۔نمرہ نے پہلے عمر سے بات کی کہ
” آپ مجھے طلاق دے دیجیے ۔ “
”طلاق ؟کیا کہہ رہی ہو تم میں تمہیں طلاق دے دوں ؟ لیکن کیو ں ؟“
وہ ڈھٹائی سے سوال کر رہا تھا
” وجہ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔“
”نہیں نہیں میں اپنے والدین اور اقبال انکل کو کیا جواب دوں گا ؟اقبال انکل نے تو پورے سماج کے سامنے ہماری عزت اس وقت بچائی تھی جب عارفہ نے شادی سے انکار کر دیا تھا ،نہیں میں تمہیں طلاق ہر گز نہیں دے سکتا ۔“
نمرہ خاموش ہو گئی ۔وہ کیا کہتی عمر سے کہ بابا کو جواب دینے کی فکر نہ کرے ،انہوں نے تواسے اپنی خواہش کی تکمیل کی راہ میں حائل سمجھا ہوا تھا جسے ہٹاکر راحیلہ آنٹی سے شادی کرنا تھی اور یہی کیا بھی ۔اس بن ماں کی بیٹی کو بیر ی کا کانٹا سمجھ کر پہلے نکالا پھر اپنا گلشن آباد کرکے مجھ سے بے نیاز ہو گئے،وہ اب بھلا کہاں عمر سے کوئی سوال کرتے ۔اس کا دل رنج سے بھر گیا تھا ۔
عمر کے طلاق نہ دینے سے وہ عجیب صورت حال میں پھنس گئی تھی ،کیونکہ وہ زمین تھی اور زمین کو آسمان سے شکوہ کرنے اور اس کی شکایت کرنے کے حق سے بھی محروم رکھا جانا سماج کی ایک روایت بن گیا ہے اور اس فرسودہ روایت کی آبیاری بھی تو دوسری زمین ہی کرتی آرہی ہے ، زمین کو بنجر کہنے والی بھی عورت ہی تو ہے ۔ وہی عورت جس نے بانجھ مرد کو پیدا کیا تھا، اپنے رحم میں پلے وجود کے سارے اسرار جاننے کے باوجود جب اس کی ساس اس سے زرخیزی کا شکوہ اور مطالبہ کرتی تو نمرہ اپنے آپ کو بڑا بے بس محسوس کرتی ،اس کی نظریں جھک جاتیں وہ زمین کو یوں دیکھتی کہ میں نہ بولوں گی تو ہی کچھ بول دے کہ تو بنجر کیسے ہوئی ؟ لیکن دھرتی بھی تو ماں ہے کب اپنے ناکارہ سپوتوں کے بھید دنیا کو بتاتی ہے، سب اپنے میں دفن کر کے رکھ لیتی ہے ۔وہ بھی خاموش رہتی ۔نمرہ بھی کچھ کہنے کی جسا رت نہ کر پاتی اور یوں اس پر ظلم کا دائرہ وسیع ہو تا گیا اس وسعت میں بانجھ مرد بھی اپنا حصہ برابر ڈالتا رہتا ۔
اس نے کئی بار عمر کے سامنے اپنا مطالبہ دہرایا تھا ۔ انتہا تو اس وقت ہوئی جب عمر نے زرخیزی کے لیے دوسرے کاشت کار کی پیش کش کر دی ، وہ غصہ سے تلملا گئی،وہ اس کا حق دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا تب نمرہ نے جائز طریقہ استعمال کیا لیکن عمر اسے اپنی عزت بچانے کے لیے نا جائز کام کرنے کو کہہ رہا تھا ۔ اس پیشکش پر نمرہ کا خون کھول اٹھا تھا ۔ اس کے بدلے تیور دیکھ کر عمر اس کے سامنے گڑگڑانے لگا ، اس سے معافیاں مانگنے لگا لیکن اس نے معاف کرنے سے انکار کر دیا ۔اس انکار کے بعد اس کے سامنے عمر کا وہ گھنونا روپ آیا جو اس کے گمان میں بھی نہیں تھا ، وہ کہہ رہا تھا کہ
” اگر تم نے کسی کے سامنے میرے خلاف ایک لفظ بھی بولا تو تمہیں اس کا بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا.”
“کیا کریں گے آپ ؟”
“میں تمہارے کردار کی دھجیاں اڑا دوں گا ،تم ابھی مجھے نہیں جانتیں ،تمہیں میں جس حال میں رکھوں ویسے ہی تمہیں رہنا ہوگا ،تمہاری آسانی کے لیے میں نے ایک راستہ دیا تھا جسے تم نے ٹھکرا کر اپنا خود کا نقصان کیا ہے ۔“
یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گیا ۔
وہ رات بھر جاگتی رہی ، عمر کے الفاظ اسے ایسے زخم دے گئے تھے جس کی ٹیسیں اسے سونے نہیں دے رہی تھیں ، اس کے زخم زخم وجود پر عمر کا ہر لفظ ایک نیا تازیانہ ثابت ہوتا ،وہ درد سے ساری رات کروٹیں بدلتی رہی ،سوچتی رہی ،بالآخر صبح تک وہ ایک نتیجے پر پہنچ چکی تھی ، صبح کا سورج اس کے لیے شعاع امید لے کر آیا ۔نمرہ عمروں کا تفاوت ،رشتوں کا تغافل ،اعتبار کی کرچیاں سمیٹ کر انصاف کے پیامبر شہر کے نامی وکیل تحسین حسین کے دفتر میں کھڑی تھی ، اب اسے عدالت سے ہی انصاف کی امید تھی ۔ وہ پر عزم تھی خود کے لیے کہ اس نے اپنے ہونے سے انکار نہیں کیا ، اس کے اندر زندگی تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ جو زندہ ہے اسے اپنے ہونے کا ثبوت دینا ہوتا ہے ۔
تحسین حسین عدالت عالیہ کا ایک تجربہ کار وکیل اس کی کہانی سن کر اس وفا کی پیکر کو بس دیکھتا ہی رہ گیا ، انسانیت پر قربان اس نازک اندام کے حوصلے جو رشتوں کی اذیتیوں نے اسے عطا کیے تھے اسے حیران کر گئے ،وہ اس رات دیر تک اس کے کیس کے متعلق سوچا کیا ،کچھ نیا نہیں تھا وہی عورت کی گھسی پٹی کہانی جو ہر دن کسی نہ کسی وقت کسی نہ کسی کردار کی زبانی وہ سنتا رہتا تھا ۔
لیکن نمرہ کے کیس میں چونکانے والی جو بات تھی وہ یہ کہ وہ ایک نام نہاد عزت دار شخص کی بیٹی اورایک دولت مند شوہر کی بیوی تھی ، نہ تو اسے باپ نے بیچا تھا نہ ہی شوہر نے جوئے میں ہارا تھا ،نہ جہیز کا تقاضا تھا نہ ہی حق مہر کم تھا لیکن پھر بھی وہ اپنا سب کچھ ہار گئی تھی اس کے با وجود وہ کمزور نہیں پڑی تھی ۔وہ اپنے حق کے لیے سینہ سپر ہو چکی تھی ، رشتوں کی تپش سے جھلسنے کے بعد بھی چٹان کی طرح مضبوط تھی ۔
عدالت کی ہر تاریخ سے پہلے وہ وکیل کے دفتر میں ہوتی ،وکیل اسے اگلے دن کے مرحلے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرتا اسے سمجھاتا کہ جس جگہ وہ کل کھڑی ہو گی وہاں کوئی پھولوں کا گلدستہ لیے خوش آمدید نہیں کہے گا بلکہ دشنام کے تیر بر سیں گے جن کا اسے سامنا کرنا پڑے گا ۔وہ مضبوط بنے رہنے کا وعدہ کرتی مگر وہاں پہنچ کر نروس ہو جاتی اس کے ا ندر کے تلاطم کو چند قطرے رخسار پر آکر عیاں کر دیتے جنہیں وہ جلدی سے ٹشو پیپر میں جذب کر لیتی لیکن اس کا وکیل تحسین حسین اس طوفان کی ہلچل کو محسوس کر لیتا تھا کہ وہ اس کے درد کی مسیحائی کرنے کا خواہش مند تھا ، وکیل کے سامنے ایک معصوم مظلوم لیکن بہادر لڑ کی تھی جس کے حوصلے کو بڑھا کر اسے یک گونہ سکون ملنے لگتا اور وہ اس کے کیس کو کامیابی دلوانے کے لیے مزید محنت کرنے لگتا ،اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب تک تو عدالت میں اس نے ڈری سہمی عورتیں ہی دیکھی تھیں جو کٹہرے میں کھڑے ہو کر سوالوں کا سامنا کرنے سے ڈرتی تھیں اوربہتر یہ سمجھتی تھیں کہ غلط پر سمجھوتہ کر لیا جائے ،ایسا کرتی بھی تھیں اور اسے وہ اپنے مقدر کا نام دے دیا کرتی تھیں ۔لیکن نمرہ کی باتیں الگ تھیں ۔
ایک دن نمرہ وکیل سے پوچھنے لگی ۔
”سر بتائیے بھلا کوئی اپنی بیٹی کی ایسے بلی چڑھاتا ہے کیا ؟ وکیل کی گردن کی حرکت نفی میں ہلتی وہ اسے الفاظ میں ڈھال دیتی ۔
”نہیں نہیں نا ؟ بتائیے کس پر اعتبار کروں اب میں ؟“
وکیل کوا س وقت الفاظ کا کوئی مرہم نہیں ملتا جو اس کے دردکا مداوا کر سکے۔وہ خود سوال کا جواب دیتی ۔
”پناہ گاہ جب جلتے ریگ زار کو کہے کہ یہی اگلا سائبان ہے تو لڑکی کیا کرے ؟ کیا اس مقدر پر قانع ہو جائے؟ نہیں سر نہیں اب یہ سب نہیں ۔سر سن رہے ہیں نا آپ میری بات مجھے ہر حال میں یہ کیس جیتنا ہے،مجھے اس گلی سے خوں میں نہائے بنا نکلنا ہے ۔“
”جی جی محترمہ نمرہ عمر خان آپ تو مقدمہ اسی وقت سے جیت چکی ہیں جب آپ نے خود پر عائد ہر الزام کو مسترد کر نے کا ارادہ کیا تھا اور اپنا حق لینے کا قصد کیا تھا ۔“وہ وکیل کو ٹوکتی اور کہتی
”صرف نمرہ ۔۔یہ سر نیم جو ہے نا اس کے بنا بھی میں ہوں ،نمرہ اقبال خان کے بنا بھی میں نمرہ ہوں ۔“
وکیل اس کے جواب پر چونکتا اور کہتا
”واقعی ؟؟؟“
”جی ہاں “
” کیا آپ جانتی ہیں کہ ایک خاتون کے لیے اس سماج میں رہنے کے لیے سر نیم کتنا ضروری ہوتا ہے؟ “
”جی ہاں جانتی ہوں اسی لیے پہلے نمرہ اقبال اور پھر نمرہ عمر کی نیم پلیٹ کو اپنے ماتھے کی زینت بنا رکھا تھا لیکن وہ دونوں ہی نیم پلیٹ بہت جلد اپنا رنگ چھوڑ گئیں ،پھر یہ بھدی سی زنگ آلود سی بد نما ،بوسیدہ نیم پلیٹ سے میں خود کو کیوں سجا کر رکھوں ؟“
وکیل سوچتا رہ جاتا یہ لڑکی روایتوں سے بغاوت کیسے سیکھ گئی ہے ،زندگی کے تجربات نے اسے جھکنے کے بجائے سر اٹھانے کا ہنر کیونکر سکھا دیا ۔
لیکن عمر کے لیے یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا ،وہ اس کے خلع کی پیش کش کو بھی ٹھکرا چکا تھا ،طلاق کے بجائے وہ اسے سماج میں عزت سے رہنے دینے کے قابل بھی نہ چھوڑنے کا فیصلہ کر چکا تھا،وہ انتقام کی آگ میں جھلس رہا تھا،ہ یہ برداشت ہی نہیں کر پارہا تھا کہ وہ اس کے مد مقابل کھڑے ہو کر اپنا حق طلب کرے ،پھر اس نے وہی حربہ استعمال کیا جس کی وہ نمرہ کو دھمکی دے چکا تھا ۔ اس نے نمرہ کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،اس پر تمام تر گندے الزامات لگائے اور ایسا کرتے وقت وہ اس بات کو پوری طرح بھول چکا تھا کہ وہ جس کی بے عزتی کر رہا ہے وہ انہی اقبال احمد کی بیٹی ہے جس نے اس کی اور اس کے گھر والو ں کی عزت بچانے کے لیے اپنی بیٹی کا رشتہ دے دیا تھا ،اقبال احمد بھی اب اپنے فیصلے پر پچھتا رہے تھے کہ کاش انہوں نے اتنی جلد بازی نہ کی ہوتی ۔لیکن نمرہ ان حالات سے نہ ڈری نہ گھبرائی ، وہ وکیل استغاثہ کے ہر سوال کا جواب پورے اعتماد کے ساتھ دیتی رہی ۔ اس کا پر اعتماد لہجہ عمر کو کمزور کرتا گیا ۔
جب وہ اپنے حق کے لیے بولتی تو اس کا لہجہ بدل جاتا تھا لہجہ ہی نہیں بلکہ آواز بھی تھوڑی اونچی ہو جاتی تھی اور اس کے اندر کا استقلال جھلکنے لگتا تھا ۔
اور آخر جب اس سے عمر پر لگائے الزام کا ثبوت مانگا گیا تو اس نے ایک اچٹتی نگاہ عمر کی طرف ڈالی جیسے کہہ رہی ہو میرے لیے اب اتنا آساں نہیں لہو رونا اور اس نے عمر کی اپنی ریکارڈنگ آن کر دی ۔
٭٭٭٭٭
تحریر: ڈاکٹر عشرت ناہید
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...