(Last Updated On: )
وہ موسم گرما کی خوشگوار اَبر آلود شام تھی ہلکے ہلکے بادل ہر سُو تیر رہے تھے جب وہ پہلی بار اس فقیر سے ملے۔ یہی کوئی آٹھ دس سال کے لگ بھگ ان کی عمریں تھیں۔ اس کا دوست گاؤں کے نمبردار کا اکلوتا بیٹا تھا۔ لاڈ پیار میں پلنے والا۔
ان دنوں بنجاروں کی ایک ٹولی اکثر گاؤں کے پڑوس میں ڈیرے جماتی‘ دیس بدیس گھومنا‘ نئی دُنیا‘ نئے رنگ‘ اور اس میں بستے لوگوں سے ملن۔۔۔ یوں جب بھی اس بستی کے باہر ان کا پڑاؤ جمتا کیا بچے کیا بوڑھے ٹوٹ پڑتے۔ مختلف قسم کے شعبدے‘ بازی گری‘ پنگھوڑے اور سب سے بڑھ کر چند پَل کی بے فِکر زندگی دُور دُور سے لوگوں کو اس اور کھینچ لاتی۔۔۔ یہاں عجیب و غریب اور انوکھی خبریں‘ ایجادات ان کا انتظار کر رہی ہوتیں۔ مختلف قصّے کہانیاں سناتے ہوئے وہ سب‘ ہر چیز سے بے نیاز‘ لوگوں کو خوش کرنے میں جتے رہتے۔۔۔
اسی بنجاروں کی ٹولی سے وہ فقیر تعلق رکھتا تھا۔ سَر سے پاؤں تک گرد سے اَٹا ہوا عجیب آدمی جس کی گردن مختلف رنگ کے منکوں‘ موتیوں‘ کوڈیوں اور لوہے کی زنجیروں کے بوجھ سے جھکی ہوئی ہوتی۔ اس روز بھی گزشتہ دنوں کی مانند گاؤں کے بوڑھوں‘ جوانوں میں گھرا ہوا وہ کہہ رہا تھا۔
”ایک پُشت آتی ہے دوسری جاتی ہے۔ آفتاب طلوع ہوتا ہے‘ غروب ہوتا ہے پھر وہ اپنی اسی جگہ ہانپ ہانپ کر جاتا ہے جہاں سے نکلا تھا۔ انسان کو اس ساری مشقت سے کیا فائدہ جو وہ سورج کے نیچے کرتا ہے ماسوائے اُس کے‘ جان جائے کہ مجازی کا وجود نہیں اور حقیقت کو فنا نہیں۔ اس کی راہ میں کانٹے اور پھندے ہیں ہر جو راست ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے وہ ان سے دور رہتا ہے اور باقی اندھے کنویں کے پاس گھاس چرتے جانور۔ حکمت کی معرفت ان کے لیے ہے جن کی رُوحیں روشن ہوں۔۔۔ ابھی یہ جملے اس کی زبان پر ہی تھے کہ اچانک وہ اپنے کلام کو درمیاں میں ہی چھوڑ کر اپنی چمکیلی اور خوفناک آنکھوں سے انہیں گھورنے لگا تھا۔ اس پر تو اس نے سرسری نظر ڈالی تھی لیکن اس کی نگاہیں اس کے دوست پر ٹک گئی تھیں جو اپنی جانب اس کو مسلسل یوں گھورتے دیکھ کر خود کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔۔ ”بابا۔۔۔ جو کوئی زندگی کا مشتاق ہو۔ نیک ایام جس کے منتظر ہوں جس کی منزلیں متعین ہوں‘ کون کافر اس کو نظرانداز کر سکتا ہے۔۔۔ سامنے آ۔۔۔ ڈر مت۔۔۔ بابا۔۔۔“ اور وہ سامنے چلا آیا تھا۔۔۔ ڈرا ڈرا‘ سہما ہوا۔۔۔
”پیشانی پر چمکتا روشن ستارہ۔۔۔ حق نور والے۔۔۔ حق نورو نور۔۔۔
تو راج کرے گا۔۔۔ رے۔۔۔ بھلے نصیب والے تو راج کرے گا۔
بس تو تین تک جائے گا بابا۔۔۔ یہ سب کرم کے سودے ہیں۔ کس کا کرم کس کے کام آئے کون جانے۔
بابا۔۔۔ دُنیا دیکھے گی۔۔۔“
اور یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے گلے میں لٹکی مالا سے ایک سمندری سیپی جسے گاؤں والے کوڈی کے نام سے جانتے تھے نکال کر اسے دی تاکہ وہ نظرِبد سے بچا رہے اور اپنے نصیبوں کو پا لے۔
یوں اس لمحے یہ سب سنتے ہوئے وہاں موجود سبھی افراد نے عجیب سی بے چینی محسوس کی تھی۔ خاص کر اس کی گفتگو کے آخری جملے ذومعنی تھے۔ ان کے پیچھے کیا اسرار پنہاں تھا کسی نے نہ محسوس کیا۔ اس طرح وہ کوڈی اس کے گلے کا ہار بن گئی۔ یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔۔۔ جو ان کے شعور پر گہرے اثرات چھوڑ کر مٹ گئی۔۔۔ دوسری بار تقریبًا سات آٹھ سال کے عرصہ کے بعد دوبارہ ان بنجاروں کا اس گاؤں کے قریب سے گزر ہوا اور انہوں نے پہلے کی طرح چند دِنوں کے لیے وہاں پڑاؤ کیا۔ اسی روز اتفاق سے چوہدری کے بیٹے کا عقیقہ تھا۔ پوری حویلی میں مہمانوں کی چہل پہل تھی جب اس نے در پر صدا اُٹھائی تو دونوں پھر اس کے سامنے تھے۔ وہ اور چوہدری کا بیٹا مدت پہلے کی مانند اس روز پھر چوہدری کے بیٹے کو دیکھ کر وہ چونک سا گیا تھا اور پھر چلا اُٹھا تھا۔۔۔
”اے بھلے نصیب والے! تیری پیشانی پہلے سے بھی روشن ہے۔۔۔ بہت روشن تو دِلوں پر راج کر کے رہے گا۔ بابا۔۔۔ پر سُن اپنے قلب کی جانب توجہ دے بابا۔ جس میں اَزل سے ابدیت تجھے پکار رہی ہے۔ تو غفلت کی بنیاد پر جس چیز کو نہیں کرنا چاہتا اپنے فطری فرائض کی چاہت سے مجبور ہو کر تجھے چار و نچار اسے کرنا ہو گا اور وہ دن دُور نہیں جب تیری قسمت کا ستارہ چمک اُٹھے گا۔۔۔“
باپ نے بے انتہا خوشی کے ساتھ فقیر کو دل کھول کر خیرات کی اور اپنے بیٹے کے روشن‘ سنہری مستقبل پر خوش ہوا۔ دوسری بار پھر اس بنجارے فقیر نے اپنی مالا سے ایک اور کوڈی اُتار کر اسے دی اور چلتا بنا۔ اسی دوران وہ دونوں دوست جوان ہو گئے اور انہی دنوں اس کے دوست کے اَندر محبّت کی چاہت نے سَر اٹھانا شروع کیا۔۔۔ اِک دن بھلے نصیب والے نے چپکے سے اس کے کان میں اپنی خواہش اُتار دی۔
”اے اس سے۔۔۔ بندریا سے۔۔۔ جو اکثر کھجور جامن جیسے اُونچے درختوں کی چوٹیوں پر پائی جاتی ہے۔۔۔ اس سے محبّت کرے گا۔ گھر والے کبھی مانیں گے۔۔۔ کبھی نہیں۔۔۔ ایک مجاور کی بیٹی سے پیار۔۔۔ تو دُکھ اُٹھائے گا رے۔۔۔ مجاور کی بیٹی چوہدری کے گھر کی زینت بنے یہ نہ کبھی سنا نہ ہوا۔۔۔“ پر وہ نہ مانا۔۔۔
اس نے اس کا مشورہ ٹھکرا دیا اور بندریا کی جانب جھک گیا۔ اب وہ دونوں اکثر اکٹھے اُونچے اُونچے درختوں کی پھلدار چوٹیاں سر کرتے اور کچے پکے پھل اُتار کر کھاتے نظر آتے۔
انہی دِنوں تیسری بار بنجاروں نے ان کے پڑوس میں ڈیرا جمایا۔۔۔ اور اس بار ان کی آمد کا سن کر وہ اسے ساتھ لے کر خود اس سنیاسی بابا کو ڈھونڈنے نکلا۔۔۔ پھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر آخر وہ اس تک پہنچ ہی گئے۔ انہیں دیکھ کر ایک عجیب سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر تیر گئی اور وہ ان کی باتیں سن کر اس کے دوست سے بولا۔
”چلے آئے ناں۔۔۔ مجھے پتا تھا تو آئے گا۔۔۔ ضرور آئے گا۔ تیرا وقت قریب ہے۔ تو جو چاہتا ہے مَیں نے سنا۔ پر بابا جو خوشیاں تعلقات سے پیدا ہوتی ہیں وہ رنج کا پیش خیمہ ہیں ان کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی‘ عقلمند کبھی ان سے مسرور نہیں ہوتا‘ ناری تو کیچڑ بھرا گھڑا ہے اور اس میں وہی گرتا ہے جس کا مرشد اس سے ناراض ہو۔ تجھے کہیں اور جانا ہے اور تو کہیں اور کی خواہش لیے بیٹھا ہے۔ لے تیسری اور آخری بھی لے۔۔۔ اور جا تو وہ سب پائے گا جو تیرے نصیب میں ہے۔ اب کے شائد مدتوں نہ مل پائیں۔۔۔ یہی حکم ہے۔۔۔ بابا۔ حق نور والے۔۔۔ حق نُورو نُور“ اور اس نے اس تیسری کوڈی کو بھی پہلی دو کے ساتھ گلے میں لٹکا لیا تھا۔ اس روز اسے تیسری کوڈی کھٹکنے لگی۔ اس کے جی میں آیا کہ وہ اپنے دوست سے کہے کہ وہ اس تیسری کوڈی کو فقیر بابا سے نہ لے۔ پر وہ کیا کرتا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا دوست محبّت کے جس راستے پر گامزن ہے وہاں انکار کہاں اور اس نے یہ سوچتے ہوئے چپ سادھ لی تھی۔۔۔ پھر وقت کتنی تیزی سے بیت گیا تھا اور آج مدت بعد وہ فقیر بابا پھر اس کے سامنے کھڑا اس کے دوست کی بابت پوچھ رہا تھا۔ بوڑھا اور نحیف‘ اس کی کمر جھک چکی تھی‘ آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔۔۔ لیکن اشتیاق سے اس پَل اس کی چندھیائی آنکھیں چمک رہی تھیں اور وہ اسے دیکھ کر کہہ اُٹھا۔۔۔
”کیا خبر ہے۔۔۔ بابا۔۔۔
کہاں ہے نصیب والا تیرا دوست۔۔۔ بھلے نصیب والا“۔۔۔
بندریا کا محبوب۔۔۔ کیسے گزار رہا ہے زندگی اپنی۔۔۔ بھلی۔۔۔ منزل مل گئی اسے۔۔۔ اس کی بے چین رُوح کو۔۔۔“
اور اس نے اپنی نمدار آنکھوں کو جن میں افسردگی کی گہری جھلک تھی چپکے سے جھکاتے ہوئے آہستہ سے جواب دیا تھا۔۔۔
”بہت اچھی۔۔۔ بھلی۔۔۔ بہت نصیب والی۔ بابا۔“
اور ایسا کہتے ہوئے وہ اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو پینے کی ناکام کوشش کرنے لگا تھا۔۔۔ ”اے کیا ہوا۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔“ بوڑھا بے قراری سے بولا تھا۔
”آپ نے ٹھیک ہی کہا تھا بابا۔ آپ نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔۔۔ پر کس قدر عجیب و غریب کہ وہ روشن پیشانی والا راج کرے گا۔۔۔ اور واقعہ ہی وہ آج لوگوں کے دِلوں پر راج کرتا ہے۔۔۔ بابے چنگے کے حجرے میں بے برگ و بار درخت کی مانند‘ یک و تنہا مدت سے بند پڑا۔۔۔“ یہاں تک کہہ کر اس کی زبان لڑکھڑا گئی تھی اور پھر وہ رونے لگا تھا۔۔۔
”اے روتے کیوں ہو بابا۔۔۔ بری بات ہے۔۔۔ کیوں روتے ہو تم۔۔۔ کون کہتا ہی کہ وہ یک و تنہا ہے۔ بے برگ و بار سوکھے درخت کی مانند۔۔۔ بابا وہ کسی کے زیرِسایہ پَل رہا ہے۔ اس کے سوکھے وجود سے کسی بھی پَل سبز کونپلیں پھوٹنے کو ہیں۔ وہ تکمیلِ ذات میں سرگرم ہے۔۔۔ یہ تو سب کرم کے سودے ہیں بابا۔ کس کا کرم کس کے کام آیا کون جانے۔ دیکھ میں دربدر بھٹک کر ساری حیاتی اس گوہر نایاب کے ذرہ بھر کو بھی نہ پا سکا جو اس نے پَل بھر میں پا لیا۔ یہ سب اس کے نصیب تھے بابا“ اسی وقت دُور بنجاروں کے ڈیرے سے کسی کے گانے کی لَے اُٹھی جو دُور دُور تک ہَواؤں کو چیر رہی تھی۔
فقیرا فقیری دُور ہے
جتنی اُونچی کھجور ہے
چڑھ جاؤ تو نور و نور ہے
گِر جاؤ تو چکنا چور ہے
پھر اس نے ایک نعرہ بلند کیا ”حق نور والے۔۔۔ حق نور و نور“ اور بولا کہاں ملے گا بھلے نصیب والا۔۔۔ بندریا کا محبوب۔۔۔“
”وہ پیچھے۔۔۔ اس نے بابے چنگے کے مزار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے گردن جھکا دی۔۔۔ وہاں مدت سے۔۔۔ اس وقت سے جب سے بندریا اس علاقے کی سب سے بلند کھجور سے نیچے کود گئی تھی“ اس لمحے اس کی اُنگلیوں کی سیدھ میں بندریا کی قبر گہری کُہر میں ڈوبی بے سُدھ پڑی انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔