گاؤں میں جنگل کے بیچ و بیچ یہ پورے چاند کی تقریباً آدھی رات تھی۔ قبائلی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی دو تین قطاریں گلبہیاں ڈالے کبھی آگے کبھی پیچھے جھول جھول کر ناچ رہی تھیں۔ ان لوگوں نے روایتی پھول پتیوں کے مختصر سے لباس بنا کر پہنے ہوئے تھے۔ ایک طرف آٹا لگا کر بنائے گئے خاص قسم کے ڈھول کی تھاپ سے “چچانگ پوئی پوئی” جیسی آواز گونج رہی تھی۔مردنگ، بانسری کی سریلی تانیں، گیت کے میٹھے بول اور گھنگروُں کی چھن چھن رات کے سنّاٹے میں دور دور تک گونج رہے تھے ۔
عجیب مسحور کرنے والا ماحول تھا ۔ ایک ساتھ الاپ لیتے ہوئے وہ ایک ساتھ نیچے جھکتے پھر ایک ساتھ اوپر اٹھ جاتے ۔ قدم سے قدم، تال سے تال ملاتے ہوئے وہ ساری دنیا سے بےخبر اپنی ہی مستی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ رات گہری ہو چلی تھی اور ناچتے گاتے یہ نوجوان جوڑے بھی مدہوش ہوتے جا رہے تھے ۔
چاروں طرف بیٹھے ہوئے قبائیلی جو اب تک تالیاں بجا رہے تھے اُن کی ہتھیلی کی تھاپ بھی اب ہلکی ہونے لگی تھی۔ مہوا کا نشہ سب پر حاوی ہو چکا تھا ۔
ماریہ نے اپنے چاروں طرف نظریں گھمائیں۔ کوئی ہوش میں نظر نہیں آیا ۔ اسے ذرا سی گھبراہٹ محسوس ہوئی لیکن حیرت بھی ہوئی کہ سارے نوجوان اپنی ساتھی لڑکیوں کے ساتھ رقص میں مشغول تھے ۔ کسی نے بھی اس کی طرف غلط نگاہ سے نہیں دیکھا تھا ۔ وہ جس بزرگ قبائلی گلوکارہ سنتھالا کے ساتھ یہاں آئ تھی وہ بھی مہوا کے نشے میں جھوم رہی تھیں ۔ اس نے مسکرا کے ہاتھ اٹھا کے ماریہ کو اطمینان رکھنے کا اشارہ کیا ۔ ماریہ مسکرا دی ۔
قبائلی گلوکارہ سنتھالا سے اس کی دوستی عالمی یوم قبائل کے کے موقعے پر منعقد ایک تقریب میں ہوئی تھی ۔ ماریہ لوک موسیقی پر اپنی تحقیق کے سلسلے میں وہاں موجود تھی ۔ تقریب میں مختلف صوبوں کے قبائلی فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لئے مدعو کے گئے تھے ۔ سنتھالا بھی انہیں میں سے ایک تھی ۔ جگہ جگہ پروگراموں میں شرکت کرنے کی وجہ سے سنتھالا عام زبان سمجھنے اور تھوڑی بہت بولنے لگی تھی ۔ اس لئے ماریہ کو اس سے گفتگو کرنے میں کوئی دقّت پیش نہیں آئ ۔ قبائیلی روایتوں اور موسیقی کو قریب سے جاننے اور سمجھنے کے لئے وہیں اس نے سنتھالا سے اس کے گاؤں آنے اور کچھ دن اس کے ساتھ رہنے کی خواہش ظاہر کی تو سنتھالا نے خوشی خوشی اسے قبول کر لیا ۔ اور اب شہر سے کوسوں دور اس قبائلی گاؤں میں وہ سنتھالا کی مہمان تھی اور اس وقت فصل کٹنے کے بعد سات دن تک چلنے والے ان کے جشن میں شریک تھی ۔
قبائلیوں کے اس تیوہار کے آتے ہی گاؤں میں دل لبھانے والے میلے سج گئے تھے۔ ہرطرف قبائیلی ساز بج رہے تھے ۔ گڑ کی جلیبی، پکوڑے، کھارے، پان، قلفی اور مہوا کی مہک گاؤں بھر کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے ۔ سجے دھجے قبائلی گودنے گدواتے، جھولے جھولتے اور اپنی ہی مستی میں یہاں وہاں ٹولیاں بنا کرگھوم رہے۔ ماریہ نے دیکھا میلے میں ایک طرف منڈپ بھی سجا ہوا تھا ۔ بھیلی گیت بج رہے تھے ۔ “لگن بیلہ” چل رہی تھی۔ کچھ نوجوان لڑکے لڑکیاں منڈپ کی ویدی کے قریب کھڑے ہوکر ایک دوسرے کے گلے میں سیپیوں سے بنی مالائیں ڈال دیتے اور کچھ اسی ویدی کے قریب کھڑے ہوکر ایک دوسرے کے گلے سے سیپیوں کی بنی مالائیں اتار کر دوسرے لڑکے لڑکیوں کے گلے میں ڈال دیتے ۔ وہ بہت دلچسپی سے سب دیکھ رہی تھی لیکن سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ سنتھالا نے اسے بتایا کہ ہمارے یہاں لگن صرف لڑکا لڑکی کی پسند کا معاملہ ہوتا ہے ۔ یہ جو میلہ لگا ہوا ہے اسی میں دونوں اسی طرح مالائیں بدل کر لگن کر لیتے ہیں اور آگے چل کر کسی بھی وجہ سے اگر ان کو الگ ہونا ہوتا ہے یا کسی اور کے ساتھ رہنا ہوتا ہے تو اسی میلے میں اسی طرح ایک دوسرے کے گلے سے مالائیں اتار کر اپنی پسند کے دوسرے لڑکے یا لڑکی کے گلے میں ڈال دیتے ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں گھر اور سماج کے لوگ خوشی خوشی ” لگن بیلہ” میں شامل ہوتے ہیں ۔
ماریہ نے اپنا پورا دن میلے کی انھیں رونقوں اور قبائلیوں کے عجیب و غریب رسم و رواج دیکھنے میں گزارا ۔ اور اب وہ پھوس کے بنے آسن پر بیٹھی آدھی رات تک چلنے والے قبائیلی رقص کے سحر میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ رقص بھی ختم ہوا اور سب اپنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں یہاں وہاں گم ہو گئے۔
ماریہ بھی کھو جانا چاہتی تھی یہیں کہیں، تہذیب یافتہ لوگوں سے کوسوں دور گاؤں کے اس جنگل میں، ان جنگلی لوگوں کے درمیان. وہ بھول جانا چاہتی تھی سب کچھ ۔۔۔اپنی کڑوی کسیلی نقلی بدمزہ زندگی۔۔۔۔
انھیں خیالات میں گم وہ سنتھالا کے ساتھ اس کے چھوٹے سے مٹی کے گھر میں لوٹ آئ تھی ۔ اور اب چار پائی پر لیٹی ہوئی شہر کی اپنی زندگی، اپنے گھر اور گزرے ہوئے تلخ لمحات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ نا چاہتے ہوئے بھی یہاں آنے سے پہلے کے واقعات اس کی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے ۔۔۔
بہت اداسی ہے ۔ عجیب خالی پن کا احساس ماریہ کے پورے وجود میں در آیا ہے ۔ وہ بے چین ہوکر کھڑکی کا پردہ کھینچ دیتی ہے ۔ سامنے پہاڑوں پر شام اتر آئ ہے ۔ ڈوبتے سورج کا منظر اسکی اداسی میں اور اضافہ کر گیا ۔
واٹ آر یو تھنکنگ ماریہ ؟
اچانک پیچھے سے آکر نیل نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تو وہ چونک پڑی۔
“نتھنگ ” اس نے بغیر چہرہ گھمائے مختصر سا جواب دیا
آر یو اوکے ؟ نیل نے پوچھا
یس نیل ، آئی ایم گڈ ۔ تھینکس
ماریہ نے بے دلی سے جواب دیا
نو یو آر نوٹ ۔۔۔نیل نے پریشان ہوکر پوچھا ، ” اچھا بتاؤ تمہاری ریسرچ کیسی چل رہی ہے اینڈ واٹ اباوُٹ یور نیکسٹ سیگمنٹ ؟
ماریہ نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ بس خالی خالی آنکھوں سے کھڑکی کے باہر دیکھتی رہی ۔ نیل نے اسے کندھوں سے پکڑکر اپنی طرف گھمایا اور اور قدرے تیز آواز میں بولا ، ” دس از نوٹ ڈن ماریہ ۔ ٹیل می، واٹس رونگ ود یو ؟ ”
افف یو آر ہرٹنگ می نیل ”
ماریہ نے تلملاکر اپنے کندھوں پر رکھے نیل کے ہاتھوں کو جھٹک دیا اور سخت لہجے میں بولی، ” لسن نیل، پلیز لیو می الون ”
لیکن کیوں؟ کیا تم ابھی تک اس دن کے واقعے کو لئے بیٹھی ہو۔ سنو ماریہ، میں تم سے کہہ چکا ہوں کہ اٹ واز نوٹ لو ۔ اٹ واز اونلی اے فزیکل نیڈ ۔ روشا اور میں ایک دوسرے سے پیار نہیں کرتے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ہمارے درمیان سیکسول ریلشن شپ ہے بٹ وداوٹ اینی کمٹمنٹ ۔ تم سے شادی کے بعد روشا سے میرا کوئی تعلّق نہیں رہیگا۔ یقین کرو ماریہ، پیار میں صرف تم سے کرتا ہوں ۔ ”
مجھے تمہارے کسی معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے نیل ۔ اور سنو میں اس دن بہت سوچنے سمجھنے کے بعد فیصلہ کر کے تم سے صرف یہی کہنے گئی تھی کہ ہماری شادی نہیں ہو سکتی لیکن تمہارے ساتھ اسے دیکھ کر میں خاموشی سے واپس آ گئی ۔ مجھے کوئی حیرت یا صدمہ نہیں ہوا تھا نیل ۔ میں نے تم سے کبھی محبّت نہیں کی تو ان سب باتوں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ” ماریہ بہ مشکل اپنے لہجے میں توازن بنائے ہوئے تھی
شادی نہیں ہو سکتی ؟ کیا مطلب ہے تمہارا ؟ ہماری منگنی ہو چکی ہے ماریہ ۔ نیل نے پھر ایک بار اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا ،” یو کانٹ ڈو دس ود می ”
” منگنی میری مرضی سے نہیں ہوئی تھی یہ بھی تم جانتے ہو۔ میں نے ماں ڈیڈ کے کہنے سے اور تمہاری ضد کی وجہ سے اس رشتے کو اس طرح سے سمجھنے کی ایک کوشش کی لیکن میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ میں تمہیں اپنے جیون ساتھی کے روپ میں قبول نہیں کر پاوُنگی۔ ” ماریہ نے سخت لہجے میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔ نیل سناٹے کے عالم میں اسے دیکھتا رہا اور وہ لاپرواہی سے پھر کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی ۔
ماریہ کے نزدیک یہ رشتہ ختم ہوا۔ شادی یہ لفظ اس کے لئے اب بے بے معنی تھا ۔ اس لفظ سے اس کے دل میں کسی طرح کی ہلچل پیدا نہیں ہوتی۔ ” کیا ہے شادی ؟ دو محبّت بھرے دلوں کا ایک ہو جانا۔ پیار وفا یقین اور پاکیزگی کی بنیاد پر رکھا ہوا ایک خوبصورت رشتہ۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو بچپن سے لیکر آج تک شادی نام کے اس تعلّق کی جو دھجیاں اس نے اڑتی ہوئی دیکھیں، وہ کیا تھا ؟”
ماریہ کی آنکھوں کے سامنے وہ متعدد کردار گھوم رہے تھے جنہوں نے شادی اور جسمانی ضرورت دونوں کی الگ الگ تصویریں پیش کر کے اس پورے تانے بانے کو الجھا کے رکھ دیا تھا۔ اور ان میں شامل تھے خود اس کے اپنے ماں، ڈیڈ اور اب یہ نیل بھی ۔۔۔
ڈیڈ کی دوسرے ملک میں پوسٹنگ کے دوران ماں کے ریحان انکل سے تعلقات رہے یہ وہ بچپن سے جانتی ہے ۔ لندن اور اور امریکہ میں ڈیڈ کے پاس جاکر رہی تو وہاں اس نے ان کے بھی تعلقات کئی عورتوں کے ساتھ دیکھے ۔ اور نیل۔۔۔اس کو بھی وہ اس دن روشا کے ساتھ برہنہ حالت میں دیکھ چکی ہے ۔۔۔۔آل ڈیو ٹو فزیکل نیڈ ۔۔۔۔سیکسول ریلشنشپ بٹ ودآوٹ اینی کمٹمنٹ۔۔۔۔یہ کیا ہوتا ہے بھئی ۔۔۔؟ کمال یہ ہے کہ ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے با وجود یہ ایک دوسرے کی نظروں میں سرخرو اور معتبر بنے ہوئے تھے ۔ بظاہر یہ بیحد کامیاب اور خوشحال لوگ ہیں اور معاشرے کی نظروں میں بہت معزز اور معتبر بھی ۔
افف ۔۔۔حقیقی زندگی میں اپنے ہر طرف دوہرے کرداروں کی موجودگی سے وہ بیزار ہو اٹھی اور شادی ۔۔۔ہونہہ ۔ یہ لفظ تو اب وہ سننا بھی نہیں چاہتی ۔ وہ بھاگ جانا چاہتی تھی سب سے دور ۔ کہیں بھی ۔۔۔۔کہیں بھی ۔۔۔ریسرچ تو ایک بہانہ تھا۔ سچ تو یہ ہے وہ بھٹک رہی تھی سکون کی تلاش میں ۔ بنجاروں کی طرح۔ گاؤں گاؤں بستی بستی جنگل جنگل۔۔۔اور اسی تلاش میں بھٹکتے بھٹکتے وہ آ پہنچی تھی قبائلیوں کے اس گاؤں میں ۔
سنتھالا کے کھانسنے کی آواز سے اس کے خیالات کا تسلسل ٹوٹ گیا ۔ وہ شہر اور اپنے گھر کی یادوں کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے سونے کی کوشش کرنے لگی ۔
گاؤں کے مٹی سے لپے پتے گھروں میں پہاڑوں سے شام اتر آئ تھی ۔ سنتھالا چولہے میں لکڑیاں لگا کر انھیں سلگانے کی کوشش کر رہی تھی ۔ ماریہ اس کے نزدیک چٹائی پر بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی اور اس سے باتیں بھی کرتی جا رہی تھی ۔ سنتھالا پھکنی سے پورا دم لگا کر چولہے میں پھونک مار رہی تھی مگر لکڑیاں آگ نہیں پکڑ رہی تھیں ۔ بار بار پھونکنے سے اسے کھانسی آنے لگی ۔ اتنے میں کہیں سے ایک لہیم شہیم پہلوان نما لڑکا نمودار ہوا اور اس نے پھکنی سنتھالا کے ہاتھ سے لے لی۔اور اس کی ایک ہی پھونک سے لکڑیاں دھو دھو کرکے جلنے لگیں۔ پھر وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر لا پروا چال سے واپس لوٹ گیا ۔
میرا بیٹا کالجی ۔ سنتھالا نے بتایا
اچھا۔ ماریہ نے کالجی کی طرف دیکھا۔ اب وہ چبوترے پر بیٹھا بیڑی پی رہا تھا ۔
یہ ابھی تک کہیں نظر نہیں آئے ؟ وہ کالجی پر نظریں ٹکائے ہوئے پوچھ رہی تھی ۔
ہاں، یہ کھیت اور گھر میں ہی رما رہتا ہے ۔جوانی میں سادھو اور فقیروں جیسا وراگ پالے بیٹھا ہے ۔ اپنے باپو سے ہلا ملا تھا لیکن چار برس پہلے اس کے باپو نے بڑھاپے میں پھر سے مالا بدل کر لی تب سے یہ ایسے ہی گم صم رہتا ہے ۔ ” لگُن بیلہ” میں بھی نہیں جاتا بلکہ چِڑھ سا جاتا ہے ” سنتھالا نے گرم روٹی اور ساگ پلیٹ میں رکھکے اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا
بڑھاپے میں پھر سے مالا بدل نہیں کر سکتے ؟ ماریہ نے پلیٹ پکڑتے ہوئے پوچھا
” ایسا کوئی نیُم تو نہیں ہے لیکن عام طور سے عمر ہونے پر بڈھے بڈھی پھر سے مالا بدل کرتے نہیں ہیں ۔ لیکن کوئی کرے تو اسے روک بھی نہیں سکتے ۔ اب ہمارا یہ کالجیا ہی اس بات کو جی سے لگائے بیٹھا ہے۔ ” سنتھالا کے لہجے میں اداسی تھی۔
ماریہ کھانا کھا چکی تھی۔ اس کی نظریں پھر کالجی کی طرف چلی گئیں ۔اب وہ جانوروں کا چارہ کاٹنے والی مشین پر جھکا ہوا تھا ۔
” پہلے یہ اپنے باپو کے ساتھ اس مشین پر مل کر چارہ تیار کرتا تھا ۔ بچپن سے یہ اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے گھاس لگایا کرتا تھا اور اس کے باپو ہتھا پکڑ کر پہیہ گھما گھما کر گھاس کاٹتے تھے ۔ اب کئی برس سے سارا کام اکیلا کرتا ہے کسی کو پاس نہیں آنے دیتا ۔”
سنتھالا برتن سمیٹتے ہوئے بتا رہی تھی اور ماریہ کالجی کو بغور دیکھ رہی تھی ۔ وہ پہلے مشین کے ایک طرف جاکر گھاس لگاتا پھر پلٹ کر آتا اور پوری طاقت سے پہیہ گھما دیتا ۔ مشین میں لگے ہوئے تیز دھار والے آرے سے گھاس کٹ کٹ کر گرنے لگتی ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں کٹی ہوئی گھاس کا ڈھیر لگ جاتا۔ پھر اس کٹی ہوئی گھاس کو وہ آڑی ٹیڑھی اینٹوں سے گھری ہوئی ایک کیاری میں منتقل کر دیتا ۔ ماریہ نے محسوس کیا کہ اکیلے کام کرنے میں کالجی کافی دقّت کا سامنا کر رہا تھا ۔ اس کا جی چاہا کہ وہ جاکر اس کا ہاتھ بٹائے ۔
سنتھالا نے لکڑیاں بجھا دی تھیں ۔ اور اب وہ چولہے کے آس پاس صفائی کر رہی تھی ۔
کالجی کا کھانا ؟ وہ اچانک پوچھ بیٹھی
“یہ ڈھک کر رکھ دیا ہے ۔ وہ چارہ کاٹنے کے بعد نہا کر کھاتا ہے ” سنتھالا جواب دیتے ہوئے اپنی کوٹھری کی طرف چل دی
اچانک ماریہ نے سنتھالا سے پوچھا، ” کیا میں اس کے پاس جا سکتی ہوں اس کی مدد کرنے ؟ ”
سنتھالا ہنس دی، ” کر دیجئے اگر وہ مانے۔ بھاسا تو وہ آپ کی سمجھیگا نہیں ”
ماریہ دھڑکتے دل کے ساتھ کالجی کی طرف بڑھی ۔ اسے ڈر تھا کہ وہ اس کی مدد لینے سے انکار نہ کر دے بلکہ کہیں بدتمیزی ہی نہ کر دے ۔ اس نے کالجی کی چال ڈھال اور چہرے کے تاثرات میں عجیب سی سختی محسوس کی تھی ۔ اس کے باوجود وہ خود کو روک نہیں پائی اور کالجی کے ٹھیک سامنے جاکر کھڑی ہو گئی ۔ کالجی نے چونک کر اسے دیکھا ۔ ماریہ نے اشارے سے مدد کرنے کے لئے پوچھا ۔ کالجی نے انکار میں سر ہلا دیا ۔ ماریہ نے پھر بھی آگے بڑھ کر گھاس کی گڈّی اٹھا لی اور التجا بھری نظروں سے کالجی کو دیکھا ۔ پھر جیسے ہی اس نے گھاس کی گڈی مشین میں لگانے کی کوشش کی کالجی نے لپک کر اس کے ہاتھ مشین سے دور جھٹک دئے ۔ اسے ڈر تھا کہ انجان ماریہ گھاس کے ساتھ مشین میں اپنی انگلیاں نا دے بیٹھے ۔ جھٹکا اتنی زور سے تھا کہ ماریہ قریب میں بنی ہوئ کیاری کے گرد لگی اینٹوں پر جا گری ۔ اینٹیں اس کی کمر سے ٹکرائیں اور ایک کراہ منہ سے نکلی ، کالجی گھبرا گیا ۔ چوٹ شدید تھی پھر بھی ماریہ نے ضبط کرتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی ۔ کالجی نے اسے سہارا دینے کے لئے اس کا ہاتھ پکڑا لیکن وہ نہیں اٹھ پائی۔ کالجی نے اسے اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور آنگن میں بچھی ہوئی چارپائی پر آہستہ سے لٹا دیا ۔ ماریہ درد سے کراہ رہی تھی ۔ کالجی نے پریشان ہوکر کوٹھری میں سوئی ہوئی سنتھالا کو آواز دی ۔ لیکن سنتھالا نیند میں اور کچھ مہوا کے نشے میں بےسدھ پڑی تھی ۔ کالجی کچھ دیر شش و پنج میں کھڑا رہا۔ پھر وہ باہر نکل گیا ۔ تکلیف کی شدّت سے ماریہ کے آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔کالجی کچھ دیر بعد لوٹا تو اس کے ہاتھ میں بڑے بڑے ہرے پتے تھے ۔ اس نے رسوئی سے تھوڑا آٹا اور ہلدی لیکر گوندھے، بجھے ہوئے چولہے کو پھر سے جلایا، اس پر توا رکھا اور ہلدی ملے آٹے کی موٹی سی روٹی بناکر توے پر سینکی اور اس روٹی کو ایک ہرے پتے پر رکھ کر ماریہ کے پاس پہنچا تو ماریہ درد سے کروٹیں بدل رہی تھی ۔ کالجی نے دیسی علاج کرنے کے سارے جتن کر تو لئے لیکن اب مرحلہ سخت تھا اور وہ تھا ماریہ کی کمر میں لگی چوٹ پر ہرے پتے کو گرم روٹی کے ساتھ باندھنا۔ لیکن سوچنے کا وقت نہیں تھا ۔ روٹی کو ٹھنڈا ہونے سے پہلے باندھنا ضروری تھا ۔ کالجی نے ماریہ کو الٹا لیٹنے کا اشارہ کیا ۔ ماریہ کچھ کہنے سننے کی حالت میں نہیں تھی ۔ بہ مشکل وہ الٹی لیٹ گئی ۔ کالجی نے اس کا کرتا اوپر کیا ۔ ماریہ نے محسوس کیا کہ کالجی کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔ اس نے نرمی سے کمر پر دو تین جگہ انگلیاں رکھ کر چوٹ کی تصدیق کی ۔ پھر گرم روٹی چوٹ پر رکھ کر اس پر پتے کو رکھ کر اپنے گمچھے سے پیٹ کی طرف سے لپیٹتے ہوئے کس کے باندھ دیا ۔
کچھ ہی دیر میں درد کی شدّت کم ہونے لگی ۔ ماریہ اب دیکھ پا رہی تھی پسینے میں تربتر ایک جنگلی لڑکا فکر مند سا اس کے قریب بیٹھا اسے بغور دیکھ رہا تھا ۔ اسے وہ بہت پیارا لگا ۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن کالجی نے اسے اشارے سے منع کیا ۔ وہ مسکرا دی ۔ اشارے سے پوچھا، ” تم کہاں لیٹوگے ؟” کالجی اسے مسکراتے دیکھ کر بہت خوش ہو گیا ۔ اس کا علاج کام کر گیا یہ بات بہت سکون دینے والی تھی ۔ اس نے ماریہ کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا اور چارپائی کے پاس زمین پر بچھی ہوئی چٹائی پر لیٹ گیا ۔
چوٹ میں اب آرام آچکا تھا لیکن ماریہ کی آنکھوں سے نیند غائب تھی ۔ درد کم ہونے کے بعد جسم پر کالجی کی کانپتی ہوئی انگلیوں کا لمس اب اسے بےچین کئے ہوئے تھا ۔ اس کے تن بدن میں ایک عجیب سی لذّت کے احساس نے جنم لے لیا تھا ۔
اگلے دن کمر میں درد کم تھا لیکن میلے میں جانے کے لئے اسے سہارے کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی ۔ سنتھالا دن بھر اپنی گائین منڈلی کے ساتھ رہنے والی تھی اس لئے اس نے کالجی سے ماریہ کو میلے میں لیکر آنے کے لئے کہا ۔ اسے یہ دیکھ کر مسرت آمیز حیرت ہوئی کہ کالجی نے آج ایک بار بھی انکار نہیں کیا ۔ بہرحال وہ مطمئن ہوکر اپنی گائین منڈلی کے ساتھ نکل گئی ۔
ماریہ کالجی کے ساتھ میلے میں پہلے دن سے دیکھی ہوئی ساری چہل پہل اور رونقیں دیکھ رہی تھی لیکن آج اسے سب کچھ زیادہ خوشگوار اور بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ گھومتے وقت کالجی کا ہاتھ پکڑنا ، بھیڑ سے بچاتے ہوئے لیکر چلنا ، بیچ بیچ میں اسے درخت کے سائے میں بیٹھا دینا۔ ایک عجیب سی کیفیت تھی اور اس کیفیت کو وہ بھرپور جینا چاہتی تھی ۔
اس وقت وہ درخت کے سائے میں بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھی ہوئی یہاں وہاں بہت سے قبائلی مرد اور عورتوں کو مہوا اور بیڑی پیتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔اس نے قریب میں بیٹھے ہوئے کالجی پر نظر ڈالی ۔ اس کے ہونٹوں میں بھی بیڑی دبی ہوئی تھی ۔ اس نے اشارے سے کالجی سے بیڑی مانگی ۔ کالجی پہلے تھوڑا سا جھجھکا پھر اس سے پہلے کہ وہ بنڈل میں سے دوسری بیڑی نکالے، ماریہ اس کے منہ میں دبی ہوئی بیڑی نکال کر اپنے ہونٹوں میں لگا چکی تھی۔ پہلے کش میں اسے دھسکا لگ گیا ۔ کالجی نے اسے آہستہ آہستہ کش لینے کے لئے کہا ۔ پہلے وہ خود اسے پی کر دکھاتا کہ کیسے ابھی دھواں اندر نہیں لینا ہے پھر اس کے ہونٹوں پر بیڑی رکھ دیتا ۔ ایسا کرنے میں اس کی انگلیاں ماریہ کے ہونٹوں کو چھو رہی تھیں جسموں کے تار جھنجھنا رہے تھے ۔ کالجی مٹی کے ایک شکورے میں تھوڑا سا مہوا بھی لے آیا اور اس نے وہ ماریہ کی طرف بڑھایا۔ شکورا ہاتھ میں لیکر ماریہ نے ایک لمحے کے لئے سوچا لیکن پھر وہ گھونٹ گھونٹ کرکے پی گئی ۔ عجیب سا مزہ تھا لیکن مہوا کے گلے سے نیچے اترتے ہی ماریہ پر ایک سرور کی کیفیت تاری ہو گئی۔
اس نے کالجی کا ہاتھ پکڑا اور “لگُن بیلہ” والے منڈپ کی طرف لے آئ اور اس پہلے کے کالجی کچھ سمجھ پاتا ماریہ نے منڈپ کی ویدی سے دو مالائیں اٹھا کر ایک کالجی کے گلے میں ڈال دی اور ایک مالا کالجی کے ہاتھ سے اپنے گلے میں ڈال لی۔ کالجی بوکھلا گیا ۔ وہ اب سمجھ گیا کہ پہلی بار مہوا پینے سے ماریہ پر اس کا اثر زیادہ ہو گیا ہے۔ اس حالت میں اس کا میلے میں اور رکنا ٹھیک نہیں ہے ۔ اس نے دونوں مالائیں اتار کر منڈپ کی ویدی پررکھ دیں اور ماریہ کو لے کر گھر آ گیا۔
کالجی ماریہ کو تو سنبھال کر گھر لے آیا لیکن اب اسے خود ایک عجیب سی الجھن نے گھیر لیا تھا ۔ قبائلی عقیدے کے مطابق لڑکے لڑکی کی مرضی سے مالا بدل تو شادی ہی ہوئی ۔ کل سے اب تک وہ اور ماریہ دل اور جسم دونوں سے ایک دوسرے کے قریب آتے جا رہے ہیں یہ تو سچ ہے ۔ پھر اس مالا بدل سے شادی تو ہو گئی ۔ لیکن یہ شہری میم جیسی لڑکی میری بیوی کیسے بن سکتی ہے ۔ وہ پریشان ہو گیا ۔
گھر آکر اس نے ماریہ کو چار پائی پر لٹا دیا ۔ مٹکے سے ٹھنڈا پانی لیکر اسے پلایا اور اس کے منہ پر چھینٹے مارے ۔
ادھر دن بھر چلنے سے ماریہ کے کمر کا درد اب پھر سر اٹھا رہا تھا ۔ اس نے کالجی کو اشارے سے تکلیف کے بارے میں بتایا ۔ کالجی نے پھر سارا سامان تیار کیا اور گرم روٹی پتے کے ساتھ باندھنے کے لئے ماریہ کا کرتا اوپر کھسکا دیا ۔ لیکن آج جذبات قابو میں نہیں تھے۔ چوٹ کی جگہ پر ہاتھ رکھتے ہی دونوں کی سانسیں گرم اور تیز ہو گئیں ۔
ماریہ نشے میں بڑبڑانے لگی ۔۔۔یس ۔۔کم کالجی، وی آر میریڈ ناؤ، اب ہم شادی شدہ ہیں، ہےنا ۔۔۔وہ کہتے ہیں فزیکل نیڈ ۔۔۔۔سیکسول ریلشنشپ۔۔۔۔ ودآوُٹ اینی کمٹمنٹ تو وائ نوٹ میرج ودآوُٹ اینی کمٹمنٹ ۔۔۔۔شادی میں بھی کوئی بندھن کیوں ہو ۔۔۔ کالجی، تم لوگ ٹھیک کرتے ہو۔۔۔زندگی بھر نبھانے کا کوئی وعدہ ہی نہیں کرتے ۔۔۔یو پیوپل آر گریٹ ۔۔۔رشتوں کی لاشیں نہیں ڈھوتے ۔۔
ادھر کالجی ماریہ کی کوئی بات نہیں سمجھ رہا تھا لیکن جسم، جسم کی زبان بخوبی سمجھ رہا تھا ۔ اس نے اپنے گرم ہونٹ ماریہ کی چوٹ پر رکھ دئے اور اس کی انگلیاں ماریہ کے پورے جسم پر گردش کرنے لگیں۔ اور پھر۔۔۔۔ . ماریہ نے پھولتی سانسوں کے درمیان تیزی سے پلٹ کر کالجی کو اپنے اوپر کھینچ لیا ۔ وہ اب بھی بڑبڑا رہی تھی ۔۔ڈونٹ وری کالجی ۔۔۔کم آن ۔۔میں اب تم جیسی ہوں ۔۔۔یو نو۔۔۔۔آئی ہیو ٹرائبلازڈ مائی سیلف
۔۔۔۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...