“او مائی گاڈ ۔۔۔او مائی گاڈ ۔۔ارسہ غزل تم ۔۔۔ اور یہاں ۔۔۔!!! ”
ایک جانی پہچانی آواز پر ارسہ نے مڑ کر دیکھا تو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیوں کہ سامنے اس کا کزن ریحان کھڑا تھا.
وہ برمنگھم میں اپنے ڈیپارٹمنٹل اسٹور سے اپنی پانچ سال کی بیٹی حفصہ کے لیے کچھ چیزیں لے کر اور حسبِ معمول اسے تھوڑا گھمانے کے لیے نکلی ہی تھی کہ ایک مانوس آواز نے اسکا پورا نام لے کر پکارا تو وہ ایک دم ٹھٹھک کر رک گئی ۔کیونکہ اس کا پورا نام وہی پکارتا تھا جو کبھی اس کے دل کا مکین تھا ۔
” اف ۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس بار اپنے کاروباری دورے پر تم مجھے لندن میں ملو گی ۔۔۔۔” وہ حیرت سے کھوئی کھوئی آواز میں بولا ۔۔
یہ سن کر ارسہ دھیمے انداز میں مسکرا اٹھی اور پرام کو گھسیٹتے ہوۓایک سائیڈ پر کھڑی کرتے ہوۓ بولی :
“میں تو خود یہ سوچ نہیں سکتی تھی ریحان کہ برسوں بعد آپ یہاں ملو گے . ”
“سات برس بعد میں تمہیں اپنے سامنے کھڑا دیکھ رہا ہوں .”
وہ ہمیشہ کی طرح جذباتی لہجے میں بولنے لگا۔ ” اُفففف کتنا وقت گزر گیا ۔”
پھر قدرے توقف کے بعداس نے ایک ہی سانس میں اپنی پلاننگ بتاتے ہوۓ ارسہ کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا کہ اچھا یہ میرا وزیٹنگ کارڈ ہے میں اس ہوٹل میں ٹہرا ہوں ۔۔ کیا ہم شام کو مل سکتے ہیں ۔اگر تم ہوٹل آ جاؤ تو ہم ڈنر اکھٹے کر لیں گے ۔
یہ سنتے ہی وہ ہڑبڑا کر بولی:
“مل ن ااا چاہتے ہیں آپ مگر کیوں ۔۔.؟”
وہ اس کے اس غیر متوقع سوالُ پر پہلے حیران ہوا لیکن جلد ہی اس کی طرف دیکھ کر بولا:
” بہت کچھ بتانا ہے سنانا اور سننا ہے اس لیے ۔۔۔”
کچھ خاص توجہ نہ دیکھ کروہ پرام میں سوئی حفصہ کو دیکھتے ہوۓ بولاکہ بہت پیاری بچی ہے ۔
اس پر ارسہ ٹھنڈا سانس بھرتے ہوۓ بولی:
” آپ گھر آ جائیے گا یہاں قریب ہی میرا گھر ہے ۔۔۔ میں ایڈریس بتا دیتی ہوں آپ شام کو گھر نشریف لائیے گا ۔”
یہ سنتے ہی ریحان خوشدلی سے بولا ہاں بہت دیر بعد تمہارے ہاتھ کی بنی ہوئی چاۓ بھی پینے کو ملے گی تو وہ دھیرے سے مسکرائی ۔۔
اسی دوران ریحان کے فون کی گھنٹی بجی تو وہ نمبر دیکھ کر جلدی سے بولا کہ میرے کلائینٹ کا فون ہے’ پھر کوٹ کی جیب سے ایک کارڈ نکالااور ارسہ کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہنے لگا یہ میرا وزیٹنگ کارڈ رکھ لو اس پر میرا موبائل نمبر ہے پلیز گھر کا ایڈریس میسج کر دینا ۔میں شام کو آ جاؤ ں گا اور جلدی سے خدا حافظ کہہ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہواوہاں سے چلا گیا ۔
ارسہ نے گہرا سانس لیا اور پرام کو چلاتے ہوۓ آہستہ آہستہ سڑک کے ایک طرف چلنے لگی ۔مگر اس کے ذہن میں یادوں کے جھکڑ چل رہے تھے اور چہرہ اس دھول سے کمہلا گیا تھا ۔۔۔گھر پہنچ کر حفصہ کو کھانا کھلا یااوراُسے سُلا کر کمرے سے باہر نکلی ہی تھی کہ تبھی دروازے پر دستک دیتی ہوئی اسکی ہمسائی نیہا اندر داخل ہوئی اور اسکا تین سال کا بیٹا جو سویا ہوا تھا ہولے سے اسے پکڑاتے ہوۓ بولی ابھی سویا ہے آپ اسے اسکے کمرے میں لٹا دیں ارسہ نے
ممنون نظروں سے نیہا کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر ہولے سے بولی۔ کام ختم کر نےکے بعد آؤں گی ۔۔۔اور پھر باۓ باۓ کہہ کر داخلی دروازہ بند کر کے چلی گئی ۔۔ ارسہ نے برہان کو پیار سے دیکھتے ہوۓ کمرے کا دروازہ کھولا اور چھوٹے بیڈ پر اسے لٹا دیا اور اسکی پیشانی پر بوسہ دے کر آئستگی سے کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔۔ ریحان کا دیا ہوا وزیٹنگ کارڈ ہاتھ میں لیااور وہیں صوفے پر بیٹھ گئی اور گہری سوچ میں ڈوب گئی ۔ماضی کا کرب اس کے دل کو چیرنے لگا لیکن خود کو سنبھال کر اس نے موبائل پر میسج لکھا اور سینڈ کر کےسکون سے آنکھیں بند کر لیں ۔ اب اس کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ نمایاں پھیل گئی۔
شام کے دھندلکے گہرے ہو رہے تھے۔ دروازے کی بیل بج اٹھی۔ دروازے کھولتے ہی ریحان سامنے کھڑا تھا۔ اندر آ کر ریحان کرسی پر بیٹھ گیا اور وہ تھوڑی دیر کے بعد کچن سے چائے بنا کر لائی۔ ریحان شکریہ ادا کرتے ہوئے چاۓ کی چسکی لیتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں بولا:
“کیا تمیں یاد ہے ارسہ غزل تم میری ہم زبان تھی ؟”
لیکن ارسہ کے چہرے پر ابھرتی حیرت اور آنکھوں میں ٹہرے سوال کو پڑھتے ہوۓ ریحان نےمنہ دوسری طرف پھیر لیا اور تھوڑے وقفے کے بعد جیسے الفاظ کو اور اپنی ہمت کو مجتمع کرتے ہوۓ کہنے لگا ۔
۔پتا ہے ۔” ہم زبان انسانُ کا ہم ذات ہمراز اور رمز آشنا ہوتا ہے جو ایک ہی مٹی سے گوندھا جاتا ہے ایک ہی چاک پر گھمایا جاتا ہے اور ایکُ سی فطری جبلت کے ساتھ اس دنیا میں دو وجود اور اشکال میں دنیا میں بھیجے جاتے”۔۔
ہیں جو چاکُ پر رکھی ایک رنگ اور فطرت کی مٹی کے دو قالب ہوتے ہیں ۔۔ جو ہر کسی کو کھوج اور جستجو کے بعد بھی نہیں ملتا ۔۔ بس کبھی کبھی رب کی رضا اور اسکی عطا سے اسے اسکا ہم زبان مل جاتا ہے ۔۔۔اور پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہنے لگا ۔۔۔” جسطرح تمجھے تم ملی ۔میری ہم زبان اور پھر میں نے اسے گنوا دیا ۔۔ صدیوں کی جستجو کے بعد جسے پایا اسے لمحوں میں کھو دیا ۔”۔
۔جانتی ہو ارسہ غزل ۔۔۔۔ ارسہ نے چونک کر اور حیران نظروں سے ریحان کی طرف دیکھا جو اپنی رو میں بولے جا رہا تھا ۔
۔۔ جس طرح انسان سائبان سے محروم ہو کر بے سائبان ہو جاتا ہے اسی طرح اپنے ہم زبان سے جدا ہو کر امیں سچ مچ بے زبان ہو گیا ہوں ۔۔ مدت بعد میں نے جانا ہے کہ سائبان جتنا اہم ہوتا ہے اتنا ہی ہم زبان ہونا کتنی اہمیت رکھتا ہے
پھر تھوڑی دیر خاموش ہو کر ارسہ کی محویت کو محسوس کرتے ہوۓ بولا
“ہم معاشرتی طور پر انسان ہیں مگر جبلی طور پر حیوان بے زبان ۔۔ جب تک ہمیں ہمارا ہم زبان نہ ملے دنیا کے جنگل میں ہم بے زبان ہی رہتے ہیں “۔۔ ہم زبان وہ جو بنا بولے ہمارے احساسات سمجھ کے جب اکدوسرے سے بات کریں تو گھنٹوں کیا صدیاں بولتے رہے اور ایکدوسرے کو سنتے رہیں تو بھی دل نہیں بھرتا ۔۔مگر جو ہم زبان نہ ہو اسکے لئیے ہم بے زبان بن جاتے ہیں ہم ہی کیا ہمارے جذبات و احساسات بے سمجھی کے دشت کی دھول بن جاتے ہیں ہمارے الفاظ ہماری زبان ہمارا لہجہ کسی کو سمجھ ہی نہیں آتا نہ ہم کسی کی زبان کو لہجے کو احساسات کو سمجھنا چاہتے ہیں۔”
۔۔ وہ سانس لینے کو رکا ۔۔ اور جس طرح تم میری باتوں کو سنتی اور سمجھتی تھیں اور کوئی نہ سمجھ سکا ۔۔ارسہ نے اس کی طویل بات کو اکتاہٹ اور بے دلی سے سنتے ہوۓ بظاہر اپنی ناگواری کو رسمی خوشگواری میں چھپانے کی کوشش کرتے ہوۓ کہا ۔۔”بڑی دیر کے بعد آپ کو اس بات کا ادراک ہوا ۔۔تو وہ لمحہ بھر اس کے ملیح چہرے کو دیکھکر سر ندامت سے جھکا کر بولا ہاں ۔۔ ہاں اس بات کو سمجھنے میں مجھے سات برس لگے” ۔۔
۔ ارسہ نے اندر کی تلخی کو مسکراہٹ میں لپیٹتے ہوۓ کہنے لگی ۔۔۔لفاظی اور الفاظ کو شاعرانہ انداز میں مہارت سے ترتیب دینا آپ کبھی نہیں بھولتے ریحان ۔۔آپ جانتے ہیں آپ کی اسی بات سے لوگ آپ کے گرویدہ ہو جاتے تھے ۔۔۔جیسے۔۔” اس نے قدرے توقف کیا تو ریحان نے چونک کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا توہ طنزیہ انداز میں کہنے لگی جیسے جیسے سلینہ” ۔۔ تو وہ تڑپ کر اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا ۔۔ نہیں وہ میری گرویدہ نہیں ہوئی تھی سچ تو یہ ہے کہ وقتی طور پر میں اس کی دولت اور اسٹیٹس کا گرویدہ ہو گیا تھا ۔۔مگر شادی کے کچھ عرصے کے بعد وہ مجھ سے اکتا گئی ہماری ذہنی ہم آہنگی نہیں ہو سکی پتا ہے کیوں ۔۔وہ اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوۓ پوچھا ۔۔ تو ارسہ گڑبڑاتے ہوۓ بولی نن نہ نن نہیں ۔۔ آپ بتائیے ۔۔۔
تو وہ گہری سانس کے کر بولا ۔۔
“کیونکہ ہم ایک دوسرے کے ہم زبان نہیں تھے ۔۔اس لئیے زندگی کے سفر کو جاری نہیں رکھ سکے اور ایک دوسرے کے لئیے بے زبان بن گئے ۔۔”
اور کسی بھی رشتے میں بے زبان ہونا اس رشتے کی موت ہوتا ہے ۔۔ جب رشتہ بے موت مر جاۓ تو ساتھ نہیں رہا جا سکتا اس لئیے ہم الگ ہو گئے۔۔ وہ طلاق لے کر امریکہ واپس چلی گئی ۔۔ شاید ہم سب کے جانچنے اور پرکھنے کے طریق الگ الگ ہوتے ہیں ۔۔ اور پھر وقت ثابت کرتا ہے کہ ہماری جانچ کے یہ طریق ہم سے جہاں بہت کچھ چھین لیتے ہیں ۔۔۔وہیں بہت کچھ دے بھی جاتے ہیں ۔۔۔
ارسہ طنزیہ انداز میں مسکرا کر بولی یہ تو سب جانتے تھے کیونکہ جب آپ نے منگنی کی انگوٹھی واپس بھجوائی تھی یہ کہہ کر کہ میری ترجیحات اور ہیں ۔۔ پھر ایک ٹھنڈا سانس بھر کر بولی۔۔ خیر اب ان باتوں سے کیا فائدہ .. آپ کو یہ باتیں تب سوچنا چاہئیے تھیں ۔اب ان باتوں کا وقت گزر چکا ہے ۔۔۔۔ انسان خطا کا پتلا ہے ارسہ غزل ۔ تو ارسہ برملا بولی اب وقت بدل گیا ہے ریحان صاحب زبان والے بے زبان ہو جاتے ہیں ۔اور بے زبان زبان دراز ۔۔۔ارسہ سنو ارسہ غزل وہ جلدی سے بولا ۔ کیا ہم زندگی وہاں سے دوبارا شروع نہیں کر سکتے ۔جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹا تھا ۔۔۔ خاندان بھر میں یہی بات گردش کر رہی ہے کہ رضا کی اچانک موت کے بعد اب تم اکیلی ہو ۔۔ ارسہ فورا بولی نہیں میں بالکل بھی اکیلی نہیں ہوں میرے دو بچے میرے ساتھ ہیں میرا بیٹا ابھی چھوٹا ہے ۔۔۔ یہ کہتے ہوۓ اس کے لہجے میں محبت اور مامتا ابھر آئی ۔۔پھر چاروں طرف ایک طائرانہ نظر ڈال کر کہنے لگا
گھر ببہت پیارا ہے تمہارا ۔۔۔اور پھر مسکرا کر بولا تمہارا بیٹا کہاں ہے ۔۔
ارسہ نے گہری نظر سے اس کی طرف دیکھ کر بولی دونوں بچے سو رہے ہیں ورنہ آپ سے ضرور ملواتی ۔۔۔ تبھی ریحان جیسے اچھنبے سے اور طنزیہ ہولے سے بولا
“مگر تم یہ بات کیوں بھول رہی ہو کہ یہ دونوں بچے ذہنی معذور ہیں ۔۔۔”ارسہ ایکدم سٹپٹا کر اور پھر چلا کر بولی ۔۔۔”دنیا چاہےجو بھی کہے میں جانتی ہوں کہ یہ میرے معصوم بچے مجھے جان سے زیادہ عزیز ہیں ۔”
پاپا کے ڈیپارٹمنٹل اسٹور سے اتنی آمدنی ہو جاتی ہے کہ میں مالی پریشانی میں مبتلا نہیں ہوئی ۔۔اور انہیں احسن طریقے سے سنبھال بھی سکتی ہوں “
اور سنیئے ریحان صاحب ۔۔۔
“یہ جو آپ ہم زبان ہم زبان کی رٹ لگا رہے ہیں ۔”آپ کیا جانیں کہ بے زبانی اور ہم زبانی کیا ہوتی ہے “۔
میں ان بچوں کی اور یہ میرے ہم زبان ہیں ۔۔ “کیونکہ اس دنیا میں میرے سوا انُکی زبان کو کوئی نہیں سمجھ سکتا ۔۔ان کا سائبان میں ہی ہوں ۔۔اور ۔ میں ان سے ان کا ہم زبان اور سائبان چھین کر چین سے جی نہیں پاؤں گی ۔۔ یہ کہتے ہوۓ وہ اکھڑے لہجے میں بولی اب آپ جا سکتے ہیں ریحان ۔۔اللہ حافظ ۔۔ کہتے ہوۓ کمرے کی طرف چل دی جہاں سے حفصہ کے رونے کی آواز آ رہی تھی ۔۔ریحان اسکے چہرے پر پھیلے اجنبیت کے ساۓ دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا تھا پھر بے اختیار اٹھا اور تھکے تھکے قدموں سے چلتا گھر کا خارجی دروازہ کھولُکر باہر نکل گیا ۔۔۔۔ارسہ نے ٹھنڈا سانس بھرا ۔اور خود سے کہنے لگی عورت اپنی تذلیل کبھی نہیں بھولتی ریحان ۔۔ ایک وقت آپ نے مجھے دوسری عورت کےُلئیے ٹھکرا دیا تھا آج میں نے آپُکواپنے بچوں کے لئیے ٹھکرا دیا ۔۔یہ کہہ کر وہ کمرے میں داخل ہوئی جہاں اسکی بیٹیاُسے دیکھ کر زور سے رونے لگی اور ماں کو آتے دیکھ کر اس کی طرف ہُمکتے ہوۓ لپکنے ہوۓ اٹھنے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔۔۔ ارسہ نے جلدی سے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھکر اسے پیار سے تھپتھپاتے ہوۓ اٹھا کر گلے لگا لیا ۔اور ہولے سے کہنے لگی ۔۔ ” چُپ کر جا میری ہم زبان ۔۔ چپ کر جا میری ہم زبان “۔۔۔۔اور یہ ۔ کہتے ہوۓ وہ بیٹی کو چومنے لگی وہ زور زور سے ہنس رہی تھی مگر اس کی پلکوں سے سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گرتے جا رہے تھے ۔۔۔
****
افسانہ نگار: افسانہ نگار . شاز ملک (فرانس)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...