خدا معلوم اس بار دونوں ملکوں کی آرمی قیادت اپنے فوجی واپس بلائے گی یا نہیں لیکن دو سال قبل جنگ کے آثار ٹلنے کے بعد اس علاقے میں فوجی بیرکیں تو قائم تھیں لیکن دونوں ملکوں کی آرمی قیادت نے اپنے فوجی جوان واپس بلا لئے تھے۔ یوں بھی یہ ایک غیر اہم بارڈر تھا اور یہاں دونوں طرف دو کمروں کی ایک ایک چھوٹی سی بیرک میں آٹھ سے دس فوجی تعینات ہوتے تھے ان کا کام باڑ کے ساتھ بنے اونچے ٹاور پر رات کا پہرہ دینا تھا ہر چھ گھنٹے بعد یہاں پر پہرہ دینے والا جوان تبدیل ہو جاتا تھا یہاں سالہا سال کسی قسم کی عسکری نقل و حرکت نہیں ہوتی اور یہ بیرکیں کھنڈر کا نقشہ پیش کر رہی تھیں۔ ٹاور، جو بمشکل بارہ فٹ اونچا تھا، میں سامنے کی کھڑکی کی طرف ریت کی بوریاں جوڑ کر مورچے کی شکل بنا دی گئی تھی ۔ لکڑی کی ایک شکستہ میز اور ایک کرسی، جس کی ٹیک لگانے کا تختہ ٹوٹا ہوا تھا، ٹاور کے چار فٹ بائی چار فٹ کمرے میں پڑے رہتے تھے۔ ٹاور پر پہرہ دینے والا فوجی جوان کھڑے کھڑے تھک جاتا تو وہ کچھ دیر کے لئے کرسی پر بیٹھ جاتا اور وقفے وقفے سے ہاتھ میں پکڑی دور بین سے بارڈر کی دوسری طرف کا جائزہ لیتا رہتا تھا ۔ بارڈر کے اِس طرف بھی یہی ماحول تھا دور دور تک انسانی زندگی کا کوئی نشان نہ تھا دونوں طرف کے رہائشی گاؤں اس بارڈر سے خاصے دور تھے۔ یہ علاقہ کسی جنگ زدہ ماحول کا نقشہ بھی پیش نہیں کرتا تھا کیونکہ یہاں کسی قسم کی فوجی مداخلت نہیں ہوئی تھی ۔ بارڈر کے درمیان ایک آہنی جالی کی خار دار باڑ میلوں تک بچھی ہوئی تھی اخباری کاغذ، نائلون کے خالی شاپرز، تنکے، کپڑوں کی دھجیاں، حیض کے استعمال شدہ پیڈ، کتب و رسائل کے اوراق، پھٹی ہوئی پتنگیں اور اُن کے الجھے ہوئے دھاگے وغیرہ باڑ کی آہنی جالیوں سے چمٹے رہتے ۔ پہلے پہل بارڈر کے اُس پار سُرمئی بلیوں کا ایک خاندان باڑ کے قریب آباد ہوا انہوں نے باڑ سے دو سو میٹر پیچھے دو کمروں کی ویران بیرکوں کو اپنا ٹھکانہ بنایا یہ گھرانہ چھ بلیوں پر مشتمل تھا چار بلیاں جو اِن میں کم عمر دکھائی دیتی تھیں، دن بھر باڑ کے قریب پرانے تختوں اور ٹوٹے پھوٹے فرنیچر اور باڑ کے ساتھ جمع شدہ کچرے کے ڈھیروں پر کھیلتی رہتیں کچھ عرصہ بعد باڑ کے اِس طرف بھی چار بلیوں پر مشتمل ایک گھرانہ آباد ہوا، انہیں شاید اپنے ہم جنسوں کی بو اس طرف کھینچ لائی تھی۔ اِن کے بال بھورے تھے جن میں کہیں کہیں سفید دھاریاں نظر آتی تھیں ۔
سیم و تھور زدہ زمین سے ذرا ہٹ کر دو ایکٹر کے قریب ایک جوہڑ، جس میں اکثر پچھلی بارشوں کا کائی زدہ پانی کھڑا رہتا تھا جو اگرچہ کہ بارڈر کے اُس پار کی زمینوں کا حصہ تھا لیکن یہ اِن دونوں خاندانوں کے پینے کے لئے کافی تھا ۔ باڑ کی آہنی خار دار جالی زمینی سطح کے قریب دو جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی جس سے یہ بلیاں دن میں کئی بار کسی راہداری کے پروانے اور اس پر کسی مہر یا افسر کے دستخط کے بغیر آسانی سے بارڈر کراس کر کے ایک دوسری طرف آجایا کرتی تھیں ۔ علاقے میں رات کے وقت اکثر جنگلی کتے، بھیڑئیے، سانپ، لومڑیاں، چوہے اور نیولے وغیرہ اپنے اپنے شکار کو نکلتے تھے کبھی کبھی اماوس کی رات کو سور بھی اس طرف آجاتے تھے۔ یہ شکار عموماً بارڈر کے اِس طرف ہوتے تھے صبح ہوتی تو باڑ کے اِس طرف انہی مردہ جانوروں کی اِکا دُکا لاشیں نظر آتی تھیں جن کے پیٹ چاک ہوتے تھے دونوں طرف کی بلیاں انہی کی آلائشوں، آنتڑیوں سے پیٹ بھرتیں۔ یوں اِن دونوں خاندانوں کا نظامِ زندگی چل رہا تھا۔
گذشتہ سال کی تیز بارشوں میں بھی یہ خاندان یہیں تھے بارش ہوتی تو یہ سب شکستہ بیرکوں کے اُجاڑ کمروں میں چلے جاتے ، خود کو ریت کی پھٹی ہوئی پرانی بوریوں اور کپڑوں کی کترنوں اور کاٹھ کباڑ میں چھپا لیتے ۔ گرمیوں کی ایک شدید دوپہر اس علاقے میں اس قدر تُند ریتیلی ہوائیں چلنے لگیں جس نے سارا نظام درھم برہم کر دیا کچھ گھنٹوں کے لئے یہ دونوں گھرانے علاقے میں بکھر گئے لیکن شام ہوتے ہی جب طوفانی ہوائیں رکیں تو یہ اپنی اپنی چھتوں کے نیچے پہنچ گئے ۔ بلیوں کے یہ دونوں خاندان انسانی نظامِ زندگی سے الگ تھلگ اپنی دنیا بسائے ہوئے تھے اور انہیں انسانی عدم موجودگی کا احساس تک نہ تھا ۔ ایک دوپہر ہوا کے تیز جھکڑوں سے بارڈر کے اُس پار دور کی آبادی سےایک نائلون کی پرانی رنگین بال اِس طرف آگئی یہ گویا اِن کے بچوں کے لئے عید کا دن تھا شام تک تین چار کھلاڑی اس بال سے لطف اندوز ہوتے رہے بال کو ناک پر اُٹھا لیتے اور کبھی اپنے چھوٹے بازوؤں میں بھر کر دوڑ پڑتے اِس کھیل کے دوران بھی یہ کئی بار بارڈر کراس کرتے رہتے سورج غروب ہوتا تو بال کو وہیں چھوڑ کر سب اپنے اپنے مورچوں میں چلے جاتے ۔ یہ بال اس علاقے کی رونق تھی گھر کے بڑے آس پاس اپنا کھانا تلاش کرنے نکلتے تو یہ کھلاڑی دن بھر اسی بال سے کھیلتے رہتے ۔ ایک شام تو اِن کے کھلونوں میں لکڑی کے ایک خستہ کڑے کا بھی اضافہ ہوگیا جو کسی زمانے میں غالباً کسی فرنیچر کا حصہ رہا ہوگا ۔ یہ کڑا کبھی کبھی کسی کھلاڑی کی گردن کے گرد یا ٹانگوں میں لپٹ جاتا تو اُس سے آزاد ہونے کا منظر بڑا دلچسپ ہوتا ۔ ایک بار یہ کڑا بارڈر کے اُس پار کھلاڑی کے سر سے گزر کر اس کی گردن میں ایسا فِٹ بیٹھا کہ پھر نہ نکلا وہ اسی کڑے کے ساتھ کئی دن گزار چکا تھا آخر ایک روز باڑ کے ساتھ پڑے تختے پر چھلانگ لگاتے ہوئے وہ کڑا دو ٹکڑے ہوا تو اُس کی جان چھوٹی۔ کسی شام ان کھلاڑیوں کی نفری کم ہوتی تو گھر کا سربراہ اپنا ممبر تلاش کرنے نکل جاتا جو عموماً لکڑی کے تختوں یا دیگر کاٹھ کباڑ کے اندر بیٹھا ہوا مل جاتا ۔ باڑ کے دونوں طرف چمٹے اور زمین پر بکھرے ردی کاغذ، کھاس پھوس، تنکے، پلاسٹک کے شاپرز، کاغذ کے لفافےاور پرانے کپڑوں کی دھجیاں اپنے رنگوں اور سلائی سے دونوں سماجی تہذیبوں کا پتا دیتی تھیں جو اگرچہ کہ یکساں تھیں لیکن کہیں کہیں ان میں فرق نمایاں ہوتا تھا ۔ پچھلی گرمیوں میں جب پہلی بار بارڈر کے اِس طرف کے ایک بلے نے بارڈر پار کر کے اُس طرف کی سُرمئی بالوں والی بلی سے کھیلنا شروع کیا تو ٹھیک چونسٹھ دن بعد بارڈر کے اُس پار کے گھرانے میں چار ننھے مہمانوں کا اور اضافہ ہوگیا یہ چاروں بھی سَرمئی رنگ کے تھے لیکن اِن میں کہیں کہیں بھورے رنگ کی دھاریاں نمایاں ہوتی تھیں یہ چاروں نئے مہمان پہلے تو چند روز بیرکوں کے کمروں میں ریت کی بوریوں کے نیچے دُبکے پڑے رہتے لیکن تین ہفتوں بعد یہ چاروں سارا سارا دن بارڈر کے اِس طرف کے اُس بلے کے ساتھ کھیلتے رہتے جو پچھلی گرمیوں میں پہلی بار بارڈر کراس کر کے اُس پار گیا تھا۔ شام ڈھلتے ہی یہ چاروں مہمان بارڈر کے اُس پار بھاگ جاتے۔
گرمیوں کی ایک صبح جب دونوں گھرانوں کی بلیاں کھیل کود اور طعام و قیلولہ سے فارغ ہوکر روزانہ کے مٹر گشت پر کافی دور نکل گئیں تو اُس پار کی خستہ اور ویران بیرکوں کے پاس ایک فوجی جیپ آکر رکی، فوجی وردی میں ملبوس چار جوان تیزی سے کمروں میں چلے گئے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان پانی کا تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا جس سے کشیدگی اتنی بڑھ گئی تھی کہ جنگ کا امکان پیدا ہورہا تھا ۔ فعال سرحدوں پر فوج کی نقل وحرکت بڑھائی جارہی تھی ، نئی چوکیاں تعمیر کرنے کے احکامات مل رہے تھے ، غیر آباد بیرکوں کی صفائیاں شروع ہو گئی تھیں ۔ یہ چاروں جوان اپنا سامان اُتار کر واپس روانہ ہوگئے تھے چند گھنٹوں بعد یہ فوجی اپنے مذید ساز و سامان کے ساتھ دوبارہ کمروں میں آگئے گرمیوں کی وجہ سے اُن دنوں بلیوں کے دونوں گھرانے باڑ کے ساتھ ساتھ بکھرے کچرے کے ڈھیروں پر ہی رات بسر کرتے اور دن بھر اسی جگہ وقت گزارتے انہیں احساس تک نہ ہوا کہ ان کے کمرے مقبوضہ ہو چکے ہیں ۔ اُس پار کے فوجی جوان شام کو کھانے سے فارغ ہوئے تو دور سے ایک فوجی کی نظر بلیوں کے اس گروہ پر پڑی اسے اس غیر آباد علاقے میں بلیوں کی موجودگی پر حیرت ہوئی اُس نے بچے ہوئے کھانے سے ہڈیاں اور بچا ہوا گوشت ایک پلیٹ میں جمع کیا اور جب بلیاں کچھ دیر کے لئے نظروں سے اوجھل ہوئیں تو اس جوان نے چُپ چاپ پلیٹ میں جمع شدہ کھانا باڑ کے ساتھ بچھے ایک دیمک زدہ تختے پر پھینک دیا ۔ کچھ ہی دیر بعد جب بلیوں کی واپسی ہوئی تو وہ اُس کھانے کے گرد جمع ہوگئیں، کھانا سُونگھا تو ایک طویل عرصہ بعد انہیں انسانی ہاتھ کی بو محسوس ہوئی، وہ سب کھانے کے گرد اطمینان سے بیٹھ گئیں ۔ علاقے کے چاروں طرف رات کا سناٹا تھا، ہوا رکی ہوئی تھی دور بیرکوں میں ایک مدھم زرد روشنی کا بلب روشن تھا۔ رات ڈوب رہی تھی ۔
اگلی صبح سورج کی کرنیں پھوٹیں اور باڑ کے دونوں طرف مشرق کی صبح نے اپنے نور کی چادر بچھائی تو سب کچھ حسبِ معمول تھا، فوجی جوان اپنے کمروں کی صفائی میں مصروف تھے ۔ چوبی تختے، نائلون کے خالی شاپرز، اخباری کاغذ، تنکے، پھٹی ہوئی پتنگیں اور اُن کی الجھی ہوئی ڈور باڑ کی خار دار تاروں کے ساتھ بکھرے پڑے تھے ۔ سیم و تھور کی زمین سے کچھ آگے دو ایکٹر کے جوہڑ پر کائی زدہ پانی ساکت کھڑا تھا جس کے آخری کنارے پر ایک آبی پرندے کی لاش تیر رہی تھی۔ ایک جنگلی کتے کی پیٹ چاک زدہ لاش، جس کی آلائشیں رات اُس سے کسی طاقتور جانور نے کھا لی تھیں، بارڈر کے اِس طرف پڑی تھی، باڑ کے ساتھ بچھے ہوئے تختے پر اُس طرف کے فوجی جوان کا رات کا پھینکا ہوا کھانا بھی اسی حالت میں پڑا تھا اسے کسی بلی نے مُنہ تک نہیں لگایا تھا ۔علاقے کی زمینی رنگت ، موسم کی ہوا کے ٹکرانے سے آہنی باڑ سے اُٹھنے والی پُراسرار آواز، دور دور تک بکھری ہوئی ریت،جانوروں کی گلی سڑی لاشیں اور اُن سے اٹھنے والا تعفن، سب کچھ حسبِ معمول تھا حتی کہ نائلون کی رنگین بال اور لکڑی کا ٹوٹا ہوا کڑا بھی کل شام کھلاڑیوں نے جہاں چھوڑا تھا وہیں پڑے تھے البتہ بلیوں کے دونوں خاندان وہاں موجود نہیں تھے ۔ اور یہ خاندان پھر کبھی کہیں نظر نہیں آئے ۔
خدا معلوم اِس بار دونوں ملکوں کی آرمی قیادت اپنے فوجی واپس بلائے گی یا نہیں ۔